Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.13K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.91K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
#SalafiUrduDawah
#علم حاصل کرنا #عمل اور #دعوت سے پہلے ہے، اور جو اس سے ابتداء نہیں کرتا تو وہ #اصلاح سے زیادہ #بگاڑ پیدا کرتا ہے
#ilm hasil karna #amal aur #dawat say pehlay hai, aur jo is say ibtida nahi karta to wo #islah say zada #bigad paida karta hai
shaykh alee bin yahyaa #al_haddaadee
#40_ahadees
#madhab_e_salaf
[#SalafiUrduDawah Article] #Virtues and #rulings of the #first_ten_days of #DhilHajjah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
ماہِ #ذوالحج کے #ابتدائی_دس_ایام کی #فضیلت و #احکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ پر موجود حج سے متعلق خطبات جمعہ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/zilhajj_10_din_fazail_ahkam.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔ اے مسلمانو! ہم ان دنوں فضیلت والے ایام کے استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں یعنی ماہ ذوالحج کا پہلا عشرہ کہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘([1])
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
پس اے مسلمانو! ذوالحج کے ان دس دنوں میں باکثرت ذکر الہی کرو اور اس کی تکبیر(اللہ اکبر)، تحمید (الحمدللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پڑھو، تلاوت قرآن، نماز وصدقہ خیرات وغیرہ جیسے اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ تاکہ تم ان کاموں کو ادا کرنے والے بن جاؤ کہ جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ ان نیک اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان ایام میں روزے رکھو کیونکہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین ہے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ:
’’ كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ‘‘([2])
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحج کے نو دن روزے رکھتے تھے)۔
کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ‘‘([3])
(ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس گنا ہے سوائے روزے کے کیونکہ وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا)۔
لیکن اگر کسی کے رمضان کے قضاء روزے باقی ہوں تو وہ نفلی روزوں سے پہلے ان فرض قضاء روزوں سے ابتداء کرے۔ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کی قضاء ان دس دنوں میں ادا کردے بہرحال اسے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ ایک فرض روزہ ادا کررہا ہے۔
یہ بات جان لیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص حج ادا نہیں کررہا تو اس کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں قربانی ادا کرے، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اسی طرح سے صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آیا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
’’والأضحية سنَّة مؤكدة‘‘([4])
(اور قربانی سنت مؤکدہ ہے)۔
لیکن صرف زندہ لوگوں کے لیے جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آنے والے دلائل سے واضح ہوگا۔
آپ سے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ اللہ تعالی کی رحمت، نعمت ولطف وکرم میں سے ہے کہ اس نے اسے اپنے بالوں یا ناخنوں یا جلد میں سے کچھ بھی کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بالوں میں سے کچھ تراشے خواہ سر کے بال ہوں یا مونچھوں، بغل یا زیر ناف بال۔ اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی اپنی جلد میں سے کچھ تراشے جیسا کہ بعض لوگ اپنی زیریں پشت یا ران کے پچھلے حصے کی جانب سے نوچتے ہیں۔ انہیں نہ توڑے اور نہ نوچے کیونکہ یہ ذوالحج کے ان دس ایام میں حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اور جان لیں کہ یہ منع کرنا اللہ تعالی کی ہمارے ساتھ رحمت ہے جس پر ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ اس طور پر رحمت ہے کہ ہم حجاج کرام کے ساتھ شعائر حج میں سے بعض اعمال میں مشارکت اختیار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حجاج کو اپنے سر منڈانا منع ہوتا ہے اسی طرح سے جو قربانی کرتا ہے اسے بھی اپنے
بالوں یا ناخنوں یا جلد میں کسی بھی قسم کی تراش خراش منع ہے، تاکہ حج نہ کرسکنے کے باوجود اس کے ذریعہ وہ بھی حاجیوں کے ساتھ اگرچہ قلیل ہی کیوں نہ ہومشارکت اختیار کرسکیں ، پس یہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ہے۔ اور اس بات سے اس کا نعمت الہی ہونا آپ پر مزید واضح ہوگا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں منع نہ کرتے تو اسے عبادت کے طور پر ترک کرنا ایک بدعت کہلاتا۔ لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے خود منع فرمادیا تو اسے چھوڑنا ایک عبادت کہلائے گا جس پر انسان کو اجروثواب حاصل ہوگا([5])۔
اے لوگو! یہ بات بھی جان لو کہ اپنے بالوں، ناخنوں یا جلد میں تراش خراش سے منع صرف اس کے لیے خاص ہے جو قربانی کررہا ہو ناکہ جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہو۔ البتہ جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے یعنی خاندان کی طرف سے تو ان پر اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد کی تراش خراش کرلینے پر کوئی پابندی نہیں۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اسے منع فرمایا ہے جو قربانی کررہا ہے انہیں منع نہیں فرمایا جن کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے قربانی کیا کرتے تھے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں یہ منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کو بھی اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد کی تراش خراش کرنے سے منع فرمایا ہو۔ پس یہ دلیل ہے کہ گھر والوں پر حرام نہیں کہ وہ اپنے بالوں، ناخنوں یا جلدکی تراش خراش کرلیں۔ کیونکہ شریعت میں بھی اصل حکم کسی بھی عمل سے برئ الذمہ ہونا اور حلال ہونا ہے یہاں تک کہ اس کی حرمت کی دلیل مل جائے۔
اے مسلمانو! بعض جاہل لوگ جنہیں اللہ تعالی نے داڑھی مونڈنے کے جرم میں اصرار کرنے پر مبتلا کررکھا ہے۔ حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی، انبیاء ومرسلین وصالحین کے طرز عمل کی مخالفت اور مجوسیوں ومشرکوں کے طرز عمل کی موافقت ہے۔ پس داڑھی مونڈنا حرام ہے اور یہ مسلمانوں کے شعار کے مخالف ہے۔
لہذا ان جاہلوں میں سے ہم نے بعض کے بارے میں سنا ہے کہ وہ قربانی اس خوف سے ترک کردیتے ہیں کہ انہیں ان دس دنوں میں اپنی داڑھی کاٹنی ہوتی ہے حالانکہ یہ نری حماقت ہے۔ کیسے اتنی عظیم عبادت کو ان دس دنوں میں معصیت الہی کرنے کی خاطر چھوڑتے ہو؟ یہ تو نری حماقت ہے، اے میرے بھائی! اللہ تعالی سے ڈرو۔ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لازم پکڑو، اور میں اپنے ان بھائیوں کے بارے میں پرامید ہوں کہ اگر انہیں پکڑ کر کہا جائے یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے اور یہ مجوسیوں اور مشرکوں کا طریقہ ہے تو وہ ضرور طریقۂ محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کو ترجیح دیں گےاگر واقعی ان سے محبت کرنے والے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ محبت تو کرتے ہیں لیکن عزم وحوصلے کی کمزروی کے سبب ان کی نفسانی خواہشات ان پر غالب آجاتی ہیں ۔ اگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہوں گے تو یقیناً کہیں گے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی جب ان کے سامنے یہ حدیث پڑھی جائے گی:
’’خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ، وَفِّرُوا اللِّحَى وَأَوْفُوا اللِّحَى، وَأَرْخُوا اللِّحَى وَحُفُّوا الشَّوَارِبَ‘‘([6])
(مشرکین کی مخالفت کرو، اور داڑھی کو خوب بڑھاؤ اور معاف کردو (یہ سب الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہیں) اور مونچھوں کو پست کرو)۔
اور مجھے یہ یقینی طور پر علم ہے کہ ان کے یہاں یا ان میں سے بعض کے یہاں اتنا کچھ دینی جذبہ ضرور ہے کہ وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کے حریص ہوں۔ لیکن عزم وارادے کی کمزوری ان کے نفسوں پر غالب آجاتی ہے تو وہ اس داڑھی مونڈھنے کو قبول کرلیتے ہیں۔
ہم اللہ تعالی سے دعاء گو ہیں کہ وہ انہيں اس معصیت کو ترک کرنے میں مدد فرمائے تاکہ وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطیع وفرمانبرادار اور انبیاء وصالحین کے شعار کو اختیار کرنے والے بن جائیں۔ اور عین ممکن ہے کہ اس مناسبت سے یعنی ان دس ایام میں داڑھی مونڈنے سے پرہیز انہیں تاحیات اپنے رب سے ملنے تک چھوڑے رکھنے اور اس سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کا سبب بن جائے۔ ہم پھر اللہ تعالی سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ان کی اس میں مدد فرمائے اور جو کچھ ہوگزرا اس سے درگزر فرمائے۔ اور ہم سب کو دین پر استقامت عطاء فرمائے اور ہمیں اپنی سیدھی راہ کی جانب ہدایت دے، ان کی راہ جن پر اللہ تعالی کا انعام ہوا یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی۔۔۔
[1] أخرجه الإمام البخاري -رحمه الله تعالى- في كتاب الجمعة من حديث ابن عباس رضي الله تعالى عنهما رقم (916)،وأخرجه الإمام الترمذي -رحمه الله تعالى- في سننه في كتاب الصوم رقم (68، وأبو داود في سننه في كتاب الصيام رقم (2082)، وابن ماجة في سننه رقم (1717)، وأخرجه الإمام أحمد في مسنده رقم (1867)، والدارمي في سننه رقم (170 من حديث ابن عباس رضي الله عنهما، ت ط ع .
[2] أخرجه النسائي -رحمه الله تعالى- في سننه عن بعض أزواج النبي -صلى الله
عليه وسلم- في كتاب الصيام باب كيف يصوم ثلاثة أيام من كل شهر وذِكْر اختلاف الناقلين للخبر في ذلك رقم (2374)، ت ط ع
[3] أخرجه الإمام البخاري -رحمه الله تعالى- في كتاب الصوم من حديث أبي هريرة رضي الله تعالى عنه رقم (1771)، وأخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في كتاب الصيام رقم (1942)، ت ط ع .
[4] وأخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في صحيحه في كتاب الأضاحي باب استحباب الضحيَّةوذبحها مباشرة بلا توكيل والتسمية والتكبير من حديث أنس بن مالك -رضي الله تعالى عنه- رقم (3635)، ت ط ع .
[5] أخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في كتاب الأضاحي رقم (2653) من حديث أم سلمة رضي الله تعالى عنها، وأخرجه الإمام أحمد -رحمه الله تعالى- في مسنده رقم (25269) (25359) وأصحاب السنن من حديث أم سلمة رضي الله تعالى عنها، ت ط ع .
[6] أخرجه الإمام البخاري -رحمه الله تعالى- في كتاب اللباس باب إعفاء اللحى (عفواً) كثروا وكثرت أموالهم من حديث ابن عمر رضي الله تعالى عنهما رقم (5442-5443)، ت ط ع ، وأخرجه الإمام مسلم -رحمه الله تعالى- في كتاب الطهارة باب حفظ خصال الفطرة رقم (380-381-382-383) من حديث عبد الله بن عمر وأبي هريرة رضي الله تعالى عنهم أجمعين، ت ط ع..
[#SalafiUrduDawah Article] Restricted and general #Takbeeraat of #Dhul-Hajj and the ruling regarding saying #collective_Takbeeraat – Various #Ulamaa
ماہ #ذوالحج کی مطلق اور مقید #تکبیرات اور #اجتماعی_تکبیرات کہنے کا حکم – مختلف #علماء کرام
فرمان الہی ہے:
﴿وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ۭ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۚ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰى ۭ وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ﴾ (البقرۃ: 203)
(اور اللہ کو چند گنے ہوئے دنوں میں یاد کرو، پھر جو دو دنوں میں جلد چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو تاخیر کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، اس شخص کے لیے جو ڈرے، اور اللہ سے ڈرو اور جان لو کہ بے شک تم اسی کی طرف اکٹھے کیے جاؤ گے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ لفظِ آیت ’’أيام معلومات‘‘ سے ایام العشر (یعنی ذوالحج کے ابتدائی دس دن) مراد ہیں اور لفظ آیت ’’أیام معدودات‘‘ سے ایام تشریق مراد ہیں۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/takbeeraat_dhulhajj_namaz_k_baad_ijtamae.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Should one only concentrate upon #seeking_knowledge instead of knowing about those who oppose the #Salafee_Manhaj? – Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
کیا #منہج کے مخالفین کے بارے میں جاننے کے بجائے صرف #طلب_علم پر توجہ دینی چاہیے؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 2۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال : بعض لوگ نوجوانوں کو صرف طلب علم کی نصیحت وترغیب دیتے رہتے ہيں ناکہ وہ مختلف گروہوں اور احزاب سے تعلق رکھنے والے (اہل سنت و الجماعت کے) مخالفین کی معرفت حاصل کريں، اور وہ یہ کہتے ہيں کہ: اگر ايک نوجوان صرف علم حاصل کرتا رہے تو عنقريب اسے خود ہی مخالف مناہج کی معرفت ہو جائے گی۔ کيا یہ نوجوانوں کے لئے سلفی منہج کے مخالفین لوگوں کی معرفت کے لئے کافی ہے؟
جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/manhaj_mukhalifeen_marifat_talab_ilm_tawajja.pdf
#SalafiUrduDawah
#دین کی #نصرت کے لیے اٹھنے والے ہر شخص سے #فریب_نہ_کھانا یہاں تک کہ اس کا #سنت پر #عمل پیرا ہونا جان نہ لیا جائے
#deen ki #nusrat k liye utnay walay har shakhs say #fareeb_na_khana yahan tak k us ka #sunnat par #amal pera hona jaan na liya jaye
shaykh alee bin yahyaa #al_haddaadee
#40_ahadees
#madhab_e_salaf
#SalafiUrduDawah
#احرام کی حالت میں #موت آنا
#ehraam ki halat may #moat ana
[Urdu Article] Which days are more #virtuous: #First_ten_days of #DhilHajjah or #last_ten_nights of #Ramadaan? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#رمضان کا #آخری_عشرہ افضل ہے یا #ذوالحج کا #ابتدائی_عشرہ؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ الآجری.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/afzal_ramadan_ashrah_ya_dhulhajj.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ان دونوں میں سے کیا افضل ہے: رمضان کا آخری عشرہ یا ذوالحج کا ابتدائی عشرہ؟
جواب: رمضان کا آخری عشرہ رات کے لحاظ سے افضل ہے، کیونکہ اس میں لیلۃ القدر ہے۔ اور ذوالحج کا ابتدائی عشرہ دن کے اعتبار سے افضل ہے، کیونکہ اس میں یوم عرفہ اور یوم النحر (قربانی کا دن) ہے۔ اور یہ دونوں (عرفہ اور یوم النحر) دنیا کے تمام ایام سے افضل ہیں۔ یہی بات اہل علم میں سے محققین علماء کے نزدیک معتمد علیہ ہے۔ جبکہ رمضان کا آخری عشرہ رات کے اعتبار سے افضل ہے کیونکہ اس میں شب قدر ہے جو تمام راتوں سے افضل ہے۔ واللہ المستعان۔
[#SalafiUrduDawah Article] Should we #fast the day of #Arafah with #Saudi or 9th #Dhil_Hijjah in our country? - Various #Ulamaa

کیا ہم یوم #عرفہ کا #روزہ #سعودی کے ساتھ رکھیں یا اپنے ملک کی 9 #ذوالحج کے مطابق؟

مختلف #علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ہمارے ماضی قریب کے علماء کرام میں سے شیخ البانی رحمہ اللہ، فتوی کمیٹی سعودی عرب مع الشیخ ابن باز رحمہ اللہ اس بات کے قائل ہیں کہ عرفہ سعودی عرب میں جب حاجی وقوف عرفہ کرتے ہیں اس کے اعتبار سے ہوگا خواہ آپ کے ملک میں چاند کے حساب سے 8 ذوالحج ہی کیوں نہ ہو۔

جبکہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کے دو اقوال میں سے غالباً آخری قول یہی ہے کہ ہر کوئی اپنے ملک کے اعتبار سے 9 ذوالحج کو روزہ رکھے۔ اللہ اعلم

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/roza_yaum_e_arafah_saudi_sath_ya_9_dhilhajj_apnay_mulk.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] #Sacrifice and the #first_ten_days of #DhulHajj – Various #Ulamaa
#قربانی و #عشرۂ_ذوالحج
مختلف #علماء کرام کے کلام سے ماخوذ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurbani_dhul_hajj_ahkam_mukhtasar.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ واشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا، وبعد:
قربانی
قربانی سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت ہے۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت محمدیہ کو حکم ہوا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
دیگر اعمال کی طرح اس کی قبولیت کی بھی دو شرطیں ہیں:
اخلاص
اللہ تعالی کے لیے اخلاص:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے)
سنت کی اتباع
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی موافقت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسْكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ‘‘ (صحیح بخاری 983،صحیح 1961)
(جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور قربانی کی تو اس نے شرعی قربانی کو پالیا، اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کرلی تو یہ بس بکری کا گوشت ہے(مطلوبہ مسنون قربانی نہيں))۔
عشرۂ ذوالحج کی فضیلت
اللہ تعالی نے ان دس دنوں کی شان وعظمت کی قرآن کریم میں قسم اٹھائی:
﴿وَلَيَالٍ عَشْرٍ﴾ (الفجر: 2)
(اور دس راتوں کی قسم!)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘ (صحیح بخاری 969، صحیح ترمذی 757 اللفظ لہ)
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یارسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
یومِ عرفہ اور اس دن روزے کی فضیلت
’’مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ‘‘ ( مسلم1351)
(کوئی بھی دن یوم عرفہ سے بڑھ کر ایسا نہيں کہ جس میں اللہ تعالی سب سے زیادہ بندوں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطاء فرماتا ہے، اور بے شک اللہ تعالی قریب آتا ہے، پھر ان لوگوں کے ذریعے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے، اور فرماتا ہے کہ: یہ لوگ کیا چاہتے ہيں)۔
اور یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ:
’’صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ‘‘ (صحیح مسلم 1162)
(یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ اس سے ایک سابقہ سال اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is #sacrificing an animal on #Eid_ul_Adhaa an #obligation? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کیا ہر #مسلمان پر #قربانی #واجب ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم: (186)
وشرح زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب الحج/ شريط رقم1
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/kiya_qurbani_wajib_hai.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا ہر مسلمان پر قربانی واجب ہے؟
جواب: قربانی وہ ذبیحہ ہے کہ جس کے ذریعہ ایک انسان عید الاضحی اور اس کے بعد تین ایام میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ اور یہ افضل عبادات میں سے ہے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے اسے نماز کے ساتھ بیان فرمایا:
﴿اِنَّآ اَعْطَيْنٰكَ الْكَوْثَرَ، فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطاء فرمائی۔ پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی کا فرمان :
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ، لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ (الانعام: 162-163)
(کہو کہ بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا ماننے والا ہوں)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قربانیاں ادا فرمائیں ایک اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے اور دوسری اپنی امت میں سے ان پر ایمان لانے والے ہر شخص کی طرف سے ۔ اور لوگوں کو اس پر خوب ابھارا اور ترغیب دلائی۔
قربانی کے واجب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے ۔ ان کے دو قول ہیں:
ان میں سے ایک کہتے ہیں کہ یہ واجب ہے ہر اس شخص پر جو اس کی قدرت رکھتا ہو۔ کیونکہ کتاب اللہ میں اس کا امر (حکم) ہے، فرمان الہی ہے:
﴿ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور جسطرح کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو دوبارہ قربانی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا جس نے نماز سے پہلے قربانی کردی تھی۔ اور اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
’’مَنْ وَجَدَ سَعَةً فَلَمْ يُضَحِّ، فَلا يَقْرَبَنَّ مُصلَّانَا‘‘([1])
(جس کسی کے پاس قربانی کرنے کی وسعت ہو اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہرگز ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ پھٹکے)۔
اور یہ امام ابوحنیفہ کا مذہب ہے، اسی طرح سے امام احمد بن حنبل سے بھی ایک روایت ہے اور اسے ہی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہم اللہ نے اختیار فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں:
(اس کا ظاہر وجوب پر اور قدرت رکھنے کے باوجود اسے ترک کرنے والے کے گنہگار ہونے پر دلالت کرتا ہے)۔
اور کوئی عبادت جو اس درجے کی ہو اسے واقعی یہ لائق ہے کہ وہ واجب ہو۔ اور ہر قدرت رکھنے والے شخص پر یہ لازم ہو۔ پس وجوب کا قول عدم وجوب کے قول کی بنسبت زیادہ ظاہر ہے، لیکن قدرت واستطاعت کی شرط کے ساتھ۔ کسی بھی شخص کے لیے لائق نہیں کہ وہ قدرت رکھتے ہوئے قربانی کو چھوڑ دے، بلکہ بالضرور ایک ہی قربانی اپنے اور اپنے اہل وعیال کی جانب سے کردے۔
[1] مسند احمد 8074، التعلیقات الرضیۃ للالبانی ، صحیح 3/126۔