Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.16K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
#SalafiUrduDawah
بے فائدہ #بحث نہ کرو - امام #ابن_سیرین
bay faida #behas na karo - imaam #ibn_sireen
[#SalafiUrduDawah Article] Resemblance between #Shias, Jews and Christians – Various #Ulamaa
#شیعہ اور یہودونصاریٰ میں مشابہت
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: پمفلٹ أوجه الشبه بين اليهود والشيعة، تقریر بعنوان "کتاب وسنت کو تھامنا ہی راہ نجات ہے" از شیخ احمد بن یحیی النجمی کے آخر میں کیے گئے سوالات سے ماخوذ، سوال23۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اور یہود ونصاری کو دو خصلتوں کی وجہ سے رافضہ پر فضیلت حاصل ہےیہود سے پوچھا گیا کہ تمہاری ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: سیدنا موسی علیہ السلام کے صحابہ۔ نصاری سے پوچھا گیا: تمہارے ملت میں سب سے افضل ترین لوگ کون ہیں؟ کہا: حواریانِ سیدنا عیسی علیہ السلام ۔ اور جب رافضہ سے پوچھا کہا تمہاری ملت کے سب سے بدترین لوگ کون ہیں؟ تو کہا: اصحاب محمد رضی اللہ عنہم!۔ (منہاج السنۃ النبویۃ 1/24).
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/shia_yahood_nasara_me_mushabihat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding today's #Shia? Various #Ulamaa
موجودہ #روافض (#شیعوں) کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیعہ کا عقیدہ کیا ہے؟
شیعہ فرقے کے عقائد کی وضاحت اور انہیں دعوت دینا
کیا ہر شیعہ کافر ہے؟
شیعہ فرقوں کی تفصیل
شیعہ اثنا عشریہ رافضہ کا حکم
کیا تمام موجودہ شیعہ کفار ہیں؟
جو یہ کہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبوت کے مرتبے پر ہیں اور سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے غلطی کی
کیا شیعہ فرقے کا اسلام سے کوئی تعلق ہے؟
کیا شیعہ عوام اور علماء کے حکم میں فرق ہے؟
کیاشیعہ ہمارے بھائی ہیں؟
رافضہ کے کفر میں شک کرنا
کیا شیعہ فرقے کا بانی عبداللہ بن سباء یہودی تھا؟
شیعہ کے پیچھے نماز کا حکم
شیعہ سے دنیاوی معاملات کا حکم؟
کیا ایرانی انقلاب یا حکومت اسلامی ہے؟
خمینی کا حکم
ان تمام سوالات کے جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/mojoda_rawafid_shia_hukm.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Dangers of #Iranian #Rawafid upon Islaam and Muslims – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#ایرانی #روافض سے اسلام اور مسلمانوں کو خطرہ
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/irani_rawafid_islaam_muslims_khatra.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جریدے ’’الشرق الأوسط‘‘ نے اپنی اشاعت عدد 13561 جمعرات بتاریخ 4 ربیع الاول/1437ھ میں یہ جو بات نشر کی اس میں سے کچھ یہ تھا کہ:
’’الحرس الثوري‘‘ (سپاه پاسداران انقلاب اسلامی) کے قائد نے اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ تقریبا ًان کے دو لاکھ جنگجو شام، عراق، یمن، افغانستان اور پاکستان میں بالکل مستعد وتیار ہیں۔ اس اعتماد پر کہ آخری چند برسوں میں مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں اور تغیرات ہوئے ہيں وہ بہت مثبت ہیں۔ جیساکہ حکومتی نیوز ایجنسی ’’مھر‘‘ نے بیان کیا ہے۔ اور جعفری کہتا ہے: وہ اقدامات کررہے ہیں کہ انقلاب کی تیسری نسل کو بھرپور ابھارا جائے ولی الفقیہ (جو اثنی عشریہ شیعہ کے غائب امام کی نیابت کرنے والا لیڈر ہوتا ہے) اور اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت پر۔اور ایرانی نوجوانوں کو شام، عراق ویمن کے معارکوں میں شرکت کرنے کی اہمیت کی بھی نشاندہی کی۔
میں (شیخ ربیع) یہ کہتا ہوں کہ:
عالم اسلامی میں بسنے والوں تمام مسلمانو! اس عظیم خطرے پر متنبہ رہیں، اس سازش اور منصوبے کے تعلق سے خبردار رہیں جو ایران ان کے خلاف کررہا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو تہس نہس کردے، جس کی وجہ اس کی اسلام اور مسلمانوں سے شدید عداوت ودشمنی ہے۔ اللہ تعالی یہود کے تعلق سے فرماتا ہے:
﴿لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِيْنَ اٰمَنُوا الْيَھُوْدَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا﴾ (المائدۃ: 82)
(یقیناً آپ ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے ہیں، سب لوگوں سے زیادہ سخت عداوت رکھنے والے یہود کو اور ان لوگوں کو پائے گیں جو شرک کرتے ہیں)
ایک مسلمان کو کچھ بھی شک نہیں ہوسکتا اس بات پر کہ کس قدر یہود ومشرکین اللہ تعالی اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے والوں سے شدید عداوت ودشمنی رکھتے ہیں۔ بلاشبہ یہود کی اپنی لالچ ہے، لیکن ان کی لالچ محدود ہے مسلمانوں کی سرزمین نیل تا فرات ہتھیانے کی، لیکن یہودیت کو نشر کرنا مقصد نہيں۔
جبکہ جو روافض کی عداوت ودشمنی ہے مسلمانوں کے خلاف اس نے یہود ومشرکین کی عداوت کو جمع کردیا ہے۔ ان کے لالچے یہود کے لالچوں سے زیادہ وسیع وبڑھ کر ہیں۔ کیونکہ ان کے منصوبے تو پورے عالم اسلامی پر قبضے کے ہیں۔ اور انہیں بھی ان روافض میں تبدیل کردینے کے ہيں جو اللہ تعالی،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ان کی پیروی کرنے والے آج تک جو مسلمان چلے آرہے ہيں ان کے دشمن ہيں۔
بے شک روافض کے تو ایسے ایسے کفریہ عقائد ہیں جو یہود ونصاریٰ تک میں نہيں پائے جاتے! جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- ان کے نزدیک ان کے آئمہ بے شک غیب کا علم رکھتے ہیں، اور اس کائنات کے ذرے ذرے میں تصرف کرتے ہيں، اور یہ بات کفر میں یہود ومشرکین کے عقائد سے بھی بڑھ کرہے۔
2- بلاشبہ آئمہ کو شریعت سازی کا حق ہے، اور ان کے ذمے وہ ایسی ایسی کفریہ قسم کی شریعت سازیاں بھی لگا دیتے ہيں کہ جسے زمین اور آسمان تک سہہ نہ سکیں۔ یہ اپنی طرف سے عظیم کفریات کو شریعت بنالیتے ہیں اور اٹھا کر انہیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت کی طرف منسوب کردیتے ہيں، حالانکہ اللہ تعالی نے انہیں ان سے بری اور منزہ کیا ہے۔
کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہيں کہ بلاشبہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں، اور بے شک آپ کی رسالت کامل ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا﴾ (المائدۃ: 3)
(آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا)
اور اس لیے کہ وہ یہ پختہ ایمان رکھتے ہیں کہ:
﴿اَمْ لَهُمْ شُرَكٰۗؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ﴾ (الشوری: 21)
(کیا ان لوگوں کےایسے شریک ہیں جنہوں نے دین میں ایسی شریعت ان کے لیے مقرر کر دی ہےجس کی اجازت اللہ تعالی نے نہیں دی)
3- اور روافض کی کفریات میں سے یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے شدید عداوت رکھنا اور ان کی تکفیر کرنا۔ جس سے ان کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ پوری شریعت اسلامیہ کتاب وسنت کو باطل قرار دے دیا جائے ۔ کیونکہ یہ وہی روشن شریعت تو ہے جسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اٹھایا اور اسے انتہائی حفاظت وباریک بینی کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرکے امت تک پہنچایا، اور اس کی تبلیغ میں عظیم جہاد کیا، اور لوگوں کو اس کا پابند بنایا، یہاں تک کہ اس دین میں پوری کی پوری امتیں ان کے ہاتھوں داخل ہوئیں۔
4- اور ان بہت سے کفریات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن پر طعن کرتے ہيں، اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر وہ تہمت لگاتےہیں جس سے اللہ تعالی نے آپ کو آیات قرآنیہ میں پاک قرار دیا۔ اور ہر مومن کی نگاہ میں یہ طعن دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر طعن شمار ہوگا۔
یہ لوگ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بدترین کفریہ صورت میں تصویر کشی کرکے بتاتے ہیں جن کی خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طرح طرح سے ایمان، توحید واخلاص پر تربیت فرمائی، اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات، شریف ترین ومتقی ترین خواتین کو بھی بدترین صورت میں پیش کرتے ہيں۔
پس اس سے بڑھ کر خبیث عداوت پھر کونسی عداوت ہوگی اللہ تعالی سے، اس کے رسول اور مومنین سے ؟!
اے ہر جگہ بسنے والے مسلمانو! اس خطرے اور اور تباہ کن ایرانی منصوبے کا سامنا کرنے کے لیے تیاری کررکھو اپنے عقائد میں، عبادات، جہاد، سیاست، اخلاق، الولاء والبراء (دوستی ودشمنی) کے بارے میں اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور ہر قسم کی بدعات وگمراہیوں سے یکسر دور رہ کر۔
اللہ تعالی کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر جمع ہوجاؤ۔ اگر آپ ان عظیم مطالب پر حقیقی طور پر عمل پیرا ہوجائیں گے تو اللہ تعالی آپ سے راضی ہوگا اور آپ کی آپ کے دشمنوں کے مقابلے میں زبردست نصرت فرمائے گا، جس میں کوئی شک نہيں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ﴾ (محمد: 7)
(اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا)
﴿وَلَوْ قٰتَلَكُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوَلَّوُا الْاَدْبَارَ ثُمَّ لَا يَجِدُوْنَ وَلِيًّا وَّلَا نَصِيْرًا، سُـنَّةَ اللّٰهِ الَّتِيْ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ ښ وَلَنْ تَجِدَ لِسُـنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلًا﴾ (الفتح: 22-23)
(اور اگر وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا تم سے لڑتے تو یقیناً پیٹھ پھیر جاتے، پھر وہ نہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ کوئی مددگار، اللہ کے اس طریقے کے مطابق جو پہلے سے گزر چکا ہے اور آپ اللہ کے طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائيں گے)
اے مسلمانو! سب کے سب جن میں اہل یمن، تیونس، عراق اور شام والوں سب شامل ہو توحید کو اپناؤ اس کا حق ادا کرو تو اللہ تعالی تمہیں عزت واکرام سے نوازے کا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور تمہارے دشمنوں کے خلاف تمہاری مدد ونصرت فرمائے گا۔
اور اسلحہ کی صورت میں بھی تیاری کررکھو۔ اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس جو اسلحہ ہے وہ بھی کافی ہے مگر اس پر مزید اضافہ کرلو تاکہ اس سخت کٹر رافضی دشمن اور اس کے علاوہ اور دشمنوں پر بھی فتح ونصرت کو یقینی بنایا جاسکے۔
اور اس چیز کی میں پھر تاکید کروں گا جو اللہ تعالی نے حتمی طور پر آپ پر واجب قرار دیا ہے کہ آپ اس کی اس کامل روشن شریعت کا التزام کریں اور زندگی کے مختلف میدانوں میں اس کی تطبیق کریں۔ جن میں سے ایک اللہ تعالی کی حاکمیت بھی ہے جس سے اکثر اسلامی ممالک محروم ہیں۔ پس اللہ تعالی نے ان پر دشمنان اسلام کومسلط فرمادیا ہے جو ان کو ذلیل کرتے ہیں اور ان کی عزت کو روند کر رکھ دیتے ہيں۔
لہذا اس مہلک اور تباہ کن بیماری سے جان چھڑاؤ اللہ تعالی کی حاکمیتِ اعلیٰ کا اعلان کرتے ہوئے اور ہر اس چیز کو مسترد کرتے ہوئے جو سب سے اعلیٰ اللہ کی حاکمیت کے مخالف ہو۔
ساتھ ہی ہم اس سعودی حکومت اور اس کے علماء کرام سے امید کرتے ہيں کہ جو توحید اور کامل شریعت کا التزام کرتے ہیں کہ وہ دیگر اسلامی ممالک کو بھی اس بات پر ابھاریں اور ا ن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ان عظیم مطالب کے حصول کویقینی بنائیں۔
جن مطالب میں سے اللہ تعالی کی یہ حاکمیت بھی ہے، ایسی حاکمیت کہ ہم پر واجب ہے کہ اس کے ذریعے تمام مسلمان فخر کریں جن میں اہل یمن بھی ہيں، اور تیونس، عراق وشام کے لوگ بھی۔ تمام اہم کاموں سے بلند اس اہم ترین کام کو رکھیں اس پر فخر کرتے ہوئے اور اس کا کامل التزام وپابندی کرتے ہوئے، اور اس کے دشمنوں کا سامنا کرتے ہوئے خصوصاً روافض کا۔
اللہ تعالی سب کو اس چیز کی توفیق دے جس سے وہ محبت کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے۔
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم
وكتبه
ربيع بن هادي عمير
(10 ربيع الثاني/1437هـ)
[#SalafiUrduDawah Article] Mocking with the #scholars and consider them causing partisanship among youth – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#علماء کرام کا مذاق اڑانا اور انہیں نوجوانوں میں تفرقہ بازی کا سبب گرداننا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ س 25۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/ulama_ka_mazaq_nojawan_tafarqa.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جو لوگ ہمارے علماء کرا م پر طعن کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو محض علماءِ حیض ونفاس ہيں ساتھ ہی کہتے ہیں ہم نوجوانانِ امت میں تفرقہ نہیں ڈالنا چاہتے بلکہ ہم وحدتِ صف کے خواہاں ہیں۔ پس کیا ان کا یہ کلام اللہ تعالی کی نازل کردہ اس شریعت کا انکار نہیں جسے اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا؟
جواب: نہیں، یہ کفر تو نہیں ہے۔ البتہ یہ غیبت اور علماء کی عزتو ں پر طعن درازی ہے۔ اور یہ بلاشبہ حرام ہے۔ غیبت کی شدید ترین حرمت آئی ہے۔ انہیں چاہیے کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں۔ پھر یہ بھی دیکھا جائے کہ اس سے کیا حاصل ہوگا؟ اس سے سوائے شر کے کچھ حاصل نہ ہوگا کہ لوگ علماء سے نفرت کریں گے اور ان پر اعتبار واعتماد کم ہوجائے گا۔ پھر لوگ اگر علماء کی جانب رجوع نہ کریں تو آخر کہاں جائیں؟ چناچہ یہ بہت عظیم خطرہ ہے۔
اولاً: یہ غیبت ہے اور غیبت کبیرہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے۔
ثانیاً: اس سے علماء پر اعتماد کم ہوجاتا ہے اور لوگوں کی نظر میں ان کی قدرومنزلت گر جاتی ہے اور یہ باتیں جائز نہیں۔ اس کا معنی تو یہ ہوا کہ لوگ غیر علماء کی طرف رجوع کریں جس سے شر وفساد برپا ہو۔ اور یہی داعیان شر کی نیت وارادہ ہے([1])۔
اور یہ کہنا کہ ہم نوجوانوں میں تفرقہ ڈالتے ہیں۔ اس کا جواب ہے: ہم تو مسلمانوں میں تفرقہ بازی سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ ہم تو نوجوانوں کے لیے یہ پسند کرتے ہیں کہ وہ متحد رہیں۔ دینی بھائی چارے میں جڑے رہیں۔ اور ایک امت بن کر رہیں اور ہم انہیں اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں اور انہیں جمع کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن ان کا جمع ہونا حق بات پر ہو۔ ناکہ جیسے یہ گمراہ لوگ کہتے ہیں کہ: جس چیز میں اتفاق ہے اس پر تعاون کرتے ہیں اور جس میں اختلاف ہے اس میں ایک دوسرے کو معذور سمجھتے ہیں۔ یہ بات باطل ہے۔ بلکہ ہم حق پر جمع ہوں اور ہر اس اختلاف کو چھوڑ دیں جو حق کے مخالف ہو۔

[1] اور یہی حزبی اور تحریکیں چلانے والے لوگوں کا شعار ہے کہ اپنے سے پہلے والے اہل بدعت وتفرقہ کے نقش قدم کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے علماء پر طعن وتشنیع کرنا۔ ان میں سے ایک اپنی کیسٹ میں کہتا ہے: (کیا تم ایک عالم سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ محض ذبح وشکار، مناسک، حیض ونفاس، وضوء وغسل اور موزوں پر مسح کرنے کے احکامات تک محصور رہے)۔۔ اسی کیسٹ میں دوسری جگہ کہتا ہے: (کسی عالم کی کیا قدروقیمت ہے اگر وہ لوگوں کو ان کے سیاسی معاملات نہیں بیان کرتا جو کہ سب سے اہم مسائل ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے)۔
میں یہ کہتا ہوں: یہ تو علماء کے علم کی تخفیفِ شان کرنا ہے اور وہ جس نبوی علمی ورثے کے حامل ہیں اس کی بے قدری ہے۔ یہ تو قدیم وجدید معتزلہ کا قول ہے۔ امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (اسماعیل بن علیہ سے روایت کی جاتی ہے، فرمایا: مجھے الیسع نے بتایا، ایک دن واصل بن عطاء معتزلی نے کلام کیا جس پر عمرو بن عبید نے نے کہا: کیا تم سنتے نہیں(کیا عمدہ کلام ہے)؟ (دوسری طرف) حسن بصری اور ابن سیرین (علماء اہل سنت) رحمہما اللہ کا جب کلام سنو تو لگتا ہے جیسے حیض کا کپڑا دے مارا ہو۔ یہ بھی روایت کیا جاتا ہے کہ اہل بدعت کے بڑوں میں سے کوئی بڑا فقہ پر علم الکلام کی فضیلت بیان کرنا چاہتا تھا۔ تو کہنے لگا: الشافعی اور ابو حنیفہ رحمہما اللہ کا علم جملۃً عورت کی شلوار سے ہی باہر نہیں نکلتا یعنی بس حیض ونفاس کے مسائل آتے ہیں۔ یہ ہے ان گمراہوں کا کلام، اللہ انہيں برباد کرے)۔ (الاعتصام للشاطبی 2/741-742)۔ (الحارثی)
[#SalafiUrduDawah Article] Is Jannah or Jahannam depend upon correct or incorrect #Manhaj – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا جنت یا جہنم عقیدے کی طرح صحیح یا غلط #منہج پر بھی موقوف ہیں؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة س 47۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_k_sath_manhaj_jannat_jahannam.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:کیا جنت یا جہنم منہج کی صحت (یا عدم صحت ) پر موقوف ہيں؟
جواب: جی بالکل، اگر منہج صحیح ہوگا تو صحیح منہج والا جنت میں ہوگا، اگر وہ منہج رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور منہج سلف صالحین پر رہے گا تو وہ باذن اللہ اہل جنت میں سے ہوجائےگا، اور اگر گمراہوں کے منہج پر چلے گا تو اس کے لیے آگ (جہنم) کی وعید ہے([1])۔
پس منہج کی صحت یا عدم صحت پر جنت یا جہنم مرتب ہوتی ہیں۔
[1] یعنی وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔ اور اگر غلط منہج چھوڑ کر صحیح منہج اپنانے پر جنت وجہنم مرتب نہ ہوتیں تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس قول کا کیا فائدہ ہوتا کہ:
”عنقریب میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی، وہ سب کے سب آتش جہنم میں جائیں گے، سوائے ایک کے، پوچھا: وہ ایک کون سا ہوگا؟ فرمایا: جس پر میں اور میرے صحابہ ہيں“۔ (اس حدیث کی تخریج کئی بار گزر چکی ہے)۔
پس جو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے صحابہ کی ہدایت پر ہوگا تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جو اس کے علاوہ کسی اور طریقے پر ہوگا تو وہ وعید کے تحت ہے۔ اور یہ بات اہل سنت والجماعت کے یہاں معلوم اور ثابت ہے کہ جو ہلاک ہونے والے بہتّر فرقے ہيں وہ سب ہمیشہ ہمیش کے لیے جہنم واصل ہونے والے نہیں ہیں، اہل حدیث میں سے کوئی بھی یہ نہيں کہتا، لہذا اس بات پر ذرا غوروفکر کیجئے، الا یہ کہ اس کی بدعت کفریہ بدعت ہو اور اس کا فرقے مرتد قسم کا فرقہ ہو، اللہ اعلم۔ (الحارثی)
[#SalafiUrduDawah Article] Sometimes #Ulamaa keep silence regarding few personalities out of wisdom – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
بسا اوقات #علماء کرام کسی شخصیت کے متعلق کلام کرنے سے بطور شرعی مصلحت خاموشی اختیار فرماتے ہیں
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المجموع الواضح، ص 143۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/ulama_kabhi_maslihat_khamoshi.pdf


بے شک خیر خواہ علماء وفقہاء کبھی کبھار بعض شخصیات اور چیزوں پر خاموشی اختیار فرماتے ہیں، جس میں دراصل ان کی جانب سے مصلحتوں اور مفاسد کا لحاظ کیا گیا ہوتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی شخص پر کلام کرنے سے اس پر خاموش رہنے کے بنسبت بہت عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں ۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض منافقین کے نام ذکر کرنے سے سکوت اختیار فرمایا۔ ان سب کے یا بعض کے نام کسی کو نہيں بتائے سوائے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے۔کب آپ نے ایسا دیکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر چڑھے ہوں اور کہاں ہو فلاں منافق ہے، اور فلاں منافق ہے۔ یہ سب باتيں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اسی مصلحتوں اور مفاسدکا لحاظ کرنے سے متعلق ہيں۔
اسی طرح سے عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل علی رضی اللہ عنہ کی فوج میں داخل تھے، لیکن باقی کبار صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی علی رضی اللہ عنہ پر طعن نہيں کیا، اور ناہی عقل مند تابعین میں سے کسی نے ، وہ اس بارے میں اور ان قاتلوں کے احکام کے بارے میں علی رضی اللہ عنہ کی تشہیر نہیں کرتے پھرتے تھے۔ اور یہ ان کی طرف سے علی رضی اللہ عنہ کے حق میں بالکل صحیح عذر اور انصاف ہی تھا۔ کیونکہ اگر وہ ان لوگوں کو اپنی فوج سے نکالتے یا انہیں سزا دیتے تو اس کے نتیجے میں عظیم مفاسد مرتب ہوتے ہیں جیسے:
جنگ وجدل اور خون خرابہ، جس کے نتیجے میں امت میں ضعف وکمزوری کا آجانا۔ چناچہ آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس باب میں سے ہے کہ: (انتہائی مجبوری کی حالت میں جب کوئی چارہ نہ ہو تو) دو مفسدوں میں سے چھوٹے کا ارتکاب کرلیا جائے تاکہ اس بڑے مفسدے سے بچا جاسکے۔
اسی طرح سے یہ دیکھیں امام ابن تیمیہ اور ان کے تلمیذ ابن القیم رحمہما اللہ کو، کیوں انہوں نے امام النووی : وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا۔ اسی طرح سے آئمہ دعوت نے بھی امام النووی ، ابن حجر، القسطلانی، البیہقی اور السیوطی رحمہم اللہ وغیرہ کے عقیدے کو بیان نہیں کیا؟ (اس میں بھی وہی مصلحت کارفرماد تھی)۔
لہذا ہرگز یہ خیال نہ کیجئے کہ: ہر صراحت وبیان نصیحت ہی ہوتا ہے، اور نہ ہی ہر سکوت وخاموشی اسلام ومسلمانوں کے لیے خیانت ہی ہوتی ہے۔
پس ایک عاقل، انصاف پسند وبصیرت کا حامل انسان یہ جان لیتا ہے کہ کب کلام کرنا واجب یا جائز ہے او رکب سکوت اختیار کرنا واجب یا جائز ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Criticizing_government on passing unfair resolutions? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al-Fawzaan
غیرشرعی قرارداد پاس کرنے کے سبب #حکمران_پر_تنقید کرنا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الاجابات المھمۃ فی المشاکل المدلھمۃ، سوال 14۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/09/qarardad_hukkam_tanqeed.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا کوئی قرارداد یا بل وغیرہ پاس کرنے پر حکمران پر اعتراض کیا جاسکتا ہے اگراس قرارداد میں غلطی یا گناہ کی کوئی (غیرشرعی) بات ہو؟ اس بارے میں سلف صالحین کا کیا عمل ہوا کرتا تھا؟ ہمیں فتویٰ دیں اور اجر پائیں۔
جواب: حکمران کی اطاعت واجب ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ تعالی کی، اور اطاعت کرو رسول اللہ کی ، اور ان کی بھی جو تمہارےحکمران ہیں)
پس جو بات واجب اور اصل ہے وہ حکمران کی اطاعت ہے لیکن اگر وہ کسی معصیت وگناہ کا حکم دے تو اس کی اس معصیت میں اطاعت نہیں کی جائےگی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ‘‘([1])
(خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں)۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ:
’’إِنَّمَا الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ‘‘([2])
(اطاعت تو صرف معروف کاموں میں کی جاتی ہے)۔
لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ آپ حکمران کے خلاف خروج کریں یا اس کا تختہ الٹنا چاہیں، بس یہ ہے کہ آپ وہ معصیت نہ کریں جس کا وہ حکم دے رہا ہے اور اس کے علاوہ جن باتوں کا وہ حکم دے اسے بجالائیں۔ آپ اسی کی حکومت کے ماتحت رہیں، نہ اس کے خلاف خود نکلیں اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے پر ابھاریں، نہ ہی مجلسوں میں اور لوگوں کے سامنے اس کے خلاف باتیں کریں، کیونکہ اس سے شروفتنہ پھیلتا ہے۔ اور لوگوں کو ایسے وقت میں حکام کے خلاف بغض سے بھرنا جبکہ کفار ہماری تاک لگائے بیٹھے گردش ایام کے منتظر ہیں، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اگر انہیں اس بات کی خبر ہوجائے تو وہ ان جذبانی مسلمانوں میں اپنا زہر سرائیت کرکے انہیں ان کے حکمرانوں کے خلاف بھڑکائیں گے، جس کے نتیجے میں فتنہ وفساد ہوگا،اور نتیجہ کافروں کا مسلمانوں پر تسلط کی صورت میں سامنے آئے گا۔
لہذا حکمران خواہ کیسے بھی ہوں ان میں خیر کثیر اور عظیم مصالح ہوتےہیں۔ وہ بھی ایک بشر ہیں معصوم نہیں بعض باتوں میں غلطی کرجاتےہیں۔ لیکن ان کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں خفیہ طور پر نصیحت کی جائے، یا ان تک پہنچائی جائے۔ اور ان کے سامنے صحیح بات پیش کی جائے۔لیکن مجالس میں بیٹھ کر ان پر کلام کرنا اور اس سے بھی شدید تر خطبوں اور تقاریر میں ان پر کلام کرنا اہل شقاق واہل نفاق واہل شر کا طریقہ ومنہج ہے کہ جو مسلمانوں کی حکومت میں انتشار مچانا چاہتے ہیں۔
[1] رواہ احمد برقم (20653)، والطبرانی فی الکبیر (18/381) واللفظ لہ عن عمران بن حصین رضی اللہ عنہ۔
[2] رواہ البخاری برقم (7145، 4340)، ومسلم برقم (1840) من حدیث علی رضی اللہ عنہ۔
[#SalafiUrduDawah Article] Brief biography of Sahabi #Abdullah_bin_Abbaas (radiAllaho anhuma) – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
مختصر سوانح حیات #عبداللہ_بن_عباس رضی اللہ عنہما
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_abbaas.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہما ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملازمت (خدمت میں حاضری) اختیار کی کیونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی ہونےکےساتھ ساتھ ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ بھی تھیں۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سینے سے چمٹا کر یہ دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ‘‘
(اےاللہ اسے حکمت کی تعلیم دے)۔
اورایک روایت میں ہے :
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ‘‘([1])
(اسے کتاب کی تعلیم دے)۔
اور جب آپ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوء کاپانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے یہ بھی دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ فَقِّهُّ فِي الدِّينِ‘‘([2])
(اے اللہ اسے دین کی فقاہت عطاء فرما)۔
پس آپ رضی اللہ عنہما اس مبارک دعاء کے سبب سے اس امت کے تفسیر اور فقہ میں حبر (بہت بڑے عالم) ہوئے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو حصول علم کی حرص ،اس کی طلب میں محنت اور اس کی تعلیم دینے میں صبر کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ لہذا اس وجہ سے آپ رضی اللہ عنہما کو وہ بلند درجہ حاصل ہوا کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہیں اپنی مجالس میں بلاتے اور ان کے قول کو لیتے۔جس پر مہاجروں نےعرض کی:
’’أَلا تَدْعُو أَبْنَاءَنَا كَمَا تَدْعُو ابْنَ عَبَّاسٍ؟ قَالَ: ذَاكُمْ فَتَى الْكُهُولِ، إِنَّ لَهُ لِسَانًا سَئُولًا، وَقَلْبًا عَقُولًا‘‘([3])
(آپ ہمارے بیٹوں کو اس طرح کیوں نہیں بلاتے جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلاتے ہیں؟! اس پر انہوں نے جواب دیا: یہ نوجوان تو پختہ عمر والوں جیسی دانائی رکھتا ہے، جس کی (طلب علم کی خاطر) باکثرت سوال کرنے والی زبان اور بہت اچھی طرح سمجھنے والا دل ہے)۔
بعدازیں آپ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو ایک دن بلایا پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کوبھی بلابھیجاتاکہ سب لوگ اس نوجوان کی ذہانت وعلم دیکھ لیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سب سے پوچھا تم سب لوگ اللہ تعالی کےاس فرمان کہ متعلق کیا کہتے ہو:
﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ﴾ (النصر: 1)
(جب اللہ تعالی کی طرف سے نصرت اور فتح آپہنچے)
یہاں تک کہ پوری سورۃ تلاوت فرمائی۔ اس پر بعض نے کہا: اس میں اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہےکہ جب ہمیں وہ فتح نصیب فرمائے توہم اس کی حمدبیان کریں اوراستغفارکریں۔ اوربعض خاموش رہے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: کیا تم بھی ایسا ہی کہتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر کیا کہتے ہو؟ فرمایا:
’’هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ فَتْحُ مَكَّةَ، فَذَاكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾، قَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ‘‘([4])
(اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی خبر ہے۔ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ جب اللہ تعالی کی نصرت آن پہنچے اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے،تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کی علامت ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہیے کہ اپنے رب کی حمد کےساتھ تسبیح بیان کریں اور استغفار کریں بے شک وہ تو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی یہی تفسیر جانتا ہوں جو تم جانتے ہو)۔
اور سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَنِعْمَ تُرْجُمَانُ الْقُرْآنِ ابْنُ عَبَّاسٍ‘‘([5])
(ابن عباس رضی اللہ عنہما کیا ہی خوب ترجمان القرآن ہیں)۔
اور فرمایا:
’’لَوْ أَدْرَكَ أَسْنَانَنَا مَا عَاشَرَهُ مِنَّا أَحَدٌ‘‘([6])
( اگر وہ ہماری عمر کو پہنچ جائے تو ہم سے کوئی ان کے ہم پلہ نہ ہو)۔
یعنی ان کی کوئی نظیر نہ ہو حالانکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے بعد 36 سال حیات رہے اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کتنا کچھ علم اس عرصہ میں حاصل کرلیا ہوگا۔
اسی طرح سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سائل کو جو ان سے ایک آیت سے متعلق سوال کررہا تھافرمایا:
’’انْطَلِقْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَاسْأَلْهُ، فَإِنَّهُ أَعْلَمُ مَنْ بَقِيَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ‘‘([7])
(ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس جاؤ اور ان سے سوال کروکیونکہ جو لوگ باقی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ وحی کے بارے میں انہیں ہی علم ہے)۔
اور امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مَا رَأَيْتُ مَجْلِسًا أَكْرَمَ مِنْ مَجْلِسِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَكْثَرَ فِقْهًا، وَأَعْظَمَ خَشیَۃً([8])، إِنَّ أَصْحَابَ الْفِقْهِ عِنْدَهُ، وَأَصْحَابَ الْقُرْآنِ عِنْدَهُ، وَأَصْحَابَ الشِّعْرِ عِنْدَهُ، يُصْدِرُهُمْ كُلَّهُمْ مِنْ وَادٍ وَاسِعٍ‘‘
(میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مجلس سے بڑھ کر فقہ میں اکرم تر اور خشیت میں اعظم تر مجلس نہیں دیکھی، فقہ والے بھی ان کے پاس ہوتےہیں، قرآن والے بھی ان کے پاس ہوتے ہیں اور شعر والے تک ان کے پاس ہوتے ہیں، اوروہ اپنے علم کی وسیع تر وادی سےہر ایک کی علمی پیاس بجھاتے ہیں)۔
اور امام ابو وائل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’خَطَبَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ عَلَى الْمَوْسِمِ، فَافْتَتَحَ سُورَةَ النُّورِ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ وَيُفَسِّرُ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ: مَا رَأَيْتُ وَلَا سَمِعْتُ كَلامَ رَجُلٍ مِثْلَهُ، لَوْ سَمِعَتْهُ فَارِسٌ وَالرُّومُ لأَسْلَمَتْ‘‘([9])
(ہمیں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے موسم حج میں خطبہ ارشاد فرمایا (آپ کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی جانب سے موسم حج میں متولی(نگران) بناکر بھیجا گیا تھا)۔ پس آپ رضی اللہ عنہما نے سورۂ نور شروع کی اور آیات پڑھتے جاتے اورتفسیر کرتے جاتے، پس میں بے ساختہ کہہ اٹھا کہ میں نے ان جیسا شخص نہ سنا نہ دیکھا۔ اگر انہیں فارس و روم والے سن لیں تو سب اسلام قبول کرلیں)۔
آپ رضی اللہ عنہما کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما نے موسم حج سن 35ھ میں متولی بناکر بھیجا ۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے انہیں بصرہ کا والی بناکر بھیجا۔ اور جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو آپ رضی اللہ عنہما حجاز واپس آگئے اور مکہ مکرمہ ہی میں رہنے لگے۔ پھر وہاں سے طائف کی جانب چلے گئے اور وہیں پر آپ رضی اللہ عنہما اکہتر (71) برس کی عمر پاکر سن68ھ میں وفات پاگئے۔۔
[1] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہما۔ حدیث رقم (3756)۔
[2] اخرجہ البخاری، کتاب الوضوء، باب وضع الماء عند الماء عند الخلاء۔ حدیث رقم (143)۔
[3] مستدرک حاکم ج 3 ص 540۔
[4] صحیح بخاری 4294۔
[5] مستدرک حاکم ج 3 ص 537، مصنف ابن ابی شیبہ 32757۔
[6] مستدرک حاکم ج 3 ص 537۔
[7] تہذیب الآثار للطبری 275، الاصابۃ 2/333۔
[8] الثالث والعشرون من المشیخۃ البغدادیۃ لابی طاھر السلفی ص 52 اور الشریعۃ للآجری ص 2007 میں خَشیَۃً کی جگہ جَفْنَةً کے الفاظ ہیں یعنی مہمان نوازی میں ان کا دسترخوان بہت بڑا ہوا کرتا تھا۔(توحید خالص ڈاٹ کام)
[9] مستدرک حاکم 3/537۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is the majority #criteria_of_truth? - Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee

کیا کسی جماعت کی اکثریت #معیارِ_حق ہے؟

فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/jamat_aksariyat_mayar_haq.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ حفظہ اللہ اپنی کتاب میں یہ ثابت کرنے کے بعد کہ اصلاحِ عقائد اور مخالفت شرک ہی عقل و حکمت کا تقاضہ ہے ، فرماتے ہیں:

قیام حکومت کی دعوت بڑی آسان ہے، اس دعوت کو ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا، کیوں کہ اکثر لوگ دنیا دار اور صاحبِ اغراض و شہوات ہی ہوتے ہیں۔

اس کے برعکس دعوتِ توحید کی دشواریوں اور مصائب کی وجہ سے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی اتباع کرنے والے صرف تھوڑے ہی ملتے ہیں۔ نوح علیہ الصلاۃ والسلام قرآن کے بیان کے مطابق اپنی قوم کو:

﴿فَلَبِثَ فِيْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِيْنَ عَامًا﴾ (العنکبوت: 14)

(وہ ان میں پچاس کم ہزار برس رہے)

(ساڑھے نو سو سال) تک اللہ کی طرف بلاتے رہے ، لیکن نتیجہ کیا نکلا؟

﴿ وَمَآ اٰمَنَ مَعَهٗٓ اِلَّا قَلِيْلٌ ﴾ (ھود: 40)

(ان پر ایمان نہیں لائے مگر بہت ہی تھوڑے لوگ)

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’عُرِضَتْ عَلَيَّ الأُمَمُ، فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ وَمَعَهُ الرُّهَيْطُ، وَالنَّبِيَّ وَمَعَهُ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ، وَالنَّبِيَّ لَيْسَ مَعَهُ أَحَدٌ، إِذْ رُفِعَ لِي سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ أُمَّتِي، فَقِيلَ لِي: هَذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ وَقَوْمُهُ، وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ، فَنَظَرْتُ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: انْظُرْ إِلَى الأُفُقِ الآخَرِ، فَإِذَا سَوَادٌ عَظِيمٌ، فَقِيلَ لِي: هَذِهِ أُمَّتُكَ، وَمَعَهُمْ سَبْعُونَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ، وَلَا عَذَابٍ‘‘([1])

(مجھ پر امتیں پیش کی گئیں، میں نے ایک نبی کو گزرتے دیکھا جن کے ساتھ ایک چھوٹا سا گروہ ہے ،ایک نبی کو دیکھا ان کے ساتھ ایک دو آدمی ہیں، ایک اور نبی کو دیکھا جن کے ساتھ کوئی نہیں تھا۔ پھر اچانک مجھے ایک بڑا گروہ دکھایا گیا میں سمجھا یہ میری امت ہے، مجھ سے کہا گیا:یہ موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام اور ان کی قوم ہے، لیکن آپ اس کنارے دیکھیے، میں نے انسانوں کی ایک عظیم تعداد دیکھی، پھر مجھ سے کہا گیا کہ آپ ایک اور کنارے دیکھیے تو میں نے انسانوں کی ایک اور عظیم تعداد دیکھی مجھ سے کہا گیا: یہ آپ کی امت ہے، ان میں ستر ہزار ایسے ہیں جو بغیر حساب کتاب اور عذاب کے جنت میں داخل ہوں گے )۔

اور مشرکین کو ناقابل تریدد حجتوں اور دلائل وبراہین سے مغلوب کرنے والے ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلاۃ والسلام کو دیکھ لیں، اللہ تعالی ان کے اور ان پر ایمان لانے والوں کے تعلق سے ارشاد فرماتا ہے:

﴿فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ۭ اِنَّهٗ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ﴾ (العنکبوت: 26)

(ان پر لوط ایمان لائے اورانہوں نے فرمایا: میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں، بے شک وہ زبردست غالب اور حکمت والا ہے)

لوط علیہ الصلاۃ والسلام کے ساتھ عذابِ الہٰی سے نجات پانے والے جن میں شاید صرف لوط علیہ الصلاۃ والسلام کی صاحب زادیاں ہی تھیں کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ، فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ﴾ (الذاریات:35-36)

(ہم نے (عذاب کے وقت) اس میں جتنے بھی مومن تھے نکال دیے، اس (بستی) میں ہم نے ایک گھر والوں کے سوا کسی کو مسلمان نہیں پایا)

ایمان لانے والوں کی یہ قلتِ تعداد انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے مرتبہ کو ذرّہ برابر بھی گھٹا نہیں سکتی، بلکہ وہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ شریف و باوقار ، احترام اور اخلاق و کردار کے اعلیٰ مرتبے پر فائز تھے، اور کامل انسانی اوصاف، مردانہ شان و شوکت، شجاعت و بہادری، فصاحت و بلاغت ،طاقتِ لسانی اور انسانیت کے لئے خیر خواہی اور قربانی جیسی خوبیوں میں ان سب سے بالا تھے۔

انہوں نے اپنے فرائض منصبی جیسے توحید کی جانب دعوت وتبلیغ، بشارت دینا اور خبردار کرنے کا حق بدرجۂ اتم پورا کر دیا۔ اگر ان کے متبعین کم تھے اوربعض کا تو ماننے والا کوئی نہیں تھا تو سارے کا سارا قصور اس قوم کا ہے جس نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا ،کیوں کہ ان کے نظر میں انبیاء کرام علیہ الصلاۃ والسلام کی دعوت ان کی نیچ خواہشات سے میل نہیں کھاتی تھی ۔
ہاں! کبھی اللہ تعالیٰ کسی پیغمبر کی امت کو ہدایت عطا کرتا ہے وہ قوم یا اس کی اکثریت، دین کو قبول کر لیتی ہے، پھر اللہ پر ایمان، تصدیق اور نیک اعمال کی برکت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کو اقتدار اور حکومت کے پاک پھل سے نوازتا ہے ،جس کے ذریعے وہ کلمہ حق بلند کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں جہاد اور شریعت و اسلامی حدود نافذ کرنے اور دیگر شرعی امور جو اللہ تعالی نے ان کے لیے مشروع قرار دیے ہيں کے واجب کو ادا کرتے ہیں۔ جیسا کہ یہ مقام ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عطا ہوا، اللہ نے ان کے ایمان، عملِ صالح اور مشرکین کی سرکشی وظلم و زیادتیوں پر ان کے صبر جمیل کا یہ بدلہ دیا کہ ان کی نصرت فرمائی، اور ان کے دین حق کو غالب کر کے انہیں زمین پر اقتدار اور غلبہ عطا فرمایا۔ جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:

﴿وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۠ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا ۭ يَعْبُدُوْنَنِيْ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَـيْــــًٔـا﴾

(النور:۵۵)

(اللہ تم میں سے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے ان سے وعدہ کر چکا ہے کہ وہ انہیں زمین پر ضرور خلیفہ بنائے گا، جیسا کہ خلیفہ بنایا ان لوگوں کو جو ان سے پہلے تھے اور ان کے اس دین کو مضبوطی سے جما دے گا جو وہ ان کے لئے پسند کر چکا ہے ۔اور ان کے (موجودہ) خوف کو امن سے بدل دے گا۔(بشرطیکہ) وہ میری عبادت کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں)

اس کے باوجود وہ کسی بادشاہت ومملکت کے طالب نہ تھے بلکہ وہ تو توحید وہدایت کے داعی تھے ، اور نہ ہی اپنے پیروکاروں کو کسی سیاسی تحریک وانقلابات کے لئے تیار کیا کرتے تھے۔



[1] أخرجه البخاري 67- كتاب الطب، 17- باب من اكتوى أو كوى غيره، حديث (5705)، ومسلم 1-كتاب الإيمان، 94- باب الدليل على دخول طوائف من المسلمين الجنَّة بغير حساب ولا عذاب، حديث (374)، وأحمد في المسند (1/271).
[#SalafiUrduDawah Article] Low number of attendees at the #Duroos of #Ulamaa – Shaykh Muhammad bin Umar #Bazmool
#علماء کے #دروس میں کم لوگوں کی حاضری
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر #بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بازمول ڈاٹ کام۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/ulama_duroos_qillat_haziri.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجھے بعض طلبہ سے یہ بات پہنچی ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے ان کے بعد از فجر درس کے متعلق کہا گیا جو کہ طائف میں واقع ان کی مسجد میں ہوتا تھا کہ : یا شیخ اگر آپ فجر کے بعد کچھ آرام کرلیں تو بہتر ہے اور اس کے علاوہ دیگر دروس پر اکتفاء کریں کیونکہ فجر والے درس میں بہت کم لوگ حاضر ہوتےہیں۔ شیخ رحمہ اللہ نے پوچھا: کتنے لوگ آتے ہیں؟ کہا: سات سے زیادہ نہیں۔ آپ نے فرمایا: ان میں خیر وبرکت ہے ان شاء اللہ ہم درس جاری رکھیں گے۔
حالانکہ اگر آپ اس قوم (ہمارے مخالفین) کو دیکھیں تو وہ اپنے دروس وتقاریر میں کثرتِ حاضرین کا ہم پر دھونس جماتے ہیں۔۔۔
مجھے الجزائر سے ایک بھائی نے بتایا کہ فلاں شخص اس نے داعیانِ فتنہ میں سے ایک کا نام لیا اگر اس کاکوئی علمی درس ہوتا ہے تو کوئی حاضر نہيں ہوتا سوائے چند لوگوں کے۔۔۔اور اگر اس کا درس سیاسی مسائل اور حکومت مخالفت محاذ آرائی سے متعلق ہوتا ہے تو لوگوں کی کثیر تعداد آتی ہے۔۔۔میں نے اس سے کہا: یہ بات بالکل ویسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کے متعلق مجھے کسی نے بتایا تھا کہ جدہ میں جب اس کا درس عقیدے کی شرح پرہوتا تھا تو حاضرین بہت قلیل ہوتے تھے اور یہ درس عصر کے بعد ہوا کرتا تھا جبکہ اسی کا درس مغرب کے بعد حالات حاضرہ اور حکومت مخالف محاذ آرائی پر ہوتا تو مسجد کھچا کھچ بھر جاتی۔۔۔
فلا حول و لا قوة إلا بالله۔۔۔اب حاضرین کی کثرت علم کے لیے نہيں دیگر اغراض کے لیے ہوکر رہ گئی ہے۔۔۔اور یہ زیادہ حاضرین جمع کرنے کا حربہ اب ولولہ انگیزی اور تحریکی قسم کے جذبات ابھارنا بن چکا ہے ناکہ قواعد علم وایمان کا لوگوں کے دلوں میں راسخ کرنا۔
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of "#Kitaab_ut_Tawheed" (Introduction) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
شرح #کتاب_التوحید ’’مقدمہ‘‘
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اس کتاب کا موضوع:
اس توحید کا بیان ہے جو اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر واجب قرار دی ہے۔ اور اسی کے لیے انہیں پیدا فرمایا ہے۔ اور اس چیز کا بیان جو اس کے منافی ہے جیسے شرک اکبر، یا پھر جو اس کے واجب کمال یا مستحب کے منافی ہے جیسے شرک اصغر وبدعات۔
کتاب کا معنی:
مصدر ہے كَتَبَ کا بمعنی جَمَعَ۔ اور قلم سے کتابت حروف وکلمات کا مجموعہ ہوتا ہے۔
توحید کا معنی:
مصدر ہے وَحَّد کا یعنی کسی کو واحد قرار دینا۔ یہاں اس سے مراد ہے:
’’إفراد الله بالعبادة‘‘
(اللہ تعالی کو عبادت میں اکیلا جاننا)۔
مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_muqaddamah.pdf

[Urdu Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_muqaddamah.mp3
#SalafiUrduDawah
اگر #عقل کے والدین ہوتے - #صبر و #تصدیق - امام #ابن_حبان
agar #aqal k walidain hotay - #sabr o #tasdeeq - imaam #ibn_hibban
#SalafiUrduDawah
#اہل_بیت سے مراد کون ہیں؟
#ahl_e_bayt say murad kon hain?