[#SalafiUrduDawah Article] Ruling on #visiting the #caves of #Thaur and #Hira? – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#غار_ثور اور #غار_حراء کی #زیارت کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التحذير من الشر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/ghar_thaur_hira_ziyarat_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جبل ثور اور جبل حراء (النور) پر چڑھنے کا کیا حکم ہے اگر اس سے مقصد محض مشاہدہ ہو، اور ان جگہوں کی معرفت ہو جن جگہوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تھے؟
جواب: اگر یہ ان ایام میں ہو جو کہ جاہلوں کی اور اہل خرافات واہل بدعات کی زیارت کے لیے مشہور ہيں تو ایک طالبعلم کے لیے جائز نہيں کہ وہ اس شر میں ان کے ساتھ مشارکت کرے، کیونکہ بلاشبہ وہ سمجھیں گے کہ یہ ان کے ساتھ ہے، الا یہ کہ وہ اس مقصد سے جائے کہ ان کو نصیحت کرے گا اور ان کے سامنے وضاحت کرے گا کہ یہ زیارتيں اللہ کے دین میں سے نہيں اور نہ ہی کوئی مشروع عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پاک سرزمین میں پیدا ہوئے اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وطن ہے۔ او رآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارحراء جایا کرتے تھے جہاں آپ عبادت فرماتے اپنی بعثت سے پہلے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل فرمائی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی میں تھے۔ چناچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے چلے گئے اور پھر کبھی لوٹ کر وہاں نہ گئے یہاں تک کہ وہاں سے ہجرت فرمالی۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کی طرف واپس لوٹے اور اس میں داخل ہوئے عمرۂ قضاء ادا فرمایا پھر بھی اس کی طرف واپس نہ گئے، اسی طرح سے جب فتح مکہ ہوا تو بھی اس کی طرف نہ گئے! اور حجۃ الوداع کے لیے بھی جب آئے تو اس کی طرف تشریف نہ لے گئے! نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گئے اور نہ ہی آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ان جگہوں پر گئے۔
غار ثور میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجبوری کی حالت میں گئے تھے، پھر جب اس سے نکلے تو کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہیں گئے، پھر اس سے یہ تعلق جوڑنے کا کیا مطلب؟! لیکن اہل باطل کی طرف سے بعض ایسی دعوتیں ہيں، ایسی شرپسند نشریات ہيں جو اس جیسی جگہوں کے بارے میں من گھڑت فضائل بنُتے ہيں اور چیزیں منسوب کرتے ہيں۔ لہذا اگر طالبعلم جاتا ہے تاکہ انہیں نصیحت کرے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ لیکن بس یونہی جائے اور ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنے، اہل جہل وضلالت کے گروہ میں اضافے کا سبب بنے اور نصیحت نہ کرے، توایسا شخص گنہگار ہے۔
اگر لازما ًکسی کو اس جگہ کی بس معلومات چاہیے تو پہلے اچھی طرح سے پڑھے ، اور لازمی جانا ہے تو پھر خلوت وتنہائی میں جائے۔
دراصل یہ ایک مصیبت ہے جو ہمیں مغرب سے وراثت میں ملی اور وہ یہ کہ آثار قدیمہ کا خصوصی اہتمام کرنا۔ اور یہ مغرب کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے کہ وہ آثار قدیمہ کا اہتمام کریں ان کی کھوج میں لگیں اور تحقیق کرتے پھریں، اور کھدائیاں کریں، اور وہ ہمارے لیے اٹھا کر فرعون کی لاش دکھانے لگے! اور ہمارے لیے اٹھا کر بابل والوں کی لاشیں اور آخر تک بہت سوں کی نکال نکال کر لانے لگے۔
چاہتے ہيں کہ ہم واپس فرعونی جاہلیت یا بابل والوں کی جاہلیت وغیرہ کی طرف لوٹ جائيں۔ یہی یہود ونصاریٰ کا ہدف ہے۔ پھر وہاں سے اس کا دائرہ پھیل کر غار حراء وغار ثور وغیرہ تک پہنچ گیا۔ اب یہاں آتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس پر مسح کرکے تبرک بھی لیتے ہوں اور ان جگہوں کے متعلق غلط عقائد بھی رکھتے ہوں!
پس ایک طالبعلم کے لیے جائز نہيں کہ وہ اس قسم کی مناسبات پر وہاں جائے۔ اور اگر جانا لازم ہو تو پھر خلوت وتنہائی میں جائے اس طرح کہ بیوقوفوں، اہل جہل وضلالت میں سے کوئی اسے نہ دیکھے کہ کہيں وہ اس کی وجہ سے سمجھنے لگیں گویا کہ ان جگہو ں کی زیارت کوئی مشروع عمل ہے۔
#غار_ثور اور #غار_حراء کی #زیارت کا حکم؟
فضیلۃ الشیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التحذير من الشر۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/ghar_thaur_hira_ziyarat_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: جبل ثور اور جبل حراء (النور) پر چڑھنے کا کیا حکم ہے اگر اس سے مقصد محض مشاہدہ ہو، اور ان جگہوں کی معرفت ہو جن جگہوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آئے تھے؟
جواب: اگر یہ ان ایام میں ہو جو کہ جاہلوں کی اور اہل خرافات واہل بدعات کی زیارت کے لیے مشہور ہيں تو ایک طالبعلم کے لیے جائز نہيں کہ وہ اس شر میں ان کے ساتھ مشارکت کرے، کیونکہ بلاشبہ وہ سمجھیں گے کہ یہ ان کے ساتھ ہے، الا یہ کہ وہ اس مقصد سے جائے کہ ان کو نصیحت کرے گا اور ان کے سامنے وضاحت کرے گا کہ یہ زیارتيں اللہ کے دین میں سے نہيں اور نہ ہی کوئی مشروع عمل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پاک سرزمین میں پیدا ہوئے اور یہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وطن ہے۔ او رآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارحراء جایا کرتے تھے جہاں آپ عبادت فرماتے اپنی بعثت سے پہلے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل فرمائی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی میں تھے۔ چناچہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں سے چلے گئے اور پھر کبھی لوٹ کر وہاں نہ گئے یہاں تک کہ وہاں سے ہجرت فرمالی۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کی طرف واپس لوٹے اور اس میں داخل ہوئے عمرۂ قضاء ادا فرمایا پھر بھی اس کی طرف واپس نہ گئے، اسی طرح سے جب فتح مکہ ہوا تو بھی اس کی طرف نہ گئے! اور حجۃ الوداع کے لیے بھی جب آئے تو اس کی طرف تشریف نہ لے گئے! نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گئے اور نہ ہی آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم ان جگہوں پر گئے۔
غار ثور میں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجبوری کی حالت میں گئے تھے، پھر جب اس سے نکلے تو کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہیں گئے، پھر اس سے یہ تعلق جوڑنے کا کیا مطلب؟! لیکن اہل باطل کی طرف سے بعض ایسی دعوتیں ہيں، ایسی شرپسند نشریات ہيں جو اس جیسی جگہوں کے بارے میں من گھڑت فضائل بنُتے ہيں اور چیزیں منسوب کرتے ہيں۔ لہذا اگر طالبعلم جاتا ہے تاکہ انہیں نصیحت کرے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ لیکن بس یونہی جائے اور ان کی تعداد میں اضافہ کا سبب بنے، اہل جہل وضلالت کے گروہ میں اضافے کا سبب بنے اور نصیحت نہ کرے، توایسا شخص گنہگار ہے۔
اگر لازما ًکسی کو اس جگہ کی بس معلومات چاہیے تو پہلے اچھی طرح سے پڑھے ، اور لازمی جانا ہے تو پھر خلوت وتنہائی میں جائے۔
دراصل یہ ایک مصیبت ہے جو ہمیں مغرب سے وراثت میں ملی اور وہ یہ کہ آثار قدیمہ کا خصوصی اہتمام کرنا۔ اور یہ مغرب کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے کہ وہ آثار قدیمہ کا اہتمام کریں ان کی کھوج میں لگیں اور تحقیق کرتے پھریں، اور کھدائیاں کریں، اور وہ ہمارے لیے اٹھا کر فرعون کی لاش دکھانے لگے! اور ہمارے لیے اٹھا کر بابل والوں کی لاشیں اور آخر تک بہت سوں کی نکال نکال کر لانے لگے۔
چاہتے ہيں کہ ہم واپس فرعونی جاہلیت یا بابل والوں کی جاہلیت وغیرہ کی طرف لوٹ جائيں۔ یہی یہود ونصاریٰ کا ہدف ہے۔ پھر وہاں سے اس کا دائرہ پھیل کر غار حراء وغار ثور وغیرہ تک پہنچ گیا۔ اب یہاں آتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس پر مسح کرکے تبرک بھی لیتے ہوں اور ان جگہوں کے متعلق غلط عقائد بھی رکھتے ہوں!
پس ایک طالبعلم کے لیے جائز نہيں کہ وہ اس قسم کی مناسبات پر وہاں جائے۔ اور اگر جانا لازم ہو تو پھر خلوت وتنہائی میں جائے اس طرح کہ بیوقوفوں، اہل جہل وضلالت میں سے کوئی اسے نہ دیکھے کہ کہيں وہ اس کی وجہ سے سمجھنے لگیں گویا کہ ان جگہو ں کی زیارت کوئی مشروع عمل ہے۔