Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Thinking the Month of #Safar as #Unlucky and its Innovations – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#صفر کے مہینے کو #منحوس سمجھنا اور اس مہینے میں ہونے والی بعض بدعات
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/mah_e_safar_manhoos_bidaat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :
مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([1])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد یاحقیقت) نہیں پاتے۔
اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([2])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:
’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘
(اور نہ ہی نچھتر([3]) ہے اور نہ ہی بھوت([4]))۔
کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر وبھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔
صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیریا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شروبرائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا: امام مسلم "نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([5])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لئے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔
[2] حدیث گزر چکی ہے۔
[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] حدیث گزر چکی ہے۔
#SalafiUrduDawah
#صفر کا مہینہ #منحوس نہیں
#safar ka maheena #manhoos nahi
[#SalafiUrduDawah Article] I don't want to hear anything against my favourite #Aalim or #Daaee! – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
میں اپنے پسندیدہ #عالم یا #داعی کے خلاف کچھ نہيں سن سکتا!
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة ص 67.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/pasandeedah_alim_daee_khilaf_na_sunna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو کسی عالم یا داعی کو پسند کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ: بے شک میں ان سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں، اور ہرگز بھی نہيں سن سکتا کہ کوئی ان پررد کرے، اور میں ان کی ہی بات کو لوں گا چاہے وہ دلیل کے مخالف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ بے شک میرے یہ شیخ ہم سے زیادہ دلیل کو سمجھنے والے ہيں؟
جواب: یہی وہ قابل نفرت ومذمت تعصب ہے، جو کہ بالکل بھی جائز نہیں([1])۔
ہم علماء کرام سے محبت کرتے ہيں الحمدللہ، اسی طرح سے داعیان الی اللہ سے بھی محبت کرتے ہیں، لیکن اگر ان میں سے کوئی کسی مسئلے میں غلطی کرجائے، تو ہم اس مسئلے میں دلیل کے ساتھ حق بیان کرتے ہيں، اور یہ مردود علیہ (جس کا رد کیا گیا) ا س کی محبت اور قدر میں نقص کا سبب نہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ہم میں سے ہر ایک رد کرسکتا ہے اور اس کا رد کیا جاسکتا ہے، سوائے اس قبر والے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے‘‘([2])۔
لہذا ہم اگر بعض اہل علم وفضل پر رد کرتے ہيں تو اس کا یہ معنی نہیں ہوتا کہ ہم ان سے بغض رکھتے ہيں یا ان کی تنقیص کے خواہاں ہیں، بلکہ ہم تو صرف اور صرف حق صواب کی وضاحت کرتے ہيں۔ اسی لیے بعض علماء کرام جب ان کے ساتھیوں میں سے کوئی غلطی کرتا تو یوں فرماتے ہیں:
’’فلاں ہمارا محبوب ہے، لیکن حق ہمیں اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘‘([3])۔
یہ ہے صحیح طریقہ ۔
چناچہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ بعض علماء پر کسی ایسے مسئلے میں جس میں ان سے غلطی ہوئی رد کرنے کا مطلب ان کی تنقیص کرنا یا ان سے بغض کرنا ہے، بلکہ علماء کرام تو ہمیشہ سے ایک دوسرے پر رد کرتے آئے ہيں اس کے باوجود آپس میں محبت اور بھائی چارہ بھی تھا۔
ہمارے لیے جائز نہيں کہ کسی شخص کی ہر بات کو اٹل سمجھ کر لازمی طور پر لیں، چاہے وہ صواب پر ہو یا غلطی پر، کیونکہ بلاشبہ یہ تعصب ہے۔
وہ شخصیت کے جن کے ہر قول کو لیا جائے گا اور اس میں سے کسی بھی چیزکو چھوڑا نہيں جاسکتا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہيں، کیونکہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے رب کی طرف سے مبلغ (پہنچانے والے) ہیں، اور وہ اپنی خواہش نفس سے کچھ نہيں بولتے، لیکن ان کے علاوہ جو ہيں تو ان سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اور صواب کو بھی پاسکتے ہيں، اگرچہ وہ تمام لوگوں میں سے افضل ترین ہی کیوں نہ ہوں، بہرحال وہ مجتہد ہیں جو غلطی بھی کرتے ہيں اور صواب کو بھی پاتے ہیں۔
کوئی بھی معصوم عن الخطاء نہيں سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے۔
واجب ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھیں، کسی غلطی پر پردہ نہ ڈالیں کسی شخصیت کی ہیبت کی وجہ سے، بلکہ ہمیں چاہیےکہ ہم غلطی کو واضح کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’الدِّينُ النَّصِيحَةُ، قُلنَا: لِمَنْ؟ قَالَ: لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِرَسُولِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ‘‘([4])
(دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ، ہم نے عرض کی: کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ تعالی کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اور حکام مسلمین اور ان کی عوام کے لیے)۔
اور غلطی کو بیان کرنا تمام لوگوں کی نصیحت وخیرخواہی چاہنے میں سے ہے، جبکہ اسے چھپانا نصیحت وخیرخواہی چاہنے کے مخالف ہے۔
[1] محمد سلطان الخجندی رحمہ اللہ صاحب کتاب ’’هل المسلم ملزم باتباع مذهب معين من المذاهب الأربعة‘‘ ملا علی قاری الحنفی رحمہ اللہ سے ان کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ: ’’اس امت کے کسی بھی شخص پر یہ واجب نہيں کہ وہ حنفی ہو، یا مالکی، یا شافعی یا حنبلی، بلکہ ہر ایسے فرد پر ضروری ہے کہ جو عالم نہ ہو کہ وہ اہل ذکر (علماء) میں سے کسی بھی سے پوچھ لے، اور یہ آئمہ اربعہ بھی اہل ذکرمیں سے ہيں، اسی لیے کہا جاتا ہے: (جس نے عالم کی اتباع کی اس کی ملاقات اللہ تعالی سے سلامتی کے ساتھ ہوگی)، اور درحقیقت ہر مکلف سیدالانبیاء سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع پر مامور ہے‘‘۔ ص 57 تحقیقی الہلالی۔
میں یہ کہتا ہوں: اس کے قریب قریب معنی اس کلام کا بھی ہے جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے منقول ہے جو اس کتاب ’’الاجوبۃ المفیدۃ‘‘ کے حاشیہ رقم 67 میں دیکھا جاسکتا ہے۔
امام الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس کے سامنے سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ظاہر ہوجائے، تو اس کے لیے روا نہيں کہ وہ لوگوں میں سے کسی کے بھی قول کی وجہ سے اسے چھوڑ دے‘‘۔ دیکھیں اعلام الموقعین لابن القیم رحمہ اللہ 1/7۔
[2] اس اثر کی تخریج کے لیے دیکھیں کتاب ’’صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ للالبانی رحمہ اللہ ص 26 حاشیہ 3 ط المکتب الاسلامی 1403ھ، اور اسے العجلونی رحمہ اللہ بھی ’’کشف الخفاء‘‘ 1961 میں لے کر آئے ہیں۔
[3] یہ مقالہ شیخ الاسلام ابن القیم رحمہ اللہ کا ابو اسماعیل الہروی کے بارے میں ہے، دیکھیں ’’مدارج السالکین‘‘ 3/394۔
[4] اخرجہ مسلم فی کتاب الایمان، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث رقم 55۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is being an #Aalim, #Muhaddith and #Mufassir proof enough for someone bearing the correct #Aqeedah and #Manhaj? – Shaykh #Saaleh_Aal_Shaykh
کیا کسی کا #عالم، #محدث و #مفسر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اس کا #عقیدہ_ومنہج درست ہے؟
فضیلۃ الشیخ #صالح_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(وزیر مذہبی امور، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح كشف الشبهات.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/alim_daleel_aqeedah_mnhj_saheeh.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ ’’کشف الشبھات‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’یہ بھی عین ممکن ہے کہ دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں۔۔۔‘‘۔
شیخ صالح آل الشیخ حفظہ اللہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ:
ان کشف الشبہات (شبہات کے ازالے) کی راہ میں جو علماء ِمشرکین دلوں میں ڈالتے ہیں یہ بہت اہم مقدمہ ہے ۔ پس جو توحید کے دشمن ہیں خصوصا ًاس امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے جنہيں علماء میں شمار کیا جاتا ہے جو اس امت میں آئے۔ چناچہ یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن بالکل ہی علم سے کورا ہوتا ہے ، نہ ہی تصور کیا جائے کہ توحید کا دشمن فقیہ نہيں ہوسکتا، یا محّدث نہيں ہوسکتا، یا مفسر ِقرآن نہیں ہوسکتا، یا تاریخ دان نہيں ہوسکتا، بلکہ ہوسکتا ہے وہ ان بہت سے فنون میں سے کسی فن میں یا بہت سے فنون میں بہت نمایاں مقام رکھتاہو۔ جیسا کہ ان لوگوں کا حال تھا جنہوں نے اس دعوت کے امام رحمہ اللہ پر رد کیے۔ کیونکہ بلاشبہ وہ اس مرتبے کے لوگ تھے کہ لوگ انگلیوں سے ان کی جانب اشارہ کرتے تھےان علوم کی نسبت سے جن میں ان کا تخصص تھا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو فقیہ تھے، بعض ایسے تھے جو تاریخ دان تھے۔ اور یہی حال ان لوگوں کا بھی تھا جن پر آئمہ دعوت نے رد فرمایا۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ توحید کا دشمن کوئی عالم نہیں ہوگایا نہیں ہوسکتا۔
یہ شبہہ گمراہ قسم کے لوگ عوام کے دلوں میں ڈالتے ہیں ، پس وہ ایک عالم کا دوسرے عالم پر اعتراض کرنے کو اس بات کی دلیل بناتے ہیں کہ دونوں مذاہب (یا مواقف) ہی درست ہيں اور اس کا معنی میں وسعت ہیں۔ اسی لیے ان میں سے بعض توحید کے مسائل تک کے بارے میں کہتے ہیں کہ: یہ دوسرے قول سے زیادہ صحیح ہے یا علماء کرام کے دو اقوال میں سے صحیح تر قول کے مطابق ایسا ایسا ہے۔ حالانکہ توحید کے مسائل میں ایسا کہنا بالکل بھی جائز نہیں ۔ کیونکہ جو توحید کے مسائل میں بھی مخالفت کررہا ہو وہ علماء توحید میں سے نہیں ہوسکتا، نہ ہی ان علماء اہل سنت میں سے ہوسکتا ہے جن کی طرف کوئی قول منسوب کرنا درست ہوا کرتا ہے، یا اختلاف کی صورت میں ان کے قول کو بھی لیا جاتا ہے، بلکہ توحید کا معاملہ تو ایسا ہے کہ اس پر کتاب وسنت اور اجماع سلف سے کثیر دلائل دلالت کرتے ہیں ، اور آئمہ کرام نے بھی اسے بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ اب جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرتا ہے تو اگرچہ وہ کبار علماء میں سے ہو فقہ میں یا تاریخ میں یا حدیث میں یا اس کے علاوہ کسی چیز میں تو اس کی مخالفت اس کی ذات تک ہی ہے، یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس مسئلے میں (اصل میں کوئی) اختلاف ہے۔
لہذا اس بارے میں متنبہ رہا جائے کہ کہ بلاشبہ مشرکین کے علماء میں سے جو توحید کے دشمن ہیں ان کا حال یہ نہيں ہوتا کہ وہ عالم نہ ہوں، بلکہ ہوسکتا ہے وہ عالم ہو بلکہ فنون میں سے کسی فن میں امام ہو، تفسیر میں امام ہو، فقہ میں امام ہو، یا قضاء وفیصلوں کے لیے وہ لوگوں کا مرجع ہو، یا اس جیسے رتبے کے ہوں جیسا کہ اس دعوت کے دشمنان جنہوں نے شیخ رحمہ اللہ کی مخالفت کی اور اس دعوت کی مخالفت کی۔
یا جیسا کہ متاخرین کا حال ہے مثال کے طور پر داود بن جرجیس تو یہ بہت وسیع علم رکھنے والاشخص ہے، لیکن وہ علماء مشرکین میں سے ہے۔ یا جیسا حال ہے محمد بن حمید الشرقی مصنف کتاب ’’السحب الوابلة على ضرائح الحنابلة‘‘ کا، وہ بھی توحید کے دشمنوں میں سے تھا۔ تو اس نے مشایخ کرام پر رد لکھا اس بات پر کہ انہوں نے بوصیری کے مشہور ومعروف قصیدے المیمہ([1]) کا رد کیا تھا، تو اس نے ان کا رد کیا اور ثابت کرنا چاہا کہ اسے شرک کہنا باطل ہے، اور جو کچھ بوصیری نے کہا اس کا آخر تک اقرار کیا اور صحیح ثابت کیا۔ اور شیخ عبدالرحمن بن حسن مصنف ’’فتح المجید‘‘ جو کہ مجدد ثانی تھے کا ایک رسالہ بھی موجود ہے جس میں اس کتاب کے مصنف پر انہوں نے رد فرمایا ہے، حالانکہ وہ فقہ میں بہت نمایاں مقام رکھتا تھا، اور تفسیر وسوانح نگاری اور آخر تک جو علوم ہیں ان کے تعلق سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارے کیے جاتے تھے۔۔۔ لیکن وہ درحقیقت علماء مشرکین میں سے اوردشمنان توحید میں سے تھا۔ کیونکہ یہ شرک کا دفاع اور پشت پناہی کرتے ہیں اور اہل توحید کا رد کرتے ہيں، اور لوگوں کو توحید وشرک کی تعریف کے بارے میں، اور کس چیز سے ایک مسلمان مشرک ومرتد ہوجاتا ہے اس تعلق سے گمراہ کرتے ہیں، چناچہ اس بارے میں وہ لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
چناچہ یہ مقدمہ اپنی جگہ بہت اہم ہے اور وہ یہ ہے کہ: یہ گمان نہ کیا جائے کہ اس پائے کے علماء جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ مشرکین نہیں ہوسکتے، بلکہ شیخ رحمہ اللہ کے دور میں اور اس کے بعد بھی ایسے علماء پائے جاتے تھے جن کی جانب اشارہ کیاجاتا، لیکن وہ مشرکین تھے جیساکہ شافعیہ کے مفتی بھی جو مکہ میں تھے احمد بن زینی دحلان اور ان جیسے لوگ۔ چناچہ لوگ توان کی جانب رجوع کرتے اور فتاویٰ لیتےاوروہ انہیں ان باتوں سے پھیر دیتے۔ لہذا یہ تصور نہ کیا جائے کہ شرک کے واسطے اس کے علماء موجود نہ ہوں گے جو اس کا دفاع کرتے ہوں۔
پس بطور مقدمہ یہ بات سمجھ لیں کہ اس کتاب ’’کشف الشبہات‘‘ میں مسائل میں سے کسی بھی مسئلے کے تعلق سے جب شبہے کا ازالہ کیا جائے گا تو یہ نہ کہیں کہ یہ فلاں عالم نے بھی تو کہا ہے، فلاں امام بھی تو اس کے قائل ہیں، (اگر یہ غلط ہے تو) آخر فلاں امام کیسے یہ کرسکتا ہے۔ اس قسم کا شخص یا تو جاہل ہے جس نے اس مسئلے کو صحیح طور پر ضبط نہيں کیا جیساکہ بعض مشہور علماء جن کا خیر کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے، یا پھر اس نے جانتے بوجھتے عناد واعراض کی راہ اپناتے ہوئے شرک کو خوبصورت بناکر پیش کرنے کے لیے یہ تصنیف کی ہوگی۔ جیسا کہ فخر الدین الرازی نے کیا جو تفسیر ’’مفاتيح الغيب‘‘ کے مصنف ہیں، اس طرح کہ انہوں نے صابئہ (ستارہ پرستوں) کے دین کو خوبصورت بناکر پیش کرنے اور ان کا ستاروں سے مخاطب ہونے کے تعلق سے کتاب لکھی جسے ’’السر المكتوم في مخاطبة النجوم‘‘ کا نام دیا، اس کی وجہ سے اہل علم کی ایک جماعت نے ان کی تکفیر بھی کی([2])۔ تو انہوں نے خوبصورت بناکر پیش کیا ہے کہ وہ کیسے ستاروں سے مخاطب ہوتے ہیں ، کیسے ان سے استغاثہ (فریادیں) کرتے ہیں اور کیسے ان سے بارش طلب کرتے ہیں اور آخر تک جو وہ کرتے ہيں۔۔۔انہوں نے اس بارے میں تصنیف حران کے صابئہ کی ان کاموں کی جانب رہنمائی کے لیے کی، اور یہ بے شک پرلے درجے کی گمراہی ہے۔
لہذا ہرگز بھی یہ نہ کہا جائے جب کوئی بھی شبہہ آئے اور اس کا رد کیا جائے یا اس کا رد آئمہ سنت وتوحید کریں تو یوں نہ کہا جائے کہ فلاں عالم نے پھر اس طرح کیسے کہہ دیا؟! کیسے فلاں عالم کی نسبت سے یہ بات رواج پاسکتی ہے؟! یہ لوگ یا تو جاہل تھے کہ انہوں نے دشمنان توحید کے بارے میں نہ لکھا یا پھر انہوں نے شرک اور اسے خوبصورت بناکر پیش کرنے کے سلسلے میں تصنیف کی۔ یہاں شیخ کی مراد اس قسم کےلوگ ہیں اپنے اس فرمان سے کہ:
’’ہوسکتا ہے دشمنان توحید کے پاس بہت سے علوم، کتب اور حجتیں ہوں‘‘۔
اگر آپ ان کا کلام پڑھیں گے تو کبھی وہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن القیم ; تک سے نقول اور حوالے لے کر آتے ہیں، جیسا کہ داود بن جرجیس نے کیا جب اس نے اپنی کتاب ’’صلح الإخوان‘‘ تصنیف کی، اس میں اس نے شیخ الاسلام اور ابن القیم ; سے نقول پیش کی، ساتھ ہی مفسرین کے اقوال اور بہت سے علماء کے اقوال بھی لے کر آیا ہے۔ یا جیسا کہ فی زمانہ تصنیف کی محمد بن علوی المالکی جیسے لوگوں نے ، اس نے بھی تصنیف کی جس میں یہاں وہاں سے دوسو یا تین سو اقوال پکڑ لے آیا ہےان علماء کے جو اپنی کتب میں ان کی بعض شرکیات اور بعض واسطے وسیلوں اور اس جیسی چیزوں کے اقراری تھے، حالانکہ اصل اعتبار اس کا نہيں کیا جاتا۔
بلکہ قاعدہ یہ ہوتا ہے جس پر ایک توحید پرست کے دونوں قدم جمے رہنے چاہیے کہ: مشرکین کے علماء کے پاس بھی کبھی بہت سا علم اور حجتیں ہوا کرتی ہیں، کیونکہ شرک سبب نہيں بنتا ان سے کلی طور پر علم چھن جانے کا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا ان کے اولین لوگوں کے بارے میں فرمان ہے کہ:
﴿فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنٰتِ فَرِحُوْا بِمَا عِنْدَهُمْ مِّنَ الْعِلْمِ﴾ (غافر: 83)
(پھر جب ان کے رسول ان کے پاس واضح دلیلیں لے کر آئے تو وہ اس پر اِترا گئے جو ان کے پاس کچھ علم تھا)
ہوسکتا ہے کبھی یہ علم الہیات کے تعلق سے ہو جیسا کہ وہ کہتے تھے:
﴿اَجَعَلَ الْاٰلِـهَةَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا﴾ (ص: 5)
(کیا اس نے تمام معبودوں کو ایک ہی معبود بنا ڈالا)
یہ اعتراض ِشبہہ تھا، اور کہا کہ:
﴿مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى﴾ (الزمر: 3)
(ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لیے کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کر دیں، خوب اچھی طرح قریب کردیں)
اور کبھی وہ علم فقہیات تک سے متعلق ہوتا ہے، جیسا کہ کہا:
﴿قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (البقرۃ: 275)
(انہوں نے کہا بیع (تجارت) بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا)
یا اس جیسی دیگر باتیں۔ پس اس امت کو مخاطب کرنے والے علوم کی جو جنس ہے وہ رسولوں کے دشمنوں کے یہاں بھی تھی، یا تو الہیات کے پہلو سے یا پھر شرعیات کے پہلو سے۔ پس انہوں نے معارضہ اور ٹکراؤ کیا رسولوں سے اس علم کے ساتھ جو ان کے پاس تھا۔ بلکہ بلاشبہ اللہ تعالی نے شبہہ کی قوت کے زاویے سے بطور تعظیم ان کے قول کو حجت بھی کہا ، پس فرمایا:
﴿ وَالَّذِيْنَ يُحَاجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّــتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ (الشوریٰ: 16)
(اور جو لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں، اس کے بعد کہ اس کی دعوت قبول کرلی گئی، ان کی دلیل ان کے رب کے نزدیک باطل ہے)
کیا اس شخصیت کی یہ بہت سی کتابیں، فقہیات وسوانح نگاری وتفسیر یا اس جیسی چیزیں اسے ایسا کردیں گی کہ وہ توحید کا دشمن نہيں ہوسکتا اگرچہ وہ توحید کی دشمنی میں لکھتا ہو، شرک کو خوبصورت بنا کر پیش کرنے کے بارے میں لکھتا ہو، اور لوگوں کو اس کی طرف بلاتا ہو؟ جواب اس کا یہی ہے کہ نہيں! بلکہ وہ توحید کا دشمن اور شرک کی نصرت کرنے والا ہی کہلائے گا ، جس کی کوئی قدر واحترام نہيں، اگرچہ اس کی پیشانی پر سجدوں کے نشان ہوں، اگرچہ اس کی تالیفات ان سے بھی بڑھ کر ہوں جو باکثرت تالیفات کرنے میں مشہور تھے جیسے السیوطی وغیرہ۔ لہذا نہ یہ معتبر ہے نہ ہی اس کا کلام۔ کیونکہ یہ علماء توحید میں سے تو نہ ہوا چناچہ اس کے علوم نقصان دہ ہے ناکہ فائدہ مند اور علم نافع۔
اس کے بعد فرمایا: ’’جب آپ نے یہ جان لیا‘‘
یعنی جو کچھ پہلے ذکر ہوا کہ دشمنان ِرسل کے پاس کبھی علم بھی ہوتا ہے، کتب بھی ہوتی ہیں جو وہ تصنیف کرتے ہیں، حجتیں بھی ہوتی ہیں جو وہ پیش کرتے ہيں، بلکہ کبھی تو وہ کتاب وسنت سے اور اہل علم میں سے جو محققین ہیں ان کے اقوال تک سے حجت پکڑتےہیں۔ جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ سے کچھ باتیں نقل کرتے ہيں، اور کچھ شیخ الاسلام اور ابن القیم وابن حجر رحمہم اللہ سے اور بھی دوسروں سے نقل کیے جاتےہیں۔۔۔یہ سب کے سب نقصان دہ علوم ہیں ناکہ علم نافع۔
امام رحمہ اللہ فرماتے ہيں:
’’جب آپ نے یہ اچھی طرح سے جان لیا اور یہ بھی جان لیا کہ اللہ تعالی کی طرف جو راہ ہے ضروری ہے کہ اس پر دشمن بیٹھے ہوں گے جو کہ بڑے اہل فصاحت وبلاغت، اہل علم وحجت ہوں گے‘‘۔
اس کلمہ پر ذرا غور کریں کہ فرمایا ’’ضروری ہے کے اس راہ پر یہ دشمن موجود ہوں گے‘‘ یعنی توحید کی راہ میں اس کے دشمن ضرور بیٹھے ہوں گے جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا تھا۔ اب یہ جو دشمن ہیں ہوسکتا ہے علماء ہوں، اور ایسے علماء ہوں جو فصاحت وبلاغت اور علم وحجت کے اعلیٰ درجے پر ہوں۔ آپ کے پاس لازماً بچاؤ ہونا چاہیے کہ کہيں وہ آپ کو ہدایت کی راہ سے روک نہ دیں اور گمراہی کی راہ میں داخل نہ کردیں، اور کہیں وہ آپ پر دین کا معاملہ ملتبس وخلط ملط نہ کردیں۔کیونکہ یہ فصاحت کوئی معیار نہيں ہے، ورنہ تو ابلیس بھی بڑا فصیح ہوا کرتا تھا۔ اور نہ ہی علم فی نفسہ معیار ہے، بلکہ ضروری ہے علم علمِ نافع ہو۔ اور نہ ہی حجتیں، حوالہ جات اور ردود وجوابات معیار ہیں۔ جب یہ بات موجود ہے تو پھر شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی اس وصیت کو اپنے پلے باندھ لیجئے جو انہوں نے اپنے اس عظیم رسالے ’’کشف الشبہات‘‘ کے مقدمے میں بیان فرمائی ہے۔
(آخری میں فرمایا کہ ایک توحید پرست علم نافع کے ہتھیار سے لیس ہو تاکہ ان کا مقابلہ کرسکے)۔
[1] اس سے مراد مشہور ومعروف قصیدہ بردہ ہےجس کے 162 اشعار ہیں، جسے ’’الكواكب الدرية في مدح خير البرية‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اسے نظم کرنے والے شر ف الدین ابو عبداللہ محمد بن سعید الدولاصی پھر البوصیری المتوفی سن 664ھ۔ دیکھیں کشف الظنون 2/1331۔
[2] دیکھیں: مجموع الفتاوی 13/180-181، بیان تلبیس الجہمیۃ 1/447، تفسیر ابن کثیر 1/146 اور المغنی فی الضعفاء 2/508۔
[#SalafiUrduDawah Article] A person can be #Kharijee in spite of having immense #knowledge, 'Ibaadah and asceticism – Imaam Shams-ud-Deen #Ad_Dhahabi
عبادت، #علم وزہد کے باوجود ایک شخص #خارجی ہوسکتا ہے
أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان #الذھبي رحمہ اللہ المتوفی سن 748ھ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: "سير أعلام النبلاء" بعض ترامیم، اختصار اور اضافہ جات کے ساتھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/ibaadah_ilm_zuhd_bawajod_kharijee.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد بن عثمان الذھبی رحمہ اللہ اپنی تاریخ وسوانح پر لکھی گئی مشہور کتاب ’’سير أعلام النبلاء‘‘ ج 7 ص 362 ط مؤسسة الرسالة، الطبقة السابعة، الحسن بن صالح میں فرماتے ہیں:
ابن صالح بن حی، اور حی کا نام: حَيَّانُ بْنُ شُفَيِّ بْنِ هُنَيِّ بْنِ رَافِعٍ تھا۔ بہت بڑے امام تھے، قدآور شخصیات میں سے ایک، ابو عبداللہ الہمدانی الثوری الکوفی، فقیہ وعابد تھے، امام علی بن صالح کے بھائی تھے۔
پھر امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
وکیع فرماتے ہیں: ان کی ولادت سن 100ھ میں ہوئی۔
بخاری فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے فرمایا: الحسن بن صالح کی وفات سن 169ھ میں ہوئی۔
الذہبی فرماتے ہیں: ان کی عمر 69 برس تھی، یہ اور ان کے بھائی جڑواں تھے۔
یہ اپنے علم وعبادت میں بہت مشہور تھے۔
آئمہ سلف کے دور میں بہت سے آئمہ کے ہم عصر تھے جیسے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ وغیرہ، اور احادیث کے راویو ں میں سے تھے۔
بلکہ ابن نعیم فرماتے ہیں کہ مجھ سے الحسن بن صالح نے بھی حدیث بیان کی ہیں اور وہ ورع وقوت میں سفیان الثوری سے کم نہيں تھے۔
(میزان الاعتدال للذھبی، ج 1 ص 496)
یہاں تک کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو جرج وتعدیل میں شدت اپنانے میں معروف تھے ان تک نے فرمایا:
’’آپ ثقہ حافظ اور متقن ہیں‘‘۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نےبھی ثقہ لکھا ہے۔
خشیت اور آہ وبکاء کا یہ عالم تھے کہ یحیی بن ابی بکیر فرماتے ہیں:
’’ان سے فرمایا گیا غسل میت بیان کیجئے، تو وہ رونے کی شدت کی وجہ سے صحیح طور پر بیان ہی نہيں کرپائے‘‘۔
ان کے چہرے پر خشیت کے آثار رہتے، ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں:
’’میں نے کسی کے چہرے پر خوف وخشیت کو اتنا ظاہر نہيں پایا جتنا الحسن بن صالح پر دیکھا‘‘۔
زہد وقناعت پسندی کا یہ حال تھا کہ خود فرماتے ہيں:
’’کبھی کبھار میں صبح کرتا ہوں اس حال میں کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہيں ہوتا، تو مجھے لگتا ہے گویا کہ ساری دنیا کی خوشیاں میرے لیے سمٹ آئی ہيں‘‘۔
تقویٰ وورع ایسا کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی فروخت کررہے تھے تو جو شخص اسے خریدنا چاہتا تھا اس کو یہ تک بتایا کہ ایک بار کبھی اس نے ہمارے پاس خون کی الٹی تھی۔
ایک مرتبہ یہ آیت ان کے سامنے تلاوت ہوئی : ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ﴾ (الانبیاء: 103) (انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی) تو ان کا چہرہ خوف کے مارے کبھی سبز کبھی زرد ہورہا تھا۔
انہی کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ جب وہ قبرستان کو دیکھتے تو چیختے اور بیہوش ہوجاتے۔
اسی طرح بازار والوں کو بھی دیکھ کر روتے کہ یہ لوگ اسی چیز میں مگن ہیں اور موت انہيں اچانک آجائے گی۔
جعفر بن محمد بن عبید اللہ بن موسیٰ نے فرمایا، میں نے اپنے دادا سےسنا انہوں نے فرمایا:
میں علی بن صالح پر قرآن پڑھ رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا: ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ﴾ (مریم: 84) (پس آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں) تو الحسن گر گیا اور ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بیل کی آواز ہوتی ہے، تو علی اس کی طرف کھڑے ہوئے، اسے اٹھایا، اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، پانی کے چھینٹے ماریں اور اسے ٹیک دے کربٹھایا۔
قرآن مجید پر بہت غوروتدبر کیا کرتے یہاں تک کہ ایک دفعہ وہ قیام اللیل کررہے تھے کہ سورۃ النباء شروع کی اور ان پر غشی طاری ہوگئی، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور وہ سورۃ مکمل نہ کرپائے۔
قیام اللیل کی پابندی کرتے یہاں تک کہ وہ ان کا بھائی اور ان کی والدہ قیام اللیل کو آپس میں تین حصوں میں تقسیم کرلیتے ، جب ان کی والدہ وفات پاگئیں تو اپنے او ربھائی کے درمیان آدھا آدھا کرلیا، اور جب بھائی بھی وفا ت پاگئے تو پوری رات قیام کرنے لگے۔
دنیا سے زہد اور شدت غم اتنا کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’میں ان کے پاس بیس برس بیٹھا، میں نے کبھی انہيں آسما ن کی طرف سر اٹھاتے یا دنیا کا ذکر کرتے نہيں پایا‘‘۔
ابو زرعہ الرزای تک فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی شخصیت میں اتقان، فقہ، عبادت وزہد سب جمع تھا‘‘۔
اس سب کے باوجود سلف صالحین نے ان کو بدعتی قرار دیا، بعض نے روایات تک لینا ترک کردی، اس شدت سے کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’اگر الحسن بن صالح پیدا ہی نہ ہوتا تو یہ اس کے لیے بہتر ہوتا!‘‘۔
آخر ان کا ایسا کون سا قصور تھا جس کی وجہ سے آئمہ سلف نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا اور آجکل جو موازنات کا منہج اپنایا جاتا ہے اسے بروئے کار نہیں لائے کہ اس کی نیکیاں، علم، عبادت و تقویٰ پر بھی نظر کرتے؟! اور ان کے غلط منہج ونظریہ کے شدت کے ساتھ رد کو یہ کہہ کر نہیں نظرانداز کیا کہ ہم شخصیات پر کلام اور ان کو مسخ نہيں کرتے وغیرہ۔
اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے زمانے کے ظالم حکمرانوں کے خلاف خروج کی بس رائے رکھتا تھا، نہ خود باقاعدہ خروج کیا، نہ ہی اپنے قول کو نشر کرتا تھا، نہ لوگوں کو خروج پر ابھارتا تھا، بس یہ رائے رکھتا تھا۔
محمد بن غیلان روایت کرتے ہیں ابو نعیم سے فرمایا: الحسن بن صالح کا الثوری کے سامنے ذکر ہوا تو فرمایا:
’’یہ شخص امت محمدیہ پر تلوار کی رائے رکھتا ہے‘‘ (یعنی حکام پر خروج کی)۔
یوسف بن اسباط نے فرمایا:
’’الحسن تلوار کی رائے رکھتا تھا‘‘۔
اس کے خشوع تک سے وہ دھوکہ نہیں کھاتے تھے اسی لیے ابو سعید الاشج فرماتے ہيں میں نے ابن ادریس سے سنا کہ ان کے سامنے الحسن بن صالح کی بیہوشی کا ذکر کیا گیا تو وہ فرمانے لگے:
’’امام سفیان " کی صرف مسکراہٹ ہی ہمیں الحسن کی اس بیہوشی سے زیادہ محبوب ہے‘‘۔
ابن نعیم فرماتے ہيں جمعہ کے روز جب مسجد کے دروازے سے الثوری داخل ہوئے تو حسن بن صالح کھڑے نماز پڑھ رہے تھے، اس پر انہوں نے بے ساختہ فرمایا:
’’اللہ کی پناہ! اس منافقانہ خشوع سے‘‘۔
پس اپنے جوتے اٹھائے اور دوسرے ستون کے پاس چلے گئے۔
الذہبی فرماتے ہیں کہ :
’’وہ جمعہ تک نہيں پڑھتا تھا، ظالم آئمہ وحکام کے پیچھے وہ جمعہ پڑھنے کا قائل نہیں تھا‘‘۔
امام سفیان الثوری فرماتے ہيں کہ :
’’الحسن بن صالح نے جو کچھ علم میں سے سماع کیا اور اس کو سمجھا بھی، اس کے باوجود وہ جمعہ ترک کرتا تھا!‘‘۔
پھر یہ کہہ کر وہ کھڑے ہوئے اور چل دیے۔
اسی طرح ابن ادریس فرماتے ہیں:
’’میرا ابن حی سے کیا تعلق؟! وہ تو جمعہ وجہاد تک نہیں مانتا (یعنی ظالم حکام کے ساتھ مل کر)‘‘۔
جب حفص بن غیاث نے فرمایا کہ یہ لوگ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، یعنی ابن حی اور اس کے ساتھی۔ اس پر بشر بن الحارث فرماتے ہیں:
مجھے اپنے زمانے والوں میں سے کوئی دکھاؤ جو تلوار کی رائے نہ رکھتا ہو، سب ہی رکھتے ہیں سوائے بہت قلیل علماء کے، اور وہ ان کے پیچھے نماز کے بھی قائل نہيں۔ پھر آپ نے فرمایا:
’’امام زائدہ ابن قدامہ رحمہ اللہ مسجد میں بیٹھ کر لوگوں کو ابن حی اور اس کے ساتھیوں سے تحذیر (خبردار) کرتے تھے‘‘۔
فرماتے ہیں وہ سب تلوار کی رائے رکھتے تھے۔
ابو صالح الفراء فرماتے ہیں: میں نے یوسف بن اسباط کو وکیع سے مروی کوئی چیز فتنوں سے متعلق ذکر کی، تو انہوں نے فرمایا:
یہ اپنے استاد کی ہی طرح ہے یعنی الحسن بن حی کے، میں نے یوسف سے فرمایا: کیا تم نہيں ڈرتے کہ یہ غیبت ہوسکتی ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیوں، اے احمق؟! میں ان کے لیے ان کے ماں باپ سے بڑھ کر بہتر ہوں کہ میں لوگوں کو منع کرتا ہوں کہ وہ اس پر عمل پیرا ہوں جو انہوں نے بدعات ایجاد کیں تو ان سب کے بوجھ ان کے سر ہوجائيں گے۔۔۔جو ان کے لیے زیادہ نقصان کی بات ہے۔
عبداللہ بن احمد بن حنبل فرماتے ہیں، ابو معمر فرماتے ہيں کہ:
’’ ہم وکیع کے پاس تھے پس جب کبھی وہ حسن بن صالح کی حدیث بیان کرتے ہم اپنے ہاتھوں کو روک دیتے اور نہيں لکھتے، انہوں نے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے کہ تم لوگ حسن کی حدیث نہيں لکھتے؟ تو ان کو میرے بھائی نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ وہ تلوار کی رائے رکھتے ہیں، تو امام وکیع خاموش ہوگئے‘‘۔
ابو اسامہ فرماتے ہیں:
’’میں حسن بن صالح کے پاس آیا تو اس کے ساتھی لا الہ الا اللہ، لا الہ الا اللہ۔۔۔ کہنے لگے! میں نے فرمایا، کیا ہوا ہے، کیا میں کافر ہوچکا ہوں؟! انہوں نے فرمایا: نہیں، لیکن یہ آپ سے مالک بن مغول اور زائدہ کی صحبت اختیار کرنے کا انتقام لے رہے ہيں۔ میں نے فرمایا: کیا تم بھی یہی فرماتے ہو؟ میں کبھی بھی تمہارے پاس نہیں بیٹھوں گا‘‘۔
زائدہ فرماتے تھے کہ:
’’وہ ایک زمانے سے اپنی غلط رائے پر ہٹ دہرمی کے ساتھ چمٹا ہوا ہے‘‘۔
بلکہ خلف بن تمیم فرماتے ہیں:
زائدہ تو ا س شخص کو توبہ کرواتے جو حسن بن صالح کے پاس سے آیا ہو۔
اور جن محدثین نے ان سے حدیث روایت کرنا تک چھوڑ دی تھی ان کے نام بھی ’’سیر اعلام ‘‘ میں ان کے ترجمے (سوانح) میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
الخریبی فرماتے ہیں کہ :
’’اصحاب الحدیث نے جو کچھ اس کی مذمت کی ہے اس نے اس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے، اس کی کوئی وقعت نہ رہی‘‘۔
اور فرماتے کہ :
’’وہ اپنی رائے پر گھمنڈ کرتا اور خود پسندی کا شکار تھا، اور ایسا شخص تو احمق ہی ہوتا ہے‘‘۔
زبانی خروج تو کجاوہ زبان کے متعلق کہتا جیسا کہ ابو نعیم نے روایت کیا کہ میں نے الحسن بن صالح کو فرماتے سنا:
’’میں نے ورع کو کھوجا تو زبان سے کم کسی چیز میں اسے نہيں پایا‘‘۔
ابو نعیم فرماتے ہیں:
’’میں نے آٹھ سو محدثین سے لکھا ہے لیکن الحسن بن صالح سے افضل کسی کو نہيں پایا ہے‘‘۔
وکیع فرماتے ہیں: حسن بن صالح میرے نزدیک امام ہیں۔ تو ان سے فرمایا گیا: وہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر ترحم (رحم کے کلمات ادا) نہيں کرتے، تو انہوں نے جواب میں فرمایا: تو کیا تم الحجاج پر ترحم کرتے ہو؟
الذہبی اس پر لکھتے ہیں کہ:
’’اللہ تعالی اس مثال میں برکت نہ دے۔ ان کی مراد یہ ہے کہ ترحم کو ترک کرنا گویا کہ سکوت ہے اور ساکت کی طرف کوئی قول منسوب نہيں کیا جاسکتا۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں جو شہید امیر المؤمنین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جیسے پر ترحم کرنے سے سکوت اختیار کرے تو یقیناً اس میں تشیع کے کچھ اثرات پائے جاتے ہیں۔ اور جو ان کے بغض اور تنقیص شان میں باقاعدہ کلام کرے تو وہ کٹر شیعہ ہے جس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی، اور اگر اس کی مذمت شیخین (سیدنا ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما) تک پہنچ جاتی ہے تو وہ رافضی خبیث ہے، اسی طرح سے جو امام علی رضی اللہ عنہ کی مذمت کرنے کے درپے ہو تو وہ ناصبی ہے جس کے خلاف تعزیری کارروائی کی جائے، اور اگر وہ ان کی تکفیر کرتا ہے تو پھر وہ خارجی مارق ہے، بلکہ ہمارا راستہ ومنہج یہ ہے کہ ہم تمام صحابہ کے لیے مغفرت کی دعاء کرتے ہیں اور ان سے محبت کرتے ہیں، اور جو کچھ مشاجرات ان کے مابین ہوئے اس پر کلام سے اپنے آپ کو روک رکھتے ہيں‘‘۔
اسی طرح ایک روایت کے مطابق ان کے بھائی کی موت کے وقت جبرئیل علیہ الصلاۃ والسلام نے آکر خبر دی کہ آپ لوگ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر انعام ہوا!
بہرحال امام الذہبی یہ نقل کرکے فرماتے ہیں:
’’الحسن اپنے زمانے کے حکمرانوں کے خلاف ان کے ظلم وجور کی وجہ سے خروج کی رائے رکھتا تھا، لیکن کبھی لڑا نہيں، اسی طرح سے فاسق کے پیچھے جمعہ کا بھی قائل نہيں تھا‘‘۔
عبداللہ بن داود الخریبی فرماتے ہیں:
’’الحسن بن صالح جمعہ ترک کرتا تھا، تو فلاں آیا اور رات سے صبح تک ان سے مناظرہ کیا، مگر الحسن اسی مؤقف پر گیا کہ ان کے ساتھ جمعہ ترک کرنا ہے اور ان پر خروج جائز ہے۔ اور یہ بات الحسن بن صالح کے بارے میں مشہور ہے، بس اللہ تعالی نے اس کے دین وعبادت کی وجہ سے شاید اسے اس بات سے محفوظ رکھا کہ پکڑا جائے اور قتل کردیا جائے‘‘۔
لیکن آئمہ سلف کی شدید جرح سے وہ محفوظ نہ رہا۔ لہذا کسی کا محدث ہونا، وسیع علم رکھنا، تقوی زہد وعبادت میں ممتاز ہونا آپ کو دھوکے میں نہ ڈالے کہ وہ خارجی تکفیری ذہنیت نہيں رکھ سکتا، یا لازما وہ سلفی عقیدہ ومنہج رکھتا ہوگا، بلکہ یہ زندہ مثال یہاں بیان ہوئی کہ کس طرح اس کے صرف حکام کے خلاف تلوار کی رائے رکھنے کی بنا پر اس پر شدید جرح سلف نے فرمائی۔ اس کی علم میں امامت کے باوجود یہ فرمادیا: امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
اور یہ بات خود خوارج سے متعلق احادیث سے بھی ثابت ہے کہ ان کا زہد وتقویٰ اور عبادت بہت زیادہ ہوگی لیکن ان کے اس عقدی ومنہجی بگاڑ کی وجہ سے ان کی سخت ترین تردید احادیث میں موجود ہے اور قتل کردینے کا حکم اور اس کے فضائل بیان ہوئے ہيں۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
’’سَيَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ، يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([1])
(آخری زمانے میں ایسی قوم ظاہر ہوگی جو کم سن وکم عقل ہوں گے۔ سب سے بہترین کلام سےبات کریں گے (یعنی قرآن وحدیث کی)۔ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر ہدف (شکار) سے نکل جاتا ہے۔ اگر تم انہیں پاؤ تو قتل کردو کیونکہ بلاشبہ ان کے قتل کرنے پر اللہ تعالی کے یہاں بروزقیامت اجر ہے اس شخص کے لیے جو انہیں قتل کرے)۔
اور جب ذوالخویصرہ التمیمی خارجی نے نبی رحمت e کی مال غنیمت کی تقسیم پر اعتراض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت اس کی گردن اڑانے سے روکتے ہوئے یہی صفات بیان فرمائيں کہ:
’’دَعْهُ فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُكُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ‘‘([2])
(اسے چھوڑ دو کیونکہ اس کی ایسے ساتھی ہوا کریں گے کہ جن کی نماز کے سامنے تم اپنی نمازوں کو ہیچ تصور کروں گے ، اور ان کے روزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو کم تر محسوس کروگے۔ وہ (باکثرت) قرآن تلاوت تو کیا کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے آر پار ہوجاتا ہے)۔

[1] صحیح مسلم 1066۔

[2] صحیح بخاری 3610، صحیح مسلم 1065۔
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 2) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

شرح #کتاب_التوحید ، باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

باب 2: توحید کا حق ادا کرنے والا بلاحساب وعذاب جنت میں داخل ہوگا

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_2.pdf

[Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap02.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] Depicting images of the #Hellfire and #Paradise – Various #Ulamaa
#جنت یا #جہنم کی تصوراتی وتفہیمی خاکہ سازی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة لقاء الباب المفتوح اور الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/09/jannat_jahannum_tasawwuraati_khakay_banana.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جنت کی بطور باغات اور جہنم کی بطور آگ تصویر وخاکہ سازی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
یہ جائز نہيں ہے۔ کیونکہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: 17)
(کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، یہ اس کا بدلہ ہے جو عمل وہ کیا کرتے تھے)
ہم آگ کی کیفیت نہيں جانتے جو کہ دنیاوی آگ سے انہتر (69) گنا زیادہ ہے۔۔۔جس میں دنیاوی آگ میں سے شدید ترین والی آگ جیسے گیس وغیرہ کی آگ یا جو اس سے بھی شدید ہو کو بھی داخل کرلیں۔ تو پھر کیا کوئی اس آگ کی تمثیل بنانے کی استطاعت رکھتا ہے؟ کوئی اس کی استطاعت نہيں رکھتا۔ لہذا جو کوئی ایسا کرتا ہے اس تک یہ بات پہنچا دو کہ یہ حرام ہے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آجکل لوگوں نے آخرت سے متعلق امور کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا ہے گویا کہ وہ باقاعدہ حسی ومشاہداتی امور ہوں۔
میں نے ایک ورقہ دیکھا اس میں انسان کے مختلف مراحل میں منتقل ہونے کا ذکر تھا چوکور سے بنے ہوئے تھے جیسے ’’موت‘‘ پھر ایک لکیر پھر دوسرا چوکور اس میں ’’قیامت‘‘ اور اسی طرح سے باقی۔ گویا کہ اس نے جو کچھ موت کے بعدہونا ہے اسے ہندسی لکیروں اور چوکوروں کے ذریعے مصور کیا ہے۔ یہ عظیم جرأت ہے! اللہ تعالی کی پناہ۔ پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: تمہیں کس نے بتایا کہ اس کے بعد یہ ہوگا اور وہ اس کے بعد ہوگا؟ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ قبر دنیا کی زندگی کے بعد ہوتی ہے اور مرکی جی اٹھنا قبر کے بعد ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل کہ جو یوم قیامت ہوگا حساب وموازین وغیرہ ان کی ترتیب کا تو علم نہیں؟ لیکن یہ بہت عظیم جرأت ہے! اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ورقے کو عام تقسیم کیا جاتا ہے! لیکن منجملہ جو اوراق لوگوں میں آجکل تقسیم کیے جاتے ہيں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ تک باندھا جاتا ہے واجب ہے کہ ان سے بچا جائے اور لوگوں کو بھی خبردار کیا جائے۔
(سلسلة لقاء الباب المفتوح – 222)
سوال: ہم بعض اعلانات میں جو بعض داعیان کی کیسٹوں پر ہوتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ نہریں اور کھتیاں بنی ہوتی ہيں اگر موضوع جنت سے متعلق ہوتا ہے اور سایہ یا اندھیرا سا بنادیتے ہیں گویا کہ شیطان کا سایہ ہو اگر موضوع شر وبرائی سے متعلق ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزن رحمہ اللہ:
ان خاکوں یا تصاویر میں علم غیب کا گویا کہ دعویٰ ہے کہ جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہيں جانتا جنت کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہيں جانتا اسی طرح سے جہنم کو بھی اس کے سوا کوئی نہيں جانتا۔ جائز نہيں کہ وہ جنت، یا جہنم یا پل صراط کی تصویر ورق پر بنائیں۔ یہ تو جہالت میں سے ہے۔
(الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة)
[Urdu Article] Brief traits of the sect "Haddadiyyah" - Shaykh Rabee' bin Hadee Al-Madkhalee

حدادی فرقے کی بعض نمایاں علامات

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

مصدر: ’’خطورة الحدادية الجديدة وأوجه الشبه بينها وبين الرافضة‘‘ و ’’منهج الحدادية‘‘

ترجمہ: طارق علی بروہی

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمدلله والصلاة والسلام علي رسول الله وعلي آله وصحبه ومن تبع هداه. أما بعد:

جو فتنہ شباب یمن میں چلا اور اس کی شاخیں دوسرے علاقوں تک سرایت کرگئیں اور لوگوں کا یہ جاننے کا جذبہ بھی زور پکڑ گیا کہ حق کو بیان کیا جائے اور غلطی پر کون ہے صواب پر کون بیان کیا جائے اس سبب سے یہ تحریر کیا جارہا ہے۔ اور اس فتنے کے سبب سے یمن میں طالبعلم ایک دوسرے کو حدادی منہج پر ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں تو مجھے مجبو رہونا پڑا کہ میں اس منہج کی حقیقت کو بیان کروں شاید کہ اس کے ذریعے بہت سے طالب حق منہج اہل سنت اور منہج حدادی میں تمیز کرپائيں۔

پھر امید ہے کہ بڑی حد تک یہ اس فتنے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گاساتھ میں ہمارا وعدہ بھی ہے کہ اس فوری مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے اور اس فتنے کی سرکوبی میں اپنا حصہ ڈالنے کی خاطراس سے متعلق دیگر معاملات کو بھی یکے بعد دیگرے بیان کیا جاتا رہے گا ان شاء اللہ([1])۔

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔





[1] اسی سلسلے میں لکھے گئے دیگر مقالات کے لیے شیخ ربیع حفظہ اللہ کی ویب سائٹ ربیع ڈاٹ نیٹ وزٹ کیجئے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/03/haddadee_firqay_alamaat_mukhtasar.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Brief traits of the sect "#Haddadiyyah" - Shaykh #Rabee' bin Hadee #Al_Madkhalee

#حدادی فرقے کی بعض نمایاں علامات

فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

مصدر: ’’خطورة الحدادية الجديدة وأوجه الشبه بينها وبين الرافضة‘‘ و ’’منهج الحدادية‘‘

ترجمہ: طارق علی بروہی

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمدلله والصلاة والسلام علي رسول الله وعلي آله وصحبه ومن تبع هداه. أما بعد:

جو فتنہ شباب یمن میں چلا اور اس کی شاخیں دوسرے علاقوں تک سرایت کرگئیں اور لوگوں کا یہ جاننے کا جذبہ بھی زور پکڑ گیا کہ حق کو بیان کیا جائے اور غلطی پر کون ہے صواب پر کون بیان کیا جائے اس سبب سے یہ تحریر کیا جارہا ہے۔ اور اس فتنے کے سبب سے یمن میں طالبعلم ایک دوسرے کو حدادی منہج پر ہونے کی تہمت لگا رہے ہیں تو مجھے مجبو رہونا پڑا کہ میں اس منہج کی حقیقت کو بیان کروں شاید کہ اس کے ذریعے بہت سے طالب حق منہج اہل سنت اور منہج حدادی میں تمیز کرپائيں۔

پھر امید ہے کہ بڑی حد تک یہ اس فتنے کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گاساتھ میں ہمارا وعدہ بھی ہے کہ اس فوری مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے اور اس فتنے کی سرکوبی میں اپنا حصہ ڈالنے کی خاطراس سے متعلق دیگر معاملات کو بھی یکے بعد دیگرے بیان کیا جاتا رہے گا ان شاء اللہ([1])۔

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔





[1] اسی سلسلے میں لکھے گئے دیگر مقالات کے لیے شیخ ربیع حفظہ اللہ کی ویب سائٹ ربیع ڈاٹ نیٹ وزٹ کیجئے۔(توحید خالص ڈاٹ کام)

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/03/haddadee_firqay_alamaat_mukhtasar.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Should we not take #refutations of #Ulamaa upon each other? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding celebrating and participating in #Halloween - Shaykh Shaykh #Fuad bin Sa’ud Al-‘Umaree

جاہلانہ تہوار #ہالووین (#عید_الرعب، Halloween) میں شرکت، تعاون یا تحائف ومٹھائیاں وصول کرنا

فضیلۃ الشیخ #فؤاد بن سعود العمری حفظہ اللہ

(نائب رئیس حکومتی کمیٹی برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر، مکہ برانچ، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: یہ کلام Raha Batts نے شیخ فؤاد العمری حفظہ اللہ سے واٹس ایپ کے ذریعے حاصل کیا، اور ہمیں منہج السلف کے ذریعے موصول ہوا ۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/halloween_mananay_ka_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعار‌ف:

ہالووین امریکہ میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے pumpkins نظر آتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہيں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔ (ویکی پیڈیا سے مختصر ماخوذ)

ہالووین منانے اور شرکت کا حکم

شیخ فؤاد بن سعوی العمری حفظہ اللہ سے ہالووین منانے اور اس میں شرکت کرنے کے تعلق سے سوال کیا گیا اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:

جوکچھ سوال میں ذکر کیا گیا میں اس کے جواب میں یہی کہوں گا کہ کسی مسلمان کے لیے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہوجائز نہيں کہ وہ کفار ومشرکین کی عیدوں تہواروں میں ان کے ساتھ شرکت کرے۔ اللہ تعالی عباد الرحمٰن (رحمٰن کے بندوں ) کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان: 72)

(اور وہ جو جھوٹ (و غلط کاموں ) میں شریک نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت سےگزر جاتے ہیں)

مجاہد : وغیرہ فرماتے ہیں:”الزُّوْرَ“ یعنی مشرکین کی عیدیں۔

اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو پایا کہ لوگ سالانہ دو دنوں میں تفریح کرتے کھیلتے کودتے ہيں، پس ان کے بارے میں دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ ان دو دنوں میں جاہلیت میں تفریح کرتے وخوشیاں مناتے تھے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر اپنے اس فرمان کے ساتھ رد فرمایا کہ:

’’قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ‘‘ [اسے ابو داود نے روایت کیا]

(اللہ تعالی نے تمہارے ان دو دنوں کے بدلے دو بہتر دن عطاء کردیے ہیں، یوم الفطراور یوم النحر)۔

پس ہر اس شخص پر جو نجات کا خواہاں ہے یہ واجب ہے کہ وہ اس شریعت مطہرہ کی پابندی کرے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کو اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پکڑلے۔ اور ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے۔

اس باب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ : نے ایک عظیم رسالہ لکھا ہے لہذا ایک طالب حق وسعادت ونجات کے خواہش مند کو چاہیے کہ وہ اسے پڑھے جس کا عنوان ہے ”اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم“۔