[#SalafiUrduDawah Article] I don't want to hear anything against my favourite #Aalim or #Daaee! – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
میں اپنے پسندیدہ #عالم یا #داعی کے خلاف کچھ نہيں سن سکتا!
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ص 67.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/pasandeedah_alim_daee_khilaf_na_sunna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کسی عالم یا داعی کو پسند کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ: بے شک میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اور ہرگز بھی نہيں سن سکتا کہ کوئی ان پررد کرے، اور میں ان کی ہی بات کو لوں گا چاہے وہ دلیل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بے شک میرے یہ شیخ ہم سے زیادہ دلیل کو سمجھنے والے ہيں؟
جواب: یہی وہ قابل نفرت ومذمت تعصب ہے، جو کہ بالکل بھی جائز نہیں([1])۔
ہم علماء کرام سے محبت کرتے ہيں الحمدللہ، اسی طرح سے داعیان الی اللہ سے بھی محبت کرتے ہیں، لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلے میں غلطی کرجائے، تو ہم اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق بیان کرتے ہيں، اور یہ مردود علیہ (جس کا رد کیا گیا) ا س کی محبت اور قدر میں نقص کا سبب نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے‘‘([2])۔
لہذا ہم اگر بعض اہل علم وفضل پر رد کرتے ہيں تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ ہم ان سے بغض رکھتے ہيں یا ان کی تنقیص کے خواہاں ہیں، بلکہ ہم تو صرف اور صرف حق صواب کی وضاحت کرتے ہيں۔ اسی لیے بعض علماء کرام جب ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غلطی کرتا تو یوں فرماتے ہیں:
’’فلاں ہمارا محبوب ہے، لیکن حق ہمیں اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘([3])۔
یہ ہے صحیح طریقہ ۔
چناچہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بعض علماء پر کسی ایسے مسئلے میں جس میں ان سے غلطی ہوئی رد کرنے کا مطلب ان کی تنقیص کرنا یا ان سے بغض کرنا ہے، بلکہ علماء کرام تو ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہيں اس کے باوجود آپس میں محبت اور بھائی چارہ بھی تھا۔
ہمارے لیے جائز نہيں کہ کسی شخص کی ہر بات کو اٹل سمجھ کر لازمی طور پر لیں، چاہے وہ صواب پر ہو یا غلطی پر، کیونکہ بلاشبہ یہ تعصب ہے۔
وہ شخصیت کے جن کے ہر قول کو لیا جائے گا اور اس میں سے کسی بھی چیزکو چھوڑا نہيں جاسکتا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں، کیونکہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی طرف سے مبلغ (پہنچانے والے) ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہيں بولتے، لیکن ان کے علاوہ جو ہيں تو ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور صواب کو بھی پاسکتے ہيں، اگرچہ وہ تمام لوگوں میں سے افضل ترین ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کرتے ہيں اور صواب کو بھی پاتے ہیں۔
کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہيں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔
واجب ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیں، کسی غلطی پر پردہ نہ ڈالیں کسی شخصیت کی ہیبت کی وجہ سے، بلکہ ہمیں چاہیےکہ ہم غلطی کو واضح کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([4])
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اور حکام مسلمین اور ان کی عوام کے لیے)۔
اور غلطی کو بیان کرنا تمام لوگوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے، جبکہ اسے چھپانا نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے مخالف ہے۔
[1] محمد سلطان الخجندی رحمہ اللہ صاحب کتاب ’’هل المسلم ملزم باتباع مذهب معين من المذاهب الأربعة‘‘ ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: ’’اس امت کے کسی بھی شخص پر یہ واجب نہيں کہ وہ حنفی ہو، یا مالکی، یا شافعی یا حنبلی، بلکہ ہر ایسے فرد پر ضروری ہے کہ جو عالم نہ ہو کہ وہ اہل ذکر (علماء) میں سے کسی بھی سے پوچھ لے، اور یہ آئمہ اربعہ بھی اہل ذکرمیں سے ہيں، اسی لیے کہا جاتا ہے: (جس نے عالم کی اتباع کی اس کی ملاقات اللہ تعالی سے سلامتی کے ساتھ ہوگی)، اور درحقیقت ہر مکلف سیدالانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر مامور ہے‘‘۔ ص 57 تحقیقی الہلالی۔
میں یہ کہتا ہوں: اس کے قریب قریب معنی اس کلام کا بھی ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے جو اس کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حاشیہ رقم 67 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
میں اپنے پسندیدہ #عالم یا #داعی کے خلاف کچھ نہيں سن سکتا!
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ص 67.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/pasandeedah_alim_daee_khilaf_na_sunna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کسی عالم یا داعی کو پسند کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ: بے شک میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اور ہرگز بھی نہيں سن سکتا کہ کوئی ان پررد کرے، اور میں ان کی ہی بات کو لوں گا چاہے وہ دلیل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بے شک میرے یہ شیخ ہم سے زیادہ دلیل کو سمجھنے والے ہيں؟
جواب: یہی وہ قابل نفرت ومذمت تعصب ہے، جو کہ بالکل بھی جائز نہیں([1])۔
ہم علماء کرام سے محبت کرتے ہيں الحمدللہ، اسی طرح سے داعیان الی اللہ سے بھی محبت کرتے ہیں، لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلے میں غلطی کرجائے، تو ہم اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق بیان کرتے ہيں، اور یہ مردود علیہ (جس کا رد کیا گیا) ا س کی محبت اور قدر میں نقص کا سبب نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے‘‘([2])۔
لہذا ہم اگر بعض اہل علم وفضل پر رد کرتے ہيں تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ ہم ان سے بغض رکھتے ہيں یا ان کی تنقیص کے خواہاں ہیں، بلکہ ہم تو صرف اور صرف حق صواب کی وضاحت کرتے ہيں۔ اسی لیے بعض علماء کرام جب ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غلطی کرتا تو یوں فرماتے ہیں:
’’فلاں ہمارا محبوب ہے، لیکن حق ہمیں اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘([3])۔
یہ ہے صحیح طریقہ ۔
چناچہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بعض علماء پر کسی ایسے مسئلے میں جس میں ان سے غلطی ہوئی رد کرنے کا مطلب ان کی تنقیص کرنا یا ان سے بغض کرنا ہے، بلکہ علماء کرام تو ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہيں اس کے باوجود آپس میں محبت اور بھائی چارہ بھی تھا۔
ہمارے لیے جائز نہيں کہ کسی شخص کی ہر بات کو اٹل سمجھ کر لازمی طور پر لیں، چاہے وہ صواب پر ہو یا غلطی پر، کیونکہ بلاشبہ یہ تعصب ہے۔
وہ شخصیت کے جن کے ہر قول کو لیا جائے گا اور اس میں سے کسی بھی چیزکو چھوڑا نہيں جاسکتا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں، کیونکہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی طرف سے مبلغ (پہنچانے والے) ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہيں بولتے، لیکن ان کے علاوہ جو ہيں تو ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور صواب کو بھی پاسکتے ہيں، اگرچہ وہ تمام لوگوں میں سے افضل ترین ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کرتے ہيں اور صواب کو بھی پاتے ہیں۔
کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہيں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔
واجب ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیں، کسی غلطی پر پردہ نہ ڈالیں کسی شخصیت کی ہیبت کی وجہ سے، بلکہ ہمیں چاہیےکہ ہم غلطی کو واضح کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([4])
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اور حکام مسلمین اور ان کی عوام کے لیے)۔
اور غلطی کو بیان کرنا تمام لوگوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے، جبکہ اسے چھپانا نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے مخالف ہے۔
[1] محمد سلطان الخجندی رحمہ اللہ صاحب کتاب ’’هل المسلم ملزم باتباع مذهب معين من المذاهب الأربعة‘‘ ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: ’’اس امت کے کسی بھی شخص پر یہ واجب نہيں کہ وہ حنفی ہو، یا مالکی، یا شافعی یا حنبلی، بلکہ ہر ایسے فرد پر ضروری ہے کہ جو عالم نہ ہو کہ وہ اہل ذکر (علماء) میں سے کسی بھی سے پوچھ لے، اور یہ آئمہ اربعہ بھی اہل ذکرمیں سے ہيں، اسی لیے کہا جاتا ہے: (جس نے عالم کی اتباع کی اس کی ملاقات اللہ تعالی سے سلامتی کے ساتھ ہوگی)، اور درحقیقت ہر مکلف سیدالانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر مامور ہے‘‘۔ ص 57 تحقیقی الہلالی۔
میں یہ کہتا ہوں: اس کے قریب قریب معنی اس کلام کا بھی ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے جو اس کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حاشیہ رقم 67 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 2) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
شرح #کتاب_التوحید ، باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_2.pdf
[Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap02.mp3
شرح #کتاب_التوحید ، باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_2.pdf
[Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap02.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] Should we not take #refutations of #Ulamaa upon each other? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Al_Qawa’id_ul_Arba’ – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
شرح #القواعد_الاربع – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D9%82%D9%88%D8%A7%D8%B9%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9-1-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%D8%A8%D9%86-%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7%D9%86-%D8%A7/
شرح #القواعد_الاربع – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D9%82%D9%88%D8%A7%D8%B9%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9-1-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%D8%A8%D9%86-%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7%D9%86-%D8%A7/
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 3) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
شرح #کتاب_التوحید ، باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_3.pdf
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap03.mp3
شرح #کتاب_التوحید ، باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 3: شرک سے ڈرنے کا بیان
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_3.pdf
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap03.mp3
[#SalafiUrduDawah Audio] "#La_ilaha_illa_Allaah" its status, virtue, pillars, conditions and meaning – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
"#لا_الہ_الا_اللہ" کی منزلت، فضیلت، ارکان، شرائط ومعنی – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
مقدمہ از دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حفظہ اللہ
مقدمہ از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
زندگی میں لا الہ الا اللہ مقام ومنزلت
لا الہ الا اللہ کی فضیلت
لا الہ الا اللہ کے اعراب، ارکان وشرائط
لا الہ الا اللہ کا معنی اور اس کے تقاضے
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا قول
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ کا قول
لا الہ الا اللہ کے فرد اور معاشرے پر اہم ترین اثرات
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B2%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D9%81%D8%B6%DB%8C%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86/
"#لا_الہ_الا_اللہ" کی منزلت، فضیلت، ارکان، شرائط ومعنی – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
مقدمہ از دکتور عبداللہ بن عبدالمحسن الترکی حفظہ اللہ
مقدمہ از شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
زندگی میں لا الہ الا اللہ مقام ومنزلت
لا الہ الا اللہ کی فضیلت
لا الہ الا اللہ کے اعراب، ارکان وشرائط
لا الہ الا اللہ کا معنی اور اس کے تقاضے
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول
کب لا الہ الا اللہ اپنے پڑھنے والے کو فائدہ دیتا ہے اور کب نہيں
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کا قول
حافظ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ کا قول
لا الہ الا اللہ کے فرد اور معاشرے پر اہم ترین اثرات
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%DB%81-%D8%A7%D9%84%D8%A7-%D8%A7%D9%84%D9%84%DB%81-%DA%A9%DB%8C-%D9%85%D9%86%D8%B2%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D9%81%D8%B6%DB%8C%D9%84%D8%AA%D8%8C-%D8%A7%D8%B1%DA%A9%D8%A7%D9%86/
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 4) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
شرح #کتاب_التوحید ، باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_4.pdf
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap04.mp3
شرح #کتاب_التوحید ، باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_4.pdf
[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap04.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] The obligation of love and respect for #Rasoolullaah (SalAllaho alayhi wa sallam) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_muhabbat_tazeem_wujoob.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت ضروری ہے، یہ عبادت کی سب سے عظیم قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ﴾ (البقرۃ:165)
(اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالی ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں)
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا منعمِ حقیقی ہے۔ جس نے ساری ظاہری و باطنی نعمتوں سے بندوں کو نوازا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت واجب ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، اس کی معرفت سے ہمکنار کیا، اس کی شریعت کو پہنچایا اور اس کے احکامات کو بیان فرمایاہے۔ آج مسلمانوں کو جو دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہے وہ اسی رسول ِرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت حاصل ہے۔کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
’’ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘([1])
(جس کے اندر تین چیزیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا ، وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نزدیک دوسری ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں اور کسی شخص سے محبت کرتا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہو اور کفر کی طرف لوٹنا اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نکالا ہے ایسا ہی ناپسند کرتا ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے)۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے اور اس کے ساتھ لازم ہے اور رتبہ کے اعتبار سے دوسرے درجہ پر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر تمام محبوب چیزوں سے آپ کی محبت کو مقدم رکھنے سے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘([2])
(تم میں سے کوئی اس وقت تک پکا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی اولاد اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)۔
بلکہ ایک حدیث میں تو آیا ہے کہ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نفس سے زیادہ محبوب رکھے۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الْآنَ يَا عُمَرُ‘‘([3])
(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں بات نہیں بنے گی۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اگر ایسی بات ہے تو) یقیناً اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب صحیح ہے اے عمر)۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ دنیا کی ہر چیز کی محبت پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کو لازم ہے([4])، اس لئے یہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت مومن کے دل میں جتنی بڑھے گی اتنی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بڑھے گی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اگر گھٹے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی گھٹے گی، اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو گا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھی جائے گی۔
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_muhabbat_tazeem_wujoob.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت ضروری ہے، یہ عبادت کی سب سے عظیم قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ﴾ (البقرۃ:165)
(اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالی ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں)
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا منعمِ حقیقی ہے۔ جس نے ساری ظاہری و باطنی نعمتوں سے بندوں کو نوازا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت واجب ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، اس کی معرفت سے ہمکنار کیا، اس کی شریعت کو پہنچایا اور اس کے احکامات کو بیان فرمایاہے۔ آج مسلمانوں کو جو دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہے وہ اسی رسول ِرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت حاصل ہے۔کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
’’ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘([1])
(جس کے اندر تین چیزیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا ، وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نزدیک دوسری ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں اور کسی شخص سے محبت کرتا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہو اور کفر کی طرف لوٹنا اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نکالا ہے ایسا ہی ناپسند کرتا ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے)۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے اور اس کے ساتھ لازم ہے اور رتبہ کے اعتبار سے دوسرے درجہ پر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر تمام محبوب چیزوں سے آپ کی محبت کو مقدم رکھنے سے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘([2])
(تم میں سے کوئی اس وقت تک پکا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی اولاد اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)۔
بلکہ ایک حدیث میں تو آیا ہے کہ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نفس سے زیادہ محبوب رکھے۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الْآنَ يَا عُمَرُ‘‘([3])
(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں بات نہیں بنے گی۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اگر ایسی بات ہے تو) یقیناً اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب صحیح ہے اے عمر)۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ دنیا کی ہر چیز کی محبت پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کو لازم ہے([4])، اس لئے یہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت مومن کے دل میں جتنی بڑھے گی اتنی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بڑھے گی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اگر گھٹے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی گھٹے گی، اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو گا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھی جائے گی۔
#SalafiUrduDawah
#nasheed "#tala_al_badru_alayna" ki haqeeqat - shaykh saaleh bin fawzaan #al_fawzaan
#نشید "#طلع_البدر_علینا" کی حقیقت - شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
#nasheed "#tala_al_badru_alayna" ki haqeeqat - shaykh saaleh bin fawzaan #al_fawzaan
#نشید "#طلع_البدر_علینا" کی حقیقت - شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding showing our anger to those who insult the prophet through #demonstrations? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#گستاخانِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجی_مظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟
الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)
#گستاخانِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مذمت میں #احتجاجی_مظاہرے کرنے کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی آفیشل ویب سائٹ سے فتاوی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/01/gustakh_e_rasool_khilaf_muzahiraat_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم یہ سائل کہتا ہے حال ہی جو واقعہ رونما ہوا ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں استہزاء کیا جاتا ہے اس بارے میں ایک مسلمان کا کیا مؤقف ہونا چاہیے اور اس پر کیا واجب ہے؟
الشیخ: میرے بھائی یہ کوئی نئی بات نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو اس وقت بھی مذاق اڑایا گیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ تھے ان کا مقابلہ مذموم صفات کے ساتھ کیا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ساحر(جادوگر) ہیں، کاہن ہیں، کذاب (بڑےجھوٹے) ہیں اور اس کے علاوہ اور باتیں جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ہیں اور رسالت کے مستحق نہیں۔ رسالت تو ضروری ہے کہ فرشتوں کو ملے یا پھر بڑے رئیس امیر وکبیر لوگوں کو:
﴿وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰي رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْيَـتَيْنِ عَظِيْمٍ ﴾ (الزخرف: 31)
(اور انہوں نے کہا یہ قرآن ان دوبستیوں میں سے کسی بڑے آدمی پر کیوں نازل نہ کیا گیا ؟)
طائف میں سے رئیسِ طائف ہوتا یا رئیسِ مکہ ہوتا تو اسے رسول ہونا چاہیے تھا جبکہ یہ یتیم، فقیر رسول ہو! یہ نازیبا بات ہے! اس طرح سے وہ کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے جواب دیا:
﴿اَهُمْ يَــقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَ ۭ نَحْنُ قَسَمْنَا بَيْنَهُمْ مَّعِيْشَتَهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا﴾ (الزخرف: 32)
(کیا وہ آپ کے رب کی رحمت تقسیم کرتے ہیں؟! ہم نے خود ان کے درمیان ان کی معیشت دنیا کی زندگی میں تقسیم کی)
یہ کسی چیز کے مالک نہیں اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کا مستحق ہے:
﴿اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ (الانعام: 124)
(اللہ زیادہ جاننے والا ہے جہاں وہ اپنی رسالت رکھتا ہے)
تم کون ہوتے ہو تجاویز دینے والے؟! اللہ تعالی ہی جانتا ہے کہ کون اس کی رسالت کے فریضے کو ادا کرسکتا ہے اور کون اس کے لائق ہے ۔ اور وہ یہی یتیم ہیں اور وہ امین شخص ہیں جو رسالت کے لائق ہیں، انہیں اللہ سبحانہ وتعالی نے چنا ہے۔
(فتاوی نور علی الدرب 14120)
سوال: احسن اللہ الیکم حال ہی میں باتکرار نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں مختلف طریقوں سےگستاخیاں کی جارہی ہیں کبھی فلموں کے ذریعے تو کبھی اخبارات وغیرہ میں۔ سوال یہ ہے کہ ان گستاخیوں کے تعلق سے کیا شرعی مؤقف ہونا چاہیے ساتھ ہی اسی کے تابع ایک اور سوال ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کیے جانے پر اپنے غیض وغصے کے اظہار کے لیے احتجاجی مظاہروں کا کیا حکم ہے؟
جواب: میرےبھائیوں یہ کوئی نئی بات نہيں ہے خود عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساحر، کذاب، کاہن، شاعر وغیرہ کہا گیا لیکن نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صبر فرمایا عجلت پسندی وجلدبازی کا مظاہرہ نہيں فرمایا، کیونکہ خود اللہ تعالی نے انہیں صبر کرنے کا حکم دیا تھا:
﴿ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا﴾ (المزمل: 10)
(اور اس پر صبر کر یں جو وہ کہتے ہیں اور انہیں خوبصورت طریقے سے چھوڑ دیں)
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب سنتے تھے لیکن اس کے باوجود حکم الہی کے بموجب صبر فرمایا کرتے تھے:
﴿اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ۔۔۔ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ﴾ (الحجر: 95-99)
(بے شک ہم تجھے مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔۔۔اور بلاشبہ یقیناً ہم جانتے ہیں کہ بے شک آپ کا سینہ اس سے تنگ ہوتا ہے جو وہ کہتے ہیں، پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کریں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہوجائیں، اور مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں)
#SalafiUrduDawah
شیخ صالح #الفوزان حفظہ اللہ سے ان کی تقریر "اسلام میں امام (حکمران) نصب کرنے کی کیفیت" میں کیے گئے بعض سوالات جو حکومت مخالف #مظاہرات #دہرنے #احتجاج وغیرہ کے متعلق ہيں:
کیا حکومت کے خلاف مظاہرات کرنے والوں پر خوارج سے متعلق احادیث چسپاں نہ کی جائيں
سوال 1: سائل کہتا ہے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ خوارج سے متعلق حدیث کو آجکل جو لوگ کسی معین حکمران کے خلاف مظاہرات پر نکلتے ہيں ان پر چسپاں کرنا جائز نہيں، اور سائل یہ بھی کہتا ہے کہ بعض لوگ ان مظاہرات کو پرامن تحریک کہتے ہیں اور کہتے ہیں اس کا انکار سوائے اہل بدعت کے کوئی نہیں کرتا؟
جواب: مظاہرے کرنا دین اسلام میں سے نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں شر مرتب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے اجتماعِ کلمہ کا ضیاع ہوتا ہے، اور مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ہی تخریبکاری، خون خرابہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی شر وفساد ہوتا ہے۔
اور یہ مظاہرات مشکلات کا صحیح حل نہيں ہیں۔ بلکہ جو صحیح حل ہے وہ کتاب وسنت کی اتباع ہے۔ سابقہ ادوار میں جو فتنے ہوئے وہ موجودہ فتنوں سے بھی بڑھ کر تھے، لیکن انہوں نے اس کا معالجہ شریعت کی روشنی میں کیا ناکہ کافروں کے نظام اور باہر سے درآمد شدہ ان مظاہرات کے ذریعے۔ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس افراتفری وہنگامہ آرائی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہيں۔ دین اسلام تو نظم وضبط کی طرف دعوت دیتا ہے، صبر وحکمت کی طرف دعوت دیتا ہے، اور امور کو اہل حل وعقد کی طرف ، علماء کی طرف لوٹانے کی دعوت دیتا ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے)
[یا فرمایا: ﴿وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ، وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء: 83) (جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے نشر کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سےاولی الامر(حکمران وعلماء وغیرہ)کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو صحیح استنباط کرتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔]
شیخ صالح #الفوزان حفظہ اللہ سے ان کی تقریر "اسلام میں امام (حکمران) نصب کرنے کی کیفیت" میں کیے گئے بعض سوالات جو حکومت مخالف #مظاہرات #دہرنے #احتجاج وغیرہ کے متعلق ہيں:
کیا حکومت کے خلاف مظاہرات کرنے والوں پر خوارج سے متعلق احادیث چسپاں نہ کی جائيں
سوال 1: سائل کہتا ہے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ خوارج سے متعلق حدیث کو آجکل جو لوگ کسی معین حکمران کے خلاف مظاہرات پر نکلتے ہيں ان پر چسپاں کرنا جائز نہيں، اور سائل یہ بھی کہتا ہے کہ بعض لوگ ان مظاہرات کو پرامن تحریک کہتے ہیں اور کہتے ہیں اس کا انکار سوائے اہل بدعت کے کوئی نہیں کرتا؟
جواب: مظاہرے کرنا دین اسلام میں سے نہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں شر مرتب ہوتا ہے اور مسلمانوں کے اجتماعِ کلمہ کا ضیاع ہوتا ہے، اور مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے، کیونکہ اس کے ساتھ ہی تخریبکاری، خون خرابہ ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی شر وفساد ہوتا ہے۔
اور یہ مظاہرات مشکلات کا صحیح حل نہيں ہیں۔ بلکہ جو صحیح حل ہے وہ کتاب وسنت کی اتباع ہے۔ سابقہ ادوار میں جو فتنے ہوئے وہ موجودہ فتنوں سے بھی بڑھ کر تھے، لیکن انہوں نے اس کا معالجہ شریعت کی روشنی میں کیا ناکہ کافروں کے نظام اور باہر سے درآمد شدہ ان مظاہرات کے ذریعے۔ ان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اس افراتفری وہنگامہ آرائی کا اسلام سے کوئی واسطہ نہيں۔ دین اسلام تو نظم وضبط کی طرف دعوت دیتا ہے، صبر وحکمت کی طرف دعوت دیتا ہے، اور امور کو اہل حل وعقد کی طرف ، علماء کی طرف لوٹانے کی دعوت دیتا ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر کسی چیز پر اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے، یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے)
[یا فرمایا: ﴿وَاِذَا جَاۗءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ، وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء: 83) (جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے نشر کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے میں سےاولی الامر(حکمران وعلماء وغیرہ)کے حوالے کر دیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کر لیتے جو صحیح استنباط کرتے ہیں، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو بہت تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے) (توحید خالص ڈاٹ کام)۔]
[#SalafiUrduDawah Article] #Criticizing_government on passing #unfair_resolutions? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#غیرشرعی_قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
#غیرشرعی_قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is it allowed to #criticize_the_corrupt_government institutes publicly? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا معاشرے میں منکرات پھیلانے والے یا #حکومتی_اداروں_پر_سرعام_تنقید کرنا صحیح ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/munkiraat_hukumat_idaro_tanqeed_sareaam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو کوئی معاشرے میں پھیلی منکرات کا رد ان کے کرنے والوں پر سرعام کرتا ہے یا کسی مخصوص حکومتی ادارے ووزارت کے مسئولین پر تنقید کرتا ہے، تو کیا اس کا یہ عمل صحیح ہے یا غلط؟
جواب: منکر بات کا انکار کرنا اس کا رد کرنا نصیحت، خیرخواہی اور موعظت ہے ناکہ تشہیر اور عار دلانا ہے۔ ایسا نہيں، بلکہ یہ تو خوفِ الہی کے ذریعے یا اچھے کلام کے ذریعے نصیحت ووعظ کرنا ہے۔ یہی طریقے دلوں کو پھیر سکتا ہے۔ ناکہ سخت روی سے کلام کرنا یا تشہیر کرنا یا عار دلانے وغیرہ سے۔ ایسے نہ کہو فلاں وزارت یا حکومتی ادارے میں تو یہ یہ ہے، اور فلاں جگہ یا دکان پر تو یہ یہ ہوتا ہے بلکہ اس کے پاس جاؤ اور جو شرعی مخالفت کا مرتکب ہے اسے وعظ ونصیحت کرو۔ اگر وہ شرعی مخالفت عوام میں عام ہوچکی ہو تو جب لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اس وقت اس کی یاددہانی کرائی جائے اور اللہ تعالی سے ڈرایا جائے۔
کیا معاشرے میں منکرات پھیلانے والے یا #حکومتی_اداروں_پر_سرعام_تنقید کرنا صحیح ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/munkiraat_hukumat_idaro_tanqeed_sareaam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو کوئی معاشرے میں پھیلی منکرات کا رد ان کے کرنے والوں پر سرعام کرتا ہے یا کسی مخصوص حکومتی ادارے ووزارت کے مسئولین پر تنقید کرتا ہے، تو کیا اس کا یہ عمل صحیح ہے یا غلط؟
جواب: منکر بات کا انکار کرنا اس کا رد کرنا نصیحت، خیرخواہی اور موعظت ہے ناکہ تشہیر اور عار دلانا ہے۔ ایسا نہيں، بلکہ یہ تو خوفِ الہی کے ذریعے یا اچھے کلام کے ذریعے نصیحت ووعظ کرنا ہے۔ یہی طریقے دلوں کو پھیر سکتا ہے۔ ناکہ سخت روی سے کلام کرنا یا تشہیر کرنا یا عار دلانے وغیرہ سے۔ ایسے نہ کہو فلاں وزارت یا حکومتی ادارے میں تو یہ یہ ہے، اور فلاں جگہ یا دکان پر تو یہ یہ ہوتا ہے بلکہ اس کے پاس جاؤ اور جو شرعی مخالفت کا مرتکب ہے اسے وعظ ونصیحت کرو۔ اگر وہ شرعی مخالفت عوام میں عام ہوچکی ہو تو جب لوگ مسجد میں جمع ہوتے ہیں اس وقت اس کی یاددہانی کرائی جائے اور اللہ تعالی سے ڈرایا جائے۔
[#SalafiUrduDawah Book] O #prophet!Truly, We will suffice you against the scoffers – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
اے #نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بےشک ہم آپ کو مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفطہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وعناوین: طارق علی بروہی
مصدر: درس بعنوان: ﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
موضوع کی اہمیت
گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہر صرف آج کی بات نہيں
مشرکین کی طرف سے گستاخی
اہل کتاب کی طرف سے گستاخی
منافقین کی طرف سے گستاخی
شہوات وخواہشات پرست لوگوں کی طرف سے گستاخی
یہ سب مل کر بھی نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کچھ بھی نہيں بگاڑ سکتے
پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام محمود
اللہ تعالی نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہمیشہ کے لیے بلند فرمادیا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہی ذلیل ورسوا رہیں گے
گستاخوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں اللہ تعالی ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی ہے
یہود و نصاریٰ کی تاریخ ہی اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ گستاخیوں اور نافرمانیوں سے عبارت ہے
یہودیوں کی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ایذاء رسانی
نصاریٰ کی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ایذاء رسانی
اہل کتاب کی طرف سے گستاخیاں حیرت کی بات نہيں
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مطلوب ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کریں
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے
مومنین کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء رسانی سے خبردار کیاگیا ہے
ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغازاپنے نفس کے ساتھ کیا جائے
جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثال
یہود و نصاریٰ کے تقارب بین الادیان اور دوستی کے جھوٹے دعوؤں سے دھوکہ نہ کھائیں
سوالات
دفاع نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرعی ضوابط کے ساتھ منضبط کرنا
گستاخئ رسول کرنے والے ممالک کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا حکم؟
گمراہ داعیان اور جماعتوں کی طرف سے نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسس کی حیثیت
گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسئلے کے تعلق سے تعلیمی اداروں کے طلبہ کی رہنمائی
نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بعض عبارتیں لکھنے اور لٹکانے کا حکم
نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں کارگر اسالیب
یہود و نصاریٰ پر عمومی ہلاکت کی بددعاء کرنے کا حکم
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بلندی کی دعاء کرنے کا حکم
یورپ میں رہتے ہوئے گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آئے دن سننا
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافر کے قتل کا حکم
اسلامی چینلز کو نصیحت
کیا صرف خلوت منع ہے اختلاط نہیں؟!
اپنی اولاد کو خارجی افکار والوں کی صحبت سے بچانا
اہل بدعت کی تعزیت کا حکم
کافر کی غیبت کا حکم
کیا فوت شدگان اپنی زیارت کرنے والوں کو سن سکتے ہيں اور ان کی خبریں جانتے ہيں
اگر مسجد میں اس وقت داخل ہوں جبکہ امام آخری تشہد میں ہوتو کیا کیا جائے
اہل بدعت کا سلفیوں کو مختلف القاب دینا
حقیقی علماء اور نام نہاد علماء میں امتیاز
کفار کے شعار کنندہ ہوئی چیز کے استعمال کا حکم
کیا جہاد کے مسائل اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری علماء سے بہتر جانتے ہيں!
آکو پنچر علاج کا کیا حکم
خواتین کا نماز میں ہتھیلیاں اور قدم نہ ڈھانپنا
کیا چہرے کا پردہ اختلافی مسئلہ ہے
کئی برس مریض رہنے والا کیا روزے کی قضاء رکھے
سورج اور چاند گرہن کے تعلق سے غلط فہمی پھیلانا
مہینے کے اکثر ایام میں حیض کا جاری رہنا
زیتوں کے تیل کی زکوٰۃ
تجارتی انشورنس کا حکم
طلبہ کو ان کے حق سے زیادہ مارکس دینا
اللہ تعالی سے مخلوق کے حق کے واسطے سے سوال کرنا
سورۃ المدثر کی کی ایک آیت کی تفسیر
بارش کے نزول میں تاخیر کے اسباب
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/inna_kafainaka_almustahzieen.pdf
[Urdu Video] https://youtu.be/bRCEpaq6PVI
[Urdu Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/07/inna_kafainaka_almustahzieen.mp3
اے #نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! بےشک ہم آپ کو مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفطہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وعناوین: طارق علی بروہی
مصدر: درس بعنوان: ﴿إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ﴾۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
موضوع کی اہمیت
گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہر صرف آج کی بات نہيں
مشرکین کی طرف سے گستاخی
اہل کتاب کی طرف سے گستاخی
منافقین کی طرف سے گستاخی
شہوات وخواہشات پرست لوگوں کی طرف سے گستاخی
یہ سب مل کر بھی نبئ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کچھ بھی نہيں بگاڑ سکتے
پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقام محمود
اللہ تعالی نے اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر ہمیشہ کے لیے بلند فرمادیا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ہی ذلیل ورسوا رہیں گے
گستاخوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلے میں اللہ تعالی ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی ہے
یہود و نصاریٰ کی تاریخ ہی اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ گستاخیوں اور نافرمانیوں سے عبارت ہے
یہودیوں کی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ایذاء رسانی
نصاریٰ کی انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو ایذاء رسانی
اہل کتاب کی طرف سے گستاخیاں حیرت کی بات نہيں
امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی مطلوب ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نصرت کریں
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقے
مومنین کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایذاء رسانی سے خبردار کیاگیا ہے
ادبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تقاضے
نصرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغازاپنے نفس کے ساتھ کیا جائے
جانثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثال
یہود و نصاریٰ کے تقارب بین الادیان اور دوستی کے جھوٹے دعوؤں سے دھوکہ نہ کھائیں
سوالات
دفاع نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شرعی ضوابط کے ساتھ منضبط کرنا
گستاخئ رسول کرنے والے ممالک کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے، ان کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا حکم؟
گمراہ داعیان اور جماعتوں کی طرف سے نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانفرنسس کی حیثیت
گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسئلے کے تعلق سے تعلیمی اداروں کے طلبہ کی رہنمائی
نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بعض عبارتیں لکھنے اور لٹکانے کا حکم
نصرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سلسلے میں کارگر اسالیب
یہود و نصاریٰ پر عمومی ہلاکت کی بددعاء کرنے کا حکم
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بلندی کی دعاء کرنے کا حکم
یورپ میں رہتے ہوئے گستاخئ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آئے دن سننا
گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافر کے قتل کا حکم
اسلامی چینلز کو نصیحت
کیا صرف خلوت منع ہے اختلاط نہیں؟!
اپنی اولاد کو خارجی افکار والوں کی صحبت سے بچانا
اہل بدعت کی تعزیت کا حکم
کافر کی غیبت کا حکم
کیا فوت شدگان اپنی زیارت کرنے والوں کو سن سکتے ہيں اور ان کی خبریں جانتے ہيں
اگر مسجد میں اس وقت داخل ہوں جبکہ امام آخری تشہد میں ہوتو کیا کیا جائے
اہل بدعت کا سلفیوں کو مختلف القاب دینا
حقیقی علماء اور نام نہاد علماء میں امتیاز
کفار کے شعار کنندہ ہوئی چیز کے استعمال کا حکم
کیا جہاد کے مسائل اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری علماء سے بہتر جانتے ہيں!
آکو پنچر علاج کا کیا حکم
خواتین کا نماز میں ہتھیلیاں اور قدم نہ ڈھانپنا
کیا چہرے کا پردہ اختلافی مسئلہ ہے
کئی برس مریض رہنے والا کیا روزے کی قضاء رکھے
سورج اور چاند گرہن کے تعلق سے غلط فہمی پھیلانا
مہینے کے اکثر ایام میں حیض کا جاری رہنا
زیتوں کے تیل کی زکوٰۃ
تجارتی انشورنس کا حکم
طلبہ کو ان کے حق سے زیادہ مارکس دینا
اللہ تعالی سے مخلوق کے حق کے واسطے سے سوال کرنا
سورۃ المدثر کی کی ایک آیت کی تفسیر
بارش کے نزول میں تاخیر کے اسباب
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/inna_kafainaka_almustahzieen.pdf
[Urdu Video] https://youtu.be/bRCEpaq6PVI
[Urdu Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/07/inna_kafainaka_almustahzieen.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] Celebrating #prophet's_birthday is an imitation of Christians and an innovation – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#جشن_عید_میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا نصاریٰ کی کرسمس کی مشابہت اوربدعت ہے
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/jashn_eid_milaad_nabi_bidat_nasara_mushabihat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سچ فرمایا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ‘‘([1])
(تم ضرور گذشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع کرو گے)۔
جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا سراسر عیسائیوں کی تقلید ہے اس لئے کہ عیسائی سیدنا مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت کا دن مناتے ہیں۔ اسلام میں یہ چیز نہیں ہے لیکن اکثر جاہل مسلمان اور گمراہ کن علماء ہر سال ماہ ربیع الاول کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے جشن و جلوس کرنے لگے ہیں۔ بعض لوگ تو اس طرح کے جلسے مسجد ہی میں منعقد کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنے گھروں میں یا اس کام کے لئے مخصوص کی گئی جگہوں میں بڑے اہتمام سے منعقد کرتے ہیں ۔جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کا ہجوم ہوتاہے اور یہ سب کچھ نصاریٰ کی تقلید و نقل میں کرتے ہیں۔ نصاریٰ جس طرح سیدناعیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی میلاد(کرسمس) مناتے ہیں ٹھیک اسی طرح مسلمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد مناتے ہیں اور میلاد کی ہر چیز میں ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ جبکہ اس طرح کے جشن و جلوس میں بدعت و خرافات اور نصاریٰ کی تقلید ہونے کے علاوہ بھی ہزاروں طرح کے شرکیہ اعمال کئے جاتے ہیں اور منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ایسے نعتیہ کلام پیش کئے جاتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں غلو ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے دعائیں مانگی جاتی ہے، اور استغاثہ کیا جاتا ہے ،جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مدح وتعریف میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([2])
(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاری نے ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو)۔
اور کبھی تو ایسی محافل میں مردوزن کا اختلاط ، فسادِ اخلاق اور منشیات بھی عام ہوتی ہیں۔
لفظ’’الإطراءُ‘‘ جو حدیث میں آیا ہے اس کے معنی ہے: ’’الغُلُوّ في المدح‘‘ (مدح و تعریف میں غلو کرنا)، میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن و جلوس میں عموماً لوگ یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمبذاتِ خود اس محفل میں تشریف لاتے ہیں، اس کے علاوہ اس کی دوسری برائیاں یہ ہیں کہ ان میں لوگ اجتماعی طور پر نعت خوانی و اناشید(نظم خوانی اور قوالی) کرتے ہیں۔ طبلے وغیرہ بجائے جاتے ہیں اور صوفیوں بدعتیوں کے اذکار و اور اد پڑھے جاتے ہیں۔ اس میں مرد و زن کا اختلاط بھی ہوتا ہے،جس سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے ،لوگوں کا فواحش میں پڑنے کا پورا خطرہ رہتا ہے، اگر یہ محفلیں ان تمام برائیوں سے پاک بھی ہوں تو بھی لوگو ں کا اس بات کے لئے جمع ہونا اجتماعی طور پر کھانا پینا ،خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ایک بدعت ہے اور دین میں ایک نئی چیز ایجاد کرنا ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([3])
(دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
اور آہستہ آہستہ اس طرح کے جلسوں میں منکرات اور برائیوں کا در آنا یقینی بات ہے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔
ہم یہ بتاچکے ہیں کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا ایک بدعت ہے، اس لئے کہ کتاب و سنت ، سلف صالحین اور خیر القرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ یہ چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہےاور شیعہ فاطمیوں نے اسے ایجاد کیا ہے امام ابو حفص تاج الدین الفاکہانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے:
#جشن_عید_میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا نصاریٰ کی کرسمس کی مشابہت اوربدعت ہے
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/jashn_eid_milaad_nabi_bidat_nasara_mushabihat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سچ فرمایا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ‘‘([1])
(تم ضرور گذشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع کرو گے)۔
جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا سراسر عیسائیوں کی تقلید ہے اس لئے کہ عیسائی سیدنا مسیح علیہ الصلاۃ والسلام کی ولادت کا دن مناتے ہیں۔ اسلام میں یہ چیز نہیں ہے لیکن اکثر جاہل مسلمان اور گمراہ کن علماء ہر سال ماہ ربیع الاول کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے جشن و جلوس کرنے لگے ہیں۔ بعض لوگ تو اس طرح کے جلسے مسجد ہی میں منعقد کرتے ہیں اور بعض لوگ اپنے گھروں میں یا اس کام کے لئے مخصوص کی گئی جگہوں میں بڑے اہتمام سے منعقد کرتے ہیں ۔جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کا ہجوم ہوتاہے اور یہ سب کچھ نصاریٰ کی تقلید و نقل میں کرتے ہیں۔ نصاریٰ جس طرح سیدناعیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی میلاد(کرسمس) مناتے ہیں ٹھیک اسی طرح مسلمان بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میلاد مناتے ہیں اور میلاد کی ہر چیز میں ان کی تقلید کرتے ہیں ۔ جبکہ اس طرح کے جشن و جلوس میں بدعت و خرافات اور نصاریٰ کی تقلید ہونے کے علاوہ بھی ہزاروں طرح کے شرکیہ اعمال کئے جاتے ہیں اور منکرات کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ ایسے نعتیہ کلام پیش کئے جاتے ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں غلو ہوتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سے دعائیں مانگی جاتی ہے، اور استغاثہ کیا جاتا ہے ،جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مدح وتعریف میں غلو کرنے سے منع فرمایا ہے:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([2])
(دیکھو میری تعریف میں غلو نہ کرنا، جس طرح نصاری نے ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کی تعریف میں غلو کیا ہے، بے شک میں بندہ ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہی کہا کرو)۔
اور کبھی تو ایسی محافل میں مردوزن کا اختلاط ، فسادِ اخلاق اور منشیات بھی عام ہوتی ہیں۔
لفظ’’الإطراءُ‘‘ جو حدیث میں آیا ہے اس کے معنی ہے: ’’الغُلُوّ في المدح‘‘ (مدح و تعریف میں غلو کرنا)، میلا دالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جشن و جلوس میں عموماً لوگ یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمبذاتِ خود اس محفل میں تشریف لاتے ہیں، اس کے علاوہ اس کی دوسری برائیاں یہ ہیں کہ ان میں لوگ اجتماعی طور پر نعت خوانی و اناشید(نظم خوانی اور قوالی) کرتے ہیں۔ طبلے وغیرہ بجائے جاتے ہیں اور صوفیوں بدعتیوں کے اذکار و اور اد پڑھے جاتے ہیں۔ اس میں مرد و زن کا اختلاط بھی ہوتا ہے،جس سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے ،لوگوں کا فواحش میں پڑنے کا پورا خطرہ رہتا ہے، اگر یہ محفلیں ان تمام برائیوں سے پاک بھی ہوں تو بھی لوگو ں کا اس بات کے لئے جمع ہونا اجتماعی طور پر کھانا پینا ،خوشی و مسرت کا اظہار کرنا ایک بدعت ہے اور دین میں ایک نئی چیز ایجاد کرنا ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’وَكُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([3])
(دین میں ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
اور آہستہ آہستہ اس طرح کے جلسوں میں منکرات اور برائیوں کا در آنا یقینی بات ہے جیسا کہ عموماً ہوتا ہے۔
ہم یہ بتاچکے ہیں کہ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا ایک بدعت ہے، اس لئے کہ کتاب و سنت ، سلف صالحین اور خیر القرون میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ یہ چوتھی صدی ہجری کی پیداوار ہےاور شیعہ فاطمیوں نے اسے ایجاد کیا ہے امام ابو حفص تاج الدین الفاکہانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے:
[#SalafiUrduDawah Article] #Prohibition_of_exaggeration and neglectfulness in praising #Rasoolullaah صلي الله عليه وآله وسلم – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی #تعریف_میں_افراط_وتفریط کی ممانعت
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_tareef_afraat_tafreet.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
غلو کہتے ہیں:
’’تجاوز الحد ، يُقالُ : غَلا غُلُوًّا ، إذا تجاوز الحد في القدر‘‘
(حد سے تجاوز کرجانے کو، کوئی شخص جب اندازہ میں حد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کے لئے غلو کا لفظ استعمال ہوتا ہے)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ﴾ (النساء:171)
(اپنے دین(کی بات) میں حد سے نہ بڑھو)
اور اطراء کہتے ہیں:
’’مجاوزة الحدِّ في المدح ، والكذب فيه‘‘
( کسی کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ جانے کو اور اس میں جھوٹ ملانے کو)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی قدرو منزلت کے تعیین میں حد سے تجاوز ہو جائے۔ اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبدیت و رسالت کے رتبے سے آگے بڑھا دیا جائے اور کچھ الٰہی خصائص و صفات آپ کی طرف منسوب کر دیئے جائیں۔ مثلاً آپ کو مدد کے لئے پکارا جائے، اور اللہ تعالیٰ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ (فریاد) کی جائے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی جائے وغیرہ۔
اسی طرح آپ کے حق میں مبالغہ سے مراد یہ ہے کہ آپ کی مدح و توصیف میں اضافہ کر دیا جائے، اس چیز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود روک دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([1])
(میری حد سے زیادہ تعریف نہ کیا کرو جیسا کہ نصاری نے ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے بارے میں کہا۔ میں تو بس ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
یعنی باطل اوصاف سے میری تعریف نہ کرنا اور میری تعریف میں غلو نہ کرنا جیسا کہ نصاری نے سیدنا عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام کی تعریف میں کیا ہے کہ ان کو الوہیت کے درجہ تک پہنچا دیا، دیکھو تم میری اس طرح تعریف کرو جس طرح کہ میرے رب نے میری تعریف کی ہے۔ لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اللہ کا رسول کہا کرو، یہی وجہ ہے کہ ایک صحابی نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ:
’’أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: السَّيِّدُ اللَّهُ‘‘
( آپ ہمارے سید (سردار) ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سید تو اللہ تعالیٰ ہے)
اور جب انہوں نے کہا کہ:
’’أَفْضَلُنَا فَضْلًا وَأَعْظَمُنَا طَوْلًا، فَقَالَ: قُولُوا بِقَوْلِكُمْ أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ‘‘([2])
(ہم میں سے افضل اور سب سے بڑے ہیں درجے کے اعتبار سے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو تم عام طور پر کہتے ہو ویسے ہی کہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس معاملہ میں شیطان تمہیں اپنا وکیل بنالے)۔
اسی طرح کچھ لوگوں نے آپ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
’’يَا خَيْرَنَا وَابْنَ خَيْرِنَا، وَيَا سَيِّدَنَا وَابْنَ سَيِّدِنَا‘‘
(اے ہم میں کے سب سے بہتر اور ہم میں کے سب سے بہتر کے بیٹے اور ہمارے سردار و ہمارے سردار کے بیٹے !)
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا بِقَوْلِكُمْ وَلا يَسْتَهْوِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ،أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ مَا أَحَبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي الَّتِي أَنْزَلَنِي اللَّهُ‘‘([3])
(اے لوگو! جو تم عام طور پر میرے متعلق کہتے ہو وہی کہو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے، میں محمد ہوں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے اپنی اس قدرو منزلت سے آگے بڑھا دو، جس پر اللہ رب العزت نے مجھے رکھا ہے)۔
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی #تعریف_میں_افراط_وتفریط کی ممانعت
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_tareef_afraat_tafreet.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
غلو کہتے ہیں:
’’تجاوز الحد ، يُقالُ : غَلا غُلُوًّا ، إذا تجاوز الحد في القدر‘‘
(حد سے تجاوز کرجانے کو، کوئی شخص جب اندازہ میں حد سے آگے بڑھ جاتا ہے تو اس کے لئے غلو کا لفظ استعمال ہوتا ہے)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿لاَ تَغْلُواْ فِیْ دِیْنِکُمْ﴾ (النساء:171)
(اپنے دین(کی بات) میں حد سے نہ بڑھو)
اور اطراء کہتے ہیں:
’’مجاوزة الحدِّ في المدح ، والكذب فيه‘‘
( کسی کی تعریف میں حد سے آگے بڑھ جانے کو اور اس میں جھوٹ ملانے کو)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی قدرو منزلت کے تعیین میں حد سے تجاوز ہو جائے۔ اس طور پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عبدیت و رسالت کے رتبے سے آگے بڑھا دیا جائے اور کچھ الٰہی خصائص و صفات آپ کی طرف منسوب کر دیئے جائیں۔ مثلاً آپ کو مدد کے لئے پکارا جائے، اور اللہ تعالیٰ کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے استغاثہ (فریاد) کی جائے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم کھائی جائے وغیرہ۔
اسی طرح آپ کے حق میں مبالغہ سے مراد یہ ہے کہ آپ کی مدح و توصیف میں اضافہ کر دیا جائے، اس چیز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود روک دیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَم ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ فَقُولُوا: عَبْدُ اللهِ وَرَسُولُه‘‘([1])
(میری حد سے زیادہ تعریف نہ کیا کرو جیسا کہ نصاری نے ابن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے بارے میں کہا۔ میں تو بس ایک بندہ ہی ہوں لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو)۔
یعنی باطل اوصاف سے میری تعریف نہ کرنا اور میری تعریف میں غلو نہ کرنا جیسا کہ نصاری نے سیدنا عیسٰی علیہ الصلاۃ والسلام کی تعریف میں کیا ہے کہ ان کو الوہیت کے درجہ تک پہنچا دیا، دیکھو تم میری اس طرح تعریف کرو جس طرح کہ میرے رب نے میری تعریف کی ہے۔ لہٰذا مجھے اللہ کا بندہ اور اللہ کا رسول کہا کرو، یہی وجہ ہے کہ ایک صحابی نے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ:
’’أَنْتَ سَيِّدُنَا، فَقَالَ: السَّيِّدُ اللَّهُ‘‘
( آپ ہمارے سید (سردار) ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سید تو اللہ تعالیٰ ہے)
اور جب انہوں نے کہا کہ:
’’أَفْضَلُنَا فَضْلًا وَأَعْظَمُنَا طَوْلًا، فَقَالَ: قُولُوا بِقَوْلِكُمْ أَوْ بَعْضِ قَوْلِكُمْ، وَلَا يَسْتَجْرِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ‘‘([2])
(ہم میں سے افضل اور سب سے بڑے ہیں درجے کے اعتبار سے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو تم عام طور پر کہتے ہو ویسے ہی کہو کہیں ایسا نہ ہو کہ اس معاملہ میں شیطان تمہیں اپنا وکیل بنالے)۔
اسی طرح کچھ لوگوں نے آپ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!
’’يَا خَيْرَنَا وَابْنَ خَيْرِنَا، وَيَا سَيِّدَنَا وَابْنَ سَيِّدِنَا‘‘
(اے ہم میں کے سب سے بہتر اور ہم میں کے سب سے بہتر کے بیٹے اور ہمارے سردار و ہمارے سردار کے بیٹے !)
یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا بِقَوْلِكُمْ وَلا يَسْتَهْوِيَنَّكُمُ الشَّيْطَانُ،أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ مَا أَحَبُّ أَنْ تَرْفَعُونِي فَوْقَ مَنْزِلَتِي الَّتِي أَنْزَلَنِي اللَّهُ‘‘([3])
(اے لوگو! جو تم عام طور پر میرے متعلق کہتے ہو وہی کہو کہیں ایسا نہ ہو کہ شیطان تمہیں بہکا دے، میں محمد ہوں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ، میں یہ پسند نہیں کرتا کہ تم مجھے اپنی اس قدرو منزلت سے آگے بڑھا دو، جس پر اللہ رب العزت نے مجھے رکھا ہے)۔
Forwarded from Deleted Account
[Article] The stance of #rationalists regarding the #Sunnah of the prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم- Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق #عقل_پرستوں کا مؤقف
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: موقف العقلانيين من سنة الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sunnat_nabwee_aqalparast_moaqqaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کی طرف دعوت دی، اور اس کی راہ میں جہاد فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی اس میں مدد وتائید کی یہا ں تک کہ اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا اور اس کا دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا۔ اور ان کے بعد ان کی نیابت ان کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے فرمائی تو مشرق ومغرب میں دعوت وجہاد کو جاری وساری رکھا یہاں تک کہ اسلام چارسو پھیل گیا اور کفر کا قلع قمع ہوا، اور لوگ اپنی رضا ورغبت سے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے ناکہ کسی اکراہ وزبردستی سے۔او رجو کوئی اپنے کفر پر باقی رنے پر مصر تھا تو وہ بھی اسلام کی حکومت کے تحت اپنے ہاتھ سے ذلیل ہوکر جزیہ دے کر رہتا تھا۔ اور تیسرا گروہ وہ تھا جو اسلام کو ظاہر کرتا تاکہ وہ مسلمانوں میں ظاہراً رہے بسے حالانکہ درحقیقت وہ باطن میں کفار کے ساتھ ہوتا، اور یہ گروہ ہے منافقین کا:
﴿مُذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ، لَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ وَلَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ﴾ (النساء: 143)
(اس کے درمیان متردد ڈگمگا رہے ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف)
اور یہ خالص کافروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ، اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ﴾ (المنافقون: 4)
(یہی اصل دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ انہیں ہلاک کر ے، کہاں بہکائے جا رہے ہیں)
پس یہ چھپے ہوئے دشمن ہیں جو ظاہر باہر دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم کی بہت سی سورتوں اور آیات میں ان کا پردہ چاک فرمایا اور بھانڈا پھوڑ دیا جو تاقیامت تلاوت کی جاتی رہیں گی۔
ان کے ورثاء ہمارے اس وقت میں بہت سے گروہ ہيں جو اپنے رجحانات اور ثقافتوں میں مختلف ہی سہی لیکن اسلام دشمنی میں منافقین کے ساتھ متفق ہيں۔ اس طور پر کہ وہ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ چلنے والے کو متشدد اور تکفیری کہتے پھرتے ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت وبصیرت پرہو۔، اور دوسری طرف جو اپنے دین میں سست ہو، اور بہت سے ان دینی واجبات میں لاپرواہی برتتا ہو جن کو وہ دین اس پر لاگو کرتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتا ہے، تو ایسوں کو یہ آزاد خیال اور روشن خیال کہتے ہيں۔ چناچہ اس بنیاد پر وہ ان شرعی احکام کو جو جلیل القدر علماء کرام نے مدون فرمائے ہیں جمود، بوجھ اور دقیانوسی ملّااِزم وغیرہ سمجھتے ہيں۔ایک نئی فقہ کی طرف دعوت دیتے ہیں جسے وہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں۔ بلکہ ان کی بےحیائی تو اس حد سے تجاوز کرکے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ احادیث صحیحہ پر عمل کو ترک کرتے ہيں، اور اس کی حجیت کے قائل نہيں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ عقل کے خلاف ہیں۔ آخر وہ کس عقل کی بات کرتے ہیں! وہ اپنی کوتاہ اور آلودہ عقل کی بات کرتے ہيں ناکہ عقل سلیم کی۔ کیونکہ عقل سلیم کبھی بھی صحیح احادیث کی مخالفت نہيں کرتی جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’عقل صریح کبھی بھی نقل صحیح کی مخالفت نہيں کرتی، اگر اختلاف واقع ہو تو اس کی وجہ یا تو عقل غیر صریح ہوگی یا پھر نقل غیر صحیح ہوگی‘‘۔
یہ تو ایک بات رہی، ساتھ میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی شریعت لے کر آئی ہے ضروری نہيں کہ عقل کی اس تک رسائی ہو، کیونکہ بعض ایسے بھی امور ہوتے ہيں کہ انسانی عقل ان کا ادراک نہيں کرسکتی۔ پس ہمارے ذمے جو بات واجب ہے وہ یہ کہ ہم اسے تسلیم کریں اور اپنی حد تک رک جائیں۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’أيها الناس اتهموا الرأي في الدين، فلو رأيتني يوم أبي جندل أن أرد أمر رسول الله فاجتهد ولا آلو‘‘([1])
(اے لوگو! دین میں اپنی رائے کو غلط سمجھو، میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحکم کو رد کرسکتا تو بھرپور کوشش کرتا اور کوئی کسر نہ چھوڑتا (لیکن شرعی حکم ہر حال میں واقعی ہماری عقل سے اعلیٰ اور بہتر ہے))۔
#سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق #عقل_پرستوں کا مؤقف
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: موقف العقلانيين من سنة الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sunnat_nabwee_aqalparast_moaqqaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کی طرف دعوت دی، اور اس کی راہ میں جہاد فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی اس میں مدد وتائید کی یہا ں تک کہ اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا اور اس کا دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا۔ اور ان کے بعد ان کی نیابت ان کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے فرمائی تو مشرق ومغرب میں دعوت وجہاد کو جاری وساری رکھا یہاں تک کہ اسلام چارسو پھیل گیا اور کفر کا قلع قمع ہوا، اور لوگ اپنی رضا ورغبت سے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے ناکہ کسی اکراہ وزبردستی سے۔او رجو کوئی اپنے کفر پر باقی رنے پر مصر تھا تو وہ بھی اسلام کی حکومت کے تحت اپنے ہاتھ سے ذلیل ہوکر جزیہ دے کر رہتا تھا۔ اور تیسرا گروہ وہ تھا جو اسلام کو ظاہر کرتا تاکہ وہ مسلمانوں میں ظاہراً رہے بسے حالانکہ درحقیقت وہ باطن میں کفار کے ساتھ ہوتا، اور یہ گروہ ہے منافقین کا:
﴿مُذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ، لَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ وَلَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ﴾ (النساء: 143)
(اس کے درمیان متردد ڈگمگا رہے ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف)
اور یہ خالص کافروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ، اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ﴾ (المنافقون: 4)
(یہی اصل دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ انہیں ہلاک کر ے، کہاں بہکائے جا رہے ہیں)
پس یہ چھپے ہوئے دشمن ہیں جو ظاہر باہر دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم کی بہت سی سورتوں اور آیات میں ان کا پردہ چاک فرمایا اور بھانڈا پھوڑ دیا جو تاقیامت تلاوت کی جاتی رہیں گی۔
ان کے ورثاء ہمارے اس وقت میں بہت سے گروہ ہيں جو اپنے رجحانات اور ثقافتوں میں مختلف ہی سہی لیکن اسلام دشمنی میں منافقین کے ساتھ متفق ہيں۔ اس طور پر کہ وہ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ چلنے والے کو متشدد اور تکفیری کہتے پھرتے ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت وبصیرت پرہو۔، اور دوسری طرف جو اپنے دین میں سست ہو، اور بہت سے ان دینی واجبات میں لاپرواہی برتتا ہو جن کو وہ دین اس پر لاگو کرتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتا ہے، تو ایسوں کو یہ آزاد خیال اور روشن خیال کہتے ہيں۔ چناچہ اس بنیاد پر وہ ان شرعی احکام کو جو جلیل القدر علماء کرام نے مدون فرمائے ہیں جمود، بوجھ اور دقیانوسی ملّااِزم وغیرہ سمجھتے ہيں۔ایک نئی فقہ کی طرف دعوت دیتے ہیں جسے وہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں۔ بلکہ ان کی بےحیائی تو اس حد سے تجاوز کرکے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ احادیث صحیحہ پر عمل کو ترک کرتے ہيں، اور اس کی حجیت کے قائل نہيں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ عقل کے خلاف ہیں۔ آخر وہ کس عقل کی بات کرتے ہیں! وہ اپنی کوتاہ اور آلودہ عقل کی بات کرتے ہيں ناکہ عقل سلیم کی۔ کیونکہ عقل سلیم کبھی بھی صحیح احادیث کی مخالفت نہيں کرتی جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’عقل صریح کبھی بھی نقل صحیح کی مخالفت نہيں کرتی، اگر اختلاف واقع ہو تو اس کی وجہ یا تو عقل غیر صریح ہوگی یا پھر نقل غیر صحیح ہوگی‘‘۔
یہ تو ایک بات رہی، ساتھ میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی شریعت لے کر آئی ہے ضروری نہيں کہ عقل کی اس تک رسائی ہو، کیونکہ بعض ایسے بھی امور ہوتے ہيں کہ انسانی عقل ان کا ادراک نہيں کرسکتی۔ پس ہمارے ذمے جو بات واجب ہے وہ یہ کہ ہم اسے تسلیم کریں اور اپنی حد تک رک جائیں۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’أيها الناس اتهموا الرأي في الدين، فلو رأيتني يوم أبي جندل أن أرد أمر رسول الله فاجتهد ولا آلو‘‘([1])
(اے لوگو! دین میں اپنی رائے کو غلط سمجھو، میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحکم کو رد کرسکتا تو بھرپور کوشش کرتا اور کوئی کسر نہ چھوڑتا (لیکن شرعی حکم ہر حال میں واقعی ہماری عقل سے اعلیٰ اور بہتر ہے))۔