Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] The wisdom and intellect necessitate the #rectification of the #creeds and refuting #Shirk – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#اصلاحِ #عقائد اور مخالفت #شرک ہی عقل و حکمت کا تقاضہ ہے
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ حفظہ اللہ اپنی کتاب میں مختلف انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی توحید کی جانب دعوت اور شرک کے رد کے سلسلے میں نمونے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔
اب ہم اپنے آپ سے یہ سوال کریں کہ جب انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی دعوت اپنے پہلو میں دنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں سمیٹے ہوئے ہے اسی طرح انہوں نے ہر برائی سے ڈرایا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں جو قصے اللہ تعالی نے ہمارے لیے اپنی کتاب میں بیان فرمائے اور جب ہم اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت وسنت کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دعوتِ توحید ، شرک و مظاہر ووسائل و اسبابِ شرک کے خلاف جنگ میں ان کی عمر اور دعوت کا ایک بڑا حصہ بیت گیا ۔ یہاں تک کہ یوں لگتا ہے گویا کہ وہ بس اسی کام کو سر انجام دینے کے لئے دنیا میں تشریف لائے۔
پس کہاں ہیں ان کے سر کش اور ظالم حکمرانوں کے خلاف مواقف؟
جواب: انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام نے جو مؤقف اختیار فرمایا وہی عین حکمت وصواب اور عقل سلیم کا تقاضہ تھا۔
کیونکہ انسانوں کی سیاست، اقتصادیات اور اجتماعیت سے متعلق خطرات کی شرک اور اس کے نقصانات کے برابر تو کجا اس کے قریب تک کی حیثیت نہیں۔ فرمان باری تعالی ہے:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ﴾ (النساء: 48)
(بے شک اللہ اس (گناہ) کو معاف نہیں کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے اور اس کے علاوہ جو (گناہ) ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے بخش دیتا ہے)
﴿ ۭاِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُ﴾ (المائدہ: 72)
(بے شک جو اللہ کے ساتھ شریک کرے گا اللہ نے یقیناً اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے)
﴿وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ اَوْ تَهْوِيْ بِهِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ﴾ (الحج: 31)
(اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا وہ آسمان سے گر پڑا ،پھر پرندوں نے اسے اچک لیا ،یا تیز و تند ہوا نے اسے کسی دور مقام پر پھینک دیا)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/islah_aqaid_mukhalifat_shirk_aqal_hikmat_taqaza.pdf
#SalafiUrduDawah
#مہاجرین #انصار #صحابہ کرام اور ان کے بعد آنے والوں کی صفات
#muhajireen #ansaar #sahaba kiraam aur un k baad anay walo ki sifaat
[#SalafiUrduDawah Article] The noble status of #Ahl_ul_Bayt (Prophet's family) and their rights without exaggeration or understating – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#اہلِ_بیت کی فضیلت اور حق تلفی یا غلو کے بغیر ان کے ساتھ سلوک کا بیان
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۃ التوحید وما یضادھا۔۔۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/ahlebayt_haq_ghulu_taqseer.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل بیت سے کون مراد ہیں اور ان کے حقوق
اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ آل و اولاد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، ان میں سیدناعلی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدناعقیل کی اولاد، سیدناعباس کی اولاد، بنو حارث بن عبدالمطلب اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا﴾ (الاحزاب: 33)
(اے(پیغمبر کے) اہلِ بیت اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:
’’قرآن مجید میں جو تدبر کرے گا اس کو کبھی بھی اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواجِ مطہرات بھی مذکورہ آیتِ کریمہ کے ضمن میں داخل ہیں ۔ اس لئے کہ سیاق کلام انہی کے ساتھ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے فوراً بعد فرمایا:
﴿وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ﴾ (الاحزاب:34)
(اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں یعنی حدیث) ان کو یاد رکھو)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و سنت میں سے جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ اپنے رسول پر نازل فرماتا ہے اس پر عمل کرو، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ اور دوسرے علماء نے یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ اس نعمت کو یاد کرو جو اور لوگوں کو چھوڑ کر تمہارے لئے خاص کی گئی ہے۔ یعنی وحی تمہارے گھروں میں نازل ہوتی ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو اس نعمت سے مالا مال تھیں اور اس عمومی رحمت میں آپ کو خاص مقام عطاء ہوا تھاکیونکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ کر کسی کے بستر پر وحی نازل نہیں ہوئی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا بعض علماء کا کہنا ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ خصوصیت اس لئے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سوا کسی بھی کنواری سے شادی نہیں کی، اور آپ کے سوا ان کے بستر پر کبھی کوئی دوسرا مرد نہیں سویا۔(یعنی دوسرے سے شادی ہی نہیں کی)۔
لہٰذا مناسب تھا کہ اس خصوصیت ورتبۂ عالیہ سے آپ نوازی جاتیں اور جب آپ کی ازواج ِ مطہرات اہلِ بیت میں داخل ہیں تو آپ کے اقارب و اعزا ء بدرجۂ اولیٰ اس میں داخل ہیں اور وہ اس نام کے زیادہ مستحق ہیں‘‘([1])۔
لہٰذا اہل سنت و الجماعت اہل بیت سے محبت کرتے ہیں اور عقیدت رکھتے ہیں ، اور ان کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں جسے آپ نے غدیر خم (ایک جگہ کا نام ہے) کے موقع پر فرمایا تھا:
’’أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي‘‘([2])
(میرے اہل بیت کے (حقوق کا خیال رکھنے کے) سلسلے میں ،تمہیں میں اللہ تعالی (کے تقویٰ) کو یاد رکھنے کی وصیت کرتا ہوں)۔
اہل سنت و الجماعت ان سے محبت کرتے ہیں اور ان کی تکریم و تعظیم کرتے ہیں۔ اس لئے کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم کی علامت ہے۔ اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ سنت کی اتباع پر قائم ہوں، جیسے کہ ان کے سلف صالح سیدنا عباس اور ان کی اولاد، سیدنا علی اور ان کی آل اولاد رضی اللہ عنہم کا حال تھا، اور ان میں سے جو سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف ہوں اور دین پر قائم نہ ہوں، پھر ان سے عقیدت و دوستی جائز نہ ہوگی، چاہے اہل بیت (سید) میں سے ہوں۔
اہل بیت کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کا مؤقف بہت ہی اعتدال و انصاف پر مبنی ہے اہل بیت میں سے جو دین و ایمان پر قائم ہیں ان سے گہری محبت و عقیدت رکھتے ہیں اور ان میں سے جو سنت کے مخالف اور دین سے منحرف ہوں ان سے دور رہتے ہیں، چاہے وہ نسبی طور پر اہل بیت میں داخل کیوں نہ ہوں۔ اس لئے کہ اہل بیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریبی ہونے سے کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اللہ تعالیٰ کے دین پر قائم نہ ہوں۔ سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی:
﴿وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ﴾ (الشعراء:214)
(اور اپنے قریب کے رشتہ داروں کو ڈر سنا دیں)
تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر فرمایا:
’’فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، اشْتَرُوا أَنْفُسَكُمْ، لَا أُغْنِي عَنْكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، يَا عَبَّاسُ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، لَا أُغْنِي عَنْكَ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا صَفِيَّةُ عَمَّةَ رَسُولِ اللَّهِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا، وَيَا فَاطِمَةُ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَلِينِي مِنْ مَالِي مَا شِئْتِ، لَا أُغْنِي عَنْكِ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا‘‘([3])
(اے قریش!(یا اس جیسا کوئی لفظ) اپنے آپ کو خرید لو(یعنی نیک اعمال کرکے جنت حاصل کرلو اور جہنم سے بچ جاؤ)، اللہ تعالیٰ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا۔ اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی! میں اللہ کے سامنے تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا، اے فاطمہ بنت محمد! میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو لیکن اللہ کے سامنے میں تمہارے لئے کچھ نہیں کر سکتا)۔
ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں:
’’مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ‘‘([4])
(جس کا عمل اسے پیچھے چھوڑ جائے اس کا نسب اسے آگے نہیں بڑھا سکتا)۔
اہل سنت والجماعت رافضی شیعوں کے غلط عقیدہ سے پاک ہیں، جو بعض اہل بیت کے سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے ان کی عصمت کا دعویٰ کرتے ہیں، اسی طرح نواصب کے گمراہ کن طریقوں سے بھی پاک ہیں، جو اصحابِ استقامت اہل بیت سے بھی بغض ودشمنی رکھتے ہیں انہیں لعن طعن کرتے ہیں ۔الحمدللہ اہل سنت والجماعت ان بدعتیوں اور خرافیوں کی گمراہی سے بھی پاک ہیں جو اہل بیت کو وسیلہ بناتے ہیں اور اللہ کے سوا ان کو اپنا رب والہ مانتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اہل سنت و الجماعت اس بارے میں اور دیگر معاملات میں بھی منہجِ اعتدال اور صراطِ مستقیم پر قائم ہیں جن کے رویہ میں کوئی افراط و تفریط نہیں اور نہ ہی اہل بیت کے حق میں حق تلفی و غلو ہے۔ خود معتدل و دین پر قائم اہل بیت اپنے لئے غلو پسند نہیں کرتے ہیں، اور غلو کرنے والوں سے برأت وبیزاری کا اظہار کرتے ہیں، خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے متعلق غلو کرنے والوں کو آگ میں جلا دینے کا حکم ارشاد فرمایا تھا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کے قتل کو جائز قرار دیا ہے، لیکن وہ آگ کے بجائے تلوار سے قتل کے قائل تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے غلو کرنے والوں کے سردار عبداللہ بن سبأ کو قتل کرنے کے لئے تلاش کروایا تھا لیکن وہ بھاگ گیا تھا اور کہیں چھپ گیا تھا‘‘([5])۔
[1] دیکھیں تفسیر ابن کثیر میں ان آیات کی تفسیر۔
[2] مسلم فضائل الصحابة (2408)، أحمد (4/367)، الدارمي فضائل القرآن (3316).
[3]البخاري الوصايا (2602)، مسلم الإيمان (206)، النسائي الوصايا (3646)، أحمد (2/361)، الدارمي الرقاق (2732).
[4]مسلم الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار (2699)، الترمذي القراءات (2945)، ابن ماجه المقدمة (225)، أحمد (2/252)، الدارمي المقدمة (344).
[5] اہل بیت کے تفصیلی فضائل وحقوق کے بارے میں جاننے کے لیے شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ کی کتاب ’’اہل سنت والجماعت کے نزدیک اہل بیت کا مقام ومرتبہ‘‘ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Brief Seerah of grandsons of the prophet #Hasan and #Husayn (RadiAllaho anhuma) – tawheedekhaalis.com
مختصر سیرت نواسان ِرسول #حسن و #حسین رضی اللہ عنہما
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’الْحَسَنُ، وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘([1])
(حسن اور حسین اہل جنت نوجوانوں کے سردار ہیں)۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح ترمذی 3768۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/seerat_hasan_o_husain.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Regarding #Yazeed bin Mu'awiyyah people are on two opposite extremes or on the moderate path – Fatwa Committee, Saudi Arabia
#یزید بن معاویہ کے بارے میں لوگوں کی دو مختلف انتہائیں اور معتدل مؤقف
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: فتوی کمیٹی ویب سائٹ
نظر ثانی وتصحیح: توحید خالص ڈاٹ کام
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > المجموعة الأولى > المجلد الثالث (العقيدة 3) > ما يتعلق بالصحابة > يزيد بن معاوية الناس فيه طرفان ووسط، فتوی رقم 1466۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی کمیٹی، سعودی عرب کہتی ہے کہ:
۔ ۔ ۔ البتہ جہاں تک یزید بن معاويہ کا تعلق ہے تو لوگ اس کے بارے میں دو طرف اور اعتدال پر ہیں، تینوں میں سے درمیانہ ومعتدل قول یہ ہے کہ : بلاشبہ وہ مسلمانوں کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ تھا اس کی کچھ نیکیاں ہیں اور برائیاں بھی ہیں اور وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا مگر سیدنا عثمان رضی الله عنہ کے دور خلافت میں۔ کافر نہیں تھا لیکن اس کی وجہ سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل واقع ہوا، اور اہل حرہ کے ساتھ جو کیا سو کیا وہ بھی، وہ نہ تو صحابی تھا اور نہ ہی صالحین اولیاء اللہ میں سے تھا۔ ۔ ۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/yazeed_do_intihaye_aur_eitidaal.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Brief Introduction of #Shia Sect – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#شیعہ فرقے کا مختصر تعارف
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: لمحة عن الفرق الضالة
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/11/shia_firqa_mukhtasar_taruf.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الشیعۃ: وہ ہیں جو اہل بیت کے لیے تشیع اختیار کرتے ہیں۔
اور التشیع کا اصل معنی ہے : اتباع ومناصرت (پیروی کرنا نصرت وحمایت کرنا)۔
﴿وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ﴾ (الصآفات: 83)
(اور ان کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھے)
یعنی ان کے متبعین اور ان کے طریقے کے حمایتیوں میں سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی تھے ۔ کیونکہ جب اللہ تعالی نے سیدنا نوح علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا تو پھر اس کے بعد فرمایا کہ:
﴿وَاِنَّ مِنْ شِيْعَتِهٖ لَاِبْرٰهِيْمَ﴾ (الصآفات: 83)
(اور ان کے گروہ میں سے ابراہیم بھی تھے)
پس التشیع کا اصل معنی اتباع ومناصرت ہے۔ پھر بعد میں اس کا اطلاق اس (رافضی)([1]) فرقے پر ہونے لگا جو اپنے گمان میں اہل بیت کی اتباع کرتے ہیں۔ اہل بیت سے مراد ان کے یہاں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور آپ کی اولاد ہیں۔
اور یہ سمجھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت کی وصیت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لیے کی گئی تھی۔ اور سیدنا ابوبکر، عمروعثمان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کیا اور ان کا حق خلافت غصب کیا۔ وہ اس طرح سے کہتے ہیں۔
حالانکہ وہ اپنے اس قول میں جھوٹے ہیں۔ کیونکہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےسیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت پر اجماع فرمایا تھا جن میں سے خود سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی تھے کہ جنہوں نے خود سیدنا ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی۔
اس کا معنی تو یہ ہے کہ یہ شیعہ خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو نعوذباللہ خائن قرار دینا چاہتے ہیں!
اس کے علاوہ وہ سوائے چند ایک کے تمام صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں۔ اور سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما پر تو خصوصاً لعن طعن کرتے ہیں اور انہیں ’’صنمی قریش‘‘ (قریش کے دو بت) تک کا لقب دیتے ہیں۔
ان کے مذہب میں سے یہ بھی ہے کہ وہ آئمہ اہل بیت کے تعلق سے غلو کرتے ہیں اور انہیں شریعت سازی اور احکام کو منسوخ کرنے تک کا حق تفویض کرتے ہیں۔
اور قرآن کریم کے متعلق گمان کرتے ہیں کہ اس میں تحریف ونقص ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے اپنے آئمہ کو اللہ کے سوا اپنا رب تک بنالیا ہے اور ان کے قبروں پر مزار وقبے تعمیر کیے اور ان ہی کا طواف شروع کردیا اور انہی کے نام کی نذرونیاز شروع کردی۔
اور یہ شیعہ بھی کئی ایک فرقوں میں مزید بٹتے گئے۔ بعض ان میں سے بعض سے گمراہی میں ہلکے ہیں۔ اور بعض بعض سے گمراہی میں بڑھ کر ہیں۔ ان میں سے زیدیہ ہیں اور رافضہ اثنی عشریہ بھی ہیں، اسی طرح سے الاسماعیلیہ، الفاطمیہ اور انہی میں سے القرامطہ اور بہت سے فرقے ہیں۔
یہی ہوتا ہے کہ جو بھی حق کو چھوڑتا ہے وہ مزید تفرقہ درتفرقہ کا شکار ہوتا رہتا ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اھْتَدَوْا ۚ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ۚ فَسَيَكْفِيْكَهُمُ اللّٰهُ ۚ وَھُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ﴾ (البقرۃ: 137)
(اگر یہ لوگ بھی اے صحابہ تم جیسا ایمان لے کر آئیں تو یہ ہدایت پاجائیں، اور اگر یہ منہ پھیریں تو یہ اختلاف در اختلاف میں پڑے رہیں گے، پس تمہیں تو ان کے مقابلے میں اللہ تعالی ہی کافی ہے، اور وہ سننے والا جاننے والا ہے)
جو حق کوچھوڑتے ہیں تو وہ باطل، کجروی اورتفرقہ میں مبتلاہوجاتے ہیں اور وہ کسی نتیجے پرنہیں پہنچ پاتے بلکہ خسارہ ہی پاتے ہیں،العیاذ باللہ۔
اسی لیے شیعہ بہت سی ٹولیوں اور فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔
اسی طرح سے قدریہ بھی۔۔
اور خوارج بھی کئی فرقوں جیسے الازارقہ، الحروریہ، النجدات، الصفریہ، الاباضیہ([2]) ان میں سے کچھ بہت غالی ہیں اور کچھ ان سے کم ہیں۔
[1] شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: رافضہ نام کی حقیقت یہ ہے کہ زید بن علی رحمہ اللہ کے دور خروج میں شیعہ زیدیہ اور رافضہ میں تقسیم ہوگئے۔ وہ اس طرح کے جب شیعہ نے زید سے سیدنا ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ان کے بارے میں رحمدلانہ بات کی، جس پر ایک گروہ نے ’’رفض‘‘ (انکار) کیا تو زید نے کہا ’’رفضتمو ني‘‘ (تم نے مجھے رفض یعنی انکار کیا) لہذا ان کے سیدنا ابوبکروعمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں اچھے خیالات کا انکار کرنے والے رافضی کہلائے اور جنہوں نے انکار نہیں کیا وہ زیدی کہلائے۔ (ص 35 جـ (1). منهاج السنة النبوية لابن تيمية) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: الاباضیہ اب بھی عمان میں پائے جاتے ہیں بلکہ یہی ان کا سرکاری مذہب ہے، اور یہ کہتے تو ہیں کہ ہم خوارج نہیں مگران کے عقائد وہی خوارج والے ہیں۔ دیکھیں ہماری ویب سائٹ پر کتاب ’’فتنۂ تکفیر‘‘۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding differentiating between the understanding of #Salaf and the methodology of Salaf – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#فہم_سلف اور #منہج_سلف میں فرق کرنا
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کیسٹ: أسباب الإنحراف وتوجيهات منهجية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/fehm_e_salaf_manhaj_e_salaf_farq_karna.pdf


سوال: شیخنا آپ کی کیا رائے ہے اس کے بارے میں جو منہج سلف اور فہم سلف میں فرق کرتا ہے اور کہتا ہے میں منہج سلف کا تو پابند ہوں لیکن فہم سلف کا نہیں؟
جواب: میرے خیال سے اس کلام کا قائل اگر واقعی منہج سلف کا پابند ہے اور اس کا اس تعلق سے سب کو مشاہدہ ہے، پھر وہ ایسی عبارت استعمال کرتا ہے، مقصد اس کا ہوتا ہے کہ میں کسی کی ہر چیز میں تقلید نہیں کرتا۔ البتہ ہوسکتا ہے وہ کوئی دوسری بات سوچ کر ایسا کہہ رہا ہو یہ تو میں اس کی طرف سے کہہ رہا ہوں کہ شاید وہ ایسا سوچتا ہو اور بعض سلف کی مخالفت کرتا ہو، لیکن عقائد سلف اور ان کی فقہ کے دائرے سے باہر نہ نکلتا ہو ، پھر ہوسکتا ہے وہ لوٹ بھی آئے۔ کیونکہ آپ ایسے مسائل پائیں گے کہ سلف نے ان میں اختلاف کیا ہے، دراصل سلف کے مفاہیم کسی فروعی مسئلے کے تعلق سے مختلف ہوتے تھے یعنی فروعی مسائل میں نصوص کے فہم کے تعلق سے ۔ کبھی اختلاف امام مالک اور الشافعی میں پایا جاتا ہے تو کبھی الشافعی اور احمد رحمہم اللہ میں۔ پس شرعی دلائل کی روشنی میں قرآنی اور نبوی نصوص کی روشنی میں انہیں پڑھا جاتا ہے پھر کسی مذہب کو کسی مذہب پر ترجیح دی جاتی ہے، ایسا تو وہ کرسکتا ہے۔
لیکن اس کا مقصد اگر محض اس سے توجہ ہٹانا ہو ،اور میرا نہیں خیال کہ کسی سلفی کا یہ مقصد ہو!اسی لیے میں نے حسن ظن کے باب میں یہ بات کہی کہ ہوسکتا ہے اس کی نیت وہ بات ہو جو میں نے ابھی ذکر کی، البتہ اگر واقعی کوئی انسان اس سے توجہ ہٹا کر فہم سلف کی ٹکر میں اپنا فہم لاتا ہو جو اس نے خود ایجاد کیا اس سے پہلے کوئی اس کا قائل نہيں تھا تو پھر ایسا شخص کسی عزت وکرامت کا مستحق نہیں۔
بہرحال ہم اس کے کلام کو حسن ظن کے باب میں رکھتے ہوئے اس پر محمول کریں جو میں نے پہلے ذکر کیا۔ اور میرا خیال ہے مشایخ اس کلام میں میری موافقت کریں گے۔اور اس مناسبت سے میں یہ کہتا ہوں کہ: میں ہر جگہ موجود سلفیوں کو یہ نصیحت کرتاہوں کہ وہ منہج اور فہم سلف کے ساتھ خود کو مقید وپابند رکھیں، اسے حق ہے کہ وہ اس دائرے میں رہتے ہوئے اس منہج اور اس فہم کے دائرے میں رہتے ہوئے اس چیز کو راجح قرار دے جو اس پر واضح ہو کہ یہ حق ہے، لیکن ایسا نہ کرے کہ سلفیوں پرخروج کرے ایسی نت نئی آراءاختیار کرکے جسے اس نے منہج سلف کے باہر سے اخذ کیا ہو۔ اہل بدعت وضلالت کی جماعتوں یا احزاب وغیرہ سے، پھر وہ چاہے کہ سلفیوں کا اس کو پابند بنائے، جس کا نتیجہ تفرقہ اور اختلاف ہو۔ لہذا میں اس صنف کے لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالی کے حضور تائب ہوں اور فتنوں کے اسباب اور ایسے امور سے بچیں جو سلفیوں کے مابین تفرقے اور پھوٹ کا سبب ہوں۔
اور آج یہی معاملہ چل رہا ہے بہت سے علاقوں میں، جس کا سبب ایک ایسا انسان ہوتا ہے کہ جس کے پاس کوئی فکر پیدا ہوئی ہوتی ہے جسے اس نے سلفی منہج کے دشمنوں سے اخذ کیا ہوتا ہے لیکن سمجھتا یہ ہے کہ وہ حق ہے۔ پھر وہ اس کی طرف دعوت دیتا ہے اور اسی بنیاد پر دوستی ودشمنی برتتا ہے۔ پس اس کے نتیجے میں سلفیوں کے مابین اختلاف، تفرقہ اور پھوٹ پٹ جاتی ہے۔
پس ہم ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہيں کہ اللہ تعالی کے حضور توبہ کریں اور ان امور کو ترک کردیں جو تفرقے کا سبب بنتے ہيں اگرچہ وہ اپنے زعم میں خود کو حق پر ہی کیوں نہ سمجھتے ہوں!
[#SalafiUrduDawah Article] Preceding and opposing the #scholars in #Ummah_affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
#درپیش_امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: عمر طارق
مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf


سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔
جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:
پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:
﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )
يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:
پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔
دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔
اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:
’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔
(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہو‏ئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔
دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔
ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
(اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ،اور اپنے میں سے ولاۃ امور (حکمرانوں) کی، اگر تم آپس میں کسی معاملے میں اختلاف کرلو تو اسے اللہ او ر رسول کی طرف پھیر دو ،اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے)
اہل علم نے فرمايا کہ اللہ تعالی کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے اللہ کی کتاب کی طرف لوٹانا اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود لوٹانا آپ کی زندگی ميں اور آپ کی سنت کی طرف لوٹانا آپ کی وفات کے بعد([2])۔
لہذا آپ کا يہ قول غایت درجے فساد اور بطلان پر مبنی ہے، اور اس قول سے صرف يہ ہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ آپ کا مقصد لوگوں کو اپنے آپ سے اور آپ جيسے دوسرے لوگوں سے جوڑنا ہے جو علم اور دعوت کے ميدان ميں اپنے آپ کو آگے بڑھ کر پيش کرتے ہيں۔ جبکہ آپ پر تو يہ واجب تھاکہ آپ لوگوں کو آئمہِ ہدايت اور ان اہل علم سے جوڑيں جو صحيح وسلیم وسیدھے عقيدہ ومنہج، علم ميں رسوخ اور امت کی خيرخواہی کے بارے ميں معروف ہيں([3])۔
کيونکہ يہی لوگ انبياء کے وارث ہيں، جب بھی يہ لوگ کسی درپيش مسئلے کے بارے ميں کلام کرتے ہيں([4])، يا کسی اور معاملے ميں کوئی بات کرتے ہيں، يا کسی شخص سے خبردار کرتے ہيں، اور اس ميں وہ اس کے فاسد منہج اور برے اصولوں کو دليل کے ساتھ بيان کرتے ہيں تو ان صورتوں ميں ان کے قول کو قبول کرنا واجب ہے، کيونکہ وہ حق ہے جب تک کہ وہ دليل اور برہان پر قائم ہے۔ چناچہ ان سب باتوں سے يہ واضح ہو جاتا ہے کہ يہ مقولہ بلکل باطل اور فاسدہے۔
[1] امام مسلم نے اسے صحيح مسلم ميں، کتاب: الطلاق، باب في الإيلاء واعتزال النساء، وتخييرهن، وقوله تعالى: {وَإِن تَظَاهَرَا عَلَيْهِ}، حديث نمبر ۱۴۷۹ ميں سيدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روايت فرمایا ہے۔
[2] امام ابن القيم رحمہ اللہ اس آيت کے متعلق فرماتے ہيں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہو گيا ہے کہ اللہ کی طرف لوٹانے کا مطلب يہ ہے کہ اس کی کتاب کی طرف لوٹايا جائے، اور رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے کہ آپ کی طرف بذات خود آپ کے لوگوں کے درميان موجود ہونے ميں يا آپ کی زندگی ميں لوٹایا جائے، اور آپ کی سنت کی طرف آپ کے لوگوں کے درميان موجود نا ہونے ميں يا آپ کی وفات کے بعد لوٹایاجائے‘‘۔ (اعلام الموقعين 1/174)۔
اور امام ابن کثير رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’اور يہ اللہ کی طرف سے حکم ہے کہ کوئی بھی معاملہ جس ميں لوگ اختلاف کر جائيں چاہے وہ دين کے اصول ميں سے ہو يا فروع ميں سے، تو اس اختلاف کو کتاب و سنت کی طرف لوٹايا جائے‘‘۔ (تفسير ابن کثير 2/304)۔
[3] یحییٰ بن معاذ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’علماء کرام امت محمد -صلی اللہ عليہ و سلم– پر ان کے اپنے ماں باپ سے زيادہ رحم دل ہيں۔ ان سے پوچھا گيا: ايسا کیسے؟انہوں نے فرمايا: کيونکہ بے شک ان کے ماں باپ ان کی دنيا کی آگ سے حفاظت کرتے ہيں، جبکہ علماء ان کو آخرت کی آگ سے بچاتے ہيں‘‘۔ (مختصر نصيحة أهل الحديث- 167)۔
[4] امام الحسن البصری رحمہ اللہ فرماتے ہيں: ’’بے شک يہ فتنہ جب بھی آنے لگتا تو اس کو ہر عالم جان ليتا ہے، اور جب وہ نکل جاتا ہے تب اس کو ہر جاہل بھی جان ليتا ہے‘‘۔(ابن سعد – 7/166) ۔
#SalafiUrduDawah
#صحابہ کی فضیلت اور انہیں سب وشتم کرنے کی مذمت
#sahaba ki fadeelat aur unhe sabb o shatam karne ki muzammat
#SalafiUrduDawah
شیخ #بدیع_الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا ایک #شیعہ کو لاجواب کرنا
shaykh #badee_ud_deen shaah rashidee ka aik #shia ko lawajab karna
[#SalafiUrduDawah Article] Brief biography of Sahabi #Abdullah_bin_Masud (radiAllaho anhu) – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
مختصر سوانح حیات سیدنا #عبداللہ_بن_مسعود رضی اللہ عنہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_masood.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عبداللہ بن مسعود بن غافل الھذلی ہیں اور آپ کی والدہ ام عبد تھیں جن کی طرف کبھی کبھار آپ رضی اللہ عنہ کی نسبت کی جاتی ہے([1])۔آپ رضی اللہ عنہ اسلام میں سابقین اولین میں سے تھے اور دونوں ہجرتیں (حبشہ ومدینہ) فرمائیں، اسی طرح سے غزوۂ بدر اور اس کے بعد کے معرکوں میں شریک رہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست ستر اور اس سے کچھ اوپر قرآنی سورتیں حاصل کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع اسلام ہی میں ان کے لیے فرمایا:
’’إنك لغلام مُعَلَّم‘‘([2])
(تم تو ایک پڑھے پڑھائے سمجھدار لڑکے ہو)۔
اور فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ‘‘([3])
(جو چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح تروتازہ اترا تھا بالکل اسی طرح قرأت کرے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد(ابن مسعود رضی اللہ عنہ) کےقرأت کی طرح پڑھے)۔
اور صحیح البخاری ([4])میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہوں)۔
اور فرمایا:
’’وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَلَا أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ تُبَلِّغُهُ الْإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ‘‘
(اس اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں کہ کتاب اللہ میں سے کوئی بھی سورت نازل نہیں ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی، اور نہ ہی کوئی آیت نازل ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ کس کےبارے میں نازل ہوئی، اور اگر میرےعلم میں کوئی ایساہوتا کہ جو مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو اورمیرا اونٹ اس تک پہنچ سکتا ہو تو میں اس پر سوار ہوکر اس کی طرف سفرکرتا)۔
اور آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے کہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل فرمایا، اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے، سامان طہارت وتکیہ وغیرہ لے کر ساتھ چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ فَمَكُثْنَا حِينًا مَا نُرَى إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِمَا نَرَى مِنْ دُخُولِهِ وَدُخُولِ أُمِّهِ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘([5])
(میں اور میرا بھائی جب یمن سے آئے تو کچھ عرصہ قیام کرنے پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس کثرت سے ان کی اور ان کی والدہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آمد ورفت ہوا کرتی تھی)۔
لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستقل ملازمت اختیا ر کرنے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور سنت سے بہت متاثر تھے۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَا أَعْرِفُ أَحَدًا أَقْرَبَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِالنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْد‘‘([6])
(میں ابن ام عبد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیت، طریقے، چال ڈھال ونشت وبرخاست سے قریب تر نہیں جانتا)۔
آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کو ان کے دینی امور کی تعلیم دیں اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا۔ اور فرمایا:
’’هُمَا مِنَ النُجَبَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ،فَاقْتَدُوا بِهِمَا‘‘([7])
(یہ دو اشخاص اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے قدآور شخصیات ہیں، پس ان کی اقتداء کرنا)۔
پھر بعدازیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا امیر مقرر فرمایا پھر معزول کرکے انہیں مدینہ نبویہ واپس تشریف لانے کو کہا۔ پس آپ رضی اللہ عنہ نے وہیں سن 32ھ میں وفات پائی اور البقیع قبرستان میں دفن ہوئے جبکہ اس وقت آپ کی عمر ستر اور کچھ اوپر برس کی تھی۔
[1] اوریہ اس لیےکیونکہ آپ کے والدزمانۂجاہلیت ہی میں فوت ہوگئے تھے، لیکن ان کی والدہ نے زمانۂ اسلام پایا اور اسلام لے آئیں۔
[2] اخرجہ احمد (1/389۔ 462)۔
[3] اخرجہ ابن ماجہ (138)۔
[4] اخرجہ البخاری ص 433-434، کتاب فضائل القرآن، باب 8: القراء من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حدیث رقم 5000۔
[5] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب فضل عائشۃ رضی اللہ عنھا۔ حدیث رقم (3763)، ومسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب فی فضائل عبداللہ بن مسعود وامہ رضی اللہ عنھما۔ حدیث رقم (2460)۔
[6] اخرجہ البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، باب فضل عائشۃ۔ حدیث رقم (2762)۔
[7] مستدرک حاکم 3/388، ارواء الغلیل 8/229۔
[#SalafiUrduDawah Book] #Aqeedah and #Manhaj necessitates each other - Various #Ulamaa

#عقیدہ اور #منہج لازم ملزوم ہیں

مختلف #علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام



فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب وشیخ ابن باز، شیخ محمد ناصر الدین الالبانی، شیخ محمد بن صالح العثیمین ، شیخ محمد امان الجامی ، شیخ مقبل بن ہادی الوادعی ، شیخ زید بن محمد المدخلی رحمہم اللہ اور شیخ ربیع بن ہادی المدخلی ، شیخ صالح بن فوزان الفوزان ، شیخ عبید بن عبداللہ الجابری ،شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ و شیخ محمد علی فرکوس حفظہم اللہ کے کلام سے ماخوذ۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/aqeedah_manhaj_lazim_malzoom_hain.pdf