[#SalafiUrduDawah Article] The #companions of the messenger of Allah (may Allah be pleased with them all) – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام #احمد_بن_حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتےہیں:
26- اس امت میں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں، پھر سیدنا عمر بن الخطاب، پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم ہیں۔ ہم ان تینوں کو مقدم کرتے ہیں جیسا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مقدم فرمایا، اس میں انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔
پھر ان تینوں کے بعدپانچ اصحابِ شوری ہیں: سیدناعلی بن ابی طالب، الزبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد (بن ابی وقاص)، طلحہ رضی اللہ عنہم یہ سب خلافت کے لئے اہل تھے، اور یہ سب امام تھے۔ اس بارے میں ہم حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر چلتے ہیں:
’’كُنَّا نَعُدُّ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَيٌّ وَأَصْحَابُهُ مُتَوَافِرُونَ: أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ نَسْكُتُ‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافر مقدار میں موجود تھے ہم کہا کرتے تھے (بلحاظِ فضیلت ومرتبہ)ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان پھر خاموش ہوجاتے تھے)۔
[مسند احمد (تحقیق احمد شاکر): مسند عبداللہ بن عمر، حدیث رقم (4626)۔ رواه أحمد فى "فضائل الصحابة" (1/108، برقم 58) مثله بسنده سواءً. ورواه أحمد فى "الفضائل" عن إبن عمر من طرق، انظر: "الفضائل" برقم (53 و 54و 55و 56و 57). صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل ابی بکر بعد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حدیث رقم (3655) اس میں ’’ثم نسکت‘‘ کے الفاظ نہیں اور حافظ ابن حجر نے اس کی شرح کے وقت اس کی اسانید کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمرو القرشی رضی اللہ عنہ، حدیث رقم (3697) اس میں بھی ’’ثم نسکت‘‘کے الفاظ نہیں ہے مگر یہ اضافہ ہے ’’ثم نترک اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نفاضل بینهم‘‘ (پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کوچھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے)]
پھر ان اصحابِ شوریٰ کے بعد مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر پھر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر، یعنی جو ہجرت وایمان لانے میں سبقت کرنے میں اول تھے پس وہ (مرتبے میں بھی) اول ہیں۔
27- ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین لوگ اس دورکے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔
اور جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی خواہ ایک سال ہو، ایک مہینہ، ایک دن، ایک پل ہو یا صرف دیکھا ہی ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہے، اس کا صحابیت میں سے اتنا ہی حصہ ہے جتنی اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحبت رہی، ان کے ساتھ سبقت کی، ان سے کچھ سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو۔ پس ان میں سے جو ادنیٰ ترین صحبت کا بھی حامل ہو وہ اس دوروالوں سے بہتر ہے جنہوں نے انہیں نہ دیکھا ، چاہے وہ (بعد میں آنے والے) اللہ تعالی سے تمام اعمال (خیر) کے ساتھ ملاقات کریں۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار فرمائی، ان کا دیدار فرمایا اور ان سے سماعت فرمایا، جنہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان پر ایمان لائے اگرچہ ایک پل کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی صحبت کے اعتبار سے تابعین سے افضل ہے چاہے وہ (تابعین) تمام اعمال خیر ہی کیوں نہ بجالائیں۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_kiraam_rabee.pdf
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام #احمد_بن_حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتےہیں:
26- اس امت میں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں، پھر سیدنا عمر بن الخطاب، پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم ہیں۔ ہم ان تینوں کو مقدم کرتے ہیں جیسا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مقدم فرمایا، اس میں انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔
پھر ان تینوں کے بعدپانچ اصحابِ شوری ہیں: سیدناعلی بن ابی طالب، الزبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد (بن ابی وقاص)، طلحہ رضی اللہ عنہم یہ سب خلافت کے لئے اہل تھے، اور یہ سب امام تھے۔ اس بارے میں ہم حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر چلتے ہیں:
’’كُنَّا نَعُدُّ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَيٌّ وَأَصْحَابُهُ مُتَوَافِرُونَ: أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ نَسْكُتُ‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافر مقدار میں موجود تھے ہم کہا کرتے تھے (بلحاظِ فضیلت ومرتبہ)ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان پھر خاموش ہوجاتے تھے)۔
[مسند احمد (تحقیق احمد شاکر): مسند عبداللہ بن عمر، حدیث رقم (4626)۔ رواه أحمد فى "فضائل الصحابة" (1/108، برقم 58) مثله بسنده سواءً. ورواه أحمد فى "الفضائل" عن إبن عمر من طرق، انظر: "الفضائل" برقم (53 و 54و 55و 56و 57). صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل ابی بکر بعد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حدیث رقم (3655) اس میں ’’ثم نسکت‘‘ کے الفاظ نہیں اور حافظ ابن حجر نے اس کی شرح کے وقت اس کی اسانید کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمرو القرشی رضی اللہ عنہ، حدیث رقم (3697) اس میں بھی ’’ثم نسکت‘‘کے الفاظ نہیں ہے مگر یہ اضافہ ہے ’’ثم نترک اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نفاضل بینهم‘‘ (پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کوچھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے)]
پھر ان اصحابِ شوریٰ کے بعد مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر پھر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر، یعنی جو ہجرت وایمان لانے میں سبقت کرنے میں اول تھے پس وہ (مرتبے میں بھی) اول ہیں۔
27- ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین لوگ اس دورکے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔
اور جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی خواہ ایک سال ہو، ایک مہینہ، ایک دن، ایک پل ہو یا صرف دیکھا ہی ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہے، اس کا صحابیت میں سے اتنا ہی حصہ ہے جتنی اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحبت رہی، ان کے ساتھ سبقت کی، ان سے کچھ سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو۔ پس ان میں سے جو ادنیٰ ترین صحبت کا بھی حامل ہو وہ اس دوروالوں سے بہتر ہے جنہوں نے انہیں نہ دیکھا ، چاہے وہ (بعد میں آنے والے) اللہ تعالی سے تمام اعمال (خیر) کے ساتھ ملاقات کریں۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار فرمائی، ان کا دیدار فرمایا اور ان سے سماعت فرمایا، جنہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان پر ایمان لائے اگرچہ ایک پل کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی صحبت کے اعتبار سے تابعین سے افضل ہے چاہے وہ (تابعین) تمام اعمال خیر ہی کیوں نہ بجالائیں۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_kiraam_rabee.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The noble status of #companions of the prophet and essential #creed regarding them and the #Madhab of #AhlusSunnah wal Jama'ah regarding disputes amongst them – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#صحابہ کرام کی فضیلت ان کے بارے میں ضروری #اعتقاد اور ان کے آپسی اختلافات کے سلسلہ میں #اہل_سنت و جماعت کا #مذہب – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے پہلے ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ، وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الفتح: 29)
(محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں پر آپس میں رحم دل ہیں۔ (اے دیکھنے والے) تو ان کو پائے گا کہ (اللہ کے آگے) رکوع و سجود میں ہیں، اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں، (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم ) ہیں،اور انجیل میں ان کی مثال یوں بیان ہوئی کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی (ابھری) پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہو گئی، اور کھیتی والوں کو خوش کرنے لگی تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجرِ عظیم کاوعدہ کیا ہے)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/sahaba_fazail_ikhtilaaf_moaqqaf_ahlussunnah.pdf
#صحابہ کرام کی فضیلت ان کے بارے میں ضروری #اعتقاد اور ان کے آپسی اختلافات کے سلسلہ میں #اہل_سنت و جماعت کا #مذہب – شیخ صالح بن فوزان #الفوزان
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی (یعنی سب سے پہلے ایمان لائے) مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے خوش ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے)
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
﴿ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗٓ اَشِدَّاءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا ۡ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ۭ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ، وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْــــَٔهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَــظَ فَاسْتَوٰى عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ، وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا﴾ (الفتح: 29)
(محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں پر آپس میں رحم دل ہیں۔ (اے دیکھنے والے) تو ان کو پائے گا کہ (اللہ کے آگے) رکوع و سجود میں ہیں، اور اللہ کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کر رہے ہیں، (کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں، ان کے یہی اوصاف تورات میں (مرقوم ) ہیں،اور انجیل میں ان کی مثال یوں بیان ہوئی کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے (پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی (ابھری) پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہو گئی، اور کھیتی والوں کو خوش کرنے لگی تاکہ کافروں کا جی جلائے۔ جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے، ان سے اللہ نے گناہوں کی بخشش اور اجرِ عظیم کاوعدہ کیا ہے)
تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/sahaba_fazail_ikhtilaaf_moaqqaf_ahlussunnah.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] The #companions رضی اللہ عنہم best of people – Shaykh #Abdul_Muhsin Al-Abbaad
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین لوگ
فضیلۃ الشیخ #عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ
(محدثِ مدینہ و سابق رئیس، جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من كنوز القرآن الكريم ص 236-237۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/sahaba_behtareen_log.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ التوبۃ
اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے)
اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے سابقین اولین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور یہ کہ بے شک اس نے ان کے لیے نعمتوں بھری جنت تیار کررکھی ہے، اور یہ کہ بلاشبہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہيں وہ تمام امتوں سے بہترین امت محمدیہ میں سے سب سے بہترین لوگ ہيں ۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور عظمت بہت سی آیات اور متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہيں (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے سابقین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی ، اور جو کچھ اس نے ان کے لیے نعمتوں بھر ی جنت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ان کی بھی خبر دی۔ امام الشعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سابقین اولین مہاجرین وانصار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے حدیبیہ والے سال بیعت رضوان کو پایا تھا، سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین، الحسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔
مزید فرمایا:
’’یقیناً اللہ عظیم نے یہ خبر دی کہ بے شک وہ سابقین اولین مہاجرین وانصار اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی ان سے راضی ہوا۔ پس ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو ان سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے اور سب وشتم کرے،خصوصاً ان میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدتمام صحابہ کے سید وسردار ہيں ، اور ان میں سے سب سے بہتر اور افضل ہيں یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابو بکر ابن ابی قُحَافَہ رضی اللہ عنہ، کیونکہ روافض میں سے ایک گھٹیا گروہ افضل ترین صحابہ سے بغض ودشمنی رکھتا ہےاور انہيں سب وشتم کرتا ہے، ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقل ہی الٹی ہے، اور ان کے دل ہی اوندھے ہيں، پھر ایسوں کا قرآن کریم کے ساتھ کیا ایمان رہا جو ان ہی کو سب وشتم کریں جن سے اللہ تعالی راضی ہوچکا؟ جبکہ جو اہل سنت ہیں وہ ان سے راضی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالی راضی ہوا، اور انہیں سب وشتم کرتے ہيں جن پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب وشتم فرمایا، اور ان سے دوستی ومحبت کرتے ہيں جن سے اللہ تعالی محبت ودوستی فرماتا ہے، اور ان سے دشمنی وعداوت رکھتے ہيں جن سے اللہ تعالی دشمنی وعداوت فرماتا ہے۔ یہ اتبا ع وپیروی کرنے والے ہیں نہ کہ بدعات ایجاد کرنے والے، اقتداء کرتے ہيں مخالفت نہیں کرتے۔ اسی لیے یہ کامیاب ہونے والے حزب اللہ ہیں اور اس کے مومنین بندے ہیں‘‘۔
ہمارے شیخ شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ ’’اضواء البیان‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بلاشبہ جو سابقین اولین مہاجرین وانصار کی احسن طور پر پیروی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ داخل ہيں اللہ تعالی کی رضا، ہمیشہ جنت میں رہنے کے وعدے اور عظیم کامیابی میں۔ اور دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ بے شک جنہوں نے سابقین کی احسن طور پر اتباع کی وہ ان کے ساتھ اس خیر میں شریک ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ (الجمعۃ: 3)
(اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے)
اور فرمایا:
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہترین لوگ
فضیلۃ الشیخ #عبدالمحسن بن حمد العباد البدر حفظہ اللہ
(محدثِ مدینہ و سابق رئیس، جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من كنوز القرآن الكريم ص 236-237۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/sahaba_behtareen_log.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سورۃ التوبۃ
اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ ۙ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَآ اَبَدًا ۭذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ﴾ (التوبۃ: 100)
(جن لوگوں نے سبقت کی(یعنی سب سے پہلے) ایمان لائے مہاجرین میں سے بھی اور انصار میں سے بھی ،اور جنہوں نے بطورِ احسن ان کی پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اوروہ ہمیشہ ان میں رہیں گے ، یہی بڑی کامیابی ہے)
اس آیت میں اللہ تعالی کی طرف سے سابقین اولین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی جارہی ہے ۔ اور یہ کہ بے شک اس نے ان کے لیے نعمتوں بھری جنت تیار کررکھی ہے، اور یہ کہ بلاشبہ یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہيں وہ تمام امتوں سے بہترین امت محمدیہ میں سے سب سے بہترین لوگ ہيں ۔ یقیناً صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت اور عظمت بہت سی آیات اور متواتر احادیث میں بیان ہوئی ہيں (رضی اللہ عنہم وارضاہم)۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے سابقین مہاجرین وانصار اور اچھے طریقے سے ان کی پیروی کرنے والوں سے اللہ تعالی کی رضا مندی ، اور ان کی اللہ تعالی سے رضا مندی کی خبر دی ، اور جو کچھ اس نے ان کے لیے نعمتوں بھر ی جنت اور ہمیشہ رہنے والی نعمتیں تیار کررکھی ہیں ان کی بھی خبر دی۔ امام الشعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: سابقین اولین مہاجرین وانصار سے مراد وہ ہیں جنہوں نے حدیبیہ والے سال بیعت رضوان کو پایا تھا، سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ، سعید بن المسیب، محمد بن سیرین، الحسن اور قتادہ رحمہم اللہ فرماتے ہیں: یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ہے‘‘۔
مزید فرمایا:
’’یقیناً اللہ عظیم نے یہ خبر دی کہ بے شک وہ سابقین اولین مہاجرین وانصار اور جنہوں نے احسن طور پر ان کی پیروی کی ان سے راضی ہوا۔ پس ان لوگوں کے لیے ویل ہے جو ان سے بغض رکھے یا سب وشتم کرے، یا ان میں سے بعض سے بغض رکھے اور سب وشتم کرے،خصوصاً ان میں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعدتمام صحابہ کے سید وسردار ہيں ، اور ان میں سے سب سے بہتر اور افضل ہيں یعنی صدیق اکبر وخلیفۂ اعظم ابو بکر ابن ابی قُحَافَہ رضی اللہ عنہ، کیونکہ روافض میں سے ایک گھٹیا گروہ افضل ترین صحابہ سے بغض ودشمنی رکھتا ہےاور انہيں سب وشتم کرتا ہے، ہم اس سے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی عقل ہی الٹی ہے، اور ان کے دل ہی اوندھے ہيں، پھر ایسوں کا قرآن کریم کے ساتھ کیا ایمان رہا جو ان ہی کو سب وشتم کریں جن سے اللہ تعالی راضی ہوچکا؟ جبکہ جو اہل سنت ہیں وہ ان سے راضی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالی راضی ہوا، اور انہیں سب وشتم کرتے ہيں جن پر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب وشتم فرمایا، اور ان سے دوستی ومحبت کرتے ہيں جن سے اللہ تعالی محبت ودوستی فرماتا ہے، اور ان سے دشمنی وعداوت رکھتے ہيں جن سے اللہ تعالی دشمنی وعداوت فرماتا ہے۔ یہ اتبا ع وپیروی کرنے والے ہیں نہ کہ بدعات ایجاد کرنے والے، اقتداء کرتے ہيں مخالفت نہیں کرتے۔ اسی لیے یہ کامیاب ہونے والے حزب اللہ ہیں اور اس کے مومنین بندے ہیں‘‘۔
ہمارے شیخ شیخ محمد الامین الشنقیطی رحمہ اللہ ’’اضواء البیان‘‘ میں فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے اس آیت کریمہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا ہے کہ بلاشبہ جو سابقین اولین مہاجرین وانصار کی احسن طور پر پیروی کرتے ہیں تو وہ ان کے ساتھ داخل ہيں اللہ تعالی کی رضا، ہمیشہ جنت میں رہنے کے وعدے اور عظیم کامیابی میں۔ اور دوسرے مقام پر وضاحت فرمائی کہ بے شک جنہوں نے سابقین کی احسن طور پر اتباع کی وہ ان کے ساتھ اس خیر میں شریک ہیں، جیساکہ اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَاٰخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوْا بِهِمْ﴾ (الجمعۃ: 3)
(اور ان میں سے کچھ اور لوگوں میں بھی (آپ کو بھیجا) جو ابھی تک ان سے نہیں ملے)
اور فرمایا: