[#SalafiUrduDawah Article] What is meant by "#Sacrifice" according to #Shariah? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی سے #شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين / شريط رقم22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharai_murad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ’’الاضحیۃ‘‘ (قربانی) سے شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
جواب: اس سے مراد جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرناہے، جسے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ ہی بیان فرمایا ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی کا فرمان :
﴿اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ﴾ (الانعام: 162-163)
(بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
یہاں سے ہمیں ان لوگوں کا قصور ِفہم معلوم ہوتا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں قربانی سے حقیقی مقصود اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ گمان قاصر ہے اور جہالت کی پیداوار ہے۔ جبکہ درحقیقت قربانی سے مراد ذبح کے ذریعہ تقرب الہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد کریں:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے)
#قربانی سے #شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين / شريط رقم22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharai_murad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ’’الاضحیۃ‘‘ (قربانی) سے شرعی طور پر کیا مراد ہے؟
جواب: اس سے مراد جانور ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرناہے، جسے اللہ تعالی نے نماز کے ساتھ ہی بیان فرمایا ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی کا فرمان :
﴿اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ ۚ﴾ (الانعام: 162-163)
(بے شک میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں)
یہاں سے ہمیں ان لوگوں کا قصور ِفہم معلوم ہوتا ہے جو یہ گمان کرتے ہیں قربانی سے حقیقی مقصود اس کے گوشت سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ گمان قاصر ہے اور جہالت کی پیداوار ہے۔ جبکہ درحقیقت قربانی سے مراد ذبح کے ذریعہ تقرب الہی ہوتا ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان کو یاد کریں:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقوی پہنچتا ہے)
[#SalafiUrduDawah Article] The #legislated_age of a #sacrificial_animal – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی کی #معتبر_شرعی_عمر
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharae_umar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کی معتبر شرعی عمر کیا ہونی چاہیے؟
جواب: شرعی اعتبار سے معتبر قربانی کی معتبر عمریں یہ ہیں:
اونٹ: پانچ (5) سال۔
گائے: دو (2) سال۔
بکرا: ایک (1) سال۔
دنبہ: چھ (6) ماہ([1])۔
جو ان سے کم عمر ہو ان کی قربانی نہ کی جائے اور اگر کرلی جائے تو وہ غیرمقبول ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
’’لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ‘‘([2])
(جانوروں میں سے سوائے مسنہ (جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگا ہو) کےقربانی نہ کرو، لیکن اگر ایسا کرنا مشکل ہوجائے تو دنبے کا جذعہ (جو چھ ماہ مکمل کرکے ساتویں میں لگا ہو) کرلو)([3])۔
’’ مُسِنَّةً ‘‘ یعنی دوسرے سال کا اور ’’جَذَعَةً ‘‘ یعنی جس کی چھ ماہ عمر ہو۔
[1] دو دانت پر تو اتفاق ہے فقہاء کرام کا لیکن اس کی عمر مختلف مویشیوں کے اعتبار سے سالوں میں کتنی بنتی ہے اس بارے میں اختلاف ہے تفصیل کے لیے دیکھیں : "بدائع الصنائع" (5/70) ، "البحر الرائق" (8/202) ، "التاج والإكليل" (4/363) ، "شرح مختصر خليل" (3/34) ، "المجموع" (8/365) ، "المغني" (13/368) . (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح مسلم 1965۔
[3] مجبوری کے علاوہ بھی ذبح کے جواز کے بارے میں احادیث ہیں، دیکھیں سنن ابی داود 2799 شیخ البانی نے اسے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#قربانی کی #معتبر_شرعی_عمر
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 22
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_sharae_umar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کی معتبر شرعی عمر کیا ہونی چاہیے؟
جواب: شرعی اعتبار سے معتبر قربانی کی معتبر عمریں یہ ہیں:
اونٹ: پانچ (5) سال۔
گائے: دو (2) سال۔
بکرا: ایک (1) سال۔
دنبہ: چھ (6) ماہ([1])۔
جو ان سے کم عمر ہو ان کی قربانی نہ کی جائے اور اگر کرلی جائے تو وہ غیرمقبول ہے۔ اس کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ہے:
’’لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنَ الضَّأْنِ‘‘([2])
(جانوروں میں سے سوائے مسنہ (جو ایک سال پورا کرکے دوسرے میں لگا ہو) کےقربانی نہ کرو، لیکن اگر ایسا کرنا مشکل ہوجائے تو دنبے کا جذعہ (جو چھ ماہ مکمل کرکے ساتویں میں لگا ہو) کرلو)([3])۔
’’ مُسِنَّةً ‘‘ یعنی دوسرے سال کا اور ’’جَذَعَةً ‘‘ یعنی جس کی چھ ماہ عمر ہو۔
[1] دو دانت پر تو اتفاق ہے فقہاء کرام کا لیکن اس کی عمر مختلف مویشیوں کے اعتبار سے سالوں میں کتنی بنتی ہے اس بارے میں اختلاف ہے تفصیل کے لیے دیکھیں : "بدائع الصنائع" (5/70) ، "البحر الرائق" (8/202) ، "التاج والإكليل" (4/363) ، "شرح مختصر خليل" (3/34) ، "المجموع" (8/365) ، "المغني" (13/368) . (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح مسلم 1965۔
[3] مجبوری کے علاوہ بھی ذبح کے جواز کے بارے میں احادیث ہیں، دیکھیں سنن ابی داود 2799 شیخ البانی نے اسے صحیح ابی داود میں صحیح قرار دیا ہے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] What deficiencies make the #sacrificing not acceptable? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
وہ کونسے عیوب ہیں جو #قربانی کو ناجائز بناتے ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 92
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_uyyob_najaiz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: وہ کونسے عیوب ہیں جو قربانی کو ناجائز بناتے ہیں؟
جواب: قربانی کی شرائط میں سے ہے کہ وہ ان عیوب سے سلامت ہو جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمائی ہیں جو کم از کم قربانی کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہیں:
’’ أَرْبَعٌ لَا يَجُزْنَ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي‘‘([1])
(چار قسم کے جانور قربانی کے لیے جائز نہیں: ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، ایسا مریض جس کا مرض ظاہر ہو، ایسا لاغر کہ جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو)۔
"الْعَجْفَاءُ" یعنی نہایت نحیف، " لَا تُنْقِي" یعنی اس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو۔ پس یہ چار عیوب قربانی کو ناجائز بناتے ہیں۔
یعنی اگر کوئی شخص ایک ایسی کانی بکری ذبح کرتا ہے کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو تو یہ غیرمقبول ہے، اسی طرح سے اگر ایسی لنگڑی بکری ذبح کرتا ہے جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو تو یہ بھی غیرمقبول ہے، اور یہی حال ایسی مریض بکری کہ جس کا مرض ظاہر ہو اور ایسی کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو کا ہے کہ یہ بھی غیرمقبول ہوں گی۔
اسی طرح سے وہ عیوب بھی جو انہی عیوب کے ہم معنی ہو یا ان سے بھی بڑھ کر ہوں جیسے اندھا پن مثلاً اگر کوئی اندھی بکری ذبح کرتاہے تو وہ ایسے ہی غیر مقبول ہےجیسا کہ کانی بکری کو ذبح کرنا ، اسی طرح سے کسی کا ہاتھ پیر کٹا ہوا ہو تو وہ بھی غیر مقبول ہے کیونکہ جب محض لنگڑانے پر قربانی جائز نہیں تو ہاتھ پیر کٹے کی تو بالاولی ناجائز ہوگی۔ اور اس مریض کی طرح کہ جس کا مرض ظاہر ہو وہ حاملہ بکری ہے کہ جسے دردِزہ ہورہے ہوں یہاں تک کہ وہ جن لے پھر دیکھا جائے کہ آیا وہ زندہ بچتی ہے کہ نہیں۔
اسی طرح سے المُنخنقة(گلا گھٹنے سے مر نے والا)، الموْقوذة(چوٹ لگنے سے مرنے والا)،المتردِّية(گر کرمرنے والا)،النَّطيحة (سینگ لگنے سے مرنے والا) اور جسے وحشی جانور پھاڑ کھائیں۔ کیونکہ یہ تومریض کے مقابلہ میں بالاولی ناجائز ہوئے۔
البتہ ان عیوب کے علاوہ جتنے عیوب ہیں ان کی موجودگی میں قربانی ہوجاتی ہے مگر ان سے بھی پاک ہونا زیادہ افضل ہے جتنی قربانی عیوب سے پاک واکمل ہوگی اتنا ہی افضل ہے۔
پس جس کا کچھ کان کٹا ہو، یا سینگ یا دم میں سےکچھ کٹا ہو تو بھی اس کی قربانی جائز ہے لیکن ان سے پاک ہونا اکمل ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ کٹنا یا چرا ہونا کم ہو یا زیادہ حتی کہ اگر پورا سینگ یا پورا کان یا پوری دم ہی کیوں نہ کٹی ہو تو بھی یہ جائز ہے، لیکن جتنا کامل ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔
[1] صحیح النسائی 4381، صحیح ابن ماجہ 2562، صحیح ابی داود 2802، صحیح الترمذی 1497۔
وہ کونسے عیوب ہیں جو #قربانی کو ناجائز بناتے ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة لقاء الباب المفتوح/ للإمام العثيمين/ شريط رقم 92
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/qurbani_uyyob_najaiz.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: وہ کونسے عیوب ہیں جو قربانی کو ناجائز بناتے ہیں؟
جواب: قربانی کی شرائط میں سے ہے کہ وہ ان عیوب سے سلامت ہو جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں بیان فرمائی ہیں جو کم از کم قربانی کے جائز ہونے کے لیے ضروری ہیں:
’’ أَرْبَعٌ لَا يَجُزْنَ: الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا، وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلْعُهَا، وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا، وَالْعَجْفَاءُ الَّتِي لَا تُنْقِي‘‘([1])
(چار قسم کے جانور قربانی کے لیے جائز نہیں: ایسا کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو، ایسا لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو، ایسا مریض جس کا مرض ظاہر ہو، ایسا لاغر کہ جس کی ہڈیوں میں گودا ہی نہ ہو)۔
"الْعَجْفَاءُ" یعنی نہایت نحیف، " لَا تُنْقِي" یعنی اس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو۔ پس یہ چار عیوب قربانی کو ناجائز بناتے ہیں۔
یعنی اگر کوئی شخص ایک ایسی کانی بکری ذبح کرتا ہے کہ جس کا کانا پن ظاہر ہو تو یہ غیرمقبول ہے، اسی طرح سے اگر ایسی لنگڑی بکری ذبح کرتا ہے جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو تو یہ بھی غیرمقبول ہے، اور یہی حال ایسی مریض بکری کہ جس کا مرض ظاہر ہو اور ایسی کمزور کہ جس کی ہڈیوں میں مخ ہی نہ ہو کا ہے کہ یہ بھی غیرمقبول ہوں گی۔
اسی طرح سے وہ عیوب بھی جو انہی عیوب کے ہم معنی ہو یا ان سے بھی بڑھ کر ہوں جیسے اندھا پن مثلاً اگر کوئی اندھی بکری ذبح کرتاہے تو وہ ایسے ہی غیر مقبول ہےجیسا کہ کانی بکری کو ذبح کرنا ، اسی طرح سے کسی کا ہاتھ پیر کٹا ہوا ہو تو وہ بھی غیر مقبول ہے کیونکہ جب محض لنگڑانے پر قربانی جائز نہیں تو ہاتھ پیر کٹے کی تو بالاولی ناجائز ہوگی۔ اور اس مریض کی طرح کہ جس کا مرض ظاہر ہو وہ حاملہ بکری ہے کہ جسے دردِزہ ہورہے ہوں یہاں تک کہ وہ جن لے پھر دیکھا جائے کہ آیا وہ زندہ بچتی ہے کہ نہیں۔
اسی طرح سے المُنخنقة(گلا گھٹنے سے مر نے والا)، الموْقوذة(چوٹ لگنے سے مرنے والا)،المتردِّية(گر کرمرنے والا)،النَّطيحة (سینگ لگنے سے مرنے والا) اور جسے وحشی جانور پھاڑ کھائیں۔ کیونکہ یہ تومریض کے مقابلہ میں بالاولی ناجائز ہوئے۔
البتہ ان عیوب کے علاوہ جتنے عیوب ہیں ان کی موجودگی میں قربانی ہوجاتی ہے مگر ان سے بھی پاک ہونا زیادہ افضل ہے جتنی قربانی عیوب سے پاک واکمل ہوگی اتنا ہی افضل ہے۔
پس جس کا کچھ کان کٹا ہو، یا سینگ یا دم میں سےکچھ کٹا ہو تو بھی اس کی قربانی جائز ہے لیکن ان سے پاک ہونا اکمل ہے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یہ کٹنا یا چرا ہونا کم ہو یا زیادہ حتی کہ اگر پورا سینگ یا پورا کان یا پوری دم ہی کیوں نہ کٹی ہو تو بھی یہ جائز ہے، لیکن جتنا کامل ہوگی اتنی ہی افضل ہوگی۔
[1] صحیح النسائی 4381، صحیح ابن ماجہ 2562، صحیح ابی داود 2802، صحیح الترمذی 1497۔
[#SalafiUrduDawah Article] The proper #legislated_way_of_slaughtering – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کرنے کی صحیح کیفیت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم353 وشريط رقم93
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_sahih_tareeqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کو ذبح کرنے کی صحیح کیفیت کیا ہونی چاہیے؟
جواب: اگر قربانی دنبے یا بکرے کی ہے تو ا س کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹا ئے اگر اسے داہنے ہاتھ سے ذبح کرنا ہو اور اگر بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا ہو تو اسے داہنی کروٹ لٹا دے، کیونکہ اس سے مقصود چوپائے کو راحت پہنچانا ہے، لہذا جو انسان بائیں ہاتھ سے ذبح کرتا ہو تو وہ اسے راحت نہیں پہنچا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے داہنی کروٹ لٹائے اور ذبح کے وقت اپنے ٹانگ اس کی گردن پر رکھے، اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے تاکہ جانور کے حلق کا صحیح اندازہ ہوسکے، پھر قوت کےساتھ اس کی شہ رگ ودرمیانی رگ پر چھری چلائے اور خون بہادے۔
جہاں تک بات ہے جانور کے ہاتھ وپیر کی تو انہیں نہ باندھنا اور آزاد چھوڑ دینا زیادہ احسن ہے کیونکہ یہ جانور کے لیے زیادہ راحت اور ان اعضاء میں سے خون کے اخراج کا زیادہ باعث ہے، کیونکہ خون کا اخراج حرکت کے ساتھ ہوتا ہے، پس یہ افضل ہے([1])۔
اور ذبح کرتے وقت یہ پڑھے: ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اللَّهُمَّ هَذِهِ عَنِّي وَ عَنْ أَهْلِ بَيْتِي‘‘۔
جبکہ عید کی قربانی کے علاوہ ذبح کرتے وقت یہی طریقۂ کار اپنائے لیکن ذبح کے وقت صرف ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھے۔
[1] البتہ اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ اس سے قدرے مختلف ہے صحیح بخاری 1712 میں ہے: ’’زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَنَاخَ بَدَنَتَهُ يَنْحَرُهَا، قَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (زیاد بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو فرمایا: اس کو کھڑا کرکے (ایک) پاؤں باندھ دو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)۔ اور صحیح ابی داود 1767 کے الفاظ ہیں: ’’أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابَهُ كَانُوا يَنْحَرُونَ الْبَدَنَةَ مَعْقُولَةَ الْيُسْرَى قَائِمَةً عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کو اس طرح نحر فرماتے تھے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ کر اسے کھڑا کردیتےاور وہ اپنے باقی تین پاؤں پر کھڑا رہتا)۔اس کے بعد اس کی گردن اور سینے کے درمیان کےحصے میں خنجر سے مار کر رگیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#ذبح کرنے کی صحیح کیفیت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم353 وشريط رقم93
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_sahih_tareeqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کو ذبح کرنے کی صحیح کیفیت کیا ہونی چاہیے؟
جواب: اگر قربانی دنبے یا بکرے کی ہے تو ا س کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹا ئے اگر اسے داہنے ہاتھ سے ذبح کرنا ہو اور اگر بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا ہو تو اسے داہنی کروٹ لٹا دے، کیونکہ اس سے مقصود چوپائے کو راحت پہنچانا ہے، لہذا جو انسان بائیں ہاتھ سے ذبح کرتا ہو تو وہ اسے راحت نہیں پہنچا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے داہنی کروٹ لٹائے اور ذبح کے وقت اپنے ٹانگ اس کی گردن پر رکھے، اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے تاکہ جانور کے حلق کا صحیح اندازہ ہوسکے، پھر قوت کےساتھ اس کی شہ رگ ودرمیانی رگ پر چھری چلائے اور خون بہادے۔
جہاں تک بات ہے جانور کے ہاتھ وپیر کی تو انہیں نہ باندھنا اور آزاد چھوڑ دینا زیادہ احسن ہے کیونکہ یہ جانور کے لیے زیادہ راحت اور ان اعضاء میں سے خون کے اخراج کا زیادہ باعث ہے، کیونکہ خون کا اخراج حرکت کے ساتھ ہوتا ہے، پس یہ افضل ہے([1])۔
اور ذبح کرتے وقت یہ پڑھے: ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اللَّهُمَّ هَذِهِ عَنِّي وَ عَنْ أَهْلِ بَيْتِي‘‘۔
جبکہ عید کی قربانی کے علاوہ ذبح کرتے وقت یہی طریقۂ کار اپنائے لیکن ذبح کے وقت صرف ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھے۔
[1] البتہ اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ اس سے قدرے مختلف ہے صحیح بخاری 1712 میں ہے: ’’زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَنَاخَ بَدَنَتَهُ يَنْحَرُهَا، قَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (زیاد بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو فرمایا: اس کو کھڑا کرکے (ایک) پاؤں باندھ دو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)۔ اور صحیح ابی داود 1767 کے الفاظ ہیں: ’’أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابَهُ كَانُوا يَنْحَرُونَ الْبَدَنَةَ مَعْقُولَةَ الْيُسْرَى قَائِمَةً عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کو اس طرح نحر فرماتے تھے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ کر اسے کھڑا کردیتےاور وہ اپنے باقی تین پاؤں پر کھڑا رہتا)۔اس کے بعد اس کی گردن اور سینے کے درمیان کےحصے میں خنجر سے مار کر رگیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Forgot to recite "#Bismillah" at the time of #slaughtering? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
[#SalafiUrduDawah Article] Meaning of the #Dua that is pronounced whilst #slaughtering – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is #eating_the_liver of the #sacrificial_animal firstly from the #Sunnah? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کیا #قربانی میں سے سب سے پہلے #جگر_کھانا #مسنون ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى ابن عثیمین،جلد 16
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/qurbani_jigar_khana_masnoon.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی فقہاء کرام کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے کہ قربانی میں سے جگر کا کھانا مسنون ہے؟ کیا اس بات کی کوئی دلیل بھی ہے؟
جواب: قربانی میں سے مطلق کھانا مسنون ہے۔ اور قربانی میں سے کھانے کے بارے میں قرآن وسنت کی دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میں سے کھانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور خود بھی کھایا ہے۔ پس اس میں دو سنتیں قولی اور فعلی جمع ہوگئی ہيں۔
جہاں تک سوال ہے کھانے میں سے جگر کو اختیار کرنے کا تویہ مستقل باب ِعبادت میں سے نہیں ہےبلکہ یہ فقط فقہاء کرام کا اپنا اختیار ہے، کیونکہ یہ بہت جلد اور آسانی سے گل جاتا ہے۔
کیا #قربانی میں سے سب سے پہلے #جگر_کھانا #مسنون ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى ابن عثیمین،جلد 16
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/qurbani_jigar_khana_masnoon.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی فقہاء کرام کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے کہ قربانی میں سے جگر کا کھانا مسنون ہے؟ کیا اس بات کی کوئی دلیل بھی ہے؟
جواب: قربانی میں سے مطلق کھانا مسنون ہے۔ اور قربانی میں سے کھانے کے بارے میں قرآن وسنت کی دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میں سے کھانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور خود بھی کھایا ہے۔ پس اس میں دو سنتیں قولی اور فعلی جمع ہوگئی ہيں۔
جہاں تک سوال ہے کھانے میں سے جگر کو اختیار کرنے کا تویہ مستقل باب ِعبادت میں سے نہیں ہےبلکہ یہ فقط فقہاء کرام کا اپنا اختیار ہے، کیونکہ یہ بہت جلد اور آسانی سے گل جاتا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] For how many days animals can be #slaughtered in #Eid_ul_Adha? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی_کتنے_دن تک کی جاسکتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurabani_kitne_din.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں: یوم العید، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔
میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا ًامام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج: 28)
(تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان’’اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ‘‘میں اللہ کا نام لیں ان پالتو چوپایوں پر جو اس نے انہيں دیے ہیں)([1])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’الأيام المعلومات: يوم النحر، وثلاثة أيام بعده‘‘([2])
(ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین ایام ہیں)۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘ اسے احمد، بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے([3])۔
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:
’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا ہے([4])۔
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟۔
[1] ان پر اللہ کا نام ذکر کریں میں دونوں شامل ہیں ان کے ذبح کے وقت اور ان کے کھانے کے وقت۔ (الشیخ)
[2] رواه ابن حاتم في تفسيره (8/2489)۔
[3] رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)، وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد‘‘۔
[4] رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔
#قربانی_کتنے_دن تک کی جاسکتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurabani_kitne_din.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں: یوم العید، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔
میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا ًامام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج: 28)
(تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان’’اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ‘‘میں اللہ کا نام لیں ان پالتو چوپایوں پر جو اس نے انہيں دیے ہیں)([1])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’الأيام المعلومات: يوم النحر، وثلاثة أيام بعده‘‘([2])
(ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین ایام ہیں)۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘ اسے احمد، بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے([3])۔
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:
’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا ہے([4])۔
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟۔
[1] ان پر اللہ کا نام ذکر کریں میں دونوں شامل ہیں ان کے ذبح کے وقت اور ان کے کھانے کے وقت۔ (الشیخ)
[2] رواه ابن حاتم في تفسيره (8/2489)۔
[3] رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)، وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد‘‘۔
[4] رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Demonstrations #against_government is not from the #Salafee_Manhaj – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#حکومت_مخالف #مظاہرات #سلفی_طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
#حکومت_مخالف #مظاہرات #سلفی_طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
#SalafiUrduDawah
#علم کے ساتھ #فہم بھی ضروری ہے - شیخ محمد بن صالح #العثیمین
#Ilm k sath #fehm bhi zarori hai - shaykh muhammad bin saaleh #al_uthaimeen
#علم کے ساتھ #فہم بھی ضروری ہے - شیخ محمد بن صالح #العثیمین
#Ilm k sath #fehm bhi zarori hai - shaykh muhammad bin saaleh #al_uthaimeen