[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #fasting the day of #Arafah falls on #Friday or #Saturday? – Various #Ulamaa
اگر یوم #عرفہ #جمعہ یا #ہفتے کو ہو تو ان کا #روزہ رکھنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ، تفہیم وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بارے میں فتوی کمیٹی، سعودی عرب، شیخ ابن عثیمین اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے فتاوی جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/arafah_juma_hafta_roza_hukm.pdf
اگر یوم #عرفہ #جمعہ یا #ہفتے کو ہو تو ان کا #روزہ رکھنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ، تفہیم وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس بارے میں فتوی کمیٹی، سعودی عرب، شیخ ابن عثیمین اور شیخ البانی رحمہم اللہ کے فتاوی جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/arafah_juma_hafta_roza_hukm.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] What to do in the case when the day of #Eid happens to be a #Friday? - #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
جب #جمعہ اور #عید ایک دن جمع ہوجائیں تو کیا کیا جائے؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتوى اللجنة الدائمة في ما إذا وافق يوم العيد يوم الجمعة رقم 21160 وتاريخ 8/11/1420 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/juma_aur_eid_aik_din_jama_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وعلى آله وصحبه ... أما بعد:
اس بارے میں بہت کثرت سے سوال ہوئے کہ عید کا دن اور جمعہ کا دین یعنی دو عیدیں ایک ہی دن میں باہم جمع ہوجائیں یعنی عید الفطر یا عید الاضحیٰ یوم جمعہ جو کہ ہفتہ وار عید کا دن ہے کے ساتھ جمع ہوجائیں، تو کیا اس شخص پر نماز جمعہ واجب ہے جو نماز عید میں شرکت کرچکا یا پھر اس کے لیے نماز عید ہی کافی ہے، اور وہ جمعہ کے بدلے ظہر پڑھے گا؟ اور کیا مساجد میں نماز ظہر کے لیے اذان دی جائے گی یا نہیں؟ اور آخر تک جو اس کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں۔ پس علمی تحقیقات وافتاء کی دائمی کمیٹی نے مندرجہ ذیل فتوی جاری کرنا مناسب سمجھا:
اس مسئلے پر مرفوع احادیث اور موقوف آثار موجود ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ ان سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے یہ پوچھا کہ: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی دو عیدیں ایک دن میں جمع ہوجائیں پائی ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ انہوں نے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ فرمایا: عید نماز پڑھی پھر جمعہ نماز کے لیے لوگوں کو رخصت دے دی اور فرمایا کہ:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ‘‘([1])
(جو چاہے تم میں سے نماز جمعہ پڑھے تو پڑھے)۔
2- اور جو اس کا شاہد مذکور ہوا ہے وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قَدِ اجْتَمَعَ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا عِيدَانِ، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ‘‘([2])
(تحقیق تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہيں، پس (عید نماز پڑھ لینے والوں میں سے) جو چاہے تو (یہ عید نماز) اسے جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم جمعہ پڑھیں گے)۔
3- اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آپ فرماتے ہیں: عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دو عیدیں جمع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید نماز پڑھائی اور فرمایا:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ فَلْيَأْتِهَا، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتَخَلَّفَ فَلْيَتَخَلَّفْ‘‘([3])
(جو چاہے جمعہ نماز میں آنا تو وہ آئے اور جو (جمعہ نماز کے لیے نہ آنا چاہے اور) بیٹھ رہنا چاہے تو بیٹھ رہے)۔
اور المعجم الکبیر کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں عید الفطر اور جمعہ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید نماز پڑھائی پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ قَدْ أَصَبْتُمْ خَيْرًا وَأَجْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُجَمِّعَ مَعَنَا فَلْيُجَمِّعْ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ فَلْيَرْجِعْ‘‘
(اے لوگو! بلاشبہ تحقیق تم لوگوں نے (یہا ں پر ہی) خیر اور اجر پا لیا ہے البتہ ہم جمعہ نماز پڑھیں گے، جو ہمارے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہے تو جمعہ پڑھے، اور جو اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ جانا چاہے تو وہ لوٹ جائے)۔
4- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اجْتَمَعَ عِيدَانِ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘([4])
(تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں، پس جو چاہے تو اسے یہ جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم ان شاءاللہ جمعہ پڑھیں گے)۔
5- امام ذکوان بن صالح رحمہ اللہ سے مرسل روایت ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں یوم جمعہ اوریوم عید پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید نماز پڑھائی اور کھڑے ہوکر لوگوں کو خطاب فرمایا کہ:
’’قَدْ أَصَبْتُمْ ذِكْرًا وَخَيْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُجَمِّعَ فَلْيُجَمِّعْ‘‘([5])
(تحقیق تم لوگوں نے ذکر اور خیر کو پالیا، اور ہم یقیناً جمعہ پڑھیں گے، پس جو چاہے کہ وہ (اپنے گھر میں) بیٹھ رہے تو وہ بیٹھ رہے، اور جو چاہے کہ جمعہ پڑھے تو وہ جمعہ پڑھے)۔
6- امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے فرمایا: ہمیں سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہما نے بروز جمعہ دن کے شروع میں نماز عید پڑھائی، پھر ہم جمعہ نماز کے لیے گئ
جب #جمعہ اور #عید ایک دن جمع ہوجائیں تو کیا کیا جائے؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتوى اللجنة الدائمة في ما إذا وافق يوم العيد يوم الجمعة رقم 21160 وتاريخ 8/11/1420 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/juma_aur_eid_aik_din_jama_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وعلى آله وصحبه ... أما بعد:
اس بارے میں بہت کثرت سے سوال ہوئے کہ عید کا دن اور جمعہ کا دین یعنی دو عیدیں ایک ہی دن میں باہم جمع ہوجائیں یعنی عید الفطر یا عید الاضحیٰ یوم جمعہ جو کہ ہفتہ وار عید کا دن ہے کے ساتھ جمع ہوجائیں، تو کیا اس شخص پر نماز جمعہ واجب ہے جو نماز عید میں شرکت کرچکا یا پھر اس کے لیے نماز عید ہی کافی ہے، اور وہ جمعہ کے بدلے ظہر پڑھے گا؟ اور کیا مساجد میں نماز ظہر کے لیے اذان دی جائے گی یا نہیں؟ اور آخر تک جو اس کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں۔ پس علمی تحقیقات وافتاء کی دائمی کمیٹی نے مندرجہ ذیل فتوی جاری کرنا مناسب سمجھا:
اس مسئلے پر مرفوع احادیث اور موقوف آثار موجود ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ ان سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے یہ پوچھا کہ: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی دو عیدیں ایک دن میں جمع ہوجائیں پائی ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ انہوں نے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ فرمایا: عید نماز پڑھی پھر جمعہ نماز کے لیے لوگوں کو رخصت دے دی اور فرمایا کہ:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ‘‘([1])
(جو چاہے تم میں سے نماز جمعہ پڑھے تو پڑھے)۔
2- اور جو اس کا شاہد مذکور ہوا ہے وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قَدِ اجْتَمَعَ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا عِيدَانِ، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ‘‘([2])
(تحقیق تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہيں، پس (عید نماز پڑھ لینے والوں میں سے) جو چاہے تو (یہ عید نماز) اسے جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم جمعہ پڑھیں گے)۔
3- اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آپ فرماتے ہیں: عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دو عیدیں جمع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید نماز پڑھائی اور فرمایا:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ فَلْيَأْتِهَا، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتَخَلَّفَ فَلْيَتَخَلَّفْ‘‘([3])
(جو چاہے جمعہ نماز میں آنا تو وہ آئے اور جو (جمعہ نماز کے لیے نہ آنا چاہے اور) بیٹھ رہنا چاہے تو بیٹھ رہے)۔
اور المعجم الکبیر کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں عید الفطر اور جمعہ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید نماز پڑھائی پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ قَدْ أَصَبْتُمْ خَيْرًا وَأَجْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُجَمِّعَ مَعَنَا فَلْيُجَمِّعْ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ فَلْيَرْجِعْ‘‘
(اے لوگو! بلاشبہ تحقیق تم لوگوں نے (یہا ں پر ہی) خیر اور اجر پا لیا ہے البتہ ہم جمعہ نماز پڑھیں گے، جو ہمارے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہے تو جمعہ پڑھے، اور جو اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ جانا چاہے تو وہ لوٹ جائے)۔
4- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اجْتَمَعَ عِيدَانِ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘([4])
(تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں، پس جو چاہے تو اسے یہ جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم ان شاءاللہ جمعہ پڑھیں گے)۔
5- امام ذکوان بن صالح رحمہ اللہ سے مرسل روایت ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں یوم جمعہ اوریوم عید پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید نماز پڑھائی اور کھڑے ہوکر لوگوں کو خطاب فرمایا کہ:
’’قَدْ أَصَبْتُمْ ذِكْرًا وَخَيْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُجَمِّعَ فَلْيُجَمِّعْ‘‘([5])
(تحقیق تم لوگوں نے ذکر اور خیر کو پالیا، اور ہم یقیناً جمعہ پڑھیں گے، پس جو چاہے کہ وہ (اپنے گھر میں) بیٹھ رہے تو وہ بیٹھ رہے، اور جو چاہے کہ جمعہ پڑھے تو وہ جمعہ پڑھے)۔
6- امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے فرمایا: ہمیں سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہما نے بروز جمعہ دن کے شروع میں نماز عید پڑھائی، پھر ہم جمعہ نماز کے لیے گئ
[#SalafiUrduDawah Article] In the #end_of_a_year specially speaking about the #events that took place in that year in #Friday_sermon - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#سال_کے_اختتام پر رواں سال ہونے والے #واقعات کا #خطبوں میں خصوصی ذکر کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ص 195۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/saal_ikhtitam_waqiat_guzishta_saal_bayan.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بعض خطیب ہر ہجری سال کے اختتام پر اپنے خطبات جمعہ کو رواں سال کے واقعات ذکر کرنے اور جو کچھ اس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوا بیان کرنے کے لیے مخصوص کردیتے ہيں ، ، بلکہ بعض مسلمان تو اسے باقاعدہ ایسا دن بنادیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہيں، پس کیا یہ عمل مشروع ہے؟
جواب: ہم اس کی کوئی اصل نہيں جانتے۔ اور جو ہجری تاریخ ہے اس سے یہ مقصود نہيں کہ سال کے آغاز کو کوئی تہوار، یادگار بنایا جائے اور اس کی باتیں ہوں، عید ہو، اور مبارکبادیں ہوں، بلکہ ہجری تاریخ تو محض مختلف عقد ومعاہدے وغیرہ کی تاریخوں میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب ان کے عہد میں خلافت میں کافی وسعت ہوگئی تھی، تو آپ کے پاس بِنا تاریخ کے تحریریں آتیں، لہذا انہیں اس کی ضرورت پڑی کہ وہ تاریخ مقرر کریں جن کے ذریعے ان خط وکتابت کی پہچان ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا پس سب نے مشورہ دیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اپنے ہجری سال کی ابتداء مقرر کرتے ہیں۔
اور انہوں نے میلادی (عیسوی) تاریخ کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس وقت موجود تھی، لیکن انہوں نے ہجرت کو لیا اور اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء بنائی تاکہ فقط مختلف خط وکتابت ودستاویزات کی معرفت ہوسکے، ناکہ اسے کوئی مانسبت وتہوار بنادیا جائے اور اس سے متعلق باتيں کی جائيں، یہ بات بڑھ کر بتدریج بدعت کی طرف چلے جائے گی۔
#سال_کے_اختتام پر رواں سال ہونے والے #واقعات کا #خطبوں میں خصوصی ذکر کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ص 195۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/saal_ikhtitam_waqiat_guzishta_saal_bayan.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بعض خطیب ہر ہجری سال کے اختتام پر اپنے خطبات جمعہ کو رواں سال کے واقعات ذکر کرنے اور جو کچھ اس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوا بیان کرنے کے لیے مخصوص کردیتے ہيں ، ، بلکہ بعض مسلمان تو اسے باقاعدہ ایسا دن بنادیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہيں، پس کیا یہ عمل مشروع ہے؟
جواب: ہم اس کی کوئی اصل نہيں جانتے۔ اور جو ہجری تاریخ ہے اس سے یہ مقصود نہيں کہ سال کے آغاز کو کوئی تہوار، یادگار بنایا جائے اور اس کی باتیں ہوں، عید ہو، اور مبارکبادیں ہوں، بلکہ ہجری تاریخ تو محض مختلف عقد ومعاہدے وغیرہ کی تاریخوں میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب ان کے عہد میں خلافت میں کافی وسعت ہوگئی تھی، تو آپ کے پاس بِنا تاریخ کے تحریریں آتیں، لہذا انہیں اس کی ضرورت پڑی کہ وہ تاریخ مقرر کریں جن کے ذریعے ان خط وکتابت کی پہچان ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا پس سب نے مشورہ دیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اپنے ہجری سال کی ابتداء مقرر کرتے ہیں۔
اور انہوں نے میلادی (عیسوی) تاریخ کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس وقت موجود تھی، لیکن انہوں نے ہجرت کو لیا اور اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء بنائی تاکہ فقط مختلف خط وکتابت ودستاویزات کی معرفت ہوسکے، ناکہ اسے کوئی مانسبت وتہوار بنادیا جائے اور اس سے متعلق باتيں کی جائيں، یہ بات بڑھ کر بتدریج بدعت کی طرف چلے جائے گی۔
[Article] In the end of a year specially speaking about the events that took place in that year in #Friday_sermon – Shaykh Saaleh bin Fawzaan Al-Fawzaan
سال کے اختتام پر رواں سال ہونے والے واقعات کا #خطبوں میں خصوصی ذکر کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ص 195۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/saal_ikhtitam_waqiat_guzishta_saal_bayan.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بعض خطیب ہر ہجری سال کے اختتام پر اپنے خطبات جمعہ کو رواں سال کے واقعات ذکر کرنے اور جو کچھ اس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوا بیان کرنے کے لیے مخصوص کردیتے ہيں ، ، بلکہ بعض مسلمان تو اسے باقاعدہ ایسا دن بنادیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہيں، پس کیا یہ عمل مشروع ہے؟
جواب: ہم اس کی کوئی اصل نہيں جانتے۔ اور جو ہجری تاریخ ہے اس سے یہ مقصود نہيں کہ سال کے آغاز کو کوئی تہوار، یادگار بنایا جائے اور اس کی باتیں ہوں، عید ہو، اور مبارکبادیں ہوں، بلکہ ہجری تاریخ تو محض مختلف عقد ومعاہدے وغیرہ کی تاریخوں میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب ان کے عہد میں خلافت میں کافی وسعت ہوگئی تھی، تو آپ کے پاس بِنا تاریخ کے تحریریں آتیں، لہذا انہیں اس کی ضرورت پڑی کہ وہ تاریخ مقرر کریں جن کے ذریعے ان خط وکتابت کی پہچان ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا پس سب نے مشورہ دیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اپنے ہجری سال کی ابتداء مقرر کرتے ہیں۔
اور انہوں نے میلادی (عیسوی) تاریخ کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس وقت موجود تھی، لیکن انہوں نے ہجرت کو لیا اور اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء بنائی تاکہ فقط مختلف خط وکتابت ودستاویزات کی معرفت ہوسکے، ناکہ اسے کوئی مانسبت وتہوار بنادیا جائے اور اس سے متعلق باتيں کی جائيں، یہ بات بڑھ کر بتدریج بدعت کی طرف چلے جائے گی۔
سال کے اختتام پر رواں سال ہونے والے واقعات کا #خطبوں میں خصوصی ذکر کرنا
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة، ص 195۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/saal_ikhtitam_waqiat_guzishta_saal_bayan.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:بعض خطیب ہر ہجری سال کے اختتام پر اپنے خطبات جمعہ کو رواں سال کے واقعات ذکر کرنے اور جو کچھ اس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوا بیان کرنے کے لیے مخصوص کردیتے ہيں ، ، بلکہ بعض مسلمان تو اسے باقاعدہ ایسا دن بنادیتے ہیں کہ ایک دوسرے کو مبارکبادیاں دیتے ہيں، پس کیا یہ عمل مشروع ہے؟
جواب: ہم اس کی کوئی اصل نہيں جانتے۔ اور جو ہجری تاریخ ہے اس سے یہ مقصود نہيں کہ سال کے آغاز کو کوئی تہوار، یادگار بنایا جائے اور اس کی باتیں ہوں، عید ہو، اور مبارکبادیں ہوں، بلکہ ہجری تاریخ تو محض مختلف عقد ومعاہدے وغیرہ کی تاریخوں میں تمیز کے لیے بنائی گئی تھی۔ جیسا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کہ جب ان کے عہد میں خلافت میں کافی وسعت ہوگئی تھی، تو آپ کے پاس بِنا تاریخ کے تحریریں آتیں، لہذا انہیں اس کی ضرورت پڑی کہ وہ تاریخ مقرر کریں جن کے ذریعے ان خط وکتابت کی پہچان ہوسکے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا پس سب نے مشورہ دیا کہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم اپنے ہجری سال کی ابتداء مقرر کرتے ہیں۔
اور انہوں نے میلادی (عیسوی) تاریخ کو چھوڑ دیا، حالانکہ وہ اس وقت موجود تھی، لیکن انہوں نے ہجرت کو لیا اور اسے مسلمانوں کی تاریخ کی ابتداء بنائی تاکہ فقط مختلف خط وکتابت ودستاویزات کی معرفت ہوسکے، ناکہ اسے کوئی مانسبت وتہوار بنادیا جائے اور اس سے متعلق باتيں کی جائيں، یہ بات بڑھ کر بتدریج بدعت کی طرف چلے جائے گی۔