Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.1K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.91K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Book] Brief introduction of #Qadianism - Various #Ulamaa

#قادیانیت کا مختصر تعارف

مختلف #علماء کرام

ترجمہ، ترتیب وعناوین: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر (ویب سائٹ سحاب السلفیۃ والآجری پر جمع کردہ مواد سے)

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مقدمہ

قادیانی صرف فرقہ ہی نہیں بلکہ ان کا درحقیقت شمار غیر مسلموں میں ہوتا ہے۔ یہ ایک گمراہ مذہب ہے جو ایسے انواع واقسام کے ظاہری وباطنی کفریات وشرکیات سے لبریز ہےکہ ایک عام مسلمان تک سے وہ مخفی نہيں چہ جائیکہ علماء کرام سے ہو۔ لیکن صدافسوس کے اس گمراہ کن دعوت کے افراد اور جگہیں مسلمانوں کے مابین خصوصاً عجم میں انگریز سامراج اور ان کے آلۂ کاروں کے ذریعے ہندوستان وپاکستان میں پائی جاتی ہيں، بلکہ عرب میں بھی بعض جہلاء اور شہوات پرست لوگ جن کے دین و دل درہم ودینار کے ساتھ بدلتے ہیں اسے قبول کرتے ہیں۔ پھر صہیونیت کے غیرمحدود مالی وغیرہ تعاون کا شاخسانہ ہے کہ ان کا باقاعدہ فضائی چینل تک نشر ہوتا ہے ظاہراًبھی اور خفیہ بھی۔ چناچہ الجزائر وغیرہ جیسے عرب ممالک میں بھی ان سے متاثرہ لوگوں کی بڑھتی تعداد کے سبب سے اس تعلق سے بہت سے سوالات پوچھے جانے لگے کہ ان کے کیا نظریات وگمراہیاں ہيں ۔ اور ہمارے خیال سے اب تک یہاں ان کی سرگرمیاں تقیہ کے ساتھ ہیں جس کے ذریعے وہ چھپ کر اپنا زہر پھیلاتے جارہے ہیں، جیساکہ ضرب المثل میں کہا جاتا ہے، بغیر آگ کے دھواں نہيں ہوتا۔ لہذا واحب ہے کہ نئے سرے سے ان کی حقیقت کو بے نقاب کیا جائے اور اہل علم کے ان کی تکفیر اور ان سے خبردار کرنے کے متعلق فتاویٰ کو نشر کیا جائے۔

عناوین

قادیانیت

شیخ عبدالقادر شیبۃ الحمدحفظہ اللہ

(مدرس، کلیۃ شرعیہ، جامعہ اسلامیہ)

قادیانیت کا آغاز

غلام احمد قادیانی کون ہے؟

مسیح موعود ہونے کا دعویٰ

نبوت کا دعویٰ

اللہ کا بیٹا ہونے کا دعویٰ

غلام احمد قادیانی کو تمام انبیاء سے افضل قرار دینا

ہمارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین ہيں

قادیانی کے تضادات

قادیانی کی مخبوط الحواسی

انگریزوں کا ایجنٹ جہاد کا مخالف

قادیانیوں کی تکفیر

دائمی فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب کے فتاویٰ

قادیانیوں سے شادی بیاہ کا حکم

قادیانی متفقہ طور پر کافر ہیں

مرزا غلام احمد قادیانی کا دعوئ نبوت سراسر جھوٹ ہے

مسلمانوں اور احمدیوں میں فرق

قادیانیوں کا قرآنی آیات سے استدلال اس کا جواب

از فتویٰ کمیٹی، سعودی عرب

16 آیات اور ان کاجواب

شیخ محمد ناصر الالبانی رحمہ اللہ

قادیانی دجال کے بعض مزیدگمراہ کن عقائد

قادیانیوں کا بعض احادیث سے استدلال اور اس کا جواب

از شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ

قادیانیت کے رد پر علماء اہلحدیث کی بعض کتب

قادیانی کی تکفیر پر اجماع

مجمع الفقہ الاسلامی کی قرارداد

احمدی جماعت کا مختصر تعارف اور بعض کفریہ عقائد، ان کے ٹی وی چینل اور ان کے رد پر لکھی گئی بعض کتب کا ذکر

از شیخ محمد علی فرکوس حفظہ اللہ

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/03/qadyaniyyat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Depicting images of the #Hellfire and #Paradise – Various #Ulamaa
#جنت یا #جہنم کی تصوراتی وتفہیمی خاکہ سازی کرنا
مختلف #علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلة لقاء الباب المفتوح اور الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/09/jannat_jahannum_tasawwuraati_khakay_banana.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جنت کی بطور باغات اور جہنم کی بطور آگ تصویر وخاکہ سازی کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب از شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ:
یہ جائز نہيں ہے۔ کیونکہ ہم اس کی کیفیت نہیں جانتے۔ جیسا کہ فرمان الہی ہے:
﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ۚ جَزَاءًۢ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدۃ: 17)
(کوئی نفس نہیں جانتا جو کچھ ہم نے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہے، یہ اس کا بدلہ ہے جو عمل وہ کیا کرتے تھے)
ہم آگ کی کیفیت نہيں جانتے جو کہ دنیاوی آگ سے انہتر (69) گنا زیادہ ہے۔۔۔جس میں دنیاوی آگ میں سے شدید ترین والی آگ جیسے گیس وغیرہ کی آگ یا جو اس سے بھی شدید ہو کو بھی داخل کرلیں۔ تو پھر کیا کوئی اس آگ کی تمثیل بنانے کی استطاعت رکھتا ہے؟ کوئی اس کی استطاعت نہيں رکھتا۔ لہذا جو کوئی ایسا کرتا ہے اس تک یہ بات پہنچا دو کہ یہ حرام ہے۔
لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آجکل لوگوں نے آخرت سے متعلق امور کو ایسے پیش کرنا شروع کردیا ہے گویا کہ وہ باقاعدہ حسی ومشاہداتی امور ہوں۔
میں نے ایک ورقہ دیکھا اس میں انسان کے مختلف مراحل میں منتقل ہونے کا ذکر تھا چوکور سے بنے ہوئے تھے جیسے ’’موت‘‘ پھر ایک لکیر پھر دوسرا چوکور اس میں ’’قیامت‘‘ اور اسی طرح سے باقی۔ گویا کہ اس نے جو کچھ موت کے بعدہونا ہے اسے ہندسی لکیروں اور چوکوروں کے ذریعے مصور کیا ہے۔ یہ عظیم جرأت ہے! اللہ تعالی کی پناہ۔ پھر اس سے یہ بھی کہا جائے گا کہ: تمہیں کس نے بتایا کہ اس کے بعد یہ ہوگا اور وہ اس کے بعد ہوگا؟ ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ قبر دنیا کی زندگی کے بعد ہوتی ہے اور مرکی جی اٹھنا قبر کے بعد ہوتا ہے لیکن اس کی تفصیل کہ جو یوم قیامت ہوگا حساب وموازین وغیرہ ان کی ترتیب کا تو علم نہیں؟ لیکن یہ بہت عظیم جرأت ہے! اور عجیب بات یہ ہے کہ اس ورقے کو عام تقسیم کیا جاتا ہے! لیکن منجملہ جو اوراق لوگوں میں آجکل تقسیم کیے جاتے ہيں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ تک باندھا جاتا ہے واجب ہے کہ ان سے بچا جائے اور لوگوں کو بھی خبردار کیا جائے۔
(سلسلة لقاء الباب المفتوح – 222)
سوال: ہم بعض اعلانات میں جو بعض داعیان کی کیسٹوں پر ہوتے ہیں یہ دیکھتے ہیں کہ نہریں اور کھتیاں بنی ہوتی ہيں اگر موضوع جنت سے متعلق ہوتا ہے اور سایہ یا اندھیرا سا بنادیتے ہیں گویا کہ شیطان کا سایہ ہو اگر موضوع شر وبرائی سے متعلق ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟
جواب از شیخ صالح بن فوزان الفوزن رحمہ اللہ:
ان خاکوں یا تصاویر میں علم غیب کا گویا کہ دعویٰ ہے کہ جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہيں جانتا جنت کو سوائے اللہ تعالی کے کوئی نہيں جانتا اسی طرح سے جہنم کو بھی اس کے سوا کوئی نہيں جانتا۔ جائز نہيں کہ وہ جنت، یا جہنم یا پل صراط کی تصویر ورق پر بنائیں۔ یہ تو جہالت میں سے ہے۔
(الإجابات المهمَّة في المشاكل المدلهمَّة)
[#SalafiUrduDawah Article] Should we not take #refutations of #Ulamaa upon each other? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #علماء کا ایک دوسرے پر #رد نہیں لیا جائے گا؟
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شرح نونية ابن القيم شريط 38 الدقيقة 25:12۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/03/ulamaa_radd_bahimi_nahi_lya_jae.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم فضیلۃ الشیخ ، آجکل یہ ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی عالم کسی دوسرے عالم کی غلطی پر رد کرتا ہے، تو کہتے ہيں کہ ’’كلام الأقران يطوى ولا يروى‘‘ (برابری کے علماء کا ایک دوسرے کے خلاف کلام لپیٹ دیا جائے گا آگے روایت نہیں کیا جائے گا) (یا بقول بعض : یہ تو ’’اکابر‘‘ کی باہمی چشمک اور جروح ہیں جن سے ہم لوگوں کو دور رہنا چاہیے) آپ کی اس قاعدے کے متعلق کیا رائے ہے؟ اور کیا اسے مطلقاً لیا جائے گا؟
جواب: میں آپ کے لیے وضاحت کرچکا ہوں کہ حق بیان کرنا اور غلطی کا رد کرنا واجب ہے۔ ہم کسی کی چاپلوسی یا خوشامد نہیں چاہتے اس بارے میں۔ کسی کی خوشامد کو خاطر میں نہيں لایا جائے گا۔ غلطی کو واضح کریں گے اور اس کے مقابل حق کی جانب رہنمائی کریں گے۔ ہمیں کسی فلان علان سے کچھ لینا دینا نہیں۔
لیکن خاموش رہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اگر ہم اس غلطی کو چھوڑ دیں یونہی، پھر دوسری کو، پھر تیسری کو ۔۔۔تو غلطیوں کی کثرت ہوجائے گی، اور لوگ علماء کرام کا ان پر سکوت اختیار کرنے کو حجت سمجھنے لگے گیں۔
لازم ہے کہ بیان کیا جائے۔ خصوصاً جس نے غلطی کی ہے اگر وہ قدآور شخصیت اور ایسا نمونہ ہو لوگوں کی نظر میں جس کی پیروی کی جاتی ہے یا جس کے پاس سربراہی ہو تو پھر معاملہ اور زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ لہذا غلطی کی بہرحال وضاحت ضرور ہوگی تاکہ کوئی اس سے دھوکے میں نہ آجائے۔
یہ نہیں کہا جائے گا کہ لپیٹ لو بس آگے بیان نہ کرو!! یہ کلام باطل ہے۔جو کلام عام نشر ہورہا ہے اس کا رد ہوگا جسے ناراض ہونا ہے ہو، راضی ہونا ہے ہو۔ کیونکہ ہمارا اصل ہدف حق ہے۔ ناکہ ہمارا ہدف لوگوں کی عزت اچھالنا یا تنقیص کرنا ہے۔
[Article] Why #Salafee #Ulamaa don't support current Jihaadi movements? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#سلفی #علماء موجودہ جہادی تحریکوں کی حمایت کیوں نہيں کرتے؟ – شیخ ربیع بن ہادی المدخلی

#SalafiUrduDawah
#جہاد
#jihad

شیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ سے سوال ہوا:
سوال: ان دنوں بہت سے نوجوان اس بارے میں سوال کرتے ہيں کہ جو مسلمانوں کے ساتھ یہاں وہاں حالت زار ہورہی ہے فلسطین، کشمیر وچیچنیا میں تو کیا ہمارے لیے وہاں جہاد کرنا مشروع ہے یا نہیں؟ ان سوالات میں سے ایک بطور نمونہ یہ ہے کہ سائل کہتا ہے: میں کوئی طالب علم نہيں ہوں لیکن مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ یہاں وہاں فلسطین، چیچنیا وکشمیر میں ہورہا ہے اس کی وجہ سے بہت غمگین وپریشان ہوں۔ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں آپ کی میرے لیے کیا نصیحت ہے، اور میں کس چیز سے شروع کروں، اور کس طرح جہاد مکمل ہوگا، اور کیا فی زمانہ جہاد واقعی ہو بھی رہا ہے؟
جوابات جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/09/salafee_ulama_mojoda_jihadi_tehreeko_himayat_nahi.pdf
[Article] Preceding and opposing the #scholars in Ummah affairs – Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree

درپیش امور میں نوجوانوں کا #علماء پر سبقت اور مخالفت کرنا

فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ

(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)

ترجمہ: عمر طارق

مصدر: جناية التميّع على المنهج السلفي س 3۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/darpaish_umoor_nojawan_ulamaa_sabqat_mukhalifat.pdf



سوال : بعض طلبہ علم اپنے آپ کو منہج کے درپيش امور، اور لوگوں کی معرفت والے معاملات ميں آگے کرکے پيش کرتے ہيں( اور اس ميں کلام کرتے ہيں)، اور وہ اس ميں کبار علماء کی مخالفت کرتے ہيں جن کے پاس ان امور کی صحيح معرفت ہوتی ہے۔ وہ يہ کام يہ حجت بيان کرتے ہوئے کرتے ہيں کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں۔ آپ اس معاملے ميں ہماری کيا رہنمائی فرماتے ہيں؟بارک اللہ فيکم۔

جواب: يہاں پر بعض چيزوں کی وضاحت کرنا ضروری ہے تاکہ اس مقولہ يا اس مسلک کا جواب جو اس سوال ميں ذکر کیا گیا بلکل واضح ہو:

پہلی بات: اللہ عز وجل کے اس فرمان کی ياددہانی کرانا:

﴿وَاِذَا جَاءَھُمْ اَمْرٌ مِّنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهٖ ۭوَلَوْ رَدُّوْهُ اِلَى الرَّسُوْلِ وَاِلٰٓى اُولِي الْاَمْرِ مِنْھُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِيْنَ يَسْتَنْۢبِطُوْنَهٗ مِنْھُمْ ۭ وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهٗ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطٰنَ اِلَّا قَلِيْلًا﴾ (النساء : 83)
)جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول کے اور اپنے حکمرانوں (جو ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں) کے حوالے کردیتے، تو ان میں سےنتیجہ اخذ کرنےوالے لوگ اس کی حقیقت معلوم کرلیتے ، او راگر اللہ تعالی کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو ضرور سوائے چند لوگوں کے تم سب شیطان کی پیروی کرنے لگتے )

يہ آيت مسلمانوں کی ايک ایسے شريف قاعدے پر تربيت کرتی ہے، کہ جب بھی ان کا سامنا کسی بھی قسم کے مصائب، مشکل اور کٹھن امور سے ہو تو اسے اپناکر اس پر چلنا ان پر واجب ہے ۔ اور وہ قاعدہ يہ ہے کہ ایسی درپيش مشکلات اور بڑے معاملات کو جو ايک حلم وبردبار شخص تک کو حيرت ميں ڈال ديتے ہيں، ان لوگوں کی طرف لوٹائيں جو ان پر کلام کرنے اور ان کو حل کرنے کے اہل ہيں، اور يہ لوگوں ميں سے دو قسم کے گروہ ہيں:

پہلا گروہ: رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– ہيں، اور اب اس سے مراد ان امور کو آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– کی سنت کی طرف لوٹانا ہے۔

دوسرا گروہ: وہ لوگ جو حکومت ميں ہيں، کيونکہ بے شک حاکم وقت اور اس کے ساتھ جو اہل شوریٰ ہيں، علماء اور تجربہ کار لوگ، اہل حل و عقد، اور شرعی اور سياسی امور کی معرفت رکھنے والے، يہی لوگ ان درپيش مشکلات کو حل کرنے کے اہل ہيں ناکہ عام عوام۔

اور اس بات کی مزید وضاحت اس روايت سے ہو جاتی ہے جو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روايت کی ہے کہ لوگوں کے درميان یہ بات پھیل گئی کہ رسول اللہ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے، سيدنا عمر ۔رضی اللہ عنہ۔ نے فرمايا:

’’فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ -صلی الله عليه و سلم– فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَطَلَّقْتَ نِسَاءَكَ ؟! قَالَ: لَا! قَالَ عُمَرُ لَمَّا نَزَلَتْ الْآيَةُ: فَكُنْتُ أَنَا اسْتَنْبَطْتُ ذَلِكَ الْأَمْرَ ‘‘ ([1])۔

(ميں نے نبی -صلی اللہ عليہ و سلم– کے پاس آکر کہا: يا رسول اللہ، کيا آپ نے اپنی بيويوں کو طلاق دے دی ہے؟
آپ -صلی اللہ عليہ و سلم– نے فرمايا: نہيں۔ سيدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہيں جب يہ آيت نازل ہو‏ئی تو ميں نے ہی اس معاملے کا استنباط کیا)۔

دوسری بات: ان کا يہ کہنا کہ ہم کسی بھی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں یا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔

ہم يہ کہتے ہيں کہ آپ واقعی ميں کسی شخص کی اتباع کرنے پر مجبور نہيں، یہ بات صحیح ہے، ليکن آپ کا يہ قول مجمل ہے، کيونکہ يہ خطاء و صواب اور حق و باطل دونوں کا احتمال رکھتا ہے، آپ کو يہ چاہيے تھا کہ اس بات کو تفصيل اور فصاحت کے ساتھ بيان کرتے،کيونکہ اصل اعتبار کسی بھی فلاں فلاں شخص کے قول کا بذاتہ نہیں کیا جاتا(کہ بس یہ فلاں کا قول ہے)، بلکہ اصل اعتبار تو تو دليل کا ہوتا ہے۔ پس جب بھی لوگوں کا کسی بھی معاملے ميں اختلاف واقع ہو جائے تو اس صورت ميں ان پر واجب ہے کہ وہ اس معاملے کو جس ميں اختلاف واقع ہوا ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول -صلی اللہ عليہ و سلم– کی طرف لوٹائيں جيسا کہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِي الْاَمْرِ مِنْكُمْ ۚ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (النساء: 59)
[Article] Acknowledgment of few #scholars from Arab and subcontinent - Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen Al-Albaanee

عرب و برصغیر کے بعض #علماء کرام کا تذکرہ

فضیلۃ الشیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ

(محدث دیار شام)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: سلسلة الهدى والنور 301۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/arab_barr_e_sagheer_baaz_ulamaa_tazkirah.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:اس زمانے میں علماء، فقہاء و مجتہدین میں سے آپ کن کو جانتے ہیں؟

جواب: میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ شیخ ابن باز (اللہ تعالی آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچائے)([1]) بہت سے مسائل میں اجتہاد کرتے ہيں، اگرچہ ہم جانتے ہيں کہ وہ حنبلی المذہب ہیں اور کسی بھی مذہب کے پڑھنے والی کی طبیعت کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب وہ اسی پر تربیت پاتا ہے، پھر وہ متنبہ ہوتا ہے بعض ایسے مسائل کے موجود ہونے پر کہ جو شرعی دلائل کے مخالف ہوتے ہيں، لیکن اس کا یہ متنبہ ہونا ایک عرصے کے بعد ہوتا ہے، لہذا اس سبب سے یعنی دلیل کی اتباع کرتے ہوئے اس کی اس تنبیہ یا مذہب کی مخالفت کرلینا دو باتوں پر دلالت کرتا ہے:

پہلی بات: کہ وہ اجتہاد کرتا ہے مقلد نہيں۔

دوسری بات: جیسا کہ میں نے ابھی بیان کیا تھا اس اجتہاد کا تناسب بہت کم ہوتا ہے([2])۔

پھر ان کے ساتھ فاضل شیخ ابن عثیمین کا بھی اضافہ کرلیں، آپ بھی افاضل سعودی علماء میں سے ہيں کہ جن کے بارے میں ہم یہی گمان کرتے ہيں کہ اگر ان کے سامنے کتاب وسنت سے ثابت شدہ دلائل کے ساتھ حقیقت سامنے آتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہيں، بلاشبہ وہ ایسا نہيں کرتے جیسے دوسروں لوگ کرتے ہيں کہ اپنے اس مذہب پر جمود اختیار کرتے ہيں کہ جس پر وہ رہتے آئے ہيں، بلکہ یہ دلیل کی پیروی کرتے ہیں۔

لیکن ان کے تعلق سے بھی اس کا تناسب بہت کم ہوتا ہے۔

یعنی جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ افسوس مجھے اتنوں کا معلوم نہیں (یعنی مجتہدین کا) یا تو جن کے بارے میں سوال کیا گیا (یعنی مجتہدین علماء) ان کے قلت وجود کی وجہ سے یا میرے حافظے کی کمزوری کی وجہ سے یا پھر میرے تنگ علمی دائرے کی وجہ سے کہ اس قسم کی شخصیات کا وجود ملک کے اکناف و اطراف میں ہو۔لہذا میں اپنے حافظے کو کمزور پاتا ہوں کہ ان دو فاضل شخصیات جیسی کوئی دیگر مثالیں یا نمونے پیش کروں۔

البتہ میں یہ یقین رکھتا ہوں جیسا کہ آجکل کہا جاتا ہے کہ ایک علمی بیداری کی لہر اٹھی ہے کہ جو اس بات کی جانب رہنمائی کرتی ہے کہ ہمیں ضرور کتاب وسنت اور جس چیز پر سلف صالحین تھے کے شرعی دلائل کی جانب رجوع کرنا چاہیے اور کسی مذہب پر جمود اختیار نہيں کرنا چاہیے۔لہذا ان جیسے بہت سے نمونے بہت سے اسلامی ممالک میں پائے جاتے ہيں سعودی میں، کویت، امارات میں اور خاص کر پاک و ہندمیں، اگرچہ وہ اتنے مشہور نہ بھی ہوئے ہوں یعنی ان میں سے وہ علمی شعبے میں مستقل طور پر ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ لیکن بلاشبہ پاکستان میں اور ہندوستان کے مسلم علاقوں میں ایک بڑی جماعت یا گروہ پایا جاتا ہے جو علماء حدیث کہلاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جنہوں نے درحقیقت ان ممالک میں عمل بالحدیث کے منہج کو نشر کیا، بلکہ کبھی تو ان کی دعوت دیگر اسلامی ممالک تک سرایت کرگئی۔ چناچہ انہوں نے عمل بالحدیث اور مذاہب کی عدم تقلید کو نشر کیا خصوصاً ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں غالب ترین مذہب یعنی مذہب حنفی (کی عدم تقلید)۔لہذا ان ممالک میں ایک مستقل مذہب مذہب اہل حدیث بن گیا۔ اور اس جماعت کو مذہب اہل حدیث کہاگیا۔

لیکن ہم اس زمانے میں ان (اہل حدیثوں) میں ایسے علماء نہيں جانتے کہ جن کی جانب انگلیوں سے اشارہ کیا جائے کہ وہ خود محنت و اجتہاد کرتے ہیں اور (اور اپنے سے پہلوں کی) تقلید نہيں کرتے۔ البتہ ہم بعض ایسے علمی آثار پاتے ہیں کہ جو ان علماء اہل حدیث میں سے بعض چھوڑ گئے ہيں کہ ان کے یہ آثار اس بات پر دلالت کناں ہیں کہ وہ ایک بلند علمی درجے پر تھے اور تقلید سے دور تھے۔ مثال کے طور پر شمس الدین، کیا نام تھا؟

سائل: عبدالحق آبادی۔

شیخ: عبدالحق آبادی(شیخ کی مراد صاحب عون المعبود شرح سنن ابی داود شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ ہیں) اور تحفہ الاحوذی (شرح جامع الترمذی) والے (یعنی شیخ عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ) اور ان کے علاوہ دیگر لوگ۔ یعنی ان کے بارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ کتاب وسنت پر عمل کرنے کے منہج کو نشر کرنے اور مذہب کی اتباع سے روکنے میں ان کے احسانات ہیں۔ یا جیسا میں نے شاعر کا قول ذکر کیا کہ:

”وكانوا إذا عدوا قليلا فصاروا اليوم أقل من القليل“

(جب انہيں گننے پر آئیں تو قلیل نکلتے ہيں اور آج تو یہ اقل القلیل ہوگئے ہیں)۔
[Article] What is the stance of a beginner student regarding the difference between the #scholars? - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee

#علماء کرام کے مابین اختلاف میں ابتدائی طالبعلم کیا مؤقف اختیار کرے؟

فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ

(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية و دروس تربوية من كتاب الاعتصام بالكتاب و السنة من صحيح البخاري، س 4 ص 76۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال:ایک ابتدائی طالبعلم کا اس اختلاف کے تعلق سے کیا مؤقف ہونا چاہیے جو علماء سنت کے مابین ان کے بعض فتاویٰ میں ہوجاتا ہے، خصوصاً جبکہ ان میں سے بعض بعض علماء کے لیے تعصب کرتے ہيں اور یہ انہیں اس بات پر ابھارتا ہے کہ وہ دوسرے عالم کی شان میں تنقیص کرتے ہیں، پس آپ کس طرح نوجوانوں کی اس باب میں رہنمائی فرمائيں گے، وجزاکم اللہ خیراً؟

جواب کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/ulamaa_ikhtilaaf_talib_e_ilm_moaqqaf.pdf
[Urdu Article] Obeying the #scholars and #rulers in good, is the way in which the affairs will improve – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah bin Baaz

#علماء اور #امراء کی معروف میں اطاعت کرنے سے ہی حالات میں بہتری آتی ہے

فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ

(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: حوار مع سماحته في ندوة عقدت بجامع الإمام فيصل بن ترك في الرياض ونشرته جريدة الشرق الأوسط في 4 \ 11 \ 1413 هـ

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ حکمرانوں کی معروف میں اطاعت کی جائے، کیونکہ بلاشبہ اسی کے ذریعے امت کے امور میں بہتری آتی ہے، اورامن واستقرار حاصل ہوتا ہے، اور لوگ فتنوں سے بچ جاتے ہیں۔ اور آپ فضیلۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ ولاۃ الامر سے مراد علماء اور امراء وحکام وصاحب سلطنت ہیں۔ اور سماحۃ الشیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ ان کی اطاعت معروف میں ہوگی اللہ عزوجل کی معصیت میں نہيں۔ اور آپ سماحۃ الشیخ نے ساتھ میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ اس حکمران کی کہ جو معصیت کا حکم کرتا ہے صرف اس معصیت میں اطاعت نہیں ہوگی، لیکن اس کے باوجود رعایا کو یہ حق نہيں کہ وہ اس وجہ سے اس کے خلاف خروج کریں۔ پھر سماحۃ الشیخ نے یہ بھی بیان فرمایا کہ کب حاکم پر خروج جائز ہوتا ہے کہ جس کا ضابطہ شریعت مطہرہ میں موجود ہے کہ جو رعایا ان کے خلاف نکلی ہو اس کے پاس اللہ تعالی کی طرف سے واضح برہان ودلیل ہو اس حاکم کے کھلم کھلا کفر کی، ساتھ ہی ان کے پاس اسے تبدیل کرنے کی قدرت وطاقت بھی ہو، پس اگر ان کے پاس قدرت نہ ہو عاجز ہوں، تو پھر انہيں خروج نہيں کرنا چاہیے اگرچہ کفر بواح (کھلم کھلا کفر) ہی کیوں نہ دیکھ لیں۔ کیونکہ اس صورت میں ان کے خروج سے امت میں فساد ہوگا، لوگوں کو نقصان پہنچنے گا اور یہ فتنے کا موجب ہوگا۔ جبکہ یہ ساری باتیں شرعی خروج کے جو مقاصد ومصلحتیں ہیں جیسے لوگوں اور امت کی اصلاح ومنفعت ان کے خلاف ہے ۔ اور سماحۃ الشیخ نے فرمایا کہ اس حالت میں رعایا کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ بھرپور نصیحت کرے، حق بات کہے، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرتی رہے، اس صورت میں وہ برئ الذمہ ہیں۔

اسی طرح جامع الامام فیصل بن ترکی، ریاض میں منعقدہ اس کانفرنس میں کیے گئے سوالات کے جوابات میں شیخ نے حکام کی اطاعت کی اہمیت، لزوم جماعت، اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے عظیم وعید ان کے لیے جو ناحق حکومت سے بغاوت کریں اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کریں بیان فرمائی۔ ساتھ ہی سماحۃ الشیخ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ جو قوانین شریعت کے موافق ہوں تو ان میں کوئی حرج نہيں جیسا کہ ٹریفک وغیرہ اور ایسی چیزوں کے قوانین ہوتے ہیں جس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے، اور ان میں شریعت کی مخالفت نہيں ہوتی۔ البتہ جن قوانین میں شریعت کی صریح مخالفت ہوتی ہے تو وہ ٹھیک نہيں، اب جو ان کو حلال سمجھتا ہے یعنی ان شریعت مخالف قوانین کو جن پر علماء کرام کا اجماع ہے تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔

او رجب شیخ سے پوچھا گیا کہ ان شریعت مخالف قوانین کو حلال سمجھنے والے حکام کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے تو آپ نے فرمایا: ہم ان کی معروف میں اطاعت کریں گے معصیت میں نہيں یہاں تک کہ اللہ تعالی کوئی اس کا نعم البدل لے کر آئے۔

اور جب شیخ سے اسلامی منظر عام پر پائی جانے والی موجودہ دور کی مختلف اسلامی جماعتوں سے متعلق پوچھا گیا اور یہ کہ ان میں سے کون سی اتباع کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ تو شیخ نے اس بات کی تاکید فرمائی کہ جس جماعت کی اتباع سب پر واجب ہے وہ وہ جماعت ہے کہ جو کتاب وسنت کے منہج پر اور جس چیز پر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم تھے اس پر قائم ہو۔

ساتھ ہی شیخ نے وضاحت فرمائی کہ ان موجودہ جماعتوں میں سے ہر جماعت میں حق وباطل کی آمیزیش پائی جاتی ہے، تو ان کا کہا مانا جائے گا حق بات میں یعنی جس پر کتاب وسنت کی دلیل موجود ہو، جبکہ جو بات دلیل کے خلاف ہوگی تو وہ ان پر رد کردی جائے گی، اور ان سے کہا جائے گاکہ تم نے اس میں غلطی کی ہے۔

اور شیخ کی یہ بھی رائے ہے کہ اس سلسلے میں اہل علم پر یہ عظیم واجب ہے اور ان کا بہت بڑا کردار ہے کہ وہ حق بیان کریں اور ان جماعتوں کا ضرور رد کریں ہر اس بات پر جس میں وہ غلطی پر ہيں، جو ان کی جماعتوں کی تفاصیل جانتے ہیں وہ ایسا کریں۔