Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.16K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[Urdu Audios] Explanation of Kitaab-ut-Tawheed (introduction) 1 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
القول المفيد على كتاب التوحيد (مقدمہ) 1 – شیخ محمد بن صالح العثیمین
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/sharh_kitab_ut_tawheed_uthaimeen_000a.mp3

Explanation of "Kitaab-ut-Tawheed" (Introduction) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شرح کتاب التوحید ’’مقدمہ‘‘ – شیخ صالح بن فوزان الفوزان
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_muqaddamah.mp3

[Urdu Article] Explanation of "Kitaab-ut-Tawheed" (Introduction) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
شرح کتاب التوحید ’’مقدمہ‘‘
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_muqaddamah.pdf
[Urdu Article] Demonstrations against government is not from the Salafee Manhaj – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
حکومت مخالف مظاہرات سلفی طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
[Urdu Article] Are demonstrations against government a form of Dawah? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
کیا حکومت مخالف مظاہرات بھی دعوت کے وسائل میں سےہیں؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/kiya_hukumat_mukhalif_muzahiray_wasail_dawah_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ رحمہ اللہ سے شعبان سن 1412ھ جدہ میں ایک آڈیو کیسٹ میں پوچھا گیا کہ : کیا مردوں اور عورتوں کے حکمران وحکومت مخالف مظاہرات (احتجاجی جلسے جلوس، ریلیاں، مارچ ودھرنے وغیرہ) بھی دعوتی وسائل میں سے ایک وسیلہ شمار ہوں گے؟ اور کیا اس مظاہرے میں مرنے والے فی سبیل اللہ شہید کہلائے جائیں گے؟
آپ رحمہ اللہ نے یہ جواب ارشاد فرمایا:
میں ان مردوزن کے مظاہرات کو مسئلے کا علاج نہیں سمجھتا بلکہ میرے خیال میں تو یہ اسباب شروفتن اور لوگوں کے آپس میں بغض وعداوت اور ایک دوسرے پر زیادتی کا سبب ہیں۔ جبکہ شرعی اسباب تو خط لکھنا، نصیحت کرنا اور ان شرعی طریقوں کو بروئے کار لاکر خیر کی جانب دعوت دینا جن کی اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورخیر کے ساتھ ان کی اتباع کرنے والے اہل علم نے تشریح فرمائی ہے کہ خط لکھا جائے یا حاکم، امیر وسلطان سے بالمشافہ بات کی جائے، یا ٹیلی فون کے ذریعہ اسے نصیحت کی جائے، ناکہ منبر پر کھڑے ہوکر اس کی تشہیر کی جائے کہ اس نے یہ کیا اس سے یہ صادر ہوا وغیرہ، واللہ المستعان۔
اور آپ رحمہ اللہ نے عبدالرحمن عبدالخالق (سابق امیر جمعیت احیاء التراث، کویت) پر لکھے گئے ردکے دوران فرمایا:
چھٹی بات یہ کہ آپ نے اپنی کتاب میں ’’فصول من السیاسۃ الشرعیۃ‘‘ (شرعی سیاست سے متعلق فصول) ص 31، 32 میں ذکر کیا کہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسالیبِ دعوت میں سے مظاہرات بھی تھے!حالانکہ مجھے اس معنی پر دلالت کرنی والی کوئی دلیل نہیں ملی، امید ہے کہ آپ کسی کے کلام کی جانب ہماری رہنمائی کریں گے یا کس کتاب میں آپ نے ایسا لکھا ہوا پایا ہے؟
بصورت دیگر اگر آپ کے پاس اس بارے میں کوئی مستند نہیں تو آپ پر اس مسئلے سے رجوع کرنا واجب ہے، کیونکہ میں نصوص میں سے کوئی ایسی نص نہیں پاتا جو اس پر دلالت کرتی ہو۔ خاص طور پرجبکہ یہ بات معلوم ہے کہ ان مظاہرات سے بہت سے مفاسد جنم لیتے ہیں بایں صورت اگر واقعی کوئی صحیح دلیل اس بارے میں موجود ہے تو اسے مکمل وضاحت کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ کم از کم فسادی لوگ اپنے باطل مظاہرات کی ترویج تو نہ کریں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو علم نافع اور عمل صالح کی توفیق عنایت فرمائے۔ اور یہ کہ وہ ہمارے دلوں اور اعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں بھٹکوں کو راہ ہدایت دکھانے والا بنادے۔ بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/245)
اس خط کے جواب میں عبدالرحمن عبدالخالق کی جانب سے دئے گئے جواب پر شیخ رحمہ اللہ نے مندرجہ ذیل جواب ارسال فرمایا:
عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کی طرف سے حضرت فرزند مکرم فضیلۃ الشیخ عبدالرحمن بن عبدالخالق کے نام خط:
اللہ تعالی آپ کو اس کام کی توفیق دے جس میں اس کی رضا ہو اور آپ کے ذریعے اپنے دین کی نصرت فرمائے۔ آمین۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، امابعد:
مجھے آپ کا عمدہ جواب موصول ہوا اور اس میں آپ کی جانب سے میری کی گئی وصیت پر موافقت سے بہت خوشی ہوئی۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ آپ کو مزید توفیق عنایت فرمائے اور ہمیں اور آپ کو بھٹکوں کو راہ دکھانے والا بنادے، بے شک وہ جواد وکریم ہے۔
جو حدیث([1]) آپ نے مظاہروں کے حق میں بیان کی ہے وہ ہم سمجھ چکے ہیں لیکن ہمارےعلم کے مطابق اس کی سندضعیف ہے، کیونکہ اس کا دارومدار اسحاق بن ابی فروہ پر ہے جبکہ (اس کے بارے میں علماء جرح وتعدیل کا کلام ہے کہ ) اس سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی۔ اور بالفرض اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ابتدائی اسلام اور قبل از ہجرت کی بات ہے جبکہ شریعت ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔
حالانکہ یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ امر ونہی اور تمام امور دین میں بعد ازہجرت جب تمام شریعت مقرر ہوگئی تھی کا اعتبار کیا جاتا ہے۔اور جو آپ نے جمعہ وعیدین اور اس جیسے دیگر اجتماعات جن کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو بلایا جیسے سورج گرہن ونماز استسقاء وغیرہ سے دلیل پکڑی ہے تو عرض ہے کہ یہ شعائرِ اسلام کے اظہار کے لئے تھا ان کا مظاہرات سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ کسی پر یہ امر مخفی نہیں۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مجھے ، آپ کو اور تمام بھائیوں کو مزید علم نافع اور عمل صالح سے بہرہ ور فرمائے۔ اور ہمارے قلوب واعمال کی اصلاح فرمادے۔ اور ہمیں، آپ کو اور تمام مسلمانوں کو فتنوں کی گمراہیاں ا
ور شیطان کے وساوس سے محفوظ فرمائے۔ بے شک وہ ہی سوال کئے جانے والوں میں سے سب سے بہتر ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
(مجموع فتاوی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ 8/246)
[1] مکمل حدیث یہ ہے ابو نعیم نے الحلیۃ (1/40)میں بیان کیا کہ: ’’أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج بعد إسلام عمر – رضي الله عنه – على رأس صفين من أصحابه، وعلى الأول منهما عمر – رضي الله عنه -، وعلى الثاني حمزة – رضي الله عنه – رغبة في إظهار قوة المسلمين، فعلمت قريش أن لهم منعة‘‘ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے بعد اپنے صحابہ کی دوصفوں کی قیادت کرتے ہوئے نکلے پہلی صف کی سربراہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کررہے تھے جبکہ دوسری کی سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کررہے تھے تاکہ مسلمانوں کی قوت وشوکت کو ظاہر کریں، پس قریش پر ان کی قوت وشوکت کی دھاک بیٹھ گئی کہ اب ہمیں دست درازی اور ایذاء رسانی سے روکنے والے آگئے ہیں)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[Urdu Article] An interview with Shaykh Abdullah Al-Bukhaaree (hafidaullaah) – elbukhari.com
شیخ عبداللہ بن عبدالرحیم البخاری حفظہ اللہ کے ساتھ ایک انٹرویو
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ البخاری ڈاٹ کام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ سے مندرجہ ذیل سوالات پوچھے گئے:
سوال 1: شیخ صاحب ہمیں براہ کرم اپنا مکمل نام اورنسبت کے بارے میں کچھ بتائیں؟
سوال2: بارک اللہ فیکم، کیا آپ ہمیں اپنی جائے پیدائش کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
سوال 3: شیخ بارک اللہ فیکم، کیا آپ ہمیں اپنے والد محترم شیخ عبدالرحیم سے متعلق کچھ تفصیل بتانا پسند کریں گے؟
سوال 4: بارک اللہ فیکم، شیخ کیا آپ ہمیں ذرا اپنے طلبِ علم اور مشایخ کرام کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟
سوال 5: شیخ کیا آپ کی سماحۃ العلامہ عبدالعزیز بن باز، علامہ محمد العثیمین اور علامہ الالبانی s سے بھی ملاقات رہی؟
سوال 6: کیا آپ بتائیں گے کہ آپ کو کن کن اہل علم نے اجازہ دی ہے؟
سوال 7: بارک اللہ فیکم شیخ کیا آپ اپنی علمی اہلیت کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟
سوال 8: احسن اللہ الیکم، شیخ آپ کچھ اپنی مؤلفات کا بھی ذکر کیجئے؟
سوال 9: احسن اللہ الیکم: کیا آپ ہمیں ان کتابوں کے بارے میں بتائیں گے جو آپ نے پڑھی ہیں حفظکم اللہ؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/interview_shaykh_abdullaah_bukharee.pdf
[Urdu Article] A letter of Shaykh Badee-ud-Deen Shaah Ar-Rashidee As-Sindee (rahimaullaah) – Shaykh Abdullaah bin Abdur Raheem Al-Bukharee
شیخ بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کا خط
فضیلۃ الشیخ عبداللہ بن عبدالرحیم البخاری حفظہ اللہ
(اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ السنۃ ومصادرھا، کلیہ الحدیث الشریف و الدسارات الاسلامیہ، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے مقالہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sh_badee_ud_deen_shaah_khat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدُ لله ربِّ العالمين والصَّلاة والسَّلام على نبيِّنا محمَّدٍ وآله وصحبه أجمعين، وبعدُ:
اللہ تعالی ہمارے شیخ العلامہ المحدث السلفی بدیع الدین شاہ الراشدی السندی پر وسیع رحمت فرمائے۔بلاشبہ ہمارے شیخ اپنے سنت سے تمسک اور اس کے دفاع کے تعلق سے بہت مشہور ومعروف ہيں، اور آپ کے متعصب مقلدین یا مختلف اصناف واقسام کے مخالفینِ سنت پر ردود بھی ظاہر وبین ہیں ہر اس شخص کے لیے جسے ان کی معرفت ہے۔
اور یہ جو میں یہاں ذکر کرنے جارہا ہوں وہ صرف ان کی اس بھلائی کے اعتراف میں، اور ان کا جو ہم پر حق بنتا ہےاس سے وفاء کرتے ہوئے بیان کررہا ہوں۔ ان باتوں میں سے جو میں اس مقام پر ذکر کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میرے اور میرے شیخ علامہ بدیع الدین السندی رحمہ اللہ کے مابین خط ومراسلات آپ کی وفات سے تقریباً ایک ماہ پہلے ہوئی، اور آپ رحمہ اللہ نے اس خط میں یہ لکھا کہ:
بسم الله الرحمن الرحيم
الحمد لله والصلاة والسلام على نبيه وخليله محمد المصطفى صلى الله عليه وسلم.
مکرم بھائی شیخ ابو اسامہ عبداللہ بن عبدالرحیم بن حسین البخاری ﷾ کی طرف،
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اما بعد:
مجھے آپ کا خط ملا جس سے مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں نے اس کے ذریعے آپ کی اپنے بھائی کے لیے سچی محبت کو پایا ، اور اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ اس محبت کو گزرتے دنوں کے ساتھ قائم ودائم رکھے۔ آپ کی تجویذ کے مطابق میں آپ کی حسب منشاء روایت کی اجازہ ارسال کررہا ہوں۔ اور یہی تعلق ہوتا ہے اہل سنت کا آپس میں۔ اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اسے گزرتے ایام کے ساتھ دوام بخشے۔
اور میں آپ سے جلوت وخلوت میں میرے لیے دعاء کی درخواست کرتا ہوں، اور یہ کہ اللہ تعالی ہمیں اس پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان میں ثابت قدمی عطاء فرمائے، اور ہمیں دونوں شرف والی اصل یعنی کتاب وسنت پر عمل کی توفیق دیتا رہے، کیونکہ کسی مسلمان کے لیے ان دو کے سوا کوئی جائے پناہ اور راہ نجات نہيں، اور توفیق دینا تو محض اللہ تعالی ہی کے اختیار میں ہے۔
آخر میں میں اللہ تعالی سے اپنے، آپ کے اور تمام مسلمانوں کے لیے دعاء کرتا ہوں کہ وہ ہمیں ایمان پر اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت پر ثابت قدم رکھے، اور ہمارا خاتمہ بالخیر ہو۔
اور اللہ تعالی اس بندے پر رحم فرمائے جو اس پر آمین کہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
میں (عبداللہ البخاری) یہ کہتا ہوں کہ یہ خط مؤرخہ 15 رجب 1416ھ کا ہے، اور آپ (اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اور بخشش فرمائے) کی وفات 18 شعبان 1416ھ کی ہے اس تحریر کے مطابق جو میں نے اس خبر کے ملنے کے فوراً بعد آپ کے خط پر درج کی تھی۔
آپ کے اس مشفقانہ خط میں غور کرنے والے کے لیے اس کا سنت سے بھرپور ہونا بالکل عیاں ہے، اور یہی آپ کی دعوت وسیرت تھی، اللہ تعالی آپ پر رحم فرمائے اور مغفرت فرمائے۔ میں اللہ تعالی سے اس کے اسمائے حسنیٰ اور صفات عالیہ کے واسطے سے دعاء کرتا ہوں کہ وہ ہمارے شیخ اور ان کے علاوہ بھی ہمارے تمام مشایخ کی مغفرت فرمائے۔ اور امت کو ان کا بہترین نعم البدل عطاء فرمائے، اور جو ان میں سے باقی ہیں ان کی حفاظت فرمائے، اور ہم تمام لوگوں کو اسلام وسنت پر ثابت قدمی دے یہاں تک کہ ہم اس سے ملاقات کریں، بلاشبہ وہ دعائوں کا سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔
وكتب
عبد الله بن عبد الرَّحيم البخاري
(تنبیہ: اس مقالے کی اصل شیخ حفظہ اللہ کا ویب سائٹ سحاب السلفیۃ پر 7، مارچ 2009ع میں طارق علی بروہی کی پوسٹ’’فکر آخرت: شیخ محدث بدیع الدین شاہ سندھی رحمہ اللہ کا آخری خطاب‘‘ پر تعلیق ہے ماخوذ ہے)
[Urdu Article] The reasons behind writing the book "Manhaj-ul-Anbiyah" – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کتاب ’’منہج الانبیاء فی الدعوۃ الی اللہ‘‘ کو لکھنے کی غرض وغایت
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل، مقدمۃ طبع اول۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/kitaab_manhaj_ul_anbiyah_likhne_ka_maqsad.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ان الحمدللہ ،نحمدہ ونستعینہ ونستغرہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا ،من یھدہ اللہ فلا مضل لہ، ومن یضلل فلا ھادی لہ ،وأشھد ان لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ، وأشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ الکافرون ،وبعد:
اس موضوع کو اختیار کرنے کے لئے مجھے چند وجوہات نے ابھارا، جن میں سے اہم یہ ہیں:
1- بلاشبہ امت اسلامیہ مختلف شعبوں میں اختلاف کا شکار ہے عقیدہ ہو یا اس کے علاوہ دوسرے شعبے، اس کے راستے جدا جدا ہو گئے ہیں،لہذا اس امت پر مصائب کی بھرمار ہے، جو کہ نتیجہ ہے اس تفرقے کا اور اختلافی مسائل میں اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو فیصلہ کن نہ بنانے کا، جس کی انتہاء وجسامت اللہ ہی جانے کہ صفوں میں پھوٹ پڑتی جائے،آپس میں اختلافات وجھگڑوں کی آگ بھڑکتی رہے، پھر دشمنان اسلام ان کے ملکوں پر غالب آتے جائيں،جو ان پر ظلم واستبداد کا راج کریں اور انہيں ذلیل کرتے جائیں۔
2- امت کی اصلاح اور ان کی نجات کے لیے مختلف فکری رجحانات کا اسلامی منظر عام پر اپنے طریقوں اور مناہج کے ساتھ درآنا۔
جن میں چند سیاسی تھے۔
چند فکری۔
اور چند روحانی ۔
ان تمام نکتہ ہائےنظر اور مکاتبِ فکر کے پیش کرنے والوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انہی کی پیش کر دہ فکر وہ برحق اسلامی منہج ہے جس کی پیروی واجب ہے ، اور اس فکر کے علاوہ اور کوئی فکر امت کو بچا نہيں سکتی۔
ان دونوں اہم اسباب نے اور ان کے علاوہ اور کئی اسباب نے مجھے عظیم ترین اور اہم ترین واجبات میں سے ایک واجب کی ادائیگی پر ابھارا کہ میں دعوت الی اللہ میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کا منہج کتاب و سنت کی روشنی میں واضح کروں، اور اس منہج کی وہ خوبیاں بیان کروں جس میں کوئی اس کا ساجھی نہيں، اور یہ بیان کروں کہ صرف اس اکلوتے طریقے کی پیروی ہی لازم ہے، کیوں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ تک پہنچنے، اور اس کی رضا حاصل کرنے کا یہی ایک تنہا راستہ ہے،اور یہی امت مسلمہ کو زوال سے نکال کر دنیا کی قیادت اور آخرت کی سعادت تک پہنچانے کا واحد راستہ ہے۔
بعد ازیں عرض ہے کہ:
بے شک اللہ تعالیٰ خالق ،باری(عدم سے وجود بخشنے والا)، علیم و حکیم ہے ۔اس نے اس عظیم کائنات کو پیدا فرمایا اوراس کی تدبیر فرمائی، اپنے ہر چیز کا احاطہ کرنے والے علم،حکمت بالغہ اور قدرت کاملہ وشاملہ سے اسے منظم فرمایا، ایسی جلیل القدر حکمتوں اور قابل ستائش اغراض ومقاصد کی خاطر جو کسی بھی قسم کے بیکارکام، باطل اور کھیل تماشےسے بہت بعید ہے۔ فرمان الہٰی ہے:
﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لٰعِبِيْنَ،مَا خَلَقْنٰهُمَآ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ (الدخان:٣٨- ٣٩)
( ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو کھیل کے طور پر نہیں پیدا کیا، بلکہ انہيں نہيں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ ،لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں جانتے)
﴿حٰـم، تَنْزِيْلُ الْكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الْعَزِيْزِ الْحَكِيْمِ، مَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ اِلَّا بِالْحَـقِّ وَاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا عَمَّآ اُنْذِرُوْا مُعْرِضُوْنَ﴾ (الاحقاف: 1-3)
(حم، اس کتاب کا اتارنا اللہ کی طرف سے ہے جو سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو ان دونوں کے درمیان ہے حق اور مقررہ میعاد ہی کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا اس چیز سے جس سے وہ ڈرائے گئے، منہ پھیرنے والے ہیں)
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کو پیدا کر کے اس عظیم حکمت اور شریف مقصد کی نشان دہی کی جس کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے ، فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ، مَآ اُرِيْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّمَآ اُرِيْدُ اَنْ يُّطْعِمُوْنِ، اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ﴾ (الذاریات: 56-58)
(میں نے جن اور انس کو نہیں پیدا کیا مگر محض اس لئے کہ وہ میری عبادت کریں، نہ میں ان سے کوئی رزق چاہتا ہوں اور نہ میری یہ چاہت ہے کہ وہ مجھے کھلائیں، بے شک خود اللہ تعالی ہی سب کو رزق دینے والا، بہت طاقت والا اورنہایت مضبوط ہے)
اور فرمایا:
﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّاَنَّكُمْ
اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ، فَتَعٰلَى اللّٰهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ﴾ (المؤمنون:115-116)
( کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں یونہی فضول پیدا کیا ہے اور تمہیں ہماری طرف کبھی پلٹنا ہی نہیں ہے؟ پس بلند و بالا ہے اللہ جو حقیقی بادشاہ ہے، کوئی معبودِ برحق نہیں سوائے اس کے، وہ عرش عظیم کا رب ہے)
فرمان الہٰی ہے:
﴿اَيَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ يُّتْرَكَ سُدًى﴾ (القیامۃ: 36)
( کیا انسان نے یہ سمجھ رکھا ہے اسے بیکار چھوڑ دیا جائے گا؟)
یعنی اسے کوئی حکم نہیں دیا جائے گا اور کسی چیز سے روکا نہیں جائے گا!
اور فرمایا:
﴿تَبٰرَكَ الَّذِيْ بِيَدِهِ الْمُلْكُ ۡ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرُۨ،الَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيٰوةَ لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ﴾ (الملک:1-2)
(نہایت بابرکت ہے وہ جس کے ہاتھ میں (ہر قسم کی) بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت والا ہے، جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون زیادہ اچھا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور بخشنے والا بھی)
پس اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ اس نے بے شک انسانوں کو نہيں پیدا فرمایا مگر ایک ابتلاء وآزمائش کے لیے، تاکہ دیکھا جائے کہ کون عمل کے اعتبار سے احسن ہے سب سے بہتر ہے، اللہ تعالی کے منہج کا پیروکار رہ کر اوراس کے رسولوں کی پیروی کر کے۔
فرمانِ الہٰی ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ، الَّذِىْ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً، وَّاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ:21-22)
(اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تم کو پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے تھے ،تاکہ تم بچ جاؤ۔ وہ وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو فرش بنایا اور آسمان کو چھت بنایا ،اور آسمان سے پانی اتارا پھر اس کے ذریعے سے کئی اقسام کے پھل تمہارے لئے بطور رزق نکالے، تو پھر تم جانتے بوجھتے اللہ کے برابر والے نہ بناؤ)
پھر انہیں حکم دیا کہ وہ اس مقصد کو پورا کریں جس کے لئے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔
اور انہیں بتلایا کہ اس نے ان کے لئے وہ تمام اسباب وافر مقدار میں مہیا کئے ہیں جو ان کے لئے اس عظیم مقصد پر عمل پیرا ہونے میں معاون و مددگار ہیں، اورانہیں اس مقصد سے ہٹنے اور ان عظیم نعمتوں کی ناقدری سے یہ کہہ کر ڈرایا کہ: ’’یہ سب جانتے بوجھتے تم اللہ کے برابر والے نہ بناؤ‘‘۔
اور فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِيْٓ اٰدَمَ وَحَمَلْنٰهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ وَفَضَّلْنٰهُمْ عَلٰي كَثِيْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيْلًا﴾ (الاسراء:۷۰)
(اوریقیناً تحقیق ہم نے اولادِ آدم کو عزت بخشی اور انہیں خشكی اور سمندر میں سواریاں عطاء کیں ،اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا، اورانہیں اپنی بہت سی مخلوقات پر نمایاں فضیلت بخشی)
اللہ تعالی نے انسان کو اس اکرام سے نہیں نوازا اور نہ ہی اسے اس بلند مقام پر فائز کیا مگر اسی مقصد کی وجہ سے جس کے لئے اس کو پیدا کیا گیا یعنی صرف اکیلے اللہ کی عبادت ،اس کی تعظیم اور تمام عیوب اور شریکوں سے اس کی تنزیہ (پاک قرار دینا) ہے ،اللہ تعالیٰ ان تمام (عیوب ،نقائص اور شریکوں) سے بہت بلند وبالا ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے اکرام کو اور کائنات میں اس کی منزلت کو اس درجے بلند کیا، اور بلاشبہ یہ ساری کائنات اسی کی راحت اور سعادت کے لئے مسخر کردی، تاکہ وہ اپنے مقررہ کام کو انجام دے اور اپنے اس مقصد کوہر زاویے سے اکمل طور پر پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اٹھ کھڑا ہو جس کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔
فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ لِّعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَيُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خِلٰلٌ،اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَخْرَجَ بِهٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ ۚ وَسَخَّــرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِهٖ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْهٰرَ، وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ، وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ ۭ وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا ۭ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌ﴾ (ابراہیم:٣١-٣٤)
(آپ میرے ان بندوں سے کہیں جو ایمان لائے ہیں کہ نماز قائم کریں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر (اللہ تعالی کی راہ میں) خ
رچ کرتے رہیں ،اس دن کے آنے سے پہلے جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ ہی دوستی یاری (کام آئے گی)۔ اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اورآسمان سے پانی برسایا پھر تمہاری روزی کے لئے اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل نکالے، اور کشتی کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ وہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے پھرے، اور نہروں ندیوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا، اور تمہارے لئے سورج اور چاند کو بھی مسخر کردیا جو لگاتار چل رہے ہیں، اور دن و رات کو بھی تمہارے لیے مسخر کردیا(تمہارے کام پر لگا دیا)۔ اور تمہیں تمہاری منہ مانگی سب چیزوں میں سے دے رکھا ہے، اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گننا چاہو تو انہیں گن تک نہیں پاؤ گے۔ یقیناً انسان بڑا ظالم اور نا شکر ا ہے)
شیخ ربیع ہادی عمیر المدخلی
(مدینہ نبویہ)
[Urdu Audios] Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 001 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 001- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 1: اللہ تعالی کے نزدیک محبوب ترین اعمال۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_028.mp3

Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 002 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 002- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 2: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کب پڑھا کرتے تھے؟
حدیث 3: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پنج وقتہ نمازیں کن اوقات میں پڑھا کرتے تھے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_029.mp3

Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 003 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 003- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 4: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرض نمازیں کن اوقات میں پڑھا کرتے تھے؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_030.mp3

Explanation of 'Umada-tul-Ahkaam (Kitaab-us-Salaah) – 004 – Shaykh Muhammad bin Saaleh Al-Uthaimeen
تنبيه الأفهام شرح عمدة الأحكام (کتاب الصلاة) 004- شیخ محمد بن صالح العثیمین
2- کتاب الصلاۃ
باب المواقیت
حدیث 5: فوت شدہ نمازوں کی قضاء کا حکم، اور صلاۃ الوسطی سے کیا مراد ہے؟
حدیث 6: عشاء کی نماز کو اس کے اول سے مؤخر کرکے پڑھنے کا حکم؟
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/02/sharh_umadatul_ahkaam_uthaimeen_030b.mp3
[Urdu Article] Ways to adopt the Islaamic manners – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz
اسلامی اخلاق سے آراستہ ہونے کے معاون ذرائع
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء السابع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/islami_akhlaq_apnanay_k_muawin_zarai.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: سماحۃ الشیخ ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ بعض ایسے اسباب بیان فرمائیں جو اسلامی اخلاق سے آراستہ ہونے میں معاون ہوں؟
جواب: اس بارے میں جو معاون ذرائع ہیں وہ باکثرت تلاوت ِقرآن اس کے معانی پر تدبر کے ساتھ۔ اور اس بات کی سخت کوشش کی جائے کہ جو کچھ اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ نیک بندوں کی صفات اس میں بیان کی ہیں انہیں اپنایا جائے۔ پس یہ بات اخلاقِ فاضلہ کو پانے میں معاون ہیں۔
اسی طرح سے نیک لوگوں کی صحبت اورمجلس اختیار کرنا۔ اور اخلاقیات سے متعلق صحیح احادیث کا مطالعہ کرنا۔
ساتھ ہی ماضی کی خبروں میں نیک صالح لوگوں کی صفات پرغورو تدبر کرنا جیسے سیرت ِنبوی وتاریخِ اسلامی۔
یہ سب باتیں معاون ہیں اخلاق فاضلہ کو اپنانے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے۔ اور باکثرت قرآن کریم کی تلاوت اور حاضر دلی وسچی رغبت کے ساتھ اس کے معانی پر غوروتدبر کرنا ان تمام ذرائع میں سب سے بڑھ کر ہے۔ ساتھ ہی جو کچھ سنت صحیحہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے اس پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔
اور اللہ تعالی ہی توفیق دینے والا ہے۔