[#SalafiUrduDawah Article] A person can be #Kharijee in spite of having immense #knowledge, 'Ibaadah and asceticism – Imaam Shams-ud-Deen #Ad_Dhahabi
عبادت، #علم وزہد کے باوجود ایک شخص #خارجی ہوسکتا ہے
أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان #الذھبي رحمہ اللہ المتوفی سن 748ھ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: "سير أعلام النبلاء" بعض ترامیم، اختصار اور اضافہ جات کے ساتھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/ibaadah_ilm_zuhd_bawajod_kharijee.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد بن عثمان الذھبی رحمہ اللہ اپنی تاریخ وسوانح پر لکھی گئی مشہور کتاب ’’سير أعلام النبلاء‘‘ ج 7 ص 362 ط مؤسسة الرسالة، الطبقة السابعة، الحسن بن صالح میں فرماتے ہیں:
ابن صالح بن حی، اور حی کا نام: حَيَّانُ بْنُ شُفَيِّ بْنِ هُنَيِّ بْنِ رَافِعٍ تھا۔ بہت بڑے امام تھے، قدآور شخصیات میں سے ایک، ابو عبداللہ الہمدانی الثوری الکوفی، فقیہ وعابد تھے، امام علی بن صالح کے بھائی تھے۔
پھر امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
وکیع فرماتے ہیں: ان کی ولادت سن 100ھ میں ہوئی۔
بخاری فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے فرمایا: الحسن بن صالح کی وفات سن 169ھ میں ہوئی۔
الذہبی فرماتے ہیں: ان کی عمر 69 برس تھی، یہ اور ان کے بھائی جڑواں تھے۔
یہ اپنے علم وعبادت میں بہت مشہور تھے۔
آئمہ سلف کے دور میں بہت سے آئمہ کے ہم عصر تھے جیسے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ وغیرہ، اور احادیث کے راویو ں میں سے تھے۔
بلکہ ابن نعیم فرماتے ہیں کہ مجھ سے الحسن بن صالح نے بھی حدیث بیان کی ہیں اور وہ ورع وقوت میں سفیان الثوری سے کم نہيں تھے۔
(میزان الاعتدال للذھبی، ج 1 ص 496)
یہاں تک کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو جرج وتعدیل میں شدت اپنانے میں معروف تھے ان تک نے فرمایا:
’’آپ ثقہ حافظ اور متقن ہیں‘‘۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نےبھی ثقہ لکھا ہے۔
خشیت اور آہ وبکاء کا یہ عالم تھے کہ یحیی بن ابی بکیر فرماتے ہیں:
’’ان سے فرمایا گیا غسل میت بیان کیجئے، تو وہ رونے کی شدت کی وجہ سے صحیح طور پر بیان ہی نہيں کرپائے‘‘۔
ان کے چہرے پر خشیت کے آثار رہتے، ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں:
’’میں نے کسی کے چہرے پر خوف وخشیت کو اتنا ظاہر نہيں پایا جتنا الحسن بن صالح پر دیکھا‘‘۔
زہد وقناعت پسندی کا یہ حال تھا کہ خود فرماتے ہيں:
’’کبھی کبھار میں صبح کرتا ہوں اس حال میں کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہيں ہوتا، تو مجھے لگتا ہے گویا کہ ساری دنیا کی خوشیاں میرے لیے سمٹ آئی ہيں‘‘۔
تقویٰ وورع ایسا کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی فروخت کررہے تھے تو جو شخص اسے خریدنا چاہتا تھا اس کو یہ تک بتایا کہ ایک بار کبھی اس نے ہمارے پاس خون کی الٹی تھی۔
ایک مرتبہ یہ آیت ان کے سامنے تلاوت ہوئی : ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ﴾ (الانبیاء: 103) (انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی) تو ان کا چہرہ خوف کے مارے کبھی سبز کبھی زرد ہورہا تھا۔
انہی کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ جب وہ قبرستان کو دیکھتے تو چیختے اور بیہوش ہوجاتے۔
اسی طرح بازار والوں کو بھی دیکھ کر روتے کہ یہ لوگ اسی چیز میں مگن ہیں اور موت انہيں اچانک آجائے گی۔
جعفر بن محمد بن عبید اللہ بن موسیٰ نے فرمایا، میں نے اپنے دادا سےسنا انہوں نے فرمایا:
میں علی بن صالح پر قرآن پڑھ رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا: ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ﴾ (مریم: 84) (پس آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں) تو الحسن گر گیا اور ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بیل کی آواز ہوتی ہے، تو علی اس کی طرف کھڑے ہوئے، اسے اٹھایا، اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، پانی کے چھینٹے ماریں اور اسے ٹیک دے کربٹھایا۔
قرآن مجید پر بہت غوروتدبر کیا کرتے یہاں تک کہ ایک دفعہ وہ قیام اللیل کررہے تھے کہ سورۃ النباء شروع کی اور ان پر غشی طاری ہوگئی، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور وہ سورۃ مکمل نہ کرپائے۔
قیام اللیل کی پابندی کرتے یہاں تک کہ وہ ان کا بھائی اور ان کی والدہ قیام اللیل کو آپس میں تین حصوں میں تقسیم کرلیتے ، جب ان کی والدہ وفات پاگئیں تو اپنے او ربھائی کے درمیان آدھا آدھا کرلیا، اور جب بھائی بھی وفا ت پاگئے تو پوری رات قیام کرنے لگے۔
دنیا سے زہد اور شدت غم اتنا کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’میں ان کے پاس بیس برس بیٹھا، میں نے کبھی انہيں آسما ن کی طرف سر اٹھاتے یا دنیا کا ذکر کرتے نہيں پایا‘‘۔
ابو زرعہ الرزای تک فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی شخصیت میں اتقان، فقہ، عبادت وزہد سب جمع تھا‘‘۔
اس سب کے باوجود سلف صالحین نے ان کو بدعتی قرار دیا، بعض نے روایات تک لینا ترک کردی، اس شدت سے کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
عبادت، #علم وزہد کے باوجود ایک شخص #خارجی ہوسکتا ہے
أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان #الذھبي رحمہ اللہ المتوفی سن 748ھ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: "سير أعلام النبلاء" بعض ترامیم، اختصار اور اضافہ جات کے ساتھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/ibaadah_ilm_zuhd_bawajod_kharijee.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد بن عثمان الذھبی رحمہ اللہ اپنی تاریخ وسوانح پر لکھی گئی مشہور کتاب ’’سير أعلام النبلاء‘‘ ج 7 ص 362 ط مؤسسة الرسالة، الطبقة السابعة، الحسن بن صالح میں فرماتے ہیں:
ابن صالح بن حی، اور حی کا نام: حَيَّانُ بْنُ شُفَيِّ بْنِ هُنَيِّ بْنِ رَافِعٍ تھا۔ بہت بڑے امام تھے، قدآور شخصیات میں سے ایک، ابو عبداللہ الہمدانی الثوری الکوفی، فقیہ وعابد تھے، امام علی بن صالح کے بھائی تھے۔
پھر امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
وکیع فرماتے ہیں: ان کی ولادت سن 100ھ میں ہوئی۔
بخاری فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے فرمایا: الحسن بن صالح کی وفات سن 169ھ میں ہوئی۔
الذہبی فرماتے ہیں: ان کی عمر 69 برس تھی، یہ اور ان کے بھائی جڑواں تھے۔
یہ اپنے علم وعبادت میں بہت مشہور تھے۔
آئمہ سلف کے دور میں بہت سے آئمہ کے ہم عصر تھے جیسے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ وغیرہ، اور احادیث کے راویو ں میں سے تھے۔
بلکہ ابن نعیم فرماتے ہیں کہ مجھ سے الحسن بن صالح نے بھی حدیث بیان کی ہیں اور وہ ورع وقوت میں سفیان الثوری سے کم نہيں تھے۔
(میزان الاعتدال للذھبی، ج 1 ص 496)
یہاں تک کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو جرج وتعدیل میں شدت اپنانے میں معروف تھے ان تک نے فرمایا:
’’آپ ثقہ حافظ اور متقن ہیں‘‘۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نےبھی ثقہ لکھا ہے۔
خشیت اور آہ وبکاء کا یہ عالم تھے کہ یحیی بن ابی بکیر فرماتے ہیں:
’’ان سے فرمایا گیا غسل میت بیان کیجئے، تو وہ رونے کی شدت کی وجہ سے صحیح طور پر بیان ہی نہيں کرپائے‘‘۔
ان کے چہرے پر خشیت کے آثار رہتے، ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں:
’’میں نے کسی کے چہرے پر خوف وخشیت کو اتنا ظاہر نہيں پایا جتنا الحسن بن صالح پر دیکھا‘‘۔
زہد وقناعت پسندی کا یہ حال تھا کہ خود فرماتے ہيں:
’’کبھی کبھار میں صبح کرتا ہوں اس حال میں کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہيں ہوتا، تو مجھے لگتا ہے گویا کہ ساری دنیا کی خوشیاں میرے لیے سمٹ آئی ہيں‘‘۔
تقویٰ وورع ایسا کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی فروخت کررہے تھے تو جو شخص اسے خریدنا چاہتا تھا اس کو یہ تک بتایا کہ ایک بار کبھی اس نے ہمارے پاس خون کی الٹی تھی۔
ایک مرتبہ یہ آیت ان کے سامنے تلاوت ہوئی : ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ﴾ (الانبیاء: 103) (انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی) تو ان کا چہرہ خوف کے مارے کبھی سبز کبھی زرد ہورہا تھا۔
انہی کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ جب وہ قبرستان کو دیکھتے تو چیختے اور بیہوش ہوجاتے۔
اسی طرح بازار والوں کو بھی دیکھ کر روتے کہ یہ لوگ اسی چیز میں مگن ہیں اور موت انہيں اچانک آجائے گی۔
جعفر بن محمد بن عبید اللہ بن موسیٰ نے فرمایا، میں نے اپنے دادا سےسنا انہوں نے فرمایا:
میں علی بن صالح پر قرآن پڑھ رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا: ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ﴾ (مریم: 84) (پس آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں) تو الحسن گر گیا اور ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بیل کی آواز ہوتی ہے، تو علی اس کی طرف کھڑے ہوئے، اسے اٹھایا، اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، پانی کے چھینٹے ماریں اور اسے ٹیک دے کربٹھایا۔
قرآن مجید پر بہت غوروتدبر کیا کرتے یہاں تک کہ ایک دفعہ وہ قیام اللیل کررہے تھے کہ سورۃ النباء شروع کی اور ان پر غشی طاری ہوگئی، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور وہ سورۃ مکمل نہ کرپائے۔
قیام اللیل کی پابندی کرتے یہاں تک کہ وہ ان کا بھائی اور ان کی والدہ قیام اللیل کو آپس میں تین حصوں میں تقسیم کرلیتے ، جب ان کی والدہ وفات پاگئیں تو اپنے او ربھائی کے درمیان آدھا آدھا کرلیا، اور جب بھائی بھی وفا ت پاگئے تو پوری رات قیام کرنے لگے۔
دنیا سے زہد اور شدت غم اتنا کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’میں ان کے پاس بیس برس بیٹھا، میں نے کبھی انہيں آسما ن کی طرف سر اٹھاتے یا دنیا کا ذکر کرتے نہيں پایا‘‘۔
ابو زرعہ الرزای تک فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی شخصیت میں اتقان، فقہ، عبادت وزہد سب جمع تھا‘‘۔
اس سب کے باوجود سلف صالحین نے ان کو بدعتی قرار دیا، بعض نے روایات تک لینا ترک کردی، اس شدت سے کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’اگر الحسن بن صالح پیدا ہی نہ ہوتا تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا!‘‘۔
آخر ان کا ایسا کون سا قصور تھا جس کی وجہ سے آئمہ سلف نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا اور آجکل جو موازنات کا منہج اپنایا جاتا ہے اسے بروئے کار نہیں لائے کہ اس کی نیکیاں، علم، عبادت و تقویٰ پر بھی نظر کرتے؟! اور ان کے غلط منہج ونظریہ کے شدت کے ساتھ رد کو یہ کہہ کر نہیں نظرانداز کیا کہ ہم شخصیات پر کلام اور ان کو مسخ نہيں کرتے وغیرہ۔
اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی بس رائے رکھتا تھا، نہ خود باقاعدہ خروج کیا، نہ ہی اپنے قول کو نشر کرتا تھا، نہ لوگوں کو خروج پر ابھارتا تھا، بس یہ رائے رکھتا تھا۔
محمد بن غیلان روایت کرتے ہیں ابو نعیم سے فرمایا: الحسن بن صالح کا الثوری کے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا:
’’یہ شخص امت محمدیہ پر تلوار کی رائے رکھتا ہے‘‘ (یعنی حکام پر خروج کی)۔
یوسف بن اسباط نے فرمایا:
’’الحسن تلوار کی رائے رکھتا تھا‘‘۔
اس کے خشوع تک سے وہ دھوکہ نہیں کھاتے تھے اسی لیے ابو سعید الاشج فرماتے ہيں میں نے ابن ادریس سے سنا کہ ان کے سامنے الحسن بن صالح کی بیہوشی کا ذکر کیا گیا تو وہ فرمانے لگے:
’’امام سفیان " کی صرف مسکراہٹ ہی ہمیں الحسن کی اس بیہوشی سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
ابن نعیم فرماتے ہيں جمعہ کے روز جب مسجد کے دروازے سے الثوری داخل ہوئے تو حسن بن صالح کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، اس پر انہوں نے بے ساختہ فرمایا:
’’اللہ کی پناہ! اس منافقانہ خشوع سے‘‘۔
پس اپنے جوتے اٹھائے اور دوسرے ستون کے پاس چلے گئے۔
الذہبی فرماتے ہیں کہ :
’’وہ جمعہ تک نہيں پڑھتا تھا، ظالم آئمہ وحکام کے پیچھے وہ جمعہ پڑھنے کا قائل نہیں تھا‘‘۔
امام سفیان الثوری فرماتے ہيں کہ :
’’الحسن بن صالح نے جو کچھ علم میں سے سماع کیا اور اس کو سمجھا بھی، اس کے باوجود وہ جمعہ ترک کرتا تھا!‘‘۔
پھر یہ کہہ کر وہ کھڑے ہوئے اور چل دیے۔
اسی طرح ابن ادریس فرماتے ہیں:
’’میرا ابن حی سے کیا تعلق؟! وہ تو جمعہ وجہاد تک نہیں مانتا (یعنی ظالم حکام کے ساتھ مل کر)‘‘۔
جب حفص بن غیاث نے فرمایا کہ یہ لوگ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، یعنی ابن حی اور اس کے ساتھی۔ اس پر بشر بن الحارث فرماتے ہیں:
مجھے اپنے زمانے والوں میں سے کوئی دکھاؤ جو تلوار کی رائے نہ رکھتا ہو، سب ہی رکھتے ہیں سوائے بہت قلیل علماء کے، اور وہ ان کے پیچھے نماز کے بھی قائل نہيں۔ پھر آپ نے فرمایا:
’’امام زائدہ ابن قدامہ رحمہ اللہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو ابن حی اور اس کے ساتھیوں سے تحذیر (خبردار) کرتے تھے‘‘۔
فرماتے ہیں وہ سب تلوار کی رائے رکھتے تھے۔
ابو صالح الفراء فرماتے ہیں: میں نے یوسف بن اسباط کو وکیع سے مروی کوئی چیز فتنوں سے متعلق ذکر کی، تو انہوں نے فرمایا:
یہ اپنے استاد کی ہی طرح ہے یعنی الحسن بن حی کے، میں نے یوسف سے فرمایا: کیا تم نہيں ڈرتے کہ یہ غیبت ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیوں، اے احمق؟! میں ان کے لیے ان کے ماں باپ سے بڑھ کر بہتر ہوں کہ میں لوگوں کو منع کرتا ہوں کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوں جو انہوں نے بدعات ایجاد کیں تو ان سب کے بوجھ ان کے سر ہوجائيں گے۔۔۔جو ان کے لیے زیادہ نقصان کی بات ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں، ابو معمر فرماتے ہيں کہ:
’’ ہم وکیع کے پاس تھے پس جب کبھی وہ حسن بن صالح کی حدیث بیان کرتے ہم اپنے ہاتھوں کو روک دیتے اور نہيں لکھتے، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ حسن کی حدیث نہيں لکھتے؟ تو ان کو میرے بھائی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، تو امام وکیع خاموش ہوگئے‘‘۔
ابو اسامہ فرماتے ہیں:
’’میں حسن بن صالح کے پاس آیا تو اس کے ساتھی لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ۔۔۔ کہنے لگے! میں نے فرمایا، کیا ہوا ہے، کیا میں کافر ہوچکا ہوں؟! انہوں نے فرمایا: نہیں، لیکن یہ آپ سے مالک بن مغول اور زائدہ کی صحبت اختیار کرنے کا انتقام لے رہے ہيں۔ میں نے فرمایا: کیا تم بھی یہی فرماتے ہو؟ میں کبھی بھی تمہارے پاس نہیں بیٹھوں گا‘‘۔
زائدہ فرماتے تھے کہ:
’’وہ ایک زمانے سے اپنی غلط رائے پر ہٹ دہرمی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے‘‘۔
بلکہ خلف بن تمیم فرماتے ہیں:
زائدہ تو ا س شخص کو توبہ کرواتے جو حسن بن صالح کے پاس سے آیا ہو۔
اور جن محدثین نے ان سے حدیث روایت کرنا تک چھوڑ دی تھی ان کے نام بھی ’’سیر اعلام ‘‘ میں ان کے ترجمے (سوانح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
الخریبی فرماتے ہیں کہ :
’’اصحاب الحدیث نے جو کچھ اس کی مذمت کی ہے اس نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اس کی کوئی وقعت نہ رہی‘‘۔
اور فرماتے کہ :
’’وہ اپنی رائے پر گھمنڈ کرتا اور خود پسندی کا شکار تھا، اور ایسا شخص تو احمق ہی ہوتا ہے‘‘۔
زبانی خروج تو کجاوہ زبان کے متعلق کہتا جیسا کہ ابو نعیم نے روایت کیا کہ میں نے الحسن بن صالح کو فرماتے سنا:
’’میں نے ورع کو کھوجا تو زبان سے کم کسی چیز میں اسے نہيں پایا‘‘۔
ابو نعیم فرماتے ہیں:
آخر ان کا ایسا کون سا قصور تھا جس کی وجہ سے آئمہ سلف نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا اور آجکل جو موازنات کا منہج اپنایا جاتا ہے اسے بروئے کار نہیں لائے کہ اس کی نیکیاں، علم، عبادت و تقویٰ پر بھی نظر کرتے؟! اور ان کے غلط منہج ونظریہ کے شدت کے ساتھ رد کو یہ کہہ کر نہیں نظرانداز کیا کہ ہم شخصیات پر کلام اور ان کو مسخ نہيں کرتے وغیرہ۔
اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی بس رائے رکھتا تھا، نہ خود باقاعدہ خروج کیا، نہ ہی اپنے قول کو نشر کرتا تھا، نہ لوگوں کو خروج پر ابھارتا تھا، بس یہ رائے رکھتا تھا۔
محمد بن غیلان روایت کرتے ہیں ابو نعیم سے فرمایا: الحسن بن صالح کا الثوری کے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا:
’’یہ شخص امت محمدیہ پر تلوار کی رائے رکھتا ہے‘‘ (یعنی حکام پر خروج کی)۔
یوسف بن اسباط نے فرمایا:
’’الحسن تلوار کی رائے رکھتا تھا‘‘۔
اس کے خشوع تک سے وہ دھوکہ نہیں کھاتے تھے اسی لیے ابو سعید الاشج فرماتے ہيں میں نے ابن ادریس سے سنا کہ ان کے سامنے الحسن بن صالح کی بیہوشی کا ذکر کیا گیا تو وہ فرمانے لگے:
’’امام سفیان " کی صرف مسکراہٹ ہی ہمیں الحسن کی اس بیہوشی سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
ابن نعیم فرماتے ہيں جمعہ کے روز جب مسجد کے دروازے سے الثوری داخل ہوئے تو حسن بن صالح کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، اس پر انہوں نے بے ساختہ فرمایا:
’’اللہ کی پناہ! اس منافقانہ خشوع سے‘‘۔
پس اپنے جوتے اٹھائے اور دوسرے ستون کے پاس چلے گئے۔
الذہبی فرماتے ہیں کہ :
’’وہ جمعہ تک نہيں پڑھتا تھا، ظالم آئمہ وحکام کے پیچھے وہ جمعہ پڑھنے کا قائل نہیں تھا‘‘۔
امام سفیان الثوری فرماتے ہيں کہ :
’’الحسن بن صالح نے جو کچھ علم میں سے سماع کیا اور اس کو سمجھا بھی، اس کے باوجود وہ جمعہ ترک کرتا تھا!‘‘۔
پھر یہ کہہ کر وہ کھڑے ہوئے اور چل دیے۔
اسی طرح ابن ادریس فرماتے ہیں:
’’میرا ابن حی سے کیا تعلق؟! وہ تو جمعہ وجہاد تک نہیں مانتا (یعنی ظالم حکام کے ساتھ مل کر)‘‘۔
جب حفص بن غیاث نے فرمایا کہ یہ لوگ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، یعنی ابن حی اور اس کے ساتھی۔ اس پر بشر بن الحارث فرماتے ہیں:
مجھے اپنے زمانے والوں میں سے کوئی دکھاؤ جو تلوار کی رائے نہ رکھتا ہو، سب ہی رکھتے ہیں سوائے بہت قلیل علماء کے، اور وہ ان کے پیچھے نماز کے بھی قائل نہيں۔ پھر آپ نے فرمایا:
’’امام زائدہ ابن قدامہ رحمہ اللہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو ابن حی اور اس کے ساتھیوں سے تحذیر (خبردار) کرتے تھے‘‘۔
فرماتے ہیں وہ سب تلوار کی رائے رکھتے تھے۔
ابو صالح الفراء فرماتے ہیں: میں نے یوسف بن اسباط کو وکیع سے مروی کوئی چیز فتنوں سے متعلق ذکر کی، تو انہوں نے فرمایا:
یہ اپنے استاد کی ہی طرح ہے یعنی الحسن بن حی کے، میں نے یوسف سے فرمایا: کیا تم نہيں ڈرتے کہ یہ غیبت ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیوں، اے احمق؟! میں ان کے لیے ان کے ماں باپ سے بڑھ کر بہتر ہوں کہ میں لوگوں کو منع کرتا ہوں کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوں جو انہوں نے بدعات ایجاد کیں تو ان سب کے بوجھ ان کے سر ہوجائيں گے۔۔۔جو ان کے لیے زیادہ نقصان کی بات ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں، ابو معمر فرماتے ہيں کہ:
’’ ہم وکیع کے پاس تھے پس جب کبھی وہ حسن بن صالح کی حدیث بیان کرتے ہم اپنے ہاتھوں کو روک دیتے اور نہيں لکھتے، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ حسن کی حدیث نہيں لکھتے؟ تو ان کو میرے بھائی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، تو امام وکیع خاموش ہوگئے‘‘۔
ابو اسامہ فرماتے ہیں:
’’میں حسن بن صالح کے پاس آیا تو اس کے ساتھی لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ۔۔۔ کہنے لگے! میں نے فرمایا، کیا ہوا ہے، کیا میں کافر ہوچکا ہوں؟! انہوں نے فرمایا: نہیں، لیکن یہ آپ سے مالک بن مغول اور زائدہ کی صحبت اختیار کرنے کا انتقام لے رہے ہيں۔ میں نے فرمایا: کیا تم بھی یہی فرماتے ہو؟ میں کبھی بھی تمہارے پاس نہیں بیٹھوں گا‘‘۔
زائدہ فرماتے تھے کہ:
’’وہ ایک زمانے سے اپنی غلط رائے پر ہٹ دہرمی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے‘‘۔
بلکہ خلف بن تمیم فرماتے ہیں:
زائدہ تو ا س شخص کو توبہ کرواتے جو حسن بن صالح کے پاس سے آیا ہو۔
اور جن محدثین نے ان سے حدیث روایت کرنا تک چھوڑ دی تھی ان کے نام بھی ’’سیر اعلام ‘‘ میں ان کے ترجمے (سوانح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
الخریبی فرماتے ہیں کہ :
’’اصحاب الحدیث نے جو کچھ اس کی مذمت کی ہے اس نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اس کی کوئی وقعت نہ رہی‘‘۔
اور فرماتے کہ :
’’وہ اپنی رائے پر گھمنڈ کرتا اور خود پسندی کا شکار تھا، اور ایسا شخص تو احمق ہی ہوتا ہے‘‘۔
زبانی خروج تو کجاوہ زبان کے متعلق کہتا جیسا کہ ابو نعیم نے روایت کیا کہ میں نے الحسن بن صالح کو فرماتے سنا:
’’میں نے ورع کو کھوجا تو زبان سے کم کسی چیز میں اسے نہيں پایا‘‘۔
ابو نعیم فرماتے ہیں:
’’میں نے آٹھ سو محدثین سے لکھا ہے لیکن الحسن بن صالح سے افضل کسی کو نہيں پایا ہے‘‘۔
وکیع فرماتے ہیں: حسن بن صالح میرے نزدیک امام ہیں۔ تو ان سے فرمایا گیا: وہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ترحم (رحم کے کلمات ادا) نہيں کرتے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا: تو کیا تم الحجاج پر ترحم کرتے ہو؟
الذہبی اس پر لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالی اس مثال میں برکت نہ دے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ ترحم کو ترک کرنا گویا کہ سکوت ہے اور ساکت کی طرف کوئی قول منسوب نہيں کیا جاسکتا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں جو شہید امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جیسے پر ترحم کرنے سے سکوت اختیار کرے تو یقیناً اس میں تشیع کے کچھ اثرات پائے جاتے ہیں۔ اور جو ان کے بغض اور تنقیص شان میں باقاعدہ کلام کرے تو وہ کٹر شیعہ ہے جس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی، اور اگر اس کی مذمت شیخین (سیدنا ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما) تک پہنچ جاتی ہے تو وہ رافضی خبیث ہے، اسی طرح سے جو امام علی رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے کے درپے ہو تو وہ ناصبی ہے جس کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے، اور اگر وہ ان کی تکفیر کرتا ہے تو پھر وہ خارجی مارق ہے، بلکہ ہمارا راستہ ومنہج یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ کے لیے مغفرت کی دعاء کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ مشاجرات ان کے مابین ہوئے اس پر کلام سے اپنے آپ کو روک رکھتے ہيں‘‘۔
اسی طرح ایک روایت کے مطابق ان کے بھائی کی موت کے وقت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آکر خبر دی کہ آپ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر انعام ہوا!
بہرحال امام الذہبی یہ نقل کرکے فرماتے ہیں:
’’الحسن اپنے زمانے کے حکمرانوں کے خلاف ان کے ظلم وجور کی وجہ سے خروج کی رائے رکھتا تھا، لیکن کبھی لڑا نہيں، اسی طرح سے فاسق کے پیچھے جمعہ کا بھی قائل نہيں تھا‘‘۔
عبداللہ بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
’’الحسن بن صالح جمعہ ترک کرتا تھا، تو فلاں آیا اور رات سے صبح تک ان سے مناظرہ کیا، مگر الحسن اسی مؤقف پر گیا کہ ان کے ساتھ جمعہ ترک کرنا ہے اور ان پر خروج جائز ہے۔ اور یہ بات الحسن بن صالح کے بارے میں مشہور ہے، بس اللہ تعالی نے اس کے دین وعبادت کی وجہ سے شاید اسے اس بات سے محفوظ رکھا کہ پکڑا جائے اور قتل کردیا جائے‘‘۔
لیکن آئمہ سلف کی شدید جرح سے وہ محفوظ نہ رہا۔ لہذا کسی کا محدث ہونا، وسیع علم رکھنا، تقوی زہد وعبادت میں ممتاز ہونا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے کہ وہ خارجی تکفیری ذہنیت نہيں رکھ سکتا، یا لازما وہ سلفی عقیدہ ومنہج رکھتا ہوگا، بلکہ یہ زندہ مثال یہاں بیان ہوئی کہ کس طرح اس کے صرف حکام کے خلاف تلوار کی رائے رکھنے کی بنا پر اس پر شدید جرح سلف نے فرمائی۔ اس کی علم میں امامت کے باوجود یہ فرمادیا: امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
اور یہ بات خود خوارج سے متعلق احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ان کا زہد وتقویٰ اور عبادت بہت زیادہ ہوگی لیکن ان کے اس عقدی ومنہجی بگاڑ کی وجہ سے ان کی سخت ترین تردید احادیث میں موجود ہے اور قتل کردینے کا حکم اور اس کے فضائل بیان ہوئے ہيں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([1])
(آخری زمانے میں ایسی قوم ظاہر ہوگی جو کم سن وکم عقل ہوں گے۔ سب سے بہترین کلام سےبات کریں گے (یعنی قرآن وحدیث کی)۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ہدف (شکار) سے نکل جاتا ہے۔ اگر تم انہیں پاؤ تو قتل کردو کیونکہ بلاشبہ ان کے قتل کرنے پر اللہ تعالی کے یہاں بروزقیامت اجر ہے اس شخص کے لیے جو انہیں قتل کرے)۔
اور جب ذوالخویصرہ التمیمی خارجی نے نبی رحمت e کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت اس کی گردن اڑانے سے روکتے ہوئے یہی صفات بیان فرمائيں کہ:
’’دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘([2])
وکیع فرماتے ہیں: حسن بن صالح میرے نزدیک امام ہیں۔ تو ان سے فرمایا گیا: وہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ترحم (رحم کے کلمات ادا) نہيں کرتے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا: تو کیا تم الحجاج پر ترحم کرتے ہو؟
الذہبی اس پر لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالی اس مثال میں برکت نہ دے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ ترحم کو ترک کرنا گویا کہ سکوت ہے اور ساکت کی طرف کوئی قول منسوب نہيں کیا جاسکتا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں جو شہید امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جیسے پر ترحم کرنے سے سکوت اختیار کرے تو یقیناً اس میں تشیع کے کچھ اثرات پائے جاتے ہیں۔ اور جو ان کے بغض اور تنقیص شان میں باقاعدہ کلام کرے تو وہ کٹر شیعہ ہے جس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی، اور اگر اس کی مذمت شیخین (سیدنا ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما) تک پہنچ جاتی ہے تو وہ رافضی خبیث ہے، اسی طرح سے جو امام علی رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے کے درپے ہو تو وہ ناصبی ہے جس کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے، اور اگر وہ ان کی تکفیر کرتا ہے تو پھر وہ خارجی مارق ہے، بلکہ ہمارا راستہ ومنہج یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ کے لیے مغفرت کی دعاء کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ مشاجرات ان کے مابین ہوئے اس پر کلام سے اپنے آپ کو روک رکھتے ہيں‘‘۔
اسی طرح ایک روایت کے مطابق ان کے بھائی کی موت کے وقت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آکر خبر دی کہ آپ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر انعام ہوا!
بہرحال امام الذہبی یہ نقل کرکے فرماتے ہیں:
’’الحسن اپنے زمانے کے حکمرانوں کے خلاف ان کے ظلم وجور کی وجہ سے خروج کی رائے رکھتا تھا، لیکن کبھی لڑا نہيں، اسی طرح سے فاسق کے پیچھے جمعہ کا بھی قائل نہيں تھا‘‘۔
عبداللہ بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
’’الحسن بن صالح جمعہ ترک کرتا تھا، تو فلاں آیا اور رات سے صبح تک ان سے مناظرہ کیا، مگر الحسن اسی مؤقف پر گیا کہ ان کے ساتھ جمعہ ترک کرنا ہے اور ان پر خروج جائز ہے۔ اور یہ بات الحسن بن صالح کے بارے میں مشہور ہے، بس اللہ تعالی نے اس کے دین وعبادت کی وجہ سے شاید اسے اس بات سے محفوظ رکھا کہ پکڑا جائے اور قتل کردیا جائے‘‘۔
لیکن آئمہ سلف کی شدید جرح سے وہ محفوظ نہ رہا۔ لہذا کسی کا محدث ہونا، وسیع علم رکھنا، تقوی زہد وعبادت میں ممتاز ہونا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے کہ وہ خارجی تکفیری ذہنیت نہيں رکھ سکتا، یا لازما وہ سلفی عقیدہ ومنہج رکھتا ہوگا، بلکہ یہ زندہ مثال یہاں بیان ہوئی کہ کس طرح اس کے صرف حکام کے خلاف تلوار کی رائے رکھنے کی بنا پر اس پر شدید جرح سلف نے فرمائی۔ اس کی علم میں امامت کے باوجود یہ فرمادیا: امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
اور یہ بات خود خوارج سے متعلق احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ان کا زہد وتقویٰ اور عبادت بہت زیادہ ہوگی لیکن ان کے اس عقدی ومنہجی بگاڑ کی وجہ سے ان کی سخت ترین تردید احادیث میں موجود ہے اور قتل کردینے کا حکم اور اس کے فضائل بیان ہوئے ہيں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([1])
(آخری زمانے میں ایسی قوم ظاہر ہوگی جو کم سن وکم عقل ہوں گے۔ سب سے بہترین کلام سےبات کریں گے (یعنی قرآن وحدیث کی)۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ہدف (شکار) سے نکل جاتا ہے۔ اگر تم انہیں پاؤ تو قتل کردو کیونکہ بلاشبہ ان کے قتل کرنے پر اللہ تعالی کے یہاں بروزقیامت اجر ہے اس شخص کے لیے جو انہیں قتل کرے)۔
اور جب ذوالخویصرہ التمیمی خارجی نے نبی رحمت e کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت اس کی گردن اڑانے سے روکتے ہوئے یہی صفات بیان فرمائيں کہ:
’’دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘([2])
(اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کی ایسے ساتھی ہوا کریں گے کہ جن کی نماز کے سامنے تم اپنی نمازوں کو ہیچ تصور کروں گے ، اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو کم تر محسوس کروگے۔ وہ (باکثرت) قرآن تلاوت تو کیا کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہوجاتا ہے)۔
[1] صحیح مسلم 1066۔
[2] صحیح بخاری 3610، صحیح مسلم 1065۔
[1] صحیح مسلم 1066۔
[2] صحیح بخاری 3610، صحیح مسلم 1065۔
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 2) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
شرح #کتاب_التوحید ، باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_2.pdf
[Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap02.mp3
شرح #کتاب_التوحید ، باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_2.pdf
[Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap02.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] Depicting images of the #Hellfire and #Paradise – Various #Ulamaa
#جنت یا #جہنم کی تصوراتی وتفہیمی خاکہ سازی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة لقاء الباب المفتوح اور الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/09/jannat_jahannum_tasawwuraati_khakay_banana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جنت کی بطور باغات اور جہنم کی بطور آگ تصویر وخاکہ سازی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
یہ جائز نہيں ہے۔ کیونکہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: 17)
(کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، یہ اس کا بدلہ ہے جو عمل وہ کیا کرتے تھے)
ہم آگ کی کیفیت نہيں جانتے جو کہ دنیاوی آگ سے انہتر (69) گنا زیادہ ہے۔۔۔جس میں دنیاوی آگ میں سے شدید ترین والی آگ جیسے گیس وغیرہ کی آگ یا جو اس سے بھی شدید ہو کو بھی داخل کرلیں۔ تو پھر کیا کوئی اس آگ کی تمثیل بنانے کی استطاعت رکھتا ہے؟ کوئی اس کی استطاعت نہيں رکھتا۔ لہذا جو کوئی ایسا کرتا ہے اس تک یہ بات پہنچا دو کہ یہ حرام ہے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آجکل لوگوں نے آخرت سے متعلق امور کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا ہے گویا کہ وہ باقاعدہ حسی ومشاہداتی امور ہوں۔
میں نے ایک ورقہ دیکھا اس میں انسان کے مختلف مراحل میں منتقل ہونے کا ذکر تھا چوکور سے بنے ہوئے تھے جیسے ’’موت‘‘ پھر ایک لکیر پھر دوسرا چوکور اس میں ’’قیامت‘‘ اور اسی طرح سے باقی۔ گویا کہ اس نے جو کچھ موت کے بعدہونا ہے اسے ہندسی لکیروں اور چوکوروں کے ذریعے مصور کیا ہے۔ یہ عظیم جرأت ہے! اللہ تعالی کی پناہ۔ پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: تمہیں کس نے بتایا کہ اس کے بعد یہ ہوگا اور وہ اس کے بعد ہوگا؟ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ قبر دنیا کی زندگی کے بعد ہوتی ہے اور مرکی جی اٹھنا قبر کے بعد ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل کہ جو یوم قیامت ہوگا حساب وموازین وغیرہ ان کی ترتیب کا تو علم نہیں؟ لیکن یہ بہت عظیم جرأت ہے! اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ورقے کو عام تقسیم کیا جاتا ہے! لیکن منجملہ جو اوراق لوگوں میں آجکل تقسیم کیے جاتے ہيں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ تک باندھا جاتا ہے واجب ہے کہ ان سے بچا جائے اور لوگوں کو بھی خبردار کیا جائے۔
(سلسلة لقاء الباب المفتوح – 222)
سوال: ہم بعض اعلانات میں جو بعض داعیان کی کیسٹوں پر ہوتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ نہریں اور کھتیاں بنی ہوتی ہيں اگر موضوع جنت سے متعلق ہوتا ہے اور سایہ یا اندھیرا سا بنادیتے ہیں گویا کہ شیطان کا سایہ ہو اگر موضوع شر وبرائی سے متعلق ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزن رحمہ اللہ:
ان خاکوں یا تصاویر میں علم غیب کا گویا کہ دعویٰ ہے کہ جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہيں جانتا جنت کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہيں جانتا اسی طرح سے جہنم کو بھی اس کے سوا کوئی نہيں جانتا۔ جائز نہيں کہ وہ جنت، یا جہنم یا پل صراط کی تصویر ورق پر بنائیں۔ یہ تو جہالت میں سے ہے۔
(الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة)
#جنت یا #جہنم کی تصوراتی وتفہیمی خاکہ سازی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة لقاء الباب المفتوح اور الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/09/jannat_jahannum_tasawwuraati_khakay_banana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جنت کی بطور باغات اور جہنم کی بطور آگ تصویر وخاکہ سازی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
یہ جائز نہيں ہے۔ کیونکہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: 17)
(کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، یہ اس کا بدلہ ہے جو عمل وہ کیا کرتے تھے)
ہم آگ کی کیفیت نہيں جانتے جو کہ دنیاوی آگ سے انہتر (69) گنا زیادہ ہے۔۔۔جس میں دنیاوی آگ میں سے شدید ترین والی آگ جیسے گیس وغیرہ کی آگ یا جو اس سے بھی شدید ہو کو بھی داخل کرلیں۔ تو پھر کیا کوئی اس آگ کی تمثیل بنانے کی استطاعت رکھتا ہے؟ کوئی اس کی استطاعت نہيں رکھتا۔ لہذا جو کوئی ایسا کرتا ہے اس تک یہ بات پہنچا دو کہ یہ حرام ہے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آجکل لوگوں نے آخرت سے متعلق امور کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا ہے گویا کہ وہ باقاعدہ حسی ومشاہداتی امور ہوں۔
میں نے ایک ورقہ دیکھا اس میں انسان کے مختلف مراحل میں منتقل ہونے کا ذکر تھا چوکور سے بنے ہوئے تھے جیسے ’’موت‘‘ پھر ایک لکیر پھر دوسرا چوکور اس میں ’’قیامت‘‘ اور اسی طرح سے باقی۔ گویا کہ اس نے جو کچھ موت کے بعدہونا ہے اسے ہندسی لکیروں اور چوکوروں کے ذریعے مصور کیا ہے۔ یہ عظیم جرأت ہے! اللہ تعالی کی پناہ۔ پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: تمہیں کس نے بتایا کہ اس کے بعد یہ ہوگا اور وہ اس کے بعد ہوگا؟ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ قبر دنیا کی زندگی کے بعد ہوتی ہے اور مرکی جی اٹھنا قبر کے بعد ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل کہ جو یوم قیامت ہوگا حساب وموازین وغیرہ ان کی ترتیب کا تو علم نہیں؟ لیکن یہ بہت عظیم جرأت ہے! اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ورقے کو عام تقسیم کیا جاتا ہے! لیکن منجملہ جو اوراق لوگوں میں آجکل تقسیم کیے جاتے ہيں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ تک باندھا جاتا ہے واجب ہے کہ ان سے بچا جائے اور لوگوں کو بھی خبردار کیا جائے۔
(سلسلة لقاء الباب المفتوح – 222)
سوال: ہم بعض اعلانات میں جو بعض داعیان کی کیسٹوں پر ہوتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ نہریں اور کھتیاں بنی ہوتی ہيں اگر موضوع جنت سے متعلق ہوتا ہے اور سایہ یا اندھیرا سا بنادیتے ہیں گویا کہ شیطان کا سایہ ہو اگر موضوع شر وبرائی سے متعلق ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزن رحمہ اللہ:
ان خاکوں یا تصاویر میں علم غیب کا گویا کہ دعویٰ ہے کہ جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہيں جانتا جنت کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہيں جانتا اسی طرح سے جہنم کو بھی اس کے سوا کوئی نہيں جانتا۔ جائز نہيں کہ وہ جنت، یا جہنم یا پل صراط کی تصویر ورق پر بنائیں۔ یہ تو جہالت میں سے ہے۔
(الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة)
[Urdu Article] Brief traits of the sect "Haddadiyyah" - Shaykh Rabee' bin Hadee Al-Madkhalee
حدادی فرقے کی بعض نمایاں علامات
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
مصدر: ’’خطورة الحدادية الجديدة وأوجه الشبه بينها وبين الرافضة‘‘ و ’’منهج الحدادية‘‘
ترجمہ: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدلله والصلاة والسلام علي رسول الله وعلي آله وصحبه ومن تبع هداه. أما بعد:
جو فتنہ شباب یمن میں چلا اور اس کی شاخیں دوسرے علاقوں تک سرایت کرگئیں اور لوگوں کا یہ جاننے کا جذبہ بھی زور پکڑ گیا کہ حق کو بیان کیا جائے اور غلطی پر کون ہے صواب پر کون بیان کیا جائے اس سبب سے یہ تحریر کیا جارہا ہے۔ اور اس فتنے کے سبب سے یمن میں طالبعلم ایک دوسرے کو حدادی منہج پر ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں تو مجھے مجبو رہونا پڑا کہ میں اس منہج کی حقیقت کو بیان کروں شاید کہ اس کے ذریعے بہت سے طالب حق منہج اہل سنت اور منہج حدادی میں تمیز کرپائيں۔
پھر امید ہے کہ بڑی حد تک یہ اس فتنے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گاساتھ میں ہمارا وعدہ بھی ہے کہ اس فوری مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے اور اس فتنے کی سرکوبی میں اپنا حصہ ڈالنے کی خاطراس سے متعلق دیگر معاملات کو بھی یکے بعد دیگرے بیان کیا جاتا رہے گا ان شاء اللہ([1])۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] اسی سلسلے میں لکھے گئے دیگر مقالات کے لیے شیخ ربیع حفظہ اللہ کی ویب سائٹ ربیع ڈاٹ نیٹ وزٹ کیجئے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/03/haddadee_firqay_alamaat_mukhtasar.pdf
حدادی فرقے کی بعض نمایاں علامات
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
مصدر: ’’خطورة الحدادية الجديدة وأوجه الشبه بينها وبين الرافضة‘‘ و ’’منهج الحدادية‘‘
ترجمہ: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدلله والصلاة والسلام علي رسول الله وعلي آله وصحبه ومن تبع هداه. أما بعد:
جو فتنہ شباب یمن میں چلا اور اس کی شاخیں دوسرے علاقوں تک سرایت کرگئیں اور لوگوں کا یہ جاننے کا جذبہ بھی زور پکڑ گیا کہ حق کو بیان کیا جائے اور غلطی پر کون ہے صواب پر کون بیان کیا جائے اس سبب سے یہ تحریر کیا جارہا ہے۔ اور اس فتنے کے سبب سے یمن میں طالبعلم ایک دوسرے کو حدادی منہج پر ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں تو مجھے مجبو رہونا پڑا کہ میں اس منہج کی حقیقت کو بیان کروں شاید کہ اس کے ذریعے بہت سے طالب حق منہج اہل سنت اور منہج حدادی میں تمیز کرپائيں۔
پھر امید ہے کہ بڑی حد تک یہ اس فتنے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گاساتھ میں ہمارا وعدہ بھی ہے کہ اس فوری مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے اور اس فتنے کی سرکوبی میں اپنا حصہ ڈالنے کی خاطراس سے متعلق دیگر معاملات کو بھی یکے بعد دیگرے بیان کیا جاتا رہے گا ان شاء اللہ([1])۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] اسی سلسلے میں لکھے گئے دیگر مقالات کے لیے شیخ ربیع حفظہ اللہ کی ویب سائٹ ربیع ڈاٹ نیٹ وزٹ کیجئے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/03/haddadee_firqay_alamaat_mukhtasar.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Brief traits of the sect "#Haddadiyyah" - Shaykh #Rabee' bin Hadee #Al_Madkhalee
#حدادی فرقے کی بعض نمایاں علامات
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
مصدر: ’’خطورة الحدادية الجديدة وأوجه الشبه بينها وبين الرافضة‘‘ و ’’منهج الحدادية‘‘
ترجمہ: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدلله والصلاة والسلام علي رسول الله وعلي آله وصحبه ومن تبع هداه. أما بعد:
جو فتنہ شباب یمن میں چلا اور اس کی شاخیں دوسرے علاقوں تک سرایت کرگئیں اور لوگوں کا یہ جاننے کا جذبہ بھی زور پکڑ گیا کہ حق کو بیان کیا جائے اور غلطی پر کون ہے صواب پر کون بیان کیا جائے اس سبب سے یہ تحریر کیا جارہا ہے۔ اور اس فتنے کے سبب سے یمن میں طالبعلم ایک دوسرے کو حدادی منہج پر ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں تو مجھے مجبو رہونا پڑا کہ میں اس منہج کی حقیقت کو بیان کروں شاید کہ اس کے ذریعے بہت سے طالب حق منہج اہل سنت اور منہج حدادی میں تمیز کرپائيں۔
پھر امید ہے کہ بڑی حد تک یہ اس فتنے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گاساتھ میں ہمارا وعدہ بھی ہے کہ اس فوری مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے اور اس فتنے کی سرکوبی میں اپنا حصہ ڈالنے کی خاطراس سے متعلق دیگر معاملات کو بھی یکے بعد دیگرے بیان کیا جاتا رہے گا ان شاء اللہ([1])۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] اسی سلسلے میں لکھے گئے دیگر مقالات کے لیے شیخ ربیع حفظہ اللہ کی ویب سائٹ ربیع ڈاٹ نیٹ وزٹ کیجئے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/03/haddadee_firqay_alamaat_mukhtasar.pdf
#حدادی فرقے کی بعض نمایاں علامات
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
مصدر: ’’خطورة الحدادية الجديدة وأوجه الشبه بينها وبين الرافضة‘‘ و ’’منهج الحدادية‘‘
ترجمہ: طارق علی بروہی
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمدلله والصلاة والسلام علي رسول الله وعلي آله وصحبه ومن تبع هداه. أما بعد:
جو فتنہ شباب یمن میں چلا اور اس کی شاخیں دوسرے علاقوں تک سرایت کرگئیں اور لوگوں کا یہ جاننے کا جذبہ بھی زور پکڑ گیا کہ حق کو بیان کیا جائے اور غلطی پر کون ہے صواب پر کون بیان کیا جائے اس سبب سے یہ تحریر کیا جارہا ہے۔ اور اس فتنے کے سبب سے یمن میں طالبعلم ایک دوسرے کو حدادی منہج پر ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں تو مجھے مجبو رہونا پڑا کہ میں اس منہج کی حقیقت کو بیان کروں شاید کہ اس کے ذریعے بہت سے طالب حق منہج اہل سنت اور منہج حدادی میں تمیز کرپائيں۔
پھر امید ہے کہ بڑی حد تک یہ اس فتنے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گاساتھ میں ہمارا وعدہ بھی ہے کہ اس فوری مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے اور اس فتنے کی سرکوبی میں اپنا حصہ ڈالنے کی خاطراس سے متعلق دیگر معاملات کو بھی یکے بعد دیگرے بیان کیا جاتا رہے گا ان شاء اللہ([1])۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] اسی سلسلے میں لکھے گئے دیگر مقالات کے لیے شیخ ربیع حفظہ اللہ کی ویب سائٹ ربیع ڈاٹ نیٹ وزٹ کیجئے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/03/haddadee_firqay_alamaat_mukhtasar.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Should we not take #refutations of #Ulamaa upon each other? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding celebrating and participating in #Halloween - Shaykh Shaykh #Fuad bin Sa’ud Al-‘Umaree
جاہلانہ تہوار #ہالووین (#عید_الرعب، Halloween) میں شرکت، تعاون یا تحائف ومٹھائیاں وصول کرنا
فضیلۃ الشیخ #فؤاد بن سعود العمری حفظہ اللہ
(نائب رئیس حکومتی کمیٹی برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر، مکہ برانچ، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: یہ کلام Raha Batts نے شیخ فؤاد العمری حفظہ اللہ سے واٹس ایپ کے ذریعے حاصل کیا، اور ہمیں منہج السلف کے ذریعے موصول ہوا ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/halloween_mananay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعارف:
ہالووین امریکہ میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے pumpkins نظر آتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہيں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔ (ویکی پیڈیا سے مختصر ماخوذ)
ہالووین منانے اور شرکت کا حکم
شیخ فؤاد بن سعوی العمری حفظہ اللہ سے ہالووین منانے اور اس میں شرکت کرنے کے تعلق سے سوال کیا گیا اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:
جوکچھ سوال میں ذکر کیا گیا میں اس کے جواب میں یہی کہوں گا کہ کسی مسلمان کے لیے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہوجائز نہيں کہ وہ کفار ومشرکین کی عیدوں تہواروں میں ان کے ساتھ شرکت کرے۔ اللہ تعالی عباد الرحمٰن (رحمٰن کے بندوں ) کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان: 72)
(اور وہ جو جھوٹ (و غلط کاموں ) میں شریک نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت سےگزر جاتے ہیں)
مجاہد : وغیرہ فرماتے ہیں:”الزُّوْرَ“ یعنی مشرکین کی عیدیں۔
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو پایا کہ لوگ سالانہ دو دنوں میں تفریح کرتے کھیلتے کودتے ہيں، پس ان کے بارے میں دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ ان دو دنوں میں جاہلیت میں تفریح کرتے وخوشیاں مناتے تھے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر اپنے اس فرمان کے ساتھ رد فرمایا کہ:
’’قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ‘‘ [اسے ابو داود نے روایت کیا]
(اللہ تعالی نے تمہارے ان دو دنوں کے بدلے دو بہتر دن عطاء کردیے ہیں، یوم الفطراور یوم النحر)۔
پس ہر اس شخص پر جو نجات کا خواہاں ہے یہ واجب ہے کہ وہ اس شریعت مطہرہ کی پابندی کرے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کو اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پکڑلے۔ اور ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے۔
اس باب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ : نے ایک عظیم رسالہ لکھا ہے لہذا ایک طالب حق وسعادت ونجات کے خواہش مند کو چاہیے کہ وہ اسے پڑھے جس کا عنوان ہے ”اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم“۔
جاہلانہ تہوار #ہالووین (#عید_الرعب، Halloween) میں شرکت، تعاون یا تحائف ومٹھائیاں وصول کرنا
فضیلۃ الشیخ #فؤاد بن سعود العمری حفظہ اللہ
(نائب رئیس حکومتی کمیٹی برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر، مکہ برانچ، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: یہ کلام Raha Batts نے شیخ فؤاد العمری حفظہ اللہ سے واٹس ایپ کے ذریعے حاصل کیا، اور ہمیں منہج السلف کے ذریعے موصول ہوا ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/halloween_mananay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعارف:
ہالووین امریکہ میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے pumpkins نظر آتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہيں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔ (ویکی پیڈیا سے مختصر ماخوذ)
ہالووین منانے اور شرکت کا حکم
شیخ فؤاد بن سعوی العمری حفظہ اللہ سے ہالووین منانے اور اس میں شرکت کرنے کے تعلق سے سوال کیا گیا اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:
جوکچھ سوال میں ذکر کیا گیا میں اس کے جواب میں یہی کہوں گا کہ کسی مسلمان کے لیے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہوجائز نہيں کہ وہ کفار ومشرکین کی عیدوں تہواروں میں ان کے ساتھ شرکت کرے۔ اللہ تعالی عباد الرحمٰن (رحمٰن کے بندوں ) کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان: 72)
(اور وہ جو جھوٹ (و غلط کاموں ) میں شریک نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت سےگزر جاتے ہیں)
مجاہد : وغیرہ فرماتے ہیں:”الزُّوْرَ“ یعنی مشرکین کی عیدیں۔
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو پایا کہ لوگ سالانہ دو دنوں میں تفریح کرتے کھیلتے کودتے ہيں، پس ان کے بارے میں دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ ان دو دنوں میں جاہلیت میں تفریح کرتے وخوشیاں مناتے تھے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر اپنے اس فرمان کے ساتھ رد فرمایا کہ:
’’قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ‘‘ [اسے ابو داود نے روایت کیا]
(اللہ تعالی نے تمہارے ان دو دنوں کے بدلے دو بہتر دن عطاء کردیے ہیں، یوم الفطراور یوم النحر)۔
پس ہر اس شخص پر جو نجات کا خواہاں ہے یہ واجب ہے کہ وہ اس شریعت مطہرہ کی پابندی کرے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کو اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پکڑلے۔ اور ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے۔
اس باب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ : نے ایک عظیم رسالہ لکھا ہے لہذا ایک طالب حق وسعادت ونجات کے خواہش مند کو چاہیے کہ وہ اسے پڑھے جس کا عنوان ہے ”اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم“۔
[#SalafiUrduDawah Article] The ruling on the one who feels disturbed by his wife attending the #Ulamaa's_Duroos - Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
بیوی کے #علماءکرام_کے_دروس میں شرکت کرنے سے شوہر کاتنگ دلی کا مظاہرہ کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء: حكم من يستثقل ويتضايق من ذهاب امرأته لدروس العلماء۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/shohar_ka_bv_duroos_shirkat_bezari.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: سائل کہتا ہے: بعض نوجوان ایسی لڑکی سے شادی کرتے ہيں جو علم او راہل علم سے محبت کرتی ہے، لیکن جب وہ ان کے ساتھ علماء کرام کے دروس میں شرکت کرنے کے لیے جانا چاہتی ہےتو وہ تنگ دلی اور بیزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلکہ کبھی تو اپنے قول وفعل سے ایذا ء رسانی تک کرتے ہیں، اس حرکت کا کیا حکم ہے؟ اور ہم آپ سے اس بارے میں توجیہ چاہتے ہیں، جزاکم اللہ خیراً؟
جواب: اس کے مختلف احوال ہيں:
پہلی حالت: اس نے عقد نکاح میں یہ شرط عائد کردی ہو کہ وہ مساجد میں قابل اعتبار وبھروسہ سلفی علماء کرام کے دروس میں شرکت کرے گی تو پھر بیوی کی اس شرط کی وفاء کرنا شوہر پر واجب ہےورنہ نکاح فسخ ہوجائے گا البتہ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنی اس شرط سے دست برداری کرلے، تاکہ اللہ تعالی اس کا بہترین عوض اسے عطاء فرمائے۔
دوسری حالت: اس نے یہ شرط نہ رکھی ہو، تو پھر اس حال میں ان امور کو ہم دیکھیں گے:
پہلا امر: اس کے جانے سے کوئی مصلحت فوت نہ ہوتی ہو، یعنی اگر وہ اس کے ساتھ مسجد گئی تو وہ مصلحت ضائع ہوجائے گی اور فساد اس کی جگہ لے لے گا۔
دوسرا امر: اس کے جانے سے نہ شوہر کو خود کوئی نقصان ہو نہ ہی گھر کو، تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ اسے اجازت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’ لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ‘‘([1])
(اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو)۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَأْذَنْ لَهَا‘‘([2])
(اگر تم میں سے کسی کی عورت اس سے مساجد جانے کی اجازت طلب کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اجازت دے دے)۔
آخری حالت: اس کے جانے میں شوہر کے لیے او رخود اس کے لیے خطرہ ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب امن وامان کی کمی ہو یا بالکل ہی ناپید ہو، فاسق وبدقماش لوگ گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں، خصوصاً جب مسافت بھی بعید ہو۔ اگر وہ دیکھتے ہیں کسی شخص کو کہ اس کے ساتھ عورت ہے تو انہیں ایذاء پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے، کبھی تو اس شخص کو قتل کرکے اس کی عورت کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں، تو اس حالت میں وہ اسے منع کرے گا۔
[1] صحیح بخاری 900، صحیح مسلم 442۔
[2] صحیح بخاری 5238 کے الفاظ ہیں: ’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
بیوی کے #علماءکرام_کے_دروس میں شرکت کرنے سے شوہر کاتنگ دلی کا مظاہرہ کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء: حكم من يستثقل ويتضايق من ذهاب امرأته لدروس العلماء۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/shohar_ka_bv_duroos_shirkat_bezari.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: سائل کہتا ہے: بعض نوجوان ایسی لڑکی سے شادی کرتے ہيں جو علم او راہل علم سے محبت کرتی ہے، لیکن جب وہ ان کے ساتھ علماء کرام کے دروس میں شرکت کرنے کے لیے جانا چاہتی ہےتو وہ تنگ دلی اور بیزاری کا مظاہرہ کرتے ہیں، بلکہ کبھی تو اپنے قول وفعل سے ایذا ء رسانی تک کرتے ہیں، اس حرکت کا کیا حکم ہے؟ اور ہم آپ سے اس بارے میں توجیہ چاہتے ہیں، جزاکم اللہ خیراً؟
جواب: اس کے مختلف احوال ہيں:
پہلی حالت: اس نے عقد نکاح میں یہ شرط عائد کردی ہو کہ وہ مساجد میں قابل اعتبار وبھروسہ سلفی علماء کرام کے دروس میں شرکت کرے گی تو پھر بیوی کی اس شرط کی وفاء کرنا شوہر پر واجب ہےورنہ نکاح فسخ ہوجائے گا البتہ یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنی اس شرط سے دست برداری کرلے، تاکہ اللہ تعالی اس کا بہترین عوض اسے عطاء فرمائے۔
دوسری حالت: اس نے یہ شرط نہ رکھی ہو، تو پھر اس حال میں ان امور کو ہم دیکھیں گے:
پہلا امر: اس کے جانے سے کوئی مصلحت فوت نہ ہوتی ہو، یعنی اگر وہ اس کے ساتھ مسجد گئی تو وہ مصلحت ضائع ہوجائے گی اور فساد اس کی جگہ لے لے گا۔
دوسرا امر: اس کے جانے سے نہ شوہر کو خود کوئی نقصان ہو نہ ہی گھر کو، تو پھر اس پر واجب ہے کہ وہ اسے اجازت دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’ لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ‘‘([1])
(اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مساجد سے نہ روکو)۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلْيَأْذَنْ لَهَا‘‘([2])
(اگر تم میں سے کسی کی عورت اس سے مساجد جانے کی اجازت طلب کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اجازت دے دے)۔
آخری حالت: اس کے جانے میں شوہر کے لیے او رخود اس کے لیے خطرہ ہو۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب امن وامان کی کمی ہو یا بالکل ہی ناپید ہو، فاسق وبدقماش لوگ گھات میں بیٹھے ہوتے ہیں، خصوصاً جب مسافت بھی بعید ہو۔ اگر وہ دیکھتے ہیں کسی شخص کو کہ اس کے ساتھ عورت ہے تو انہیں ایذاء پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے، کبھی تو اس شخص کو قتل کرکے اس کی عورت کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں، تو اس حالت میں وہ اسے منع کرے گا۔
[1] صحیح بخاری 900، صحیح مسلم 442۔
[2] صحیح بخاری 5238 کے الفاظ ہیں: ’’إِذَا اسْتَأْذَنَتِ امْرَأَةُ أَحَدِكُمْ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يَمْنَعْهَا‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Advice to a wife who is very busy in #seeking_knowledge at the cost of her duties towards her #home - Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
بیوی کا #گھر_کی_ذمہ داریوں سے بڑھ کر #طلب_علم کو ترجیح دینا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء (زوجته مشغولة بطلب العلم على حساب أعمال البيت؛ ما نصيحتكم لها؟)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/biwi_talab_ilm_ghar_zimedari_kotahi_naseeha.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: جزاکم اللہ خیراً شیخنا، یہ بارہواں سوال ہے۔ سائل مراکش سے کہتا ہے کہ: میری بیوی بہت زیادہ فیس بک، اپنی دوستوں کے ساتھ چیٹنگ اور انٹرنیٹ پر قرآنی حلقات پر مشغول رہتی ہےچاہے اسے گھریلو ذمہ داریوں اور گھر کی صفائی وغیرہ کو ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ جس کی وجہ سے میں کبھی غصہ میں آجاتا ہے اور اسے برا بھلا کہتا ہوں، پھر وہ بھی جھگڑے اور غصے میں اس کا مقابلہ کرتی ہے اور کبھی رو تک پڑتی ہے۔ آپ کی اس کے لیے کیا نصیحت ہے۔ اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے؟ اور اس حال میں مجھے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟
جواب: ہم نے اپنے علماء کرام سے یہ بات محفوظ کی ہے کہ کسی بھی چیز پر حکم اس چیز کے اصل تصور کی فروع ہے (یعنی جب بالکل حقیقی صورتحال ہمارے سامنے ہوگی جبھی صحیح ترین فتوی دیا جاسکتا ہے ورنہ تو بس اندازہ ہی ہوگا) اور میں آپ کے او راس کے حال کا صحیح تصور کرنے سے قاصر ہوں۔ اور مجھ پر واجب بھی نہیں کہ میں آپ کے اور ان کے حالات کی تحقیق کرتا پھرو۔ البتہ ہاں میں آپ دونوں کو یہ نصیحت او روصیت ضرور کروں گا کہ میانہ روی و اعتدال اختیار کریں۔
آپ کو چاہیے کہ ان کی طلب علم پر حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان قابل بھروسہ اہل علم کی کتب پڑھیں کہ جو سنت پر قائم ہیں۔ اور اگر ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ مسجد میں منعقد ہونے والے علمی حلقات میں شرکت کریں تو بقدر امکان اس پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
جبکہ ان پر واجب ہے کہ وہ آپ کے، اپنی اولاد کے او رگھر کے حقوق میں کوتاہی نہ برتے۔ بلکہ اگر اس کے گھر کے کام، شوہر کی خدمت اور اولاد کے کام کا اس کے درس وغیرہ سے تصادم ہوجائے تو (ان دروس سے) یہ کام زیادہ ضروری اور قابل ترجیح ہیں۔ وباللہ التوفیق۔
بیوی کا #گھر_کی_ذمہ داریوں سے بڑھ کر #طلب_علم کو ترجیح دینا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء (زوجته مشغولة بطلب العلم على حساب أعمال البيت؛ ما نصيحتكم لها؟)
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/biwi_talab_ilm_ghar_zimedari_kotahi_naseeha.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: جزاکم اللہ خیراً شیخنا، یہ بارہواں سوال ہے۔ سائل مراکش سے کہتا ہے کہ: میری بیوی بہت زیادہ فیس بک، اپنی دوستوں کے ساتھ چیٹنگ اور انٹرنیٹ پر قرآنی حلقات پر مشغول رہتی ہےچاہے اسے گھریلو ذمہ داریوں اور گھر کی صفائی وغیرہ کو ہی قربان کیوں نہ کرنا پڑے۔ جس کی وجہ سے میں کبھی غصہ میں آجاتا ہے اور اسے برا بھلا کہتا ہوں، پھر وہ بھی جھگڑے اور غصے میں اس کا مقابلہ کرتی ہے اور کبھی رو تک پڑتی ہے۔ آپ کی اس کے لیے کیا نصیحت ہے۔ اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے؟ اور اس حال میں مجھے اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرنا چاہیے؟
جواب: ہم نے اپنے علماء کرام سے یہ بات محفوظ کی ہے کہ کسی بھی چیز پر حکم اس چیز کے اصل تصور کی فروع ہے (یعنی جب بالکل حقیقی صورتحال ہمارے سامنے ہوگی جبھی صحیح ترین فتوی دیا جاسکتا ہے ورنہ تو بس اندازہ ہی ہوگا) اور میں آپ کے او راس کے حال کا صحیح تصور کرنے سے قاصر ہوں۔ اور مجھ پر واجب بھی نہیں کہ میں آپ کے اور ان کے حالات کی تحقیق کرتا پھرو۔ البتہ ہاں میں آپ دونوں کو یہ نصیحت او روصیت ضرور کروں گا کہ میانہ روی و اعتدال اختیار کریں۔
آپ کو چاہیے کہ ان کی طلب علم پر حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان قابل بھروسہ اہل علم کی کتب پڑھیں کہ جو سنت پر قائم ہیں۔ اور اگر ان کے لیے ممکن ہے کہ وہ مسجد میں منعقد ہونے والے علمی حلقات میں شرکت کریں تو بقدر امکان اس پر بھی ان کی حوصلہ افزائی کریں۔
جبکہ ان پر واجب ہے کہ وہ آپ کے، اپنی اولاد کے او رگھر کے حقوق میں کوتاہی نہ برتے۔ بلکہ اگر اس کے گھر کے کام، شوہر کی خدمت اور اولاد کے کام کا اس کے درس وغیرہ سے تصادم ہوجائے تو (ان دروس سے) یہ کام زیادہ ضروری اور قابل ترجیح ہیں۔ وباللہ التوفیق۔
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of #Saheeh_Bukharee - Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من #صحيح_البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 7- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَةَ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، حَدَّثَنَا أَوْ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: "جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا، فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، فَقَالُوا: أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ"، تَابَعَهُ قُتَيْبَةُ ، عَنْلَيْثٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ جَابِرٍ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حدیث 8- حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: "يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ، اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا، فَإِنْ أَخَذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالًا لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا".
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_03.mp3
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من #صحيح_البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 7- حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَادَةَ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، حَدَّثَنَا أَوْ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: "جَاءَتْ مَلَائِكَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ نَائِمٌ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: إِنَّ لِصَاحِبِكُمْ هَذَا مَثَلًا، فَاضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: مَثَلُهُ كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَى دَارًا وَجَعَلَ فِيهَا مَأْدُبَةً وَبَعَثَ دَاعِيًا، فَمَنْ أَجَابَ الدَّاعِيَ دَخَلَ الدَّارَ وَأَكَلَ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْ الدَّاعِيَ لَمْ يَدْخُلِ الدَّارَ وَلَمْ يَأْكُلْ مِنَ الْمَأْدُبَةِ، فَقَالُوا: أَوِّلُوهَا لَهُ يَفْقَهْهَا، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّهُ نَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ الْعَيْنَ نَائِمَةٌ وَالْقَلْبَ يَقْظَانُ، فَقَالُوا: فَالدَّارُ الْجَنَّةُ، وَالدَّاعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ أَطَاعَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ، وَمَنْ عَصَى مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدْ عَصَى اللَّهَ، وَمُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرْقٌ بَيْنَ النَّاسِ"، تَابَعَهُ قُتَيْبَةُ ، عَنْلَيْثٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ جَابِرٍ خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حدیث 8- حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: "يَا مَعْشَرَ الْقُرَّاءِ، اسْتَقِيمُوا فَقَدْ سَبَقْتُمْ سَبْقًا بَعِيدًا، فَإِنْ أَخَذْتُمْ يَمِينًا وَشِمَالًا لَقَدْ ضَلَلْتُمْ ضَلَالًا بَعِيدًا".
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_03.mp3
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Al_Qawa’id_ul_Arba’ – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
شرح #القواعد_الاربع – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D9%82%D9%88%D8%A7%D8%B9%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9-1-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%D8%A8%D9%86-%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7%D9%86-%D8%A7/
شرح #القواعد_الاربع – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
ترجمہ: طارق علی بروہی
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D9%82%D9%88%D8%A7%D8%B9%D8%AF-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B1%D8%A8%D8%B9-1-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B5%D8%A7%D9%84%D8%AD-%D8%A8%D9%86-%D9%81%D9%88%D8%B2%D8%A7%D9%86-%D8%A7/
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Thalatha_tul_Usool – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
شرح #الاصول_الثلاثۃ – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز
ترجمہ: طارق علی بروہی
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%AB%D9%84%D8%A7%D8%AB%DB%83-%D8%AD%D8%B5%DB%81-1-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B9%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%DB%8C%D8%B2/
شرح #الاصول_الثلاثۃ – شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز
ترجمہ: طارق علی بروہی
http://tawheedekhaalis.com/ftsermons/%D8%B4%D8%B1%D8%AD-%D8%A7%D9%84%D8%A7%D8%B5%D9%88%D9%84-%D8%A7%D9%84%D8%AB%D9%84%D8%A7%D8%AB%DB%83-%D8%AD%D8%B5%DB%81-1-%D8%B4%DB%8C%D8%AE-%D8%B9%D8%A8%D8%AF%D8%A7%D9%84%D8%B9%D8%B2%DB%8C%D8%B2/
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of "#Important_lessons_for_every_Muslim" - Ustadh #Kashif_Khan
عام مسلمانوں کے لیے اہم اسباق
تصنیف: شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ
مصدر: شرح #دروس_المهمة_لعامة_الأمة
شرح: شیخ #عبدالرزاق_البدر حفظہ اللہ
مدرس: استاد #کاشف_خان
Part 2
حصہ 2
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_duroos_ul_muhimmah_kashif_khan_01.mp3
عام مسلمانوں کے لیے اہم اسباق
تصنیف: شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ
مصدر: شرح #دروس_المهمة_لعامة_الأمة
شرح: شیخ #عبدالرزاق_البدر حفظہ اللہ
مدرس: استاد #کاشف_خان
Part 2
حصہ 2
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_duroos_ul_muhimmah_kashif_khan_01.mp3