[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding availing the #black_Friday's sale - Various 'Ulamaa
#بلیک_فرائیڈے کے نام سے ہونے والی رعایتوں سے فائدہ اٹھانے کا حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/black_friday_discounts_avail_karne_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم یہ چھٹا سوال ہے ، سائل کہتا ہے ہمارے یہاں امریکہ میں ایک دن کو بلیک فرائیڈے کہا جاتا ہے (اللہ المستعان) اور یہ جمعہ کافروں کے ایک بہت بڑے تہوار کے بعد آتا ہے جسے thanksgiving کہا جاتا ہے، مختصر تاریخ شیخ اس کی یہ ہے کہ جب یورپ سے آنے والے امریکہ میں نئے آئے تھے تو ان کا استقبال جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہيں ریڈ انڈین لوگوں نے کیا، جو کہ امریکہ کہ اصل باسی تھے۔ان کا استقبال کیا اور معاونت کی وغیرہ، تو انہوں نے یہ تہوار منانا شروع کردیا، لیکن جو جمعہ اس کے بعد آتا ہے اسے یہ لوگ بلیک فرائیڈے کہتے ہيں (نسأل الله العافية) لہذا اس دن بڑے بڑے بازار و مارکیٹ اپنی اشیاء نہایت ہی سستے داموں پیش کرتی ہیں، اور مارکیٹ کے دروازے بہت سویرے کھولتے ہيں یہاں تک کہ فجر سے بھی پہلے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسلمانوں کے لیے ان رعایتوں (ڈسکاؤنٹس) کا فائدہ اٹھانا جائز ہے؟ یا شیخ، یہ بات بھی علم میں رہے کہ اس دن بہت ہی زیادہ رش ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شدید دھکم پیل ہوتی ہے ، اور لوگ اپنے آپ کو خطرے تک کی نظر کردیتے ہیں؟
جواب از محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ:
اس میں کوئی مانع نہیں کہ مسلمان ان بازاروں سے استفادہ کریں جنہيں کفار لگاتے اور منعقد کرتے ہیں، اور ان رعایتوں سے فائدہ اٹھائيں جو کفار دیتے ہيں، اس شرط کے ساتھ کہ یہ بازار یا رعایتیں ان کے کسی دینی شعار سے مربوط نہ ہوں، یعنی یہ سرگرمیاں ان کے مظاہر عبادت، مظاہر دین یا دینی تہوار سے مربوط نہ ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لیے یقینا ًجائز نہيں کہ وہ کافروں کے دینی تہوار میں شرکت کرے۔
البتہ وہ عادی امور ہیں جو وہ کرتے ہیں اگر ایک مسلمان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے بنا ان میں پائے جانے والے خلاف شرع امور یا ان کے خصائص میں مشارکت کیے، تو ا ن شاء اللہ اس صورت میں کوئی حرج نہیں، اور اس میں کوئی مانع نہيں۔
کیونکہ عرب جاہلیت میں مخصوص بازار لگایا کرتے تھے سوق ذي المجان، سوق عكاظ وغیرہ، اور لوگ ان بازاروں سے استفادہ کیا کرتے تھے، لیکن یہ ثابت نہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہيں ان بازاروں سے منع کیا ہوجسے کفار منعقد کرتے تھے، جب تک وہ ان کے دینی شعائر سے مربوط نہ ہوں۔
پھر جو بات بھائی نے ذکر کی اس سوال میں کہ اس قسم کے اجتماع میں یا ان بازاروں میں جانے سے لازماً شدید رش اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور خدشہ ہوتا ہے اس شخص پر جو اس میں شریک ہو اور داخل ہو ان بازاروں میں کہ وہ اپنے آپ کو خطرے کی نظر کرتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں: اگر جو بات سوال میں ذکر ہوئی اس کے تعلق سے غالب ظن متحقق ہو کہ وہ اگر داخل ہوگا تو خدشہ ہے خطرے میں پڑنے کا جیسے بہت ہی زیادہ رش ہو، جس کی وجہ سے ایک مسلمان شرعی مخالفات میں مبتلا ہوجائے ، تو میں یہی کہوں گا کہ ایک عام شرعی قاعدہ ہے (جیسا کہ حدیث ہے):
”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ “([1])
(نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ، اور نہ ضرر اٹھاؤ)۔
اور ایک دوسرا قاعدہ ہےجو کہتا ہے سد ذرائع ہونا چاہیے۔لہذا اگر ایک مسلمان کو خدشہ ہو کہ ان بازاروں اور رعایتوں میں مشارکت کرنے سے وہ کسی حرام میں مبتلا ہوجائے گا ، تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو چھوڑ دے، حالانکہ اس بارے میں اصل یہی ہے کہ اگر یہ ان کے دینی شعائر سے مربوط نہ ہو، تو اصل یہی ہے کہ یہ مباح ہے۔لیکن اس خدشے اور ڈر سے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہوجائیں ۔۔۔ تو چاہیے کہ ان سے پرہیز کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ “
(نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ، اور نہ ضرر اٹھاؤ)۔
اور سد ذرائع کا قاعدہ ایک مقرر ہ شرعی قاعدہ ہےعلماء سلف کے نزدیک۔ واللہ المستعان۔
(نومبر، 2015ع ٹیلی لنک کے ذریعے کیا گیا سوال، مسجد التوحید، اسٹون ماؤنٹین، جورجیا، امریکہ)
سوال: میں ایک تاجر ہوں اور (نصاریٰ کے تہوار) thanksgiving کے بعد والا دن سال کا سب سے مصروف ترین کاروباری دن ہوتا ہے، جسے بلیک فرائیڈے (نسأل الله العافية)کہتے ہيں۔(شیخ مسکرائے!) تو کیا اس روز میں اپنی اشیاء پر خصوصی رعایت وپیشکش دے سکتا ہوں؟ یا پھر یہ کافروں سے مشابہت کہلائے گی؟
جواب از شیخ حسن بن عبدالوہاب البنا حفظہ اللہ:
#بلیک_فرائیڈے کے نام سے ہونے والی رعایتوں سے فائدہ اٹھانے کا حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/black_friday_discounts_avail_karne_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم یہ چھٹا سوال ہے ، سائل کہتا ہے ہمارے یہاں امریکہ میں ایک دن کو بلیک فرائیڈے کہا جاتا ہے (اللہ المستعان) اور یہ جمعہ کافروں کے ایک بہت بڑے تہوار کے بعد آتا ہے جسے thanksgiving کہا جاتا ہے، مختصر تاریخ شیخ اس کی یہ ہے کہ جب یورپ سے آنے والے امریکہ میں نئے آئے تھے تو ان کا استقبال جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہيں ریڈ انڈین لوگوں نے کیا، جو کہ امریکہ کہ اصل باسی تھے۔ان کا استقبال کیا اور معاونت کی وغیرہ، تو انہوں نے یہ تہوار منانا شروع کردیا، لیکن جو جمعہ اس کے بعد آتا ہے اسے یہ لوگ بلیک فرائیڈے کہتے ہيں (نسأل الله العافية) لہذا اس دن بڑے بڑے بازار و مارکیٹ اپنی اشیاء نہایت ہی سستے داموں پیش کرتی ہیں، اور مارکیٹ کے دروازے بہت سویرے کھولتے ہيں یہاں تک کہ فجر سے بھی پہلے، سوال یہ ہے کہ کیا ہم مسلمانوں کے لیے ان رعایتوں (ڈسکاؤنٹس) کا فائدہ اٹھانا جائز ہے؟ یا شیخ، یہ بات بھی علم میں رہے کہ اس دن بہت ہی زیادہ رش ہوتا ہے، جس کی وجہ سے شدید دھکم پیل ہوتی ہے ، اور لوگ اپنے آپ کو خطرے تک کی نظر کردیتے ہیں؟
جواب از محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ:
اس میں کوئی مانع نہیں کہ مسلمان ان بازاروں سے استفادہ کریں جنہيں کفار لگاتے اور منعقد کرتے ہیں، اور ان رعایتوں سے فائدہ اٹھائيں جو کفار دیتے ہيں، اس شرط کے ساتھ کہ یہ بازار یا رعایتیں ان کے کسی دینی شعار سے مربوط نہ ہوں، یعنی یہ سرگرمیاں ان کے مظاہر عبادت، مظاہر دین یا دینی تہوار سے مربوط نہ ہوں۔ کیونکہ ایک مسلمان کے لیے یقینا ًجائز نہيں کہ وہ کافروں کے دینی تہوار میں شرکت کرے۔
البتہ وہ عادی امور ہیں جو وہ کرتے ہیں اگر ایک مسلمان ان سے فائدہ اٹھاتا ہے بنا ان میں پائے جانے والے خلاف شرع امور یا ان کے خصائص میں مشارکت کیے، تو ا ن شاء اللہ اس صورت میں کوئی حرج نہیں، اور اس میں کوئی مانع نہيں۔
کیونکہ عرب جاہلیت میں مخصوص بازار لگایا کرتے تھے سوق ذي المجان، سوق عكاظ وغیرہ، اور لوگ ان بازاروں سے استفادہ کیا کرتے تھے، لیکن یہ ثابت نہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے انہيں ان بازاروں سے منع کیا ہوجسے کفار منعقد کرتے تھے، جب تک وہ ان کے دینی شعائر سے مربوط نہ ہوں۔
پھر جو بات بھائی نے ذکر کی اس سوال میں کہ اس قسم کے اجتماع میں یا ان بازاروں میں جانے سے لازماً شدید رش اور دھکم پیل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور خدشہ ہوتا ہے اس شخص پر جو اس میں شریک ہو اور داخل ہو ان بازاروں میں کہ وہ اپنے آپ کو خطرے کی نظر کرتا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں: اگر جو بات سوال میں ذکر ہوئی اس کے تعلق سے غالب ظن متحقق ہو کہ وہ اگر داخل ہوگا تو خدشہ ہے خطرے میں پڑنے کا جیسے بہت ہی زیادہ رش ہو، جس کی وجہ سے ایک مسلمان شرعی مخالفات میں مبتلا ہوجائے ، تو میں یہی کہوں گا کہ ایک عام شرعی قاعدہ ہے (جیسا کہ حدیث ہے):
”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ “([1])
(نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ، اور نہ ضرر اٹھاؤ)۔
اور ایک دوسرا قاعدہ ہےجو کہتا ہے سد ذرائع ہونا چاہیے۔لہذا اگر ایک مسلمان کو خدشہ ہو کہ ان بازاروں اور رعایتوں میں مشارکت کرنے سے وہ کسی حرام میں مبتلا ہوجائے گا ، تو اسے چاہیے کہ اس چیز کو چھوڑ دے، حالانکہ اس بارے میں اصل یہی ہے کہ اگر یہ ان کے دینی شعائر سے مربوط نہ ہو، تو اصل یہی ہے کہ یہ مباح ہے۔لیکن اس خدشے اور ڈر سے کہ کہیں حرام میں واقع نہ ہوجائیں ۔۔۔ تو چاہیے کہ ان سے پرہیز کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ “
(نہ کسی کو ضرر پہنچاؤ، اور نہ ضرر اٹھاؤ)۔
اور سد ذرائع کا قاعدہ ایک مقرر ہ شرعی قاعدہ ہےعلماء سلف کے نزدیک۔ واللہ المستعان۔
(نومبر، 2015ع ٹیلی لنک کے ذریعے کیا گیا سوال، مسجد التوحید، اسٹون ماؤنٹین، جورجیا، امریکہ)
سوال: میں ایک تاجر ہوں اور (نصاریٰ کے تہوار) thanksgiving کے بعد والا دن سال کا سب سے مصروف ترین کاروباری دن ہوتا ہے، جسے بلیک فرائیڈے (نسأل الله العافية)کہتے ہيں۔(شیخ مسکرائے!) تو کیا اس روز میں اپنی اشیاء پر خصوصی رعایت وپیشکش دے سکتا ہوں؟ یا پھر یہ کافروں سے مشابہت کہلائے گی؟
جواب از شیخ حسن بن عبدالوہاب البنا حفظہ اللہ: