Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.16K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Article] Islaamic ruling regarding celebrating valentine's day – Various 'Ulamaa
ویلنٹائین ڈے منانے کا شرعی حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/02/valentine_day_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وبعد:
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء اس استفتاء (سوال)پر مطلع ہوئی جو سماحۃ الشیخ مفتی مملکت سے عبداللہ آل ربیعہ نے دریافت کیا، فتوی رقم (5324) بتاریخ 1420/11/3ھ۔
سوال: بعض لوگ 14 فروری کو ہر سال عید الحب (عید ِمحبت) ویلنٹائین ڈے (‎valentine day) مناتے ہیں۔ جس میں سرخ گلاب کے ایک دوسرے کو تحفے دیئے جاتے ہیں اور سرخ لباس پہنے جاتے ہیں، اسی طرح بعض مبارکبادیں بھی دیتے ہیں، یہاں تک کہ کچھ بیکری والے کیک مٹھائی وغیرہ بھی سرخ رنگ میں بناتے ہیں اور اس پر دل کی شکل بناتے ہیں، اس کےعلاوہ بعض دکانیں اپنی پروڈکٹس پر جو اس دن کی مناسبت سے ہوتی ہیں اعلانات وپیغامات پرنٹ کرتی ہیں۔آپ کی مندرجہ ذیل باتوں کے بارے میں کیا رائے ہے:
اولاً: یہ دن منانا؟
ثانیاً: اس دن دکانوں سے خریداری کرنا؟
ثالثاً: ایسے دکاندار جو یہ دن نہیں مناتے ان کا ایسے لوگوں کو جو یہ دن مناتےہیں ایسی چیزیں فروخت کرنا جنہیں وہ بطورِ تحفہ پیش کرتے ہیں؟ وجزاکم اللہ خیراً
جواب: اس سوال کو مکمل پڑھنے کے بعد فتوی کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ کتاب وسنت کے ادلہ صریحہ اور جس پر سلف امت کا اجماع ہے وہ یہ ہے کہ اسلام میں فقط دو عیدیں ہیں جو عید الفطر اور عید الاضحی ہیں ، ان کے علاوہ جو بھی عیدیں ہیں خواہ وہ کسی شخصیت ، یا کسی جماعت ، یا کسی واقعہ سے متعلق ہوں یا پھر کسی بھی معنی میں ہوں تو یہ بدعتی عیدیں ہیں ، اہل اسلام کے لئے بالکل بھی جائز نہیں کہ وہ اسے منائیں، یا اسے مانیں ، نہ ہی اس میں کسی قسم کی خوشی کا اظہار کریں اور نہ ہی کسی بھی چیز سے اس میں اعانت کریں، کیونکہ یہ اللہ تعالی کی حدود کو پامال کرنا ہے اور جو کوئی بھی حدودِ الہی کو پامال کرتا ہے تو وہ اپنے ہی نفس پر ظلم کرتا ہے۔
مزید برآں اس اختراع شدہ عیدپر اگر یہ بھی اضافہ ہوجائے کہ وہ کافروں کی عیدوں میں سے ہے(ساتھ ہی اس کی بنیاد بیہودگی پرہے)، تو یہ گناہ درگناہ کی موجب ہے، کیونکہ اس میں ان سے مشابہت ہے اور ان سے ایک طرح کی محبت ہےجبکہ اللہ تعالی نے مومنین کو ان سے مشابہت اختیار کرنے اور ان سے محبت کرنے سے اپنی کتاب عزیز میں منع فرمایا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])
(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
ویلنٹائین ڈے بھی انہی عیدوں میں سے ہے جو بیان ہوئی کیونکہ یہ بت پرستوں اور نصاریٰ کی عید ہے، کسی مسلمان کے لئے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے حلال نہیں کہ وہ اسے منائے ،یا اسے مانے، یا پھر اس کی مبارکباد دے، بلکہ اسے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مانتے ہوئے اور اللہ تعالی کی ناراضگی وعقوبت کے اسباب سے بچتے ہوئے اسے ترک کرنا واجب ہے۔
اسی طرح ایک مسلمان پر یہ بھی حرام ہے کہ وہ اس عید یا کسی بھی حرام عیدوں میں کسی بھی چیز کے ذریعہ تعاون کرے چاہے وہ کھانے، پینے، خرید، فروخت، صناعت، تحفہ، خط وکتابت، اعلان یا پھر اس کے علاوہ جس بھی طریقے سے ہو، کیونکہ یہ سب گناہ وزیادتی اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی میں تعاون ہوگا جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَاب﴾ (المائدۃ: 2)
(اور نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور برائی اور زیادتی کی کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈرو بےشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے)
ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے تمام حالات میں خصوصاً فتنوں کے اوقات اور اور فساد کی کثرت کے موقع پر کتاب وسنت سے اعتصام وتمسک اختیارکرے، اسے چاہیے کہ ہوش کے ناخن لے اورڈرے کہ کہیں ان مغضوب علیہم، ضالین اور فاسقین جن کی نظر میں اللہ تعالی کا کوئی وقار نہیں اور جو اسلام سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کی گمراہیوں میں واقع نہ ہوجائیں۔ ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالی کی ہدایت کو طلب کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے کے لئے اسی سے لو لگائے، کیونکہ اللہ تعالی کے سوا کوئی ہدایت دینے والا اور ثابت قدمی بخشنے والا نہیں۔
اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے اور درود وسلام ہو ہمارے نبی محمد اور آپ کی آل واصحاب پر۔
مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وافتاء، سعودی عرب
رئیس: عبدالعزیز بن عبدالل
ہ بن محمد آل الشیخ
رکن: صالح بن فوزان الفوزان
رکن: عبداللہ بن عبدالرحمن الغدیان
رکن: بکر بن عبداللہ ابو زید
سوال: آخر کچھ برسوں میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) منانا بہت عام ہوتا جارہا ہے خصوصاً طالبات میں، جو کہ نصاریٰ کی عیدوں میں سے ایک عید ہے، جس میں وہ مکمل حلیہ لال رنگ کا اختیار کرتے ہيں کپڑے ہوں یا جوتے، اور لال پھول ایک دوسرے کو دیے جاتے ہیں، ہم آپ فضیلۃ الشیخ سے امید کرتے ہيں کہ اس عید کے منانے کا حکم بیان فرمائیں، اور اس قسم کے امور کے تعلق سے آپ مسلمانوں کی کیا رہنمائی کرنا چاہیں گے، اللہ تعالی آپ کی حفاظت ورعایت فرمائے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
عید الحب منانا جائز نہیں مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر:
1- بلاشبہ یہ ایک بدعتی عید ہے جس کی شریعت میں کوئی اساس نہیں۔
2- بلاشبہ یہ عشق اور شہوت کی طرف دعوت دیتی ہے۔
3- بلاشبہ یہ دل کو اس قسم کے فضول وبیہودہ کاموں کی طرف دعوت دیتی ہے جو سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہیں۔
حلال نہیں کہ اس دن کسی بھی قسم کی ایسی حرکت کی جائے جو عید کے شعائر میں شمار ہو چاہے کھانے پینے کے تعلق سے ہو یا پہننے اور تحائف دینے وغیرہ کے تعلق سے ہو۔
ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دین کے ذریعے عزت دار بنے، اور ہر ہانکنے والے کےپیچھے بھیڑ چال چلتا نہ پھرے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہر قسم کے فتنوں سے خواہ ظاہر ہوں یا باطن محفوظ فرمائے، اور اپنی نگہبانی وتوفیق کے ساتھ ہماری نگہبانی فرمائے۔
(مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين – المجلد السادس عشر – باب صلاة العيدين)
سوال: محترم سائل کہتا ہے کہ: شیخنا! کل اتوار کا روز بمطابق 14 فروری مغر ب میں عید الحب (ویلنٹائن ڈے) کہلاتا ہے جس سے متعلق کلام کیا جاتا رہا ہے۔۔۔
شیخ صالح بن سعد السحیمی حفظہ اللہ: جی، سبحان اللہ!
سائل کہتا ہے: یقیناً ہمارے بعض نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس عید کے فتنے میں مبتلا ہوچکے ہيں، پس آپ اس بارے میں کچھ فرمائیں اور نصیحت کیجئے؟
الشیخ: یہی تو میرے خطبۂ جمعہ کا موضوع تھا یعنی سابقہ جمعے کا۔ اگر طلبہ میں سے کسی نے اسے ریکارڈ کیا ہو، میرے خیال سے مسجد الامیر سلطان میں وہ ریکارڈ ہوا ہے، لہذا میں نے اس مسئلے پر تفصیل کے ساتھ وہاں بحث کی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جسے یہ عید الحب کا نام دیتے ہیں اس میں سات ممنوعہ باتیں پائی جاتی ہیں:
1- بلاشبہ اس کی اصل رومانیہ سے ہے ، ان کے وہاں اسے ایک خدا کی عید کہا جاتا ہے یعنی محبت کے خدا کی! پس اس سے تعلق رکھنا گویا کہ وثنیت (بت پرستی) سے تعلق رکھنا ہے۔ کیونکہ بے شک یہ تقلید ہے کن کی؟ اوثان(بت یا کوئی بھی غیراللہ) پرستوں کی۔
2- بلاشبہ اس میں یہود ونصاری کی تقلید ہے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے متعلق ہمیں خبر دی ہے کہ:
’’لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ۔۔۔ قِيلَ:الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ فَقَالَ: وَمَنِ القَومُ إِلَّا أُولَئِكَ!‘‘([2])
(تم ضرور گذشتہ قوموں کے طریقوں کی اتباع کرو گے۔۔۔ کہا گیا: کیا یہود ونصاری کی؟! فرمایا: اور نہیں تو کیا ، ان کے علاوہ اور کونسی قومیں مراد ہیں(یعنی انہی کی کروگے))۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’فَارِسُ وَالرُّومُ‘‘
(فارس وروم کی)۔
3- بلاشبہ اس میں مطلقا ًکفار کی مشابہت ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا ہے:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([3])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
4- بلاشبہ یہ ان بدعات میں سے ہے جو لوگوں نے ایجاد کی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([4])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں نہ تھی، تو وہ مردود ہے)۔
5- بلاشبہ یہ ایک منکر ہے اور جو کچھ بھی اس میں کیا جاتا ہے وہ بھی منکر ہے، جیسے لڑکے لڑکیوں سے ملتے ہيں(جسے وہ ڈیٹ کا نام دیتے ہیں)، آپس میں مراسلات (خط ومیسج وغیرہ)، دل کی تصویر بھیجنا اور اس قسم کے دیگر بیہودگیاں ہوتی ہیں۔ اور یہ سب مغرب کی تقلید میں کیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں ان کے ساتھ مشابہت سے منع کیا گیا ہے۔
6- بلاشبہ خود ان میں سے جو عقل رکھنے والے لوگ ہیں وہ اس عید سے منع کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ میرے خیال سے ویٹیکن سٹی کے بڑے پاپ یعنی تحریف کرنے والے نصرانی نے بھی اس سے شدت کے ساتھ منع کیا ہے۔
7- بلاشبہ یہ ایک عظیم خرافت پر مبنی ہے یعنی وہ چیز جیسے یہ محبت کا نام دیتے ہيں، پھر اسے فاسد معانی کی طرف لے جاتے ہیں، کیونکہ محبت ان کے نزدیک صرف زنا اور اس کے مقدمات (یعنی جو چیزیں اسے سازگار بنانے کے لیے ہوتی ہیں) کا نام ہے۔
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ان کفار سے مشابہت کرنے سے بچیں۔ اور میرے خیال سے یہ جواب کافی ہے۔ میں نے اس کی تفصیل اس خطبے میں بیان کردی تھی جو میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا۔ تو ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں، اور کل کے درس تک
آپ کو الوادع کہتے ہيں۔
وصلَّى الله وسلَّم وبارك على نبيِّنا محمَّدٍ وعلَى آلِهِ وصحبِهِ۔
(بواسطہ ویب سائٹ البیضاء العلمیۃ)
[1] صحیح ابی داود 4031۔
[2]البخاري أحاديث الأنبياء (3269) ، مسلم العلم (2669) ، أحمد (3/89).
[3] صحیح ابی داود 4031۔
[4] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[[Urdu Article] Sayings of Shaykh Muqbil bin Hadee (rahimullaah) regarding Hizbiyyah (blameworthy partisanship)
حزبیت سے متعلق شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ کے بعض اقوال
فضیلۃ الشیخ مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ المتوفی سن 1422ھ
(محدث دیارِ یمن)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإمام الألمعي مقبل بن هادي الوادعي۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/hizbiyyat_aqwaal_muqbil.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
محدث ِيمن شيخ مقبل بن ہادى الوادعى رحمہ اللہ حزبیت سے متعلق فرماتے ہیں:
1- کوئی بھی ایسا حزب نہيں جو اپنے حزب کی جھوٹ کے ذریعے ترویج نہ کرتا ہو، یہاں تک کہ اسلامی احزاب([1]) بھی۔
2- تحفیظ قرآن کے مدارس، معاہد اور دعوتی جمعیات اپنی حزبیت کے لیے انہيں استعمال کرتی ہيں۔
3- ہمیں توقع نہيں کہ مسلمانوں کو ان حزبیات سے چھٹکارا نصیب ہو اِلّا اس طور پر کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں میں خوب پھیل جائے۔
4- حزبیات والے افراد جاہل ہیں اور عہدوں وریاست کے فتنے میں مبتلا ہیں۔
5- اہل سنت کسی حزبیت کے داعی نہیں، نہ ہی انقلابات کے، اور نہ ہی داعیان فتنہ ہیں۔
6- حزبیت کا مرض ایڈز کے مرض سے بھی بڑھ کر ہے۔
7- حزبیوں کے نزدیک کمر توڑ بات یہ ہوتی ہے کہ آپ ان سے کہیں: آؤ علماء کرام کے پاس فیصلہ کرتے ہيں۔
8- حزبیت تباہی ، جہالت، لوگوں کو اپنا غلام بنانے اور ان کے افکار کو جامد بنادینے کی دعوت ہے، پس یہ فکر وسوچ کا قید خانہ ہے۔
9- میرے سامنے ایک چھوٹا سا حزبی لے کر آؤ اور میں اس میں سے آپ کے سامنے ایک بہت بڑا جھوٹا نکال دکھاؤ گا۔
10- میں کسی حزبی کو نہيں جانتا کہ وہ جھوٹ نہ بولتا ہو۔
11- جاہلیت کی دعوت ان باتوں پر مشتمل ہوتی ہے: جاہلی تعصب، حزبی تعصب، مذہبی تعصب۔
12- حزبیوں کو اس بات سے کوئی سروکار نہيں کہ وہ اپنے پیروکاوں کا وقت ضائع کرتے رہتےہیں۔
13- حزبیوں کے علماء سنت پر طعن کرنے کے پس پردہ ایک خبیث مقصد ہوتا ہےاور وہ یہ کہ لوگ علماء کرام کو چھوڑ کر ان کی جانب رجوع کیا کریں۔
14- ہم حزبیوں کے ساتھ تعاون کرنے سے خبردار کرتے ہيں کیونکہ بلاشبہ وہ آپ کو یقیناً آدھے راستے میں چھوڑ جائيں گے۔
15- حزبیت میں دخول طاغوتیت میں مشارکت ہے۔
16- حزبی لوگ جن تاجروں کو جانتے ہیں ان کے پاس ایک ایسے بندے کو لگائے رکھتے ہيں جو انہيں باقاعدہ اہل سنت کے خلاف بغض پڑھاتا رہتا ہے۔
17- حزبیت لوگوں کے ساتھ مداہنت کرنے کی متقاضی ہے۔
18- ہم یہ اعتقاد رکھتے ہيں کہ ڈیموکریسی (جمہوریت) اور جماعتوں اور حزبیت سے تحذیر وخبردار کرنا ہےہمارے اصول دعوت میں سے ہے۔
19- حزبی کے ساتھ کام کرنا ذلت ہے، اسی طرح سنی کی حزبی سے شادی بھی ذلت ہے۔
20- شیعہ پر اور حزبیوں پر کلام کرنے سے تعلیم ہمارے لیے زیادہ مفید ہے (کیونکہ علم وسنت کے انتشار سے ہی ان کا قلع قمع کیا جاسکتا ہے جیسا کہ شیخ رحمہ اللہ نے نکتہ رقم 3 میں بیان فرمایا)۔
21- لوگ پسند کرتے ہیں اور چاہت رکھتے ہیں کہ انہيں علم دیا جائے سوائے حزبیوں، شیعہ اور تبلیغی جماعت کے۔
22- حزبیت کے تین ارکان ہيں: تلبیس (حق وباطل کو خلط ملط کرکے پیش کرنا)، دھوکہ بازی اور جھوٹ۔
23- ایک سنی روز بروز علم وبصیرت میں بڑھتا جاتا ہے جبکہ حزبی روزبروز جہالت ، پستی وہلاکت میں بڑھتے رہتےہیں۔
24- اخوان المسلمین کی بیعت بدعتی بیعت ہے، اسی طرح سے حزبیت سے لپٹی ان جمعیات اور حزبیات والوں کی بیعت بدعتی بیعت ہیں، اور دیگر جماعتوں کی بیعت جیسے تبلیغی جماعت کی بیعت بھی بدعتی بیعت ہے۔
[1] احزاب ’’حزب‘‘ کی جمع ہے یعنی کوئی گروہ، جماعت، پارٹی وتنظیم وغیرہ جیسا کہ اردو میں عام طور پر ہم حزب اختلاف کہتے ہیں، یعنی حکومت مخالف جماعت یا پارٹی۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] Muhammad Mursi "As you sow so shall you reap" – Shaykh Muhammad bin Hadee Al-Madkhalee
محمد مرسی جیسی کرنی ویسی بھرنی!
فضیلۃ الشیخ محمد بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(رکن تعلیمی کمیٹی، کلیۃ حدیث شریف ودراسات اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ سے آڈیو کلپ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/08/mursi_jaisay_aye_waisay_gaye.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سائل کہتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں اخوان المسلمین کا مصر کے اقتدارپر قابض ہونا مسلمانوں کی غزوۂ بدر میں نصرت کی مانند تھا اور جب ان کی حکومت گری تو وہ غزوۂ احد کی مانند تھی، اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے؟
جواب: یہ بات ہم نے سنی جیسا کہ آپ نے سنی ہے،لیکن سوال یہ ہے کہ آخر انہوں نے حکومت میں آکر اسلام میں سے کس چیز کی تطبیق کی ہے؟میں اللہ کی قسم! آپ سے یہ بات مخفی نہیں رکھوں گا کہ میری تمنا تھی کہ یہ لوگ اپنے چار سال پورے کرتے تاکہ ان کی حجت مکمل طور پر منقطع ہوجاتی اورتمام لوگ خود دیکھ لیتے کہ انہوں نے کیا خاک اسلام نافذ کیا ہے؟ یہ تو ہوئی پہلی بات۔
دوسری بات: اللہ تعالی کاہی امر نافذ ہوتا ہے اوراسی کی مشیئت غالب رہتی ہے۔ اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا نہیں جو کچھ ہونا تھا وہ ہوکر رہا۔
تیسری بات: ان کی حکومت ایک سال رہی اس میں انہوں نے کیا کارنامے انجام دیے؟
چوتھی بات: نائب اول کون تھا؟ ایک نصرانی۔
پانچویں بات:اپنی حکومت میں آنے سے پہلے ہی یہ کہتے تھے کہ چور کے ہاتھ کاٹنا اور زانی کو کوڑے لگانا شریعت میں سے نہیں۔ اپنے صدر بننے اور انتخابات میں منتخب ہونے سے پہلے انٹرویو میں اس نے کہا کہ ہاتھ کاٹنا یاکوڑے لگانا شریعت میں سے نہیں۔ یہ تو اجتہادی امور ہیں([1])۔ یہ بات ان کی آواز میں ریکارڈ موجود ہے۔ الحمدللہ یہ انٹرنیٹ ہر چیز کو محفوظ کردیتا ہے۔آپ نیٹ پر سرچ کرلیں یہ بات ان کی اپنی آواز بلکہ ویڈیو میں مل جائے گی۔ پھر جو چاہے سمجھو جو چاہے کہو۔ پھر آخر کیسے یہ نصرت یوم بدر کی نصرت کے مشابہ ہوسکتی ہے؟
بہرحال یہ لوگ تو پہلے دن سے ہی ڈیموکریسی (جمہوریت )کے داعی ہیں۔ اور ہم نے بلکہ خود میں نے سنا ہے کہ وہ کہہ رہے تھے حکم عوام کے لیے ہوگا اور حکم کا منبع ومصدر عوام ہیں، اللہ سبحانہ وتعالی نہیں ۔اور ویسے یہ آیت سناتے رہتے تھے:
﴿ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ ۭ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ ﴾ (یوسف: 40)
(حکم صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ تم سب سوائے اس کے کسی اور کی عبادت نہ کرو)
اسے دہرا دہرا کر انہوں نے ہمارے کان سن کردیے اور مسلمانوں کی عام تکفیر کرتے رہے کہ یہ لوگ ان کے زعم کے مطابق شریعت کی تطبیق نہیں کرتے۔ لیکن اب جب انہیں حکومت ملی ہے تو یہ نعرے ہی پھر گئے اور کہنے لگے حکم تو عوام کا ہوتا ہے۔ خود مرسی کہتا ہے کہ اگر ہزار لوگ یا شاید دس ہزار کہا کہ اگر وہ سائن کرلیں کہ وہ مجھے نہیں چاہتے تو میں خود ہی مستعفی ہوجاؤں گا اور اب لاکھوں لوگ باہر نکل آئے ہیں کہ ہم تمہیں نہيں چاہتے اب تو وقت ہے اپنے اس دعوے پر عمل درآمد کرکے سچ ثابت کرنے کا۔
چھٹی بات: آپ جس طریقے سے آئے تھے اسی طریقے سے روانہ ہوئے۔ آپ جس طریقے سے آئے تھے وہ یہی تحریر اسکوائر تھا کہ نہیں؟ القرضاوی اور جو ان کے ساتھ تھے وہ بھی آئے تھے وہاں خطبہ بھی دیا تھا اور لوگوں کو نماز جمعہ بھی پڑھوائی تھی۔ پھر اس کے بعد آپ برسراقتدار آگئے۔اب یہ بالکل وہی طریقہ ہے جس کے ذریعے آپ معزول ہوئے۔ جس سیڑھی سے چڑھے اسی سے اتر گئے اب بھی وہی تحریر اسکوائر ہے۔طلوع ونزول ایک سا ہوا۔تحریر اسکوائر کے انقلاب سے برسراقتدار آئے اور اب اسی کے انقلاب سے معزول کردیے گئے۔ یہ تھی چھٹی بات۔
ساتویں: یہی لوگ کہتے ہیں کہ عوام کی آزادئ رائے پر کوئی پابندی نہیں لگانی چاہیے۔ صحیح ہے، پھر یہ جو لوگ آپ کے خلاف نکلے ہیں یہ اپنی آزادئ رائے کا اظہار کررہے ہیں ۔ خود آپ کے قانون کے مطابق ان کے آزادئ رائے پر پابندی لگانا جائز نہیں۔ یہ جو چاہتے ہیں اس کا اظہار کررہے ہیں جیسا کہ آپ نے جو چاہا اس کا اظہار کیا تھا۔ اور اب یہ غالب آگئے آپ پر تو حکومت ان کی ہونی چاہیے۔
آٹھویں بات: جیسا کہ شعر ہے کہ،
أعلِّمهُ الرِّماَيَةَ كُلَّ يوَمٍ … فَلَمَّا اسْتَدَّ ساَعِدُهُ رَمَاني
وَكَمْ عَلَّمْتُهُ نَظْمَ الْقَوَافي … فَلَمَّا قَال قَافِيَةً هَجَاني
(میں اسے روزانہ تیراندازی سکھاتا تھا لیکن جب اس نے تیر کمان سیدھا کرنا سیکھ لیا تو مجھ پر ہی تیر چلا دیا
اور کتنا ہی میں نے اسے نظم میں قافیہ کہنا سکھایا جب قافیہ سیکھ کر شعر کہنے لگا تو میرے ہی خلاف قافیے بناڈالے)
میں نے پہلے دن سے ہی بعض بھائیوں کو جو اس علاقے کے نہیں بلکہ دوسرے علاقے کے ہیں کہا کہ اگر اخوان المسلمین نے ذلت کا وہی جام جو حسنی مبارک
نے پیا بلکہ اس سے بھی خسیس ترین نہ پیا تو میں محمد بن ہادی نہیں۔ قسم اس ذات کی کہ جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ، میں نے اس وقت یہ کہا اور اب یہ سب کچھ آپ کے سامنے ہے:
رَأيتُ بني الدّنيا، إذا ما سَمَوْا بهَا، هوتْ بهمِ الدُّنياَ على قدرِ ما سمَوا
(میں نے دنیا داروں کو دیکھاجب وہ اس کے ذریعہ بلندی حاصل کرتے ہیں
تو دنیا انہيں اسی قدر گرا دیتی ہے جس قدر وہ اس کے ذریعہ بلندی پاتے ہیں)
کوئی شخص بھی جسے رفعت حاصل ہوتی ہے گر ہی جاتا ہے سوائے اس کے جو امر الہی سے بلند ہوا ہو تو اسے کوئی نیچا نہیں کرسکتا۔ پس یہ لوگ جو ارادہ رکھتے تھے سو رکھتے تھےاور اللہ تعالی آنکھوں کی خیانت اور جو کچھ دلوں میں چھپا ہے سب جانتا ہے۔
نویں بات: یہ لوگ کہتے ہیں کہ تمام حکومتیں امریکہ کے دم چھلے ہیں اور یہود اور اسرائیل کے ساتھ ہیں۔ جیسے ہی یہ اقتدار میں آئے سب سے پہلے ہی جاکر اسرائیل سے معاہدوں کی تجدید کی اور وہ امریکہ تھا جس نے اس سے پہلے ان پر دباؤ ڈالا تھا۔ کہتے ہیں سوائے ان معاہدات، اتفاقات اور شقوں کے جو سابقہ حکومت کے طرف سے چلے آرہے ہیں (انہيں جاری رکھا جائے گا)۔ مرسی تو برسراقتدار آیا ہی تب جب تک امریکا کو یقین دہانی نہ کروادی کہ وہ اسرائیل کے ساتھ معاہدات کو تبدیل نہیں کرے گا۔ اور ممکن ہے آپ نے یہ دیکھا اور سنا بھی ہو۔ صحیح ہے پھر کیسے جس نے اس وقت معاہدے کیے تھے وہ (اخوان المسلمین کی زبانی) کافر ٹھہرا اور یہ دوسرا جس نے اس کی ابھی تجدید کی وہ کافر نہیں؟
ہم تو کسی کی تکفیر نہیں کرتے مگر خود ان کے کلام کے مطابق کہہ رہے ہیں کہ کیسے حسنی مبارک اور سادات وغیرہ کافر ٹھہرے کیونکہ انہو ں نے ایسے معاہدات پر دستخط کیے ؟ لیکن اب جو ان معاہدات واتفاقیات کو مزید مؤکد وراسخ کرتا ہے تو وہ صحیح ہے!!!
ترکی میں جب سیکولر جماعت تھی تو اس نے یہود کے ساتھ معاہدات نہیں کیے لیکن جب نجم الدین اربکان آئے تو انہوں نے باقاعدہ کامل مشترکہ فوجی معاہدہ کیے یعنی ان کے اور یہود کے مابین۔ جس پر ابھی تک عمل ہورہا ہے۔ اور جب سیکولروں اور طورانیوں، کنعان افیرین کی جماعت نے اس کا قلع قمع کیا تودوسرے روز ہی اسے اٹھا پھینکا۔ خلاص جو یہ چاہتے تھے وہ اس اتفاقیات پر دستخط کرنا تھا مگر اسلام پسندوں کی سیاہی سے۔ تاکہ کل کو اگر وہ کہیں کہ تم نے یہ سمجھوتہ کیاتو کہیں کہ نہيں نہیں ہم نے کہاں کیا یہ تو سابقہ دور حکومت میں ہوا تھا اور ہم ان معاہدوں اور اتفاقیات کے پابند تھے۔
لیکن میرے بھائیو میرے عزیزو! مجھے علم ہے کہ اخوان المسلمین چاہے یہاں کے ہی کیوں نہ ہوں انہيں یہ بات کرنا زیب نہیں دیتا کیوں؟ کیونکہ ان کی گمراہی کا بھانڈا پھوٹ چکا ہے۔ یہ لوگ درحقیقت سب کے سامنے ظاہر ہوچکے ہیں لیکن بہت سے لوگ بالکل غائب دماغ رہتےہیں گویا کہ وہ ہمارے ساتھ اس دنیا میں رہتے ہی نہیں تاکہ اس حقیقت کو دیکھ سکیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ جذبات انسان کو اندھا کردیتے ہیں اللہ تعالی ہی سے سلامتی کا سوال ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر بھی بھلا دیتے ہیں۔ چناچہ یہ لوگ آپ جیسے لوگوں کے محتاج ہیں کہ انہیں اس بات کی یاددہانی کرائیں جو کچھ ان سے صادر ہوتا رہا ہے۔
دسویں بات: ہمیں الحکم الحکم الحکم(یعنی اسلامی حکم نافذ ہو) چیخ چیخ کر ہلا کر رکھ دیا لیکن جب دستور پر آئے تو کیا کیا؟ اسے تبدیل کردیا پس کیا یہ اکلوتامصدر ہے، نہیں۔ تیونس کو ہی لے لیں جب وہ اس تک رسائی حاصل کرگئے تو اسے منسوخ کردیاگویا کہ یہ اکلوتا مصدر ہو۔ اس اسلام کے غلبے سے دستبردار ہوگئے کیونکہ یہ اسلام التحکم(اسلامی احکامات کو لوگوں پر نافذ کرنا) ہے۔ یہ ان کے پاس موجود نہیں۔ ان کے پاس بس اسلام الحکم (اسلام کے نام پر حکومت لے لینا )ہے، کیا آپ جانتے ہیں کہ اسلام الحکم کیا ہے؟ تاکہ اس میں اور التحکم میں فرق کرسکیں؟ حقیقت یہ ہے کہ الحکم سے مراد ان کے نزدیک یہی ہے کہ اخوان المسلمین حکومت کرے بس یہی الحکم ہے۔ جبکہ التحکم کا مطلب ہے اسلام کی واقعی تطبیق وتنفیذ ہو، پس انہوں نے آخر کیا اسلام نافذ کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ پس ان کی اسلام کی جو دعوت ہے اس سے کافر تک حیران ہیں۔ دیکھیں یہ کافر ان سے حیران ہے کیونکہ یہ اسلام اسلام اسلام کے بلند بانگ نعرے الاپتے رہتے ہیں۔ اب اسلام کو نافذ کرنا لوگوں پر اسے تحکم کہتے ہیں کہ زبردستی ان پر مسلط کرنا جو ہم نہیں چاہتے یعنی ہم اسلام کی تطبیق نہیں چاہتے اسے تحکم کہتے ہیں لیکن جس اسلام کی وہ کوشش کرتے ہیں وہ اسلام الحکم ہے اور اسلام الحکم کیا ہے؟ کہ کرسی پر یہ لوگ براجمان ہوجائیں اسی لیے جو کچھ ہوا سو ہوا۔ ان کی طرف سے ان کے ترجمان نے کہا کہ مرسی کا سقوط (اقتدار سے معزول ہونا) اللہ تعالی کے ساتھ شرک کی مانند ہے یہ الفاظ تھے اس کے نیٹ پر جائیں آپ کو مل جائیں گے کہ مرسی کا سقوط شرک باللہ کے برابر ہے۔ پس میرے بھائیو! پہچان لو کہ اسلام الحکم اور اسلام التحکم کیا ہے، اسلام التحکم کا معنی ہے اسلام کی تنفیذ وتطبیق۔ یہی
وہ حقیقی اسلام کا نفاذ ہے جو وہ بالکل نہیں چاہتے کیونکہ اس سے عوام کی آزادی پر پابندیاں لگتی ہیں ۔ اسی لیے تیونس میں مہ خانوں اور بارز کی تعداد میں اضافہ ہوگیا یہاں تک کہ اسپین کے کافر تک اس سے حیران تھے۔ جبکہ اسلام الحکم کا مطلب ہے کہ اخوان المسلمین کرسی پر براجمان ہوجائے لہذا یہ اسلام الحکم کی تگ ودو کرتے ہیں ناکہ اسلام التحکم کی۔ اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ آپ کے ملک میں براجمان ہوجائیں تو اپنے ملک میں کی گئی حرکتوں سے بھی خسیس ترین حالت یہاں کریں گے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ کبھی بھی اس قسم کے لوگوں کو حکومت میں نہ لائے۔ اور ہم ان سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ لوگ آپ کو کسی دھوکہ کا شکار نہ کرلیں ہم سب کو چاہیے کہ ہم اپنے ہاتھوں کو اپنی موجودہ حکومت اور علماء کے ساتھ مضبوط کریں۔ یہ لوگ حکومت کے اہل ہیں ۔ یہ نعمت ہے جو اللہ تعالی نے ہم پر کی ہے کہ انہیں لے آیا ہے ہم نے تو ان سے خیر ہی دیکھی ہے۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ ہم سے اور آپ سے ہر قسم کے فتنے دور فرمائیں خواہ ظاہر ہوں یا باطن۔
[1] ہوبہو یہی بات اخوان المسلمین کے پاکستانی رخ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق صاحب نے اپنے 29 ستمبر 2015ع کے بیان میں کی کہ: ’’ہاتھ کاٹنا شریعت کا نام نہيں بلکہ اسلام رحمت، برکت اور نعمت ہے، بعض لوگ شریعت کی غلط تشریح کرکے اسلام کو غلط انداز میں پیش کرتے ہیں‘‘۔ (روزنامہ اساس ، المشرق (پشاور) وغیرہ) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] From the harms of making religious Dawah organisations, establishing Jamats and appointing their Ameers – Various 'Ulamaa
دینی دعوتی تنظیم سازی، جماعت بندی وامارت کے بعض نقصانات
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
شیخ ابن باز، الالبانی، مقبل، ربیع المدخلی وغیرہ علماء کرام کے کلام سے جمعیات کے بعض مفاسد کا ذکر خصوصا سوڈان کی سلفی جماعت انصار السنۃ کے تعلق سے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/deeni_dawati_tanzeemsazi_nuqsanaat.pdf
[Urdu Article] Whoever dies from the people of Qiblah then funeral prayer should be prayed on him/her even if he/she is a sinner – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
اہل قبلہ میں سے جو بھی فوت ہوجائے تو اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی
اگرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح اصول السنۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’جو کوئی اہل قبلہ میں سے توحید پر وفات پائے اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اور اس کے لئے مغفرت کی دعاء کی جائے گی، اوراس سے استغفار چھپی ہوئی نہیں۔ اس کے گناہ کے سبب چاہے صغیرہ ہویا کبیرہ ہم اس پر نماز جنازہ کو ترک نہیں کرتے ، اور اس کا (آخری) معاملہ تو اللہ تعالی ہی کے حوالے ہے‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/ahl_e_qiblah_gunahgar_namaz_janaza.pdf
[Urdu Article] Doing careful investigation of potential spouse – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
شادی سے پہلے رشتے کی اچھی طرح سے تحقیق کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: فتاوى نور على الدرب [413] – للشيخ محمد بن صالح العثيمين۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/shadi_pehlay_rishtay_tehqeeq.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: رشتے کا پیغام بھیجنے والے شخص کی تحقیق کرنے کے تعلق سے آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: رشتے کا پیغام بھیجنے والے شخص کی تحقیق کرنا واجب ہے تاکیدی واجب۔ خصوصاً اس دور میں جس میں اچھا برا سب خلط ملط ہے، اور اس میں جھوٹ، جھوٹی صفات بیان کرنا، جھوٹی گواہی دینا سب عام ہے۔ کیونکہ ہوسکتا ہے بظاہر نکاح کا پیغام بھیجنے والے میں دین داری، استقامت اور عمدہ اخلاق نظر آتے ہوں حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہو۔ اور وہ اپنا روپ ایسا دھار کر رکھے کہ نکاح کی امیدوار لڑکی اور اس کے گھر والوں کو یہ دھوکہ دے کہ وہ دینی استقامت پر ہے اور بڑے اخلاق والا ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے اس کے گھر والے اس کے اس جھوٹ میں اس کی تائید کریں۔اور ہوسکتا ہے وہ گھر والوں کے علاوہ بھی گواہ اٹھا لائے جو اس کی دین داری، نیک صالح ہونے اور استقامت کی گواہی دے۔ لیکن جب شادی ہوجائے تو پھر معلوم ہو کہ وہ درحقیقت اپنے دین واخلاق میں اس کے برعکس ہے جو وہ ظاہر کیا کرتا تھا۔
اسی لیے میں یہ رائے رکھتا ہوں کہ واجب ہے کہ تحقیق کی جائے،تاکیدی واجب، اور یہ تحقیق بہت باریک بینی سے کی جائے۔ اس میں کوئی نقصان وحرج نہيں اگر جواب دینے میں تاخیر ہی کیوں نہ ہوجائے دس دن یا بیس دن یا پورا مہینہ، تاکہ انسان مکمل بصیرت پر ہو، پس اگر یہ بات ثابت ہوجائے کہ رشتے کا امیدوار واقعی ان اوصاف سے متصف ہے جن میں رغبت رکھی جاتی ہے، اور وہ ان میں سے ہے جن کے دین واخلاق سے راضی ہواجاتا ہے تو پھر شادی کرلے۔
اور کسی کے لیے جائز نہيں کہ وہ لڑکی کی اس قسم کے شخص میں رغبت پر کسی بھی حیل وحجت کے ذریعے اعتراض کرے ۔ کیونکہ ہم نے یہ بھی سناہے کہ لڑکیوں کے بعض اولیاء اپنی زیردست لڑکی کو ایسے شخص سے نکاح کرنے سے روکتے ہيں جس کے دین واخلاق سے راضی ہوا جاتا ہے، اور وہ لڑکی بھی اس سے راضی ہوجاتی ہے لیکن وہ لوگ فضول قسم کی حجتوں سے اسے روکتے ہيں جیسے کہتے ہیں: وہ شخص ہمارے قبیلے میں سے نہيں، یا کہتے ہیں: اس کے پاس تو ڈگری نہيں جبکہ ہماری لڑکی کے پاس ڈگری ہے، یا کہتے ہیں: اس کے پاس تو بڑی جاب نہيں حالانکہ اس کا مالی معاملہ (اس کے بغیر بھی) مستحکم ہوتا ہے اور اس کے علاوہ دیگر باطل اور بے کار وجوہات۔ اور بعض اپنی زیردست لڑکی کی شادی اس لیے نہيں کرواتے کہ وہ تو ابھی پڑھ رہی ہے، اور اس کی پڑھائی کے بعد اس کی کمائی اور تنخواہ کھانے کی تمنا رکھتے ہیں، چناچہ اس صورت میں وہ اسے اس غرض سے یوں غنیمت سمجھ کر بٹھائے رکھتے ہیں۔
الغرض میں اس قسم کے اولیاء کو نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہوں کہ: اللہ تعالی سے اس بارے میں ڈرو کہ اس نے اسے تمہاری زیرسرپرستی دیا ہے، اپنے عورتوں کو اس شخص سے شادی کرنے سے ہرگز نہ روکو جس کے دین واخلاق سے وہ راضی ہوجائیں، محض اپنےشخصی اغراض ومقاصد ، یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخالف عادات واطوار وغیرہ کی وجہ سے ۔ جیسا کہ میں ان کو ایک بار پھر نصیحت کرتا ہوں اس کے برعکس معاملے کے تعلق سے بھی یعنی لڑکیوں کا نکاح کسی ایسے شخص سے کردیا جائے جو اسے پسند نہ ہو تو یہ پر ان پر حرام ہے۔ بلکہ قول راجح کے مطابق ایسا نکاح صحیح نہیں ہے، اگرچہ اس پر مجبور کرنے والا باپ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’ لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ ‘‘
(کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے)۔
اور بیوہ کے لیے فرمایا:
’ لَا تُنْكَحُ الْأَيِّمُ حَتَّى تُسْتَأْمَرَ‘‘([1])
(بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے)۔
بلکہ صحیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’وَالْبِكْرُ يَسْتَأْمِرُهَا أَبُوهَا‘‘([2])
(اور کنواری سے بھی اس کا باپ مشورہ کرے)۔
پس کنواری کے بارے میں بھی نص ہے اور اس کے باپ کے بارے میں بھی۔لہذا جائز نہيں کہ عورت کو ایسے شخص سے شادی کرنے پر مجبور کیا جائے جس سے وہ شادی نہ کرنا چاہتی ہو چاہے کوئی بھی سبب ہو۔ اس صورت میں باپ پر بھی کوئی حرج وملامت نہيں اگر بالفرض لڑکی بالکل بھی کسی سے نکاح کرنا ہی نہیں چاہتی ہو، اس صورت میں باپ پر کوئی پکڑ نہيں نہ ہی اس کے علاوہ دیگر اولیاء پر اگر وہ اس حالت میں اس کی شادی نہ کروائیں، اگرچہ وہ اپنی پوری زندگی بن بیاہی رہے۔ کیونکہ بلاشبہ یہ اس نے اپنی مرضی سے اختیار کیا ہے انہوں نے اسے اس پر مجبور نہيں کیا۔
[1] صحیح بخاری 5136۔
[2] اسے امام النسائی نے سنن النسائی 3264 میں روایت کیا اور شیخ البانی نے صحیح النسائی میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔