Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.1K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.91K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
Forwarded from Deleted Account
[Book] #Sunnah and #Bidah and their effects upon Ummah – Shaykh Abdus Salaam bin #Burjus
#سنت اور #بدعت اور امت پر ان کے اثرات – شیخ عبدالسلام بن #برجس

سنت کی تعریف
سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت
اتباعِ سنت کا وجوب اور بدعات کی مذمت
تفرقہ بازی، فتنہ وفساد سنت سے اعراض اور بدعتوں کی پیروی کا نتیجہ ہیں
کون سے اعمال شرفِ قبولیت حاصل کریں گے؟
صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش اور طرز عمل
دین اسلام قرآن وسنت کی صورت میں مکمل ہوچکا ہے
سوال وجواب
کیا دعوت کے وسائل وذرائع توقیفی ہیں؟
اسلامی نظمیں اور ڈرامے
کیا نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات ِمبارکہ بھی سنت ہیں
جمعہ نماز کے لئے دوڑ کر آنا
کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادات ِمبارکہ پر عمل کرنا واجب ہے یا مستحب
کیا دعوتی مصلحت وعظیم تر مفاسد کو دور کرنے کے لئے کسی سنت کو ترک یا مؤخر کیا جاسکتا ہے
کیا ابتدائی طالبعلم کو اہل بدعت کے ردود پر لکھی گئی کتب پڑھنے میں منہمک ہونا چاہیے؟

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/sunnat_bidat_ummat_athraat.pdf
[Article] Ruling regarding having more than one #ruler for Muslim ‘Ummah - Shaykh Abdus Salaam bin #Burjus Aal-Abdul Kareem

ایک سے زائد آئمہ یا خلیفہ ہونا صحیح ہے، اور ہر امام (#حکمران/خلیفہ) کا اپنے ملک میں وہی امام اعظم والا حکم ہوگا

فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن #برجس آل عبدالکریم رحمہ اللہ المتوفی سن 1425ھ

( سابق مساعد استاد المعھد العالي للقضاء، الریاض)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: معاملۃ الحکام فی ضوء الکتاب والسنۃ۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/01/aik_say_zada_imam_hakim_hukm.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم

’’ومن لم يفرق بين حالي الاختيار والاضطرار، فقد جهل المعقول والمنقول‘‘([1])

(جو شخص حالتِ اختیار اور اضطرار(مجبوری) میں فرق نہیں کرتا تو وہ معقول (عقل) اور منقول (شریعت) سے جہالت میں مبتلا ہے)۔

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’الأئمة مجموعون من كل مذهب على أن من تغلب على بلد – أو بلدان – له حكم الإمام في جميع الأشياء ولولا هذا ما استقامت الدنيا، لأن الناس من زمن طويل – قبل الإمام أحمد إلي يومنا هذا – ما اجتمعوا على إمام واحد ولا يعرفون أحداً من العلماء ذكر أن شيئا من الأحكام لا يصح إلا بالإمام الأعظم‘‘([2])

(ہر مذہب کے آئمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جو کوئی بھی کسی ایک یا اس سے زائد ممالک پر غالب آجائے تو تمام چیزوں کے بارے میں اس کا حکم امام (امام اعظم/خلیفہ) کا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی بھی یہ دنیا کے امور استقامت پر نہیں آسکتے تھے، کیونکہ لوگ تو ایک زمانۂ طویل سے یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے دور سے پہلے سےلے کر اب تک کسی ایک امام وخلیفہ پر تو کبھی متفق ہوئے ہی نہیں۔ اس کے باوجود ہمیں نہیں معلوم کہ کسی عالم نے یہ کہا ہو کہ (خلیفہ یا امام کے تعلق سے دینی) احکام جب تک امام اعظم (یعنی تمام مسلم دنیا کا ایک ہی خلیفہ) نہ ہو تو ان پر عمل درست نہیں)۔

اور علامہ امیر الصنعانی رحمہ اللہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس مرفوع حدیث کے شرح میں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ e نے فرمایا:

’’مَنْ خَرَجَ مِنَ الطَّاعَةِ وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ فَمَاتَ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّةً‘‘([3])

(جواطاعت سے نکل گیا اور جماعت کو چھوڑ دیا اور اسی حال میں مرا، تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی)۔

’’قوله : ((عن الطاعة ))، أي : طاعة الخليفة الذي وقع الاجتماع عليه ،وكأن المراد خليفة أي قطر من الأقطار، إذ لم يجمع الناس على خليفة في جميع البلاد الإسلامية من أثناء الدولة العباسية بل استقل أهل كل إقليم بقائم بأمورهم، إذ لو حمل الحديث على خليفة أجتمع عليه أهل الإسلام، لقلت فائدته. وقوله : (( وفارق الجماعة ))، أي : خرج عن الجماعة الذين اتفقوا على طاعة إمام انتظم به شملهم واجتمعت به كلمتهم وحاطهم عن عدوهم‘‘([4])

آپ e کا یہ فرمانا: ’’عن الطاعة‘‘ (اطاعت سے نکل گیا) یعنی خلیفہ کی اطاعت سے نکل گیا کہ جس پر سب کا اجتماع ہوگیا ہو اورگویا کہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ خطوں میں سے کسی خطے کا اپنا خلیفہ کیونکہ دولت عباسیہ کے وقت تمام اسلامی ممالک کسی ایک خلیفہ پر تو مجتمع نہ تھے۔ بلکہ ہر صوبے کے لوگ اپنے ولی امر کے ساتھ مستقل ریاست تھے۔ کیونکہ اگر اس حدیث کو ایسے خلیفہ سے ہی محدود کردیا جائے کہ جس پر تمام اہل اسلام مجتمع ومتفق ہوں تو اس کی افادیت میں کمی ہوجائے گی۔ اور آپ e کا یہ فرمانا: ’’وَفَارَقَ الْجَمَاعَةَ‘‘ (اور جماعت سے الگ ہوگیا) یعنی ان لوگوں کی جماعت سے نکل گیا کہ جو اس ایک حکمران وامام پر مجتمع ومتفق تھے کہ جو ان کی شان وشوکت کو منتظم، ان کے کلمے کو مجتمع اور ان کے دشمنوں سے ان کا دفاع کرنے والا تھا)۔

علامہ الشوکانی رحمہ اللہ مصنف کتاب ”الازھار“ کے اس قول کہ ”ولا يصح إمامان“ (دو امام (خلیفہ/حکمران) ہونے جائز نہیں) کی شرح میں فرماتے ہیں: