[#SalafiUrduDawah Article] Can we #unite in the presence of #Hizbiyyah (#blameworthy_partisanship)? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #حزبیت کے ہوتے ہوئے #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 94۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/hizbiyyat_bawajod_ittehad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیاحزبیت کے ہوتے ہوئے اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟ اور کس منہج پر اجتماع کرنا واجب ہے؟
جواب: حزبیت کے ساتھ اجتماع ممکن نہيں، کیونکہ یہ احزاب ایک دوسرے کی ضد میں ہوتے ہیں، او ردو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران: 103)
(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو)
پس اللہ سبحانہ وتعالی نے تفرقے سے منع فرمایا ہے اور ایک ہی حزب میں مجتمع ہونے کا حکم دیا ہے، جوکہ حزب اللہ ہے:
﴿ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (المجادلۃ: 22)
(یاد رکھو! یقیناً حزب اللہ (اللہ کے گروہ) والے ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ (المؤمنون: 52)
(اور بے شک تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے)
چناچہ ان مختلف احزاب، فرقوں اور جماعتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ﴾ (الانعام: 159)
(بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور گروہ گروہ بن گئے، تمہارا ان سے کوئی سروکار نہیں)
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجانے کی خبر دی تو فرمایا:
"كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً"
(وہ سب کے سب آگ میں جائيں گے، سوائے ایک کے)
(پھر اس نجات پانے والے فرقے کےبارے میں پوچھنے پر بتایا)
"مَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي "([1])
(جو اس چیز پر ہوگا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
لہذا کوئی فرقۂ ناجیہ نہيں ہے سوائے اس ایک کے، جس کا منہج یہ ہے کہ:
" جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے"۔
اور جو بھی اس کے سوا ہے تو وہ (امت میں) تفرقے کا سبب ہے جمع نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے(اگر یہ صحابہ جیسا ایمان لائیں تو ہدایت یاب ہیں):
﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ﴾ (البقرۃ: 137)
(اور اگر یہ منہ موڑیں تو یہ صریح اختلاف ومخالفت میں پڑے ہیں)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہيں ہوسکتی مگر اسی چیز سے جس نے اس کے اول حصے کی اصلاح کی تھی"([2])۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ۔۔۔﴾ (التوبۃ: 100)
(اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بہترین طور پر ان کی پیروی کی ، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ تعالی نے ان کے لئے جنتیں (باغات) تیار کیے ہیں)
پس ہمارے لیے سوائے منہج سلف صالحین کے کسی چیز پر اجتماع واتحاد نہيں([3])۔
[1] اس حدیث کی تخریج کتاب میں کئی جگہ گزر چکی ہے۔
[2] یہ اثر وہب بن کیسان سے آیا ہے اور ان سے روایت کرنے والے امام مالک رحمہما اللہ ہیں، دیکھیں: التمہید 23/10، اس کی تخریج مجھ سے چھوٹ گئی ہے۔ (الحارثی)
[3] اور یہی اہل سنت والجماعت کی تعریف وامتیاز ہے، جیسا کہ اسی کتاب میں آگے چل کر شیخ سے یہ سوال ہوا کہ:
سوال 109: اہل سنت والجماعت کو اس نام سے کیوں موسوم کیا جاتا ہے؟
جواب: کیونکہ بلاشبہ وہ مجتمع رہتے ہيں باہم مخالف نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کا منہج ایک ہوتا ہے اور وہ ہے کتاب وسنت، وہ حق پرجمع ہوتے ہیں، اور ایک امام (حکمران) پر جمع ہوتے ہیں۔ پس ان کے تمام معاملاتِ عامہ اجتماع، تعاون اور محبت پر قائم ہوتے ہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
کیا #حزبیت کے ہوتے ہوئے #اتحاد ہوسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الأجوبة المفيدة عن أسئلة المناهج الجديدة، س 94۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/hizbiyyat_bawajod_ittehad.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیاحزبیت کے ہوتے ہوئے اتحاد واجتماع ہوسکتا ہے؟ اور کس منہج پر اجتماع کرنا واجب ہے؟
جواب: حزبیت کے ساتھ اجتماع ممکن نہيں، کیونکہ یہ احزاب ایک دوسرے کی ضد میں ہوتے ہیں، او ردو متضاد چیزوں میں جمع کرنا محال ہوتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ﴾ (آل عمران: 103)
(اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو)
پس اللہ سبحانہ وتعالی نے تفرقے سے منع فرمایا ہے اور ایک ہی حزب میں مجتمع ہونے کا حکم دیا ہے، جوکہ حزب اللہ ہے:
﴿ اَلَآ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (المجادلۃ: 22)
(یاد رکھو! یقیناً حزب اللہ (اللہ کے گروہ) والے ہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں)
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَاِنَّ هٰذِهٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً ﴾ (المؤمنون: 52)
(اور بے شک تمہاری یہ امت ایک ہی امت ہے)
چناچہ ان مختلف احزاب، فرقوں اور جماعتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ﴾ (الانعام: 159)
(بےشک وہ لوگ جنہوں نے اپنے دین کو جدا جدا کرلیا اور گروہ گروہ بن گئے، تمہارا ان سے کوئی سروکار نہیں)
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کے تہتر فرقوں میں تقسیم ہوجانے کی خبر دی تو فرمایا:
"كُلُّهَا فِي النَّارِ، إِلَّا وَاحِدَةً"
(وہ سب کے سب آگ میں جائيں گے، سوائے ایک کے)
(پھر اس نجات پانے والے فرقے کےبارے میں پوچھنے پر بتایا)
"مَنْ كَانَ عَلَى مِثْلِ مَا أَنَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ وَأَصْحَابِي "([1])
(جو اس چیز پر ہوگا جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں)۔
لہذا کوئی فرقۂ ناجیہ نہيں ہے سوائے اس ایک کے، جس کا منہج یہ ہے کہ:
" جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے"۔
اور جو بھی اس کے سوا ہے تو وہ (امت میں) تفرقے کا سبب ہے جمع نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے(اگر یہ صحابہ جیسا ایمان لائیں تو ہدایت یاب ہیں):
﴿ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا ھُمْ فِيْ شِقَاقٍ ﴾ (البقرۃ: 137)
(اور اگر یہ منہ موڑیں تو یہ صریح اختلاف ومخالفت میں پڑے ہیں)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اس امت کے آخری حصے کی اصلاح نہيں ہوسکتی مگر اسی چیز سے جس نے اس کے اول حصے کی اصلاح کی تھی"([2])۔
اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ۔۔۔﴾ (التوبۃ: 100)
(اور جو مہاجرین اور انصار سابقین اولین میں سے ہیں اور جنہوں نے بہترین طور پر ان کی پیروی کی ، اللہ تعالی ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے، اور اللہ تعالی نے ان کے لئے جنتیں (باغات) تیار کیے ہیں)
پس ہمارے لیے سوائے منہج سلف صالحین کے کسی چیز پر اجتماع واتحاد نہيں([3])۔
[1] اس حدیث کی تخریج کتاب میں کئی جگہ گزر چکی ہے۔
[2] یہ اثر وہب بن کیسان سے آیا ہے اور ان سے روایت کرنے والے امام مالک رحمہما اللہ ہیں، دیکھیں: التمہید 23/10، اس کی تخریج مجھ سے چھوٹ گئی ہے۔ (الحارثی)
[3] اور یہی اہل سنت والجماعت کی تعریف وامتیاز ہے، جیسا کہ اسی کتاب میں آگے چل کر شیخ سے یہ سوال ہوا کہ:
سوال 109: اہل سنت والجماعت کو اس نام سے کیوں موسوم کیا جاتا ہے؟
جواب: کیونکہ بلاشبہ وہ مجتمع رہتے ہيں باہم مخالف نہیں رہتے۔ کیونکہ ان کا منہج ایک ہوتا ہے اور وہ ہے کتاب وسنت، وہ حق پرجمع ہوتے ہیں، اور ایک امام (حکمران) پر جمع ہوتے ہیں۔ پس ان کے تمام معاملاتِ عامہ اجتماع، تعاون اور محبت پر قائم ہوتے ہيں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)