[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of Saheeh #Bukharee – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 1: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: "أَمَّا بَعْدُ، فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ، فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ".
حدیث 2: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: "ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ".
حدیث 3: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفًا ، أَنَّ أَبَا الْمِنْهَالِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَرْزَةَ ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يُغْنِيكُمْ أَوْ نَغَشَكُمْ بِالْإِسْلَامِ وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَعَ هَاهُنَا يُغْنِيكُمْ، وَإِنَّمَا هُوَ نَعَشَكُمْ، يُنْظَرُ فِي أَصْلِ كِتَابِ الِاعْتِصَامِ.
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_01.mp3
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 1: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: "أَمَّا بَعْدُ، فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ، فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ".
حدیث 2: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: "ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ".
حدیث 3: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفًا ، أَنَّ أَبَا الْمِنْهَالِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَرْزَةَ ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يُغْنِيكُمْ أَوْ نَغَشَكُمْ بِالْإِسْلَامِ وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَعَ هَاهُنَا يُغْنِيكُمْ، وَإِنَّمَا هُوَ نَعَشَكُمْ، يُنْظَرُ فِي أَصْلِ كِتَابِ الِاعْتِصَامِ.
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_01.mp3
#SalafiUrduDawah
#ہندوانہ تہوار #دیوالی یا #دیپاولی میں شرکت
#hindu tehwar #dewali #deepawali may shirkat
#ہندوانہ تہوار #دیوالی یا #دیپاولی میں شرکت
#hindu tehwar #dewali #deepawali may shirkat
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of #Saheeh_Bukharee - Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 4: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُبَايِعُهُ: وَأُقِرُّ لَكَ بِذَلِكَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ فِيمَا اسْتَطَعْتُ".
بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث 5: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ".
حدیث 6: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى ؟، قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى".
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_02.mp3
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 4: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُبَايِعُهُ: وَأُقِرُّ لَكَ بِذَلِكَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ فِيمَا اسْتَطَعْتُ".
بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث 5: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ".
حدیث 6: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى ؟، قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى".
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_02.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] A #fabricated_Dua be recited at the beginning of the month of #Safar - #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
ماہ ِ#صفر شروع ہونے پر ایک #من_گھڑت_دعاء
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة رقم 20316 تاريخ 21/3/1419ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/safar_man_gharat_dua.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:میں سوال کے ساتھ ایک لکھی ہوئی دعاء بھی بھیج رہا ہوں جو بعض غیرملکی ہمارے یہاں ماہ صفر میں تقسیم کرتے ہیں، جس میں سے کچھ الفاظ یہ ہیں:
” اللهم بسر الحسن و أخيه، و جده و أبيه، اكفنا شر هذا اليوم و ما ينزل فيه، يا كافي، {فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم} و حسبنا الله و نعم الوكيل، و لا حول و لا قوة الا بالله العلي العلي العظيم، اللهم إنا نسألك بأسمائك الحسنى وبكلماتك التامات وبحرمة نبيك سيدنا محمد صلي الله عليه وسلم أن تحفظنا وأن تعافينا من بلائك، يادافع البلايا، يامفرج الهم و ياكاشف الغم، اكشف عنا ما كتب علينا في هذه السنة من هم أو غم إنك على كل شيء قدير... “
پس میں آپ سماحۃ الشیخ سے امید کرتا ہوں کہ اس پر نظر فرمائيں گے؟
جواب:اس پوچھے گئے سوال کو پڑھنے کے بعد فتویٰ کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ بلاشبہ یہ دعاء گھڑی ہوئی بدعت ہے کہ اسے اس معین وقت میں مخصوص کیا جائے، اور اس میں حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جاہ کا وسیلہ ہے، ساتھ ہی اللہ تعالی کو ایسے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ سنت سے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں جائز نہیں کہ اسے کسی نام سے موسوم کیا جائے سوائے ان ناموں کے جو اس نے خود اپنے لیے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ذکر فرمائے ہيں۔ اور دعاء میں شخصیات یا ان کی جاہ ومرتبے کے ذریعے وسیلہ پکڑنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔
لہذا واجب ہے کہ اس کو تقسیم کرنے سے روکا جائے اور اس میں سے جو ملے اسے تلف کردیا جائے۔ اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ گمراہ شیعوں کی دسیسہ کاریوں میں سے ہے۔ وباللہ التوفیق۔
وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم...
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
عبداللہ الغدیان بکر ابو زید صالح الفوزان عبدالعزیز آل الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
ماہ ِ#صفر شروع ہونے پر ایک #من_گھڑت_دعاء
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة رقم 20316 تاريخ 21/3/1419ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/safar_man_gharat_dua.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:میں سوال کے ساتھ ایک لکھی ہوئی دعاء بھی بھیج رہا ہوں جو بعض غیرملکی ہمارے یہاں ماہ صفر میں تقسیم کرتے ہیں، جس میں سے کچھ الفاظ یہ ہیں:
” اللهم بسر الحسن و أخيه، و جده و أبيه، اكفنا شر هذا اليوم و ما ينزل فيه، يا كافي، {فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم} و حسبنا الله و نعم الوكيل، و لا حول و لا قوة الا بالله العلي العلي العظيم، اللهم إنا نسألك بأسمائك الحسنى وبكلماتك التامات وبحرمة نبيك سيدنا محمد صلي الله عليه وسلم أن تحفظنا وأن تعافينا من بلائك، يادافع البلايا، يامفرج الهم و ياكاشف الغم، اكشف عنا ما كتب علينا في هذه السنة من هم أو غم إنك على كل شيء قدير... “
پس میں آپ سماحۃ الشیخ سے امید کرتا ہوں کہ اس پر نظر فرمائيں گے؟
جواب:اس پوچھے گئے سوال کو پڑھنے کے بعد فتویٰ کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ بلاشبہ یہ دعاء گھڑی ہوئی بدعت ہے کہ اسے اس معین وقت میں مخصوص کیا جائے، اور اس میں حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جاہ کا وسیلہ ہے، ساتھ ہی اللہ تعالی کو ایسے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ سنت سے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں جائز نہیں کہ اسے کسی نام سے موسوم کیا جائے سوائے ان ناموں کے جو اس نے خود اپنے لیے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ذکر فرمائے ہيں۔ اور دعاء میں شخصیات یا ان کی جاہ ومرتبے کے ذریعے وسیلہ پکڑنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔
لہذا واجب ہے کہ اس کو تقسیم کرنے سے روکا جائے اور اس میں سے جو ملے اسے تلف کردیا جائے۔ اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ گمراہ شیعوں کی دسیسہ کاریوں میں سے ہے۔ وباللہ التوفیق۔
وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم...
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
عبداللہ الغدیان بکر ابو زید صالح الفوزان عبدالعزیز آل الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
[#SalafiUrduDawah Article] #Burning_a_Living_being is Unlawful and #ISIS has no Religion – Shaykh #Abdul_Azeez_Aal-Shaykh
#آگ_سے_جاندار_کو_جلانا حرام ہے اور #داعش کا کوئی دین نہیں
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جريدة الشرق الأوسط الأربعاء – 14 شهر ربيع الثاني 1436 هـ – 04 فبراير 2015 مـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/aag_jalana_haram_isis_ladeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ (مفتی اعظم، سعودی عرب) نے اخبار ’’الشرق الأوسط‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
جس گروہ نے اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو زندہ جلادیا ان کا نہ کوئی دین ہے، نہ ہی اخلاق ہے۔ ساتھ ہی مفتی حفظہ اللہ نے تاکیدا ً فرمایا کہ زندہ شخص کو جلا ڈالنا یہاں تک کہ وہ مر جائے حرام ہے۔
شیخ آل شیخ حفظہ اللہ نے ٹیلیفونک رابطے پر مزید فرمایا کہ یہ تنظیم داعش دراصل خوارج ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں، جبکہ ان کا یہ دعوی باطل ہے۔ اور یہ (دولت اسلامیہ نہیں بلکہ) دولت ِکفروظلم کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ اسلام کے کھلے دشمن ہیں۔
اور مفتی اعظم سعودی عرب نے اس جانب بھی اشارہ فرمایا کہ اردنی پائلٹ قیدی معاذ الکساسبہ کو زندہ آگ میں جلادینے کا عمل حرام تھا کیونکہ آگ سے جلانے کا حق صرف اس کے رب (یعنی اللہ تعالی) کو ہے([1])۔
ساتھ ہی شیخ آل الشیخ حفظہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ کسی انسان کو جیتے جی آگ میں جلا کر قتل کرنے کا جرم نہایت المناک اور اندوہناک ہے۔ اور اس گروہ کا نہ کوئی دین ہے نہ اخلاق، وہ محض ایک فسادی اور مجرم گروہ ہے۔
[1] سیدنا حمزة بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، وَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَأَحْرِقُوهُ بِالنَّارِ، فَوَلَّيْتُ فَنَادَانِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَاقْتُلُوهُ وَلَا تُحْرِقُوهُ، فَإِنَّهُ لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ‘‘ (صحیح ابی داود 2673) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ پر امیر مقرر فرمایا۔ تو میں جب اس کے لیے نکلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو اسے آگ سے جلادینا۔ پس میں مڑ کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ سے پکارا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو بس قتل ہی کردینا کیونکہ بے شک آگ کے ساتھ عذاب نہیں دیتا مگر صرف آگ کا رب (یعنی اللہ تعالی))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#آگ_سے_جاندار_کو_جلانا حرام ہے اور #داعش کا کوئی دین نہیں
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جريدة الشرق الأوسط الأربعاء – 14 شهر ربيع الثاني 1436 هـ – 04 فبراير 2015 مـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/aag_jalana_haram_isis_ladeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ (مفتی اعظم، سعودی عرب) نے اخبار ’’الشرق الأوسط‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
جس گروہ نے اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو زندہ جلادیا ان کا نہ کوئی دین ہے، نہ ہی اخلاق ہے۔ ساتھ ہی مفتی حفظہ اللہ نے تاکیدا ً فرمایا کہ زندہ شخص کو جلا ڈالنا یہاں تک کہ وہ مر جائے حرام ہے۔
شیخ آل شیخ حفظہ اللہ نے ٹیلیفونک رابطے پر مزید فرمایا کہ یہ تنظیم داعش دراصل خوارج ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں، جبکہ ان کا یہ دعوی باطل ہے۔ اور یہ (دولت اسلامیہ نہیں بلکہ) دولت ِکفروظلم کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ اسلام کے کھلے دشمن ہیں۔
اور مفتی اعظم سعودی عرب نے اس جانب بھی اشارہ فرمایا کہ اردنی پائلٹ قیدی معاذ الکساسبہ کو زندہ آگ میں جلادینے کا عمل حرام تھا کیونکہ آگ سے جلانے کا حق صرف اس کے رب (یعنی اللہ تعالی) کو ہے([1])۔
ساتھ ہی شیخ آل الشیخ حفظہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ کسی انسان کو جیتے جی آگ میں جلا کر قتل کرنے کا جرم نہایت المناک اور اندوہناک ہے۔ اور اس گروہ کا نہ کوئی دین ہے نہ اخلاق، وہ محض ایک فسادی اور مجرم گروہ ہے۔
[1] سیدنا حمزة بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، وَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَأَحْرِقُوهُ بِالنَّارِ، فَوَلَّيْتُ فَنَادَانِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَاقْتُلُوهُ وَلَا تُحْرِقُوهُ، فَإِنَّهُ لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ‘‘ (صحیح ابی داود 2673) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ پر امیر مقرر فرمایا۔ تو میں جب اس کے لیے نکلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو اسے آگ سے جلادینا۔ پس میں مڑ کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ سے پکارا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو بس قتل ہی کردینا کیونکہ بے شک آگ کے ساتھ عذاب نہیں دیتا مگر صرف آگ کا رب (یعنی اللہ تعالی))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Thinking the Month of #Safar as #Unlucky and its Innovations – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#صفر کے مہینے کو #منحوس سمجھنا اور اس مہینے میں ہونے والی بعض بدعات
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/mah_e_safar_manhoos_bidaat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :
مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([1])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد یاحقیقت) نہیں پاتے۔
اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([2])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:
’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘
(اور نہ ہی نچھتر([3]) ہے اور نہ ہی بھوت([4]))۔
کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر وبھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔
صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیریا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شروبرائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا: امام مسلم "نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([5])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لئے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔
[2] حدیث گزر چکی ہے۔
[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] حدیث گزر چکی ہے۔
#صفر کے مہینے کو #منحوس سمجھنا اور اس مہینے میں ہونے والی بعض بدعات
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/mah_e_safar_manhoos_bidaat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :
مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([1])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد یاحقیقت) نہیں پاتے۔
اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([2])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:
’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘
(اور نہ ہی نچھتر([3]) ہے اور نہ ہی بھوت([4]))۔
کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر وبھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔
صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیریا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شروبرائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا: امام مسلم "نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([5])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لئے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔
[2] حدیث گزر چکی ہے۔
[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] حدیث گزر چکی ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] I don't want to hear anything against my favourite #Aalim or #Daaee! – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
میں اپنے پسندیدہ #عالم یا #داعی کے خلاف کچھ نہيں سن سکتا!
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ص 67.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/pasandeedah_alim_daee_khilaf_na_sunna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کسی عالم یا داعی کو پسند کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ: بے شک میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اور ہرگز بھی نہيں سن سکتا کہ کوئی ان پررد کرے، اور میں ان کی ہی بات کو لوں گا چاہے وہ دلیل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بے شک میرے یہ شیخ ہم سے زیادہ دلیل کو سمجھنے والے ہيں؟
جواب: یہی وہ قابل نفرت ومذمت تعصب ہے، جو کہ بالکل بھی جائز نہیں([1])۔
ہم علماء کرام سے محبت کرتے ہيں الحمدللہ، اسی طرح سے داعیان الی اللہ سے بھی محبت کرتے ہیں، لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلے میں غلطی کرجائے، تو ہم اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق بیان کرتے ہيں، اور یہ مردود علیہ (جس کا رد کیا گیا) ا س کی محبت اور قدر میں نقص کا سبب نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے‘‘([2])۔
لہذا ہم اگر بعض اہل علم وفضل پر رد کرتے ہيں تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ ہم ان سے بغض رکھتے ہيں یا ان کی تنقیص کے خواہاں ہیں، بلکہ ہم تو صرف اور صرف حق صواب کی وضاحت کرتے ہيں۔ اسی لیے بعض علماء کرام جب ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غلطی کرتا تو یوں فرماتے ہیں:
’’فلاں ہمارا محبوب ہے، لیکن حق ہمیں اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘([3])۔
یہ ہے صحیح طریقہ ۔
چناچہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بعض علماء پر کسی ایسے مسئلے میں جس میں ان سے غلطی ہوئی رد کرنے کا مطلب ان کی تنقیص کرنا یا ان سے بغض کرنا ہے، بلکہ علماء کرام تو ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہيں اس کے باوجود آپس میں محبت اور بھائی چارہ بھی تھا۔
ہمارے لیے جائز نہيں کہ کسی شخص کی ہر بات کو اٹل سمجھ کر لازمی طور پر لیں، چاہے وہ صواب پر ہو یا غلطی پر، کیونکہ بلاشبہ یہ تعصب ہے۔
وہ شخصیت کے جن کے ہر قول کو لیا جائے گا اور اس میں سے کسی بھی چیزکو چھوڑا نہيں جاسکتا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں، کیونکہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی طرف سے مبلغ (پہنچانے والے) ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہيں بولتے، لیکن ان کے علاوہ جو ہيں تو ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور صواب کو بھی پاسکتے ہيں، اگرچہ وہ تمام لوگوں میں سے افضل ترین ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کرتے ہيں اور صواب کو بھی پاتے ہیں۔
کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہيں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔
واجب ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیں، کسی غلطی پر پردہ نہ ڈالیں کسی شخصیت کی ہیبت کی وجہ سے، بلکہ ہمیں چاہیےکہ ہم غلطی کو واضح کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([4])
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اور حکام مسلمین اور ان کی عوام کے لیے)۔
اور غلطی کو بیان کرنا تمام لوگوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے، جبکہ اسے چھپانا نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے مخالف ہے۔
[1] محمد سلطان الخجندی رحمہ اللہ صاحب کتاب ’’هل المسلم ملزم باتباع مذهب معين من المذاهب الأربعة‘‘ ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: ’’اس امت کے کسی بھی شخص پر یہ واجب نہيں کہ وہ حنفی ہو، یا مالکی، یا شافعی یا حنبلی، بلکہ ہر ایسے فرد پر ضروری ہے کہ جو عالم نہ ہو کہ وہ اہل ذکر (علماء) میں سے کسی بھی سے پوچھ لے، اور یہ آئمہ اربعہ بھی اہل ذکرمیں سے ہيں، اسی لیے کہا جاتا ہے: (جس نے عالم کی اتباع کی اس کی ملاقات اللہ تعالی سے سلامتی کے ساتھ ہوگی)، اور درحقیقت ہر مکلف سیدالانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر مامور ہے‘‘۔ ص 57 تحقیقی الہلالی۔
میں یہ کہتا ہوں: اس کے قریب قریب معنی اس کلام کا بھی ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے جو اس کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حاشیہ رقم 67 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
میں اپنے پسندیدہ #عالم یا #داعی کے خلاف کچھ نہيں سن سکتا!
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ص 67.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/pasandeedah_alim_daee_khilaf_na_sunna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کسی عالم یا داعی کو پسند کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ: بے شک میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اور ہرگز بھی نہيں سن سکتا کہ کوئی ان پررد کرے، اور میں ان کی ہی بات کو لوں گا چاہے وہ دلیل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بے شک میرے یہ شیخ ہم سے زیادہ دلیل کو سمجھنے والے ہيں؟
جواب: یہی وہ قابل نفرت ومذمت تعصب ہے، جو کہ بالکل بھی جائز نہیں([1])۔
ہم علماء کرام سے محبت کرتے ہيں الحمدللہ، اسی طرح سے داعیان الی اللہ سے بھی محبت کرتے ہیں، لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلے میں غلطی کرجائے، تو ہم اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق بیان کرتے ہيں، اور یہ مردود علیہ (جس کا رد کیا گیا) ا س کی محبت اور قدر میں نقص کا سبب نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے‘‘([2])۔
لہذا ہم اگر بعض اہل علم وفضل پر رد کرتے ہيں تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ ہم ان سے بغض رکھتے ہيں یا ان کی تنقیص کے خواہاں ہیں، بلکہ ہم تو صرف اور صرف حق صواب کی وضاحت کرتے ہيں۔ اسی لیے بعض علماء کرام جب ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غلطی کرتا تو یوں فرماتے ہیں:
’’فلاں ہمارا محبوب ہے، لیکن حق ہمیں اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘([3])۔
یہ ہے صحیح طریقہ ۔
چناچہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بعض علماء پر کسی ایسے مسئلے میں جس میں ان سے غلطی ہوئی رد کرنے کا مطلب ان کی تنقیص کرنا یا ان سے بغض کرنا ہے، بلکہ علماء کرام تو ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہيں اس کے باوجود آپس میں محبت اور بھائی چارہ بھی تھا۔
ہمارے لیے جائز نہيں کہ کسی شخص کی ہر بات کو اٹل سمجھ کر لازمی طور پر لیں، چاہے وہ صواب پر ہو یا غلطی پر، کیونکہ بلاشبہ یہ تعصب ہے۔
وہ شخصیت کے جن کے ہر قول کو لیا جائے گا اور اس میں سے کسی بھی چیزکو چھوڑا نہيں جاسکتا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں، کیونکہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی طرف سے مبلغ (پہنچانے والے) ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہيں بولتے، لیکن ان کے علاوہ جو ہيں تو ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور صواب کو بھی پاسکتے ہيں، اگرچہ وہ تمام لوگوں میں سے افضل ترین ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کرتے ہيں اور صواب کو بھی پاتے ہیں۔
کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہيں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔
واجب ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیں، کسی غلطی پر پردہ نہ ڈالیں کسی شخصیت کی ہیبت کی وجہ سے، بلکہ ہمیں چاہیےکہ ہم غلطی کو واضح کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([4])
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اور حکام مسلمین اور ان کی عوام کے لیے)۔
اور غلطی کو بیان کرنا تمام لوگوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے، جبکہ اسے چھپانا نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے مخالف ہے۔
[1] محمد سلطان الخجندی رحمہ اللہ صاحب کتاب ’’هل المسلم ملزم باتباع مذهب معين من المذاهب الأربعة‘‘ ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: ’’اس امت کے کسی بھی شخص پر یہ واجب نہيں کہ وہ حنفی ہو، یا مالکی، یا شافعی یا حنبلی، بلکہ ہر ایسے فرد پر ضروری ہے کہ جو عالم نہ ہو کہ وہ اہل ذکر (علماء) میں سے کسی بھی سے پوچھ لے، اور یہ آئمہ اربعہ بھی اہل ذکرمیں سے ہيں، اسی لیے کہا جاتا ہے: (جس نے عالم کی اتباع کی اس کی ملاقات اللہ تعالی سے سلامتی کے ساتھ ہوگی)، اور درحقیقت ہر مکلف سیدالانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر مامور ہے‘‘۔ ص 57 تحقیقی الہلالی۔
میں یہ کہتا ہوں: اس کے قریب قریب معنی اس کلام کا بھی ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے جو اس کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حاشیہ رقم 67 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے سامنے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر ہوجائے، تو اس کے لیے روا نہيں کہ وہ لوگوں میں سے کسی کے بھی قول کی وجہ سے اسے چھوڑ دے‘‘۔ دیکھیں اعلام الموقعین لابن القیم رحمہ اللہ 1/7۔
[2] اس اثر کی تخریج کے لیے دیکھیں کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ للالبانی رحمہ اللہ ص 26 حاشیہ 3 ط المکتب الاسلامی 1403ھ، اور اسے العجلونی رحمہ اللہ بھی ’’کشف الخفاء‘‘ 1961 میں لے کر آئے ہیں۔
[3] یہ مقالہ شیخ الاسلام ابن القیم رحمہ اللہ کا ابو اسماعیل الہروی کے بارے میں ہے، دیکھیں ’’مدارج السالکین‘‘ 3/394۔
[4] اخرجہ مسلم فی کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث رقم 55۔
[2] اس اثر کی تخریج کے لیے دیکھیں کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ للالبانی رحمہ اللہ ص 26 حاشیہ 3 ط المکتب الاسلامی 1403ھ، اور اسے العجلونی رحمہ اللہ بھی ’’کشف الخفاء‘‘ 1961 میں لے کر آئے ہیں۔
[3] یہ مقالہ شیخ الاسلام ابن القیم رحمہ اللہ کا ابو اسماعیل الہروی کے بارے میں ہے، دیکھیں ’’مدارج السالکین‘‘ 3/394۔
[4] اخرجہ مسلم فی کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث رقم 55۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is being an #Aalim, #Muhaddith and #Mufassir proof enough for someone bearing the correct #Aqeedah and #Manhaj? – Shaykh #Saaleh_Aal_Shaykh
کیا کسی کا #عالم، #محدث و #مفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا #عقیدہ_ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
کیا کسی کا #عالم، #محدث و #مفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا #عقیدہ_ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
یا جیسا کہ متاخرین کا حال ہے مثال کے طور پر داود بن جرجیس تو یہ بہت وسیع علم رکھنے والاشخص ہے، لیکن وہ علماء مشرکین میں سے ہے۔ یا جیسا حال ہے محمد بن حمید الشرقی مصنف کتاب ’’السحب الوابلة على ضرائح الحنابلة‘‘ کا، وہ بھی توحید کے دشمنوں میں سے تھا۔ تو اس نے مشایخ کرام پر رد لکھا اس بات پر کہ انہوں نے بوصیری کے مشہور ومعروف قصیدے المیمہ([1]) کا رد کیا تھا، تو اس نے ان کا رد کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ اسے شرک کہنا باطل ہے، اور جو کچھ بوصیری نے کہا اس کا آخر تک اقرار کیا اور صحیح ثابت کیا۔ اور شیخ عبدالرحمن بن حسن مصنف ’’فتح المجید‘‘ جو کہ مجدد ثانی تھے کا ایک رسالہ بھی موجود ہے جس میں اس کتاب کے مصنف پر انہوں نے رد فرمایا ہے، حالانکہ وہ فقہ میں بہت نمایاں مقام رکھتا تھا، اور تفسیر وسوانح نگاری اور آخر تک جو علوم ہیں ان کے تعلق سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کیے جاتے تھے۔۔۔ لیکن وہ درحقیقت علماء مشرکین میں سے اوردشمنان توحید میں سے تھا۔ کیونکہ یہ شرک کا دفاع اور پشت پناہی کرتے ہیں اور اہل توحید کا رد کرتے ہيں، اور لوگوں کو توحید وشرک کی تعریف کے بارے میں، اور کس چیز سے ایک مسلمان مشرک ومرتد ہوجاتا ہے اس تعلق سے گمراہ کرتے ہیں، چناچہ اس بارے میں وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
چناچہ یہ مقدمہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ: یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس پائے کے علماء جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ مشرکین نہیں ہوسکتے، بلکہ شیخ رحمہ اللہ کے دور میں اور اس کے بعد بھی ایسے علماء پائے جاتے تھے جن کی جانب اشارہ کیاجاتا، لیکن وہ مشرکین تھے جیساکہ شافعیہ کے مفتی بھی جو مکہ میں تھے احمد بن زینی دحلان اور ان جیسے لوگ۔ چناچہ لوگ توان کی جانب رجوع کرتے اور فتاویٰ لیتےاوروہ انہیں ان باتوں سے پھیر دیتے۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ شرک کے واسطے اس کے علماء موجود نہ ہوں گے جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔
پس بطور مقدمہ یہ بات سمجھ لیں کہ اس کتاب ’’کشف الشبہات‘‘ میں مسائل میں سے کسی بھی مسئلے کے تعلق سے جب شبہے کا ازالہ کیا جائے گا تو یہ نہ کہیں کہ یہ فلاں عالم نے بھی تو کہا ہے، فلاں امام بھی تو اس کے قائل ہیں، (اگر یہ غلط ہے تو) آخر فلاں امام کیسے یہ کرسکتا ہے۔ اس قسم کا شخص یا تو جاہل ہے جس نے اس مسئلے کو صحیح طور پر ضبط نہيں کیا جیساکہ بعض مشہور علماء جن کا خیر کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، یا پھر اس نے جانتے بوجھتے عناد واعراض کی راہ اپناتے ہوئے شرک کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کے لیے یہ تصنیف کی ہوگی۔ جیسا کہ فخر الدین الرازی نے کیا جو تفسیر ’’مفاتيح الغيب‘‘ کے مصنف ہیں، اس طرح کہ انہوں نے صابئہ (ستارہ پرستوں) کے دین کو خوبصورت بناکر پیش کرنے اور ان کا ستاروں سے مخاطب ہونے کے تعلق سے کتاب لکھی جسے ’’السر المكتوم في مخاطبة النجوم‘‘ کا نام دیا، اس کی وجہ سے اہل علم کی ایک جماعت نے ان کی تکفیر بھی کی([2])۔ تو انہوں نے خوبصورت بناکر پیش کیا ہے کہ وہ کیسے ستاروں سے مخاطب ہوتے ہیں ، کیسے ان سے استغاثہ (فریادیں) کرتے ہیں اور کیسے ان سے بارش طلب کرتے ہیں اور آخر تک جو وہ کرتے ہيں۔۔۔انہوں نے اس بارے میں تصنیف حران کے صابئہ کی ان کاموں کی جانب رہنمائی کے لیے کی، اور یہ بے شک پرلے درجے کی گمراہی ہے۔
لہذا ہرگز بھی یہ نہ کہا جائے جب کوئی بھی شبہہ آئے اور اس کا رد کیا جائے یا اس کا رد آئمہ سنت وتوحید کریں تو یوں نہ کہا جائے کہ فلاں عالم نے پھر اس طرح کیسے کہہ دیا؟! کیسے فلاں عالم کی نسبت سے یہ بات رواج پاسکتی ہے؟! یہ لوگ یا تو جاہل تھے کہ انہوں نے دشمنان توحید کے بارے میں نہ لکھا یا پھر انہوں نے شرک اور اسے خوبصورت بناکر پیش کرنے کے سلسلے میں تصنیف کی۔ یہاں شیخ کی مراد اس قسم کےلوگ ہیں اپنے اس فرمان سے کہ:
’’ہوسکتا ہے دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں‘‘۔
اگر آپ ان کا کلام پڑھیں گے تو کبھی وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم ; تک سے نقول اور حوالے لے کر آتے ہیں، جیسا کہ داود بن جرجیس نے کیا جب اس نے اپنی کتاب ’’صلح الإخوان‘‘ تصنیف کی، اس میں اس نے شیخ الاسلام اور ابن القیم ; سے نقول پیش کی، ساتھ ہی مفسرین کے اقوال اور بہت سے علماء کے اقوال بھی لے کر آیا ہے۔ یا جیسا کہ فی زمانہ تصنیف کی محمد بن علوی المالکی جیسے لوگوں نے ، اس نے بھی تصنیف کی جس میں یہاں وہاں سے دوسو یا تین سو اقوال پکڑ لے آیا ہےان علماء کے جو اپنی کتب میں ان کی بعض شرکیات اور بعض واسطے وسیلوں اور اس جیسی چیزوں کے اقراری تھے، حالانکہ اصل اعتبار اس کا نہيں کیا جاتا۔
بلکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے جس پر ایک توحید پرست کے دونوں قدم جمے رہنے چاہیے کہ: مشرکین کے علماء کے پاس بھی کبھی بہت سا علم اور حجتیں ہوا کرتی ہیں، کیونکہ شرک سبب نہيں بنتا ان سے کلی طور پر علم چھن جانے کا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ان کے اولین لوگوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
چناچہ یہ مقدمہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ: یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس پائے کے علماء جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ مشرکین نہیں ہوسکتے، بلکہ شیخ رحمہ اللہ کے دور میں اور اس کے بعد بھی ایسے علماء پائے جاتے تھے جن کی جانب اشارہ کیاجاتا، لیکن وہ مشرکین تھے جیساکہ شافعیہ کے مفتی بھی جو مکہ میں تھے احمد بن زینی دحلان اور ان جیسے لوگ۔ چناچہ لوگ توان کی جانب رجوع کرتے اور فتاویٰ لیتےاوروہ انہیں ان باتوں سے پھیر دیتے۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ شرک کے واسطے اس کے علماء موجود نہ ہوں گے جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔
پس بطور مقدمہ یہ بات سمجھ لیں کہ اس کتاب ’’کشف الشبہات‘‘ میں مسائل میں سے کسی بھی مسئلے کے تعلق سے جب شبہے کا ازالہ کیا جائے گا تو یہ نہ کہیں کہ یہ فلاں عالم نے بھی تو کہا ہے، فلاں امام بھی تو اس کے قائل ہیں، (اگر یہ غلط ہے تو) آخر فلاں امام کیسے یہ کرسکتا ہے۔ اس قسم کا شخص یا تو جاہل ہے جس نے اس مسئلے کو صحیح طور پر ضبط نہيں کیا جیساکہ بعض مشہور علماء جن کا خیر کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، یا پھر اس نے جانتے بوجھتے عناد واعراض کی راہ اپناتے ہوئے شرک کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کے لیے یہ تصنیف کی ہوگی۔ جیسا کہ فخر الدین الرازی نے کیا جو تفسیر ’’مفاتيح الغيب‘‘ کے مصنف ہیں، اس طرح کہ انہوں نے صابئہ (ستارہ پرستوں) کے دین کو خوبصورت بناکر پیش کرنے اور ان کا ستاروں سے مخاطب ہونے کے تعلق سے کتاب لکھی جسے ’’السر المكتوم في مخاطبة النجوم‘‘ کا نام دیا، اس کی وجہ سے اہل علم کی ایک جماعت نے ان کی تکفیر بھی کی([2])۔ تو انہوں نے خوبصورت بناکر پیش کیا ہے کہ وہ کیسے ستاروں سے مخاطب ہوتے ہیں ، کیسے ان سے استغاثہ (فریادیں) کرتے ہیں اور کیسے ان سے بارش طلب کرتے ہیں اور آخر تک جو وہ کرتے ہيں۔۔۔انہوں نے اس بارے میں تصنیف حران کے صابئہ کی ان کاموں کی جانب رہنمائی کے لیے کی، اور یہ بے شک پرلے درجے کی گمراہی ہے۔
لہذا ہرگز بھی یہ نہ کہا جائے جب کوئی بھی شبہہ آئے اور اس کا رد کیا جائے یا اس کا رد آئمہ سنت وتوحید کریں تو یوں نہ کہا جائے کہ فلاں عالم نے پھر اس طرح کیسے کہہ دیا؟! کیسے فلاں عالم کی نسبت سے یہ بات رواج پاسکتی ہے؟! یہ لوگ یا تو جاہل تھے کہ انہوں نے دشمنان توحید کے بارے میں نہ لکھا یا پھر انہوں نے شرک اور اسے خوبصورت بناکر پیش کرنے کے سلسلے میں تصنیف کی۔ یہاں شیخ کی مراد اس قسم کےلوگ ہیں اپنے اس فرمان سے کہ:
’’ہوسکتا ہے دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں‘‘۔
اگر آپ ان کا کلام پڑھیں گے تو کبھی وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم ; تک سے نقول اور حوالے لے کر آتے ہیں، جیسا کہ داود بن جرجیس نے کیا جب اس نے اپنی کتاب ’’صلح الإخوان‘‘ تصنیف کی، اس میں اس نے شیخ الاسلام اور ابن القیم ; سے نقول پیش کی، ساتھ ہی مفسرین کے اقوال اور بہت سے علماء کے اقوال بھی لے کر آیا ہے۔ یا جیسا کہ فی زمانہ تصنیف کی محمد بن علوی المالکی جیسے لوگوں نے ، اس نے بھی تصنیف کی جس میں یہاں وہاں سے دوسو یا تین سو اقوال پکڑ لے آیا ہےان علماء کے جو اپنی کتب میں ان کی بعض شرکیات اور بعض واسطے وسیلوں اور اس جیسی چیزوں کے اقراری تھے، حالانکہ اصل اعتبار اس کا نہيں کیا جاتا۔
بلکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے جس پر ایک توحید پرست کے دونوں قدم جمے رہنے چاہیے کہ: مشرکین کے علماء کے پاس بھی کبھی بہت سا علم اور حجتیں ہوا کرتی ہیں، کیونکہ شرک سبب نہيں بنتا ان سے کلی طور پر علم چھن جانے کا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ان کے اولین لوگوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ (غافر: 83)
(پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر اِترا گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا)
ہوسکتا ہے کبھی یہ علم الہیات کے تعلق سے ہو جیسا کہ وہ کہتے تھے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا﴾ (ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا)
یہ اعتراض ِشبہہ تھا، اور کہا کہ:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ (الزمر: 3)
(ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، خوب اچھی طرح قریب کردیں)
اور کبھی وہ علم فقہیات تک سے متعلق ہوتا ہے، جیسا کہ کہا:
﴿قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (البقرۃ: 275)
(انہوں نے کہا بیع (تجارت) بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا)
یا اس جیسی دیگر باتیں۔ پس اس امت کو مخاطب کرنے والے علوم کی جو جنس ہے وہ رسولوں کے دشمنوں کے یہاں بھی تھی، یا تو الہیات کے پہلو سے یا پھر شرعیات کے پہلو سے۔ پس انہوں نے معارضہ اور ٹکراؤ کیا رسولوں سے اس علم کے ساتھ جو ان کے پاس تھا۔ بلکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے شبہہ کی قوت کے زاویے سے بطور تعظیم ان کے قول کو حجت بھی کہا ، پس فرمایا:
﴿ وَالَّذِيْنَ يُحَاجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ (الشوریٰ: 16)
(اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے)
کیا اس شخصیت کی یہ بہت سی کتابیں، فقہیات وسوانح نگاری وتفسیر یا اس جیسی چیزیں اسے ایسا کردیں گی کہ وہ توحید کا دشمن نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ توحید کی دشمنی میں لکھتا ہو، شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کے بارے میں لکھتا ہو، اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہو؟ جواب اس کا یہی ہے کہ نہيں! بلکہ وہ توحید کا دشمن اور شرک کی نصرت کرنے والا ہی کہلائے گا ، جس کی کوئی قدر واحترام نہيں، اگرچہ اس کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں، اگرچہ اس کی تالیفات ان سے بھی بڑھ کر ہوں جو باکثرت تالیفات کرنے میں مشہور تھے جیسے السیوطی وغیرہ۔ لہذا نہ یہ معتبر ہے نہ ہی اس کا کلام۔ کیونکہ یہ علماء توحید میں سے تو نہ ہوا چناچہ اس کے علوم نقصان دہ ہے ناکہ فائدہ مند اور علم نافع۔
اس کے بعد فرمایا: ’’جب آپ نے یہ جان لیا‘‘
یعنی جو کچھ پہلے ذکر ہوا کہ دشمنان ِرسل کے پاس کبھی علم بھی ہوتا ہے، کتب بھی ہوتی ہیں جو وہ تصنیف کرتے ہیں، حجتیں بھی ہوتی ہیں جو وہ پیش کرتے ہيں، بلکہ کبھی تو وہ کتاب وسنت سے اور اہل علم میں سے جو محققین ہیں ان کے اقوال تک سے حجت پکڑتےہیں۔ جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ سے کچھ باتیں نقل کرتے ہيں، اور کچھ شیخ الاسلام اور ابن القیم وابن حجر رحمہم اللہ سے اور بھی دوسروں سے نقل کیے جاتےہیں۔۔۔یہ سب کے سب نقصان دہ علوم ہیں ناکہ علم نافع۔
امام رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
’’جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ اللہ تعالی کی طرف جو راہ ہے ضروری ہے کہ اس پر دشمن بیٹھے ہوں گے جو کہ بڑے اہل فصاحت وبلاغت، اہل علم وحجت ہوں گے‘‘۔
اس کلمہ پر ذرا غور کریں کہ فرمایا ’’ضروری ہے کے اس راہ پر یہ دشمن موجود ہوں گے‘‘ یعنی توحید کی راہ میں اس کے دشمن ضرور بیٹھے ہوں گے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا۔ اب یہ جو دشمن ہیں ہوسکتا ہے علماء ہوں، اور ایسے علماء ہوں جو فصاحت وبلاغت اور علم وحجت کے اعلیٰ درجے پر ہوں۔ آپ کے پاس لازماً بچاؤ ہونا چاہیے کہ کہيں وہ آپ کو ہدایت کی راہ سے روک نہ دیں اور گمراہی کی راہ میں داخل نہ کردیں، اور کہیں وہ آپ پر دین کا معاملہ ملتبس وخلط ملط نہ کردیں۔کیونکہ یہ فصاحت کوئی معیار نہيں ہے، ورنہ تو ابلیس بھی بڑا فصیح ہوا کرتا تھا۔ اور نہ ہی علم فی نفسہ معیار ہے، بلکہ ضروری ہے علم علمِ نافع ہو۔ اور نہ ہی حجتیں، حوالہ جات اور ردود وجوابات معیار ہیں۔ جب یہ بات موجود ہے تو پھر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اس وصیت کو اپنے پلے باندھ لیجئے جو انہوں نے اپنے اس عظیم رسالے ’’کشف الشبہات‘‘ کے مقدمے میں بیان فرمائی ہے۔
(آخری میں فرمایا کہ ایک توحید پرست علم نافع کے ہتھیار سے لیس ہو تاکہ ان کا مقابلہ کرسکے)۔
[1] اس سے مراد مشہور ومعروف قصیدہ بردہ ہےجس کے 162 اشعار ہیں، جسے ’’الكواكب الدرية في مدح خير البرية‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اسے نظم کرنے والے شر ف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید الدولاصی پھر البوصیری المتوفی سن 664ھ۔ دیکھیں کشف الظنون 2/1331۔
[2] دیکھیں: مجموع الفتاوی 13/180-181، بیان تلبیس الجہمیۃ 1/447، تفسیر ابن کثیر 1/146 اور المغنی فی الضعفاء 2/508۔
(پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر اِترا گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا)
ہوسکتا ہے کبھی یہ علم الہیات کے تعلق سے ہو جیسا کہ وہ کہتے تھے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا﴾ (ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا)
یہ اعتراض ِشبہہ تھا، اور کہا کہ:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ (الزمر: 3)
(ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، خوب اچھی طرح قریب کردیں)
اور کبھی وہ علم فقہیات تک سے متعلق ہوتا ہے، جیسا کہ کہا:
﴿قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (البقرۃ: 275)
(انہوں نے کہا بیع (تجارت) بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا)
یا اس جیسی دیگر باتیں۔ پس اس امت کو مخاطب کرنے والے علوم کی جو جنس ہے وہ رسولوں کے دشمنوں کے یہاں بھی تھی، یا تو الہیات کے پہلو سے یا پھر شرعیات کے پہلو سے۔ پس انہوں نے معارضہ اور ٹکراؤ کیا رسولوں سے اس علم کے ساتھ جو ان کے پاس تھا۔ بلکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے شبہہ کی قوت کے زاویے سے بطور تعظیم ان کے قول کو حجت بھی کہا ، پس فرمایا:
﴿ وَالَّذِيْنَ يُحَاجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ (الشوریٰ: 16)
(اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے)
کیا اس شخصیت کی یہ بہت سی کتابیں، فقہیات وسوانح نگاری وتفسیر یا اس جیسی چیزیں اسے ایسا کردیں گی کہ وہ توحید کا دشمن نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ توحید کی دشمنی میں لکھتا ہو، شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کے بارے میں لکھتا ہو، اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہو؟ جواب اس کا یہی ہے کہ نہيں! بلکہ وہ توحید کا دشمن اور شرک کی نصرت کرنے والا ہی کہلائے گا ، جس کی کوئی قدر واحترام نہيں، اگرچہ اس کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں، اگرچہ اس کی تالیفات ان سے بھی بڑھ کر ہوں جو باکثرت تالیفات کرنے میں مشہور تھے جیسے السیوطی وغیرہ۔ لہذا نہ یہ معتبر ہے نہ ہی اس کا کلام۔ کیونکہ یہ علماء توحید میں سے تو نہ ہوا چناچہ اس کے علوم نقصان دہ ہے ناکہ فائدہ مند اور علم نافع۔
اس کے بعد فرمایا: ’’جب آپ نے یہ جان لیا‘‘
یعنی جو کچھ پہلے ذکر ہوا کہ دشمنان ِرسل کے پاس کبھی علم بھی ہوتا ہے، کتب بھی ہوتی ہیں جو وہ تصنیف کرتے ہیں، حجتیں بھی ہوتی ہیں جو وہ پیش کرتے ہيں، بلکہ کبھی تو وہ کتاب وسنت سے اور اہل علم میں سے جو محققین ہیں ان کے اقوال تک سے حجت پکڑتےہیں۔ جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ سے کچھ باتیں نقل کرتے ہيں، اور کچھ شیخ الاسلام اور ابن القیم وابن حجر رحمہم اللہ سے اور بھی دوسروں سے نقل کیے جاتےہیں۔۔۔یہ سب کے سب نقصان دہ علوم ہیں ناکہ علم نافع۔
امام رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
’’جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ اللہ تعالی کی طرف جو راہ ہے ضروری ہے کہ اس پر دشمن بیٹھے ہوں گے جو کہ بڑے اہل فصاحت وبلاغت، اہل علم وحجت ہوں گے‘‘۔
اس کلمہ پر ذرا غور کریں کہ فرمایا ’’ضروری ہے کے اس راہ پر یہ دشمن موجود ہوں گے‘‘ یعنی توحید کی راہ میں اس کے دشمن ضرور بیٹھے ہوں گے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا۔ اب یہ جو دشمن ہیں ہوسکتا ہے علماء ہوں، اور ایسے علماء ہوں جو فصاحت وبلاغت اور علم وحجت کے اعلیٰ درجے پر ہوں۔ آپ کے پاس لازماً بچاؤ ہونا چاہیے کہ کہيں وہ آپ کو ہدایت کی راہ سے روک نہ دیں اور گمراہی کی راہ میں داخل نہ کردیں، اور کہیں وہ آپ پر دین کا معاملہ ملتبس وخلط ملط نہ کردیں۔کیونکہ یہ فصاحت کوئی معیار نہيں ہے، ورنہ تو ابلیس بھی بڑا فصیح ہوا کرتا تھا۔ اور نہ ہی علم فی نفسہ معیار ہے، بلکہ ضروری ہے علم علمِ نافع ہو۔ اور نہ ہی حجتیں، حوالہ جات اور ردود وجوابات معیار ہیں۔ جب یہ بات موجود ہے تو پھر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اس وصیت کو اپنے پلے باندھ لیجئے جو انہوں نے اپنے اس عظیم رسالے ’’کشف الشبہات‘‘ کے مقدمے میں بیان فرمائی ہے۔
(آخری میں فرمایا کہ ایک توحید پرست علم نافع کے ہتھیار سے لیس ہو تاکہ ان کا مقابلہ کرسکے)۔
[1] اس سے مراد مشہور ومعروف قصیدہ بردہ ہےجس کے 162 اشعار ہیں، جسے ’’الكواكب الدرية في مدح خير البرية‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اسے نظم کرنے والے شر ف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید الدولاصی پھر البوصیری المتوفی سن 664ھ۔ دیکھیں کشف الظنون 2/1331۔
[2] دیکھیں: مجموع الفتاوی 13/180-181، بیان تلبیس الجہمیۃ 1/447، تفسیر ابن کثیر 1/146 اور المغنی فی الضعفاء 2/508۔