[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding #staining_one's_forehead_with_the_blood of the #sacrificial_animal – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#ذبیحہ_کے_خون کے ساتھ اپنے #ماتھے_کو_خون_آلود_کرنا؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > الجماعة والفرقة والفرق > البدع والمحدثات > س4: ما معنى لطخ الجباه بدم الأضحية؛ لأني رأيت بعض المسلمين فاعلين ذلك، فسألتهم معناه فقال لي رجل من علماء البلد: كذلك فعل أصحاب سيدنا إبراهيم عليه السلام حيث ذبح أضحيته فطلبت منه كتاب… فتوی رقم 6667۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/zabiha_khoon_matha_rangna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کے ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کا کیا معنی ہے؟ کیونکہ میں نے بعض مسلمانوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو میں نے ان سے دریافت کیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک کے کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ: اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے کیا تھا جب انہوں نے اپنا ذبیحہ ذبح فرمایا تھا، تو میں نے ان سے وہ کتاب طلب کی جس میں یہ تاریخ لکھی ہو لیکن مجھے نہ ملی، اور میں ایک طالبعلم ہوں میرے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے اس عمل کا معنی ومراد پوچھ لوں؟
جواب: ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کے عمل کی ہمیں کوئی اصل وبنیاد نہيں معلوم، نہ کتاب سےنہ ہی سنت سے، اور نہ ہی ہم کسی صحابی کو جانتے ہيں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لہذایہ بدعت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).
#ذبیحہ_کے_خون کے ساتھ اپنے #ماتھے_کو_خون_آلود_کرنا؟
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة > العقائد > الإيمان > الجماعة والفرقة والفرق > البدع والمحدثات > س4: ما معنى لطخ الجباه بدم الأضحية؛ لأني رأيت بعض المسلمين فاعلين ذلك، فسألتهم معناه فقال لي رجل من علماء البلد: كذلك فعل أصحاب سيدنا إبراهيم عليه السلام حيث ذبح أضحيته فطلبت منه كتاب… فتوی رقم 6667۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/zabiha_khoon_matha_rangna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: قربانی کے ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کا کیا معنی ہے؟ کیونکہ میں نے بعض مسلمانوں کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے، تو میں نے ان سے دریافت کیا جس پر انہوں نے بتایا کہ ان کے ملک کے کسی عالم نے یہ کہا ہے کہ: اسی طرح سے سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے صحابہ نے کیا تھا جب انہوں نے اپنا ذبیحہ ذبح فرمایا تھا، تو میں نے ان سے وہ کتاب طلب کی جس میں یہ تاریخ لکھی ہو لیکن مجھے نہ ملی، اور میں ایک طالبعلم ہوں میرے پاس بہت زیادہ کتابیں نہیں تو میں نے یہ مناسب سمجھا کہ آپ سے اس عمل کا معنی ومراد پوچھ لوں؟
جواب: ذبیحہ کے خون سے اپنی پیشانی کو خون آلود کرنے کے عمل کی ہمیں کوئی اصل وبنیاد نہيں معلوم، نہ کتاب سےنہ ہی سنت سے، اور نہ ہی ہم کسی صحابی کو جانتے ہيں کہ انہوں نے ایسا کیا ہو۔ لہذایہ بدعت ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدّ‘‘([1])
(جس کسی نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں تو وہ مردود(ناقابل قبول) ہے)۔
اور ایک روایت میں ہے کہ:
’’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ‘‘([2])
(جس کسی نے ہمارے اس امر (دین) میں کوئی نئی بات ایجاد کی جو اس میں سےنہیں، تو وہ مردود ہے)۔
وبالله التوفيق وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب رئيس اللجنة الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
[1]البخاري الصلح (2550) ، مسلم الأقضية (1718) ، أبو داود السنة (4606) ، ابن ماجه المقدمة (14) ، أحمد (6/256).
[2] البخاري الصلح (2550)، مسلم الأقضية (1718)، أبو داود السنة (4606)، ابن ماجه المقدمة (14)، أحمد (6/270).