The Balochistan Post
4.79K subscribers
65 photos
8 videos
3 files
33.4K links
TBP - Uncovering The Truth
Download Telegram
بلوچ عورت اور ریاستی جبر – ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

پانچ سال قبل 8 مارچ کو ہم نے ماما قدیر کے کیمپ میں ان بلوچ خواتین کی خاطر وومن ڈے منانے کا فیصلہ کیا جو اپنے پیاروں کے لیے سالوں سے ناصرف انتظار کا غم جھیل رہی ہے بلکہ وہ سڑکوں پر ایک جابر ریاست سے اپنے پیاروں کو واپس مانگ رہی ہے۔ اسی روز پریس کلب میں بھی ایک پروگرام تھا، اور ان لوگوں نے ہمیں کہاں کہ الگ پروگرام کرنے سے بہتر ہے آجائے ہمارے ساتھ ایک پروگرام میں، ہم نے انکار کیا کہ بلوچ عورت کا مسئلہ شاید آپ لوگ صحیح سے بیان نہیں کر پاؤں گے، آپ لوگوں کے لیے آزاد عورت مقصود ہے جبکہ ہمارے لیے آزاد عورت مصیبتوں کا شکار ہے۔ پہلے ہم ماما قدیر کے کیمپ میں چھوٹا سا پروگرام رکھینگے اور اس کے بعد ہم آپ لوگوں کے پروگرام میں شرکت کرینگے۔

میں نے ماما قدیر کے کیمپ میں میں ایک شعر لکھا جس کا ایک لائن مجھے یاد ہے باقی شعر کھو چکی ہوں شاید وہ سوشل میڈیا پر موجود ہو۔ شعر کا عنوان یہ تھا
“میں ایک بلوچ عورت،
میرے وجود کو خطرہ
میری قید سے نہیں میری آزادی ہے”

یہ جملہ ہمارے ماضی کے لیے تھا اور ہمارے آج کے لیے بھی ہے۔ ہر بلوچ عورت کو دیکھے، یہ کم معنی رکھتا ہے کہ اسےسماج کتنا قید رکھ رہا ہے، بلکہ وہ آزاد ہوکر کس قدر ریاست کا نشانہ بننے کے خطرے پر ہے۔ یاد کریں نجمہ بلوچ کو جو آواران جیسے علاقے میں ایک استانی تھی، جسے ڈیتھ اسکواڈ نے مجبور کیا کہ انکے لیے کام کریں، اور جب اسے مسلسل ہراساں کیا تو اس نے خود کشی کر لی اس بلوچ عورت کو خطرہ اس کے گھر یا سماج سے نہیں تھا ، اسے ریاست کے پالے غنڈوں نے زندگی ختم ہونے پر مجبور کیا، یا کچھ ماہ قبل خضدار میں اغوا ہونے والی لڑکی ، اسما بلوچ، جسے ڈیتھ اسکواڈ کے اہلکار اس کے گھر سے اغوا کرکے لے گئے، جس پر اول تو گٹر میڈیا نے خوب کیچڑ اچھالا مگر اس کے بھائی نے جدوجہد جاری رکھا تو ڈی سی خود ملزم کو منت سماجت کرکے لڑکی کو واپس لے آئی، اگر اس لڑکی کی خاندان جدوجہد نا کرتی تو وہ لڑکی ہزاروں دیگر لڑکیوں کی طرح ڈیتھ اسکوڈ کے نظر ہو جاتی۔

ریاست کے لیے پر خطر تو ہر بلوچ ہے، کیونکہ بلوچ سر زمین پر مکمل غلبے کے لیے ہر بلوچ کا خاتمہ چاہیے انہیں مگر ریاست کو سب سے زیادہ الجھن اس لڑکی سے ہے جو پڑھی لکھی ہے یا شعور رکھتی ہے۔ ماہ رنگ نے اس وقت میڈیکل کے لیے کوالیفائی کیا جب بلوچستان بھر کے لیے صرف 250 میڈیکل سیٹ تھے، وہ اپنے کلاس میں کبھی بھی کسی سبجیکٹ میں فیل نہیں ہوئی، ایف سی پی ایس پارٹ ون کرکے اب سرجری میں پوسٹ گیجویٹ ٹرینی ہے، وہ ایک اعلی تعلیم یافتہ با اعتماد خاتون ہے اسے آج تک بلوچ سماج نے نہیں روکا مگر وہ گزشتہ دو ماہ سے ریاست کے اپنے قید خانوں میں قید ہے۔

بیبو بلوچ ان کم بلوچوں میں سے ہے جس نے او لیولز اور اے لیولز کیا ہے، اس نے چارٹڈ اکاؤنٹنٹس کے کچھ امتحانات بھی دیئے البتہ کچھ مسائل کی وجہ سے بیچ میں چھوڑنا پڑھا، پھر اکنامکس میں ماسٹرز کیا ، آیف بی آر میں جوب پر تھی جہاں سے صرف احتجاجوں میں حصہ لینے پر معطل کی گئی، وہ بھی دو ماہ سے جیل میں ہے۔

- مکمل تحریر پڑھنے کیلئے ہماری ویب سائٹ کو ملاحظہ کریں:
https://thebalochistanpost.com/2025/05/%d8%a8%d9%84%d9%88%da%86-%d8%b9%d9%88%d8%b1%d8%aa-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%b1%db%8c%d8%a7%d8%b3%d8%aa%db%8c-%d8%ac%d8%a8%d8%b1-%da%88%d8%a7%da%a9%d9%b9%d8%b1-%d8%b5%d8%a8%db%8c%d8%ad%db%81-%d8%a8/