The Balochistan Post
4.83K subscribers
65 photos
8 videos
3 files
32.7K links
TBP - Uncovering The Truth
Download Telegram
فدائی شے مرید ایک نظریاتی اور فکری بنیاد پر بلوچ جدوجہد سے وابستہ تھے۔۔ ان کے دل میں اپنے وطن کے لئے بے پناہ محبت تھی، اور انہوں نے دیار غیر کی خوشحال زندگی چھوڑ کر بلوچستان میں واپس آ کر اپنے لوگوں کے لئے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ شے مرید نے اپنی زندگی کو بلوچ قوم کی آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کے لئے وقف کر دیا تھا۔

شے مرید کی شہادت بلوچ قوم کے لئے سپوتوں کی جہد آزادی کے لئے دی گئی قربانیوں کا تسلسل ہے اور ان کی جدوجہد بلوچ آزادی کی تحریک کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ ان کی عظیم قربانی کو بلوچ قوم ہمیشہ عزت اور فخر کے ساتھ یاد رکھے گا۔

شے مرید جیسے باشعور نوجوانوں کی قربانی اس امر کی واضع کرتی ہے کہ وطن کی محبت اور اس کی حفاظت کے لیے انسان کسی بھی حد تک جایا جا سکتا ہے۔ ان کی شہادت نہ صرف ان کے خاندان کے لیے ایک باعث فخر تھا ، بلکہ پورے علاقے اور قوم کے لیے ایک بیداری کا پیغام تھا کہ وطن کی خدمت کے لیے جان دینا ایک عظیم ترین عمل ہے۔

https://thebalochistanpost.com/2025/04/%d9%81%d8%af%d8%a7%d8%a6%db%8c-%d8%b4%db%92-%d9%85%d8%b1%db%8c%d8%af%d8%8c-%d8%ad%d9%82%db%8c%d9%82%db%8c-%d8%b4%db%92-%d9%85%d8%b1%db%8c%d8%af-%db%94-%d9%88%d8%b3%db%8c%d9%85%db%81-%d8%a8%d9%84%d9%88/
Protest sit-ins, shutdowns, and wheel-jam strikes are ongoing across Sindh over the issue of constructing six "controversial" canals on the Indus River. Major highways are blocked.

#SindhProtests #SindhCanals #IndusRiver

https://x.com/TBPEnglish/status/1914259941189107903
شہید ظفر جان: ابتدائی زندگی سے قومی مزاحمت تک کا سفر
تحریر: منیر بلوچ
دی بلوچستان پوست

زندگی کیا ہے؟ خوشی یا غم؟ دکھ یا تکلیف؟ جینا یا مرنا؟
زندگی کے مختلف مراحل سے گزر کر اسے جینا ضروری ہوتا ہے، اور ایسے جینا چاہیے کہ موت بھی زندگی کے آگے شرما جائے۔ زندگی درحقیقت زندہ دلی کا نام ہے، اور زندہ دلی وہی لوگ دکھاتے ہیں جو حقیقی معنوں میں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنے لیے جینے کی خواہش رکھتے ہیں بلکہ اپنے عمل اور قربانی سے پوری قوم کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں، کٹھن اور تاریک راہوں پر روشنی کا کردار ادا کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ پتھر سے سر تو ٹوٹ سکتا ہے، مگر پتھر نہیں ٹوٹتا۔ شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ پانی کا ایک قطرہ مسلسل گرتا رہے تو آہستہ آہستہ پتھر کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے اسے ٹوٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ بلوچستان بھی ایسی سرزمین ہے جہاں کے لوگوں نے اپنے سروں کی قربانی دے کر اُس پتھر کی بنیادیں ہلا دی ہیں، جسے سیاست کی زبان میں “ریاست” کہا جاتا ہے۔

میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے شہید ظفر جان کو قریب سے دیکھا۔ میں ان کے نظریات سے متاثر ہو کر بی ایس او آزاد میں شامل ہوا۔ میں نے ہمیشہ انہیں پتھروں سے سر ٹکراتے دیکھا، لیکن کبھی اُن کے سر پر زخم نہیں دیکھے—بلکہ ان کی استقامت اور مستقل مزاجی نے پتھروں پر خراشیں ڈال دی تھیں۔

کراچی کے ماری پور جیسے محروم علاقے سے لے کر بلوچ قومی مزاحمتی سیاست تک، انہوں نے ہمیشہ طاقتوروں کو للکارا اور ہر بار سرخرو ہوئے۔ اتنے سرخرو کہ جب تک دنیا باقی ہے، ان کی صدائیں سنگھور پاڑہ سے لے کر بولان کی چٹانوں تک گونجتی رہیں گی۔ ان کی یہ للکار ریاست کے خلاف مسلسل مزاحمت کی علامت بنی رہے گی۔

مکمل تحریر کو دی بلوچستان پوسٹ کی ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں

https://thebalochistanpost.com/2025/04/%d8%b4%db%81%db%8c%d8%af-%d8%b8%d9%81%d8%b1-%d8%ac%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d8%a8%d8%aa%d8%af%d8%a7%d8%a6%db%8c-%d8%b2%d9%86%d8%af%da%af%db%8c-%d8%b3%db%92-%d9%82%d9%88%d9%85%db%8c-%d9%85%d8%b2%d8%a7%d8%ad/
آزادی یا دہشت گردی؟ جدوجہدِ بلوچ کا مقدمہ
تحریر: سفر خان بلوچ (آسگال)
دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ جدوجہدِ آزادی سے عبارت ہے۔ ہر قوم، ہر خطہ جب کسی غیر قوم یا بیرونی قوت کے قبضے میں آیا، تو اس نے اپنی شناخت، حقِ خود ارادیت اور آزادی کے لیے مزاحمت کی۔ یہ مزاحمت کبھی سیاسی پلیٹ فارم کے ذریعے ہوئی اور کبھی عسکری تحریک کی شکل میں۔ تاہم، ہر دور میں قابض قوتوں نے ان تحریکوں کو “دہشت گردی” سے منسوب کرنے کی کوشش کی۔ مگر وقت نے ثابت کیا کہ جنہیں “دہشت گرد” کہا گیا، وہ درحقیقت اپنی قوم کے رہنما اور آزادی کے علمبردار تھے۔

ویتنام کی جنگِ آزادی میں ہو چی منہ نے فرانسیسی اور امریکی قبضے کے خلاف مزاحمت کی۔ جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کو “دہشت گرد” قرار دے کر 27 برس قید میں رکھا گیا، مگر وہ بعد میں امن کا عالمی استعارہ بنے۔ الجزائر نے فرانسیسی نوآبادیاتی قبضے سے آزادی کے لیے برسوں جنگ لڑی، اور ان کی تحریک “نیشنل لبریشن فرنٹ” (FLN) کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ ہندوستان میں برطانوی سامراج کے خلاف بھگت سنگھ، سبھاش چندر بوس اور دیگر رہنماؤں کو بھی اسی طرح “باغی” اور “دہشت گرد” کہا گیا۔

اسی طرح، لیبیا میں عمر مختار اور کیوبا میں فیڈل کاسترو نے بھی اپنی سرزمین کی آزادی کے لیے لڑائیاں لڑی، اور تاریخ نے فیصلہ انہی کے حق میں دیا۔ قابضین شرمندہ ہو کر تاریخ میں دفن ہو گئے۔

آج اسی تسلسل میں، بلوچستان کی تحریکِ آزادی ایک قومی تحریک کی شکل اختیار کر چکی ہے، جو نہ صرف تاریخی جواز رکھتی ہے بلکہ انسانی حقوق، سیاسی خودمختاری اور قومی تشخص کے اصولوں پر بھی قائم ہے۔ یہ محض وسائل یا ترقی کا مطالبہ نہیں، بلکہ ایک قوم کی شناخت، زمین، ثقافت اور زبان کی بقا کی جدوجہد ہے۔

مکمل تحریر کو دی بلوچستان پوسٹ کی ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں

https://thebalochistanpost.com/2025/04/%d8%a2%d8%b2%d8%a7%d8%af%db%8c-%db%8c%d8%a7-%d8%af%db%81%d8%b4%d8%aa-%da%af%d8%b1%d8%af%db%8c%d8%9f-%d8%ac%d8%af%d9%88%d8%ac%db%81%d8%af%d9%90-%d8%a8%d9%84%d9%88%da%86-%da%a9%d8%a7-%d9%85%d9%82%d8%af/