[#SalafiUrduDawah Article] What is meant by "#Sacrifice" according to #Shariah? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی سے #شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين / شريط رقم22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharai_murad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ’’الاضحیۃ‘‘ (قربانی) سے شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
جواب: اس سے مراد جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرناہے، جسے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ ہی بیان فرمایا ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی کا فرمان :
﴿اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ﴾ (الانعام: 162-163)
(بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
یہاں سے ہمیں ان لوگوں کا قصور ِفہم معلوم ہوتا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں قربانی سے حقیقی مقصود اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ گمان قاصر ہے اور جہالت کی پیداوار ہے۔ جبکہ درحقیقت قربانی سے مراد ذبح کے ذریعہ تقرب الہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد کریں:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے)
#قربانی سے #شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين / شريط رقم22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharai_murad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ’’الاضحیۃ‘‘ (قربانی) سے شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
جواب: اس سے مراد جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرناہے، جسے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ ہی بیان فرمایا ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی کا فرمان :
﴿اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ﴾ (الانعام: 162-163)
(بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
یہاں سے ہمیں ان لوگوں کا قصور ِفہم معلوم ہوتا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں قربانی سے حقیقی مقصود اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ گمان قاصر ہے اور جہالت کی پیداوار ہے۔ جبکہ درحقیقت قربانی سے مراد ذبح کے ذریعہ تقرب الہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد کریں:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے)
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #fasting the day of #Arafah falls on #Friday or #Saturday? – Various #Ulamaa
اگر یوم #عرفہ #جمعہ یا #ہفتے کو ہو تو ان کا #روزہ رکھنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ، تفہیم وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بارے میں فتوی کمیٹی، سعودی عرب، شیخ ابن عثیمین اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے فتاوی جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/arafah_juma_hafta_roza_hukm.pdf
اگر یوم #عرفہ #جمعہ یا #ہفتے کو ہو تو ان کا #روزہ رکھنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ، تفہیم وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بارے میں فتوی کمیٹی، سعودی عرب، شیخ ابن عثیمین اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے فتاوی جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/arafah_juma_hafta_roza_hukm.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Which #sacrifice is more #virtuous? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
کونسی #قربانی #افضل ہے؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى نور على الدرب
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/afzal_qurbani.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کونسی قربانی افضل ہے: گائے یا دنبہ (بھیڑ)؟
جواب: دنبہ افضل ہے اسی طرح سے بکرا بھی۔ اگر وہ گائے یا اونٹ ذبح کرتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو دنبے ذبح فرمایا کرتے تھے۔ اور حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ نحر فرمائے۔
الغرض مقصود یہ ہے کہ بکرے کی قربانی افضل ہے۔ جو کوئی بھی گائے یا اونٹ ذبح کرے گا، گائے سات کی طرف سے اسی طرح سے اونٹ بھی سات کی طرف سے تو یہ قربانی بھی کفایت کرے گی۔
(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم: 419)
سوال: قربانی میں نر جانور افضل ہے یا مادہ؟
جواب: قربانی نر ومادہ دونوں کی مشروع ہےچاہے بکرے میں سے ہو یا بھیڑ، دنبہ، گائے واونٹ میں سے یہ سب مشروع سنت ہیں۔ برابر ہیں چاہے تو نر کرے یا مادہ بکرا ہو یا بکری اسی طرح سے دنبہ ہو یا دنبی، گائے ہو یا بیل اور اونٹ ہو یا اونٹنی، یہ سب کے سب شرعی قربانی کے جانور ہیں بشرطیکہ کہ وہ قربانی کی شرعی عمر کے مطابق ہوں۔ بکرا، گائے اور اونٹ میں سے دودانت کا اور بھیڑ میں سے ایک دانت تک کا جائز ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھیڑ میں سے دو نر ذبح فرمایا کرتے تھے ، پس بھیڑ میں سے نر جانور کی قربانی افضل ہے۔ اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیڑ ہی میں سے دو خصی بھی قربانی فرمایا کرتے تھے، پس خصی مادہ سے افضل ہوئے۔ اور اگر کوئی مادہ جانور بھی ذبح کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ اوربکرا بکری میں سے مادہ افضل ہے البتہ اگر وہ بکرا بھی قربان کردے تو اس نے سنت پوری کردی۔
(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم: 72)
کونسی #قربانی #افضل ہے؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى نور على الدرب
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/afzal_qurbani.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کونسی قربانی افضل ہے: گائے یا دنبہ (بھیڑ)؟
جواب: دنبہ افضل ہے اسی طرح سے بکرا بھی۔ اگر وہ گائے یا اونٹ ذبح کرتا ہے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو دنبے ذبح فرمایا کرتے تھے۔ اور حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو اونٹ نحر فرمائے۔
الغرض مقصود یہ ہے کہ بکرے کی قربانی افضل ہے۔ جو کوئی بھی گائے یا اونٹ ذبح کرے گا، گائے سات کی طرف سے اسی طرح سے اونٹ بھی سات کی طرف سے تو یہ قربانی بھی کفایت کرے گی۔
(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم: 419)
سوال: قربانی میں نر جانور افضل ہے یا مادہ؟
جواب: قربانی نر ومادہ دونوں کی مشروع ہےچاہے بکرے میں سے ہو یا بھیڑ، دنبہ، گائے واونٹ میں سے یہ سب مشروع سنت ہیں۔ برابر ہیں چاہے تو نر کرے یا مادہ بکرا ہو یا بکری اسی طرح سے دنبہ ہو یا دنبی، گائے ہو یا بیل اور اونٹ ہو یا اونٹنی، یہ سب کے سب شرعی قربانی کے جانور ہیں بشرطیکہ کہ وہ قربانی کی شرعی عمر کے مطابق ہوں۔ بکرا، گائے اور اونٹ میں سے دودانت کا اور بھیڑ میں سے ایک دانت تک کا جائز ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھیڑ میں سے دو نر ذبح فرمایا کرتے تھے ، پس بھیڑ میں سے نر جانور کی قربانی افضل ہے۔ اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیڑ ہی میں سے دو خصی بھی قربانی فرمایا کرتے تھے، پس خصی مادہ سے افضل ہوئے۔ اور اگر کوئی مادہ جانور بھی ذبح کرلے تو کوئی حرج نہیں۔ اوربکرا بکری میں سے مادہ افضل ہے البتہ اگر وہ بکرا بھی قربان کردے تو اس نے سنت پوری کردی۔
(من فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم: 72)
[#SalafiUrduDawah Article] #Shariah_ruling regarding #sacrificing a #buffalo – Various #Ulamaa
#بھینس کی #قربانی کا #شرعی_حکم
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/bhens_ki_qurbani_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بھینس گائے سے بہت سی صفات میں مختلف ہوتی ہے جیسا کہ بکرا دنبے سے مختلف ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالی نے سورۃ الانعام میں دنبے اور بکرے میں تو فرق فرمایا لیکن گائےاور بھینس میں نہیں فرمایا، تو کیا بھینس ان آٹھ چوپایوں کے جوڑے میں شامل ہے جن کی قربانی جائز ہے یا پھر ا س کی قربانی جائز نہیں؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
بھینس بھی گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں وہ نام ذکر کیے جو عرب کے یہاں معروف تھے جس میں سے وہ اپنی مرضی سے جو چاہتے حرام کرتے پھرتے اور جسے چاہتے جائز بناتے۔ لیکن یہ بھینس عرب کے یہاں معروف نہیں تھی (یعنی اس لیے الگ سے ذکر نہيں فرمایا)۔
(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين س 17، ج 25، ص34)
سوال: بھینس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ:
بھینس بھی گائے ہی میں سے ہے۔
(شرح سنن الترمذي شريط 172)
#بھینس کی #قربانی کا #شرعی_حکم
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/bhens_ki_qurbani_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بھینس گائے سے بہت سی صفات میں مختلف ہوتی ہے جیسا کہ بکرا دنبے سے مختلف ہوتا ہے، لیکن اللہ تعالی نے سورۃ الانعام میں دنبے اور بکرے میں تو فرق فرمایا لیکن گائےاور بھینس میں نہیں فرمایا، تو کیا بھینس ان آٹھ چوپایوں کے جوڑے میں شامل ہے جن کی قربانی جائز ہے یا پھر ا س کی قربانی جائز نہیں؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
بھینس بھی گائے کی ہی ایک قسم ہے۔ اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں وہ نام ذکر کیے جو عرب کے یہاں معروف تھے جس میں سے وہ اپنی مرضی سے جو چاہتے حرام کرتے پھرتے اور جسے چاہتے جائز بناتے۔ لیکن یہ بھینس عرب کے یہاں معروف نہیں تھی (یعنی اس لیے الگ سے ذکر نہيں فرمایا)۔
(مجموع فتاوى ورسائل العثيمين س 17، ج 25، ص34)
سوال: بھینس کی قربانی کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ:
بھینس بھی گائے ہی میں سے ہے۔
(شرح سنن الترمذي شريط 172)
[#SalafiUrduDawah Article] One #sacrifice is sufficient on behalf of the members of a household – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
تمام گھر والو ں کی طرف سے صرف ایک #قربانی کفایت کرتی ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى نور على الدرب > المجلد الثامن عشر > كتاب الحج وكتاب الجهاد > بيان إجزاء الذبيحة الواحدة في الأضحية عن الأسرة.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/tamam_ghar_walo_ki_traf_say_aik_qurbani_kafi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا ایک قربانی میرے اور میرے والد کی طرف سے کافی ہے، یہ بات مدنظر رہے کہ میں شادی شدہ ہوں، اور میری اپنی بھی فیملی ہے، اسی طرح سے والد کی اپنی فیملی ہے؟
جواب: اگر آپ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں تو پھر ایک ہی قربانی آپ دونوں کی طرف سے کافی ہے، یہ سنت آپ کی طرف سے، آپ کے والد، آپ کی بیویوں اور اولاد کی طرف سے ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر آپ کا مستقل الگ گھر ہے اور والد صاحب کا بھی الگ مستقل گھر ہے تو پھر سنت یہ ہے کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اور اپنے اہل عیال کی طرف سے اپنے اپنے گھر میں الگ قربانی کریں۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دو بڑے موٹے تازے، سینگوں والے، چتکبرے (سفید وسیاہ مخلوط رنگت والے) دنبے ذبح فرمائے، ایک اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے ، اور دوسرا امت محمدﷺ کی طرف سے۔ جلیل القدر صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"كنا في عهد النبي صلى الله عليه وسلم نضحي بشاة واحدة، يضحي بها الرجل عنه وعن أهل بيته"([1])
(ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک ہی بکری ذبح کرتے تھے، جو ایک شخص اپنے او راپنے اہل وعیال کی طرف سے ذبح کیا کرتا تھا)۔
سوال: بھائی خ –خ فلسطین سے سوال کرتے ہیں کہ میں اپنے بھائیوں اور والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں، ہمارے ساتھ ہمارا ایک بھائی جو کہ شادی شدہ ہے وہ بھی رہتا ہے اور اس کے بچے بھی ہیں، پس میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک ہی قربانی یعنی جو میرے والد کرتے ہيں وہ ہم تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوگی، یا پھر میرے شادی شدہ بھائی کو الگ سے قربانی کرنی ہوگی؟
جواب: ایک قربانی ایک گھر کے تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوتی ہے اگرچہ ان کی تعداد سو ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا اگر وہ ایک قربانی ذبح کرتا ہے تو وہ اس کی طرف سے، اس کی بیوی، اولاد اور تمام گھر والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ایک ہی بکری کیوں نہ ہو وہ کفایت کرتی ہے، اسی طرح سے ایک گائے یا ایک اونٹنی کافی ہوتی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے ایک بکری ذبح فرمایا کرتے تھے ۔ اللهم صل عليه وسلم.
سوال: میں اور میری بیوی بچے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کے گھر سے بہت دور کے علاقے میں رہتے ہیں البتہ عید وغیرہ کی مناسبات پر ہم ان کے پاس جاتے ہیں، تاکہ عید ان کے ساتھ منائيں، چناچہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ہم وہاں جمع ہوکر بس ایک ہی قربانی کرتے ہيں، پس کیا یہ کافی ہوگی؟
جواب: سنت یہ ہے کہ ہر گھر کی ایک قربانی ہو۔ آپ بھی قربانی کریں اور آپ کے والد بھی قربانی کریں۔ اسی طرح سے جو دوسرے گھر ہیں ، چناچہ اگر کوئی انسان ایک الگ مستقل گھر میں رہتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرے، یہی سنت ہے۔
[1] سنن الترمذی کے 1505 کے الفاظ ہیں: ’’كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى‘‘ (ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا، جس سے وہ کھاتے بھی اور دوسروں کو بھی کھلاتے، یہاں تک کہ لوگوں نے باہم فخر کرنا شروع کردیا، تو پھر ان کا حال یہ ہوگیا جو تم دیکھ رہے ہو)۔ (یعنی ایک دوسرے پر فخر وبڑائی ظاہر کرنے کے لیے ایک سے زیادہ قربانیاں کرکے دکھاتے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
تمام گھر والو ں کی طرف سے صرف ایک #قربانی کفایت کرتی ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى نور على الدرب > المجلد الثامن عشر > كتاب الحج وكتاب الجهاد > بيان إجزاء الذبيحة الواحدة في الأضحية عن الأسرة.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/tamam_ghar_walo_ki_traf_say_aik_qurbani_kafi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا ایک قربانی میرے اور میرے والد کی طرف سے کافی ہے، یہ بات مدنظر رہے کہ میں شادی شدہ ہوں، اور میری اپنی بھی فیملی ہے، اسی طرح سے والد کی اپنی فیملی ہے؟
جواب: اگر آپ دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں تو پھر ایک ہی قربانی آپ دونوں کی طرف سے کافی ہے، یہ سنت آپ کی طرف سے، آپ کے والد، آپ کی بیویوں اور اولاد کی طرف سے ادا ہوجائے گی۔ لیکن اگر آپ کا مستقل الگ گھر ہے اور والد صاحب کا بھی الگ مستقل گھر ہے تو پھر سنت یہ ہے کہ آپ میں سے ہر ایک اپنے اور اپنے اہل عیال کی طرف سے اپنے اپنے گھر میں الگ قربانی کریں۔کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے دو بڑے موٹے تازے، سینگوں والے، چتکبرے (سفید وسیاہ مخلوط رنگت والے) دنبے ذبح فرمائے، ایک اپنے اور اپنے اہل بیت کی طرف سے ، اور دوسرا امت محمدﷺ کی طرف سے۔ جلیل القدر صحابی ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"كنا في عهد النبي صلى الله عليه وسلم نضحي بشاة واحدة، يضحي بها الرجل عنه وعن أهل بيته"([1])
(ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک ہی بکری ذبح کرتے تھے، جو ایک شخص اپنے او راپنے اہل وعیال کی طرف سے ذبح کیا کرتا تھا)۔
سوال: بھائی خ –خ فلسطین سے سوال کرتے ہیں کہ میں اپنے بھائیوں اور والدین کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہوں، ہمارے ساتھ ہمارا ایک بھائی جو کہ شادی شدہ ہے وہ بھی رہتا ہے اور اس کے بچے بھی ہیں، پس میرا سوال یہ ہے کہ کیا ایک ہی قربانی یعنی جو میرے والد کرتے ہيں وہ ہم تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوگی، یا پھر میرے شادی شدہ بھائی کو الگ سے قربانی کرنی ہوگی؟
جواب: ایک قربانی ایک گھر کے تمام لوگوں کی طرف سے کافی ہوتی ہے اگرچہ ان کی تعداد سو ہی کیوں نہ ہو۔ لہذا اگر وہ ایک قربانی ذبح کرتا ہے تو وہ اس کی طرف سے، اس کی بیوی، اولاد اور تمام گھر والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ اگرچہ ایک ہی بکری کیوں نہ ہو وہ کفایت کرتی ہے، اسی طرح سے ایک گائے یا ایک اونٹنی کافی ہوتی ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے ایک بکری ذبح فرمایا کرتے تھے ۔ اللهم صل عليه وسلم.
سوال: میں اور میری بیوی بچے اپنے والدین اور دیگر گھر والوں کے گھر سے بہت دور کے علاقے میں رہتے ہیں البتہ عید وغیرہ کی مناسبات پر ہم ان کے پاس جاتے ہیں، تاکہ عید ان کے ساتھ منائيں، چناچہ عید الاضحیٰ کے موقع پر ہم وہاں جمع ہوکر بس ایک ہی قربانی کرتے ہيں، پس کیا یہ کافی ہوگی؟
جواب: سنت یہ ہے کہ ہر گھر کی ایک قربانی ہو۔ آپ بھی قربانی کریں اور آپ کے والد بھی قربانی کریں۔ اسی طرح سے جو دوسرے گھر ہیں ، چناچہ اگر کوئی انسان ایک الگ مستقل گھر میں رہتا ہے تو وہ اپنے اور اپنے اہل وعیال کی طرف سے قربانی کرے، یہی سنت ہے۔
[1] سنن الترمذی کے 1505 کے الفاظ ہیں: ’’كَانَ الرَّجُلُ يُضَحِّي بِالشَّاةِ عَنْهُ، وَعَنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، فَيَأْكُلُونَ، وَيُطْعِمُونَ، حَتَّى تَبَاهَى النَّاسُ، فَصَارَتْ كَمَا تَرَى‘‘ (ایک شخص اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری ذبح کرتا تھا، جس سے وہ کھاتے بھی اور دوسروں کو بھی کھلاتے، یہاں تک کہ لوگوں نے باہم فخر کرنا شروع کردیا، تو پھر ان کا حال یہ ہوگیا جو تم دیکھ رہے ہو)۔ (یعنی ایک دوسرے پر فخر وبڑائی ظاہر کرنے کے لیے ایک سے زیادہ قربانیاں کرکے دکھاتے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #slaughtering_cows_in_India if it causes trouble for #Muslims? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
#ہندوستان میں خطرے کی صورت میں #گائے_ذبح کرنے کا حکم؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثاني والعشرون (الحدود>الذكاة والصيد)>الذكاة والصيد>ذبح البقر في الهند يعرض المسلم للخطر السؤال الثالث من الفتوى رقم ( 16403 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/india_gaye_zibah_khatrah_hukm.pdf
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: کیا ہمارے لیے ہندوستان میں گائے ذبح کرنا جائز ہے اگر اس گائے ذبح کرنے کے نتیجے میں ہمیں مارپیٹ، قتل ہوجانے اورلٹ جانے کا خطرہ ہو؟
جواب: اگر آپ کے ملک میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کے گوشت کو فروخت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرہ ہو اور شدید سزا کا اندیشہ ہو تو پھر بلاشبہ اس حالت میں ضرررسانی سے بچنے کی خاطر اسے ذبح کرنا اوراس کے گوشت کو بیچنا جائز نہیں۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ (البقرۃ: 195)
(اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو)
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن رکن نائب صدر
بكر أبو زيد عبد العزيز آل الشيخ صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي
صدر
عبد العزيز بن عبد الله بن باز
#ہندوستان میں خطرے کی صورت میں #گائے_ذبح کرنے کا حکم؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثاني والعشرون (الحدود>الذكاة والصيد)>الذكاة والصيد>ذبح البقر في الهند يعرض المسلم للخطر السؤال الثالث من الفتوى رقم ( 16403 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/india_gaye_zibah_khatrah_hukm.pdf
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: کیا ہمارے لیے ہندوستان میں گائے ذبح کرنا جائز ہے اگر اس گائے ذبح کرنے کے نتیجے میں ہمیں مارپیٹ، قتل ہوجانے اورلٹ جانے کا خطرہ ہو؟
جواب: اگر آپ کے ملک میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کے گوشت کو فروخت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرہ ہو اور شدید سزا کا اندیشہ ہو تو پھر بلاشبہ اس حالت میں ضرررسانی سے بچنے کی خاطر اسے ذبح کرنا اوراس کے گوشت کو بیچنا جائز نہیں۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ (البقرۃ: 195)
(اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو)
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن رکن نائب صدر
بكر أبو زيد عبد العزيز آل الشيخ صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي
صدر
عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[#SalafiUrduDawah Article] #Sacrificing on behalf of the #deceased – Various #Ulamaa
#میت کی طرف سے #قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/mayyat_ki_taraf_say_qurbani.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میت کی طرف سے مستقل طور پر الگ سے قربانی کرنے کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ لہذا ہم نے دونوں مواقف ان کے دلائل کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ جن دلائل سے مطمئن ہوکر اللہ کا تقوی اختیار کرتے ہوئے انسان عمل کرے تو ان شاء اللہ اس میں گنجائش ہے ۔البتہ علماء کرام ایسے معاملات میں کسی رائے کے لیے تعصب اختیار کرنے اور انہيں آپس میں نزاع وجھگڑے کا سبب بنانے سے منع فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی ہميں صحیح ترین وراجح قول کو اختیار کرنے کی توفیق دے اور اختلافی فقہی مسائل پر سلف صالحین کا اعتدال پر مبنی منہج اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے([1])
[1] تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر مقالہ ’’اجتہادی مسائل میں شدت اپنانے سے متعلق نصیحت‘‘ از شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#میت کی طرف سے #قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/mayyat_ki_taraf_say_qurbani.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میت کی طرف سے مستقل طور پر الگ سے قربانی کرنے کے بارے میں علماء کرام کا اختلاف ہے۔ لہذا ہم نے دونوں مواقف ان کے دلائل کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ جن دلائل سے مطمئن ہوکر اللہ کا تقوی اختیار کرتے ہوئے انسان عمل کرے تو ان شاء اللہ اس میں گنجائش ہے ۔البتہ علماء کرام ایسے معاملات میں کسی رائے کے لیے تعصب اختیار کرنے اور انہيں آپس میں نزاع وجھگڑے کا سبب بنانے سے منع فرماتے ہیں۔ اللہ تعالی ہميں صحیح ترین وراجح قول کو اختیار کرنے کی توفیق دے اور اختلافی فقہی مسائل پر سلف صالحین کا اعتدال پر مبنی منہج اپنانے کی توفیق عطاء فرمائے([1])
[1] تفصیل کے لیے پڑھیں ہماری ویب سائٹ پر مقالہ ’’اجتہادی مسائل میں شدت اپنانے سے متعلق نصیحت‘‘ از شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] The #legislated_age of a #sacrificial_animal – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی کی #معتبر_شرعی_عمر
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharae_umar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کی معتبر شرعی عمر کیا ہونی چاہیے؟
جواب: شرعی اعتبار سے معتبر قربانی کی معتبر عمریں یہ ہیں:
اونٹ: پانچ (5) سال۔
گائے: دو (2) سال۔
بکرا: ایک (1) سال۔
دنبہ: چھ (6) ماہ([1])۔
جو ان سے کم عمر ہو ان کی قربانی نہ کی جائے اور اگر کرلی جائے تو وہ غیرمقبول ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
’’لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ‘‘([2])
(جانوروں میں سے سوائے مسنہ (جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگا ہو) کےقربانی نہ کرو، لیکن اگر ایسا کرنا مشکل ہوجائے تو دنبے کا جذعہ (جو چھ ماہ مکمل کرکے ساتویں میں لگا ہو) کرلو)([3])۔
’’ مُسِنَّةً ‘‘ یعنی دوسرے سال کا اور ’’جَذَعَةً ‘‘ یعنی جس کی چھ ماہ عمر ہو۔
[1] دو دانت پر تو اتفاق ہے فقہاء کرام کا لیکن اس کی عمر مختلف مویشیوں کے اعتبار سے سالوں میں کتنی بنتی ہے اس بارے میں اختلاف ہے تفصیل کے لیے دیکھیں : "بدائع الصنائع" (5/70) ، "البحر الرائق" (8/202) ، "التاج والإكليل" (4/363) ، "شرح مختصر خليل" (3/34) ، "المجموع" (8/365) ، "المغني" (13/368) . (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح مسلم 1965۔
[3] مجبوری کے علاوہ بھی ذبح کے جواز کے بارے میں احادیث ہیں، دیکھیں سنن ابی داود 2799 شیخ البانی نے اسے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#قربانی کی #معتبر_شرعی_عمر
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharae_umar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کی معتبر شرعی عمر کیا ہونی چاہیے؟
جواب: شرعی اعتبار سے معتبر قربانی کی معتبر عمریں یہ ہیں:
اونٹ: پانچ (5) سال۔
گائے: دو (2) سال۔
بکرا: ایک (1) سال۔
دنبہ: چھ (6) ماہ([1])۔
جو ان سے کم عمر ہو ان کی قربانی نہ کی جائے اور اگر کرلی جائے تو وہ غیرمقبول ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
’’لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ‘‘([2])
(جانوروں میں سے سوائے مسنہ (جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگا ہو) کےقربانی نہ کرو، لیکن اگر ایسا کرنا مشکل ہوجائے تو دنبے کا جذعہ (جو چھ ماہ مکمل کرکے ساتویں میں لگا ہو) کرلو)([3])۔
’’ مُسِنَّةً ‘‘ یعنی دوسرے سال کا اور ’’جَذَعَةً ‘‘ یعنی جس کی چھ ماہ عمر ہو۔
[1] دو دانت پر تو اتفاق ہے فقہاء کرام کا لیکن اس کی عمر مختلف مویشیوں کے اعتبار سے سالوں میں کتنی بنتی ہے اس بارے میں اختلاف ہے تفصیل کے لیے دیکھیں : "بدائع الصنائع" (5/70) ، "البحر الرائق" (8/202) ، "التاج والإكليل" (4/363) ، "شرح مختصر خليل" (3/34) ، "المجموع" (8/365) ، "المغني" (13/368) . (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح مسلم 1965۔
[3] مجبوری کے علاوہ بھی ذبح کے جواز کے بارے میں احادیث ہیں، دیکھیں سنن ابی داود 2799 شیخ البانی نے اسے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] What deficiencies make the #sacrificing not acceptable? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
وہ کونسے عیوب ہیں جو #قربانی کو ناجائز بناتے ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 92
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_uyyob_najaiz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: وہ کونسے عیوب ہیں جو قربانی کو ناجائز بناتے ہیں؟
جواب: قربانی کی شرائط میں سے ہے کہ وہ ان عیوب سے سلامت ہو جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمائی ہیں جو کم از کم قربانی کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہیں:
’’ أَرْبَعٌ لَا يَجُزْنَ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي‘‘([1])
(چار قسم کے جانور قربانی کے لیے جائز نہیں: ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، ایسا مریض جس کا مرض ظاہر ہو، ایسا لاغر کہ جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو)۔
"الْعَجْفَاءُ" یعنی نہایت نحیف، " لَا تُنْقِي" یعنی اس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو۔ پس یہ چار عیوب قربانی کو ناجائز بناتے ہیں۔
یعنی اگر کوئی شخص ایک ایسی کانی بکری ذبح کرتا ہے کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو تو یہ غیرمقبول ہے، اسی طرح سے اگر ایسی لنگڑی بکری ذبح کرتا ہے جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو تو یہ بھی غیرمقبول ہے، اور یہی حال ایسی مریض بکری کہ جس کا مرض ظاہر ہو اور ایسی کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو کا ہے کہ یہ بھی غیرمقبول ہوں گی۔
اسی طرح سے وہ عیوب بھی جو انہی عیوب کے ہم معنی ہو یا ان سے بھی بڑھ کر ہوں جیسے اندھا پن مثلاً اگر کوئی اندھی بکری ذبح کرتاہے تو وہ ایسے ہی غیر مقبول ہےجیسا کہ کانی بکری کو ذبح کرنا ، اسی طرح سے کسی کا ہاتھ پیر کٹا ہوا ہو تو وہ بھی غیر مقبول ہے کیونکہ جب محض لنگڑانے پر قربانی جائز نہیں تو ہاتھ پیر کٹے کی تو بالاولی ناجائز ہوگی۔ اور اس مریض کی طرح کہ جس کا مرض ظاہر ہو وہ حاملہ بکری ہے کہ جسے دردِزہ ہورہے ہوں یہاں تک کہ وہ جن لے پھر دیکھا جائے کہ آیا وہ زندہ بچتی ہے کہ نہیں۔
اسی طرح سے المُنخنقة(گلا گھٹنے سے مر نے والا)، الموْقوذة(چوٹ لگنے سے مرنے والا)،المتردِّية(گر کرمرنے والا)،النَّطيحة (سینگ لگنے سے مرنے والا) اور جسے وحشی جانور پھاڑ کھائیں۔ کیونکہ یہ تومریض کے مقابلہ میں بالاولی ناجائز ہوئے۔
البتہ ان عیوب کے علاوہ جتنے عیوب ہیں ان کی موجودگی میں قربانی ہوجاتی ہے مگر ان سے بھی پاک ہونا زیادہ افضل ہے جتنی قربانی عیوب سے پاک واکمل ہوگی اتنا ہی افضل ہے۔
پس جس کا کچھ کان کٹا ہو، یا سینگ یا دم میں سےکچھ کٹا ہو تو بھی اس کی قربانی جائز ہے لیکن ان سے پاک ہونا اکمل ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ کٹنا یا چرا ہونا کم ہو یا زیادہ حتی کہ اگر پورا سینگ یا پورا کان یا پوری دم ہی کیوں نہ کٹی ہو تو بھی یہ جائز ہے، لیکن جتنا کامل ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔
[1] صحیح النسائی 4381، صحیح ابن ماجہ 2562، صحیح ابی داود 2802، صحیح الترمذی 1497۔
وہ کونسے عیوب ہیں جو #قربانی کو ناجائز بناتے ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 92
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_uyyob_najaiz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: وہ کونسے عیوب ہیں جو قربانی کو ناجائز بناتے ہیں؟
جواب: قربانی کی شرائط میں سے ہے کہ وہ ان عیوب سے سلامت ہو جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمائی ہیں جو کم از کم قربانی کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہیں:
’’ أَرْبَعٌ لَا يَجُزْنَ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي‘‘([1])
(چار قسم کے جانور قربانی کے لیے جائز نہیں: ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، ایسا مریض جس کا مرض ظاہر ہو، ایسا لاغر کہ جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو)۔
"الْعَجْفَاءُ" یعنی نہایت نحیف، " لَا تُنْقِي" یعنی اس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو۔ پس یہ چار عیوب قربانی کو ناجائز بناتے ہیں۔
یعنی اگر کوئی شخص ایک ایسی کانی بکری ذبح کرتا ہے کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو تو یہ غیرمقبول ہے، اسی طرح سے اگر ایسی لنگڑی بکری ذبح کرتا ہے جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو تو یہ بھی غیرمقبول ہے، اور یہی حال ایسی مریض بکری کہ جس کا مرض ظاہر ہو اور ایسی کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو کا ہے کہ یہ بھی غیرمقبول ہوں گی۔
اسی طرح سے وہ عیوب بھی جو انہی عیوب کے ہم معنی ہو یا ان سے بھی بڑھ کر ہوں جیسے اندھا پن مثلاً اگر کوئی اندھی بکری ذبح کرتاہے تو وہ ایسے ہی غیر مقبول ہےجیسا کہ کانی بکری کو ذبح کرنا ، اسی طرح سے کسی کا ہاتھ پیر کٹا ہوا ہو تو وہ بھی غیر مقبول ہے کیونکہ جب محض لنگڑانے پر قربانی جائز نہیں تو ہاتھ پیر کٹے کی تو بالاولی ناجائز ہوگی۔ اور اس مریض کی طرح کہ جس کا مرض ظاہر ہو وہ حاملہ بکری ہے کہ جسے دردِزہ ہورہے ہوں یہاں تک کہ وہ جن لے پھر دیکھا جائے کہ آیا وہ زندہ بچتی ہے کہ نہیں۔
اسی طرح سے المُنخنقة(گلا گھٹنے سے مر نے والا)، الموْقوذة(چوٹ لگنے سے مرنے والا)،المتردِّية(گر کرمرنے والا)،النَّطيحة (سینگ لگنے سے مرنے والا) اور جسے وحشی جانور پھاڑ کھائیں۔ کیونکہ یہ تومریض کے مقابلہ میں بالاولی ناجائز ہوئے۔
البتہ ان عیوب کے علاوہ جتنے عیوب ہیں ان کی موجودگی میں قربانی ہوجاتی ہے مگر ان سے بھی پاک ہونا زیادہ افضل ہے جتنی قربانی عیوب سے پاک واکمل ہوگی اتنا ہی افضل ہے۔
پس جس کا کچھ کان کٹا ہو، یا سینگ یا دم میں سےکچھ کٹا ہو تو بھی اس کی قربانی جائز ہے لیکن ان سے پاک ہونا اکمل ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ کٹنا یا چرا ہونا کم ہو یا زیادہ حتی کہ اگر پورا سینگ یا پورا کان یا پوری دم ہی کیوں نہ کٹی ہو تو بھی یہ جائز ہے، لیکن جتنا کامل ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔
[1] صحیح النسائی 4381، صحیح ابن ماجہ 2562، صحیح ابی داود 2802، صحیح الترمذی 1497۔
[#SalafiUrduDawah Article] 6 great #deprivations because of #sacrificing_animals outside of one's living area – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں کو پیسہ دینے کے سبب چھ (6) عظیم #محرومیاں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبہ جمعہ بعنوان "صفة الحج والعمرة، وفوائد الأضحية" سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ان افضل ترین اعمال میں سے ہے جن سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لئے قربانی کرنے اور اس کے لئے نماز ادا کرنے کو ساتھ جمع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
( کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے)
پس قربانی کے جانور کو ذبح کرنا بنفسہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے جس سے مقصد ہر چیز سے پہلے اللہ تعالی کی عبادت ہونا چاہیے، اسی وجہ سے اس کی بہت سے سی حرمات ہیں۔
چناچہ قربانی کو افغانستان یا کسی اور محتا ج ملک میں کروانے سے چھ بڑی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں:
1- اس سے شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ کا اظہار فوت ہوتا ہے۔
2- اس سے قربانی کرنے والے کا خود اپنی قربانی کو ذبح کرنا یا اس کے ذبح کے وقت حاضر ہونا فوت ہوتا ہے۔
3- اس سے قربانی کرنے والے میں خود قربانی کرنے سے جو اللہ تعالی کی عبادت کا شعور پیدا ہونا چاہیے وہ فوت ہوتا ہے۔
4- اس سے قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی پر اللہ تعالی کا نام ذکر کرنا فوت ہوتا ہے۔
5- اس سے اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھانا جسے اللہ تعالی نے غریبوں کو کھلانے پر فوقیت دی فوت ہوتا ہے، اور بعض علماء کرام تو اس کے وجوب کے بھی قائل ہیں۔
6- اگر قربانی کسی کی وصیت تھی تو اس سے وصیت کرنے والے کا ظاہر مقصود فوت ہوتا ہے۔
اور ان مصالح کے فوت ہونے کے علاوہ اس سے بہت بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لوگ متعدی مالی عبادات کو محض اقتصادی نکتہِ نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ بے شک اس کے عبادت کے پہلو میں خلل کا باعث ہوتا ہے۔
پس اے اللہ کے بندوں! میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اور ہم کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں الا یہ کہ اسے کتاب وسنت کے ترازو پر پرکھیں تاکہ ہم اس میں اللہ تعالی کی طرف سے مکمل بصیرت، دلیل وبرہان پر قائم ہوں۔
ان نکات کی تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_elaqay_me_qurbani_karwane_sabab_mehromi.pdf
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں کو پیسہ دینے کے سبب چھ (6) عظیم #محرومیاں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبہ جمعہ بعنوان "صفة الحج والعمرة، وفوائد الأضحية" سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ان افضل ترین اعمال میں سے ہے جن سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لئے قربانی کرنے اور اس کے لئے نماز ادا کرنے کو ساتھ جمع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
( کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے)
پس قربانی کے جانور کو ذبح کرنا بنفسہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے جس سے مقصد ہر چیز سے پہلے اللہ تعالی کی عبادت ہونا چاہیے، اسی وجہ سے اس کی بہت سے سی حرمات ہیں۔
چناچہ قربانی کو افغانستان یا کسی اور محتا ج ملک میں کروانے سے چھ بڑی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں:
1- اس سے شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ کا اظہار فوت ہوتا ہے۔
2- اس سے قربانی کرنے والے کا خود اپنی قربانی کو ذبح کرنا یا اس کے ذبح کے وقت حاضر ہونا فوت ہوتا ہے۔
3- اس سے قربانی کرنے والے میں خود قربانی کرنے سے جو اللہ تعالی کی عبادت کا شعور پیدا ہونا چاہیے وہ فوت ہوتا ہے۔
4- اس سے قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی پر اللہ تعالی کا نام ذکر کرنا فوت ہوتا ہے۔
5- اس سے اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھانا جسے اللہ تعالی نے غریبوں کو کھلانے پر فوقیت دی فوت ہوتا ہے، اور بعض علماء کرام تو اس کے وجوب کے بھی قائل ہیں۔
6- اگر قربانی کسی کی وصیت تھی تو اس سے وصیت کرنے والے کا ظاہر مقصود فوت ہوتا ہے۔
اور ان مصالح کے فوت ہونے کے علاوہ اس سے بہت بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لوگ متعدی مالی عبادات کو محض اقتصادی نکتہِ نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ بے شک اس کے عبادت کے پہلو میں خلل کا باعث ہوتا ہے۔
پس اے اللہ کے بندوں! میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اور ہم کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں الا یہ کہ اسے کتاب وسنت کے ترازو پر پرکھیں تاکہ ہم اس میں اللہ تعالی کی طرف سے مکمل بصیرت، دلیل وبرہان پر قائم ہوں۔
ان نکات کی تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_elaqay_me_qurbani_karwane_sabab_mehromi.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] #Giving_money_to_the_orgs for #sacrifice to be done outside one's area? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں_کو_پیسہ_دینا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجلۃ الدعوۃ (عربی) – عدد 1878 بتاریخ 27/11/1423ھ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_area_me_qurbani_k_liye_tanzeem_ko_paisa_dayna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اے مسلمانوں! قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے اس شخص کے حق میں جو اس کی استطاعت رکھتا ہو، کہ وہ اپنے گھروں (علاقوں) میں اسے ذبح کرکے اس میں سے خود بھی کھائے اور اپنے پڑوسیوں کوبھی اس میں سے ہدیہ پیش کرے، اور ساتھ ہی اپنے گردونواح کے فقراء پر صدقہ بھی کرے۔
مگر آجکل جو لوگوں نے ایک نئی بات ایجاد کی ہے کہ وہ ایسے خیراتی اداروں کو اس قربانی کا پیسہ دے دیتے ہیں کہ وہ ان کی طرف سے ان کے شہر سے باہر قربانی کردیں، تو یہ خلاف سنت ہے اور عبادت کو تبدیل کرنا ہے۔ پس واجب ہے کہ اس فعل کو ترک کیا جائے اور قربانی کو قربانی کرنے والے کے گھر (علاقے) میں ذبح کیا جائے جیسا کہ سنت اس بات پر دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسلمانوں کا عمل رہا تھا، اور یہ عمل یونہی چلتا رہا کہ اب یہ نئی باتیں ایجاد ہوئیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بدعت میں شمار نہ ہو، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([1])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])
(دین میں نئی نئی باتوں سے بچو،کیونکہ (دین میں) ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
البتہ جو (دوسرے علاقوں) کے محتاجوں پر صدقہ کرنا چاہتا ہے تو صدقے کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے، مگر عبادت کو اس کی حقیقی شرعی صورت سے صدقے کے نام پر بدلنا ناجائز ہے:
﴿وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (الحشر: 7)
(اور جو رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤں، اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالی شدید سزا دینے والا ہے)
اللہ تعالی میرے اور آپ کے لئے قرآن عظیم میں برکت کرے۔
[1] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[2] مسلم الجمعة (867) ، النسائي صلاة العيدين (1578) ، ابن ماجه المقدمة (45) ، أحمد (3/371) ، الدارمي المقدمة (206).
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں_کو_پیسہ_دینا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجلۃ الدعوۃ (عربی) – عدد 1878 بتاریخ 27/11/1423ھ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_area_me_qurbani_k_liye_tanzeem_ko_paisa_dayna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اے مسلمانوں! قربانی کرنا سنت مؤکدہ ہے اس شخص کے حق میں جو اس کی استطاعت رکھتا ہو، کہ وہ اپنے گھروں (علاقوں) میں اسے ذبح کرکے اس میں سے خود بھی کھائے اور اپنے پڑوسیوں کوبھی اس میں سے ہدیہ پیش کرے، اور ساتھ ہی اپنے گردونواح کے فقراء پر صدقہ بھی کرے۔
مگر آجکل جو لوگوں نے ایک نئی بات ایجاد کی ہے کہ وہ ایسے خیراتی اداروں کو اس قربانی کا پیسہ دے دیتے ہیں کہ وہ ان کی طرف سے ان کے شہر سے باہر قربانی کردیں، تو یہ خلاف سنت ہے اور عبادت کو تبدیل کرنا ہے۔ پس واجب ہے کہ اس فعل کو ترک کیا جائے اور قربانی کو قربانی کرنے والے کے گھر (علاقے) میں ذبح کیا جائے جیسا کہ سنت اس بات پر دلالت کرتی ہے اور جیسا کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں مسلمانوں کا عمل رہا تھا، اور یہ عمل یونہی چلتا رہا کہ اب یہ نئی باتیں ایجاد ہوئیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں یہ بدعت میں شمار نہ ہو، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([1])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ‘‘([2])
(دین میں نئی نئی باتوں سے بچو،کیونکہ (دین میں) ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے)۔
البتہ جو (دوسرے علاقوں) کے محتاجوں پر صدقہ کرنا چاہتا ہے تو صدقے کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے، مگر عبادت کو اس کی حقیقی شرعی صورت سے صدقے کے نام پر بدلنا ناجائز ہے:
﴿وَمَآ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (الحشر: 7)
(اور جو رسول تمہیں دیں اسے لے لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے رک جاؤں، اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ تعالی شدید سزا دینے والا ہے)
اللہ تعالی میرے اور آپ کے لئے قرآن عظیم میں برکت کرے۔
[1] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[2] مسلم الجمعة (867) ، النسائي صلاة العيدين (1578) ، ابن ماجه المقدمة (45) ، أحمد (3/371) ، الدارمي المقدمة (206).
[#SalafiUrduDawah Article] #Collective_sacrifice and its ruling – Various #Ulamaa
#اجتماعی_قربانی کے احکام
مختلف #علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_me_shirkat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا پانچ افراد ایک قربانی میں شریک ہوسکتے ہیں؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
اگر قربانی بکرا، بکری وبھیڑ وغیرہ کی ہو تو ملکیت کے اعتبار سے ایک قربانی میں ایک سے زیادہ افراد شریک نہیں ہوسکتے (یعنی اکیلے کی ہی ہوگی)۔ جبکہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں ملکیت کے اعتبار سے سات افراد شریک ہوسکتے ہیں([1])۔
لیکن جہاں تک معاملہ ہے ثواب کے اعتبار سے شریک ہونا تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے اگرچہ وہ کتنے ہی زیادہ ہوں ایک قربانی کرلے۔ بلکہ اسے چاہیے کہ اپنے اور علماء امت وغیرہ جیسے بہت سے لوگوں کو ثواب میں شامل کرلے کہ جن کی تعداد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
(فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم: 186)
سوال: کیا قربانی میں شراکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی گھر والے ہوں؟
جواب از فتوی کمیٹی، سعودی عرب:
ایک اونٹ یا گائے کی قربانی سات کی طرف سے کفایت کرتی ہے، برابر ہے کہ وہ ایک گھر والے ہوں یا مختلف گھروں والے ہوں، اور یہ بھی برابر ہے کہ ان کے درمیان کوئی قرابتداری ہو یا نہ ہو، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قربانی میں شراکت کی اجازت دی تھی اونٹ اور گائے میں سات سات حصوں کی، لیکن اس کی تفصیل بیان نہيں فرمائی۔ واللہ اعلم۔
(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء/ فتوى رقم (2416)
عضو / نائب رئيس اللجنة/ الرئيس
عبد الله بن غديان/ عبد الرزاق عفيفي/ عبد العزيز بن باز.)
سوال: کیا ایک اونٹ ایک شخص کی طرف سے بھی کیا جاسکتا ہے؟
جواب: جو یہ کہتا ہے کہ ایک اونٹ لازمی طور پر ایک جماعت (اجتماعی قربانی) کے سوا نہیں ہوسکتا تو وہ غلطی پر ہے۔ ہاں البتہ بکرا ایک ہی کو کفایت کرتا ہے، اور بکرے کی قربانی کرنے والا اپنے گھر والوں کو ثواب میں شریک کرسکتا ہے۔ لیکن اونٹ ایک کی طرف سے بھی اور سات کی طرف سے بھی جو اس کی قیمت میں شریک ہوتے ہيں کفایت کرتا ہے۔ اور اس کے ساتوں حصے ان سات لوگوں کی طرف سے الگ الگ ایک مستقل قربانی ہوتے ہیں، اور گائے بھی اس بارے میں اونٹ کی طرح ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء/ فتوى رقم (3055)
عضو / نائب رئيس اللجنة/ الرئيس
عبدالله بن غديان/ عبد الرزاق عفيفي/ عبد العزيز بن باز.)
[1] جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: ’’نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ‘‘(صحیح مسلم 1318) (ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ والے سال قربانیاں کیں تو ہم اونٹ میں سات شریک ہوئے اور گائے میں بھی سات) جبکہ اونٹ کے بارے میں دس کی بھی روایت ہےسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْجَزُورِ عَشَرَةً ‘‘ (صحیح ترمذی 905) (ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عیدالاضحی آگئی تو ہم گائے میں سات شریک ہوئے اور اونٹ میں دس)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#اجتماعی_قربانی کے احکام
مختلف #علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_me_shirkat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا پانچ افراد ایک قربانی میں شریک ہوسکتے ہیں؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
اگر قربانی بکرا، بکری وبھیڑ وغیرہ کی ہو تو ملکیت کے اعتبار سے ایک قربانی میں ایک سے زیادہ افراد شریک نہیں ہوسکتے (یعنی اکیلے کی ہی ہوگی)۔ جبکہ گائے یا اونٹ کی قربانی میں ملکیت کے اعتبار سے سات افراد شریک ہوسکتے ہیں([1])۔
لیکن جہاں تک معاملہ ہے ثواب کے اعتبار سے شریک ہونا تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ انسان اپنے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے اگرچہ وہ کتنے ہی زیادہ ہوں ایک قربانی کرلے۔ بلکہ اسے چاہیے کہ اپنے اور علماء امت وغیرہ جیسے بہت سے لوگوں کو ثواب میں شامل کرلے کہ جن کی تعداد سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔
(فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم: 186)
سوال: کیا قربانی میں شراکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک ہی گھر والے ہوں؟
جواب از فتوی کمیٹی، سعودی عرب:
ایک اونٹ یا گائے کی قربانی سات کی طرف سے کفایت کرتی ہے، برابر ہے کہ وہ ایک گھر والے ہوں یا مختلف گھروں والے ہوں، اور یہ بھی برابر ہے کہ ان کے درمیان کوئی قرابتداری ہو یا نہ ہو، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو قربانی میں شراکت کی اجازت دی تھی اونٹ اور گائے میں سات سات حصوں کی، لیکن اس کی تفصیل بیان نہيں فرمائی۔ واللہ اعلم۔
(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء/ فتوى رقم (2416)
عضو / نائب رئيس اللجنة/ الرئيس
عبد الله بن غديان/ عبد الرزاق عفيفي/ عبد العزيز بن باز.)
سوال: کیا ایک اونٹ ایک شخص کی طرف سے بھی کیا جاسکتا ہے؟
جواب: جو یہ کہتا ہے کہ ایک اونٹ لازمی طور پر ایک جماعت (اجتماعی قربانی) کے سوا نہیں ہوسکتا تو وہ غلطی پر ہے۔ ہاں البتہ بکرا ایک ہی کو کفایت کرتا ہے، اور بکرے کی قربانی کرنے والا اپنے گھر والوں کو ثواب میں شریک کرسکتا ہے۔ لیکن اونٹ ایک کی طرف سے بھی اور سات کی طرف سے بھی جو اس کی قیمت میں شریک ہوتے ہيں کفایت کرتا ہے۔ اور اس کے ساتوں حصے ان سات لوگوں کی طرف سے الگ الگ ایک مستقل قربانی ہوتے ہیں، اور گائے بھی اس بارے میں اونٹ کی طرح ہے۔
(فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء/ فتوى رقم (3055)
عضو / نائب رئيس اللجنة/ الرئيس
عبدالله بن غديان/ عبد الرزاق عفيفي/ عبد العزيز بن باز.)
[1] جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ: ’’نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ‘‘(صحیح مسلم 1318) (ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ والے سال قربانیاں کیں تو ہم اونٹ میں سات شریک ہوئے اور گائے میں بھی سات) جبکہ اونٹ کے بارے میں دس کی بھی روایت ہےسیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْجَزُورِ عَشَرَةً ‘‘ (صحیح ترمذی 905) (ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ عیدالاضحی آگئی تو ہم گائے میں سات شریک ہوئے اور اونٹ میں دس)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Rulings regarding #appointing_someone_for_the_Sacrifice – Various #Ulamaa
#قربانی_کے_لیے_وکیل بنانے کے احکام
مختلف #علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_wakeel_ahkam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا قربانی کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
قربانی کرنے کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز ہے بشرطیکہ کہ اسے ذبح کرنا آتا ہو۔ اور اس حالت میں افضل یہ ہے کہ جس کی طرف سے ذبح کیا جارہا ہے وہ وہاں حاضر ہو۔ اور یہ بھی افضل ہے کہ وہ قربانی کرنے والا خود اسے ذبح کرے اگر اسے اچھے طور پر ذبح کرنے آتا ہو۔
سوال: کیا اس صورت میں یہ شرط ہے کہ ہم کہیں یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
اگر ہم یہ ذکر کریں کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے تو یہ افضل ہے۔ کیونکہ یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہوا کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ‘‘([1])
(اے اللہ! یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آ ل محمد رضی اللہ عنہم کی طرف سے)۔
اور اگر ذکر نہ کیا تو نیت ہی کافی ہے، لیکن ذکر کردینا بہرحال افضل ہے۔
پھر یہ بھی خیال رہے کہ جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اس کا نام ذبح کرتے وقت لینا چاہیے:
بسم الله والله أكبر، اللهم هذا منك ولك، عن فلان یہاں اس کا نام لے۔
سوال: اگر انسان نے قربانی کے لیے کسی کو وکیل بنایا ہے تو کیا اس قربانی کرنے والے کے لیے اب اپنے بالوں اور ناخنوں اور جلد میں سے کچھ کاٹنا حلال ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
ہم بہت سے عوام لوگوں سے سنتے رہتے ہیں کہ جو کوئی قربانی کرنا چاہتا ہو ساتھ میں اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد پر کچھ تراش خراش کا بھی خواہشمند ہو تو کسی اور کو اپنی قربانی اور اس پر نام لینے کے لیے وکیل بنالے۔ اور ان کے گمان کے مطابق ایسا کرنے سے اس شخص سے نہی (ممانعت) اٹھ جاتی ہے!۔ اور یہ ایک غلطی ہے، کیونکہ جو انسان قربانی کرنا چاہتا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے کو اپنا وکیل ہی کیوں نہ بنالے اس کے لیے پھر بھی اپنے بال، ناخن اور جلد میں سے کچھ کاٹنا حلال نہیں۔
(فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم: 93)
سوال: کیا قربانی کے لیے بنائے گئے وکیل پر وہ سب کچھ حرام ہے جو خود قربانی کرنے والے پر حرام ہے؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
جو شخص خود قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ بھی نہ کاٹے، یہ اس پر واجب ہے اگر وہ اپنی طرف سے قربانی کررہا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی دوسرے کی قربانی کرنے کا وکیل ہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں۔
(فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم 92)
[1] سنن دارمی 1946 کے الفاظ ہیں: ’’اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ‘‘ اور مسند احمد 25270 کے الفاظ ہیں: ’’ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ‘‘۔
#قربانی_کے_لیے_وکیل بنانے کے احکام
مختلف #علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_wakeel_ahkam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا قربانی کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
قربانی کرنے کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز ہے بشرطیکہ کہ اسے ذبح کرنا آتا ہو۔ اور اس حالت میں افضل یہ ہے کہ جس کی طرف سے ذبح کیا جارہا ہے وہ وہاں حاضر ہو۔ اور یہ بھی افضل ہے کہ وہ قربانی کرنے والا خود اسے ذبح کرے اگر اسے اچھے طور پر ذبح کرنے آتا ہو۔
سوال: کیا اس صورت میں یہ شرط ہے کہ ہم کہیں یہ قربانی فلاں کی طرف سے ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
اگر ہم یہ ذکر کریں کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے تو یہ افضل ہے۔ کیونکہ یہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہوا کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ‘‘([1])
(اے اللہ! یہ تیری طرف سے ہے اور تیرے ہی لیے ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آ ل محمد رضی اللہ عنہم کی طرف سے)۔
اور اگر ذکر نہ کیا تو نیت ہی کافی ہے، لیکن ذکر کردینا بہرحال افضل ہے۔
پھر یہ بھی خیال رہے کہ جس کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اس کا نام ذبح کرتے وقت لینا چاہیے:
بسم الله والله أكبر، اللهم هذا منك ولك، عن فلان یہاں اس کا نام لے۔
سوال: اگر انسان نے قربانی کے لیے کسی کو وکیل بنایا ہے تو کیا اس قربانی کرنے والے کے لیے اب اپنے بالوں اور ناخنوں اور جلد میں سے کچھ کاٹنا حلال ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
ہم بہت سے عوام لوگوں سے سنتے رہتے ہیں کہ جو کوئی قربانی کرنا چاہتا ہو ساتھ میں اپنے بالوں، ناخنوں اور جلد پر کچھ تراش خراش کا بھی خواہشمند ہو تو کسی اور کو اپنی قربانی اور اس پر نام لینے کے لیے وکیل بنالے۔ اور ان کے گمان کے مطابق ایسا کرنے سے اس شخص سے نہی (ممانعت) اٹھ جاتی ہے!۔ اور یہ ایک غلطی ہے، کیونکہ جو انسان قربانی کرنا چاہتا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے کو اپنا وکیل ہی کیوں نہ بنالے اس کے لیے پھر بھی اپنے بال، ناخن اور جلد میں سے کچھ کاٹنا حلال نہیں۔
(فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم: 93)
سوال: کیا قربانی کے لیے بنائے گئے وکیل پر وہ سب کچھ حرام ہے جو خود قربانی کرنے والے پر حرام ہے؟
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
جو شخص خود قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو وہ اپنے بالوں اور ناخنوں میں سے کچھ بھی نہ کاٹے، یہ اس پر واجب ہے اگر وہ اپنی طرف سے قربانی کررہا ہے۔ لیکن اگر وہ کسی دوسرے کی قربانی کرنے کا وکیل ہے تو اس پر کوئی پابندی نہیں۔
(فتاوى نور على الدرب/ للإمام بن باز/ شريط رقم 92)
[1] سنن دارمی 1946 کے الفاظ ہیں: ’’اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَأُمَّتِهِ‘‘ اور مسند احمد 25270 کے الفاظ ہیں: ’’ فَيَذْبَحُ أَحَدَهُمَا عَنْ أُمَّتِهِ مِمَّنْ أَقَرَّ بِالتَّوْحِيدِ وَشَهِدَ لَهُ بِالْبَلَاغِ، وَيَذْبَحُ الْآخَرَ عَنْ مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ‘‘۔
#SalafiUrduDawah
یوم #عرفہ میں #جہنم_سے_گلو_خلاصی و #نجات
yaum e #arafah may #jahannam_say_gulu_khulasi aur #nijaat
یوم #عرفہ میں #جہنم_سے_گلو_خلاصی و #نجات
yaum e #arafah may #jahannam_say_gulu_khulasi aur #nijaat