[#SalafiUrduDawah Article] Can we #unite in spite of #differences in #Aqeedah and #Manhaj? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #عقیدے_ومنہج میں #اختلاف کے باوجود #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 93۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/aqeedah_manhaj_ikhtilaaf_bawajod_ittehad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا منہج اور عقیدے میں اختلاف کے باوجود اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟
جواب: منہج اور عقیدے کے اختلاف کے ساتھ اتحاد واجتماع ممکن نہيں ہے۔ اس کی سب سے بہترین دلیل بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب کی حالت ہے، کہ وہ سب دست وگریباں اور متفرق تھے، لیکن وہ اسلام میں توحید کے جھنڈے تلے داخل ہوئے اور ان کا عقیدہ ایک ہوگیا اور منہج بھی ایک ہوگیا، اور ان کی حکومت وریاست قائم ہوگئی۔ اللہ تعالی نے انہیں اپنے اس فرمان میں یاد دہانی کروائی ہے کہ:
﴿وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا﴾ (آل عمران: 103)
(اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے)
اور اللہ تعالی نے اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا:
﴿لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۭاِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ (الانفال: 63)
(اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتے پھر بھی ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈال سکتے، اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی، بےشک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)
اللہ تعالی کافروں ، مرتدوں اور گمراہ فرقوں کے مابین باہمی الفت نہیں ڈالتا([1])۔ بلکہ صرف اور صرف مومنین توحید پرستوں کے دلوں میں باہمی الفت ڈالتا ہے۔ اللہ تعالی کافروں اور منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جو اسلام کے منہج اور عقیدے کے مخالفین ہیں:
﴿تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ﴾ (الحشر: 14)
(تم خیال کرو گے کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں، یہ اس لیے کہ بےشک وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے)
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ، اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ﴾ (ھود: 118-119)
(وہ تو برابر اختلاف کرتے رہیں گے، مگر جس پر تیرا رب رحم کرے)
تو یہ فرمانا کہ: ﴿اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ﴾ یہ صحیح عقیدے والے لوگ ہیں اور صحیح منہج والے، یہ وہ لوگ ہيں جو اختلاف سے بچے رہتے ہیں۔
جو لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو عقیدے کے بگاڑ اور منہج کے اختلاف کے ساتھ جمع کردیں تو وہ ایک محال چیز کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ دو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہے۔
دل جڑ نہيں سکتے، نہ کلمہ یکجا ہوسکتا ہے سوائے کلمۂ توحید کے([2])، جب اس کا معنی صحیح طور پر جانا جائے اور اس کے تقاضے پر ظاہراً وباطناً عمل کیا جائے، ناکہ محض زبان سے اسے ادا کیا جائے جبکہ جس بات پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے اس کی مخالفت کی جائے، اس صورت میں یہ کوئی فائدہ نہيں دے گا۔
[1] جیسا کہ ان موجودہ فرقوں اور احزاب کا حال ہے جو منظر عام پر موجود ہيں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب سےبڑی دلیل اور شاہد ہے کہ وہ کتاب اللہ کے تعلق سے مختلف ہیں اور کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ جب دل متفق ہوتے ہیں اور باہم مانوس ہوتے ہیں تو یقیناً جڑ جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس کا معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ وصف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ایک صحیح حدیث میں بیان ہوا کہ فرمایا:
"الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ " (البخاری : 3158)
(روحوں کے جھتے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی لگاؤ ہوتا ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں ) (الحارثی)۔
[2] ہمارے اس دور میں جو لوگ عقیدے کے بگاڑ اور منہج کے اختلاف کے باوجو دلوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہيں ان میں سے ایک کا بطور مثال ناکہ بطور حصر ذکر کرتے ہیں کہ وہ فرقہ اخوان المسلمین ہیں، کہ یہ لوگ اپنے صفوں میں ہر ایک کو ضم کرلیتے ہیں خواہ رافضی ہو یا جہمی، اشعری، خارجی، معتزلی بلکہ اسی طرح سے نصرانی کو بھی ، مت بھولیں گا۔ محترم قاری آپ پہلے بھی اس کتاب میں پڑھ چکے ہيں بعض اہل علم کے اقوال اس فرقے اخوان المسلمین کے تعلق سے کہ بلاشبہ یہ توحید کی جانب دعوت کا کوئی اہتمام نہيں کرتے، ناہی شرک سے ڈراتے وخبردار کرتے ہيں۔ اور یہی صفت وخصو
کیا #عقیدے_ومنہج میں #اختلاف کے باوجود #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 93۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/aqeedah_manhaj_ikhtilaaf_bawajod_ittehad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا منہج اور عقیدے میں اختلاف کے باوجود اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟
جواب: منہج اور عقیدے کے اختلاف کے ساتھ اتحاد واجتماع ممکن نہيں ہے۔ اس کی سب سے بہترین دلیل بعثت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے عرب کی حالت ہے، کہ وہ سب دست وگریباں اور متفرق تھے، لیکن وہ اسلام میں توحید کے جھنڈے تلے داخل ہوئے اور ان کا عقیدہ ایک ہوگیا اور منہج بھی ایک ہوگیا، اور ان کی حکومت وریاست قائم ہوگئی۔ اللہ تعالی نے انہیں اپنے اس فرمان میں یاد دہانی کروائی ہے کہ:
﴿وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا﴾ (آل عمران: 103)
(اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے)
اور اللہ تعالی نے اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا:
﴿لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۭاِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ (الانفال: 63)
(اگر تم زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتے پھر بھی ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈال سکتے، اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی، بےشک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے)
اللہ تعالی کافروں ، مرتدوں اور گمراہ فرقوں کے مابین باہمی الفت نہیں ڈالتا([1])۔ بلکہ صرف اور صرف مومنین توحید پرستوں کے دلوں میں باہمی الفت ڈالتا ہے۔ اللہ تعالی کافروں اور منافقوں کے متعلق فرماتا ہے کہ جو اسلام کے منہج اور عقیدے کے مخالفین ہیں:
﴿تَحْسَبُهُمْ جَمِيْعًا وَّقُلُوْبُهُمْ شَتّٰى ۭذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُوْنَ﴾ (الحشر: 14)
(تم خیال کرو گے کہ وہ اکٹھے ہیں، حالانکہ ان کے دل الگ الگ ہیں، یہ اس لیے کہ بےشک وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے)
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ، اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ﴾ (ھود: 118-119)
(وہ تو برابر اختلاف کرتے رہیں گے، مگر جس پر تیرا رب رحم کرے)
تو یہ فرمانا کہ: ﴿اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ﴾ یہ صحیح عقیدے والے لوگ ہیں اور صحیح منہج والے، یہ وہ لوگ ہيں جو اختلاف سے بچے رہتے ہیں۔
جو لوگ یہ کوشش کرتے ہیں کہ لوگوں کو عقیدے کے بگاڑ اور منہج کے اختلاف کے ساتھ جمع کردیں تو وہ ایک محال چیز کی کوشش کرتے ہیں، کیونکہ دو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہے۔
دل جڑ نہيں سکتے، نہ کلمہ یکجا ہوسکتا ہے سوائے کلمۂ توحید کے([2])، جب اس کا معنی صحیح طور پر جانا جائے اور اس کے تقاضے پر ظاہراً وباطناً عمل کیا جائے، ناکہ محض زبان سے اسے ادا کیا جائے جبکہ جس بات پر یہ کلمہ دلالت کرتا ہے اس کی مخالفت کی جائے، اس صورت میں یہ کوئی فائدہ نہيں دے گا۔
[1] جیسا کہ ان موجودہ فرقوں اور احزاب کا حال ہے جو منظر عام پر موجود ہيں جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ یہ سب سےبڑی دلیل اور شاہد ہے کہ وہ کتاب اللہ کے تعلق سے مختلف ہیں اور کتاب اللہ کی مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ جب دل متفق ہوتے ہیں اور باہم مانوس ہوتے ہیں تو یقیناً جڑ جاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس کا معاملہ برعکس ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہ وصف ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ایک صحیح حدیث میں بیان ہوا کہ فرمایا:
"الْأَرْوَاحُ جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ فَمَا تَعَارَفَ مِنْهَا ائْتَلَفَ وَمَا تَنَاكَرَ مِنْهَا اخْتَلَفَ " (البخاری : 3158)
(روحوں کے جھتے جھنڈ کے جھنڈ الگ الگ تھے۔ پھر وہاں جن روحوں میں آپس میں پہچان تھی ان میں یہاں بھی لگاؤ ہوتا ہے اور جو وہاں غیر تھیں یہاں بھی وہ خلاف رہتی ہیں ) (الحارثی)۔
[2] ہمارے اس دور میں جو لوگ عقیدے کے بگاڑ اور منہج کے اختلاف کے باوجو دلوگوں کو جمع کرنا چاہتے ہيں ان میں سے ایک کا بطور مثال ناکہ بطور حصر ذکر کرتے ہیں کہ وہ فرقہ اخوان المسلمین ہیں، کہ یہ لوگ اپنے صفوں میں ہر ایک کو ضم کرلیتے ہیں خواہ رافضی ہو یا جہمی، اشعری، خارجی، معتزلی بلکہ اسی طرح سے نصرانی کو بھی ، مت بھولیں گا۔ محترم قاری آپ پہلے بھی اس کتاب میں پڑھ چکے ہيں بعض اہل علم کے اقوال اس فرقے اخوان المسلمین کے تعلق سے کہ بلاشبہ یہ توحید کی جانب دعوت کا کوئی اہتمام نہيں کرتے، ناہی شرک سے ڈراتے وخبردار کرتے ہيں۔ اور یہی صفت وخصو
[#SalafiUrduDawah Article] Can we #unite in the presence of #Hizbiyyah (#blameworthy_partisanship)? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #حزبیت کے ہوتے ہوئے #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 94۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/hizbiyyat_bawajod_ittehad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیاحزبیت کے ہوتے ہوئے اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟ اور کس منہج پر اجتماع کرنا واجب ہے؟
جواب: حزبیت کے ساتھ اجتماع ممکن نہيں، کیونکہ یہ احزاب ایک دوسرے کی ضد میں ہوتے ہیں، او ردو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران: 103)
(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو)
پس اللہ سبحانہ وتعالی نے تفرقے سے منع فرمایا ہے اور ایک ہی حزب میں مجتمع ہونے کا حکم دیا ہے، جوکہ حزب اللہ ہے:
﴿ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (المجادلۃ: 22)
(یاد رکھو! یقیناً حزب اللہ (اللہ کے گروہ) والے ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ (المؤمنون: 52)
(اور بے شک تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے)
چناچہ ان مختلف احزاب، فرقوں اور جماعتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ﴾ (الانعام: 159)
(بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور گروہ گروہ بن گئے، تمہارا ان سے کوئی سروکار نہیں)
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجانے کی خبر دی تو فرمایا:
"كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً"
(وہ سب کے سب آگ میں جائيں گے، سوائے ایک کے)
(پھر اس نجات پانے والے فرقے کےبارے میں پوچھنے پر بتایا)
"مَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي "([1])
(جو اس چیز پر ہوگا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
لہذا کوئی فرقۂ ناجیہ نہيں ہے سوائے اس ایک کے، جس کا منہج یہ ہے کہ:
" جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے"۔
اور جو بھی اس کے سوا ہے تو وہ (امت میں) تفرقے کا سبب ہے جمع نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے(اگر یہ صحابہ جیسا ایمان لائیں تو ہدایت یاب ہیں):
﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ﴾ (البقرۃ: 137)
(اور اگر یہ منہ موڑیں تو یہ صریح اختلاف ومخالفت میں پڑے ہیں)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہيں ہوسکتی مگر اسی چیز سے جس نے اس کے اول حصے کی اصلاح کی تھی"([2])۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ۔۔۔﴾ (التوبۃ: 100)
(اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بہترین طور پر ان کی پیروی کی ، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ تعالی نے ان کے لئے جنتیں (باغات) تیار کیے ہیں)
پس ہمارے لیے سوائے منہج سلف صالحین کے کسی چیز پر اجتماع واتحاد نہيں([3])۔
[1] اس حدیث کی تخریج کتاب میں کئی جگہ گزر چکی ہے۔
[2] یہ اثر وہب بن کیسان سے آیا ہے اور ان سے روایت کرنے والے امام مالک رحمہما اللہ ہیں، دیکھیں: التمہید 23/10، اس کی تخریج مجھ سے چھوٹ گئی ہے۔ (الحارثی)
[3] اور یہی اہل سنت والجماعت کی تعریف وامتیاز ہے، جیسا کہ اسی کتاب میں آگے چل کر شیخ سے یہ سوال ہوا کہ:
سوال 109: اہل سنت والجماعت کو اس نام سے کیوں موسوم کیا جاتا ہے؟
جواب: کیونکہ بلاشبہ وہ مجتمع رہتے ہيں باہم مخالف نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کا منہج ایک ہوتا ہے اور وہ ہے کتاب وسنت، وہ حق پرجمع ہوتے ہیں، اور ایک امام (حکمران) پر جمع ہوتے ہیں۔ پس ان کے تمام معاملاتِ عامہ اجتماع، تعاون اور محبت پر قائم ہوتے ہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
کیا #حزبیت کے ہوتے ہوئے #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 94۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/hizbiyyat_bawajod_ittehad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیاحزبیت کے ہوتے ہوئے اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟ اور کس منہج پر اجتماع کرنا واجب ہے؟
جواب: حزبیت کے ساتھ اجتماع ممکن نہيں، کیونکہ یہ احزاب ایک دوسرے کی ضد میں ہوتے ہیں، او ردو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران: 103)
(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو)
پس اللہ سبحانہ وتعالی نے تفرقے سے منع فرمایا ہے اور ایک ہی حزب میں مجتمع ہونے کا حکم دیا ہے، جوکہ حزب اللہ ہے:
﴿ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (المجادلۃ: 22)
(یاد رکھو! یقیناً حزب اللہ (اللہ کے گروہ) والے ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ (المؤمنون: 52)
(اور بے شک تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے)
چناچہ ان مختلف احزاب، فرقوں اور جماعتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ﴾ (الانعام: 159)
(بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور گروہ گروہ بن گئے، تمہارا ان سے کوئی سروکار نہیں)
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجانے کی خبر دی تو فرمایا:
"كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً"
(وہ سب کے سب آگ میں جائيں گے، سوائے ایک کے)
(پھر اس نجات پانے والے فرقے کےبارے میں پوچھنے پر بتایا)
"مَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي "([1])
(جو اس چیز پر ہوگا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
لہذا کوئی فرقۂ ناجیہ نہيں ہے سوائے اس ایک کے، جس کا منہج یہ ہے کہ:
" جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے"۔
اور جو بھی اس کے سوا ہے تو وہ (امت میں) تفرقے کا سبب ہے جمع نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے(اگر یہ صحابہ جیسا ایمان لائیں تو ہدایت یاب ہیں):
﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ﴾ (البقرۃ: 137)
(اور اگر یہ منہ موڑیں تو یہ صریح اختلاف ومخالفت میں پڑے ہیں)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہيں ہوسکتی مگر اسی چیز سے جس نے اس کے اول حصے کی اصلاح کی تھی"([2])۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ۔۔۔﴾ (التوبۃ: 100)
(اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بہترین طور پر ان کی پیروی کی ، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ تعالی نے ان کے لئے جنتیں (باغات) تیار کیے ہیں)
پس ہمارے لیے سوائے منہج سلف صالحین کے کسی چیز پر اجتماع واتحاد نہيں([3])۔
[1] اس حدیث کی تخریج کتاب میں کئی جگہ گزر چکی ہے۔
[2] یہ اثر وہب بن کیسان سے آیا ہے اور ان سے روایت کرنے والے امام مالک رحمہما اللہ ہیں، دیکھیں: التمہید 23/10، اس کی تخریج مجھ سے چھوٹ گئی ہے۔ (الحارثی)
[3] اور یہی اہل سنت والجماعت کی تعریف وامتیاز ہے، جیسا کہ اسی کتاب میں آگے چل کر شیخ سے یہ سوال ہوا کہ:
سوال 109: اہل سنت والجماعت کو اس نام سے کیوں موسوم کیا جاتا ہے؟
جواب: کیونکہ بلاشبہ وہ مجتمع رہتے ہيں باہم مخالف نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کا منہج ایک ہوتا ہے اور وہ ہے کتاب وسنت، وہ حق پرجمع ہوتے ہیں، اور ایک امام (حکمران) پر جمع ہوتے ہیں۔ پس ان کے تمام معاملاتِ عامہ اجتماع، تعاون اور محبت پر قائم ہوتے ہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)