[#SalafiUrduDawah Article] #Hanging_Quranic_Verses, Names of Allaah and Rasoolullaah on the walls? - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#دیوار_پر_قرآنی_آیات،اسمائے الہی واسمائے نبی آویزاں کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 653۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/ayaat_asma_ilhaee_nabi_dewar_per.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: یہ خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا خط مخلصین جناب عبداللہ بن محمد احمد (الریاض)، منظور احمد قریشی اور احمد حسین کی طرف سے ہے، یہ بھائی کہتے ہیں کہ ایسے کارڈ ملتے ہیں کہ جن پر اللہ کا اسم جلالہ لکھا ہوتا ہے جیسا کہ اس خط کی ایک جانب لکھا ہوا ہے۔ اوراس خط میں غلاف کعبہ کی بھی ایک تصویر ہے کہ جس پر کتاب اللہ کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسے زمین پر پھینک دیتے ہيں جو اسلام کو جانتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس اشارے کے لیے ہے آپ اس کی خریدوفروخت کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ یا یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
جواب: الحمدللہ یہ مسئلہ مختلف طریقوں سے لوگوں میں بہت پھیل گیاہے۔ جن میں سے کچھ ایسے کارڈز یا فریم ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی کا اسم مبارک ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کے نام کے ساتھ دوسری جانب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوتا ہے۔پھر ان فریمز کودیوار پر یا بورڈوغیرہ پر بالکل متوازی طور پر ساتھ ساتھ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس تصویر کے بارے میں بات کرتے ہیں:
اولاً: فقط اللہ تعالی کا نام یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لٹکانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ اگر انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے حصول برکت کا فائدہ ہوگا ۔ تو جاننا چاہیے کہ برکت اس قسم کے عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو کوئی مفید جملہ نہیں کہ جس سے ایسا معنی کشید کیا جاسکے جو حصول برکت کا سبب ہو([1])۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح سے برکت حاصل کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ اسمائے الہی سے تبرک حاصل کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ جو قرآن وسنت میں وارد ہو۔ کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف (یعنی کتاب وسنت کے دلائل) ہے۔
پھر جو صورت ہم نے ابھی بیان کی کہ ایک طرف اللہ تعالی کا اسم جلالہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بلکل متوازی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ایک قسم کی تشریک وموازنت پائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ:
’’ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘
(جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا:
’’أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا، بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ([2])
(کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا ساجھی بنالیا ہے، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ برکت کے لیے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لکھ دینا جائز نہیں، بلکہ برکت تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے التزام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
لہذا یہ تصویر جو لوگ کارڈز میں استعمال کرتے ہيں واضح ہوا کہ اس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔
جبکہ جہاں تک معاملہ ہے دوسری تصویر کا جس کی جانب سائل بھائی نے اشارہ کیا تو اس کا جواز بھی محل نظر ہے کیونکہ قرآن کریم کو کاغذ یا بورڈ پر لکھنے کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔لیکن اسے گھروں کی دیواروں پر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نا ہی تابعین عظام رحمہم اللہ سے۔ اور میں باقاعدہ تحدید کے ساتھ تو نہیں جانتا کہ یہ بدعت کب ایجاد ہوئی مگر درحقیقت یہ ایک بدعت ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے نہ کے اس کی دیوار وغیرہ پر تعلیق کی جائے یعنی لٹکایاجائے۔
پھر اس کا دیوار پر لٹکانا اس میں اس مفسدے کے ساتھ کے یہ سلف صالحین سے وارد نہیں ایک اور مفسدہ ہے کہ انسان اسے لٹکا کر اسی پر اعتماد کرکے بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے یہ حفاظت کا سبب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اور صحیح طور پر حفاظت کے لیے جو اذکار ہیں ان سے بے نیاز وبےپراوہ ہوجاتا ہےجو کہ زبان سے تلاوت کرنا ہے۔ کیونکہ یہی نافع حفاظت کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیۃ الکرسی کے بارے میں فرمایا:
’’من قرأها في ليلة لم يزل عليه من الله حافظ ولا يقربه شيطان حتى يصبح‘‘ ([3])
#دیوار_پر_قرآنی_آیات،اسمائے الہی واسمائے نبی آویزاں کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 653۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/ayaat_asma_ilhaee_nabi_dewar_per.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: یہ خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا خط مخلصین جناب عبداللہ بن محمد احمد (الریاض)، منظور احمد قریشی اور احمد حسین کی طرف سے ہے، یہ بھائی کہتے ہیں کہ ایسے کارڈ ملتے ہیں کہ جن پر اللہ کا اسم جلالہ لکھا ہوتا ہے جیسا کہ اس خط کی ایک جانب لکھا ہوا ہے۔ اوراس خط میں غلاف کعبہ کی بھی ایک تصویر ہے کہ جس پر کتاب اللہ کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسے زمین پر پھینک دیتے ہيں جو اسلام کو جانتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس اشارے کے لیے ہے آپ اس کی خریدوفروخت کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ یا یہ کس کی ذمہ داری ہے؟
جواب: الحمدللہ یہ مسئلہ مختلف طریقوں سے لوگوں میں بہت پھیل گیاہے۔ جن میں سے کچھ ایسے کارڈز یا فریم ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی کا اسم مبارک ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کے نام کے ساتھ دوسری جانب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوتا ہے۔پھر ان فریمز کودیوار پر یا بورڈوغیرہ پر بالکل متوازی طور پر ساتھ ساتھ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس تصویر کے بارے میں بات کرتے ہیں:
اولاً: فقط اللہ تعالی کا نام یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لٹکانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ اگر انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے حصول برکت کا فائدہ ہوگا ۔ تو جاننا چاہیے کہ برکت اس قسم کے عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو کوئی مفید جملہ نہیں کہ جس سے ایسا معنی کشید کیا جاسکے جو حصول برکت کا سبب ہو([1])۔
دوسری بات یہ کہ اس طرح سے برکت حاصل کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ اسمائے الہی سے تبرک حاصل کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ جو قرآن وسنت میں وارد ہو۔ کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف (یعنی کتاب وسنت کے دلائل) ہے۔
پھر جو صورت ہم نے ابھی بیان کی کہ ایک طرف اللہ تعالی کا اسم جلالہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بلکل متوازی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ایک قسم کی تشریک وموازنت پائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ:
’’ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘
(جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)۔
اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا:
’’أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا، بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ([2])
(کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا ساجھی بنالیا ہے، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔
پھر یہ بات بھی ہے کہ برکت کے لیے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لکھ دینا جائز نہیں، بلکہ برکت تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے التزام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔
لہذا یہ تصویر جو لوگ کارڈز میں استعمال کرتے ہيں واضح ہوا کہ اس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔
جبکہ جہاں تک معاملہ ہے دوسری تصویر کا جس کی جانب سائل بھائی نے اشارہ کیا تو اس کا جواز بھی محل نظر ہے کیونکہ قرآن کریم کو کاغذ یا بورڈ پر لکھنے کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔لیکن اسے گھروں کی دیواروں پر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نا ہی تابعین عظام رحمہم اللہ سے۔ اور میں باقاعدہ تحدید کے ساتھ تو نہیں جانتا کہ یہ بدعت کب ایجاد ہوئی مگر درحقیقت یہ ایک بدعت ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے نہ کے اس کی دیوار وغیرہ پر تعلیق کی جائے یعنی لٹکایاجائے۔
پھر اس کا دیوار پر لٹکانا اس میں اس مفسدے کے ساتھ کے یہ سلف صالحین سے وارد نہیں ایک اور مفسدہ ہے کہ انسان اسے لٹکا کر اسی پر اعتماد کرکے بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے یہ حفاظت کا سبب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اور صحیح طور پر حفاظت کے لیے جو اذکار ہیں ان سے بے نیاز وبےپراوہ ہوجاتا ہےجو کہ زبان سے تلاوت کرنا ہے۔ کیونکہ یہی نافع حفاظت کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیۃ الکرسی کے بارے میں فرمایا:
’’من قرأها في ليلة لم يزل عليه من الله حافظ ولا يقربه شيطان حتى يصبح‘‘ ([3])