Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.21K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding availing the #black_Friday's sale - Various 'Ulamaa

#بلیک_فرائیڈے کے نام سے ہونے والی رعایتوں سے فائدہ اٹھانے کا حکم

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/black_friday_discounts_avail_karne_ka_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: احسن اللہ الیکم یہ چھٹا سوال ہے ، سائل کہتا ہے ہمارے یہاں امریکہ میں ایک دن کو بلیک فرائیڈے کہا جاتا ہے (اللہ المستعان) اور یہ جمعہ کافروں کے ایک بہت بڑے تہوار کے بعد آتا ہے جسے thanksgiving کہا جاتا ہے، مختصر تاریخ شیخ اس کی یہ ہے کہ جب یورپ سے آنے والے امریکہ میں نئے آئے تھے تو ان کا استقبال جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہيں ریڈ انڈین لوگوں نے کیا، جو کہ امریکہ کہ اصل باسی تھے۔ان کا استقبال کیا اور معاونت کی وغیرہ، تو انہوں نے یہ تہوار منانا شروع کردیا، لیکن جو جمعہ اس کے بعد آتا ہے اسے یہ لوگ بلیک فرائیڈے کہتے ہيں (نسأل الله العافية) لہذا اس دن بڑے بڑے بازار و مارکیٹ اپنی اشیاء نہایت ہی سستے داموں پیش کرتی ہیں، اور مارکیٹ کے دروازے بہت سویرے کھولتے ہيں یہاں تک کہ فجر سے بھی پہلے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسلمانوں کے لیے ان رعایتوں (ڈسکاؤنٹس) کا فائدہ اٹھانا جائز ہے؟ یا شیخ، یہ بات بھی علم میں رہے کہ اس دن بہت ہی زیادہ رش ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شدید دھکم پیل ہوتی ہے ، اور لوگ اپنے آپ کو خطرے تک کی نظر کردیتے ہیں؟

جواب از محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ:

اس میں کوئی مانع نہیں کہ مسلمان ان بازاروں سے استفادہ کریں جنہيں کفار لگاتے اور منعقد کرتے ہیں، اور ان رعایتوں سے فائدہ اٹھائيں جو کفار دیتے ہيں، اس شرط کے ساتھ کہ یہ بازار یا رعایتیں ان کے کسی دینی شعار سے مربوط نہ ہوں، یعنی یہ سرگرمیاں ان کے مظاہر عبادت، مظاہر دین یا دینی تہوار سے مربوط نہ ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لیے یقینا ًجائز نہيں کہ وہ کافروں کے دینی تہوار میں شرکت کرے۔

البتہ وہ عادی امور ہیں جو وہ کرتے ہیں اگر ایک مسلمان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے بنا ان میں پائے جانے والے خلاف شرع امور یا ان کے خصائص میں مشارکت کیے، تو ا ن شاء اللہ اس صورت میں کوئی حرج نہیں، اور اس میں کوئی مانع نہيں۔

کیونکہ عرب جاہلیت میں مخصوص بازار لگایا کرتے تھے سوق ذي المجان، سوق عكاظ وغیرہ، اور لوگ ان بازاروں سے استفادہ کیا کرتے تھے، لیکن یہ ثابت نہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہيں ان بازاروں سے منع کیا ہوجسے کفار منعقد کرتے تھے، جب تک وہ ان کے دینی شعائر سے مربوط نہ ہوں۔

پھر جو بات بھائی نے ذکر کی اس سوال میں کہ اس قسم کے اجتماع میں یا ان بازاروں میں جانے سے لازماً شدید رش اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور خدشہ ہوتا ہے اس شخص پر جو اس میں شریک ہو اور داخل ہو ان بازاروں میں کہ وہ اپنے آپ کو خطرے کی نظر کرتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں: اگر جو بات سوال میں ذکر ہوئی اس کے تعلق سے غالب ظن متحقق ہو کہ وہ اگر داخل ہوگا تو خدشہ ہے خطرے میں پڑنے کا جیسے بہت ہی زیادہ رش ہو، جس کی وجہ سے ایک مسلمان شرعی مخالفات میں مبتلا ہوجائے ، تو میں یہی کہوں گا کہ ایک عام شرعی قاعدہ ہے (جیسا کہ حدیث ہے):

”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ “([1])

(نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ، اور نہ ضرر اٹھاؤ)۔

اور ایک دوسرا قاعدہ ہےجو کہتا ہے سد ذرائع ہونا چاہیے۔لہذا اگر ایک مسلمان کو خدشہ ہو کہ ان بازاروں اور رعایتوں میں مشارکت کرنے سے وہ کسی حرام میں مبتلا ہوجائے گا ، تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو چھوڑ دے، حالانکہ اس بارے میں اصل یہی ہے کہ اگر یہ ان کے دینی شعائر سے مربوط نہ ہو، تو اصل یہی ہے کہ یہ مباح ہے۔لیکن اس خدشے اور ڈر سے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہوجائیں ۔۔۔ تو چاہیے کہ ان سے پرہیز کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ “

(نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ، اور نہ ضرر اٹھاؤ)۔

اور سد ذرائع کا قاعدہ ایک مقرر ہ شرعی قاعدہ ہےعلماء سلف کے نزدیک۔ واللہ المستعان۔

(نومبر، 2015ع ٹیلی لنک کے ذریعے کیا گیا سوال، مسجد التوحید، اسٹون ماؤنٹین، جورجیا، امریکہ)

سوال: میں ایک تاجر ہوں اور (نصاریٰ کے تہوار) thanksgiving کے بعد والا دن سال کا سب سے مصروف ترین کاروباری دن ہوتا ہے، جسے بلیک فرائیڈے (نسأل الله العافية)کہتے ہيں۔(شیخ مسکرائے!) تو کیا اس روز میں اپنی اشیاء پر خصوصی رعایت وپیشکش دے سکتا ہوں؟ یا پھر یہ کافروں سے مشابہت کہلائے گی؟

جواب از شیخ حسن بن عبدالوہاب البنا حفظہ اللہ:
میرے خیال سے شاید جس وجہ سے یہ لوگ اسے بلیک فرائیڈے (سیاہ جمعہ) کہتے ہوں گے یہ ہوگا کہ تلمود میں جو کہ توراۃ کی تشریح ہے جو کہ احبار کی لکھی ہوئی ہے، اس میں لکھاہے کہ جمعہ کے دن ایک گھڑی ایسی ہے جو کہ منحوس اور بری ہے۔ جبکہ اس کے برعکس رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو فرمایا اس یوم جمعہ کےتعلق سے کہ اس میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کوئی بھی مسلمان اس میں جو دعاء کرے وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔

چناچہ ہمارے پاس دو ممکنات ہیں:

1- بطور تاجر آپ اپنی فروخت کریں دوسری نیت سے اس صورت میں آپ اپنے اردگرد کے تاجروں سے مقابلہ کررہے ہوں گے۔ لیکن اس میں مجھے خدشہ ہے کہ بطور تاجر آپ کو کچھ اعلان لکھ کر اپنے دکان کے قریب رکھنا ہوگا جس میں کچھ یوں لکھا ہوگا کہ یہ بلیک فرائیڈے کسی بھی انسان کی فطرت کے ہی خلا ف ہے! لیکن یہ آپ کو آپ کے گاہکوں یا پڑوسیوں کی طرف سے کسی مصیبت میں پھنسا سکتا ہے۔ اسی لیے آپ اپنی سیل کو کسی دوسری نیت سے کریں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ آپ بلیک فرائیڈے میں شرکت نہیں کررہے۔

2- بہرحال جو بات آپ کے لیے زیادہ بہتر ہے وہ یہ ہے کہ آپ مکمل طور پر اس دن اپنی دکان ہی بند رکھیں، تاکہ لوگوں کو یہ دکھا سکیں یا جو بعد میں دریافت کریں کہ آپ اس اصطلاح بلیک فرائیڈے کا اقرار نہيں کرتے، اور یہ کہ یہ بذات خود ایک غلط بات ہے۔ وہ اس لیے کہ یہ ایک طریقے ہے اسلام اور پیغمبر اسلام پر طعن ہوگا کہ جمعہ کے (مبارک) دن کو بلیک فرائیڈے کہا جائے۔

لہذا اگر آپ اپنی دکان کو اس دن بند کرتے ہيں تو یہ آپ کے لیے بہترین ہوگا، پھر اس کے بعد آپ کسی بھی اور دن اپنی سیل رکھ سکتے ہیں خواہ وہ اس دن سے پہلے ہو یا بعد میں، یہی آپ کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔

سائل نے کہا: یا شیخ! ہمارا ایسا کرنا کہيں یہود کے عمل کے مشابہ تو نہيں ہوجائے گا کہ جب اللہ نے انہيں ہفتے کے دن مچھلی کا شکار کرنے سے منع کیا تو انہوں نے اپنے جال جمعہ کو پھینک کر اتوار کو اٹھا لیے (بطور حیلہ)؟

شیخ: نہيں، اللہ تعالی نے یہود کو حکم دیا تھا کہ ہفتے کے دن مچھلی کا شکار نہ کریں، اسی لیے انہوں نے یہ حیلہ سازی کی پس انہوں نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ لیکن ہمارے معاملے میں تو اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اپنے دین اور اپنے پیغمبراسلام کے لیے کھڑے ہوں۔

خرید وفروخت، تجارت یا کاروبار کا مسئلہ یہاں یکساں نہيں ہے۔ حتیٰ کہ یہاں مصر میں بعض دکانیں جب اپنا موسم گرما کا مال نکالنا چاہتی ہيں تو سیل لگا دیتی ہيں تاکہ وہ آنے والے موسم (سرما) کی تیاری کرسکیں۔

اللہ اعلم۔

(موحدین پبلی کیشنز کے بھائیوں کا شیخ حفظہ اللہ سے بروز بدھ، 23 صفر 1438ھ بمطابق 23 نومبر 2016ع کو کیا گیا سوال)



[1] صحیح ابن ماجہ 1909۔
[#SalafiUrduDawah Article] Requesting #forgiveness from #the_prophet? – Various 'Ulamaa
کیا #نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے #بخشش_کی_دعاء طلب کی جائے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/06/nabi_say_bakhshish_ki_dua_talab_karna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس آیت کے متعلق جو کچھ کہا گیا:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
(اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، آپ کے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش مانگتے تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعض نے اللہ تعالی کے اس فرمان:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
کے متعلق کہا کہ اگر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی وفات کے بعد بھی طلب کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے استغفار کریں تو ہم اسی درجے میں ہوں گے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طلب کرتے تھے۔ حالانکہ اس طرح سے وہ صحابہ کرام اور بطور احسن ان کی اتباع کرنے والوں اور تمام مسلمانوں کے اجماع کے خلاف جاتے ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی طلب نہيں کیا کہ وہ ان کے لیے شفاعت کریں اور نہ ہی کبھی کوئی چیز ان سے طلب کی۔نہ ہی آئمہ مسلمین میں سے کسی نے اسے اپنی کتب میں بیان کیا‘‘([1])۔
اور علامہ ابو الطیب محمد صدیق خان بن حسن بن علی ابن لطف اللہ الحسینی البخاری القِنَّوجي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ آیت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے پر دلالت کرتی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کا یہ مطلب نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر منور کے پاس اس غرض سے آیا جائے۔ اسی لیے اس بعید کے احتمال کی طرف اس امت کے سلف اور آئمہ میں سے کوئی بھی نہيں گیا نہ صحابہ نہ تابعین اور نہ جنہوں نے بطور احسن ان کی اتباع کی([2])۔
3- شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾
یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے جسے اس کا ماقبل ومابعد بھی ظاہر کرتاہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ یہ بات صحیح البخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جب فرمایا کہ ہائے میرا سر! :
’’ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ‘‘([3])
(اگر تو میرے جیتے جی فوت ہوگئی تو میں تمہارے لیے بخشش طلب کروں گا اور دعاء کروں گا )۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد بھی کسی کے لیے بخشش طلب کرتے تو پھر اس میں بات سے کوئی فرق نہيں پڑتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پہلے فوت ہوں یا بعد میں۔اور بعض اہل بدعت تو اس سے بھی بڑھ کر گمان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک قبر سے نکالا اور ان کے کسی پیروکار سے مصافحہ فرمایا! اس بات کے بطلان کو یہی کافی ہےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا جبکہ وہ اس امت کے سب سے افضل ترین لوگ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ‘‘([4])
(میں بروز قیامت تمام اولاد آدم کا سید وسردار ہوں، اور وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس کی قبر شق ہوگی، اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں ، اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی)۔
اور یہ قبر کا پھٹنا مرکر جی اٹھنے کے وقت ہی ہوگا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ﴾ (المؤمنون: 16)
(پھر بےشک تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے)۔
(بطلان قصتي الأعرابي والعتبي عند قبر سيد المرسلين، عبد الرحمن العميسان ص 175-176)
اسی طرح شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان کا تعلق ہے :
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾
تو اس کا مطلب یہ نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس آیا جائے۔بلکہ اس سے مرادہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ کے پاس آیا جائے جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سمجھا تھا۔ اسے میں نے اپنے رسالے ’’أهمية توحيد العبادة‘‘ ص 69 میں واضح کیا ہے اپنے اس قول سے کہ:
’’قبر والوں کی زیارت کی جائے اور ان کے لیے دعاء کی جائے ناکہ ان سے دعاء کی جائے۔ اور اللہ تعالی سے ان کے لیے طلب کیا جائے ناکہ خود ان سے کوئی چیز طلب کی جائے، نہ دعاء، نہ شفاعت، نہ نفع کو طلب کرنے یا ضرر کو دور کرنے کامطالبہ کیا جائے۔کیونکہ یہ تو صرف اور صرف اللہ تعالی سے طلب کیا جانا چاہیے۔ اللہ تعالی اکیلا ہے کہ جس سے دعاء کی جائے اور امیدیں رکھی جائیں، جبکہ اس کے علاوہ جو ہیں ان کے لیے دعاء کی جائے ناکہ ان سے دعاء کی جائے۔ اس کی دلیل یہ ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ آپ سےآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں طلب کرتے کہ وہ ان کے لیے دعاء فرمائيں، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برزخی زندگی میں کبھی ایسا نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی طرف گئے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دعاء کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں قحط سالی ہوئی تھی تو انہوں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو بارش طلب کرنے کی دعاء کے لیے درخواست فرمائی۔ چناچہ امام البخاری نے اپنی صحیح 1010 میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت فرمائی کہ وہ کہتے ہيں کہ :
’’‌‌‌‌‌‏أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ إِذَا قَحَطُوا اسْتَسْقَى بِالْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ:‌‌‌‏ اللَّهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا، ‌‌‌‌‌‏وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ فَيُسْقَوْنَ‘‘
(جب کبھی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں قحط پڑتا تو آپ سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے بارش طلبی کی درخواست کرتے اور فرماتے کہ : اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وسیلہ لایا کرتے تھے۔ تو، تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو، تو ہم پر پانی برسا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ : چنانچہ پھر خوب بارش دیے جاتے)۔
اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی وفات کے بعد دعاء کی درخواست کرنا روا ہوتا تو کبھی بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے چھوڑ کر سیدنا عباس رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ نہ ہوتے۔
(كتاب الإيضاح والتبيين في حكم الاستغاثة بالأموات والغائبين ص 33-34)
[1] مجموع الفتاوی 1/159۔
[2] فتحُ البيان في مقاصد القرآن 3/166۔
[3] صحیح بخاری 5666۔
[4] صحیح مسلم 2279۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Requesting_the_deceased_to_supplicate after their death is Shirk - Shaykh #Saaleh_Aal_Shaykh

#فوت_شدگان_سے_دعاء کی درخواست کرنا شرک ہے

فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ

(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: شرح العقيدة الطحاوية و شرح كشف الشبهات

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/murdo_say_dua_ki_darkhuwast_shirk_hai.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال 1: جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرے کہ اس کے لیے دعاء کریں یا اس کے لیے اللہ سے مغفرت کا سوال کریں، کیا یہ شرک ہے؟

جواب: جی، یہ شرک اکبر ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو موت کے بعد پکارا نہیں جاتا۔ لہذا فوت شدگان سے دعاء کرنا یا ان سے کہنا کہ وہ اللہ تعالی سے دعاء کریں کہ بارش ہو یعنی کہ فوت شدہ اللہ سے دعاء کرے کہ بارش ہو یا آپ کی مغفرت فرمائے یا کچھ عطاء کرے وغیرہ یہ سب دعاء میں داخل ہے لفظ دعاء میں۔ حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:

﴿وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)

(اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو)

جو کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ جو صورت ہے یعنی دعاء کا کسی سے طلب کرنا یہ وہ طلب نہیں ہے کہ جس کو شرک کہا جاتا ہے تو اس طرح کہنے والے شخص نے اس باب میں جو توحید ہے اس کی اصل وبنیاد کو ہی توڑ کر رکھ دیا۔ پس ہر قسم کی انواعِ طلب ، طلبِ دعاء یعنی فوت شدگان سے دعاء طلب کرنا، میت سے مغفرت طلب کرنا یا فوت شدہ سے طلب کرنا کہ وہ اللہ تعالی سے دعاء کرے آپ کی مغفرت کی، یا میت سے فریاد کرنا یا میت سے مدد طلب کرنا وغیرہ یہ سب ایک ہی باب سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ ہے ’’طلب‘‘۔ اور طلب دعاء ہے جو اللہ تعالی کے اس فرمان میں داخل ہے:

﴿وَمَنْ يَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰــهًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ﴾

(المؤمنون: 117)

(اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو پکارے، جس کی کوئی دلیل اس کے پاس نہیں تو اس کا حساب صرف اس کے رب کے پاس ہے۔ بے شک حقیقت یہ ہے کہ کافر فلاح نہیں پائیں گے)

اور اس فرمان میں داخل ہے:

﴿وَّاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)

(اور یہ کہ بلاشبہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو)

اور اس میں بھی:

﴿وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ﴾ (فاطر: 13)

(جنہیں تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے کے مالک نہیں)

اور اس طرح کی دیگر آیات پس تفریق ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے۔

جو کوئی ہمارے بعض آئمہ کے کلام سے یہ سمجھا ہے کہ وہ تفریق کرتے ہیں یا یہ فوت شدگان سے دعاء کا طلب کرنا صرف بدعت ہے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ یہ شرک نہیں ہے۔ بلکہ یہ بدعت ہے مگر شرکیہ بدعت۔ یعنی اہل جاہلیت بالکل ہوبہو ایسا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ وہ ان کا تقرب حاصل کرتے (ان کی عبادت کرکے) پھر اس تقرب کے بدلے میں وہ سمجھتے کہ یہ فوت شدگان ہمارے لیے دعاء کریں گے۔ لیکن براہ راست فوت شدگان سے کہنا کہ میرے لیے دعاء کرو یہ بدعت ہے کہ جو اصلاً موجود نہیں تھی، نہ جاہلیت میں اور نہ مسلمانوں کے یہاں۔ پھر بعد میں یہ لوگوں میں ایجاد ہوئی تو بلاشبہ یہ اس معنی میں بدعت ہے۔ لیکن بدعت میں بھی شرکیہ کفریہ بدعت ہے۔ اور یہ ہے شفاعت کا معنی ، کونسی شفاعت؟ وہ شفاعت کہ جو اگر غیراللہ سے طلب کی جائے تو شرک ہوجائے گا۔ شفاعت کا مطلب ہے دعاء طلب کرنا اور فوت شدگان سے دعاء کرنے کی طلب کرنا یہ شفاعت ہے (یعنی شرکیہ شفاعت کا عقیدہ رکھنے والوں کے یہاں یہ تصور ہے شفاعت کا)۔

مصدر: شرح العقيدة الطحاوية الشريط الثامن الدقيقة 1س26د۔

سوال 2: بعض لوگ دوسرے ملکوں یا شہروں سے سفر کرکے بعض لوگوں کے پاس آتے ہیں جن کے بارے میں ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ اولیاء ہیں تو وہ ان سے طلب کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اللہ تعالی سے دعاء کریں ، اس عمل کا کیا حکم ہے؟
جواب: اگر وہ کسی فوت شدہ کے پاس آتا ہے چاہے کوئی ولی ہو یا نبی وغیرہ اور اس سے طلب کرتا ہے کہ وہ اللہ تعالی سے اس کے لیے دعاء کریں یعنی یوں کہے کہ: یا فلاں اللہ تعالی سے میرے لیے دعاء کیجئے۔ جبکہ جس سے کہہ رہاہے وہ فوت شدہ ہے۔ یہی معنی ہے شفاعت کا یعنی فوت شدگان سے شفاعت طلب کرنے کا یہی معنی ہے یا فوت شدہ سے طلب کرنا کہ میرے لیے اللہ تعالی سے دعاء کرو یہ اس میں شامل ہے۔ لہذا کسی قائل کا فوت شدہ سے یہ کہنا کہ میرے لیے اللہ سے دعاء کرو یا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرے کے باہر جالیوں کے پاس کھڑے ہوکر کہے کہ یارسول اللہ میرے لیے اللہ سے دعاء کریں کہ وہ مجھے یہ کچھ عطاء کرے، اس کا معنی ہے کہ میری مطلوبہ چیز کے حصول کے لیے میرے لیے شفاعت کریں، لہذا یہاں یہ کہنے ’’اللہ سے میرے لیے دعاء کریں‘‘ کا مطلب ہے’’میرے لیے شفاعت کریں‘‘۔ اس کا حکم وہی شفاعت کا حکم ہے جو ہم نے اس کتاب (یعنی کشف الشبہات) میں پڑھا کہ مشرکین غیراللہ کی عبادت صرف شفاعت کے حصول کے لیے کرتے تھے۔ جب وہ فوت شدگان کا تقرب حاصل کرتے تھے تو اس کا آخری واصل مقصود یہی حصول شفاعت تھا کہ جب وہ ان سے کچھ طلب کرتے تو یہ عقیدہ ہوتا کہ یہ ہماری شفاعت کریں گے۔ پس وہ آکر ان کے لیے مختلف موسموں اور مناسبات میں ذبح کرتے منتیں مانتےاس گمان کے ساتھ کہ یہ فوت شدہ یا یہ ولی یا یہ نبی یا یہ جن وغیرہ جانتے ہیں کہ میں ان کا تقرب حاصل کررہا ہوں اور جب کبھی میں اپنی حاجت کے وقت ان سے سوال کروں گا تو وہ براہ راست میری دعاء کو اللہ تعالی تک پہنچا دیں گے اور میرے لیے دعاء کریں گے یا وہ چیز دلادیں گے جو میں نے طلب کی۔ کیونکہ میں ان کا تقرب حاصل کرتا رہاہوں۔ لہذا وہ مشرکین ان کی عبادت نہیں کرتے تھے مگر صرف اس لیے کہ وہ انہیں اللہ کی نزدیکی کا رتبہ دلادیں، نہ ان کے لیے ذبح کرتے، نہ فریاد کرتے، نہ عبادات میں سے یہ اعمال ان کے لیے کرتے مگر صرف اس لیے کہ یہ ان کی شفاعت کریں گے یعنی جو ان سے سوال کرے گا اس کی وہ شفاعت کریں گے۔

چناچہ جو فوت شدگان سے یہ طلب کرتا ہے کہ وہ اس کے لیے دعاء کریں اس کا صاف معنی ہے کہ وہ ان سے طلب کرتا ہے کہ وہ اس کےلیے شفاعت کریں حالانکہ شفاعت اللہ تعالی کے سوا کسی سے طلب کرنا جائز نہیں۔

مصدر: شرح كشف الشبهات الشريط 3 الدقيقة 1س3د۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding dealing with #banks - Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz

#بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے کا شرعی حکم

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ

(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: حكم التعامل مع البنوك۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/banks_k_sath_dealings_sharae_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:ہم اسلامی بینکوں کا سنتے ہیں، کیا یہ موجودہ بینکوں کی ہی طرح ہیں، یا وہ کسی چیز میں ان سے مختلف ہیں، اور ایسے بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اسلامی بینک سودی معاملات سے بچتے ہيں۔ لہذا ان کے ساتھ تعاون کرنا سودی بینکوں کے ساتھ تعاون کرنے کی طرح نہیں، پس اسلامی بینکوں کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئی حرج نہيں، جبکہ سودی بینکوں کے ساتھ ان معاملات میں تعاون کرنے میں حرج ہے جن میں سود ہو، البتہ ایسے معاملات جن میں سود نہ ہو جیسے حوالگی و رقوم کی منتقلی بغیر سود کے اور اس جیسے دیگر معاملات تو اس میں کوئی مضائقہ نہيں۔ لیکن سودیہ معاملات تو بالکل جائز نہيں کسی بھی انسان کے ساتھ خواہ سودی بینک ہوں یا اس کے علاوہ کسی کے ساتھ، بہرحال یہ جائز نہيں۔

اس کی مثال جیسے فکسڈ ڈپازٹ کیا جاتا ہےاور اس پر پرافٹ کے نام سے 5 فیصد یا 10 فیصد منافع دیتے ہیں، یا قرض لیا جاتا ہے 5 فیصد یا 10 فیصدمنافع (سود) لوٹانے کے طور پر یا اس سے کم وبیش جتنا بھی یہ سب سود ہے۔ چاہے یہ سودی بینک کے ساتھ ہو یا اسلامی بینک یا کسی تاجر کے ساتھ یا اس کے علاوہ کسی کے بھی ساتھ۔

پس وہ اسلامی بینک جو اللہ کی شریعت پر چلتے ہیں ان کے ساتھ تعاون کرنا اچھی بات ہے، اس صورت میں ان کی مدد ہوگی کہ وہ اس راہ پر چلتے رہیں، جبکہ سودی بینکوں کے ساتھ تعاون جائز بات نہيں ہے۔ یہی معاملہ بینک کے علاوہ لوگوں کا بھی ہے جیسے تاجرو دیگر افراد، کبھی بھی کسی کے بھی ساتھ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں۔

لیکن جہاں تک معاملہ ہے اسلامی بینکوں کا تو ضروری ہے کہ ہم ان کی حوصلہ افزائی کریں او ران پر توجہ دیں۔ اور جو اسے چلاتے ہيں انہيں بھی چاہیے کہ ہر اس چیز سے بچ کر رہيں جس میں سود ہو اور اس بات کو یقینی بنائیں جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہيں کہ ہم اسلامی بینک ہيں، اور اس بارے میں لاپرواہی وکوتاہی سے پرہیز کریں۔

سائل: سماحۃ الشیخ ! لوگ یہ بات عام کرتے ہیں کہ یہ (اسلامی) بینک بھی ان سودی بینکوں کے ساتھ معاملات کرنے سے بے نیاز نہیں؟

الشیخ: جہاں تک ہم مطلع ہیں اور جو کچھ ان سے ظاہر ہوا ہے کہ وہ اس تعلق سے حرج محسوس کرتے ہیں اور سود سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتے ہيں، لیکن جو ہم پر مخفی ہے تو اللہ تعالی ہی اسے جاننے والا ہے۔ مگر یہ بات بھی ہے کہ اسلامی بینکوں کے دشمنان و مخالفین موجود ہیں جن کی ان کے خلاف باتوں کی تصدیق نہ کی جائے۔ چناچہ ضروری ہے کہ ان (اسلامی بینکوں) کی حوصلہ افزائی کریں او ران پر توجہ دیں ۔ اور جو اسے چلاتے ہیں انہيں بھی چاہیے کہ ہر اس چیز سے بچیں جس میں شبہہ ہو تاکہ ان کے مخالفین کو کوئی موقع ہی نہ ملے ان کے معاملات پر طعن کرنے کا۔

بہرحال جہاں تک بات ہے دیگر بینکوں کے ساتھ سودی معاملات سے ہٹ کر معاملات کرنا جیسے حوالگی وغیرہ؟ تو اس میں کوئی حرج نہیں، اس میں کوئی مضائقہ نہيں، الحمدللہ۔

سائل: سماحۃ الشیخ آپ نے ذکر فرمایا بینکوں سے قرضے لینے کا اور اس پر ملنے والے منافع کو لینے کا، پس کیا اس میں فرق ہوگا اگر وہ قرض سرمایہ کاری کے لیے لیا جائے یا وہ قرض ذاتی استعمال کے لیے لیا جائے؟

الشیخ: اس میں کوئی فرق نہيں۔ اگر سودیہ طریقے سے سرمایہ کاری یا ذاتی استعمال کے لیے قرض لیا ہے تو وہ سود ہی کہلائے گا۔ برابر ہے کہ عنقریب یہ قرض کسی دوسرے کاموں میں بطور سرمایہ کاری لگے یا پھر اپنی ضروریات کے لیے ہو سب کا سب سود ہے، اور سب کا سب ممنوع ہے۔
#SalafiUrduDawah
#nasheed "#tala_al_badru_alayna" ki haqeeqat - shaykh saaleh bin fawzaan #al_fawzaan
#نشید "#طلع_البدر_علینا" کی حقیقت - شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
#SalafiUrduDawah
#رسولوں کو بھیجنے کی حکمت - شیخ محمد بن صالح #العثیمین
#rasoolo ko bhejnay ki hikmat - shaykh muhammad bin saaleh #al_uthaimeen
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding sending #Durood_and_Salaam upon Rasoolullaah (SalAllaho alayhi wa sallam) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر #درود_و_سلام بھیجنے کی مشروعیت کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/rasool_durood_salam_mashroeat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ،آپ کا امت پر ایسا حق ہے جسے خود اللہ تعالیٰ نے مشروع قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَمَلٰۗىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ ۭ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾ (الاحزاب:56)
(بے شک اللہ تعالی اور اس کے فرشتے اس نبی پر درودبھیجتے ہیں ۔ مومنو! تم بھی ان پر درود اور خوب سلام بھیجا کرو)
یہ بھی وارد ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ (درود) کا مطلب ہے فرشتوں کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کرنا اور فرشتوں کے درود بھیجنے کا مطلب ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکے لئے دعا ء کرنااور لوگوں کے درودبھیجنے کا مطلب ہے استغفار کرنا([1])،اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنے پاس ملأ ِاعلی میں قدرومنزلت کی خبر دی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر اپنے قریبی فرشتوں میں فرماتے ہیں اور یہ کہ فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ نے دنیا والوں کو آپ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے تاکہ عالم علوی اور عالم سفلی دونوں کی تعریف آپ کے لئے جمع ہو جائے۔
﴿وَسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا﴾ کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اسلامی سلام بھیجو، لہٰذا کوئی جب آپ پر سلام بھیجنا چاہے تو صلاۃ (درود) وسلام دونوں بھیجے ان میں سے ایک پر اکتفا نہ کرے۔ لہٰذا صرف ’’صلی اللہ علیہ‘‘ نہ کہے اور نہ ہی صرف ’’علیہ السلام‘‘ کہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو ساتھ ساتھ بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ (جیسے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا علیہ الصلاۃ والسلام)۔ آپ ﷺ پر درود بھیجنے کا حکم بہت سی جگہوں پر بطورِ واجب یا سنتِ مؤکدہ بڑی تاکید سےآیا ہے۔
علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’جلاء الافہام‘‘ میں ایسی اکتالیس جگہوں کا تذکرہ کیا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ثابت ہے، اس کی پہلی جگہ جو کہ سب سےاہم و مؤکد ترین بھی ہےوہ آخری تشہد ہے۔ اس موقع پر درود پڑھنے کی مشروعیت کے بارے میں تمام مسلمانوں کا اجماع ہےالبتہ اس کے وجوب کے بارے میں اختلاف ہے([2])۔ انہی جگہوں میں ایک قنوت کے آخر میں، خطبوں میں جیسے خطبۂجمعہ، عیدین و استسقا ء ،اسی طرح سے مؤذن کا جواب دینے کے بعد، دعاء کے وقت ، مسجد میں داخل ہوتے اور نکلتے وقت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاذکر آتے وقت۔ پھر علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے چالیس فائدے گنوائے ہیں([3])۔ انہی فائدوں میں سے کچھ یہ ہیں۔
اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل، اللہ تعالیٰ کی طرف سےدرود بھیجنے والے کے لئے ایک درود پر دس رحمتیں ،دعاء کی قبولیت کی امید جب دعاء سے پہلے درود بھیجا جائے۔ پھر جب درود کے ساتھ وسیلہ(جنت کا بلند درجہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاصل ہوگا) کا سوال کیا جائے تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سفارش کا سبب بنتا ہے، یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے درود کا جواب دیئے جانے کا بھی سبب ہے۔ پس اللہ تعالی درود وسلام بھیجے اس رسولِ کریم پر۔
[1]صحیح بخاری میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: قَالَ أَبُو الْعَالِيَةِ: صَلَاةُ اللَّهِ ثَنَاؤُهُ عَلَيْهِ عِنْدَ الْمَلَائِكَةِ وَصَلَاةُ الْمَلَائِكَةِ الدُّعَاءُ۔
[2]جلاء الأفهام ص222، 223.
[3]جلاء الأفهام 302.
#SalafiUrduDawah
نبئ اسلام پر# درود_و_سلام - امام #ابن_کثیر
nabi e islaam par #durood_o_salaam - imaam #ibn_katheer
[#SalafiUrduDawah Article] The reality of reciting a #Durood to have 80 years of sins forgiven? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
ایک #درود_شریف پڑھنے سے اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی حقیقت؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > الآداب الشرعية > الأخلاق > الأخلاق الحميدة > من الأخلاق الحميدة الذكر > الأذكار المرتبة على الأوقات والحوادث > س: حديث شريف منقول عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول ما معناه: من صلى العصر يوم الجمعة ثم صلى على النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في مكانه على النحو التالي: (اللهم صل على محمد النبي…
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/durood_80yrs_gunah_muaf.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 19609
سوال: ایک حدیث شریف جو کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا معنی یہ ہے کہ: جس نے جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اس طرح سے:
’’اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليمًا‘‘
(اے اللہ! درود وسلام بھیج تو محمد نبی الامی پر اور آپ کی آل پر)
اسّی (80) مرتبہ، تو اس کے اسّی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہيں، اور اسّی سال کی عبادت کے بقدر نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اور اس کتاب کو تیار کرنے والے نے لکھا ہے کہ یہ حدیث الدارقطنی سے مروی ہے۔ اور حافظ العراقی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی صحیح ہے؟ اس کی صحت کا درجہ کیا ہے؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ اور بطور معلومات سماحۃ الشیخ یہ بھی عرض ہے کہ یہ حدیث پاکستانی ٹیلی وژن چینل پر کسی تجارتی کمپنی کے کمرشل اشتہار میں بھی مکرر پیش کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ پورے رمضان چلتا رہتا ہے؟
جواب: اس مذکورہ حدیث کی کوئی اصل نہيں ہے، لہذا اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا تو ہر وقت ہی مستحب ہے۔ اور جمعہ کے دن اس کی خصوصی تاکید بھی ہے مگر بغیر کسی وقت کے تعین کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا‘‘([1])
(جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت فرماتے ہے (یا اپنی ملأ اعلی میں اس کا ذکر فرماتے ہیں))۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خير الأيام يوم الجمعة، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا وَقَدْ أَرِمْتَ؟ أي: بَلِيتَ، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ‘‘([2])
(بہترین دن جمعہ کا دن ہے، پس اس میں مجھ پر کثرت کے ساتھ درود بھیجا کرو، کیونکہ بلاشبہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ (فوت ہوکر) مٹی ہوچکے ہوں گے؟ یعنی: ہڈیاں تک گل چکی ہوں گی۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: بے شک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے جسموں کو کھائے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
بكر أبو زيد صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد العزيز آل الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحیح مسلم: الصلاۃ 408، سنن الترمذی: الصلاۃ 485، سنن النسائی: السہو 1296، سنن ابی داود: الصلاۃ 1530، مسند احمد بن حنبل 2/375۔
[2] سنن النسائی: الجمعۃ 1374، سنن ابی داود: الصلاۃ 1047، سنن ابن ماجہ: ماجاء فی الجنائز 1636، مسند احمد بن حنبل 4/8، سنن الدارمی: الصلاۃ 1572۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding showing our anger to those who insult the prophet through #demonstrations? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#گستاخانِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجی_مظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟

الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)
جواب: میرے بھائی ان باتوں میں کوئی اختلاف ہے ہی نہیں کہ ہمیں ان میں جمع کرنے کی نوبت آئے کیونکہ ہم مشرکین سے محبت نہیں کرتے اور نہ ہی کفار سے لیکن ان پر ناحق ظلم نہیں کرتے۔ اور نہ ہی ان سے ایسا انتقام لیتے ہیں کہ جو انتقام اس سے بھی بڑے نقصان کی طرف لے جائے۔ پس تمام امور کی اپنی مناسب جگہ ہوتی ہے اور اپنی حکمتیں ہوتی ہیں۔
(فتاوی نور علی الدرب 2735)
لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود بھی صبر فرماتے تھے اور اپنے صحابہ کو بھی کسی قسم کی انتقامی کارروائی کرنے سے منع فرماتے تھے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ میں تھے۔ کیونکہ اگر وہ مشرکین سے انتقام لینے کی کوشش کرتے تو مکہ سے اسلام کا ہی صفایا کردیا جاتا۔ اور اس دعوت کااس کی گود میں ہی خاتمہ کردیا جاتا۔ لیکن صبر کیا یہاں تک کہ ہجرت فرمائی اور انصار (مددگاروں) کوپایا۔ تب اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرکین کے خلاف شرعی جہاد کرنے کا حکم دیا۔ جبکہ یہ جو مظاہرات کیے جاتے ہیں، یہ تخریبکاری، یہ بے قصور جانوں کا قتل اور جو مسلمانوں کی امان اور ان کے ذمے میں ہوتے ہیں انہیں قتل کیا جاتا ہے تو یہ خیانت ہرگز بھی جائز نہیں۔ نہ ہی بےقصور لوگوں کا قتل کرنا جائز ہے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں یہ جائز نہیں:
﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَـنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور کسی قوم کی دشمنی اس لیے کہ انہوں نے تمہیں مسجد حرام سے روکا، تمہیں اس بات پر نا ابھارے کہ تم زیادتی کرو)
کسی بے قصور پر زیادتی کرناجائز نہیں:
﴿وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي﴾ (الانعام: 164)
(اور نہ کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ اٹھائے گا)
﴿وَاِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ اسْتَجَارَكَ فَاَجِرْهُ حَتّٰي يَسْمَعَ كَلٰمَ اللّٰهِ ثُمَّ اَبْلِغْهُ مَاْمَنَهٗ﴾ (التوبۃ: 6)
(اور اگر مشرکوں میں سے کوئی آپ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دیں یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دیں)
مشرکین کے سفیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس مذاکرات کے لیے آیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےپاس آپ کی مسجد میں ہی آجایا کرتے تھے اور مذاکرات کرتے حالانکہ وہ مشرکین وکفار تھے ۔لہذا یہ بات اچھی طرح سے جان لینی چاہیے کہ اسلام دینِ غضب وغصہ اور دینِ انتقام نہیں بلکہ دین ہدایت، رحمت اور نرمی ہے۔ جیساکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ اور اس کا نتیجہ بھی کیا ہوا ؟ یہی ہوا کہ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت فرمائی اور اپنے دین کو عزت کے ساتھ غالب کیا۔ اور جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے ان میں سے بعض تو اسلام اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے قائدین بن گئے۔ اسلام لائے اور بہت خوب اسلام پر چلے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر صبر فرمایا تھا، بردباری کا مظاہرہ فرمایا اور نرمی برتی یہاں تک کہ وہ ان سے محبت کرنے لگے فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾ (القلم: 4)
(اور بلاشبہ یقیناً آپ اعلی اخلاق پر فائز ہیں)
یہ ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق ۔
اور یہ کافرلوگ جب اس قسم کی حرکت کرتے ہیں تو ان کا ارادہ یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کو مشتعل کیا جائے اور دنیا کو پھر کہا جائے کہ دیکھو یہ مسلمانوں کی حرکتیں ہیں کہ سفیروں تک کو قتل کرتے ہیں، گھروں کو تباہ کرتے ہیں، عمارتوں کو منہدم کرتے ہیں یہ ہے دین اسلام! یہ چاہت ہوتی ہے کافروں کی کہ مسلمانوں میں سے جاہل لوگ یا جو دسیسہ کاری کرتے ہوئے مسلمانوں کی صفوں میں گھس جانے والے ہیں وہ یہ حرکتیں کرتے ہیں انہیں ہی پیش کرکرکے لوگوں کے دلوں کو مسلمانوں کے خلاف بھرا جائے۔
چناچہ ایسے امور میں جلدبازی جائز نہیں:
﴿وَلَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ فَصَبَرُوْا عَلٰي مَا كُذِّبُوْا وَاُوْذُوْا حَتّٰى اَتٰىهُمْ نَصْرُنَا ۚ وَلَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِ اللّٰهِ ۚ وَلَقَدْ جَاءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ﴾ (الانعام: 34)
(اور بلاشبہ یقینا ًآپ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے تو انہوں نے اس پر صبر کیا کہ وہ جھٹلائے گئے اور ایذا دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آگئی اور کوئی اللہ کی باتوں کو بدلنے والا نہیں
اور بلاشبہ یقیناً آپ کے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں)
یہ ہے اسلام کا طریقہ ایسے امور کے تعلق سے نرمی، بردباری، صبر اور عدم عجلت پسندی۔ مشرکین تو اس قسم کے اعمال خود کروانا چاہتے ہیں جو بعض مسلمان حماقت، جہالت، تخریبکاری اور قتل غارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمان ان کی وجہ سے آپس میں ہی لڑنا شروع کردیتے ہیں یہ مظاہرہ کرنے والے لوگ خود مسلمان پولیس والوں سے لڑنا شروع کردیتے ہیں اور یہی تو کفار چاہتے ہیں۔
(فتاوی نور علی الدرب 14103)
سوال: یہ سائل فرانس سے پوچھتا ہے کہ احسن اللہ الیکم آپ نے ذکر کیا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا کہ جو مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ لیکن کیسے ممکن ہے کہ ہم ان دو باتوں میں جمع کرسکیں کہ ایک طرف تو کفار سے برأت بھی کرنی ہے اور دوسری طرف ان کے لیے ہدایت کی محبت اور عدم ِظلم؟
[#SalafiUrduDawah Article] Can we perform #demonstrations against the ruler if he permits us? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کیا ہم حکومت کے خلاف #مظاہرات کرسکتے ہیں اگر خود حکمران اس کی اجازت دے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ النھج الواضح سے آڈیو: المظاهرات كلها شر سواء أذن بها الحاكم أو لم يأذن۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/hakim_ijazat_muzahiraat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اگر کوئی حاکم اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ حکم کرتا ہو پھر وہ بعض لوگوں کو خود ہی اجازت دیتا ہو کہ وہ مظاہرات کریں جسے وہ ذاتی جدوجہد (یا اپنے حقوق کے لیے خود آواز بلند کرنے) کا نام دیتے ہیں ان ضوابط کی پابندی کے ساتھ جسے اس حاکم نے مقرر کیا ہے، اور وہ لوگ یہ کام کرتے رہتے ہیں لیکن جب ان کے اس عمل (مظاہرات) پر انکار کیا جائے تو کہتے ہیں: ہم حکمران سے تصادم تو نہیں کررہے بلکہ خود اسی حکمران کی رائے (یا دی گئی آزادی) پر عمل کررہے ہیں، پس کیا ایسا کرنا شرعی طور پر جائز ہے حالانکہ نص کی مخالفت بھی اس میں پائی جاتی ہے؟
جواب: آپ کو سلف کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر یہ سلف میں موجود تھا تو یہ خیر ہے، اور اگر موجود نہ تھا تو یہ شر ہے۔ بے شک یہ جو مظاہرات ہیں شر ہيں کیونکہ اس کا نتیجہ افراتفری ہی ہے نہ مظاہرین کی طرف سے اور نہ ہی دوسروں کی طرف سے(یعنی نہیں ہونے چاہیے)، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے عزتوں، اموال وابدان پر زیادتی ہو، کیونکہ افراتفری کے بیچ میں انسان کی حالت ایسے ہوجاتی ہے جیسے وہ نشے میں ہو معلوم ہی نہیں کہ کیا بول رہا ہے، کیا کررہاہے۔ چناچہ یہ مظاہرات بہرصورت سارے کے سارے شر ہی ہیں خواہ حکمران اس کی اجازت دےیا نہ دے۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکمران کا اس کی اجازت دینا کچھ نہیں سوائے ایک دکھاوے کے، ورنہ اگر واقعی آپ اس کے دل کی طرف لوٹیں اس کی حالت دیکھیں تو وہ اس سے شدید ترین کراہیت ونفرت کرتا ہوگا۔ لیکن بس ظاہر یوں کرتا ہے جسے وہ ڈیموکریسی کہتے ہيں گویا کہ اس نے لوگوں پر آزادی کا در کھلا رکھا ہے۔ اور یہ سلف کا طریقہ نہيں۔