[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #slaughtering_cows_in_India if it causes trouble for #Muslims? – #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
#ہندوستان میں خطرے کی صورت میں #گائے_ذبح کرنے کا حکم؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثاني والعشرون (الحدود>الذكاة والصيد)>الذكاة والصيد>ذبح البقر في الهند يعرض المسلم للخطر السؤال الثالث من الفتوى رقم ( 16403 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/india_gaye_zibah_khatrah_hukm.pdf
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: کیا ہمارے لیے ہندوستان میں گائے ذبح کرنا جائز ہے اگر اس گائے ذبح کرنے کے نتیجے میں ہمیں مارپیٹ، قتل ہوجانے اورلٹ جانے کا خطرہ ہو؟
جواب: اگر آپ کے ملک میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کے گوشت کو فروخت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرہ ہو اور شدید سزا کا اندیشہ ہو تو پھر بلاشبہ اس حالت میں ضرررسانی سے بچنے کی خاطر اسے ذبح کرنا اوراس کے گوشت کو بیچنا جائز نہیں۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ (البقرۃ: 195)
(اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو)
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن رکن نائب صدر
بكر أبو زيد عبد العزيز آل الشيخ صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي
صدر
عبد العزيز بن عبد الله بن باز
#ہندوستان میں خطرے کی صورت میں #گائے_ذبح کرنے کا حکم؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء>المجموعة الأولى>المجلد الثاني والعشرون (الحدود>الذكاة والصيد)>الذكاة والصيد>ذبح البقر في الهند يعرض المسلم للخطر السؤال الثالث من الفتوى رقم ( 16403 )
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/india_gaye_zibah_khatrah_hukm.pdf
بسم الله الرحمن الرحيم
سوال: کیا ہمارے لیے ہندوستان میں گائے ذبح کرنا جائز ہے اگر اس گائے ذبح کرنے کے نتیجے میں ہمیں مارپیٹ، قتل ہوجانے اورلٹ جانے کا خطرہ ہو؟
جواب: اگر آپ کے ملک میں گائے کو ذبح کرنا یا اس کے گوشت کو فروخت کرنے کی وجہ سے مسلمانوں کو خطرہ ہو اور شدید سزا کا اندیشہ ہو تو پھر بلاشبہ اس حالت میں ضرررسانی سے بچنے کی خاطر اسے ذبح کرنا اوراس کے گوشت کو بیچنا جائز نہیں۔کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ ﴾ (البقرۃ: 195)
(اپنے آپ کو اپنے ہی ہاتھوں ہلاکت کے گڑھے میں مت ڈالو)
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن رکن نائب صدر
بكر أبو زيد عبد العزيز آل الشيخ صالح الفوزان عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي
صدر
عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[#SalafiUrduDawah Article] Forgot to recite "#Bismillah" at the time of #slaughtering? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
[#SalafiUrduDawah Article] Meaning of the #Dua that is pronounced whilst #slaughtering – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Slaughtering with the intention of #protecting oneself from #afflictions – Various #Ulamaa
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے
#بلاؤں_کو_ٹالنے کے لیے #جان_کے_صدقہ کے طور پر#قربانی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ، جمع وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/05/balaon_ko_talna_qurbani_jan_ka_sadqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک سوڈانی بھائی کی طرف سے سوال ہے جس میں کہتے ہیں: ہمارے ملک میں ایک عادت پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنا گھر بنانا شروع کرتا ہے تو ایک قربانی ذبح کرتا ہے، یا جب وہ نصف مکمل ہوجائے یا پھر اسے مؤخر کرکے عمارت تعمیر ہونے کے بعد کرتا ہے۔ اور جب لوگ اس گھر میں رہائش کا ارادہ رکھتے ہیں تو اس میں قربانی کرکے دعوت کرتے ہیں جس میں عزیز واقارب وپڑوسیوں کو مدعو کیا جاتا ہے، آپ فضیلۃ الشیخ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟او رکیا کوئی مستحب عمل نئے گھر میں منتقل ہونے سے پہلے مشروع ہے؟ ہمیں استفادہ پہنچائیں جزاکم اللہ خیر الجزاء۔
جواب از شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ:
اس عمل کے تعلق سے تفصیل ہے۔ اگر اس قربانی سے مقصود جن سے بچاؤ ہو یا کوئی اور مقصد گھر کے مالک کو مقصود ہو کہ اس ذبح کے ذریعے یہ یہ حاصل ہوگا جیسے گھر کی سلامتی یا یہاں رہنے والوں کی سلامتی تو یہ جائز نہیں۔ اور یہ بدعات میں سے ہے۔ اگر یہ جن کے لیے ہو تو شرک اکبر ہے، کیونکہ یہ غیراللہ کی عبادت ہے۔
لیکن اگر یہ شکر کےباب میں سے ہے کہ اللہ تعالی نے اس پر جو نعمت فرمائی ہے کہ اسے اپنی چھت مل گئی یا گھر کی تکمیل کے وقت وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو جمع کرتا ہے اور کھانے کی دعوت کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہيں۔ اور یہ بہت سے لوگ کرتے ہیں اللہ کے نعمتوں پر شکر کرنے کے طور پر کہ اس نے ان پر اپنا احسان فرمایا کہ انہوں نے اپنا گھر تعمیر کرلیا اور اس میں رہنا نصیب ہوا بجائے اس کے کہ وہ کہیں کرایوں پر رہتے۔
اور اسی طرح سے بعض لوگ کرتے ہیں جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں کہ وہ اپنے عزیز واقارب اور پڑوسیوں کو دعوت دیتے ہيں اللہ تعالی کی شکرگزاری میں کہ اس نے سلامتی سے سفر کروایا اور واپسی ہوئی۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی جب سفر سے واپس آتے تو ایک اونٹ نحر (ذبح) کرکے لوگوں کی دعوت فرماتے۔
(فتاوی نور علی الدرب 1853، مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 5 / 388 )
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’الشرح الممتع على زاد المستقنع – المجلد السابع، باب الهَدي والأُضحية والعقيقة‘‘ میں فرماتے ہیں:
مسئلہ: جیسا کہ بعض لوگ کرتے ہیں کہ جب کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں قربانی ذبح کرتے ہیں اور پڑوسیوں وعزیز واقارب کی دعوت کرتے ہیں۔ اس میں کوئی حرج نہیں اگر اس کے ساتھ کوئی فاسد عقیدہ نہ جڑا ہوا ہو جیسا کہ بعض جگہوں پر کیا جاتا ہے کہ جب وہ کسی نئے گھر میں شفٹ ہوتے ہیں تو سب سے پہلا کام وہ یہ کرتے ہیں کہ ایک بکری لا کر اسے گھر کی دہلیز پر ذبح کرتے ہیں تاکہ اس کا خون وہاں بہے۔ اور کہتے ہیں: یہ جنات کو گھر میں داخل ہونے سے روکتا ہے، پس یہ فاسد عقیدہ ہے جس کی کوئی اصل نہیں، لیکن جو محض خوشی ومسرت میں ایسا کرتا ہے تو پھر اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جس کے اہل وعیال اسے کہیں: ایک جانور ذبح کرو (قربانی کرو) اور اسے مساکین میں تقسیم کردو بلاؤں کو دور کرنے کے لیے، کیا ایسی نیت کرنا جائز ہے؟
شیخ صالح بن عبدالعزیز آل الشیخ رحمہ اللہ:
اس بارے میں تفصیل ہے۔ وہ یہ کہ اگر وہ ذبیحہ صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، کسی متوقع چیز کو دور کرنے، یا کسی پیش آنے والی چیز کو رفع کرنے کے لیے نہیں، لیکن بس صدقے کے زاویے سے کرتا ہے، اور فقراء کو کھلانے کی نیت سے، تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ ان عمومی دلائل میں داخل ہے کہ حن میں کھانے کھلانے کی ترغیب دی گئی ہے اور مساکین کو کھلانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
البتہ اگر ذبح کرنا اس لیے ہو کہ گھر والے بیمار ہیں، تو اس لیے ذبح کرنا تاکہ مریض سے وہ تکلیف دور ہوجائے (جان کا صدقہ) تو یہ جائز نہیں بلکہ حرام ہے، سد ذریعہ کے طور پر۔ کیونکہ بہت سے لوگ تب ہی ذبح کرتے ہیں جب کوئی ان پر مرض آپڑے کیونکہ ان کا گمان ہوتا ہے کہ یہ کسی جن کی وجہ سے ہے، یا کسی موذی چیز کی وجہ سے، پس جب وہ ذبیحہ کو ذبح کرتے ہیں اور خون بہاتے ہیں تو اس کا شر دور ہوجاتا ہے یا پھر اس موذی چیز کی وجہ سے جو تکلیف ہے وہ رفع ہوجاتی ہے۔ بلاشبہ اس قسم کا اعتقاد حرام ہے جائز نہیں۔ لہذا جو ذبیحہ کسی مرض کو رفع کرنے یا بطور مریض کے جان کے صدقے کے دیا جاتا ہے اس حال میں علماء کرام فرماتےہیں: یہ حرام ہے جائز نہیں، سد ذریعہ کے طور پر۔
اور شیخ علامہ سعد بن حمد بن عتیق رحمہ اللہ کا اس موضوع پر کہ ’’مریض کے لیے ذبح کرنا ‘‘خاص رسالہ بھی ہے([1])۔
اسی طرح سے اگر ذبح کرنا کسی متوقع تکلیف کو روکنے کے لیے