[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #slaughtering_cows_in_India if it causes trouble for #Muslims? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
#ہندوستان میں خطرے کی صورت میں #گائے_ذبح کرنے کا حکم؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثاني والعشرون (الحدود>الذكاة والصيد)>الذكاة والصيد>ذبح البقر في الهند يعرض المسلم للخطر السؤال الثالث من الفتوى رقم ( 16403 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/india_gaye_zibah_khatrah_hukm.pdf
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: کیا ہمارے لیے ہندوستان میں گائے ذبح کرنا جائز ہے اگر اس گائے ذبح کرنے کے نتیجے میں ہمیں مارپیٹ، قتل ہوجانے اورلٹ جانے کا خطرہ ہو؟
جواب: اگر آپ کے ملک میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کے گوشت کو فروخت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرہ ہو اور شدید سزا کا اندیشہ ہو تو پھر بلاشبہ اس حالت میں ضرررسانی سے بچنے کی خاطر اسے ذبح کرنا اوراس کے گوشت کو بیچنا جائز نہیں۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ (البقرۃ: 195)
(اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو)
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن رکن نائب صدر
بكر أبو زيد عبد العزيز آل الشيخ صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي
صدر
عبد العزيز بن عبد الله بن باز
#ہندوستان میں خطرے کی صورت میں #گائے_ذبح کرنے کا حکم؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثاني والعشرون (الحدود>الذكاة والصيد)>الذكاة والصيد>ذبح البقر في الهند يعرض المسلم للخطر السؤال الثالث من الفتوى رقم ( 16403 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/india_gaye_zibah_khatrah_hukm.pdf
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: کیا ہمارے لیے ہندوستان میں گائے ذبح کرنا جائز ہے اگر اس گائے ذبح کرنے کے نتیجے میں ہمیں مارپیٹ، قتل ہوجانے اورلٹ جانے کا خطرہ ہو؟
جواب: اگر آپ کے ملک میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کے گوشت کو فروخت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرہ ہو اور شدید سزا کا اندیشہ ہو تو پھر بلاشبہ اس حالت میں ضرررسانی سے بچنے کی خاطر اسے ذبح کرنا اوراس کے گوشت کو بیچنا جائز نہیں۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ (البقرۃ: 195)
(اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو)
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن رکن نائب صدر
بكر أبو زيد عبد العزيز آل الشيخ صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي
صدر
عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[#SalafiUrduDawah Article] What to do in the case when the day of #Eid happens to be a #Friday? - #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
جب #جمعہ اور #عید ایک دن جمع ہوجائیں تو کیا کیا جائے؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتوى اللجنة الدائمة في ما إذا وافق يوم العيد يوم الجمعة رقم 21160 وتاريخ 8/11/1420 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/juma_aur_eid_aik_din_jama_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وعلى آله وصحبه ... أما بعد:
اس بارے میں بہت کثرت سے سوال ہوئے کہ عید کا دن اور جمعہ کا دین یعنی دو عیدیں ایک ہی دن میں باہم جمع ہوجائیں یعنی عید الفطر یا عید الاضحیٰ یوم جمعہ جو کہ ہفتہ وار عید کا دن ہے کے ساتھ جمع ہوجائیں، تو کیا اس شخص پر نماز جمعہ واجب ہے جو نماز عید میں شرکت کرچکا یا پھر اس کے لیے نماز عید ہی کافی ہے، اور وہ جمعہ کے بدلے ظہر پڑھے گا؟ اور کیا مساجد میں نماز ظہر کے لیے اذان دی جائے گی یا نہیں؟ اور آخر تک جو اس کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں۔ پس علمی تحقیقات وافتاء کی دائمی کمیٹی نے مندرجہ ذیل فتوی جاری کرنا مناسب سمجھا:
اس مسئلے پر مرفوع احادیث اور موقوف آثار موجود ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ ان سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے یہ پوچھا کہ: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی دو عیدیں ایک دن میں جمع ہوجائیں پائی ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ انہوں نے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ فرمایا: عید نماز پڑھی پھر جمعہ نماز کے لیے لوگوں کو رخصت دے دی اور فرمایا کہ:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ‘‘([1])
(جو چاہے تم میں سے نماز جمعہ پڑھے تو پڑھے)۔
2- اور جو اس کا شاہد مذکور ہوا ہے وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قَدِ اجْتَمَعَ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا عِيدَانِ، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ‘‘([2])
(تحقیق تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہيں، پس (عید نماز پڑھ لینے والوں میں سے) جو چاہے تو (یہ عید نماز) اسے جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم جمعہ پڑھیں گے)۔
3- اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آپ فرماتے ہیں: عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دو عیدیں جمع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید نماز پڑھائی اور فرمایا:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ فَلْيَأْتِهَا، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتَخَلَّفَ فَلْيَتَخَلَّفْ‘‘([3])
(جو چاہے جمعہ نماز میں آنا تو وہ آئے اور جو (جمعہ نماز کے لیے نہ آنا چاہے اور) بیٹھ رہنا چاہے تو بیٹھ رہے)۔
اور المعجم الکبیر کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں عید الفطر اور جمعہ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید نماز پڑھائی پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ قَدْ أَصَبْتُمْ خَيْرًا وَأَجْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُجَمِّعَ مَعَنَا فَلْيُجَمِّعْ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ فَلْيَرْجِعْ‘‘
(اے لوگو! بلاشبہ تحقیق تم لوگوں نے (یہا ں پر ہی) خیر اور اجر پا لیا ہے البتہ ہم جمعہ نماز پڑھیں گے، جو ہمارے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہے تو جمعہ پڑھے، اور جو اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ جانا چاہے تو وہ لوٹ جائے)۔
4- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اجْتَمَعَ عِيدَانِ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘([4])
(تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں، پس جو چاہے تو اسے یہ جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم ان شاءاللہ جمعہ پڑھیں گے)۔
5- امام ذکوان بن صالح رحمہ اللہ سے مرسل روایت ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں یوم جمعہ اوریوم عید پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید نماز پڑھائی اور کھڑے ہوکر لوگوں کو خطاب فرمایا کہ:
’’قَدْ أَصَبْتُمْ ذِكْرًا وَخَيْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُجَمِّعَ فَلْيُجَمِّعْ‘‘([5])
(تحقیق تم لوگوں نے ذکر اور خیر کو پالیا، اور ہم یقیناً جمعہ پڑھیں گے، پس جو چاہے کہ وہ (اپنے گھر میں) بیٹھ رہے تو وہ بیٹھ رہے، اور جو چاہے کہ جمعہ پڑھے تو وہ جمعہ پڑھے)۔
6- امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے فرمایا: ہمیں سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہما نے بروز جمعہ دن کے شروع میں نماز عید پڑھائی، پھر ہم جمعہ نماز کے لیے گئ
جب #جمعہ اور #عید ایک دن جمع ہوجائیں تو کیا کیا جائے؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتوى اللجنة الدائمة في ما إذا وافق يوم العيد يوم الجمعة رقم 21160 وتاريخ 8/11/1420 هـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/08/juma_aur_eid_aik_din_jama_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده وعلى آله وصحبه ... أما بعد:
اس بارے میں بہت کثرت سے سوال ہوئے کہ عید کا دن اور جمعہ کا دین یعنی دو عیدیں ایک ہی دن میں باہم جمع ہوجائیں یعنی عید الفطر یا عید الاضحیٰ یوم جمعہ جو کہ ہفتہ وار عید کا دن ہے کے ساتھ جمع ہوجائیں، تو کیا اس شخص پر نماز جمعہ واجب ہے جو نماز عید میں شرکت کرچکا یا پھر اس کے لیے نماز عید ہی کافی ہے، اور وہ جمعہ کے بدلے ظہر پڑھے گا؟ اور کیا مساجد میں نماز ظہر کے لیے اذان دی جائے گی یا نہیں؟ اور آخر تک جو اس کے بارے میں سوالات کیے جاتے ہیں۔ پس علمی تحقیقات وافتاء کی دائمی کمیٹی نے مندرجہ ذیل فتوی جاری کرنا مناسب سمجھا:
اس مسئلے پر مرفوع احادیث اور موقوف آثار موجود ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں:
1- سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ ان سے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے یہ پوچھا کہ: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی دو عیدیں ایک دن میں جمع ہوجائیں پائی ہیں؟ فرمایا: ہاں۔ انہوں نے پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ فرمایا: عید نماز پڑھی پھر جمعہ نماز کے لیے لوگوں کو رخصت دے دی اور فرمایا کہ:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يُصَلِّيَ فَلْيُصَلِّ‘‘([1])
(جو چاہے تم میں سے نماز جمعہ پڑھے تو پڑھے)۔
2- اور جو اس کا شاہد مذکور ہوا ہے وہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’قَدِ اجْتَمَعَ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا عِيدَانِ، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ‘‘([2])
(تحقیق تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہيں، پس (عید نماز پڑھ لینے والوں میں سے) جو چاہے تو (یہ عید نماز) اسے جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم جمعہ پڑھیں گے)۔
3- اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آپ فرماتے ہیں: عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں دو عیدیں جمع ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو عید نماز پڑھائی اور فرمایا:
’’مَنْ شَاءَ أَنْ يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ فَلْيَأْتِهَا، وَمَنْ شَاءَ أَنْ يَتَخَلَّفَ فَلْيَتَخَلَّفْ‘‘([3])
(جو چاہے جمعہ نماز میں آنا تو وہ آئے اور جو (جمعہ نماز کے لیے نہ آنا چاہے اور) بیٹھ رہنا چاہے تو بیٹھ رہے)۔
اور المعجم الکبیر کے الفاظ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں عید الفطر اور جمعہ، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عید نماز پڑھائی پھر ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:
’’يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّكُمْ قَدْ أَصَبْتُمْ خَيْرًا وَأَجْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ، فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُجَمِّعَ مَعَنَا فَلْيُجَمِّعْ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ فَلْيَرْجِعْ‘‘
(اے لوگو! بلاشبہ تحقیق تم لوگوں نے (یہا ں پر ہی) خیر اور اجر پا لیا ہے البتہ ہم جمعہ نماز پڑھیں گے، جو ہمارے ساتھ جمعہ پڑھنا چاہے تو جمعہ پڑھے، اور جو اپنے اہل وعیال کی طرف لوٹ جانا چاہے تو وہ لوٹ جائے)۔
4- سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اجْتَمَعَ عِيدَانِ فِي يَوْمِكُمْ هَذَا، فَمَنْ شَاءَ أَجْزَأَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ‘‘([4])
(تمہارے اس دن میں دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں، پس جو چاہے تو اسے یہ جمعہ نماز سے کفایت کرے گی، البتہ ہم ان شاءاللہ جمعہ پڑھیں گے)۔
5- امام ذکوان بن صالح رحمہ اللہ سے مرسل روایت ہے کہ فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دو عیدیں جمع ہوگئی تھیں یوم جمعہ اوریوم عید پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید نماز پڑھائی اور کھڑے ہوکر لوگوں کو خطاب فرمایا کہ:
’’قَدْ أَصَبْتُمْ ذِكْرًا وَخَيْرًا، وَإِنَّا مُجَمِّعُونَ فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَجْلِسَ فَلْيَجْلِسْ وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُجَمِّعَ فَلْيُجَمِّعْ‘‘([5])
(تحقیق تم لوگوں نے ذکر اور خیر کو پالیا، اور ہم یقیناً جمعہ پڑھیں گے، پس جو چاہے کہ وہ (اپنے گھر میں) بیٹھ رہے تو وہ بیٹھ رہے، اور جو چاہے کہ جمعہ پڑھے تو وہ جمعہ پڑھے)۔
6- امام عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے روایت ہے فرمایا: ہمیں سیدنا ابن الزبیر رضی اللہ عنہما نے بروز جمعہ دن کے شروع میں نماز عید پڑھائی، پھر ہم جمعہ نماز کے لیے گئ
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #staining_one's_forehead_with_the_blood of the #sacrificial_animal – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#ذبیحہ_کے_خون کے ساتھ اپنے #ماتھے_کو_خون_آلود_کرنا؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > الجماعة والفرقة والفرق > البدع والمحدثات > س4: ما معنى لطخ الجباه بدم الأضحية؛ لأني رأيت بعض المسلمين فاعلين ذلك، فسألتهم معناه فقال لي رجل من علماء البلد: كذلك فعل أصحاب سيدنا إبراهيم عليه السلام حيث ذبح أضحيته فطلبت منه كتاب… فتوی رقم 6667۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/zabiha_khoon_matha_rangna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کے ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کا کیا معنی ہے؟ کیونکہ میں نے بعض مسلمانوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو میں نے ان سے دریافت کیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک کے کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ: اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے کیا تھا جب انہوں نے اپنا ذبیحہ ذبح فرمایا تھا، تو میں نے ان سے وہ کتاب طلب کی جس میں یہ تاریخ لکھی ہو لیکن مجھے نہ ملی، اور میں ایک طالبعلم ہوں میرے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے اس عمل کا معنی ومراد پوچھ لوں؟
جواب: ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کے عمل کی ہمیں کوئی اصل وبنیاد نہيں معلوم، نہ کتاب سےنہ ہی سنت سے، اور نہ ہی ہم کسی صحابی کو جانتے ہيں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لہذایہ بدعت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
#ذبیحہ_کے_خون کے ساتھ اپنے #ماتھے_کو_خون_آلود_کرنا؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > الجماعة والفرقة والفرق > البدع والمحدثات > س4: ما معنى لطخ الجباه بدم الأضحية؛ لأني رأيت بعض المسلمين فاعلين ذلك، فسألتهم معناه فقال لي رجل من علماء البلد: كذلك فعل أصحاب سيدنا إبراهيم عليه السلام حيث ذبح أضحيته فطلبت منه كتاب… فتوی رقم 6667۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/zabiha_khoon_matha_rangna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کے ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کا کیا معنی ہے؟ کیونکہ میں نے بعض مسلمانوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو میں نے ان سے دریافت کیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک کے کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ: اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے کیا تھا جب انہوں نے اپنا ذبیحہ ذبح فرمایا تھا، تو میں نے ان سے وہ کتاب طلب کی جس میں یہ تاریخ لکھی ہو لیکن مجھے نہ ملی، اور میں ایک طالبعلم ہوں میرے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے اس عمل کا معنی ومراد پوچھ لوں؟
جواب: ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کے عمل کی ہمیں کوئی اصل وبنیاد نہيں معلوم، نہ کتاب سےنہ ہی سنت سے، اور نہ ہی ہم کسی صحابی کو جانتے ہيں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لہذایہ بدعت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
[#SalafiUrduDawah Article] Is #visiting the #grave_of_the_prophet (صلی اللہ علیہ وسلم) obligatory for the #pilgrims? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
کیا #قبر_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی #زیارت #حجاج کرام پر لازمی ہے؟
- #فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجم: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الحادي عشر (الحج والعمرة) > الحج والعمرة>آداب الزيارة>هل يلزم الحجاج زيارة قبر الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/qabr_rasool_ziyarat_hajj_zarori.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 10768 سوال 7:
کیا حجاج پر خواہ مرد ہوں یا عورتیں قبر رسول ﷺ کی زیارت واجب ہے اسی طرح بقیع(قبرستان)، (شہداء)اُحد اور (مسجد) قباء کی، یا پھر یہ صرف مردوں پر واجب ہے؟
جواب: حجاج مرد ہوں یا عورتيں کسی پر بھی قبر ِرسول ﷺ کی زیارت لازم نہيں ہے، نا ہی البقیع کی([1])۔ بلکہ قبروں کی زیارت کے لیے شد رحال (باقاعدہ ثواب کی نیت سے رختِ سفر باندھنا) مطلقا ًحرام ہے۔ اور خواتین پر تو شد رحال کے علاوہ بھی حرام ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِي هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([2])
(کجاوے نہ کسے جائیں (یعنی ثواب کے نیت سے باقاعدہ رخت ِسفر نہ باندھی جائے) سوائے تین مساجد کی طرف سفر کے لیے، مسجد الحرام، میری یہ مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ)۔
اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے([3])۔ لہذا عورتوں کے لیے کافی ہے کہ وہ مسجد نبوی میں نماز ادا کریں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر باکثرت درود وسلام بھجیں خواہ مسجد میں ہوں یا اس کے علاوہ۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] البتہ جو مرد حضرات مسجد نبوی کے لیے شد رحال کرکے جائیں تو ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر جاکر درود وسلام پڑھ سکتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح بخاری 1189، صحیح مسلم 1399۔
[3] صحیح ابن ماجہ 1291، صحیح الترمذی 1056 وغیرہ۔
کیا #قبر_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی #زیارت #حجاج کرام پر لازمی ہے؟
- #فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجم: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الحادي عشر (الحج والعمرة) > الحج والعمرة>آداب الزيارة>هل يلزم الحجاج زيارة قبر الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/qabr_rasool_ziyarat_hajj_zarori.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 10768 سوال 7:
کیا حجاج پر خواہ مرد ہوں یا عورتیں قبر رسول ﷺ کی زیارت واجب ہے اسی طرح بقیع(قبرستان)، (شہداء)اُحد اور (مسجد) قباء کی، یا پھر یہ صرف مردوں پر واجب ہے؟
جواب: حجاج مرد ہوں یا عورتيں کسی پر بھی قبر ِرسول ﷺ کی زیارت لازم نہيں ہے، نا ہی البقیع کی([1])۔ بلکہ قبروں کی زیارت کے لیے شد رحال (باقاعدہ ثواب کی نیت سے رختِ سفر باندھنا) مطلقا ًحرام ہے۔ اور خواتین پر تو شد رحال کے علاوہ بھی حرام ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’’لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ، وَمَسْجِدِي هَذَا وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى‘‘([2])
(کجاوے نہ کسے جائیں (یعنی ثواب کے نیت سے باقاعدہ رخت ِسفر نہ باندھی جائے) سوائے تین مساجد کی طرف سفر کے لیے، مسجد الحرام، میری یہ مسجد (یعنی مسجد نبوی) اور مسجد الاقصیٰ)۔
اور اس لیے بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے([3])۔ لہذا عورتوں کے لیے کافی ہے کہ وہ مسجد نبوی میں نماز ادا کریں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر باکثرت درود وسلام بھجیں خواہ مسجد میں ہوں یا اس کے علاوہ۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] البتہ جو مرد حضرات مسجد نبوی کے لیے شد رحال کرکے جائیں تو ساتھ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر مبارک پر جاکر درود وسلام پڑھ سکتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] صحیح بخاری 1189، صحیح مسلم 1399۔
[3] صحیح ابن ماجہ 1291، صحیح الترمذی 1056 وغیرہ۔
[#SalafiUrduDawah Article] In Defense of Umm-ul-Mo'mineen #Aaeshah RadiAllaho Anhaa – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
دفاعِ ام المؤمنین سیدہ #عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الرئاسۃ العامۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ:
’’أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا ‘‘([1])
(لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت آپ کے نزدیک کونسی ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا، پھر دریافت کیا کہ مردوں میں سے، فرمایا: ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ))۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح بخاری 3662، صحیح مسلم 2387۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/difa_e_umm_ul_momineen_ayesha.pdf
دفاعِ ام المؤمنین سیدہ #عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الرئاسۃ العامۃ للبحوث العلمیۃ والافتاء، المملکۃ العربیۃ السعودیۃ کی آفیشل ویب سائٹ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور دریافت کیا کہ:
’’أَيُّ النَّاسِ أَحَبُّ إِلَيْكَ ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: مِنَ الرِّجَالِ، فَقَالَ: أَبُوهَا ‘‘([1])
(لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب شخصیت آپ کے نزدیک کونسی ہے؟ فرمایا: عائشہ رضی اللہ عنہا، پھر دریافت کیا کہ مردوں میں سے، فرمایا: ان کے والد (یعنی ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ))۔
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
[1] صحیح بخاری 3662، صحیح مسلم 2387۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/difa_e_umm_ul_momineen_ayesha.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] A #fabricated_Dua be recited at the beginning of the month of #Safar - #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
ماہ ِ#صفر شروع ہونے پر ایک #من_گھڑت_دعاء
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة رقم 20316 تاريخ 21/3/1419ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/safar_man_gharat_dua.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:میں سوال کے ساتھ ایک لکھی ہوئی دعاء بھی بھیج رہا ہوں جو بعض غیرملکی ہمارے یہاں ماہ صفر میں تقسیم کرتے ہیں، جس میں سے کچھ الفاظ یہ ہیں:
” اللهم بسر الحسن و أخيه، و جده و أبيه، اكفنا شر هذا اليوم و ما ينزل فيه، يا كافي، {فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم} و حسبنا الله و نعم الوكيل، و لا حول و لا قوة الا بالله العلي العلي العظيم، اللهم إنا نسألك بأسمائك الحسنى وبكلماتك التامات وبحرمة نبيك سيدنا محمد صلي الله عليه وسلم أن تحفظنا وأن تعافينا من بلائك، يادافع البلايا، يامفرج الهم و ياكاشف الغم، اكشف عنا ما كتب علينا في هذه السنة من هم أو غم إنك على كل شيء قدير... “
پس میں آپ سماحۃ الشیخ سے امید کرتا ہوں کہ اس پر نظر فرمائيں گے؟
جواب:اس پوچھے گئے سوال کو پڑھنے کے بعد فتویٰ کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ بلاشبہ یہ دعاء گھڑی ہوئی بدعت ہے کہ اسے اس معین وقت میں مخصوص کیا جائے، اور اس میں حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جاہ کا وسیلہ ہے، ساتھ ہی اللہ تعالی کو ایسے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ سنت سے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں جائز نہیں کہ اسے کسی نام سے موسوم کیا جائے سوائے ان ناموں کے جو اس نے خود اپنے لیے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ذکر فرمائے ہيں۔ اور دعاء میں شخصیات یا ان کی جاہ ومرتبے کے ذریعے وسیلہ پکڑنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔
لہذا واجب ہے کہ اس کو تقسیم کرنے سے روکا جائے اور اس میں سے جو ملے اسے تلف کردیا جائے۔ اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ گمراہ شیعوں کی دسیسہ کاریوں میں سے ہے۔ وباللہ التوفیق۔
وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم...
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
عبداللہ الغدیان بکر ابو زید صالح الفوزان عبدالعزیز آل الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
ماہ ِ#صفر شروع ہونے پر ایک #من_گھڑت_دعاء
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة رقم 20316 تاريخ 21/3/1419ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/safar_man_gharat_dua.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:میں سوال کے ساتھ ایک لکھی ہوئی دعاء بھی بھیج رہا ہوں جو بعض غیرملکی ہمارے یہاں ماہ صفر میں تقسیم کرتے ہیں، جس میں سے کچھ الفاظ یہ ہیں:
” اللهم بسر الحسن و أخيه، و جده و أبيه، اكفنا شر هذا اليوم و ما ينزل فيه، يا كافي، {فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم} و حسبنا الله و نعم الوكيل، و لا حول و لا قوة الا بالله العلي العلي العظيم، اللهم إنا نسألك بأسمائك الحسنى وبكلماتك التامات وبحرمة نبيك سيدنا محمد صلي الله عليه وسلم أن تحفظنا وأن تعافينا من بلائك، يادافع البلايا، يامفرج الهم و ياكاشف الغم، اكشف عنا ما كتب علينا في هذه السنة من هم أو غم إنك على كل شيء قدير... “
پس میں آپ سماحۃ الشیخ سے امید کرتا ہوں کہ اس پر نظر فرمائيں گے؟
جواب:اس پوچھے گئے سوال کو پڑھنے کے بعد فتویٰ کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ بلاشبہ یہ دعاء گھڑی ہوئی بدعت ہے کہ اسے اس معین وقت میں مخصوص کیا جائے، اور اس میں حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جاہ کا وسیلہ ہے، ساتھ ہی اللہ تعالی کو ایسے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ سنت سے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں جائز نہیں کہ اسے کسی نام سے موسوم کیا جائے سوائے ان ناموں کے جو اس نے خود اپنے لیے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ذکر فرمائے ہيں۔ اور دعاء میں شخصیات یا ان کی جاہ ومرتبے کے ذریعے وسیلہ پکڑنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔
لہذا واجب ہے کہ اس کو تقسیم کرنے سے روکا جائے اور اس میں سے جو ملے اسے تلف کردیا جائے۔ اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ گمراہ شیعوں کی دسیسہ کاریوں میں سے ہے۔ وباللہ التوفیق۔
وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم...
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
عبداللہ الغدیان بکر ابو زید صالح الفوزان عبدالعزیز آل الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
[#SalafiUrduDawah Article] Thinking the Month of #Safar as #Unlucky and its Innovations – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#صفر کے مہینے کو #منحوس سمجھنا اور اس مہینے میں ہونے والی بعض بدعات
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/mah_e_safar_manhoos_bidaat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :
مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([1])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد یاحقیقت) نہیں پاتے۔
اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([2])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:
’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘
(اور نہ ہی نچھتر([3]) ہے اور نہ ہی بھوت([4]))۔
کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر وبھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔
صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیریا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شروبرائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا: امام مسلم "نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([5])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لئے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔
[2] حدیث گزر چکی ہے۔
[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] حدیث گزر چکی ہے۔
#صفر کے مہینے کو #منحوس سمجھنا اور اس مہینے میں ہونے والی بعض بدعات
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/mah_e_safar_manhoos_bidaat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :
مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([1])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد یاحقیقت) نہیں پاتے۔
اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([2])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:
’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘
(اور نہ ہی نچھتر([3]) ہے اور نہ ہی بھوت([4]))۔
کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر وبھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔
صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیریا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شروبرائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا: امام مسلم "نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([5])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لئے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔
[2] حدیث گزر چکی ہے۔
[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] حدیث گزر چکی ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] The reality of reciting a #Durood to have 80 years of sins forgiven? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
ایک #درود_شریف پڑھنے سے اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی حقیقت؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > الآداب الشرعية > الأخلاق > الأخلاق الحميدة > من الأخلاق الحميدة الذكر > الأذكار المرتبة على الأوقات والحوادث > س: حديث شريف منقول عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول ما معناه: من صلى العصر يوم الجمعة ثم صلى على النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في مكانه على النحو التالي: (اللهم صل على محمد النبي…
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/durood_80yrs_gunah_muaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 19609
سوال: ایک حدیث شریف جو کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا معنی یہ ہے کہ: جس نے جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اس طرح سے:
’’اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليمًا‘‘
(اے اللہ! درود وسلام بھیج تو محمد نبی الامی پر اور آپ کی آل پر)
اسّی (80) مرتبہ، تو اس کے اسّی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہيں، اور اسّی سال کی عبادت کے بقدر نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اور اس کتاب کو تیار کرنے والے نے لکھا ہے کہ یہ حدیث الدارقطنی سے مروی ہے۔ اور حافظ العراقی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی صحیح ہے؟ اس کی صحت کا درجہ کیا ہے؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ اور بطور معلومات سماحۃ الشیخ یہ بھی عرض ہے کہ یہ حدیث پاکستانی ٹیلی وژن چینل پر کسی تجارتی کمپنی کے کمرشل اشتہار میں بھی مکرر پیش کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ پورے رمضان چلتا رہتا ہے؟
جواب: اس مذکورہ حدیث کی کوئی اصل نہيں ہے، لہذا اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا تو ہر وقت ہی مستحب ہے۔ اور جمعہ کے دن اس کی خصوصی تاکید بھی ہے مگر بغیر کسی وقت کے تعین کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا‘‘([1])
(جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت فرماتے ہے (یا اپنی ملأ اعلی میں اس کا ذکر فرماتے ہیں))۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خير الأيام يوم الجمعة، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا وَقَدْ أَرِمْتَ؟ أي: بَلِيتَ، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ‘‘([2])
(بہترین دن جمعہ کا دن ہے، پس اس میں مجھ پر کثرت کے ساتھ درود بھیجا کرو، کیونکہ بلاشبہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ (فوت ہوکر) مٹی ہوچکے ہوں گے؟ یعنی: ہڈیاں تک گل چکی ہوں گی۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: بے شک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے جسموں کو کھائے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
بكر أبو زيد صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد العزيز آل الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحیح مسلم: الصلاۃ 408، سنن الترمذی: الصلاۃ 485، سنن النسائی: السہو 1296، سنن ابی داود: الصلاۃ 1530، مسند احمد بن حنبل 2/375۔
[2] سنن النسائی: الجمعۃ 1374، سنن ابی داود: الصلاۃ 1047، سنن ابن ماجہ: ماجاء فی الجنائز 1636، مسند احمد بن حنبل 4/8، سنن الدارمی: الصلاۃ 1572۔
ایک #درود_شریف پڑھنے سے اسّی سال کے گناہ معاف ہونے کی حقیقت؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > الآداب الشرعية > الأخلاق > الأخلاق الحميدة > من الأخلاق الحميدة الذكر > الأذكار المرتبة على الأوقات والحوادث > س: حديث شريف منقول عن أبي هريرة رضي الله عنه يقول ما معناه: من صلى العصر يوم الجمعة ثم صلى على النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في مكانه على النحو التالي: (اللهم صل على محمد النبي…
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/durood_80yrs_gunah_muaf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فتوی رقم 19609
سوال: ایک حدیث شریف جو کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے جس کا معنی یہ ہے کہ: جس نے جمعہ کے دن عصر کی نماز پڑھی پھر اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اس طرح سے:
’’اللهم صل على محمد النبي الأمي وعلى آله وسلم تسليمًا‘‘
(اے اللہ! درود وسلام بھیج تو محمد نبی الامی پر اور آپ کی آل پر)
اسّی (80) مرتبہ، تو اس کے اسّی سال کے گناہ معاف کردیے جاتے ہيں، اور اسّی سال کی عبادت کے بقدر نیکیاں لکھ دی جاتی ہیں۔ اور اس کتاب کو تیار کرنے والے نے لکھا ہے کہ یہ حدیث الدارقطنی سے مروی ہے۔ اور حافظ العراقی فرماتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔ پس سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث واقعی صحیح ہے؟ اس کی صحت کا درجہ کیا ہے؟ اور اگر یہ صحیح ہے تو اس کے اصل الفاظ کیا ہیں؟ اور بطور معلومات سماحۃ الشیخ یہ بھی عرض ہے کہ یہ حدیث پاکستانی ٹیلی وژن چینل پر کسی تجارتی کمپنی کے کمرشل اشتہار میں بھی مکرر پیش کی جاتی ہے، اور یہ سلسلہ پورے رمضان چلتا رہتا ہے؟
جواب: اس مذکورہ حدیث کی کوئی اصل نہيں ہے، لہذا اس پر عمل کرنا جائز نہیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا تو ہر وقت ہی مستحب ہے۔ اور جمعہ کے دن اس کی خصوصی تاکید بھی ہے مگر بغیر کسی وقت کے تعین کے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَشْرًا‘‘([1])
(جس نے مجھ پر ایک بار درود بھیجا اللہ تعالی اس پر دس بار رحمت فرماتے ہے (یا اپنی ملأ اعلی میں اس کا ذکر فرماتے ہیں))۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’خير الأيام يوم الجمعة، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! كَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا وَقَدْ أَرِمْتَ؟ أي: بَلِيتَ، فَقَالَ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ‘‘([2])
(بہترین دن جمعہ کا دن ہے، پس اس میں مجھ پر کثرت کے ساتھ درود بھیجا کرو، کیونکہ بلاشبہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا جبکہ آپ (فوت ہوکر) مٹی ہوچکے ہوں گے؟ یعنی: ہڈیاں تک گل چکی ہوں گی۔ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: بے شک اللہ تعالی نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے جسموں کو کھائے)۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
بكر أبو زيد صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد العزيز آل الشيخ عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1] صحیح مسلم: الصلاۃ 408، سنن الترمذی: الصلاۃ 485، سنن النسائی: السہو 1296، سنن ابی داود: الصلاۃ 1530، مسند احمد بن حنبل 2/375۔
[2] سنن النسائی: الجمعۃ 1374، سنن ابی داود: الصلاۃ 1047، سنن ابن ماجہ: ماجاء فی الجنائز 1636، مسند احمد بن حنبل 4/8، سنن الدارمی: الصلاۃ 1572۔