Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Types of #love and the ruling concerning them – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#محبت کی اقسام واحکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/muhabbat_aqsaam_ahkaam.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اپنی کتاب التوحید میں عنوان قائم کرتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾
(البقرۃ: 165)
(اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو اللہ کے علاوہ غیروں میں سے کچھ اس کے برابر والے بنا لیتے ہیں، وہ ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ سب سے شدید ترین محبت اللہ سے ہی کرتے ہیں)
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مؤلف رحمہ اللہ نے اسی آیت کو باب کا عنوان بنالیا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اس عنوان سے آپ کی مراد ہو باب المحبۃ (محبت کے بارے میں باب)۔
اور جتنے بھی اعمال ہیں ان سب کی اصل بنیاد محبت ہی ہوتی ہے۔ پس انسان کسی چیز کے لیے عمل نہیں کرتا مگر صرف اسی کے لیے جس سے وہ محبت کرتا ہے، یا تو نفع حاصل کرنے کی چاہت یا پھر ضرر ونقصان کو دور کرنے کی چاہت۔ اگر وہ کوئی کام کرتا ہے تو ضرور وہ اس سے محبت کرتا ہے یا تو بذاتہ محبت جیسے کھانے کی محبت، یا پھر کسی غیر سبب کی وجہ سے جیسے دواء استعمال کرنا (یعنی دواء کی بذاتہ محبت نہيں مگر اس کے علاوہ ایک چیز یعنی شفاءیابی کی چاہت ہے جو اللہ تعالی کے حکم سے اس کے ذریعے سے ملتی ہے)۔
اور اللہ تعالی کی عبادت بھی محبت پر مبنی ہے، بلکہ یہی تو عبادت کی حقیقت ہے۔ کیونکہ اگر آپ عبادت کریں بغیر محبت کے تو وہ محض کھوکھلا جسم بن کر رہ جائے گی جس میں کوئی روح ہی نہ ہو۔اور جب انسان کے دل میں اللہ تعالی کی محبت اور اس کی جنت کے پہنچنے کی محبت ہوگی تو وہ ضرور اس تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو مشرکین اپنے معبودات سے محبت کرتےہیں تو وہ یہی محبت ہوتی ہے جو ان کو اس حد تک پہنچا دیتی ہےکہ وہ ان کی اللہ تعالی کے علاوہ یا اس کے ساتھ عبادت کرنے لگتے ہیں۔
محبت دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
پہلی قسم:
محبتِ عبادت: یہ وہ محبت ہے جو تذلل وتعظیم کا موجب ہوتی ہے۔اور محبوب کا ایسا اجلال وتعظیم انسان کے دل میں بیٹھ جائے جو اس کے اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے اجتناب کا تقاضہ کرے۔اور یہ خاص ہے صرف اللہ تعالی کے لیے۔ اور جو کوئی اللہ تعالی کے ساتھ کسی غیر سے محبت ِعبادت کرتا ہے تو وہ شرک اکبر کرنے والا مشرک ہے۔ اور علماء کرام اس محبت کی تعبیر محبتِ خاصہ سے کرتے ہيں۔
دوسری قسم:
للہ فی اللہ محبت کرنا یعنی اللہ تعالی کے لیے اور اس کی وجہ سے محبت کرنا: وہ اس طرح کہ اس محبت کا سبب اللہ کی محبت ہو جیسا کہ کوئی چیز اللہ تعالی کو محبوب ہو اشخاص میں سے جیسے انبیاءورسل کرام، صدیقین، شہداء وصالحین۔
یا اعمال میں سے جیسے نماز وزکوٰۃ اور دیگر اعمال خیر یا ان کے علاوہ۔ محبت کی یہ نوع اس پہلی قسم یعنی اللہ تعالی کی محبت ہی کے تابع ہے۔
دوسری قسم میں سے دوسری نوع کی محبت شفقت ورحمت والی محبت ہے: اس کی مثال جیسا کہ اولاد کی محبت، بچوں کی، کمزوروں اور مریضوں سے محبت وشفقت۔
اسی طرح سے تیسری نوع کی محبت، اجلال وتعظیم والی محبت ہے مگر بغیر عبادت کے۔ جیسا کہ انسان والد سے محبت کرتا ہے، یا اپنے استاد سے یا اہل خیر میں سے جو بڑے ہيں ان سے۔
چوتھی نوع: طبیعی محبت جیسے کھانے پینے کی محبت، پہننے وسواری ورہائش وگھر کی محبت۔
ان تمام انواع میں سے سب سے اشرف پہلی نوع ہے، اور باقی مباح کی قسم میں سے ہيں، الا یہ کہ ان (مباح والی) کے ساتھ ایسی چیز کو جوڑا جائے جو تعبد (عبادت گزاری) کی متقاضی ہو تو پھر یہ بھی عبادت بن سکتی ہيں۔
جیسے ایک انسان اپنے والد سے اجلال وتعظیم والی محبت کرتا ہے لیکن اگر وہ اس محبت کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت گزاری کی نیت کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے والد کے ساتھ نیک سلوکی کا حکم دیا ہے تو یہ بھی عبادت بن جاتی ہے۔ اسی طرح سے وہ اپنی اولاد سے شفقت والی محبت کرتا ہے لیکن اگر اس کے ساتھ اللہ تعالی کے حکم کا جو تقاضہ بنتا ہے اسے بھی پورا کرے جیساکہ اس اولاد کی اصلاح کرتا رہے تو یہ بھی عبادت بن جائے گا۔
اسی طرح سے جو طبیعی محبت ہے جیسے کھانے پینے، پہننے اور گھر کی محبت اگر اس سے نیت اللہ تعالی کی عبادت میں استعانت ومدد لینا ہو تو یہ بھی عبادت بن جائیں گے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ‘‘([1])
#SalafiUrduDawah
#رسولوں کو بھیجنے کی حکمت - شیخ محمد بن صالح #العثیمین
#rasoolo ko bhejnay ki hikmat - shaykh muhammad bin saaleh #al_uthaimeen
[#SalafiUrduDawah Article] Can we perform #demonstrations against the ruler if he permits us? – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کیا ہم حکومت کے خلاف #مظاہرات کرسکتے ہیں اگر خود حکمران اس کی اجازت دے؟
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ النھج الواضح سے آڈیو: المظاهرات كلها شر سواء أذن بها الحاكم أو لم يأذن۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/hakim_ijazat_muzahiraat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سوال: اگر کوئی حاکم اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت کے علاوہ حکم کرتا ہو پھر وہ بعض لوگوں کو خود ہی اجازت دیتا ہو کہ وہ مظاہرات کریں جسے وہ ذاتی جدوجہد (یا اپنے حقوق کے لیے خود آواز بلند کرنے) کا نام دیتے ہیں ان ضوابط کی پابندی کے ساتھ جسے اس حاکم نے مقرر کیا ہے، اور وہ لوگ یہ کام کرتے رہتے ہیں لیکن جب ان کے اس عمل (مظاہرات) پر انکار کیا جائے تو کہتے ہیں: ہم حکمران سے تصادم تو نہیں کررہے بلکہ خود اسی حکمران کی رائے (یا دی گئی آزادی) پر عمل کررہے ہیں، پس کیا ایسا کرنا شرعی طور پر جائز ہے حالانکہ نص کی مخالفت بھی اس میں پائی جاتی ہے؟
جواب: آپ کو سلف کی اتباع کرنی چاہیے۔ اگر یہ سلف میں موجود تھا تو یہ خیر ہے، اور اگر موجود نہ تھا تو یہ شر ہے۔ بے شک یہ جو مظاہرات ہیں شر ہيں کیونکہ اس کا نتیجہ افراتفری ہی ہے نہ مظاہرین کی طرف سے اور نہ ہی دوسروں کی طرف سے(یعنی نہیں ہونے چاہیے)، بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے عزتوں، اموال وابدان پر زیادتی ہو، کیونکہ افراتفری کے بیچ میں انسان کی حالت ایسے ہوجاتی ہے جیسے وہ نشے میں ہو معلوم ہی نہیں کہ کیا بول رہا ہے، کیا کررہاہے۔ چناچہ یہ مظاہرات بہرصورت سارے کے سارے شر ہی ہیں خواہ حکمران اس کی اجازت دےیا نہ دے۔
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکمران کا اس کی اجازت دینا کچھ نہیں سوائے ایک دکھاوے کے، ورنہ اگر واقعی آپ اس کے دل کی طرف لوٹیں اس کی حالت دیکھیں تو وہ اس سے شدید ترین کراہیت ونفرت کرتا ہوگا۔ لیکن بس ظاہر یوں کرتا ہے جسے وہ ڈیموکریسی کہتے ہيں گویا کہ اس نے لوگوں پر آزادی کا در کھلا رکھا ہے۔ اور یہ سلف کا طریقہ نہيں۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Demonstrations against government is not from the Salafee Manhaj – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
حکومت مخالف #مظاہرات سلفی طریقہ نہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الجواب الابھر لفؤاد سراج، ص 75۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/08/demonstrations_salafi_manhaj_nahi.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: کیا مظاہرات بھی شرعی وسائل دعوت میں شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب: الحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی سیدنا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم ومن تبعھم باحسان الی یوم الدین، اما بعد:
مظاہرات بلاشبہ ایک نوایجاد امور میں سے ہے،جو کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا عہد خلفائے راشدین یا پھر صحابہ کرام y کے کسی بھی عہد میں معروف نہ تھے۔اس پر مستزاد یہ کہ اس میں جو افراتفری اور دنگا فساد ہوتا ہے وہ بھی اس طریقے کو ممنوع قرار دینے پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے اس میں شیشے اور دروازےوغیرہ توڑے جاتے ہیں، اور اس میں مردوزن، نوجوانوں اور بوڑھوں کا اختلاط ہوتا ہے اور اس جیسے دیگر مفاسد ومنکرات پائے جاتے ہیں۔ اب جہاں تک مسئلہ ہے حکومت پر دباؤ ڈالنے کا : اگر تو وہ حکومت مسلمان ہے تو اس کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ e ہی کافی ووافی واعظ ہے۔ یہ تو وہ بہترین چیز ہے کہ جو ایک مسلمان پر پیش کی جاسکتی ہے۔
لیکن اگر وہ حکومت کافر ہے تو اسے ان مظاہرین کی چنداں پرواہ نہیں اورہوسکتا ہے انہیں محض ٹالنے کے لئے بظاہر رضامندی کا اظہار کردے اور دل میں وہ جس شر پر قائم تھا اسی پر قائم رہے۔یہی وجوہات ہیں کہ جس کی بنا پر ہم ان مظاہرات کو منکرات میں شمار کرتے ہیں۔ البتہ ان لوگوں کا یہ دعویٰ کہ یہ مظاہرے پر امن ہوتے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے یہ مظاہرات ابتداء میں پرامن شروع ہوتے ہوں لیکن آخرکار تخریب کاری پر ہی منتج ہوتے ہیں (جیسا کہ امر واقع اس پر شاہد ہے)۔ آخر میں میری نوجوانوں کو نصیحت ہے کہ وہ سلف کے طریقے کی پیروی کریں کیونکہ اللہ تعالی نے مہاجرین وانصار اور جو کوئی بھی بطورِ احسن ان کے نقش قدم پر چلے ان سب کی تعریف وتوصیف بیان کی ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding sending Salah (#Durood) upon the messengers other than Rasoolullaah (صلى الله عليه وسلم) and the rest of the believers? - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام اور ان کے علاوہ مومنین پر #درود بھیجنا کیسا ہے؟

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ

(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 654۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/anbiyah_momineen_durood.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: محمد جمیل حسین مصطفی جمہوریہ عراق سے پوچھتے ہیں کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے اوپردرود بھیجا جاسکتا ہے؟

جواب: جی ہاں، دیگر انبیاء کرام کے اوپر بھی درود بھیجنا جائز ہے ہم کہتے ہیں علیہم الصلاۃ والسلام۔ بلکہ انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ بھی دیگر مومنین جو انہی کے تحت وتابع آتے ہوں پر بھی درود بھیجنا جائز ہے جو کہ نص اور اجماع سے ثابت ہے ۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ہم کس طرح سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ‘‘ ([1])

(اے اللہ تو درود بھیج محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے درود بھیجا ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر، بے شک تو ہی قابل تعریف وبزرگی والا ہے)۔

اور اس جملے میں آل نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت کے تابع ہیں آپ کے رشتہ داروں میں سے ہوں یا ان کے علاوہ بھی، یہی راجح قول ہے۔ اگرچہ اس میں اول و اولیٰ وہ ہیں جو مومنین میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رشتہ دار ہیں لیکن اس کے باوجود یہ ان تمام کو شامل ہیں جو آپ کی اتباع کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ میں سے ہیں([2])۔ لہذا انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ ان کے تابع آنے والوں پر بھی درود جائز ہے جو نص اور اجماع سے ثابت ہے۔ لیکن انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی پر تابع ہونے سے ہٹ کر مستقل طور پر درود بھیجنے کے بارے میں علماء کرام میں اختلاف ہےکہ آیا یہ جائز ہے کہ نہیں۔ جبکہ صحیح بات یہی ہے کہ یہ جائز ہے کسی مومن شخص کے لیے کہا جائے صلی اللہ علیہ۔ کیونکہ اللہ تعالی نے خود اپنےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ حکم فرمایا:

﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَـةً تُطَهِّرُھُمْ وَتُزَكِّيْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ﴾ (التوبۃ:103)

(آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں اور ان پر صلاۃ (درود) بھیجیں)

پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس حکم کی تعمیل میں جو بھی اپنی زکوٰۃ لاتا اس پر درود بھیجتے اور جب وہ اپنے صدقات لے کر آتے ایسے کہتے کہ:

’’اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى‘‘ ([3])

(اے اللہ تو آل ابی اوفیٰ پر درود بھیج)۔

البتہ جو چیز ممنوع ہے وہ یہ کہ اسے کسی معین شخص کا باقاعدہ شعار بنادیا جائے کہ جب بھی اس کا نام لیا جائے تو صلی اللہ علیہ کہا جائے۔ تو ایسا انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں۔ مثلاً ہم جب بھی ابوبکررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو کہیں صلی اللہ علیہ، یا جب بھی عمررضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں، یا پھر جب بھی عثمان کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہ،یں اسی طرح سے جب بھی علیرضی اللہ عنہ کا ذکر کریں تو صلی اللہ علیہ کہیں ، ایسا کرنا جائز نہیں۔ ہمارے لیے جائز نہیں کہ ہم اسے کسی معین شخص کا شعار بنادیں۔



[1] صحیح بخاری 3370۔



[2] جیسا کہ فرعون کے تابعداروں کو اللہ تعالی نے آل فرعون کہا حالانکہ وہ اس کے رشتہ دار یا اولاد میں سے نہیں تھے۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)



[3] صحیح بخاری 6332۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Hanging_Quranic_Verses, Names of Allaah and Rasoolullaah on the walls? - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen

#دیوار_پر_قرآنی_آیات،اسمائے الہی واسمائے نبی آویزاں کرنا

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ

(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: فتاوی نور علی الدرب آرٹیکل 653۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/ayaat_asma_ilhaee_nabi_dewar_per.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: یہ خط موصول ہوئے ہیں۔ سب سے پہلا خط مخلصین جناب عبداللہ بن محمد احمد (الریاض)، منظور احمد قریشی اور احمد حسین کی طرف سے ہے، یہ بھائی کہتے ہیں کہ ایسے کارڈ ملتے ہیں کہ جن پر اللہ کا اسم جلالہ لکھا ہوتا ہے جیسا کہ اس خط کی ایک جانب لکھا ہوا ہے۔ اوراس خط میں غلاف کعبہ کی بھی ایک تصویر ہے کہ جس پر کتاب اللہ کی آیات لکھی ہوئی ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسے زمین پر پھینک دیتے ہيں جو اسلام کو جانتے ہی نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تو بس اشارے کے لیے ہے آپ اس کی خریدوفروخت کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ یا یہ کس کی ذمہ داری ہے؟

جواب: الحمدللہ یہ مسئلہ مختلف طریقوں سے لوگوں میں بہت پھیل گیاہے۔ جن میں سے کچھ ایسے کارڈز یا فریم ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ تعالی کا اسم مبارک ہوتا ہے اور کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں اللہ کے نام کے ساتھ دوسری جانب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی لکھا ہوتا ہے۔پھر ان فریمز کودیوار پر یا بورڈوغیرہ پر بالکل متوازی طور پر ساتھ ساتھ آویزاں کردیا جاتا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس تصویر کے بارے میں بات کرتے ہیں:

اولاً: فقط اللہ تعالی کا نام یا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لٹکانے کا آخر کیا فائدہ ہے؟ اگر انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اس سے حصول برکت کا فائدہ ہوگا ۔ تو جاننا چاہیے کہ برکت اس قسم کے عمل سے حاصل نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ تو کوئی مفید جملہ نہیں کہ جس سے ایسا معنی کشید کیا جاسکے جو حصول برکت کا سبب ہو([1])۔

دوسری بات یہ کہ اس طرح سے برکت حاصل کرنا صحیح نہیں۔کیونکہ اسمائے الہی سے تبرک حاصل کرنا اسی طور پر ممکن ہے کہ جو قرآن وسنت میں وارد ہو۔ کیونکہ یہ ایک عبادت ہے اور عبادت کی بنیاد توقیف (یعنی کتاب وسنت کے دلائل) ہے۔

پھر جو صورت ہم نے ابھی بیان کی کہ ایک طرف اللہ تعالی کا اسم جلالہ ہوتا ہے تو دوسری طرف بلکل متوازی اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکھا ہوتا ہے، اس میں اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مابین ایک قسم کی تشریک وموازنت پائی جاتی ہے۔ جبکہ یہ بات جائز نہیں کیونکہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کہا کہ:

’’ مَا شَاءَ اللَّهُ وَشِئْتَ‘‘

(جو اللہ تعالی اور آپ چاہیں)۔

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ٹوکا اور فرمایا:

’’أَجَعَلْتَنِي لِلَّهِ نِدًّا، بَلْ مَا شَاءَ اللَّهُ وَحْدَهُ‘‘ ([2])

(کیا تو نے مجھے اللہ تعالی کا ساجھی بنالیا ہے، بلکہ کہہ جو اکیلا اللہ تعالی چاہے)۔

پھر یہ بات بھی ہے کہ برکت کے لیے محض نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لکھ دینا جائز نہیں، بلکہ برکت تو شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے التزام اور اس پر عمل پیرا ہونے میں ہے۔

لہذا یہ تصویر جو لوگ کارڈز میں استعمال کرتے ہيں واضح ہوا کہ اس میں شرعی مخالفت پائی جاتی ہے۔

جبکہ جہاں تک معاملہ ہے دوسری تصویر کا جس کی جانب سائل بھائی نے اشارہ کیا تو اس کا جواز بھی محل نظر ہے کیونکہ قرآن کریم کو کاغذ یا بورڈ پر لکھنے کے بارے میں اصل یہی ہے کہ یہ جائز ہے۔لیکن اسے گھروں کی دیواروں پر لٹکانے کے بارے میں سلف صالحین رحمہم اللہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نا ہی تابعین عظام رحمہم اللہ سے۔ اور میں باقاعدہ تحدید کے ساتھ تو نہیں جانتا کہ یہ بدعت کب ایجاد ہوئی مگر درحقیقت یہ ایک بدعت ہی ہے۔ کیونکہ قرآن مجید اس لیے نازل ہوا ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے نہ کے اس کی دیوار وغیرہ پر تعلیق کی جائے یعنی لٹکایاجائے۔

پھر اس کا دیوار پر لٹکانا اس میں اس مفسدے کے ساتھ کے یہ سلف صالحین سے وارد نہیں ایک اور مفسدہ ہے کہ انسان اسے لٹکا کر اسی پر اعتماد کرکے بیٹھ جاتا ہے اور سمجھتا ہے یہ حفاظت کا سبب ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حقیقی اور صحیح طور پر حفاظت کے لیے جو اذکار ہیں ان سے بے نیاز وبےپراوہ ہوجاتا ہےجو کہ زبان سے تلاوت کرنا ہے۔ کیونکہ یہی نافع حفاظت کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیۃ الکرسی کے بارے میں فرمایا:

’’من قرأها في ليلة لم يزل عليه من الله حافظ ولا يقربه شيطان حتى يصبح‘‘ ([3])
[#SalafiUrduDawah Article] Our prophet (salAllaaho alaihi wa sallam) is #Khaleelullaah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #خلیل_اللہ ہیں
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/rasoolullaah_khaleelullaah_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ ’’کتاب التوحید ‘‘ میں وارد صحیح مسلم کی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سیدنا جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی وفات سے پانچ راتیں قبل یہ فرماتے ہوئے سنا:
’’إِنِّي أَبْرَأُ إِلَى اللَّهِ، أَنْ يَكُونَ لِي مِنْكُمْ خَلِيلٌ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا مِنْ أُمَّتِي خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ خَلِيلًا، أَلَا وَإِنَّ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، كَانُوا يَتَّخِذُونَ قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ وَصَالِحِيهِمْ مَسَاجِدَ، أَلَا فَلَا تَتَّخِذُوا الْقُبُورَ مَسَاجِدَ، إِنِّي أَنْهَاكُمْ عَنْ ذَلِكَ ‘‘([1])
(میں اللہ تعالی کے سامنے اس بات سے دستبردار ہوتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، کیونکہ بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا۔ اور اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیل بناتا۔ اور آگاہ رہو بلاشبہ جو تم سے پہلے گزر چکے ہيں وہ اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اور صالحین کی قبروں کو مساجد بنالیتے تھے، خبردارپس تم قبروں کو مساجد نہ بنانا، بے شک میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں)۔
خلیل وہ ہوتا ہے جس کی محبت غایت درجے تک پہنچ جائے۔ کیونکہ اس کی محبت پورے تن بدن میں سرایت کرجاتی ہے۔ جیسا کہ شاعر اپنی محبوبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتا ہے:
قد تخللت مسلك الروح مني … وبذا سمي الخليل خليلا
اور ’’الخُلَّة‘‘ محبت کی سب سے عظیم اور اعلیٰ قسم ہے۔اور جتنا ہمیں علم ہے اس کے مطابق اللہ تعالی نے یہ کسی کے لیے ثابت نہيں فرمائی سوائے اپنی مخلوقات میں سے صرف دو شخصیات کے لیے، اور وہ ہیں:
1- سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام اپنے اس فرمان میں:
﴿وَاتَّخَذَ اللّٰهُ اِبْرٰهِيْمَ خَلِيْلًا﴾ (النساء: 125)
(اور اللہ تعالی نے ابراہیم کو اپنا خلیل بنالیا)۔
2- سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ثابت ہے جو حدیث اوپر بیان ہوئی:
’’إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، قَدِ اتَّخَذَنِي خَلِيلًا، كَمَا اتَّخَذَ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا‘‘
(بلاشبہ خود اللہ تعالی نے یقیناً مجھے اپنا خلیل بنایا جیسے اس نے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو اپنا خلیل بنایا تھا)۔
اس سے آپ پر وہ عظیم جہالت آشکارا ہوگی جو بعض عوام الناس کی زبان زد عام ہے کہ: سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام تو خلیل اللہ ہیں جبکہ ہمارے نبی سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حبیب اللہ ہیں! (وہ اپنے گمان میں سمجھ رہے ہوتے ہیں ہم نے زیادہ بڑے درجے پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فائر کیا) حالانکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حق میں تنقیص شان ہے۔کیونکہ اپنے اس قول کے ذریعے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درجے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام سے نیچے کررہے ہوتے ہیں۔ اور اس لیے بھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض حبیب اللہ ثابت کررہے ہوتے ہیں حالانکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر نیک لوگوں میں کیا فرق رہا، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی تو محسنین اور صابرین سے بھی محبت کرتا ہے (جیساکہ قرآن کریم میں ہے یعنی وہ بھی حبیب اللہ ہیں) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ بھی جن کے فعل کے ساتھ اللہ تعالی نے اپنی محبت کو جوڑا ہے۔ چناچہ ایسے لوگوں کی رائے کے مطابق تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اور دیگر لوگوں میں فرق ہی نہ ہوا۔ لیکن ہاں جو خلت کا درجہ ہے تو وہ اللہ تعالی نے سوائے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کےاور کسی کے لیے ذکر نہيں فرمایا، اور ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں یہ خبر دی اپنے بارے میں کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اپنا خلیل بنایا ہے جیسا کہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کو خلیل بنایا تھا۔
[#SalafiUrduDawah Article] The Shirk containing poetic verses of famous #Qaseedah_Burdah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قصیدہ_بردہ کے شرکیہ اشعار
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی الشیخ محمد بن صالح العثیمین اعداد وترتیب : اشرف عبدالمقصود 1/126۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/qaseeda_burdah_shrikiya_ashaar.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔جب آپ ان میلادی مولویوں اور ان کے پیروکاروں کو دیکھیں گے جو اس قسم کی بدعات (عید میلاد) میں مگن رہتے ہیں تو آپ ان کوپائیں گے کہ بہت سی سنتوں بلکہ فرا ئض وواجبات تک کے تارک ہوں گے۔ بلکہ قطع نظر اس کے ان کی محافل میلاد میں جو غلو ہوتا ہے وہ اس شرک اکبر تک پہنچا ہوا ہوتا ہے جو کہ انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردے۔ یہ تو وہ وہی شرک ہے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جن کی محبت کے یہ دعویدار ہیں ) لوگوں سے جنگ کیا کرتے تھے، اور ان کی جان ومال کو حلال سمجھتے تھے۔ ہم ایسی محافل میں اس قسم کی نعتیں سنتے رہتے ہیں کہ جو انسان کو دائرہ اسلام سے ہی خارج کردیں، جیسے بوصیری کا مشہور قصیدہ بردہ (شریف)، جس میں وہ کہتا ہے:
يا أكرم الخلق ما لي من ألوذ به سواك عند حدوث الحادث العمم
إن لم تكن آخذاً يوم المعاد يدي صفحاً وإلا فقل يا زلة القدم
فإن من جودك الدنيا وضرتها ومن علومك علم اللوح والقلم
(اے پوری مخلوق سے زیادہ عزت و شرف والےنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشکلات اور حادثات زمانہ میں میرے لئے تیرے سوا کوئی ایسی ذات نہیں جس کی میں پناہ طلب کروں، اگر آپ نے بروزقیامت میری دستگیری نہیں فرمائی تو قدم ڈگمگا جائیں گے،دنیا اورآخرت تیرے ہی جود و سخا کے مظہر میں سے ہے اور لوح و قلم کا علم بھی تیرے ہی علوم کا حصہ ہے)
(اس میں غیراللہ سے استعاذہ (پناہ طلب کرنا )،پکارنا اور دستگیری کی امید رکھنے کے شرک کے علاوہ یہ بھی ہے کہ) اس قسم کے اوصاف سوائے اللہ تعالی کے کسی کے لائق نہیں۔ اور مجھے سخت تعجب ہوتا ہے کہ اس قسم کا کلام ایسے شخص سے کیسے صادر ہوسکتا ہے جو اس کے معنی کو سمجھتا ہو وہ کیسے اپنے لیے یہ روا رکھ سکتا ہے کہ اس قسم کے کلام کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرے کہ: ’’فإن من جودك الدنيا وضرتها‘‘ ’’من‘‘ تبعیض کے لیے آتا ہے یعنی پوری دنیا آپ کی جودوسخا کا مظہر ہی نہیں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے اور ’’وضرتها‘‘ یعنی اور آخرت بھی۔جب دنیا وآخرت ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جودوسخاء ہی نہيں بلکہ اس کا محض کچھ حصہ ہے تو پھر اللہ تعالی کے لیے کیا بچا! کوئی چیز بھی باقی نہیں چھوڑی کہ جو دنیا وآخرت میں اللہ تعالی کے لیے ہو۔
اسی طرح سے اس کا یہ کہنا کہ: ’’ومن علومك علم اللوح والقلم‘‘ یہاں بھی لوح وقلم کے علم کو ’’من‘‘ یعنی تبعیض کے ساتھ بیان کیا یعنی یہ علم الہی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کا محض ایک حصہ ہے، نہیں معلوم کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ خطاب کریں گے تو پھر علم میں سے اللہ تعالی کے لیےآخر کیا چھوڑیں گے!
ذرا سنبھلیں، اے مسلمان بھائی! ۔۔۔ اگرآپ واقعی خوف الہی رکھتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہی مقام دیں جو اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقرر فرمایا ہے۔۔۔کہ آپ اللہ تعالی کے بندے اور اس کے رسول ہیں تو کہیں عبداللہ ورسولہ۔ اور ان کے بارے میں وہی اعتقاد رکھیں جو خود اللہ تعالی نے ان کے زبانی اپنے متعلق کہلوایا ہے:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں (میں داتا نہیں) اور نہ میں غیب جانتا ہوں (میں عالم الغیب نہیں) اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں(میں نوری مخلوق نہیں))
اور جو اس فرمان میں حکم دیا کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَآ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا رَشَدًا﴾ (الجن: 21)
(کہہ دیجئے کہ مجھے تمہارے کسی نفع نقصان کا اختیار نہیں(میں مختارکل بھی نہیں))
اس پر مزید یہ کہ:
﴿قُلْ اِنِّىْ لَنْ يُّجِيْرَنِيْ مِنَ اللّٰهِ اَحَدٌ ڏ وَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا﴾ (الجن: 22)
(کہہ دیجئے کہ مجھے ہرگز کوئی اللہ سے بچا نہیں سکتا اور میں ہرگز اس کے سوا کوئی جائے پناہ بھی نہیں پا سکتا)
یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا یہ حال ہے کہ جب اللہ تعالی ان کے متعلق کوئی ارادہ فرمالے تو انہیں بھی اللہ تعالی کے مقابلے میں کوئی جائے پناہ نہیں۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Tafseer of #Surat_ul_Kawthar – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#تفسیر #سورۂ_کوثر
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تفسیر علامہ ابن عثیمین۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سورۃ کا خلاصہ
پس یہ سورۃ اس نعمت الہی کے بیان پر مشتمل ہے جو اس نے اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خیر کثیر عطاء فرمائی۔ پھر حکم دیا گیا کہ نمازوں اور قربانیوں میں اللہ تعالی کے لیے اخلاص اپنایا جائے، اور ان کے علاوہ تمام عبادات میں اخلاص کو ہی بروئے کار لایا جائے۔ پھر یہ بیان فرمایا کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بغض رکھے یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کی کسی چیز سے بغض رکھے تو پھر وہی ایساابتر، منقطع اور کٹا ہوا انسان ہے کہ جس میں کوئی خیر وبرکت نام کی چیز نہيں۔ اللہ تعالی ہی سے عافیت وسلامتی کا سوال ہے۔
سورۃ کی مکمل تفسیر پڑھنے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/tafseer_surah_kawthar.pdf

Tafseer of Surat-ul-Kawthar – Various 'Ulamaa
تفسیر #سورۃ_الکوثر
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التفسير المُيَسَّرُ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/tafseer_surat_ul_kawthar_almuyassar.pdf

[Urdu Audio] http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/04/108_kawthar.mp3

[Urdu Article] Believing in the pond or #cistern_of_Al_Kawthar and its features – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#حوضِ_کوثر پر ایمان لانا اور اس کی صفات – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا :
’’حوض پر ایمان لانا، اور یہ کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یوم قیامت حوض ہوگا جس پر ان کی امت حاضر ہوگی، اس کا عرض اس کے طول کے مساوی ہے جو ایک مہینے کی مسافت ہے، اس کے پیالے آسمان کے ستاروں کی تعداد کی طرح ہیں۔ اس بارے میں خبر ایک سے زیادہ طریقوں سے صحیح طور پر ثابت ہیں‘‘۔
اس پر شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/hoz_e_kawthar_par_emaan_us_ki_sifaat.pdf
[Article] Six conditions for an action to become according to #Sunnah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
کسی عمل میں #متابعتِ_رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چھ شرائط
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: رسالہ ’’الإبداع في بيان كمال الشرع وخطر الابتداع‘‘۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/11/amal_mutabiaat_rasool_6_sharait.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔بھائیوں یہ بات جاننی چاہیے کہ متابعت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کسی عمل کی مندرجہ ذیل چھ باتوں میں شرعی موافقت نہ پائی جائے:
1- سبب:
یعنی اگر انسان کوئی ایسی عبادت کرے جسے کسی ایسے سبب کے ساتھ جوڑے جو کہ شرعی نہيں تو یہ بدعت ہے اور کرنے والے کے منہ پر مار دی جائے گی۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بعض لوگ رجب کی ستائیویں رات کو جاگ کر عبادت کرتے ہیں اس حجت کے ساتھ کہ اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج ہوئی تھی۔ پس تہجد کی نماز عبادت ہے لیکن جب اسے اس سبب کے ساتھ جوڑ دیا گیا تو یہ بدعت بن گئی۔ کیونکہ اس عبادت کی بنیاد ایسے سبب پر ڈالی گئی جو شرعاً ثابت نہیں۔ اور یہ وصف یعنی سبب کے تعلق سے شریعت کی موافقت بہت اہم معاملہ ہے جس سے بہت سی بدعات واضح ہوجاتی ہیں کہ جنہیں کثیر لوگ سنت سمجھتے ہیں لیکن وہ سنت میں سے نہیں ہوتیں۔
2- جنس:
لازم ہے کہ عبادت جنس کے اعتبار سے بھی شریعت کے موافق ہو۔ اگر کوئی انسان ایسی عبادت اللہ تعالی کی بجا لاتا ہے جس کی جنس مشروع نہیں تو یہ غیرمقبول ہوگی۔ مثلاً اگر کوئی شخص عید الاضحیٰ میں گھوڑے کی قربانی کردیتا ہے تو اس کی قربانی صحیح نہیں۔ کیونکہ اس نے جنس کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت کی۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ قربانی بھیمۃ الانعام یعنی اونٹ، گائے، اور (بھیڑ) بکری کے سوا جائزنہیں۔
3- مقدار:
اگر انسان نماز میں زیادتی کرنا چاہے اگرچہ نماز ایک فریضہ ہے لیکن ہم اس سے کہیں گے: یہ بدعت ہے اور غیر مقبول ہے کیونکہ مقدار کے اعتبار سے اس میں شریعت کی مخالفت ہے۔ پس بالاولیٰ اگر انسان ظہر کی نماز مثلاً پانچ رکعات پڑھتا ہے تو اس کی نماز بالاتفاق صحیح نہیں۔
4- کیفیت:
اگر انسان وضوء کرے اور اسے دونوں پیر دھونے سے شروع کرے ،پھر سر کا مسح کرے ،پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر چہرہ تو ہم کہیں گے کہ اس کا وضوء باطل ہے کیونکہ کیفیت کے اعتبار سے اس میں شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔
5- زمان:
اگر انسان ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میں قربانی کرلے تو اس کی قربانی قبول نہیں کیونکہ اس میں زمان کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔میں نے سنا ہے کہ بعض لوگ رمضان میں اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لیے بطور قربانی بکری ذبح کرتے ہیں حالانکہ یہ عمل اس صورت میں بدعت ہے ۔ کیونکہ ذبح کے ذریعے اللہ کاتقرب حاصل کرنا سوائے (عیدالاضحیٰ والی) قربانی، ہدی (حج والی قربانی) اور عقیقہ کے ثابت نہيں۔ لہذا رمضان میں ذبح (قربانی) کرنا اس قربانی کے اجر کے اعتقاد کے ساتھ جیسا کہ عیدالاضحیٰ میں کیا جاتا ہے بدعت ہے۔ البتہ محض گوشت کے لیے ذبح کرنا جائز ہے۔
6- مکان:
اگر کوئی انسان مسجد کے علاوہ اعتکاف کرتاہے تو اس کا اعتکاف صحیح نہيں۔ وہ اس لیے کیونکہ اعتکاف مساجد کےعلاوہ کہیں نہیں ہوسکتا۔ اگر کوئی عورت کہے کہ میں اپنے گھر کے مصلیٰ پر ہی اعتکاف کرنا چاہتی ہوں تو اس کا اعتکاف صحیح نہیں کیونکہ اس میں مکان کے اعتبار سے شریعت کی مخالفت پائی جاتی ہے۔ اس کی مثال میں سے یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص (بیت اللہ کا) طواف کرنا چاہتا ہے لیکن اس نے مطاف میں بہت بھیڑ پائی اور ارد گرد چلنے میں تنگی پائی تو اس نے مسجد کے باہر سے طواف کرنا شروع کردیا اس صورت میں اس کا طواف صحیح نہیں۔ کیونکہ طواف کا مکان بیت اللہ ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے سیدنا ابراہیم الخلیل علیہ الصلاۃ والسلام کو فرمایا:
﴿وَّطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّاىِٕفِيْنَ﴾ (الحج: 26)
(اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں کے لیے پاک رکھو)
پس عبادت اس وقت تک عمل صالح نہیں بن سکتی جب تک اس میں دو شرائط پوری نہ ہوں:
اول: اخلاص۔
دوم: (شریعت یا سنت کی ) متابعت ، اور متابعت مذکورہ بالا چھ امور کو ملحوظ رکھے بنا حاصل نہیں ہوسکتی۔