[#SalafiUrduDawah Article] 6 great #deprivations because of #sacrificing_animals outside of one's living area – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں کو پیسہ دینے کے سبب چھ (6) عظیم #محرومیاں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبہ جمعہ بعنوان "صفة الحج والعمرة، وفوائد الأضحية" سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ان افضل ترین اعمال میں سے ہے جن سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لئے قربانی کرنے اور اس کے لئے نماز ادا کرنے کو ساتھ جمع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
( کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے)
پس قربانی کے جانور کو ذبح کرنا بنفسہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے جس سے مقصد ہر چیز سے پہلے اللہ تعالی کی عبادت ہونا چاہیے، اسی وجہ سے اس کی بہت سے سی حرمات ہیں۔
چناچہ قربانی کو افغانستان یا کسی اور محتا ج ملک میں کروانے سے چھ بڑی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں:
1- اس سے شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ کا اظہار فوت ہوتا ہے۔
2- اس سے قربانی کرنے والے کا خود اپنی قربانی کو ذبح کرنا یا اس کے ذبح کے وقت حاضر ہونا فوت ہوتا ہے۔
3- اس سے قربانی کرنے والے میں خود قربانی کرنے سے جو اللہ تعالی کی عبادت کا شعور پیدا ہونا چاہیے وہ فوت ہوتا ہے۔
4- اس سے قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی پر اللہ تعالی کا نام ذکر کرنا فوت ہوتا ہے۔
5- اس سے اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھانا جسے اللہ تعالی نے غریبوں کو کھلانے پر فوقیت دی فوت ہوتا ہے، اور بعض علماء کرام تو اس کے وجوب کے بھی قائل ہیں۔
6- اگر قربانی کسی کی وصیت تھی تو اس سے وصیت کرنے والے کا ظاہر مقصود فوت ہوتا ہے۔
اور ان مصالح کے فوت ہونے کے علاوہ اس سے بہت بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لوگ متعدی مالی عبادات کو محض اقتصادی نکتہِ نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ بے شک اس کے عبادت کے پہلو میں خلل کا باعث ہوتا ہے۔
پس اے اللہ کے بندوں! میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اور ہم کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں الا یہ کہ اسے کتاب وسنت کے ترازو پر پرکھیں تاکہ ہم اس میں اللہ تعالی کی طرف سے مکمل بصیرت، دلیل وبرہان پر قائم ہوں۔
ان نکات کی تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_elaqay_me_qurbani_karwane_sabab_mehromi.pdf
اپنے علاقے کے سوا دوسرے شہروں میں #قربانی کروانے کے لئے #تنظیموں کو پیسہ دینے کے سبب چھ (6) عظیم #محرومیاں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: خطبہ جمعہ بعنوان "صفة الحج والعمرة، وفوائد الأضحية" سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قربانی کے جانور کو ذبح کرکے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ان افضل ترین اعمال میں سے ہے جن سے اللہ تعالی کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کے لئے قربانی کرنے اور اس کے لئے نماز ادا کرنے کو ساتھ جمع فرمایا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
( کہو کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لئے ہے)
پس قربانی کے جانور کو ذبح کرنا بنفسہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے جس سے مقصد ہر چیز سے پہلے اللہ تعالی کی عبادت ہونا چاہیے، اسی وجہ سے اس کی بہت سے سی حرمات ہیں۔
چناچہ قربانی کو افغانستان یا کسی اور محتا ج ملک میں کروانے سے چھ بڑی مصلحتیں فوت ہوتی ہیں:
1- اس سے شعائر اللہ میں سے ایک شعیرہ کا اظہار فوت ہوتا ہے۔
2- اس سے قربانی کرنے والے کا خود اپنی قربانی کو ذبح کرنا یا اس کے ذبح کے وقت حاضر ہونا فوت ہوتا ہے۔
3- اس سے قربانی کرنے والے میں خود قربانی کرنے سے جو اللہ تعالی کی عبادت کا شعور پیدا ہونا چاہیے وہ فوت ہوتا ہے۔
4- اس سے قربانی کرنے والے کا اپنی قربانی پر اللہ تعالی کا نام ذکر کرنا فوت ہوتا ہے۔
5- اس سے اپنی قربانی کے جانور کا گوشت کھانا جسے اللہ تعالی نے غریبوں کو کھلانے پر فوقیت دی فوت ہوتا ہے، اور بعض علماء کرام تو اس کے وجوب کے بھی قائل ہیں۔
6- اگر قربانی کسی کی وصیت تھی تو اس سے وصیت کرنے والے کا ظاہر مقصود فوت ہوتا ہے۔
اور ان مصالح کے فوت ہونے کے علاوہ اس سے بہت بڑی خرابی پیدا ہوتی ہے وہ یہ کہ لوگ متعدی مالی عبادات کو محض اقتصادی نکتہِ نظر سے دیکھتے ہیں، اور یہ بے شک اس کے عبادت کے پہلو میں خلل کا باعث ہوتا ہے۔
پس اے اللہ کے بندوں! میں آپ کو اور اپنے آپ کو اللہ تعالی کے تقویٰ کی وصیت کرتا ہوں، اور ہم کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں الا یہ کہ اسے کتاب وسنت کے ترازو پر پرکھیں تاکہ ہم اس میں اللہ تعالی کی طرف سے مکمل بصیرت، دلیل وبرہان پر قائم ہوں۔
ان نکات کی تفصیل جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/dosray_elaqay_me_qurbani_karwane_sabab_mehromi.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The proper #legislated_way_of_slaughtering – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کرنے کی صحیح کیفیت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم353 وشريط رقم93
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_sahih_tareeqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کو ذبح کرنے کی صحیح کیفیت کیا ہونی چاہیے؟
جواب: اگر قربانی دنبے یا بکرے کی ہے تو ا س کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹا ئے اگر اسے داہنے ہاتھ سے ذبح کرنا ہو اور اگر بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا ہو تو اسے داہنی کروٹ لٹا دے، کیونکہ اس سے مقصود چوپائے کو راحت پہنچانا ہے، لہذا جو انسان بائیں ہاتھ سے ذبح کرتا ہو تو وہ اسے راحت نہیں پہنچا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے داہنی کروٹ لٹائے اور ذبح کے وقت اپنے ٹانگ اس کی گردن پر رکھے، اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے تاکہ جانور کے حلق کا صحیح اندازہ ہوسکے، پھر قوت کےساتھ اس کی شہ رگ ودرمیانی رگ پر چھری چلائے اور خون بہادے۔
جہاں تک بات ہے جانور کے ہاتھ وپیر کی تو انہیں نہ باندھنا اور آزاد چھوڑ دینا زیادہ احسن ہے کیونکہ یہ جانور کے لیے زیادہ راحت اور ان اعضاء میں سے خون کے اخراج کا زیادہ باعث ہے، کیونکہ خون کا اخراج حرکت کے ساتھ ہوتا ہے، پس یہ افضل ہے([1])۔
اور ذبح کرتے وقت یہ پڑھے: ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اللَّهُمَّ هَذِهِ عَنِّي وَ عَنْ أَهْلِ بَيْتِي‘‘۔
جبکہ عید کی قربانی کے علاوہ ذبح کرتے وقت یہی طریقۂ کار اپنائے لیکن ذبح کے وقت صرف ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھے۔
[1] البتہ اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ اس سے قدرے مختلف ہے صحیح بخاری 1712 میں ہے: ’’زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَنَاخَ بَدَنَتَهُ يَنْحَرُهَا، قَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (زیاد بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو فرمایا: اس کو کھڑا کرکے (ایک) پاؤں باندھ دو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)۔ اور صحیح ابی داود 1767 کے الفاظ ہیں: ’’أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابَهُ كَانُوا يَنْحَرُونَ الْبَدَنَةَ مَعْقُولَةَ الْيُسْرَى قَائِمَةً عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کو اس طرح نحر فرماتے تھے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ کر اسے کھڑا کردیتےاور وہ اپنے باقی تین پاؤں پر کھڑا رہتا)۔اس کے بعد اس کی گردن اور سینے کے درمیان کےحصے میں خنجر سے مار کر رگیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#ذبح کرنے کی صحیح کیفیت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى نور على الدرب/ للإمام العثيمين/ شريط رقم353 وشريط رقم93
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_sahih_tareeqa.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کو ذبح کرنے کی صحیح کیفیت کیا ہونی چاہیے؟
جواب: اگر قربانی دنبے یا بکرے کی ہے تو ا س کی صحیح کیفیت یہ ہے کہ اسے بائیں کروٹ لٹا ئے اگر اسے داہنے ہاتھ سے ذبح کرنا ہو اور اگر بائیں ہاتھ سے ذبح کرنا ہو تو اسے داہنی کروٹ لٹا دے، کیونکہ اس سے مقصود چوپائے کو راحت پہنچانا ہے، لہذا جو انسان بائیں ہاتھ سے ذبح کرتا ہو تو وہ اسے راحت نہیں پہنچا سکتا سوائے اس کے کہ وہ اسے داہنی کروٹ لٹائے اور ذبح کے وقت اپنے ٹانگ اس کی گردن پر رکھے، اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کے سر کو پکڑے تاکہ جانور کے حلق کا صحیح اندازہ ہوسکے، پھر قوت کےساتھ اس کی شہ رگ ودرمیانی رگ پر چھری چلائے اور خون بہادے۔
جہاں تک بات ہے جانور کے ہاتھ وپیر کی تو انہیں نہ باندھنا اور آزاد چھوڑ دینا زیادہ احسن ہے کیونکہ یہ جانور کے لیے زیادہ راحت اور ان اعضاء میں سے خون کے اخراج کا زیادہ باعث ہے، کیونکہ خون کا اخراج حرکت کے ساتھ ہوتا ہے، پس یہ افضل ہے([1])۔
اور ذبح کرتے وقت یہ پڑھے: ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ، اللَّهُمَّ هَذِهِ عَنِّي وَ عَنْ أَهْلِ بَيْتِي‘‘۔
جبکہ عید کی قربانی کے علاوہ ذبح کرتے وقت یہی طریقۂ کار اپنائے لیکن ذبح کے وقت صرف ’’بِسْمِ اللَّهِ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ‘‘ پڑھے۔
[1] البتہ اونٹ کو نحر کرنے کا مسنون طریقہ اس سے قدرے مختلف ہے صحیح بخاری 1712 میں ہے: ’’زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَنَاخَ بَدَنَتَهُ يَنْحَرُهَا، قَالَ: ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ (زیاد بن جبیر فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جس نے اونٹ کو ذبح کرنے کے لیے بٹھا رکھا تھا تو فرمایا: اس کو کھڑا کرکے (ایک) پاؤں باندھ دو، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے)۔ اور صحیح ابی داود 1767 کے الفاظ ہیں: ’’أَنّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَأَصْحَابَهُ كَانُوا يَنْحَرُونَ الْبَدَنَةَ مَعْقُولَةَ الْيُسْرَى قَائِمَةً عَلَى مَا بَقِيَ مِنْ قَوَائِمِهَا‘‘ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اونٹ کو اس طرح نحر فرماتے تھے کہ اس کا اگلا بایاں پاؤں باندھ کر اسے کھڑا کردیتےاور وہ اپنے باقی تین پاؤں پر کھڑا رہتا)۔اس کے بعد اس کی گردن اور سینے کے درمیان کےحصے میں خنجر سے مار کر رگیں کاٹ دی جاتی ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Forgot to recite "#Bismillah" at the time of #slaughtering? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
#ذبح کے وقت #بسم_اللہ پڑھنا بھول جانا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من فتاوى الحرم النبوي/ للإمام العثيمين/ شريط رقم50
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_bismillah_bhol_jana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے جو ذبح کے وقت بسم اللہ پڑھنا بھول جائے؟
جواب: اس شخص کا حکم جو ذبح کرتے وقت بسم اللہ نہ پڑھے یہ ہے کہ:
اگر اس نے ایسا جان بوجھ کر کیا ہے تو اس کا ذبیحہ اور اس کا یہ فعل حرام ہے۔ اس کا ذبیحہ نہ کھایا جائے اور وہ گنہگار ہے اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 118)
(پس اس میں سے کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام لیا گیا ہو)
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ من لم يذبح فلْيذبح على اسم الله‘‘([1])
(جس کسی نے ذبح نہیں کیا ہے تو اسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے نام سے ذبح کرے)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللَّهَ، فَكُلُوهُ، إِلا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘([2])
(دانتوں اور ناخنوں کے علاوہ جس چیز (آلے) سے (جانور کا) خون بہایا جائے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو اسے کھاؤ )۔
اگر ذبح کرنے والا جان بوجھ کر بسم اللہ پڑھنا چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار ہے اور اس کا ذبیحہ حرام ہے۔
اور اگر وہ بھول سے چھوڑ دیتا ہے تو وہ گنہگار نہیں کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ اَخْطَاْنَا﴾ (البقرۃ: 286)
(اے ہمارے رب ہمیں نہ پکڑنا اگر ہم بھول جائیں یا غلطی کر جائیں)
لیکن پھر بھی اس کا ذبیحہ حرام ہی رہے گا، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
پس اللہ تعالی نے اس میں سے کھانے سے منع فرمادیا ہے جس پر اللہ تعالی کا نام نہ لیا گیا ہو۔
کیونکہ دو باتیں ہیں ایک تو ذبح کرنا ہے اور دوسرا اس میں سے کھانا ہے۔ ذبح کرنے والا اگر بسم اللہ بھول جائے تو وہ گنہگار نہیں، لیکن کھانے والا کیا اس میں سے کھا لے جس پر بسم اللہ نہ پڑھا گیا ہو؟ ہم کہیں گے، نہیں، کیونکہ تمہیں اللہ تعالی نے منع فرمایا ہے:
﴿وَلَا تَاْكُلُوْا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِاسْمُ اللّٰهِ عَلَيْهِ﴾ (الانعام: 121)
(اور اس میں سے نہ کھاؤ جس پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا)
اور اس ذبیحہ پر اللہ تعالی کا نام نہیں لیا گیا۔
لیکن اگر کوئی کھانے والا بھولے سے یا جہالت میں کھالے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ بسم اللہ ذبیحہ اور شکار کے لیے شرط ہے جو کہ بھول اور جہالت سے ساقط نہیں ہوتی۔ اور یہ قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ہے کہ شروط عمداً، سہواً یا جہلاً کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتیں۔
[1] صحیح مسلم 1961، اورصحیح بخاری 5500 کے الفاظ ہیں: ’’وَمَنْ كَانَ لَمْ يَذْبَحْ حَتَّى صَلَّيْنَا فَلْيَذْبَحْ عَلَى اسْمِ اللَّهِ‘‘۔
[2] مستخرج ابو عوانہ 7770، صحیح بخاری 5506، صحیح مسلم 1970، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں: ’’كُلْ يَعْنِي مَا أَنْهَرَ الدَّمَ إِلَّا السِّنَّ وَالظُّفُرَ‘‘۔
[#SalafiUrduDawah Article] Meaning of the #Dua that is pronounced whilst #slaughtering – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔
#ذبح کرنے کی #دعاء کا معنی
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الشرح الممتع على زاد المستقنِع/ للإمام العثيمين/كتاب المناسك
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/zibah_dua_mana.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: (قربانی کے وقت) ہماری اس دعاء ’’اللَّهُمَّ هَذَا مِنْكَ وَلَكَ‘‘ کا کیا معنی؟
جواب: ’’هَذَا‘‘ (یہ) یہاں ذبح ہونے یا نحر ہونے والے جانور کی طرف اشارہ ہے۔
’’مِنْكَ‘‘ (تیری طرف سے ہے) یعنی تیری عطاء ورزق ہے۔
’’لَكَ‘‘ (تیرے لیے ہے) یعنی عبادتاًو شرعاًاور اخلاص وملکیت کے اعتبار سے تیرے لیے ہے۔
یعنی یہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے کہ اسی نے یہ نعمت ہمیں عطاء فرمائی۔ اور وہی ہے کہ جس نے اس کے ذبح یا نحر کے ذریعہ ہمیں اپنی عبادت بجالانے کا حکم فرمایا۔ پس یہ تقدیر وشریعت دونوں کے اعتبار سے فضل الہی ٹھہرا۔ کیونکہ اگر اللہ تعالی اس جانور کے ذبح یا نحر کرنے کو مشروع نہ فرماتا تو اسے ذبح کرنے یا نحر کرنےکےذریعے اس کا تقرب حاصل کرنا بدعت کہلاتا۔
[#SalafiUrduDawah Article] Is #eating_the_liver of the #sacrificial_animal firstly from the #Sunnah? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کیا #قربانی میں سے سب سے پہلے #جگر_کھانا #مسنون ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى ابن عثیمین،جلد 16
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/qurbani_jigar_khana_masnoon.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی فقہاء کرام کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے کہ قربانی میں سے جگر کا کھانا مسنون ہے؟ کیا اس بات کی کوئی دلیل بھی ہے؟
جواب: قربانی میں سے مطلق کھانا مسنون ہے۔ اور قربانی میں سے کھانے کے بارے میں قرآن وسنت کی دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میں سے کھانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور خود بھی کھایا ہے۔ پس اس میں دو سنتیں قولی اور فعلی جمع ہوگئی ہيں۔
جہاں تک سوال ہے کھانے میں سے جگر کو اختیار کرنے کا تویہ مستقل باب ِعبادت میں سے نہیں ہےبلکہ یہ فقط فقہاء کرام کا اپنا اختیار ہے، کیونکہ یہ بہت جلد اور آسانی سے گل جاتا ہے۔
کیا #قربانی میں سے سب سے پہلے #جگر_کھانا #مسنون ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى ابن عثیمین،جلد 16
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/qurbani_jigar_khana_masnoon.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی فقہاء کرام کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے کہ قربانی میں سے جگر کا کھانا مسنون ہے؟ کیا اس بات کی کوئی دلیل بھی ہے؟
جواب: قربانی میں سے مطلق کھانا مسنون ہے۔ اور قربانی میں سے کھانے کے بارے میں قرآن وسنت کی دلیل موجود ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی میں سے کھانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے اور خود بھی کھایا ہے۔ پس اس میں دو سنتیں قولی اور فعلی جمع ہوگئی ہيں۔
جہاں تک سوال ہے کھانے میں سے جگر کو اختیار کرنے کا تویہ مستقل باب ِعبادت میں سے نہیں ہےبلکہ یہ فقط فقہاء کرام کا اپنا اختیار ہے، کیونکہ یہ بہت جلد اور آسانی سے گل جاتا ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] For how many days animals can be #slaughtered in #Eid_ul_Adha? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قربانی_کتنے_دن تک کی جاسکتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurabani_kitne_din.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں: یوم العید، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔
میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا ًامام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج: 28)
(تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان’’اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ‘‘میں اللہ کا نام لیں ان پالتو چوپایوں پر جو اس نے انہيں دیے ہیں)([1])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’الأيام المعلومات: يوم النحر، وثلاثة أيام بعده‘‘([2])
(ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین ایام ہیں)۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘ اسے احمد، بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے([3])۔
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:
’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا ہے([4])۔
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟۔
[1] ان پر اللہ کا نام ذکر کریں میں دونوں شامل ہیں ان کے ذبح کے وقت اور ان کے کھانے کے وقت۔ (الشیخ)
[2] رواه ابن حاتم في تفسيره (8/2489)۔
[3] رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)، وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد‘‘۔
[4] رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔
#قربانی_کتنے_دن تک کی جاسکتی ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب أحكام الاضحية والزكاة ، الفصل الثاني في وقت الأضحية سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurabani_kitne_din.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔قربانی کا وقت ایامِ تشریق کے آخری دن کا سورج غروب ہونے پر ختم ہوجاتا ہے جوکہ ذوالحج کی تیرہویں (13) تاریخ بنتی ہے۔ چناچہ ذبح کے چار دن ہیں: یوم العید، گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخ اور راتوں کے اعتبار سے تین راتیں: گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں کی رات۔
یہی اہل علم کے اقوال میں سےراجح قول ہے۔ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایتوں میں سے ایک کے مطابق وہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہی مذہب اہل بصرہ کے امام حسن بصری کا ہے، اہل شام کے امام الاوزاعی کا ہے اور فقہاء اہل حدیث کے امام الشافعی کا ہے، اور اسے ہی ابن المنذر رحمۃ اللہ علیہم نے اختیار فرمایا ہے۔
میں (ابن عثیمین) یہ کہتا ہوں: اسے ہی شیخ الاسلام تقی الدین بن تیمیہ رحمہ اللہ نے اختیار فرمایا ہے اور ظاہرا ًامام ابن القیم رحمہ اللہ کی بھی یہی ترجیح ہے کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿لِيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ﴾ (الحج: 28)
(تاکہ وہ اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان’’اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ‘‘میں اللہ کا نام لیں ان پالتو چوپایوں پر جو اس نے انہيں دیے ہیں)([1])
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’الأيام المعلومات: يوم النحر، وثلاثة أيام بعده‘‘([2])
(ایام معلومات سے مراد یوم النحر اور اس کے بعد کے تین ایام ہیں)۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’كُلُّ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ ذَبْحٌ‘‘ اسے احمد، بیہقی نے اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت فرمایا ہے([3])۔
(تمام ایام تشریق ذبح کے ایام ہیں)۔
اور اس میں اگرچہ انقطاع کی علت ہے لیکن اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے ہوتی ہے کہ:
’’أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ، وَشُرْبٍ، وَذِكْرِ اللَّهِ‘‘ اسے مسلم نے روایت فرمایا ہے([4])۔
(ایام تشریق کھانے پینے اور ذکر اللہ کے ایام ہیں)۔
پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام ایام کو ایک ہی باب میں رکھا ہے کہ یہ سب ایامِ ذکر اللہ ہیں۔ چوپایوں پر ذکر میں ذکر ِمطلق اور مقید دونوں شامل ہیں۔ کیونکہ یہ ایام تمام احکام میں مشترک ہیں سوائے جس میں محل نزاع پایا جاتا ہے۔ یہ سب کے سب ایامِ منیٰ ہیں، ایام ِرمی جمار ہیں، ایامِ ذکر اللہ ہیں اور ان میں روزہ رکھنا حرام ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس میں سے ذبح کو خارج کردیا جائے اور اسے محض ابتدائی دو ایام تک مخصوص کردیا جائے؟۔
[1] ان پر اللہ کا نام ذکر کریں میں دونوں شامل ہیں ان کے ذبح کے وقت اور ان کے کھانے کے وقت۔ (الشیخ)
[2] رواه ابن حاتم في تفسيره (8/2489)۔
[3] رواه أحمد (4/82) والبيهقي (9/256)، وابن حبان (9/166) اور شیخ البانی السلسلة الصحيحة2476 میں فرماتے ہیں: ’’لا ينزل عن درجة الحسن بالشواهد‘‘۔
[4] رواه مسلم، كتاب الصيام/ باب تحريم صوم أيام التشريق، رقم (1141)۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Demonstrations #against_government is not from the #Salafee_Manhaj – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#حکومت_مخالف #مظاہرات #سلفی_طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
#حکومت_مخالف #مظاہرات #سلفی_طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
#SalafiUrduDawah
#علم کے ساتھ #فہم بھی ضروری ہے - شیخ محمد بن صالح #العثیمین
#Ilm k sath #fehm bhi zarori hai - shaykh muhammad bin saaleh #al_uthaimeen
#علم کے ساتھ #فہم بھی ضروری ہے - شیخ محمد بن صالح #العثیمین
#Ilm k sath #fehm bhi zarori hai - shaykh muhammad bin saaleh #al_uthaimeen
[#SalafiUrduDawah Article] Brief biography of Sahabi #Abdullah_bin_Masud (radiAllaho anhu) – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
مختصر سوانح حیات سیدنا #عبداللہ_بن_مسعود رضی اللہ عنہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_masood.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عبداللہ بن مسعود بن غافل الھذلی ہیں اور آپ کی والدہ ام عبد تھیں جن کی طرف کبھی کبھار آپ رضی اللہ عنہ کی نسبت کی جاتی ہے([1])۔آپ رضی اللہ عنہ اسلام میں سابقین اولین میں سے تھے اور دونوں ہجرتیں (حبشہ ومدینہ) فرمائیں، اسی طرح سے غزوۂ بدر اور اس کے بعد کے معرکوں میں شریک رہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست ستر اور اس سے کچھ اوپر قرآنی سورتیں حاصل کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع اسلام ہی میں ان کے لیے فرمایا:
’’إنك لغلام مُعَلَّم‘‘([2])
(تم تو ایک پڑھے پڑھائے سمجھدار لڑکے ہو)۔
اور فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ‘‘([3])
(جو چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح تروتازہ اترا تھا بالکل اسی طرح قرأت کرے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد(ابن مسعود رضی اللہ عنہ) کےقرأت کی طرح پڑھے)۔
اور صحیح البخاری ([4])میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہوں)۔
اور فرمایا:
’’وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَلَا أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ تُبَلِّغُهُ الْإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ‘‘
(اس اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں کہ کتاب اللہ میں سے کوئی بھی سورت نازل نہیں ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی، اور نہ ہی کوئی آیت نازل ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ کس کےبارے میں نازل ہوئی، اور اگر میرےعلم میں کوئی ایساہوتا کہ جو مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو اورمیرا اونٹ اس تک پہنچ سکتا ہو تو میں اس پر سوار ہوکر اس کی طرف سفرکرتا)۔
اور آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے کہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل فرمایا، اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے، سامان طہارت وتکیہ وغیرہ لے کر ساتھ چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ فَمَكُثْنَا حِينًا مَا نُرَى إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِمَا نَرَى مِنْ دُخُولِهِ وَدُخُولِ أُمِّهِ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘([5])
(میں اور میرا بھائی جب یمن سے آئے تو کچھ عرصہ قیام کرنے پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس کثرت سے ان کی اور ان کی والدہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آمد ورفت ہوا کرتی تھی)۔
لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستقل ملازمت اختیا ر کرنے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور سنت سے بہت متاثر تھے۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَا أَعْرِفُ أَحَدًا أَقْرَبَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِالنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْد‘‘([6])
(میں ابن ام عبد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیت، طریقے، چال ڈھال ونشت وبرخاست سے قریب تر نہیں جانتا)۔
آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کو ان کے دینی امور کی تعلیم دیں اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا۔ اور فرمایا:
’’هُمَا مِنَ النُجَبَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ،فَاقْتَدُوا بِهِمَا‘‘([7])
(یہ دو اشخاص اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے قدآور شخصیات ہیں، پس ان کی اقتداء کرنا)۔
مختصر سوانح حیات سیدنا #عبداللہ_بن_مسعود رضی اللہ عنہ
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_masood.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عبداللہ بن مسعود بن غافل الھذلی ہیں اور آپ کی والدہ ام عبد تھیں جن کی طرف کبھی کبھار آپ رضی اللہ عنہ کی نسبت کی جاتی ہے([1])۔آپ رضی اللہ عنہ اسلام میں سابقین اولین میں سے تھے اور دونوں ہجرتیں (حبشہ ومدینہ) فرمائیں، اسی طرح سے غزوۂ بدر اور اس کے بعد کے معرکوں میں شریک رہے۔
آپ رضی اللہ عنہ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے براہ راست ستر اور اس سے کچھ اوپر قرآنی سورتیں حاصل کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شروع اسلام ہی میں ان کے لیے فرمایا:
’’إنك لغلام مُعَلَّم‘‘([2])
(تم تو ایک پڑھے پڑھائے سمجھدار لڑکے ہو)۔
اور فرمایا:
’’مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْرَأَ الْقُرْآنَ غَضًّا كَمَا أُنْزِلَ، فَلْيَقْرَأْهُ عَلَى قِرَاءَةِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ‘‘([3])
(جو چاہتا ہے کہ قرآن کریم جس طرح تروتازہ اترا تھا بالکل اسی طرح قرأت کرے تو اسے چاہیے کہ ابن ام عبد(ابن مسعود رضی اللہ عنہ) کےقرأت کی طرح پڑھے)۔
اور صحیح البخاری ([4])میں ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَقَدْ عَلِمَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَنِّي مِنْ أَعْلَمِهِمْ بِكِتَابِ اللَّهِ‘‘
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ میں ان میں سے سب سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہوں)۔
اور فرمایا:
’’وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَا أُنْزِلَتْ سُورَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ أَيْنَ أُنْزِلَتْ، وَلَا أُنْزِلَتْ آيَةٌ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ إِلَّا أَنَا أَعْلَمُ فِيمَ أُنْزِلَتْ، وَلَوْ أَعْلَمُ أَحَدًا أَعْلَمَ مِنِّي بِكِتَابِ اللَّهِ تُبَلِّغُهُ الْإِبِلُ لَرَكِبْتُ إِلَيْهِ‘‘
(اس اللہ کی قسم کہ جس کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں کہ کتاب اللہ میں سے کوئی بھی سورت نازل نہیں ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ وہ کہاں نازل ہوئی، اور نہ ہی کوئی آیت نازل ہوئی مگر مجھے معلوم ہے کہ کس کےبارے میں نازل ہوئی، اور اگر میرےعلم میں کوئی ایساہوتا کہ جو مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو اورمیرا اونٹ اس تک پہنچ سکتا ہو تو میں اس پر سوار ہوکر اس کی طرف سفرکرتا)۔
اور آپ رضی اللہ عنہ ان صحابہ میں سے تھے کہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل فرمایا، اور آپ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوتے، سامان طہارت وتکیہ وغیرہ لے کر ساتھ چلا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’قَدِمْتُ أَنَا وَأَخِي مِنْ الْيَمَنِ فَمَكُثْنَا حِينًا مَا نُرَى إِلَّا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِ النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لِمَا نَرَى مِنْ دُخُولِهِ وَدُخُولِ أُمِّهِ عَلَى النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘([5])
(میں اور میرا بھائی جب یمن سے آئے تو کچھ عرصہ قیام کرنے پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت میں سے ہیں کیونکہ اس کثرت سے ان کی اور ان کی والدہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آمد ورفت ہوا کرتی تھی)۔
لہذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مستقل ملازمت اختیا ر کرنے کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اور سنت سے بہت متاثر تھے۔ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’مَا أَعْرِفُ أَحَدًا أَقْرَبَ سَمْتًا وَهَدْيًا وَدَلًّا بِالنَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ ابْنِ أُمِّ عَبْد‘‘([6])
(میں ابن ام عبد (ابن مسعود رضی اللہ عنہ) سے زیادہ کسی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہیت، طریقے، چال ڈھال ونشت وبرخاست سے قریب تر نہیں جانتا)۔
آپ رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں مبعوث فرمایا تاکہ لوگوں کو ان کے دینی امور کی تعلیم دیں اور سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر فرمایا۔ اور فرمایا:
’’هُمَا مِنَ النُجَبَاءِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ،فَاقْتَدُوا بِهِمَا‘‘([7])
(یہ دو اشخاص اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے قدآور شخصیات ہیں، پس ان کی اقتداء کرنا)۔
[#SalafiUrduDawah Article] Brief biography of Sahabi #Abdullah_bin_Abbaas (radiAllaho anhuma) – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
مختصر سوانح حیات #عبداللہ_بن_عباس رضی اللہ عنہما
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_abbaas.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہما ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملازمت (خدمت میں حاضری) اختیار کی کیونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی ہونےکےساتھ ساتھ ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ بھی تھیں۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سینے سے چمٹا کر یہ دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ‘‘
(اےاللہ اسے حکمت کی تعلیم دے)۔
اورایک روایت میں ہے :
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ‘‘([1])
(اسے کتاب کی تعلیم دے)۔
اور جب آپ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوء کاپانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے یہ بھی دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ فَقِّهُّ فِي الدِّينِ‘‘([2])
(اے اللہ اسے دین کی فقاہت عطاء فرما)۔
پس آپ رضی اللہ عنہما اس مبارک دعاء کے سبب سے اس امت کے تفسیر اور فقہ میں حبر (بہت بڑے عالم) ہوئے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو حصول علم کی حرص ،اس کی طلب میں محنت اور اس کی تعلیم دینے میں صبر کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ لہذا اس وجہ سے آپ رضی اللہ عنہما کو وہ بلند درجہ حاصل ہوا کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہیں اپنی مجالس میں بلاتے اور ان کے قول کو لیتے۔جس پر مہاجروں نےعرض کی:
’’أَلا تَدْعُو أَبْنَاءَنَا كَمَا تَدْعُو ابْنَ عَبَّاسٍ؟ قَالَ: ذَاكُمْ فَتَى الْكُهُولِ، إِنَّ لَهُ لِسَانًا سَئُولًا، وَقَلْبًا عَقُولًا‘‘([3])
(آپ ہمارے بیٹوں کو اس طرح کیوں نہیں بلاتے جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلاتے ہیں؟! اس پر انہوں نے جواب دیا: یہ نوجوان تو پختہ عمر والوں جیسی دانائی رکھتا ہے، جس کی (طلب علم کی خاطر) باکثرت سوال کرنے والی زبان اور بہت اچھی طرح سمجھنے والا دل ہے)۔
بعدازیں آپ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو ایک دن بلایا پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کوبھی بلابھیجاتاکہ سب لوگ اس نوجوان کی ذہانت وعلم دیکھ لیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سب سے پوچھا تم سب لوگ اللہ تعالی کےاس فرمان کہ متعلق کیا کہتے ہو:
﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ﴾ (النصر: 1)
(جب اللہ تعالی کی طرف سے نصرت اور فتح آپہنچے)
یہاں تک کہ پوری سورۃ تلاوت فرمائی۔ اس پر بعض نے کہا: اس میں اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہےکہ جب ہمیں وہ فتح نصیب فرمائے توہم اس کی حمدبیان کریں اوراستغفارکریں۔ اوربعض خاموش رہے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: کیا تم بھی ایسا ہی کہتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر کیا کہتے ہو؟ فرمایا:
’’هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ فَتْحُ مَكَّةَ، فَذَاكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾، قَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ‘‘([4])
(اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی خبر ہے۔ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ جب اللہ تعالی کی نصرت آن پہنچے اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے،تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کی علامت ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہیے کہ اپنے رب کی حمد کےساتھ تسبیح بیان کریں اور استغفار کریں بے شک وہ تو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی یہی تفسیر جانتا ہوں جو تم جانتے ہو)۔
اور سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَنِعْمَ تُرْجُمَانُ الْقُرْآنِ ابْنُ عَبَّاسٍ‘‘([5])
(ابن عباس رضی اللہ عنہما کیا ہی خوب ترجمان القرآن ہیں)۔
اور فرمایا:
’’لَوْ أَدْرَكَ أَسْنَانَنَا مَا عَاشَرَهُ مِنَّا أَحَدٌ‘‘([6])
( اگر وہ ہماری عمر کو پہنچ جائے تو ہم سے کوئی ان کے ہم پلہ نہ ہو)۔
یعنی ان کی کوئی نظیر نہ ہو حالانکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے بعد 36 سال حیات رہے اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کتنا کچھ علم اس عرصہ میں حاصل کرلیا ہوگا۔
مختصر سوانح حیات #عبداللہ_بن_عباس رضی اللہ عنہما
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: اصول تفسیر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/02/sawanah_hayat_abdullaah_bin_abbaas.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہما ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوئے۔ آپ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملازمت (خدمت میں حاضری) اختیار کی کیونکہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی ہونےکےساتھ ساتھ ان کی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ محترمہ بھی تھیں۔ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سینے سے چمٹا کر یہ دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْحِكْمَةَ‘‘
(اےاللہ اسے حکمت کی تعلیم دے)۔
اورایک روایت میں ہے :
’’اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ‘‘([1])
(اسے کتاب کی تعلیم دے)۔
اور جب آپ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضوء کاپانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے یہ بھی دعاء فرمائی:
’’اللَّهُمَّ فَقِّهُّ فِي الدِّينِ‘‘([2])
(اے اللہ اسے دین کی فقاہت عطاء فرما)۔
پس آپ رضی اللہ عنہما اس مبارک دعاء کے سبب سے اس امت کے تفسیر اور فقہ میں حبر (بہت بڑے عالم) ہوئے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو حصول علم کی حرص ،اس کی طلب میں محنت اور اس کی تعلیم دینے میں صبر کی توفیق عنایت فرمائی تھی۔ لہذا اس وجہ سے آپ رضی اللہ عنہما کو وہ بلند درجہ حاصل ہوا کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ انہیں اپنی مجالس میں بلاتے اور ان کے قول کو لیتے۔جس پر مہاجروں نےعرض کی:
’’أَلا تَدْعُو أَبْنَاءَنَا كَمَا تَدْعُو ابْنَ عَبَّاسٍ؟ قَالَ: ذَاكُمْ فَتَى الْكُهُولِ، إِنَّ لَهُ لِسَانًا سَئُولًا، وَقَلْبًا عَقُولًا‘‘([3])
(آپ ہمارے بیٹوں کو اس طرح کیوں نہیں بلاتے جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بلاتے ہیں؟! اس پر انہوں نے جواب دیا: یہ نوجوان تو پختہ عمر والوں جیسی دانائی رکھتا ہے، جس کی (طلب علم کی خاطر) باکثرت سوال کرنے والی زبان اور بہت اچھی طرح سمجھنے والا دل ہے)۔
بعدازیں آپ رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو ایک دن بلایا پھر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کوبھی بلابھیجاتاکہ سب لوگ اس نوجوان کی ذہانت وعلم دیکھ لیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے سب سے پوچھا تم سب لوگ اللہ تعالی کےاس فرمان کہ متعلق کیا کہتے ہو:
﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ﴾ (النصر: 1)
(جب اللہ تعالی کی طرف سے نصرت اور فتح آپہنچے)
یہاں تک کہ پوری سورۃ تلاوت فرمائی۔ اس پر بعض نے کہا: اس میں اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہےکہ جب ہمیں وہ فتح نصیب فرمائے توہم اس کی حمدبیان کریں اوراستغفارکریں۔ اوربعض خاموش رہے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا: کیا تم بھی ایسا ہی کہتے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نہیں۔ اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر کیا کہتے ہو؟ فرمایا:
’’هُوَ أَجَلُ رَسُولِ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَعْلَمَهُ اللَّهُ لَهُ ﴿إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ﴾ فَتْحُ مَكَّةَ، فَذَاكَ عَلَامَةُ أَجَلِكَ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا﴾، قَالَ عُمَرُ: مَا أَعْلَمُ مِنْهَا إِلَّا مَا تَعْلَمُ‘‘([4])
(اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کی خبر ہے۔ اللہ تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خبر دے رہا ہے کہ جب اللہ تعالی کی نصرت آن پہنچے اور فتح سے مراد فتح مکہ ہے،تو یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کی علامت ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چاہیے کہ اپنے رب کی حمد کےساتھ تسبیح بیان کریں اور استغفار کریں بے شک وہ تو بڑا توبہ قبول کرنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں بھی اس کی یہی تفسیر جانتا ہوں جو تم جانتے ہو)۔
اور سیدناعبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’لَنِعْمَ تُرْجُمَانُ الْقُرْآنِ ابْنُ عَبَّاسٍ‘‘([5])
(ابن عباس رضی اللہ عنہما کیا ہی خوب ترجمان القرآن ہیں)۔
اور فرمایا:
’’لَوْ أَدْرَكَ أَسْنَانَنَا مَا عَاشَرَهُ مِنَّا أَحَدٌ‘‘([6])
( اگر وہ ہماری عمر کو پہنچ جائے تو ہم سے کوئی ان کے ہم پلہ نہ ہو)۔
یعنی ان کی کوئی نظیر نہ ہو حالانکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ان کے بعد 36 سال حیات رہے اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ کتنا کچھ علم اس عرصہ میں حاصل کرلیا ہوگا۔
[#SalafiUrduDawah Article] Types and rulings of the people who #visit_graves - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قبروں_کی_زیارت پر جانے والوں کی اقسام واحکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب (نصیۃ): التوحید والعقیدۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/qabro_ziyarat_aqsaam_ahkaam.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: بارک اللہ فیکم۔ کیا ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز ہے جو مزاروں پر جاتا ہے اور ان سے تبرک حاصل کرتا ہے، وسیلہ بناتا ہے، اور کیا اس کے پیچھے نماز جائز ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب: دراصل مزاروں پرجانے والوں کی کچھ اقسام ہیں:
پہلی قسم: جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ اسے پکارتے ہیں، پناہ طلب کرتے ہیں، مدد طلب کرتے ہیں، اور اس سے رزق طلب کرتے ہيں تو ایساکرنے والے شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہیں۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی نماز میں امامت کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا﴾ (النساء: 116)
(بے شک اللہ تعالی اس بات کو نہیں معاف کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے البتہ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے، اور جس نے اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا)
ایک اور آیت میں ہے:
﴿ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ﴾ (النساء: 48)
(یقیناً اس نے بہت عظیم گناہ اور بہتان باندھا)
دوسری قسم: وہ لوگ جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعاء کریں گے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ اس کے پاس دعاء کرنا مسجد یا اپنے گھر میں دعاء کرنے سے افضل ہے اور بلاشبہ یہ گمراہی، غلطی اور جہالت ہے لیکن یہ کفر کی حد تک نہیں پہنچتی ، کیونکہ وہ خالص اللہ تعالی سے دعاء کے لیے گیا تھا مگر اس کا یہ گمان تھا کہ اس قبر پر اس کا دعاء کرنا افضل ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔
تیسری قسم: جو قبروں کا طواف اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے کرتا ہے یہ سوچ کرکہ یہ صاحب قبر اولیاء اللہ میں سے ہے اور ان کی تعظیم کرنا دراصل اللہ تعالی ہی کی تعظیم ہے تو ایسا شخص بدعتی ہے مگر شرک اکبر کرنے والا مشرک نہیں کیونکہ وہ صاحب قبر کی تعظیم کے لیے طواف نہیں کررہا بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے طواف کررہا ہے ۔ لیکن اگر وہ واقعی صاحب قبر کی تعظیم میں طواف کرے تو قریب ہے کہ وہ شرک اکبر والا مشرک بن جائے گا۔
چوتھی قسم: جو قبروں پر شرعی زیارت کے لیے جاتا ہے اور فوت شدگان کے لیے دعاء کرتا ہےتو یہ شرعی زیارت ہے جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(بلاشبہ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، لیکن اب ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ بے شک یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گی)۔
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع قبرستان جاکر فوت شدگان کے لیے دعاء مانگا کرتے تھے۔ اور اس زیارت کے دوران جو دعاء مستحب ہے وہ یہ ہے کہ:
’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَمِنكُم وَالْمُسْتَأْخِرِينَ و نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ وَ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُم‘‘([2])
(مومن قوم کی آرام گاہ تم پر سلامتی ہو، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے گزرے ہوؤں اور پیچھے رہ جانے والوں پر رحم فرمائیں، اور ہم اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ کرنا اور ان کے جانے کے بعد ہمیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کرنا، اور ہماری اور ان کی بخشش فرمادے)۔
#قبروں_کی_زیارت پر جانے والوں کی اقسام واحکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب (نصیۃ): التوحید والعقیدۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/qabro_ziyarat_aqsaam_ahkaam.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: بارک اللہ فیکم۔ کیا ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز ہے جو مزاروں پر جاتا ہے اور ان سے تبرک حاصل کرتا ہے، وسیلہ بناتا ہے، اور کیا اس کے پیچھے نماز جائز ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب: دراصل مزاروں پرجانے والوں کی کچھ اقسام ہیں:
پہلی قسم: جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ اسے پکارتے ہیں، پناہ طلب کرتے ہیں، مدد طلب کرتے ہیں، اور اس سے رزق طلب کرتے ہيں تو ایساکرنے والے شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہیں۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی نماز میں امامت کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا﴾ (النساء: 116)
(بے شک اللہ تعالی اس بات کو نہیں معاف کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے البتہ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے، اور جس نے اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا)
ایک اور آیت میں ہے:
﴿ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ﴾ (النساء: 48)
(یقیناً اس نے بہت عظیم گناہ اور بہتان باندھا)
دوسری قسم: وہ لوگ جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعاء کریں گے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ اس کے پاس دعاء کرنا مسجد یا اپنے گھر میں دعاء کرنے سے افضل ہے اور بلاشبہ یہ گمراہی، غلطی اور جہالت ہے لیکن یہ کفر کی حد تک نہیں پہنچتی ، کیونکہ وہ خالص اللہ تعالی سے دعاء کے لیے گیا تھا مگر اس کا یہ گمان تھا کہ اس قبر پر اس کا دعاء کرنا افضل ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔
تیسری قسم: جو قبروں کا طواف اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے کرتا ہے یہ سوچ کرکہ یہ صاحب قبر اولیاء اللہ میں سے ہے اور ان کی تعظیم کرنا دراصل اللہ تعالی ہی کی تعظیم ہے تو ایسا شخص بدعتی ہے مگر شرک اکبر کرنے والا مشرک نہیں کیونکہ وہ صاحب قبر کی تعظیم کے لیے طواف نہیں کررہا بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے طواف کررہا ہے ۔ لیکن اگر وہ واقعی صاحب قبر کی تعظیم میں طواف کرے تو قریب ہے کہ وہ شرک اکبر والا مشرک بن جائے گا۔
چوتھی قسم: جو قبروں پر شرعی زیارت کے لیے جاتا ہے اور فوت شدگان کے لیے دعاء کرتا ہےتو یہ شرعی زیارت ہے جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(بلاشبہ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، لیکن اب ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ بے شک یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گی)۔
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع قبرستان جاکر فوت شدگان کے لیے دعاء مانگا کرتے تھے۔ اور اس زیارت کے دوران جو دعاء مستحب ہے وہ یہ ہے کہ:
’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَمِنكُم وَالْمُسْتَأْخِرِينَ و نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ وَ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُم‘‘([2])
(مومن قوم کی آرام گاہ تم پر سلامتی ہو، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے گزرے ہوؤں اور پیچھے رہ جانے والوں پر رحم فرمائیں، اور ہم اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ کرنا اور ان کے جانے کے بعد ہمیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کرنا، اور ہماری اور ان کی بخشش فرمادے)۔
[#SalafiUrduDawah Article] The #prohibition of #superstitions in #Islaam – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#اسلام میں #بدشگونی کی #مذمت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد (معمولی ترمیم کے ساتھ).
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
عناوین
بدشگونی کی تعریف
بدشگونی توحید کے منافی ہے
بدشگونی کا نقصان
بدشگونی سے متعلق بعض آیات
چھوت چھات کی بیماری کی حقیقت
الو کے بولنے کی تاثیر کی حقیقت
ماہ صفر منحوس نہیں
ان چیزوں کے وجود کی نفی کی گئی ہے یا تاثیر کی؟
ان چیزوں کی نفی کرنے کی حکمت
ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ
موسمی پیشنگوئی وغیرہ کے تعلق سے الفاظ میں احتیاط
بھوت پریت کی حقیقت
نیک فال کیا ہے؟
بدشگونی اور فال میں فرق
بدشگونی سے بچنے یا اس کے پیدا ہونے کی صورت میں پڑھی جانے والی دعاء
بدشگونی شرک ہے
شرک اصغر جاننے کا ایک مفید قاعدہ
بدشگونی کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے؟
بدشگونی کا کفارہ
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد
بدشگونی جانچنے کا معیار
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/islam_badshoguni_muzammat.pdf
#اسلام میں #بدشگونی کی #مذمت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد (معمولی ترمیم کے ساتھ).
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
عناوین
بدشگونی کی تعریف
بدشگونی توحید کے منافی ہے
بدشگونی کا نقصان
بدشگونی سے متعلق بعض آیات
چھوت چھات کی بیماری کی حقیقت
الو کے بولنے کی تاثیر کی حقیقت
ماہ صفر منحوس نہیں
ان چیزوں کے وجود کی نفی کی گئی ہے یا تاثیر کی؟
ان چیزوں کی نفی کرنے کی حکمت
ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ
موسمی پیشنگوئی وغیرہ کے تعلق سے الفاظ میں احتیاط
بھوت پریت کی حقیقت
نیک فال کیا ہے؟
بدشگونی اور فال میں فرق
بدشگونی سے بچنے یا اس کے پیدا ہونے کی صورت میں پڑھی جانے والی دعاء
بدشگونی شرک ہے
شرک اصغر جاننے کا ایک مفید قاعدہ
بدشگونی کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے؟
بدشگونی کا کفارہ
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد
بدشگونی جانچنے کا معیار
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/islam_badshoguni_muzammat.pdf