[#SalafiUrduDawah Article] Collecting the #skins_of_the_sacrificial_animals and selling them? – Various #Ulamaa
#قربانی_کی_کھالوں کا #شرعی_مصرف اور انہيں جمع کرکے بیچنے کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurbani_khaal_sharae_masraf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([1])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت ) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
اس حدیث کی شرح میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ’’شرح زاد المستقنع‘‘ (7/514) میں فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا: ’’ولا يبيع جلدها‘‘ یعنی ذبح کے بعد اس کی جلد نہ بیچےکیونکہ اس کے تمام اجزاء کا فی سبیل اللہ صدقہ ہونا متعین ہوچکا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے متعین ہوجائے تو اس کا عوض لینا جائز نہیں۔ اس کی دلیل سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نےاپنا گھوڑا کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیا۔ لیکن وہ شخص اسے ضائع کرنے لگا اس کا کوئی اہتمام نہ کرتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اسے خریدنے کی اجازت چاہی اس گمان کے ساتھ شاید کہ اس کا مالک اسے سستے داموں فروخت کردے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لا تشتره ولو أعطاكه بدرهم‘‘([2])
(اسے نہ خریدنا اگرچہ وہ تجھے ایک درہم میں کیوں نہ دے)۔
اس میں علت یہ ہے کہ اگر اس نے اسے اللہ تعالی کے لیے نکالا تھا۔ تو جو کچھ انسان اللہ کے لیے نکالے تو جائز نہيں کہ وہ اسے واپس لے۔ اسی لیے جائز نہيں کہ جو بلاد شرک سے ہجرت کرکے اس سے نکل جائے تو پھر واپس وہاں جاکر بسنے لگ جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کے لیے وہاں سے نکلا ہے جسے وہ محبوب رکھتا تھا تو وہ اس چیز کی طرف نہ جائے اگرچہ وہ اسے محبوب ہے جسے اس نے اللہ تعالی کے لیے ترک کیا ہے۔ اور کیونکہ کھال جانور کا جزء ہے اس میں گوشت کی طرح حیات کا دخل ہے۔(یعنی اسے بیچنا جائز نہیں جیسے گوشت کو بیچنا جائز نہیں)۔ اور یہ فرمانا: ’’ولا شيئاً منها‘‘ یعنی اس کے اجزاء میں سے کوئی بھی نہ بیچے جیسے جگر، سری، پائے، اوجھڑی وغیرہ۔ اور اس کی علت وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔
فتویٰ کمیٹی ، سعودی عرب سے سوال ہوا: قربانی کرنے والوں کا اپنے جانوروں کی کھالیں کسی بھی دائرہ حیات سے متعلق اصلاحی تنظیم یا کمیٹی کو ہبہ کرنا، ہدیہ کرنا یا صدقہ کرنا کیسا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں؟ اس سے فائدہ اٹھانے سے میری مراد ہے اس کو کسی مسلمان چمڑے کے تاجروں کو بیچ کر اس کے پیسوں سے فائدہ اٹھائیں پھر اس کی قیمت کو مصلیٰ ومساجد ، مدارس قرآن، اسلامی ریاض الاطفال، یا خدام مسجد کی تنخواہیں، یا جھاڑو وصفائی کا سامان،یا پھر قبرستان کے گرد باڑ لگانا یا دیگر اصلاحی کاموں میں لگانا جس کا فائدہ عام مسلمانوں کو ہو۔۔۔؟
جواب: سنت یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کو صدقہ کردیا جائے جیسا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([3])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردو، گوشت، کھال اور جھول سب ، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
برابر ہے کہ جس پر صدقہ کیا جارہا ہے وہ بعینہ وہ شخص ہو یا کوئی ایسی جہت کی طرف سے ہو جس کا حکم شخصیت کا سا ہو کہ جس کے مصارف شرعی ہوں۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،فتوى رقم (15703)۔
رکن: بكر أبو زيد، رکن: عبد العزيز آل الشيخ، رکن: صالح الفوزان، رکن: عبد الله بن غديان،صدر:عبد العزيز بن عبد الله بن باز۔
ایک اور فتویٰ میں سوال کا مفہوم ہے کہ: مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتویٰ، سعودی عرب سے ملیشیا کے مسلمانوں نے تفصیلی فتویٰ پوچھا جو تقریباً مندرجہ بالا سوال ہی تھا مگر کچھ دلائل بھی پیش کیے گئے کہ ت
#قربانی_کی_کھالوں کا #شرعی_مصرف اور انہيں جمع کرکے بیچنے کا حکم؟
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurbani_khaal_sharae_masraf.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([1])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردوں، گوشت، کھال اور جھول سب، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت ) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
اس حدیث کی شرح میں شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ’’شرح زاد المستقنع‘‘ (7/514) میں فرماتے ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا: ’’ولا يبيع جلدها‘‘ یعنی ذبح کے بعد اس کی جلد نہ بیچےکیونکہ اس کے تمام اجزاء کا فی سبیل اللہ صدقہ ہونا متعین ہوچکا ہے۔ جو کوئی اللہ کے لیے متعین ہوجائے تو اس کا عوض لینا جائز نہیں۔ اس کی دلیل سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نےاپنا گھوڑا کسی کو جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیا۔ لیکن وہ شخص اسے ضائع کرنے لگا اس کا کوئی اہتمام نہ کرتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور اسے خریدنے کی اجازت چاہی اس گمان کے ساتھ شاید کہ اس کا مالک اسے سستے داموں فروخت کردے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لا تشتره ولو أعطاكه بدرهم‘‘([2])
(اسے نہ خریدنا اگرچہ وہ تجھے ایک درہم میں کیوں نہ دے)۔
اس میں علت یہ ہے کہ اگر اس نے اسے اللہ تعالی کے لیے نکالا تھا۔ تو جو کچھ انسان اللہ کے لیے نکالے تو جائز نہيں کہ وہ اسے واپس لے۔ اسی لیے جائز نہيں کہ جو بلاد شرک سے ہجرت کرکے اس سے نکل جائے تو پھر واپس وہاں جاکر بسنے لگ جائے۔ کیونکہ وہ اللہ تعالی کے لیے وہاں سے نکلا ہے جسے وہ محبوب رکھتا تھا تو وہ اس چیز کی طرف نہ جائے اگرچہ وہ اسے محبوب ہے جسے اس نے اللہ تعالی کے لیے ترک کیا ہے۔ اور کیونکہ کھال جانور کا جزء ہے اس میں گوشت کی طرح حیات کا دخل ہے۔(یعنی اسے بیچنا جائز نہیں جیسے گوشت کو بیچنا جائز نہیں)۔ اور یہ فرمانا: ’’ولا شيئاً منها‘‘ یعنی اس کے اجزاء میں سے کوئی بھی نہ بیچے جیسے جگر، سری، پائے، اوجھڑی وغیرہ۔ اور اس کی علت وہی ہے جو پہلے بیان ہوئی۔
فتویٰ کمیٹی ، سعودی عرب سے سوال ہوا: قربانی کرنے والوں کا اپنے جانوروں کی کھالیں کسی بھی دائرہ حیات سے متعلق اصلاحی تنظیم یا کمیٹی کو ہبہ کرنا، ہدیہ کرنا یا صدقہ کرنا کیسا ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھائیں؟ اس سے فائدہ اٹھانے سے میری مراد ہے اس کو کسی مسلمان چمڑے کے تاجروں کو بیچ کر اس کے پیسوں سے فائدہ اٹھائیں پھر اس کی قیمت کو مصلیٰ ومساجد ، مدارس قرآن، اسلامی ریاض الاطفال، یا خدام مسجد کی تنخواہیں، یا جھاڑو وصفائی کا سامان،یا پھر قبرستان کے گرد باڑ لگانا یا دیگر اصلاحی کاموں میں لگانا جس کا فائدہ عام مسلمانوں کو ہو۔۔۔؟
جواب: سنت یہ ہے کہ قربانی کی کھالوں کو صدقہ کردیا جائے جیسا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ:
’’أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا وَجُلُودَهَا وَجِلَالَهَا، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا شَيْئًا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا‘‘([3])
(نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اونٹوں پر مقرر فرمایا اور حکم دیا کہ اونٹ سارے کا سارا تقسیم کردو، گوشت، کھال اور جھول سب ، اور اس میں سے کچھ بھی قصائی کو (بطور اجرت) نہ دوں۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم قصائی کو پھر اپنی طرف سے اجرت دیتے تھے)۔
برابر ہے کہ جس پر صدقہ کیا جارہا ہے وہ بعینہ وہ شخص ہو یا کوئی ایسی جہت کی طرف سے ہو جس کا حکم شخصیت کا سا ہو کہ جس کے مصارف شرعی ہوں۔
وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء،فتوى رقم (15703)۔
رکن: بكر أبو زيد، رکن: عبد العزيز آل الشيخ، رکن: صالح الفوزان، رکن: عبد الله بن غديان،صدر:عبد العزيز بن عبد الله بن باز۔
ایک اور فتویٰ میں سوال کا مفہوم ہے کہ: مستقل کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتویٰ، سعودی عرب سے ملیشیا کے مسلمانوں نے تفصیلی فتویٰ پوچھا جو تقریباً مندرجہ بالا سوال ہی تھا مگر کچھ دلائل بھی پیش کیے گئے کہ ت