[Urdu Article] Ruling on marrying a sinful, non-practicing man or woman – Various 'Ulamaa
فاسق و بے عمل شخص سے شادی کرنے کا حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وتلخیص: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کوئی ایسا شخص میسر آجائے کہ جو استقامت پر اور گناہوں سے بچنے پر معروف ہو تو یہ زیادہ اکمل اور اچھا ہے۔۔۔
اس کے علاوہ اس تعلق سے شیخ محمد بن ابراہیم، الالبانی، العثیمین اور شیخ الفوزان وغیرہ کے تفصیلی فتاوی مکمل مقالے میں پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/08/faasiq_bayamal_shakhs_shadi_hukm.pdf
فاسق و بے عمل شخص سے شادی کرنے کا حکم
مختلف علماء کرام
ترجمہ وتلخیص: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر کوئی ایسا شخص میسر آجائے کہ جو استقامت پر اور گناہوں سے بچنے پر معروف ہو تو یہ زیادہ اکمل اور اچھا ہے۔۔۔
اس کے علاوہ اس تعلق سے شیخ محمد بن ابراہیم، الالبانی، العثیمین اور شیخ الفوزان وغیرہ کے تفصیلی فتاوی مکمل مقالے میں پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/08/faasiq_bayamal_shakhs_shadi_hukm.pdf
[Urdu Article] Was Jarh wa Ta'deel specific to the time period of narrators and its abrogated now? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا جرح وتعدیل کا علم زمانۂ روایت حدیث کے بعد سے ختم ہوچکا ہے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جهود العلامة ربيع المدخلي في نقض شبهات الحزبيين (الفصل الأول في نقض شبهات عامة لأهل التحزب حول منهج النقد والرد على المخالف عند أهل السنة والجماعة: الشبهة الأولى)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل تحزب (حزبیوں) اور اہل بدعت کے بہت سے شبہات ہیں جو وہ اہل سنت کے بابِ جرح وتعدیل اور مخالفین پر رد کے تعلق سے وارد کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے ان کی غرض وغایت یہ ہے کہ اہل سنت کے یہاں جو منہج نقد ہے اسے نرم اور موم بنا دیا جائے، اور اپنے بڑوں اور چہیتی شخصیات کو جرح سے بچالیا جائے۔ انہی شبہات میں سے یہ ہے کہ:
جرح وتعدیل زمانۂ روایت کے بعد سے ختم ہوچکا ہے۔
علامہ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کا اس شبہہ کے ازالہ سے متعلق کلام مکمل مقالے میں پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kya_jarh_tadeel_zamana_khatam.pdf
کیا جرح وتعدیل کا علم زمانۂ روایت حدیث کے بعد سے ختم ہوچکا ہے؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جهود العلامة ربيع المدخلي في نقض شبهات الحزبيين (الفصل الأول في نقض شبهات عامة لأهل التحزب حول منهج النقد والرد على المخالف عند أهل السنة والجماعة: الشبهة الأولى)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اہل تحزب (حزبیوں) اور اہل بدعت کے بہت سے شبہات ہیں جو وہ اہل سنت کے بابِ جرح وتعدیل اور مخالفین پر رد کے تعلق سے وارد کرتے رہتے ہیں ۔ جس سے ان کی غرض وغایت یہ ہے کہ اہل سنت کے یہاں جو منہج نقد ہے اسے نرم اور موم بنا دیا جائے، اور اپنے بڑوں اور چہیتی شخصیات کو جرح سے بچالیا جائے۔ انہی شبہات میں سے یہ ہے کہ:
جرح وتعدیل زمانۂ روایت کے بعد سے ختم ہوچکا ہے۔
علامہ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کا اس شبہہ کے ازالہ سے متعلق کلام مکمل مقالے میں پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kya_jarh_tadeel_zamana_khatam.pdf
[Urdu Article] Are all the followers of four Madhahib innovators? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
کیا مذاہب اربعہ کے تمام پیروکار بدعتی ہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سماحة الشيخ بن باز في حوار شامل مع مجلة الإصلاح، العدد 241-17 بتاريخ 23/6/1993م
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kiya_mazahib_arba_bidati_sub.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے، بعض لوگ یہ گمان کرتے ہيں کہ مذاہب اربعہ کے پیروکار اہل بدعت میں سے ہیں،سماحۃ الشیخ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: یہ کلام باطل ہے۔ یہ کلام اس اجمال کے ساتھ باطل ہے، جائز نہيں کہ ایسی بات کی جائے۔ مذاہب اربعہ کے بارے میں جو اصل ہے وہ خیر، ہدایت واصلاح ہی ہے، کیونکہ یہ داعیان ہیں، علماء اربعہ امام ابوحنیفہ، مالک ، الشافعی واحمد رحمہم اللہ خیر کے داعیان تھے۔ یہ معروف علماء کرام ہیں لیکن ملامت وگناہ اس پر ہے جو ان کے لیے تعصب کرےاور ان کی اندھی تقلید کرے، کیونکہ یہ صواب کو بھی پاتے تھے اور غلطی بھی کرجاتے تھے، بلکہ ہر کوئی غلطی بھی کرسکتا ہے اور صواب کو بھی پاسکتا ہے۔ ہر ایک کے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن میں اس نے غلطی کی ہوتی ہے، پس ان کے متبعین پر واجب کے وہ اللہ تعالی سے ڈریں اور کسی کے لیے تعصب نہ کریں، بلکہ حق کو اس کی دلیل کے ساتھ لیں۔ اور اگر فلاں فلاں عالم غلطی کرتا ہے تو اس کی اس غلطی کو نہ لیں محض اس وجہ سے کہ یہ ان کا وہ امام ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہيں۔ ہرگز نہيں، حق تو اس سے اور ان سب سے بلند وبالا ہے۔
پس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متبعین پر، اسی طرح امام مالک، الشافعی واحمد رحمہم اللہ کے متبعین پر اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کی پیروی کرنے والوں پر واجب ہے کہ وہ حق کو اس کی دلیل کے ساتھ لیں اور کسی زید عمرو کے لیے تعصب نہ کریں۔ تعصب نہ کرنا واجب ہے اور یہ تعصب حرام ہے۔ پس ایک حنفی کے لیے جائز نہيں کہ وہ حنفیوں کے لیے تعصب کرے، نہ ہی ایک شافعی کے لیے جائز ہے کہ وہ شافعیوں کے لیے تعصب کرے، اسی طرح سے نہ مالکی کے لیے نہ ہی حنبلی کے لیے۔ حق ان سب سے اوپر ہے۔
لہذا ان مذاہب کے متبعین پر واجب ہےکہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں اور حق کو اس کی دلیل کے ساتھ لیں اور اس میں وہ اجتہاد وکوشش کریں تاکہ حجت ہی مقدم رہے اور دلیل ہی مقدم رہے۔ اگر کسی بھی مسئلے میں دلیل اس کے موافق ہو جو احناف کہتے ہيں تو احناف کا قول لیا جائے گا اور اگر دلیل حنبلیوں کے موافق ہو تو ان کا قول لیا جائے گا، اسی طرح سے مالکیہ اور شافعیہ کا معاملہ ہوگا۔ اس کی مثال (وراثت میں) دادا کا بھائیوں کے ساتھ ہونا: شافعیہ، مالکیہ وحنبلیہ میں یہ معروف ہے کہ بھائیوں کو دادا کے ساتھ میراث ملے گی جبکہ حنفیہ کے نزدیک بھائی ساقط ہوجائیں گے دادا کے ذریعے، اور ہم یہاں حنفیہ کے قول کو لیتے ہيں کیونکہ یہ زیادہ درست ہے، کیونکہ دادا باپ ہے جس سے بھائی ساقط ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ دلیل ہے، یہ وجہ نہيں کہ یہ محض حنفیہ کا قول ہے بلکہ اس وجہ سے لیتے ہيں کہ یہ دلیل کے موافق ہے۔ اسی طرح سے یہ قول کہ عورت کو چھونا نواقض وضوء میں سے ہے چناچہ شافعیہ کے نزدیک معروف ہے کہ یہ مطلقاً وضوء کو توڑ دیتا ہے، جبکہ دوسرے جیسے حنابلہ کہتے ہیں کہ شہوت کے ساتھ چھونا وضوء کو توڑتا ہے۔ جبکہ صواب بات یہ ہے کہ بلاشبہ عورت کو چھونا خواہ شہوت سے ہو یا بغیر شہوت کے وضوء کو نہيں توڑتا بلکہ جو چیز وضوء کو توڑتی ہے وہ معروف حدث (وضوء توڑنے والی چیزیں) ہيں بغیر آواز والی یا آواز کے ساتھ ہوا خارج ہونا یا پیشاب یا پائخانہ یا ہاتھ سے شرمگاہ کو چھونا یا نیند(یا مذی خارج ہونا)۔۔۔ نواقض وضوء تو معروف ہیں، البتہ اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ:
﴿ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ ﴾ (النساء: 43)
(یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو)
اس سے مراد جماع ہے ’’لامستم‘‘ یعنی ’’جامعتم‘‘ یہی بات حق ہے اس آیت کے معنی کے تعلق سے۔
یہ کچھ مثالیں تھیں صواب قول بیان کرنے کے تعلق سے لہذا بغیر دلیل کے مذاہب میں سے یا اس کے علاوہ جیسے ظاہریہ وغیرہ کسی بھی مذہب کے لیے تعصب کرنا جائز نہيں۔ واجب یہی ہے کہ دلیل کو لیا جائے او ردلیل کو ہی فیصلہ کن مانا جائے۔ پس اگر حق حنفیہ کے ساتھ ہے یا ظاہریہ کے ساتھ ہے تو اسے لیا جائے گا، اور اگر حق شافعیہ کے ساتھ ہے تو اسے لیا جائے گا، اسی طرح سے اگر مالکیہ کے ساتھ ہے تو اسے لیا جائے گا۔ اصل حکم اور فیصلہ دلیل کا چلے گا۔ پس ان مذاہب کی جانب منتسب ہونے والوں کو چاہیےکہ اللہ تعالی سے ڈریں اور دلیل کا اہتمام کریں اور اسے ہی حاکم وفیصل مانیں تاکہ حجت ہی سب سے مقدم ہو، اور دلیل ہی سب پر مقدم ہو اور تاکہ تعصب اور اندھی تقلید سے بچا جاسکے۔
کیا مذاہب اربعہ کے تمام پیروکار بدعتی ہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سماحة الشيخ بن باز في حوار شامل مع مجلة الإصلاح، العدد 241-17 بتاريخ 23/6/1993م
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kiya_mazahib_arba_bidati_sub.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے، بعض لوگ یہ گمان کرتے ہيں کہ مذاہب اربعہ کے پیروکار اہل بدعت میں سے ہیں،سماحۃ الشیخ آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟
جواب: یہ کلام باطل ہے۔ یہ کلام اس اجمال کے ساتھ باطل ہے، جائز نہيں کہ ایسی بات کی جائے۔ مذاہب اربعہ کے بارے میں جو اصل ہے وہ خیر، ہدایت واصلاح ہی ہے، کیونکہ یہ داعیان ہیں، علماء اربعہ امام ابوحنیفہ، مالک ، الشافعی واحمد رحمہم اللہ خیر کے داعیان تھے۔ یہ معروف علماء کرام ہیں لیکن ملامت وگناہ اس پر ہے جو ان کے لیے تعصب کرےاور ان کی اندھی تقلید کرے، کیونکہ یہ صواب کو بھی پاتے تھے اور غلطی بھی کرجاتے تھے، بلکہ ہر کوئی غلطی بھی کرسکتا ہے اور صواب کو بھی پاسکتا ہے۔ ہر ایک کے ایسے مسائل ہوتے ہیں جن میں اس نے غلطی کی ہوتی ہے، پس ان کے متبعین پر واجب کے وہ اللہ تعالی سے ڈریں اور کسی کے لیے تعصب نہ کریں، بلکہ حق کو اس کی دلیل کے ساتھ لیں۔ اور اگر فلاں فلاں عالم غلطی کرتا ہے تو اس کی اس غلطی کو نہ لیں محض اس وجہ سے کہ یہ ان کا وہ امام ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتے ہيں۔ ہرگز نہيں، حق تو اس سے اور ان سب سے بلند وبالا ہے۔
پس امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متبعین پر، اسی طرح امام مالک، الشافعی واحمد رحمہم اللہ کے متبعین پر اور ان کے علاوہ دیگر اہل علم کی پیروی کرنے والوں پر واجب ہے کہ وہ حق کو اس کی دلیل کے ساتھ لیں اور کسی زید عمرو کے لیے تعصب نہ کریں۔ تعصب نہ کرنا واجب ہے اور یہ تعصب حرام ہے۔ پس ایک حنفی کے لیے جائز نہيں کہ وہ حنفیوں کے لیے تعصب کرے، نہ ہی ایک شافعی کے لیے جائز ہے کہ وہ شافعیوں کے لیے تعصب کرے، اسی طرح سے نہ مالکی کے لیے نہ ہی حنبلی کے لیے۔ حق ان سب سے اوپر ہے۔
لہذا ان مذاہب کے متبعین پر واجب ہےکہ وہ اللہ تعالی سے ڈریں اور حق کو اس کی دلیل کے ساتھ لیں اور اس میں وہ اجتہاد وکوشش کریں تاکہ حجت ہی مقدم رہے اور دلیل ہی مقدم رہے۔ اگر کسی بھی مسئلے میں دلیل اس کے موافق ہو جو احناف کہتے ہيں تو احناف کا قول لیا جائے گا اور اگر دلیل حنبلیوں کے موافق ہو تو ان کا قول لیا جائے گا، اسی طرح سے مالکیہ اور شافعیہ کا معاملہ ہوگا۔ اس کی مثال (وراثت میں) دادا کا بھائیوں کے ساتھ ہونا: شافعیہ، مالکیہ وحنبلیہ میں یہ معروف ہے کہ بھائیوں کو دادا کے ساتھ میراث ملے گی جبکہ حنفیہ کے نزدیک بھائی ساقط ہوجائیں گے دادا کے ذریعے، اور ہم یہاں حنفیہ کے قول کو لیتے ہيں کیونکہ یہ زیادہ درست ہے، کیونکہ دادا باپ ہے جس سے بھائی ساقط ہوجاتے ہیں اور اس کی وجہ دلیل ہے، یہ وجہ نہيں کہ یہ محض حنفیہ کا قول ہے بلکہ اس وجہ سے لیتے ہيں کہ یہ دلیل کے موافق ہے۔ اسی طرح سے یہ قول کہ عورت کو چھونا نواقض وضوء میں سے ہے چناچہ شافعیہ کے نزدیک معروف ہے کہ یہ مطلقاً وضوء کو توڑ دیتا ہے، جبکہ دوسرے جیسے حنابلہ کہتے ہیں کہ شہوت کے ساتھ چھونا وضوء کو توڑتا ہے۔ جبکہ صواب بات یہ ہے کہ بلاشبہ عورت کو چھونا خواہ شہوت سے ہو یا بغیر شہوت کے وضوء کو نہيں توڑتا بلکہ جو چیز وضوء کو توڑتی ہے وہ معروف حدث (وضوء توڑنے والی چیزیں) ہيں بغیر آواز والی یا آواز کے ساتھ ہوا خارج ہونا یا پیشاب یا پائخانہ یا ہاتھ سے شرمگاہ کو چھونا یا نیند(یا مذی خارج ہونا)۔۔۔ نواقض وضوء تو معروف ہیں، البتہ اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ:
﴿ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَاءَ ﴾ (النساء: 43)
(یا تم نے عورتوں کو چھوا ہو)
اس سے مراد جماع ہے ’’لامستم‘‘ یعنی ’’جامعتم‘‘ یہی بات حق ہے اس آیت کے معنی کے تعلق سے۔
یہ کچھ مثالیں تھیں صواب قول بیان کرنے کے تعلق سے لہذا بغیر دلیل کے مذاہب میں سے یا اس کے علاوہ جیسے ظاہریہ وغیرہ کسی بھی مذہب کے لیے تعصب کرنا جائز نہيں۔ واجب یہی ہے کہ دلیل کو لیا جائے او ردلیل کو ہی فیصلہ کن مانا جائے۔ پس اگر حق حنفیہ کے ساتھ ہے یا ظاہریہ کے ساتھ ہے تو اسے لیا جائے گا، اور اگر حق شافعیہ کے ساتھ ہے تو اسے لیا جائے گا، اسی طرح سے اگر مالکیہ کے ساتھ ہے تو اسے لیا جائے گا۔ اصل حکم اور فیصلہ دلیل کا چلے گا۔ پس ان مذاہب کی جانب منتسب ہونے والوں کو چاہیےکہ اللہ تعالی سے ڈریں اور دلیل کا اہتمام کریں اور اسے ہی حاکم وفیصل مانیں تاکہ حجت ہی سب سے مقدم ہو، اور دلیل ہی سب پر مقدم ہو اور تاکہ تعصب اور اندھی تقلید سے بچا جاسکے۔
[Urdu Article] Which Fiqh Madhab do you follow? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
آپ کا فقہی مذہب کیا ہے؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: لقاء مع صحيفة الراية السودانية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/06/aap_ka_fiqhi_mazhab_kiya_hai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ کیا آپ کا کوئی خاص فقہی مذہب ہے نیز فتویٰ دینے اور دلائل کے بارے میں آپ کا کیا منہج ہے؟
جواب: فقہ میں میرا مذہب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ہے لیکن بطور تقلید نہیں بلکہ بطور ان اصول کی اتباع میں جن پر وہ چلے۔ جہاں تک اختلافی مسائل کا تعلق ہے تو میرا اس بارے میں منہج یہ ہے کہ میں اسی مؤقف کو ترجیح دیتا ہوں جس کے دلائل متقاضی ہوتے ہیں اور فتویٰ بھی اسی پر دیتاہوں اگرچہ وہ حنابلہ کے مذہب کے موافق ہو یا خلاف۔ کیونکہ حق اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع کی جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تمہارے حکمران ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کربیٹھو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ خیر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ احسن ہے)۔
آپ کا فقہی مذہب کیا ہے؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: لقاء مع صحيفة الراية السودانية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/06/aap_ka_fiqhi_mazhab_kiya_hai.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ کیا آپ کا کوئی خاص فقہی مذہب ہے نیز فتویٰ دینے اور دلائل کے بارے میں آپ کا کیا منہج ہے؟
جواب: فقہ میں میرا مذہب امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ہے لیکن بطور تقلید نہیں بلکہ بطور ان اصول کی اتباع میں جن پر وہ چلے۔ جہاں تک اختلافی مسائل کا تعلق ہے تو میرا اس بارے میں منہج یہ ہے کہ میں اسی مؤقف کو ترجیح دیتا ہوں جس کے دلائل متقاضی ہوتے ہیں اور فتویٰ بھی اسی پر دیتاہوں اگرچہ وہ حنابلہ کے مذہب کے موافق ہو یا خلاف۔ کیونکہ حق اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس کی اتباع کی جائے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا﴾ (النساء: 59)
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تمہارے حکمران ہیں، پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کربیٹھو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو، یہ خیر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ احسن ہے)۔
[Urdu Article] Refuting those who claim to prove Taqleed from Surat-ul-Fatihah – Fatwaa Committee, Saudi Arabia
سورۂ فاتحہ سے تقلید ثابت کرنے والوں کا رد
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء> المجموعة الأولى> المجلد الرابع (التفسير)> التفسير> تفسير سورة الفاتحة> اشتمال الفاتحة على أحكام كثيرة۔ فتوى رقم ( 5658 )۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/04/fatiha_taqleed_daleel_radd.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک شخص ہے پاکستان میں جس کا نام ہے محمد امین ہے، وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سورۂ فاتحہ صرف دو احکام پر مشتمل ہے۔ پہلا حکم تو شروع سے لے کر ﴿وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ تک ہے اور دوسرا حکم وہاں سے لے کر ﴿وَلَا الضَّالِّيْنَ﴾ تک ہے۔ پہلے حکم میں توحید کا بیا ن ہے۔ اور دوسرے میں تقلید کا اثبات ہے۔ پس کیا یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا پھر تابعین وتبع تابعین وغیرہ سے ثابت ہے، اور کس کتاب میں یہ تفسیر پائی جاتی ہے؟ اور اگر دوسرا جزء تقلید کو ثابت کرتا ہے تو کیا رسول اللہ معاذ اللہ مقلد تھے؟ او رکیا قرآن کریم کی تفسیر قیاس سے کرنا جائز ہے، اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو قرآن مجید کی تفسیر اپنے رائے اور قیاس سے کرتا ہے، کیا وہ مسلمان ہے یا کافر؟ اور وہ شخص اس تفسیر پر مصر ہے۔ ہم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب کی امید کرتے ہیں۔ جزاکم اللہ خیراً؟
جواب: سورۂ فاتحہ بہت سے احکام پر مشتمل ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں جتنے بھی احکام ہیں اجمالی طور پر ان تمام پر مشتمل ہے۔ اسی لیے اسے ام القرآن کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ نام دیا ہے جو خود اللہ تعالی نے بھی اسے نام دیا یعنی قرآن عظیم۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابو سعید بن المعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا:
’’مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَنَا أُصَلِّي، فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي؟ فَقُلْتُ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ﴾، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِيَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَكَّرْتُهُ، فَقَالَ: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ، الَّذِي أُوتِيتُهُ‘‘([1])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا۔ لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہیں گیا جب تک نماز ختم نہ کی۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے میرے پاس آنے سے روکا تھا؟ میں نے عرض کی: میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا: اے مومنو! لبیک کہو تم، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر، جب کہ وہ تمہیں بلائیں اس چیز کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے عظیم سورۃ نہ بتلاؤ اس سے پہلے کہ تم اس مسجد سے باہر نکلو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے نکلنے کے لیے جانے لگےتو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد دلایا (کہ آپ مجھے عظیم ترین سورۃ بتانے والے تھے) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الحمدللہ رب العالمین (یعنی سورۂ فاتحہ) یہی وہ سبع مثانی (سات آیات جو بارباردہرائی جاتی ہیں) اور قرآن عظیم ہےجو مجھے عطاء کیا گیا)۔
اسی طرح سے بخاری ہی نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ‘‘([2])
(ام القرآن (یعنی فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے)۔
لیکن یہ احکام اپنی کثرت کے باوجود تین اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔
اول: جو اللہ تعالی کا حق محض ہے۔ جس پر شروع کی تین آیات مشتمل ہیں یعنی توحید ربوبیت اور اسماء وصفات پر۔
دوم: جو بندے کا حق محض ہے۔ جس پر یہ آیات: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ﴾ مشتمل ہیں۔
سوم: جو اللہ کے حق او ربندے کے حق دونوں پر مشتمل ہے ۔ جو کہ یہ آیت ہے: ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ اور یہ دونوں توحید عبادت کہلاتے ہيں۔
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو احمد، مسلم اور اصحاب سنن
سورۂ فاتحہ سے تقلید ثابت کرنے والوں کا رد
علمی تحقیقات اور افتاء کی مستقل کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء> المجموعة الأولى> المجلد الرابع (التفسير)> التفسير> تفسير سورة الفاتحة> اشتمال الفاتحة على أحكام كثيرة۔ فتوى رقم ( 5658 )۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/04/fatiha_taqleed_daleel_radd.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک شخص ہے پاکستان میں جس کا نام ہے محمد امین ہے، وہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ سورۂ فاتحہ صرف دو احکام پر مشتمل ہے۔ پہلا حکم تو شروع سے لے کر ﴿وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ تک ہے اور دوسرا حکم وہاں سے لے کر ﴿وَلَا الضَّالِّيْنَ﴾ تک ہے۔ پہلے حکم میں توحید کا بیا ن ہے۔ اور دوسرے میں تقلید کا اثبات ہے۔ پس کیا یہ تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یا پھر تابعین وتبع تابعین وغیرہ سے ثابت ہے، اور کس کتاب میں یہ تفسیر پائی جاتی ہے؟ اور اگر دوسرا جزء تقلید کو ثابت کرتا ہے تو کیا رسول اللہ معاذ اللہ مقلد تھے؟ او رکیا قرآن کریم کی تفسیر قیاس سے کرنا جائز ہے، اور اس شخص کا کیا حکم ہے جو قرآن مجید کی تفسیر اپنے رائے اور قیاس سے کرتا ہے، کیا وہ مسلمان ہے یا کافر؟ اور وہ شخص اس تفسیر پر مصر ہے۔ ہم قرآن وسنت کی روشنی میں جواب کی امید کرتے ہیں۔ جزاکم اللہ خیراً؟
جواب: سورۂ فاتحہ بہت سے احکام پر مشتمل ہے۔ بلکہ قرآن مجید میں جتنے بھی احکام ہیں اجمالی طور پر ان تمام پر مشتمل ہے۔ اسی لیے اسے ام القرآن کہا جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے یہ نام دیا ہے جو خود اللہ تعالی نے بھی اسے نام دیا یعنی قرآن عظیم۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں سیدنا ابو سعید بن المعلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا:
’’مَرَّ بِيَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وَأَنَا أُصَلِّي، فَدَعَانِي فَلَمْ آتِهِ حَتَّى صَلَّيْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي؟ فَقُلْتُ: كُنْتُ أُصَلِّي، فَقَالَ: أَلَمْ يَقُلِ اللَّهُ: ﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ﴾، ثُمَّ قَالَ: أَلَا أُعَلِّمُكَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ، قَبْلَ أَنْ أَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَهَبَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِيَخْرُجَ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَذَكَّرْتُهُ، فَقَالَ: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ، الَّذِي أُوتِيتُهُ‘‘([1])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس سے گزرے جبکہ میں نماز پڑھ رہا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا۔ لیکن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس نہیں گیا جب تک نماز ختم نہ کی۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کس چیز نے میرے پاس آنے سے روکا تھا؟ میں نے عرض کی: میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا: اے مومنو! لبیک کہو تم، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر، جب کہ وہ تمہیں بلائیں اس چیز کی طرف جس میں تمہاری زندگی ہے۔ پھر فرمایا: کیا میں تمہیں قرآن کریم کی سب سے عظیم سورۃ نہ بتلاؤ اس سے پہلے کہ تم اس مسجد سے باہر نکلو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے نکلنے کے لیے جانے لگےتو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یاد دلایا (کہ آپ مجھے عظیم ترین سورۃ بتانے والے تھے) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: الحمدللہ رب العالمین (یعنی سورۂ فاتحہ) یہی وہ سبع مثانی (سات آیات جو بارباردہرائی جاتی ہیں) اور قرآن عظیم ہےجو مجھے عطاء کیا گیا)۔
اسی طرح سے بخاری ہی نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’أُمُّ الْقُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ‘‘([2])
(ام القرآن (یعنی فاتحہ) ہی سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے)۔
لیکن یہ احکام اپنی کثرت کے باوجود تین اقسام میں تقسیم ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے۔
اول: جو اللہ تعالی کا حق محض ہے۔ جس پر شروع کی تین آیات مشتمل ہیں یعنی توحید ربوبیت اور اسماء وصفات پر۔
دوم: جو بندے کا حق محض ہے۔ جس پر یہ آیات: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۹ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّيْنَ﴾ مشتمل ہیں۔
سوم: جو اللہ کے حق او ربندے کے حق دونوں پر مشتمل ہے ۔ جو کہ یہ آیت ہے: ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ اور یہ دونوں توحید عبادت کہلاتے ہيں۔
اس کی دلیل وہ حدیث ہے جو احمد، مسلم اور اصحاب سنن
نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: حَمِدَنِي عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ: ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ: ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾، قَالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، فَإِذَا قَالَ: ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾، قَالَ: هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۔۔۔إلخ﴾، قَالَ: هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‘‘([3])
(اللہ تعالی فرماتےہیں: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا ہے۔ جب بندہ کہتا ہے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ (تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا رب ہے) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب وہ کہتا ہے: ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘(جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ اور جب وہ کہتاہے: ’’مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ‘‘ (بدلے کے دن کا مالک ہے) تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ جب وہ کہتا ہے ’’اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ‘‘ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان نصف نصف ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے: ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۔۔۔‘‘ (ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے۔۔۔اور آخر تک جو آیات ہيں)،تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: یہ میرے بندے کے لیے ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جس کا اس نے سوال کیا)۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہ اپنے اس قول میں صواب رائے پر ہے کہ سورۂ فاتحہ اول تا ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ توحید کے بارے میں ہے۔
ثانیاً: اس کا یہ دعوی کہ باقی سورۃ تقلید کو ثابت کرتی ہے صحیح نہیں۔ ہمارے علم کے مطابق یہ بات نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی یا تابعین رحمہم اللہ سے۔ بلکہ یہ قول کہ یہ آیات تقلید پر دلالت کرتی ہیں ان آیات کی حقیقی مراد سے تحریف کرنا ہے۔ اور اللہ تعالی کے ذمے بلاعلم کے بات کرنا ہے۔ بلکہ ان آیات سے مراد یہ ہے کہ بندوں کو تعلیم دی جارہی ہے کہ کیسے اپنے رب سے دعاء کریں اور اس سے راہ حق اور صراط مستقیم کی رہنمائی طلب کریں۔ اور انہيں اس پر عقیدے، قول اور عمل کے اعتبار سےچلنے کی توفیق بھی دے۔ اور انہیں ان لوگوں کی راہ سے بچائے جن پر اللہ تعال کا غضب ہوا، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو جانتے ہوئے بھی اس سے اعراض کیا جیسا کہ یہود۔ اور ان لوگوں کی راہ سے بھی بچائے کہ جو راہ حق سے ہی بھٹک گئے اور ان کی آنکھیں اندھی ہوگئیں کہ وہ اس راہ پر نہيں چلتے جیسے نصاری۔
لہذا اس سے واضح ہوا کہ ان آیات سے تقلید کے اثبات پر استدلال کرنا محض رائے سے تفسیر کرنے کے باب میں سے ہے اور اللہ تعالی پر بلاعلم کے بات کرنے کے باب میں سے ہے جو کہ حرام ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف: 33)
(کہہ دیں میرے رب نے تو صرف بے حیائیوں کو حرام کیا ہے، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر وہ کہو جو تم نہیں جانتے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو: عبد الله بن قعود عضو: عبد الله بن غديان نائب الرئيس: عبد الرزاق عفيفي الرئيس: عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحيح البخاري تفسير القرآن (4703) ، سنن النسائي الافتتاح (913) ، سنن أبو داود الصلاة (1458) ، سنن ابن ماجه الأدب (3785) ، مسند أحمد بن حنبل (4/211) ، سنن الدارمي الصلاة (1492).
[2] البخاري [فتح الباري] برقم (4704)، وأبو داود برقم (1457)، والترمذي برقم (3123).
[3] أحمد (2 / 241، 242، 285، 460)، ومسلم برقم (395)، وأبو داود برقم (821)، والترمذي برقم (2953)، والنسائي (2 / 135)، وابن ماجه برقم (3846)، والدارقطني (1 / 312).
’’قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ الْعَبْدُ: ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: حَمِدَنِي عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ: ﴿الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ﴾، قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي، وَإِذَا قَالَ: ﴿مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ﴾، قَالَ: مَجَّدَنِي عَبْدِي، فَإِذَا قَالَ: ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾، قَالَ: هَذَا بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي، وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ، فَإِذَا قَالَ: ﴿اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۔۔۔إلخ﴾، قَالَ: هَذَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ ‘‘([3])
(اللہ تعالی فرماتےہیں: میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان نصف نصف تقسیم کردیا ہے۔ جب بندہ کہتا ہے: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ‘‘ (تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لیے ہے جوتمام جہانوں کا رب ہے) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری حمد بیان کی۔ جب وہ کہتا ہے: ’’الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ‘‘(جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: میرے بندے نے میری ثناء بیان کی۔ اور جب وہ کہتاہے: ’’مٰلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ‘‘ (بدلے کے دن کا مالک ہے) تو اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی۔ جب وہ کہتا ہے ’’اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ‘‘ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان نصف نصف ہے۔ اور جب وہ کہتا ہے: ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ ۔۔۔‘‘ (ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے۔۔۔اور آخر تک جو آیات ہيں)،تو اللہ تعالی فرماتے ہیں: یہ میرے بندے کے لیے ہے، اور میرے بندے کے لیے وہ ہے جس کا اس نے سوال کیا)۔
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ وہ اپنے اس قول میں صواب رائے پر ہے کہ سورۂ فاتحہ اول تا ﴿اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ﴾ توحید کے بارے میں ہے۔
ثانیاً: اس کا یہ دعوی کہ باقی سورۃ تقلید کو ثابت کرتی ہے صحیح نہیں۔ ہمارے علم کے مطابق یہ بات نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی کسی صحابی یا تابعین رحمہم اللہ سے۔ بلکہ یہ قول کہ یہ آیات تقلید پر دلالت کرتی ہیں ان آیات کی حقیقی مراد سے تحریف کرنا ہے۔ اور اللہ تعالی کے ذمے بلاعلم کے بات کرنا ہے۔ بلکہ ان آیات سے مراد یہ ہے کہ بندوں کو تعلیم دی جارہی ہے کہ کیسے اپنے رب سے دعاء کریں اور اس سے راہ حق اور صراط مستقیم کی رہنمائی طلب کریں۔ اور انہيں اس پر عقیدے، قول اور عمل کے اعتبار سےچلنے کی توفیق بھی دے۔ اور انہیں ان لوگوں کی راہ سے بچائے جن پر اللہ تعال کا غضب ہوا، اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے حق کو جانتے ہوئے بھی اس سے اعراض کیا جیسا کہ یہود۔ اور ان لوگوں کی راہ سے بھی بچائے کہ جو راہ حق سے ہی بھٹک گئے اور ان کی آنکھیں اندھی ہوگئیں کہ وہ اس راہ پر نہيں چلتے جیسے نصاری۔
لہذا اس سے واضح ہوا کہ ان آیات سے تقلید کے اثبات پر استدلال کرنا محض رائے سے تفسیر کرنے کے باب میں سے ہے اور اللہ تعالی پر بلاعلم کے بات کرنے کے باب میں سے ہے جو کہ حرام ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (الاعراف: 33)
(کہہ دیں میرے رب نے تو صرف بے حیائیوں کو حرام کیا ہے، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر وہ کہو جو تم نہیں جانتے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو: عبد الله بن قعود عضو: عبد الله بن غديان نائب الرئيس: عبد الرزاق عفيفي الرئيس: عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحيح البخاري تفسير القرآن (4703) ، سنن النسائي الافتتاح (913) ، سنن أبو داود الصلاة (1458) ، سنن ابن ماجه الأدب (3785) ، مسند أحمد بن حنبل (4/211) ، سنن الدارمي الصلاة (1492).
[2] البخاري [فتح الباري] برقم (4704)، وأبو داود برقم (1457)، والترمذي برقم (3123).
[3] أحمد (2 / 241، 242، 285، 460)، ومسلم برقم (395)، وأبو داود برقم (821)، والترمذي برقم (2953)، والنسائي (2 / 135)، وابن ماجه برقم (3846)، والدارقطني (1 / 312).
[Urdu Article] Difference between Muqalladeen and Salafees – Shaykh Muhammad bin Umar Bazmol
فقہی مذاہب کی تقلید اور سلفی منہج میں فرق
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(رکن تعلیمی کمیٹی ومدرس جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بکہ ڈاٹ نیٹ سے شیخ کی ریکاڈنگ بتاریخ 17/8/1423ھ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/muqalladeen_aur_salafees_farq.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: براہ مہربانی میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میں کسی اسلامی مذہب کی جانب اپنا انتساب نہ کروں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ کیونکہ میں نے دونوں سلفیوں سے بھی اور سنیوں سے بھی پڑھا ہے لیکن میں ان دونوں میں سے کسی کی بھی جانب انتساب کرنے کو پسند نہیں کرتا اس خوف سے کہ کہیں مجھ میں تکبر نہ پیدا ہوجائے جس کی وجہ سے اگر حق بات ان دو جماعتوں کے علاوہ کسی اور جگہ سے مجھے ملے تو میں اسے قبول نہ کروں۔دوسرے لفظوں میں دراصل میں ان لوگوں میں سے نہیں بننا چاہتا جو کسی خاص مذہب کے پابند ہوتے ہیں اور بھلے دلائل ان کے خلاف جاتے ہوں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ براہ کرم اس بارے میں مجھے نصیحت فرمائیں۔
جواب: اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں پہلے کچھ باتوں کو واضح کرنا ہوگا۔ اس سوال کے پہلے حصے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سائل مختلف مذاہب کی اندھی تقلید کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہے لیکن پھر بعد میں وہ عمومی منہج کی پیروی کی طرف آجاتا ہے کہ جس میں فقہی اور اس کے علاوہ بھی مذاہب شامل ہیں جیسے کہ اس نے کہا سلفی منہج یا سنی منہج۔
دوسری بات یہ کہ اس نے سلفی اور سنی میں فرق رکھا ہےجبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک سلفی وہی ہوتا ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتا ہوجو فہم سلف صالحین پر چلتا ہو۔لہذا ہر سلفی سنی ہی ہوتا ہےاور ہر سنی سلفی ہی ہوتا ہےبشرطیکہ ہم سنی ہونے کو اس کی صحیح تعریف کے مطابق استعمال کرتے وسمجھتے ہوں۔
بھائی کا سوال میں یہ پوچھنا کہ: ’’میں نے دونوں سلفیوں اور سنیوں کے پاس پڑھا ہے ۔۔۔‘‘ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے گویا کہ وہ ان دونوں میں فرق کرتے ہیں۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل کو اس بات کا ادراک وفہم نہیں کہ سلفیت وسنیت دونوں ایک ہی چیز ہیں، اور یہ کہ ہر سلفی سنی ہوتا ہے اور ہر سنی سلفی ہوتا ہے۔۔۔
[حاضرین میں سے کسی نے کہا: شاید کہ اس سائل کی مراد سنی سے صوفی لوگ ہوں (جیسے ہمارے یہاں بریلوی اپنے آپ کو سنی کہلاتے ہیں) کیونکہ یہ لوگ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اہل سنت ہیں۔۔۔]
۔۔۔لگتا ہے کہ ان ناموں کے تعلق سے بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔۔اگر واقعی ایسا ہے کہ بعض صوفی اپنے آپ کو سنی کہلاتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ صوفی (بدعتی) ہیں تو یہ ایک بدترین قسم کی دھوکہ دہی ہے جس سے خبردار کرنا واجب ہے۔
بہرحال میں سوال کو دہراتا ہوں اور پھر اس کا جواب دیتا ہوں۔
کیا کسی مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کسی فقہی مذہب کی تقلید کرے؟یا وہ سلفی منہج پر چلے یا پھر دوسری جماعتوں اور تنظیموں کے مناہج کی پیروی کرے۔۔۔جیسا کہ تبلیغی جماعت، صوفیہ، اخوانی، حزب التحریر والے (تحریری) وغیرہ۔۔۔؟
جہاں تک ایک مسلمان کا ان فقہی مذاہب کی تقلید کا تعلق ہے جیسے حنفی، مالکی، شافعی وحنبلی تو میں یہ کہوں گا کہ: اس مسئلے سے متعلق بنیادی اصول تو یہی ہے کہ ایک مسلمان پر فرض نہیں کہ ان مذاہب اربعہ میں سے کسی کی تقلید کرے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو محض کتاب وسنت کی جانب دعوت دی تھی، اور یہ وضاحت فرمائی تھی کہ انہیں چاہیے کہ کتاب وسنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کے مطابق سمجھا جائے، اور اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے۔مسلمانوں کا یہی معاملہ رہا ان چاروں آئمہ کے دور تک کہ کوئی بھی مسلمان کسی خاص مذہب کی تقلید کا پابند نہ تھا۔
پس اسی بنیاد پر میں یہ کہتا ہوں کہ صحیح مؤقف یہی ہے کہ اسلام کسی مسلمان کو ان مذاہب اربعہ کی تقلید کا پابند نہیں بناتا۔ یہ بات واضح ہے ان شاء اللہ۔
بہرحال میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان اپنے بارے میں صحیح اندازہ لگائے کہ اگر واقعی وہ اپنے آپ کو پاتا ہے کہ وہ اجتہاد کے مقام تک پہنچ چکا ہے اور وہ ازخود دلائل کو پرکھ سکتا ہے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ خود دلائل پر نظر رکھے اور اسی چیز کی پیروی کرے جودلائل کی روشنی میں اس پر واضح ہوجائے۔اگرچہ دلائل حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی مذہب کے خلاف جاتے ہوں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اہم ترین چیز تو دلائل کی پیروی ہے۔
لیکن اگر ایک مسلمان اس بات کی طاقت نہيں رکھتا کہ وہ دلائل کی معرفت وتحقیق کرے اور اجتہاد کرے، تو بایں صورت اس پر واجب ہے کہ وہ اہل ذکر (علماء کرام) سے سوال کرے۔ ایسے علماء سے جو کتاب وسنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کے بطور مشہور ومعروف ہوں۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ
فقہی مذاہب کی تقلید اور سلفی منہج میں فرق
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(رکن تعلیمی کمیٹی ومدرس جامعہ ام القری، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بکہ ڈاٹ نیٹ سے شیخ کی ریکاڈنگ بتاریخ 17/8/1423ھ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/muqalladeen_aur_salafees_farq.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: براہ مہربانی میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اگر میں کسی اسلامی مذہب کی جانب اپنا انتساب نہ کروں تو اس میں کوئی حرج ہے؟ کیونکہ میں نے دونوں سلفیوں سے بھی اور سنیوں سے بھی پڑھا ہے لیکن میں ان دونوں میں سے کسی کی بھی جانب انتساب کرنے کو پسند نہیں کرتا اس خوف سے کہ کہیں مجھ میں تکبر نہ پیدا ہوجائے جس کی وجہ سے اگر حق بات ان دو جماعتوں کے علاوہ کسی اور جگہ سے مجھے ملے تو میں اسے قبول نہ کروں۔دوسرے لفظوں میں دراصل میں ان لوگوں میں سے نہیں بننا چاہتا جو کسی خاص مذہب کے پابند ہوتے ہیں اور بھلے دلائل ان کے خلاف جاتے ہوں وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ براہ کرم اس بارے میں مجھے نصیحت فرمائیں۔
جواب: اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں پہلے کچھ باتوں کو واضح کرنا ہوگا۔ اس سوال کے پہلے حصے میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سائل مختلف مذاہب کی اندھی تقلید کے بارے میں دریافت کرنا چاہتا ہے لیکن پھر بعد میں وہ عمومی منہج کی پیروی کی طرف آجاتا ہے کہ جس میں فقہی اور اس کے علاوہ بھی مذاہب شامل ہیں جیسے کہ اس نے کہا سلفی منہج یا سنی منہج۔
دوسری بات یہ کہ اس نے سلفی اور سنی میں فرق رکھا ہےجبکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک سلفی وہی ہوتا ہے جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرتا ہوجو فہم سلف صالحین پر چلتا ہو۔لہذا ہر سلفی سنی ہی ہوتا ہےاور ہر سنی سلفی ہی ہوتا ہےبشرطیکہ ہم سنی ہونے کو اس کی صحیح تعریف کے مطابق استعمال کرتے وسمجھتے ہوں۔
بھائی کا سوال میں یہ پوچھنا کہ: ’’میں نے دونوں سلفیوں اور سنیوں کے پاس پڑھا ہے ۔۔۔‘‘ سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے گویا کہ وہ ان دونوں میں فرق کرتے ہیں۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سائل کو اس بات کا ادراک وفہم نہیں کہ سلفیت وسنیت دونوں ایک ہی چیز ہیں، اور یہ کہ ہر سلفی سنی ہوتا ہے اور ہر سنی سلفی ہوتا ہے۔۔۔
[حاضرین میں سے کسی نے کہا: شاید کہ اس سائل کی مراد سنی سے صوفی لوگ ہوں (جیسے ہمارے یہاں بریلوی اپنے آپ کو سنی کہلاتے ہیں) کیونکہ یہ لوگ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اہل سنت ہیں۔۔۔]
۔۔۔لگتا ہے کہ ان ناموں کے تعلق سے بہت غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔۔اگر واقعی ایسا ہے کہ بعض صوفی اپنے آپ کو سنی کہلاتے ہیں حالانکہ درحقیقت وہ صوفی (بدعتی) ہیں تو یہ ایک بدترین قسم کی دھوکہ دہی ہے جس سے خبردار کرنا واجب ہے۔
بہرحال میں سوال کو دہراتا ہوں اور پھر اس کا جواب دیتا ہوں۔
کیا کسی مسلمان پر واجب ہے کہ وہ کسی فقہی مذہب کی تقلید کرے؟یا وہ سلفی منہج پر چلے یا پھر دوسری جماعتوں اور تنظیموں کے مناہج کی پیروی کرے۔۔۔جیسا کہ تبلیغی جماعت، صوفیہ، اخوانی، حزب التحریر والے (تحریری) وغیرہ۔۔۔؟
جہاں تک ایک مسلمان کا ان فقہی مذاہب کی تقلید کا تعلق ہے جیسے حنفی، مالکی، شافعی وحنبلی تو میں یہ کہوں گا کہ: اس مسئلے سے متعلق بنیادی اصول تو یہی ہے کہ ایک مسلمان پر فرض نہیں کہ ان مذاہب اربعہ میں سے کسی کی تقلید کرے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو محض کتاب وسنت کی جانب دعوت دی تھی، اور یہ وضاحت فرمائی تھی کہ انہیں چاہیے کہ کتاب وسنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کے مطابق سمجھا جائے، اور اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھاما جائے۔مسلمانوں کا یہی معاملہ رہا ان چاروں آئمہ کے دور تک کہ کوئی بھی مسلمان کسی خاص مذہب کی تقلید کا پابند نہ تھا۔
پس اسی بنیاد پر میں یہ کہتا ہوں کہ صحیح مؤقف یہی ہے کہ اسلام کسی مسلمان کو ان مذاہب اربعہ کی تقلید کا پابند نہیں بناتا۔ یہ بات واضح ہے ان شاء اللہ۔
بہرحال میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان اپنے بارے میں صحیح اندازہ لگائے کہ اگر واقعی وہ اپنے آپ کو پاتا ہے کہ وہ اجتہاد کے مقام تک پہنچ چکا ہے اور وہ ازخود دلائل کو پرکھ سکتا ہے، تو اس پر لازم ہے کہ وہ خود دلائل پر نظر رکھے اور اسی چیز کی پیروی کرے جودلائل کی روشنی میں اس پر واضح ہوجائے۔اگرچہ دلائل حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی مذہب کے خلاف جاتے ہوں۔ اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اہم ترین چیز تو دلائل کی پیروی ہے۔
لیکن اگر ایک مسلمان اس بات کی طاقت نہيں رکھتا کہ وہ دلائل کی معرفت وتحقیق کرے اور اجتہاد کرے، تو بایں صورت اس پر واجب ہے کہ وہ اہل ذکر (علماء کرام) سے سوال کرے۔ ایسے علماء سے جو کتاب وسنت کی فہم سلف صالحین کے مطابق اتباع کرنے کے بطور مشہور ومعروف ہوں۔ اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ
الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43، الانبیاء 7)
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
لہذا ایک عام مسلمان جو دلائل پر نظر رکھنے اور اجتہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے اور بناکسی خاص مذہب کی پابندی کے ان سے جن دینی مسائل کی اسے ضرورت ہے سیکھے۔ اسی وجہ سے بعض علماء کہتے ہیں کہ: ایک عامی کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس کے مفتی کا مذہب ہوتا ہے۔
دوسرے موضوع پر جانے سے پہلے آخری بات عرض کروں گا کہ ہمارے زمانے میں یا اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے نامور آئمہ وعلماء کرام گزرے ہیں جو مختلف مذاہب کی جانب منسوب ہوتے تھے، جبکہ درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے (خود مجتہد تھے)۔ دراصل ان کے اپنے مذہب کی جانب نسبت کی وجہ صرف یہی ہوا کرتی تھی کہ انہوں نے اس خاص مذہب کو خصوصی طور پر پڑھا ہے (یعنی فقہی قواعد) یا پھر وہ ان کے ملکوں یا علاقوں کا عام مذہب ہوا کرتاتھا، جس کی وجہ سے انہیں بھی یہ نسبت دے دی گئی، ناکہ اندھی تقلید کی وجہ سے۔
مثال کے طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ درحقیقت وہ تو دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا پھر حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ وہ بھی دلائل کی اتباع کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ شافعی تھے مگر وہ بھی دلائل کی ہی پیروی کیا کرتے تھے۔ اور عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ حنفی تھے مگر درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا ہمارے شیخ ابن باز وابن عثیمین رحمہما اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حنبلی تھے اسی طرح سے ان سے پہلے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہ وہ بھی حنبلی تھے مگر سب جانتے ہیں کہ وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے۔ یا ابھی شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی ہیں مگر وہی بات کہ وہ بھی دلائل ونصوص کی اتباع کرتےہیں۔
ان عظیم وکبار علماء کرام کا منہج یہی ہے کہ وہ دلائل کے موافق ومطابق فتویٰ صادر فرماتے ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے سامنے کوئی صحیح دلیل آتی ہے تو وہ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہ ہو تو پھر وہ اپنے مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔یعنی وہ کسی چیز کے متعلق اپنے مذہب کے احکام بیان کردیتے ہیں۔
پس جب ہم کسی مذہب کی جانب نسبت کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنے کے لیے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ہم ہرگز بھی یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص کو مجتہدہونا چاہیے اور دلائل کی تحقیق کرنی چاہیے۔ بلاشبہ ایک عام انسان اجتہاد کرنے یا دلائل کی تحقیق کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ کسی خاص مذہب کی تقلید کرے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خود سے دلائل کو پرکھے اور ان سے مسائل اخذ کرے تو اسے ضرور اجتہاد کرنا چاہیے کہ وہ دلائل کو دیکھے ان کی تحقیق کرے اور پھر ان کی پیروی کرے۔
اور اس کا مجتہد ہونا یا دلائل پر نظر رکھنا اس بات کو مانع نہیں کہ وہ اس مذہب کی جانب منسوب ہوجائےجو اس نے پڑھا ہے، یا جو اس کے ملک میں عام ہے، یا پھر جو اس کی نظر میں حق سے زیادہ قریب تر ہے اگر وہ کسی مسئلہ میں خود دلائل سے استنباط نہیں کرسکتا ہو۔یہ باتیں ان مجتہدین کے لیے ضرررساں نہیں ہیں۔
اور جو اس مقام تک نہ پہنچ سکتے ہوں تو انہیں چاہیے کہ علماء کرام سے سوال کریں، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43، الانبیاء 7)
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
جب وہ سوال کرے تو اس بات کی بھرپور طریقے سے تصدیق کرلے کہ جس سے وہ سوال کرنے جارہا ہے وہ واقعتا ًعلماء کرام میں سے ہو اور وہ شرط بھی نہ لگائے کہ جس عالم میں پوچھنے جارہا ہوں وہ لازما ًکسی خاص مذہب کا پیروکار ہونا چاہیے۔بلکہ اسے عالم جو فتویٰ دے تو وہ اسی کی پیروی کرے جب تک عالم کا فتویٰ اس عالم کے پاس موجود دلیل کی روشنی میں ہو۔ اللہ اعلم۔
جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو کہ ان تحریکوں سے وابستگی کے بارے میں ہے کہ جو اپنی طرف دعوت دیتی ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلفی/سنی منہج کی جانب منسوب کرے۔ مزید برآں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حقیقی اسلام یہی ہے، کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی کی جاتی ہے، اس میں دین کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔پس یقینا ًایک مسلمان سےاس منہج کی اتباع ضرور مطلوب ہے۔
کسی بھی مسلمان کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو جس پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے چھوڑ دے خواہ کوئی بھی وجہ ہو۔
کیونکہ یہی وہ صراط مستقیم ہے کہ جس پر چل کر انسان بروز قیامت نجات حاصل کرسکتا ہ
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
لہذا ایک عام مسلمان جو دلائل پر نظر رکھنے اور اجتہاد کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس پر واجب ہے کہ وہ اہل علم سے سوال کرے اور بناکسی خاص مذہب کی پابندی کے ان سے جن دینی مسائل کی اسے ضرورت ہے سیکھے۔ اسی وجہ سے بعض علماء کہتے ہیں کہ: ایک عامی کا مذہب وہی ہوتا ہے جو اس کے مفتی کا مذہب ہوتا ہے۔
دوسرے موضوع پر جانے سے پہلے آخری بات عرض کروں گا کہ ہمارے زمانے میں یا اس سے پہلے بھی بہت سے ایسے نامور آئمہ وعلماء کرام گزرے ہیں جو مختلف مذاہب کی جانب منسوب ہوتے تھے، جبکہ درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے (خود مجتہد تھے)۔ دراصل ان کے اپنے مذہب کی جانب نسبت کی وجہ صرف یہی ہوا کرتی تھی کہ انہوں نے اس خاص مذہب کو خصوصی طور پر پڑھا ہے (یعنی فقہی قواعد) یا پھر وہ ان کے ملکوں یا علاقوں کا عام مذہب ہوا کرتاتھا، جس کی وجہ سے انہیں بھی یہ نسبت دے دی گئی، ناکہ اندھی تقلید کی وجہ سے۔
مثال کے طور پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ درحقیقت وہ تو دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا پھر حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی تھے حالانکہ وہ بھی دلائل کی اتباع کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ شافعی تھے مگر وہ بھی دلائل کی ہی پیروی کیا کرتے تھے۔ اور عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ حنفی تھے مگر درحقیقت وہ دلائل کی پیروی کیا کرتے تھے۔یا ہمارے شیخ ابن باز وابن عثیمین رحمہما اللہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ حنبلی تھے اسی طرح سے ان سے پہلے شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ کے بارے میں کہ وہ بھی حنبلی تھے مگر سب جانتے ہیں کہ وہ دلائل کی پیروی کرتے تھے۔ یا ابھی شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ حنبلی ہیں مگر وہی بات کہ وہ بھی دلائل ونصوص کی اتباع کرتےہیں۔
ان عظیم وکبار علماء کرام کا منہج یہی ہے کہ وہ دلائل کے موافق ومطابق فتویٰ صادر فرماتے ہیں۔ جب کبھی بھی ان کے سامنے کوئی صحیح دلیل آتی ہے تو وہ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہی نہ ہو تو پھر وہ اپنے مذہب کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں۔یعنی وہ کسی چیز کے متعلق اپنے مذہب کے احکام بیان کردیتے ہیں۔
پس جب ہم کسی مذہب کی جانب نسبت کی بات کرتے ہیں تو یاد رکھنے کے لیے یہ بہت اہم نکتہ ہے۔
ہم ہرگز بھی یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص کو مجتہدہونا چاہیے اور دلائل کی تحقیق کرنی چاہیے۔ بلاشبہ ایک عام انسان اجتہاد کرنے یا دلائل کی تحقیق کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اور نہ ہی ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ کسی خاص مذہب کی تقلید کرے۔ بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو کوئی بھی اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ خود سے دلائل کو پرکھے اور ان سے مسائل اخذ کرے تو اسے ضرور اجتہاد کرنا چاہیے کہ وہ دلائل کو دیکھے ان کی تحقیق کرے اور پھر ان کی پیروی کرے۔
اور اس کا مجتہد ہونا یا دلائل پر نظر رکھنا اس بات کو مانع نہیں کہ وہ اس مذہب کی جانب منسوب ہوجائےجو اس نے پڑھا ہے، یا جو اس کے ملک میں عام ہے، یا پھر جو اس کی نظر میں حق سے زیادہ قریب تر ہے اگر وہ کسی مسئلہ میں خود دلائل سے استنباط نہیں کرسکتا ہو۔یہ باتیں ان مجتہدین کے لیے ضرررساں نہیں ہیں۔
اور جو اس مقام تک نہ پہنچ سکتے ہوں تو انہیں چاہیے کہ علماء کرام سے سوال کریں، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿ فَسْـــَٔـلُوْٓا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 43، الانبیاء 7)
(اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے دریافت کرلو)
جب وہ سوال کرے تو اس بات کی بھرپور طریقے سے تصدیق کرلے کہ جس سے وہ سوال کرنے جارہا ہے وہ واقعتا ًعلماء کرام میں سے ہو اور وہ شرط بھی نہ لگائے کہ جس عالم میں پوچھنے جارہا ہوں وہ لازما ًکسی خاص مذہب کا پیروکار ہونا چاہیے۔بلکہ اسے عالم جو فتویٰ دے تو وہ اسی کی پیروی کرے جب تک عالم کا فتویٰ اس عالم کے پاس موجود دلیل کی روشنی میں ہو۔ اللہ اعلم۔
جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے جو کہ ان تحریکوں سے وابستگی کے بارے میں ہے کہ جو اپنی طرف دعوت دیتی ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو سلفی/سنی منہج کی جانب منسوب کرے۔ مزید برآں میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ حقیقی اسلام یہی ہے، کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی پیروی کی جاتی ہے، اس میں دین کو فہم سلف صالحین کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔پس یقینا ًایک مسلمان سےاس منہج کی اتباع ضرور مطلوب ہے۔
کسی بھی مسلمان کے لیے یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس چیز کو جس پر کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ تھے چھوڑ دے خواہ کوئی بھی وجہ ہو۔
کیونکہ یہی وہ صراط مستقیم ہے کہ جس پر چل کر انسان بروز قیامت نجات حاصل کرسکتا ہ
ے ان شاء اللہ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے:
’’افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘([1]) (یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتّرفرقوں میں بٹ گئے اور میری یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ انہوں نے پوچھا کہ : وہ ایک کون سا فرقہ ہوگا یا رسول اللہ!۔ فرمایا: جو اس چیز پر ہوگا جس چیز پر میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
یہ ہے سلفی منہج کی حقیقت ۔کہ آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنی ہے۔ لہذا کیا پھر ہم ایک نومسلم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ : تمہیں اس منہج پر چلنے کی ضرورت نہیں؟ نہیں! بلکہ ہم کہیں گے کہ: تمہارا اسلام اس وقت تک سچا، صحیح اور بدعات سے پاک ہو نہیں سکتا جب تک تم س منہج کی پیروی نہیں کروگے، جب تک تم اس چیز کی پیروی نہیں کروگے کہ جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی مخالفت کرے گا تو وہ فرقہ پرست حزبیوں میں سے ہوگا اور ان بہّتر (72) جہنم میں جانے والے فرقوں میں ہوگا۔اگرچہ وہ مسلمان ہے مگر وہ حدیث میں وارد اس شدید وعید کے خدشے سے محفوظ نہیں کہ: سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔
جب میں نے کہا کہ وہ اس خدشے سے محفوظ نہیں اس سے میری مراد ہے کہ وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، کہ اگر اللہ تعالی چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو عذاب دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام جس چیز پر تھے اس کی مخالفت کی بنا پر یہ دو میں سے ایک قسم میں ہوگا:
1- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج کردینے والی ہو تو اس صورت میں وہ کافر ہوگا۔
2- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی تو اس صورت میں وہ نافرمان وبدعتی ہوگا اور ان بہّتر (72) فرقوں میں سے ہوگا جن پر اس وعید کا خدشہ ہے۔ اللہ اعلم
پس اس طرح سے ہم نے مختلف فقہی مذاہب کی تقلید کرنے اور سلفی منہج کی پیروی کرنے میں فرق کی وضاحت کردی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان سے کسی خاص مذہب کی تقلید مطلوب نہیں۔ لیکن سلفی منہج پر چلنا مطلوب ہے یعنی دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے کے مطابق سمجھنا، سلف کے طریقے کو اپنانا، یہی صحیح اسلام ہے۔ اور اس صحیح اسلام سے اس کا الگ ہونا یا تو مکمل طور پر ہوگا یا صراط مستقیم سے کسی درجے کا انحراف ہوگا جو اسے بدعتی، نافرمان، خطاء کار بنادے گا اور وہ ان بہتّر (72) گمراہ فرقوں میں سے ہوجائے گا۔ اللہ اعلم
[1] ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ۔ شیخ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحہ 203-204 میں اس پر کلام کیا ہے اور تصحیح فرمائی ہے۔
’’افْتَرَقَتْ الْيَهُودُ عَلَى إِحْدَى وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفَرَّقَتِ النَّصَارَى عَلَى ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً، وَتَفْتَرِقُ أُمَّتِي عَلَى ثَلَاثٍ وَسَبْعِينَ فِرْقَةً كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً قَالُوا: وَمَنْ هِيَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي‘‘([1]) (یہودی اکہتر فرقوں میں بٹ گئے اور نصاریٰ بہتّرفرقوں میں بٹ گئے اور میری یہ امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے۔ انہوں نے پوچھا کہ : وہ ایک کون سا فرقہ ہوگا یا رسول اللہ!۔ فرمایا: جو اس چیز پر ہوگا جس چیز پر میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
یہ ہے سلفی منہج کی حقیقت ۔کہ آپ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرنی ہے۔ لہذا کیا پھر ہم ایک نومسلم سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ : تمہیں اس منہج پر چلنے کی ضرورت نہیں؟ نہیں! بلکہ ہم کہیں گے کہ: تمہارا اسلام اس وقت تک سچا، صحیح اور بدعات سے پاک ہو نہیں سکتا جب تک تم س منہج کی پیروی نہیں کروگے، جب تک تم اس چیز کی پیروی نہیں کروگے کہ جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔
جو کوئی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کی مخالفت کرے گا تو وہ فرقہ پرست حزبیوں میں سے ہوگا اور ان بہّتر (72) جہنم میں جانے والے فرقوں میں ہوگا۔اگرچہ وہ مسلمان ہے مگر وہ حدیث میں وارد اس شدید وعید کے خدشے سے محفوظ نہیں کہ: سب کے سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے۔
جب میں نے کہا کہ وہ اس خدشے سے محفوظ نہیں اس سے میری مراد ہے کہ وہ اللہ تعالی کی مشیئت کے ماتحت ہے، کہ اگر اللہ تعالی چاہے گا تو اسے بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو عذاب دے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام جس چیز پر تھے اس کی مخالفت کی بنا پر یہ دو میں سے ایک قسم میں ہوگا:
1- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام ہی سے خارج کردینے والی ہو تو اس صورت میں وہ کافر ہوگا۔
2- اس کی مخالفت اسے دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتی تو اس صورت میں وہ نافرمان وبدعتی ہوگا اور ان بہّتر (72) فرقوں میں سے ہوگا جن پر اس وعید کا خدشہ ہے۔ اللہ اعلم
پس اس طرح سے ہم نے مختلف فقہی مذاہب کی تقلید کرنے اور سلفی منہج کی پیروی کرنے میں فرق کی وضاحت کردی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک مسلمان سے کسی خاص مذہب کی تقلید مطلوب نہیں۔ لیکن سلفی منہج پر چلنا مطلوب ہے یعنی دین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کے طریقے کے مطابق سمجھنا، سلف کے طریقے کو اپنانا، یہی صحیح اسلام ہے۔ اور اس صحیح اسلام سے اس کا الگ ہونا یا تو مکمل طور پر ہوگا یا صراط مستقیم سے کسی درجے کا انحراف ہوگا جو اسے بدعتی، نافرمان، خطاء کار بنادے گا اور وہ ان بہتّر (72) گمراہ فرقوں میں سے ہوجائے گا۔ اللہ اعلم
[1] ابوداود، ترمذی، ابن ماجہ وغیرہ۔ شیخ البانی نے سلسلہ احادیث صحیحہ 203-204 میں اس پر کلام کیا ہے اور تصحیح فرمائی ہے۔
[Urdu Article] Does Shaykh Rabee' call towards blind following Him (Taqleed)? – Tawheedekhaalis.com
کیا شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ لوگوں کو اندھی تقلید کی دعوت دیتے ہیں؟
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ پر تقلید کی دعوت دینے کا اور ان کے تلامیذ وغیرہ پر تقلیدی سلفی ہونے کا الزام
شیخ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ المتوفی 1414ھ اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ ربیع مقلدین کا رد کرتے ہیں
شیخ ربیع کا شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ المتوفی 1420ھ کے سامنے تقلید کا رد فرمانا
شیخ ربیع حفظہ اللہ نے فالح الحربی کا رد تقلید کے مسئلے ہی پر کیا تھا!
کیا جرح وتعدیل میں کسی ثقہ عالم کے قول کو لینا مذموم تقلید کہلاتا ہے؟
جرح وتعدیل میں ثقہ عالم کے قول کو ماننا تقلید نہیں اس کے باوجود شیخ ربیع کسی کو اپنی جرح ماننے پر مجبور نہیں کرتے
کیا شیخ ربیع کے طلاب صحیح سلفی نہیں؟ شیخ احمد بن یحیی النجمی رحمہ اللہ المتوفی 1429ھ
البتہ اس مذکورہ حالت سے توتقلید ہی بھلی!
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/kiya_sh_rabee_taqleed_dawat_dayte_hain.pdf
کیا شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ لوگوں کو اندھی تقلید کی دعوت دیتے ہیں؟
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ پر تقلید کی دعوت دینے کا اور ان کے تلامیذ وغیرہ پر تقلیدی سلفی ہونے کا الزام
شیخ علامہ عبید اللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ المتوفی 1414ھ اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ ربیع مقلدین کا رد کرتے ہیں
شیخ ربیع کا شیخ علامہ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ المتوفی 1420ھ کے سامنے تقلید کا رد فرمانا
شیخ ربیع حفظہ اللہ نے فالح الحربی کا رد تقلید کے مسئلے ہی پر کیا تھا!
کیا جرح وتعدیل میں کسی ثقہ عالم کے قول کو لینا مذموم تقلید کہلاتا ہے؟
جرح وتعدیل میں ثقہ عالم کے قول کو ماننا تقلید نہیں اس کے باوجود شیخ ربیع کسی کو اپنی جرح ماننے پر مجبور نہیں کرتے
کیا شیخ ربیع کے طلاب صحیح سلفی نہیں؟ شیخ احمد بن یحیی النجمی رحمہ اللہ المتوفی 1429ھ
البتہ اس مذکورہ حالت سے توتقلید ہی بھلی!
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/kiya_sh_rabee_taqleed_dawat_dayte_hain.pdf
[Urdu Article] Even Taqleed (blind following) of a scholar is better than this condition! – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
ایسی حالت سے تو تقلید ہی بھلی!
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب ’’مرحبا ًیا طالب العلم‘‘ ص 60-62۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/is_say_to_taqleed_bhali.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ’’فضل العلم والعلماء‘‘ میں فرماتے ہیں:
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’بلاشبہ علماء کرام کا احترام ، ان سے محبت اور اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں ان کی اطاعت ایسی بات ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار دیا ہے، اور ایسا امر ہے جسے اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے‘‘([1])۔
میں یہ کہتا ہوں: امت پر واجب ہےکہ وہ علماء کرام کی قدرومنزلت کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے، اور یہ بھی جانے کہ بے شک ان پر ان کی محبت اور اطاعت واجب ہے، اور ان سے بغض دراصل اللہ تعالی کے دین سے بغض ہے، اور اس دین کے حاملین سے بغض ہے۔ علماء سے بغض رکھنا آخرکار اس حق کے علم سے بغض پر منتج ہوتا ہے جو انہيں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے وراثت میں ملا ہے۔ پس ہلاکت وبربادی ہے ان کے لیے جو ان سے اور ان کے عقائد سے بغض رکھتا ہے!
آجکل علماء کرام کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول نہ کرنے کے تعلق سے یہ باطل مقولہ زبان زد عام ہے جس کا ظاہر حق معلوم ہوتا ہے لیکن باطن میں باطل وشر ہے، اور وہ یہ ہے کہ: ’’میں کسی کی تقلید نہيں کرتا‘‘!!۔ آپ اسے پائیں گے کہ نرا جاہل ہےاللہ کے دین میں سے کچھ سمجھتا نہيں، حالانکہ اسے تمام لوگوں سے بڑھ کر علماء کرام کی تقلید کی حاجت ہے، ان کی اتباع تو دور کی بات رہی۔
ایک تو ہوتی ہے تقلید اور ایک ہوتی ہے اتباع۔ ایک ایسا انسان تو بالکل احمق ہے اسے تقلید کی ضرورت ہے، تقلید اس کی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے، اسے چاہیے کہ علماء کرام کی تقلید کرے۔
البتہ جو طالبعلم ہے جو دلیل کے توسط سے اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ یہ عالم صواب پر ہے تو پھر وہ عالم صاحبِ دلیل کی اتباع کرے۔ یہ درجہ تقلید سے بلند ہے، لیکن مجتہد کے درجے سے کم ہے۔ چناچہ بعض یونہی کہہ دیتے ہيں میں کسی کی تقلید نہيں کرتا حالانکہ درحقیقت وہ عامی وجاہل ہوتا ہے، بلکہ کبھی تو فاسق وفاجر وخبیث ہوتا ہے اور ان مکارانہ اسالیب کے ذریعے وہ علماء کرام پر طعن اور ان سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہتا ہے۔
پس نوجوانوں کو چاہیے کہ اس قسم کے بیوقوفوں کے دام فریب سے بچیں کہ جو علماء کرام پر طعن اس خوبصورت جملے کے ساتھ لپیٹ کرکررہے ہوتے ہیں کہ : میں فلاں کی تقلید نہيں کرتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں: تمہیں کہتا کون تقلید کرنے کو اگر تم واقعی طالبعلم ہوتے؟! لیکن اگر یہ عالم جس کے بارے میں تم کہہ رہے ہو کہ میں اس کی تقلید نہيں کرتا، اس کے پاس حق ہو، تو کیا تمہارے لیے جائز ہوگا کہ اس حق کو ٹھکرا دو جو اس کے پاس ہے اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتوں کے ذریعے جسے تم کہتے تو تقلید ہو مگر مراد اس سے باطل ہوتی ہے؟!!
ہم نوجوانوں کو اس خسیس قسم کے اسلوب سے خبردار کرتے ہیں، یہ بات بہت ہی زیادہ کثرت کے ساتھ عوام جیسے لوگوں بلکہ بعض تو عوام کے اخلاقی و دینی درجے سے بھی گرے ہوئے لوگوں میں عام ہے۔یہ بیماری بہت سے لوگوں کے دلوں میں پھیل چکی ہے: میں تقلید نہیں کرتا، میں تقلید نہیں کرتا! انٹرنیٹ پر، منظر عام پر اور بہت سی جگہوں پر یہ بالکل عام ہوچکا ہے کہ: میں تقلید نہیں کرتا۔ حالانکہ ہوتا وہ جاہل ہے، بلکہ ممکن ہے تقلید تک صحیح طو رپر اسے کرنا نہ آتی ہو اتباع تو دور کی بات رہی، اور اجتہاد تو اس سے بعید بات ہے۔
پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ادب سیکھیں اور تواضع اختیار کریں، اور علماء کرام کا احترام کریں، اور اس برے لہجے کو دور پھینک دیں جو وہ رٹتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارج رٹا کرتے تھے کہ: ’’لاحکم الا للہ‘‘ (نہيں ہے حکم مگر صرف اللہ تعالی کا) جس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
’’كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ‘‘([2])
(بات تو حق ہے لیکن اس سے مراد باطل لی گئی ہے)۔
میں ا س پر اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ جہاں تک میں نے اس کا کھوج لگایا اور اندازہ کیا ہے تو واقعی یہ لوگ اس سے باطل چاہتے ہیں، اور چاہتے ہيں کہ نوجوان علماء کرام سے بے نیاز ہوجائيں۔ پس اللہ تعالی اہل مکرو فریب کو تباہ وبرباد کرے، اور اللہ تعالی ان کے مکرو فریب کو اس امت اور اس دین پر سے پھیر دے۔
[1] اعلام الموقعین 2/237-238۔
[2] صحیح مسلم 1068۔
ایسی حالت سے تو تقلید ہی بھلی!
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب ’’مرحبا ًیا طالب العلم‘‘ ص 60-62۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/is_say_to_taqleed_bhali.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ ’’فضل العلم والعلماء‘‘ میں فرماتے ہیں:
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’بلاشبہ علماء کرام کا احترام ، ان سے محبت اور اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں ان کی اطاعت ایسی بات ہے جسے اللہ تعالی نے مشروع قرار دیا ہے، اور ایسا امر ہے جسے اللہ تعالی نے واجب قرار دیا ہے‘‘([1])۔
میں یہ کہتا ہوں: امت پر واجب ہےکہ وہ علماء کرام کی قدرومنزلت کو پہچانے اور اس کا اعتراف کرے، اور یہ بھی جانے کہ بے شک ان پر ان کی محبت اور اطاعت واجب ہے، اور ان سے بغض دراصل اللہ تعالی کے دین سے بغض ہے، اور اس دین کے حاملین سے بغض ہے۔ علماء سے بغض رکھنا آخرکار اس حق کے علم سے بغض پر منتج ہوتا ہے جو انہيں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام سے وراثت میں ملا ہے۔ پس ہلاکت وبربادی ہے ان کے لیے جو ان سے اور ان کے عقائد سے بغض رکھتا ہے!
آجکل علماء کرام کے پاس جو کچھ ہے اسے قبول نہ کرنے کے تعلق سے یہ باطل مقولہ زبان زد عام ہے جس کا ظاہر حق معلوم ہوتا ہے لیکن باطن میں باطل وشر ہے، اور وہ یہ ہے کہ: ’’میں کسی کی تقلید نہيں کرتا‘‘!!۔ آپ اسے پائیں گے کہ نرا جاہل ہےاللہ کے دین میں سے کچھ سمجھتا نہيں، حالانکہ اسے تمام لوگوں سے بڑھ کر علماء کرام کی تقلید کی حاجت ہے، ان کی اتباع تو دور کی بات رہی۔
ایک تو ہوتی ہے تقلید اور ایک ہوتی ہے اتباع۔ ایک ایسا انسان تو بالکل احمق ہے اسے تقلید کی ضرورت ہے، تقلید اس کی ضروریات میں سے ایک ضرورت ہے، اسے چاہیے کہ علماء کرام کی تقلید کرے۔
البتہ جو طالبعلم ہے جو دلیل کے توسط سے اس بات کا ادراک کرسکتا ہے کہ یہ عالم صواب پر ہے تو پھر وہ عالم صاحبِ دلیل کی اتباع کرے۔ یہ درجہ تقلید سے بلند ہے، لیکن مجتہد کے درجے سے کم ہے۔ چناچہ بعض یونہی کہہ دیتے ہيں میں کسی کی تقلید نہيں کرتا حالانکہ درحقیقت وہ عامی وجاہل ہوتا ہے، بلکہ کبھی تو فاسق وفاجر وخبیث ہوتا ہے اور ان مکارانہ اسالیب کے ذریعے وہ علماء کرام پر طعن اور ان سے لوگوں کو متنفر کرنا چاہتا ہے۔
پس نوجوانوں کو چاہیے کہ اس قسم کے بیوقوفوں کے دام فریب سے بچیں کہ جو علماء کرام پر طعن اس خوبصورت جملے کے ساتھ لپیٹ کرکررہے ہوتے ہیں کہ : میں فلاں کی تقلید نہيں کرتا۔ ہم ان سے کہتے ہیں: تمہیں کہتا کون تقلید کرنے کو اگر تم واقعی طالبعلم ہوتے؟! لیکن اگر یہ عالم جس کے بارے میں تم کہہ رہے ہو کہ میں اس کی تقلید نہيں کرتا، اس کے پاس حق ہو، تو کیا تمہارے لیے جائز ہوگا کہ اس حق کو ٹھکرا دو جو اس کے پاس ہے اس قسم کی اوٹ پٹانگ باتوں کے ذریعے جسے تم کہتے تو تقلید ہو مگر مراد اس سے باطل ہوتی ہے؟!!
ہم نوجوانوں کو اس خسیس قسم کے اسلوب سے خبردار کرتے ہیں، یہ بات بہت ہی زیادہ کثرت کے ساتھ عوام جیسے لوگوں بلکہ بعض تو عوام کے اخلاقی و دینی درجے سے بھی گرے ہوئے لوگوں میں عام ہے۔یہ بیماری بہت سے لوگوں کے دلوں میں پھیل چکی ہے: میں تقلید نہیں کرتا، میں تقلید نہیں کرتا! انٹرنیٹ پر، منظر عام پر اور بہت سی جگہوں پر یہ بالکل عام ہوچکا ہے کہ: میں تقلید نہیں کرتا۔ حالانکہ ہوتا وہ جاہل ہے، بلکہ ممکن ہے تقلید تک صحیح طو رپر اسے کرنا نہ آتی ہو اتباع تو دور کی بات رہی، اور اجتہاد تو اس سے بعید بات ہے۔
پس میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ادب سیکھیں اور تواضع اختیار کریں، اور علماء کرام کا احترام کریں، اور اس برے لہجے کو دور پھینک دیں جو وہ رٹتے رہتے ہیں، جیسا کہ خوارج رٹا کرتے تھے کہ: ’’لاحکم الا للہ‘‘ (نہيں ہے حکم مگر صرف اللہ تعالی کا) جس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ:
’’كَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ‘‘([2])
(بات تو حق ہے لیکن اس سے مراد باطل لی گئی ہے)۔
میں ا س پر اللہ تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ جہاں تک میں نے اس کا کھوج لگایا اور اندازہ کیا ہے تو واقعی یہ لوگ اس سے باطل چاہتے ہیں، اور چاہتے ہيں کہ نوجوان علماء کرام سے بے نیاز ہوجائيں۔ پس اللہ تعالی اہل مکرو فریب کو تباہ وبرباد کرے، اور اللہ تعالی ان کے مکرو فریب کو اس امت اور اس دین پر سے پھیر دے۔
[1] اعلام الموقعین 2/237-238۔
[2] صحیح مسلم 1068۔