[#SalafiUrduDawah Article] How to attain the pure #Tawheed? - Shaykh #Abdul_Azeez_Aal_Shaykh
#توحید ِخالص کو کس طرح پایا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كيفية تحقيق التوحيد الخالص۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/tawheedekhaalis_ka_husool.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:ایک مسلمان کس طرح سے توحید خالص کو پاسکتا ہے جو کہ قبروں کی عبادت اور قبروں (مزاروں) کی زیارت وغیرہ سے پاک ہو ؟
جواب: علماء کرام فرماتے ہیں : توحید کو شرک کے تمام شائبوں ، بدعات ومعاصی سے پاک کرکے ہی کماحقہ پایا جاسکتا ہے، کیونکہ بلاشبہ شرک اس کے سراسر منافی ہے، اور بدعات اس میں قدح کا سبب ہیں، اور معاصی اس کے ثواب میں کمی کا باعث ہيں۔ پس توحید کو اس طور پر پایا جاسکتا ہے کہ ہم اکیلے اللہ کی بلاشرکت عبادت کریں، اس کی عبادت میں کسی غیر کو شریک نہ کریں، نہ ذبح میں، نہ نذر ومنت میں، نہ دعاء میں، نہ رجاء وامید میں، نہ خوف میں، نہ رہبت وڈر میں، نہ رغبت میں، پس ہماری دعاء اکیلے اللہ کے لیے ہو، ہماری نذر ومنت اکیلے اللہ کے لیے ہو، فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
(کہو کہ بے شک میری نماز اورمیری قربانی اور میرا جینا اورمیرا مرنا ، اللہ رب العالمین کےلیے ہے)
اور فرمایا:
﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)
(اور بے شک مساجد تو اللہ تعالی ہی کے لیے ہيں، پس تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو)
اور فرمایا:
﴿وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ ۭ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ﴾ (یونس: 107)
(اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا اپنے دل کو صرف اپنے رب سے جوڑتا ہے، محبت، خوف وامید کے ساتھ، اور توحیدکا حق ادا کرنے والا جانتا ہے مشکل کشائی اور بھلائی کا حصول صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اور غیراللہ سے دعاء کرنا اسے پکارنا اس پکارنے والے کو کوئی نفع نہیں دیتا نہ فائدہ پہنچاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ﴾ (الاحقاف: 5)
(اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعاء قبول نہیں کرسکتے، اور وہ تو ان کے پکارنے سے ہی بےخبر ہیں)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا انبیاء واولیاء سے نہیں مانگتا انہيں پکار کر یا مدد طلب کرکے، یا ان سے فریاد کرکے یا ان سے مشکل کشائی اور قرض کی ادائیگی کروادینے کی امید رکھ کر۔ بلکہ وہ تو صرف اور صرف اپنے رب، تمام کائنات کے مالک وبادشاہ، جو ہمیشہ زندہ ہے جسے موت نہيں کو پکارتا ہے، کیونکہ وہ علم رکھتا ہے کہ ان فوت شدگان کے جسم سے ان کی روحیں جدا ہوچکی ہیں، پس یہ مردہ ہیں زندہ نہيں، جو ان کو پکارتا ہے وہ اس کی پکار کو نہيں سنتے اور اگر سن بھی لیں تو قبول نہيں کرسکتے[1]، وہ اس میں سے کسی چیز کی قدرت نہيں رکھتے، بلکہ وہ تو صرف مردے ہيں، پس ان سے دعاء کرنا اور التجاء کرنا پرلے درجے کی جہالت وبیوقوفی ہے، اور ہم اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال کرتے ہیں)[2](۔
[1] جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ڮ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ، اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ﴾ (فاطر: 13-14)
#توحید ِخالص کو کس طرح پایا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كيفية تحقيق التوحيد الخالص۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/tawheedekhaalis_ka_husool.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:ایک مسلمان کس طرح سے توحید خالص کو پاسکتا ہے جو کہ قبروں کی عبادت اور قبروں (مزاروں) کی زیارت وغیرہ سے پاک ہو ؟
جواب: علماء کرام فرماتے ہیں : توحید کو شرک کے تمام شائبوں ، بدعات ومعاصی سے پاک کرکے ہی کماحقہ پایا جاسکتا ہے، کیونکہ بلاشبہ شرک اس کے سراسر منافی ہے، اور بدعات اس میں قدح کا سبب ہیں، اور معاصی اس کے ثواب میں کمی کا باعث ہيں۔ پس توحید کو اس طور پر پایا جاسکتا ہے کہ ہم اکیلے اللہ کی بلاشرکت عبادت کریں، اس کی عبادت میں کسی غیر کو شریک نہ کریں، نہ ذبح میں، نہ نذر ومنت میں، نہ دعاء میں، نہ رجاء وامید میں، نہ خوف میں، نہ رہبت وڈر میں، نہ رغبت میں، پس ہماری دعاء اکیلے اللہ کے لیے ہو، ہماری نذر ومنت اکیلے اللہ کے لیے ہو، فرمان باری تعالی ہے:
﴿قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ﴾ (الانعام: 162)
(کہو کہ بے شک میری نماز اورمیری قربانی اور میرا جینا اورمیرا مرنا ، اللہ رب العالمین کےلیے ہے)
اور فرمایا:
﴿وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا﴾ (الجن: 18)
(اور بے شک مساجد تو اللہ تعالی ہی کے لیے ہيں، پس تم اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو نہ پکارو)
اور فرمایا:
﴿وَاِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗٓ اِلَّا ھُوَ ۚ وَاِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَاۗدَّ لِفَضْلِهٖ ۭ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ ۭ وَھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ﴾ (یونس: 107)
(اور اگر اللہ تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا اسے کوئی دور کرنے والا نہیں، اور اگر وہ تیرے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کرلے تو کوئی اس کے فضل کو ہٹانے والا نہیں، وہ اسے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے پہنچا دیتا ہے اور وہی بےحد بخشنے والا، نہایت رحم کرنے والا ہے)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا اپنے دل کو صرف اپنے رب سے جوڑتا ہے، محبت، خوف وامید کے ساتھ، اور توحیدکا حق ادا کرنے والا جانتا ہے مشکل کشائی اور بھلائی کا حصول صرف اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے۔ اور غیراللہ سے دعاء کرنا اسے پکارنا اس پکارنے والے کو کوئی نفع نہیں دیتا نہ فائدہ پہنچاتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ﴾ (الاحقاف: 5)
(اور اس سے بڑھ کر کون گمراہ ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا انہیں پکارتا ہے جو قیامت کے دن تک اس کی دعاء قبول نہیں کرسکتے، اور وہ تو ان کے پکارنے سے ہی بےخبر ہیں)
پس توحید کا حق ادا کرنے والا انبیاء واولیاء سے نہیں مانگتا انہيں پکار کر یا مدد طلب کرکے، یا ان سے فریاد کرکے یا ان سے مشکل کشائی اور قرض کی ادائیگی کروادینے کی امید رکھ کر۔ بلکہ وہ تو صرف اور صرف اپنے رب، تمام کائنات کے مالک وبادشاہ، جو ہمیشہ زندہ ہے جسے موت نہيں کو پکارتا ہے، کیونکہ وہ علم رکھتا ہے کہ ان فوت شدگان کے جسم سے ان کی روحیں جدا ہوچکی ہیں، پس یہ مردہ ہیں زندہ نہيں، جو ان کو پکارتا ہے وہ اس کی پکار کو نہيں سنتے اور اگر سن بھی لیں تو قبول نہيں کرسکتے[1]، وہ اس میں سے کسی چیز کی قدرت نہيں رکھتے، بلکہ وہ تو صرف مردے ہيں، پس ان سے دعاء کرنا اور التجاء کرنا پرلے درجے کی جہالت وبیوقوفی ہے، اور ہم اللہ تعالی ہی سے عافیت کا سوال کرتے ہیں)[2](۔
[1] جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
﴿يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ ۙ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ڮ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى ۭ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ ۭ وَالَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍ، اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَاۗءَكُمْ ۚ وَلَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ ۭ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ ۭ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍ ﴾ (فاطر: 13-14)
(وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے اور اس نے سورج اور چاند کو مسخر کر دیا ہے، ہر کوئی ایک مقرر وقت تک چل رہا ہے۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اور جن کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے ایک چھلکے تک کے مالک نہیں، اگر تم انہیں پکارو تو وہ تمہاری پکار نہیں سنیں گے، اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری درخواست قبول نہیں کرسکیں گے، اور قیامت کے دن تمہارے اس شرک کا انکار کر دیں گے، اور تمہیں ایک پوری خبر رکھنے والے (اللہ) کی طرح کوئی خبر نہیں دے گا) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اس کے علاوہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر بھی عقیدۂ اہل سنت والجماعت کے موافق ایمان لانا، توحید کے حقوق میں سے ہے، تفصیل کے لیے ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں کتابچہ ”توحید اسماء وصفات“۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] اس کے علاوہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر بھی عقیدۂ اہل سنت والجماعت کے موافق ایمان لانا، توحید کے حقوق میں سے ہے، تفصیل کے لیے ہماری ویب سائٹ پر پڑھیں کتابچہ ”توحید اسماء وصفات“۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Repetition of #repentance – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#توبہ کی تکرار
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تكرار التوبة۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/tawbah_ki_takraar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:سائل کہتا ہے کہ وہ مسلسل کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، لیکن اس کے بعد وضوء کرکےدو رکعت پڑھتا ہے اور اس سے توبہ استغفار کرتا ہے، لیکن پھر اس گناہ میں دوبارہ سے مبتلا ہوجاتا ہے، اور پھر وضوء کرکے دو رکعت پڑھتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟
جواب: اس کا حل وہی ہے جس حال میں یہ ابھی ہے یعنی توبہ کرتا رہے اور اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس وناامید ہرگز نہ ہو، بار بار توبہ کرتا رہے جب کبھی گناہ دوبارہ کرے تو دوبارہ توبہ کرتا رہے۔ دراصل یہ توبہ خیر کی علامت ہے کہ وہ مکرر توبہ کرتا رہے اور اللہ تعالی سے ڈرتا ہے۔
سائل: وہ سائل کہتا ہے کہ کیا یہ استہزاء کے باب میں شمار ہوگا؟
جواب: نہیں، یہ استہزاء کے باب میں سے نہيں، یہ تو خوف الہی کے باب میں سے ہے۔ اس کا بار بار توبہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے، اور اس کے دل میں ابھی زندگی باقی ہے۔
#توبہ کی تکرار
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: تكرار التوبة۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/tawbah_ki_takraar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:سائل کہتا ہے کہ وہ مسلسل کبیرہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، لیکن اس کے بعد وضوء کرکےدو رکعت پڑھتا ہے اور اس سے توبہ استغفار کرتا ہے، لیکن پھر اس گناہ میں دوبارہ سے مبتلا ہوجاتا ہے، اور پھر وضوء کرکے دو رکعت پڑھتا ہے اور توبہ استغفار کرتا ہے، آخر اس کا حل کیا ہے؟
جواب: اس کا حل وہی ہے جس حال میں یہ ابھی ہے یعنی توبہ کرتا رہے اور اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس وناامید ہرگز نہ ہو، بار بار توبہ کرتا رہے جب کبھی گناہ دوبارہ کرے تو دوبارہ توبہ کرتا رہے۔ دراصل یہ توبہ خیر کی علامت ہے کہ وہ مکرر توبہ کرتا رہے اور اللہ تعالی سے ڈرتا ہے۔
سائل: وہ سائل کہتا ہے کہ کیا یہ استہزاء کے باب میں شمار ہوگا؟
جواب: نہیں، یہ استہزاء کے باب میں سے نہيں، یہ تو خوف الہی کے باب میں سے ہے۔ اس کا بار بار توبہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے، اور اس کے دل میں ابھی زندگی باقی ہے۔
[#SalafiUrduDawah Article] Advice to #fathers - Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#والدوں کے لیے نصیحت
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیح کی آفیشل ویب سائٹ سے مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء السابع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/12/walid_k_liye_naseehat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض والد اپنی اولاد کی دینی امور کے حوالے سے تربیت کا کوئی اہتمام نہيں کرتے مثلاًانہیں نماز کا حکم نہيں دیتے، نہ تلاوت قرآن کا اور نہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کا۔ حالانکہ ہم انہیں پاتے ہیں کہ اسکول پابندی سے جانے پر سختی کرتے ہیں اور اپنے بیٹے پر غصہ ہوتے ہیں اگر وہ اسکول نہ جائے، فضیلۃ الشیخ آپ کی اس بارے میں کیا نصیحت ہے؟
جواب:میری تمام والدوں، چچاؤں اور بھائیوں کو نصیحت ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں جیسے اولاد کے تعلق سے اللہ تعالی سے ڈریں اور انہیں نماز کا حکم دیں جب وہ سات برس کے ہوجائیں اور انہیں نہ پڑھنے پر ماریں اگر وہ دس برس کے ہوجائيں۔ جیساکہ اس بارے میں صحیح حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ فرمایا:
’’مروا أبنائكم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم في المضاجع‘‘([1])
(اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو جب وہ دس برس کے ہوں، اور ان کے بستر الگ الگ کردو)۔
لہذا باپوں ، ماؤں اور بڑے بھائیوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو نماز وغیرہ کا حکم دینے کے تعلق سے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ اور انہیں ان باتوں سے منع کریں جواللہ تعالی نے حرام کی ہیں،اور ان پر وہ باتیں لازم قرار دیں جو اللہ تعالی نے واجب قرار دی ہیں۔ ایسا کرنا ان پر واجب ہے اور ان کے ماتحت جو بھی ہیں وہ ان کے پاس امانت ہیں۔ فرمان الہی ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا﴾ (التحریم: 6)
(مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ)
اور فرمایا:
﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾ (طہ: 132)
(اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر خوب پابند رہو)
اسی طرح سے اپنے نبی ورسول سیدنا اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں فرمایا:
﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا، وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ ۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا﴾ (مریم: 54-55)
(اور اس کتاب میں اسماعیل کا ذکر بھی کریں، یقیناً وہ وعدے کے سچے تھے اور ایسے نبی تھے جو رسول بھی تھے، اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے اور وہ ان سے راضی تھا)
[1] صحیح ابی داود 495 کے الفاظ ہیں: ’’مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#والدوں کے لیے نصیحت
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیح کی آفیشل ویب سائٹ سے مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء السابع۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/12/walid_k_liye_naseehat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: بعض والد اپنی اولاد کی دینی امور کے حوالے سے تربیت کا کوئی اہتمام نہيں کرتے مثلاًانہیں نماز کا حکم نہيں دیتے، نہ تلاوت قرآن کا اور نہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرنے کا۔ حالانکہ ہم انہیں پاتے ہیں کہ اسکول پابندی سے جانے پر سختی کرتے ہیں اور اپنے بیٹے پر غصہ ہوتے ہیں اگر وہ اسکول نہ جائے، فضیلۃ الشیخ آپ کی اس بارے میں کیا نصیحت ہے؟
جواب:میری تمام والدوں، چچاؤں اور بھائیوں کو نصیحت ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں جیسے اولاد کے تعلق سے اللہ تعالی سے ڈریں اور انہیں نماز کا حکم دیں جب وہ سات برس کے ہوجائیں اور انہیں نہ پڑھنے پر ماریں اگر وہ دس برس کے ہوجائيں۔ جیساکہ اس بارے میں صحیح حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ فرمایا:
’’مروا أبنائكم بالصلاة لسبع واضربوهم عليها لعشر وفرقوا بينهم في المضاجع‘‘([1])
(اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوں اور انہیں نماز نہ پڑھنے پر مارو جب وہ دس برس کے ہوں، اور ان کے بستر الگ الگ کردو)۔
لہذا باپوں ، ماؤں اور بڑے بھائیوں پر واجب ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو نماز وغیرہ کا حکم دینے کے تعلق سے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ اور انہیں ان باتوں سے منع کریں جواللہ تعالی نے حرام کی ہیں،اور ان پر وہ باتیں لازم قرار دیں جو اللہ تعالی نے واجب قرار دی ہیں۔ ایسا کرنا ان پر واجب ہے اور ان کے ماتحت جو بھی ہیں وہ ان کے پاس امانت ہیں۔ فرمان الہی ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا﴾ (التحریم: 6)
(مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ)
اور فرمایا:
﴿وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا﴾ (طہ: 132)
(اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور اس پر خوب پابند رہو)
اسی طرح سے اپنے نبی ورسول سیدنا اسماعیل علیہ الصلاۃ والسلام کے بارے میں فرمایا:
﴿وَاذْكُرْ فِي الْكِتٰبِ اِسْمٰعِيْلَ ۡ اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُوْلًا نَّبِيًّا، وَكَانَ يَاْمُرُ اَهْلَهٗ بِالصَّلٰوةِ وَالزَّكٰوةِ ۠ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهٖ مَرْضِيًّا﴾ (مریم: 54-55)
(اور اس کتاب میں اسماعیل کا ذکر بھی کریں، یقیناً وہ وعدے کے سچے تھے اور ایسے نبی تھے جو رسول بھی تھے، اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتے تھے اور وہ اپنے رب کے ہاں پسندیدہ تھے اور وہ ان سے راضی تھا)
[1] صحیح ابی داود 495 کے الفاظ ہیں: ’’مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ‘‘ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] How to Deal with ill-treating #father? - Shaykh Ubaid bin Abdullaah #Al_Jabiree
بدخلق #باپ سے کیسے معاملہ کیا جائے؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/badkhulq_baap_say_muamla.pdf
﷽
اس سائلہ بہن کا سوال طویل ہے مگرخلاصہ یہ ہے کہ:
ان کی والدہ فوت ہوچکی ہیں۔ یہ اور ان کی دیگر بہنیں اپنے باپ اور اس کی بیوی کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے والد کے عادات واطوار عجیب وغریب ہیں اور وہ ان پر باکثرت بددعاء بھی کرتا رہتا ہے۔ دعاء کرتا ہے کہ ان کی کبھی شادیاں ہی نہ ہوں۔ اور ان کی جانب سے کی گئی حسن سلوکی تک کو قبول نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری زندگی اجیرن ہوگئی ہے پس ایسے والد کا کیا حل ہے؟ کیونکہ وہ ان کی جانب سے حسن سلوکی تک کرنے سے منع کردیتا ہے اور کوئی تحفہ تک ان سے قبول نہیں کرتا۔
جواب: اگر آپ اس بات کی استطاعت رکھتی ہیں کہ انہيں خفیہ طور پر نرمی سے نصیحت کریں جو صرف آپ کے اور ان کے درمیان ہو ان دلائل کے ساتھ جو آپ کو یاد ہوں اور ظلم سے ڈرائیں تو ایسا کرگزریں۔ اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتیں تو آپ اس کی مکلف نہیں ہیں۔ پھر اپنی بہنوں کی طرف بھی ذرا نظر کریں کیا ان کا رویہ تو والد کے ظلم کی وجہ نہیں بن رہا اگر ایسا ہے تو ان سب کو اللہ تعالی کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور والد کو بھی ان کی توبہ قبول کرلینی چاہیے۔
لیکن اگر وہ محض ظلم وعدوان کے طور پر ایسا کرتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے رب کے مابین ہے۔ جسے مظلوم کی بددعاء اور آہ لگ سکتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ‘‘([1])
(مظلوم کی بددعاء سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا)۔
یہ حکم عام ہےکہ:”مظلوم کی بددعاء سے بچو“۔ چاہے والد ہو یا اولاد۔ کیونکہ والد تک کہ لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد پر ظلم کرے۔ ظلم حرام ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:
’’يَا عِبَادِي: إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا‘‘([2])
(اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام کردیاہے اور تمہارے مابین بھی اسے حرام قرار دیا ہے پس آپس میں ظلم نہ کرو)۔
اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
’’اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([3])
(ظلم سے بچو کیونکہ ظلم بروز قیامت اندھیریوں کا باعث ہوگا)۔
[1] صحیح بخاری 1496۔
[2] صحیح مسلم 2580۔
[3] صحیح مسلم 2581۔
بدخلق #باپ سے کیسے معاملہ کیا جائے؟
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ #الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/05/badkhulq_baap_say_muamla.pdf
﷽
اس سائلہ بہن کا سوال طویل ہے مگرخلاصہ یہ ہے کہ:
ان کی والدہ فوت ہوچکی ہیں۔ یہ اور ان کی دیگر بہنیں اپنے باپ اور اس کی بیوی کے ساتھ ایک گھر میں رہتے ہیں۔ ان کے والد کے عادات واطوار عجیب وغریب ہیں اور وہ ان پر باکثرت بددعاء بھی کرتا رہتا ہے۔ دعاء کرتا ہے کہ ان کی کبھی شادیاں ہی نہ ہوں۔ اور ان کی جانب سے کی گئی حسن سلوکی تک کو قبول نہیں کرتا۔ وہ کہتی ہیں کہ ہماری زندگی اجیرن ہوگئی ہے پس ایسے والد کا کیا حل ہے؟ کیونکہ وہ ان کی جانب سے حسن سلوکی تک کرنے سے منع کردیتا ہے اور کوئی تحفہ تک ان سے قبول نہیں کرتا۔
جواب: اگر آپ اس بات کی استطاعت رکھتی ہیں کہ انہيں خفیہ طور پر نرمی سے نصیحت کریں جو صرف آپ کے اور ان کے درمیان ہو ان دلائل کے ساتھ جو آپ کو یاد ہوں اور ظلم سے ڈرائیں تو ایسا کرگزریں۔ اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتیں تو آپ اس کی مکلف نہیں ہیں۔ پھر اپنی بہنوں کی طرف بھی ذرا نظر کریں کیا ان کا رویہ تو والد کے ظلم کی وجہ نہیں بن رہا اگر ایسا ہے تو ان سب کو اللہ تعالی کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور والد کو بھی ان کی توبہ قبول کرلینی چاہیے۔
لیکن اگر وہ محض ظلم وعدوان کے طور پر ایسا کرتا ہے تو وہ اس کے اور اس کے رب کے مابین ہے۔ جسے مظلوم کی بددعاء اور آہ لگ سکتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهُ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ‘‘([1])
(مظلوم کی بددعاء سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہوتا)۔
یہ حکم عام ہےکہ:”مظلوم کی بددعاء سے بچو“۔ چاہے والد ہو یا اولاد۔ کیونکہ والد تک کہ لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنی اولاد پر ظلم کرے۔ ظلم حرام ہے جیسا کہ حدیث قدسی میں ہے:
’’يَا عِبَادِي: إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا‘‘([2])
(اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے نفس پر حرام کردیاہے اور تمہارے مابین بھی اسے حرام قرار دیا ہے پس آپس میں ظلم نہ کرو)۔
اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے:
’’اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘([3])
(ظلم سے بچو کیونکہ ظلم بروز قیامت اندھیریوں کا باعث ہوگا)۔
[1] صحیح بخاری 1496۔
[2] صحیح مسلم 2580۔
[3] صحیح مسلم 2581۔
#SalafiUrduDawah
اپنی #بدعت چھپانے والا اپنی صحبت نہيں چھپا سکتا - شیخ #ربیع #المدخلی
apni #bidat chupanay wala apni suhbat nahi chupa sakta - shaykh #rabee #al_madkhalee
اپنی #بدعت چھپانے والا اپنی صحبت نہيں چھپا سکتا - شیخ #ربیع #المدخلی
apni #bidat chupanay wala apni suhbat nahi chupa sakta - shaykh #rabee #al_madkhalee
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of Saheeh #Bukharee – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 1: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: "أَمَّا بَعْدُ، فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ، فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ".
حدیث 2: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: "ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ".
حدیث 3: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفًا ، أَنَّ أَبَا الْمِنْهَالِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَرْزَةَ ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يُغْنِيكُمْ أَوْ نَغَشَكُمْ بِالْإِسْلَامِ وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَعَ هَاهُنَا يُغْنِيكُمْ، وَإِنَّمَا هُوَ نَعَشَكُمْ، يُنْظَرُ فِي أَصْلِ كِتَابِ الِاعْتِصَامِ.
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_01.mp3
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 1: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: "أَمَّا بَعْدُ، فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ، فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ".
حدیث 2: حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: "ضَمَّنِي إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلِّمْهُ الْكِتَابَ".
حدیث 3: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَبَّاحٍ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَوْفًا ، أَنَّ أَبَا الْمِنْهَالِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَرْزَةَ ، قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ يُغْنِيكُمْ أَوْ نَغَشَكُمْ بِالْإِسْلَامِ وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَعَ هَاهُنَا يُغْنِيكُمْ، وَإِنَّمَا هُوَ نَعَشَكُمْ، يُنْظَرُ فِي أَصْلِ كِتَابِ الِاعْتِصَامِ.
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_01.mp3
#SalafiUrduDawah
#ہندوانہ تہوار #دیوالی یا #دیپاولی میں شرکت
#hindu tehwar #dewali #deepawali may shirkat
#ہندوانہ تہوار #دیوالی یا #دیپاولی میں شرکت
#hindu tehwar #dewali #deepawali may shirkat
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of #Saheeh_Bukharee - Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 4: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُبَايِعُهُ: وَأُقِرُّ لَكَ بِذَلِكَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ فِيمَا اسْتَطَعْتُ".
بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث 5: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ".
حدیث 6: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى ؟، قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى".
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_02.mp3
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری - شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من صحيح #البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
حدیث 4: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَتَبَ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ يُبَايِعُهُ: وَأُقِرُّ لَكَ بِذَلِكَ بِالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ عَلَى سُنَّةِ اللَّهِ وَسُنَّةِ رَسُولِهِ فِيمَا اسْتَطَعْتُ".
بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
حدیث 5: حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ".
حدیث 6: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كُلُّ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ أَبَى، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَنْ يَأْبَى ؟، قَالَ: مَنْ أَطَاعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ عَصَانِي فَقَدْ أَبَى".
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_02.mp3
[#SalafiUrduDawah Article] A #fabricated_Dua be recited at the beginning of the month of #Safar - #Fatwaa_committee, Saudi Arabia
ماہ ِ#صفر شروع ہونے پر ایک #من_گھڑت_دعاء
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة رقم 20316 تاريخ 21/3/1419ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/safar_man_gharat_dua.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:میں سوال کے ساتھ ایک لکھی ہوئی دعاء بھی بھیج رہا ہوں جو بعض غیرملکی ہمارے یہاں ماہ صفر میں تقسیم کرتے ہیں، جس میں سے کچھ الفاظ یہ ہیں:
” اللهم بسر الحسن و أخيه، و جده و أبيه، اكفنا شر هذا اليوم و ما ينزل فيه، يا كافي، {فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم} و حسبنا الله و نعم الوكيل، و لا حول و لا قوة الا بالله العلي العلي العظيم، اللهم إنا نسألك بأسمائك الحسنى وبكلماتك التامات وبحرمة نبيك سيدنا محمد صلي الله عليه وسلم أن تحفظنا وأن تعافينا من بلائك، يادافع البلايا، يامفرج الهم و ياكاشف الغم، اكشف عنا ما كتب علينا في هذه السنة من هم أو غم إنك على كل شيء قدير... “
پس میں آپ سماحۃ الشیخ سے امید کرتا ہوں کہ اس پر نظر فرمائيں گے؟
جواب:اس پوچھے گئے سوال کو پڑھنے کے بعد فتویٰ کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ بلاشبہ یہ دعاء گھڑی ہوئی بدعت ہے کہ اسے اس معین وقت میں مخصوص کیا جائے، اور اس میں حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جاہ کا وسیلہ ہے، ساتھ ہی اللہ تعالی کو ایسے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ سنت سے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں جائز نہیں کہ اسے کسی نام سے موسوم کیا جائے سوائے ان ناموں کے جو اس نے خود اپنے لیے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ذکر فرمائے ہيں۔ اور دعاء میں شخصیات یا ان کی جاہ ومرتبے کے ذریعے وسیلہ پکڑنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔
لہذا واجب ہے کہ اس کو تقسیم کرنے سے روکا جائے اور اس میں سے جو ملے اسے تلف کردیا جائے۔ اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ گمراہ شیعوں کی دسیسہ کاریوں میں سے ہے۔ وباللہ التوفیق۔
وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم...
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
عبداللہ الغدیان بکر ابو زید صالح الفوزان عبدالعزیز آل الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
ماہ ِ#صفر شروع ہونے پر ایک #من_گھڑت_دعاء
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة رقم 20316 تاريخ 21/3/1419ھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/safar_man_gharat_dua.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال:میں سوال کے ساتھ ایک لکھی ہوئی دعاء بھی بھیج رہا ہوں جو بعض غیرملکی ہمارے یہاں ماہ صفر میں تقسیم کرتے ہیں، جس میں سے کچھ الفاظ یہ ہیں:
” اللهم بسر الحسن و أخيه، و جده و أبيه، اكفنا شر هذا اليوم و ما ينزل فيه، يا كافي، {فسيكفيكهم الله و هو السميع العليم} و حسبنا الله و نعم الوكيل، و لا حول و لا قوة الا بالله العلي العلي العظيم، اللهم إنا نسألك بأسمائك الحسنى وبكلماتك التامات وبحرمة نبيك سيدنا محمد صلي الله عليه وسلم أن تحفظنا وأن تعافينا من بلائك، يادافع البلايا، يامفرج الهم و ياكاشف الغم، اكشف عنا ما كتب علينا في هذه السنة من هم أو غم إنك على كل شيء قدير... “
پس میں آپ سماحۃ الشیخ سے امید کرتا ہوں کہ اس پر نظر فرمائيں گے؟
جواب:اس پوچھے گئے سوال کو پڑھنے کے بعد فتویٰ کمیٹی یہ جواب دیتی ہے کہ بلاشبہ یہ دعاء گھڑی ہوئی بدعت ہے کہ اسے اس معین وقت میں مخصوص کیا جائے، اور اس میں حسن وحسین رضی اللہ عنہما اور حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی جاہ کا وسیلہ ہے، ساتھ ہی اللہ تعالی کو ایسے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے جو نہ قرآن سے ثابت ہیں نہ سنت سے، حالانکہ اللہ سبحانہ وتعالی کے بارے میں جائز نہیں کہ اسے کسی نام سے موسوم کیا جائے سوائے ان ناموں کے جو اس نے خود اپنے لیے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی ذکر فرمائے ہيں۔ اور دعاء میں شخصیات یا ان کی جاہ ومرتبے کے ذریعے وسیلہ پکڑنا بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے اور شرک کی طرف لے جانے کا ایک ذریعہ ہے۔
لہذا واجب ہے کہ اس کو تقسیم کرنے سے روکا جائے اور اس میں سے جو ملے اسے تلف کردیا جائے۔ اور ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یہ گمراہ شیعوں کی دسیسہ کاریوں میں سے ہے۔ وباللہ التوفیق۔
وصلي الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم...
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
رکن رکن رکن نائب صدر صدر
عبداللہ الغدیان بکر ابو زید صالح الفوزان عبدالعزیز آل الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
[#SalafiUrduDawah Article] #Burning_a_Living_being is Unlawful and #ISIS has no Religion – Shaykh #Abdul_Azeez_Aal-Shaykh
#آگ_سے_جاندار_کو_جلانا حرام ہے اور #داعش کا کوئی دین نہیں
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جريدة الشرق الأوسط الأربعاء – 14 شهر ربيع الثاني 1436 هـ – 04 فبراير 2015 مـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/aag_jalana_haram_isis_ladeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ (مفتی اعظم، سعودی عرب) نے اخبار ’’الشرق الأوسط‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
جس گروہ نے اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو زندہ جلادیا ان کا نہ کوئی دین ہے، نہ ہی اخلاق ہے۔ ساتھ ہی مفتی حفظہ اللہ نے تاکیدا ً فرمایا کہ زندہ شخص کو جلا ڈالنا یہاں تک کہ وہ مر جائے حرام ہے۔
شیخ آل شیخ حفظہ اللہ نے ٹیلیفونک رابطے پر مزید فرمایا کہ یہ تنظیم داعش دراصل خوارج ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں، جبکہ ان کا یہ دعوی باطل ہے۔ اور یہ (دولت اسلامیہ نہیں بلکہ) دولت ِکفروظلم کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ اسلام کے کھلے دشمن ہیں۔
اور مفتی اعظم سعودی عرب نے اس جانب بھی اشارہ فرمایا کہ اردنی پائلٹ قیدی معاذ الکساسبہ کو زندہ آگ میں جلادینے کا عمل حرام تھا کیونکہ آگ سے جلانے کا حق صرف اس کے رب (یعنی اللہ تعالی) کو ہے([1])۔
ساتھ ہی شیخ آل الشیخ حفظہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ کسی انسان کو جیتے جی آگ میں جلا کر قتل کرنے کا جرم نہایت المناک اور اندوہناک ہے۔ اور اس گروہ کا نہ کوئی دین ہے نہ اخلاق، وہ محض ایک فسادی اور مجرم گروہ ہے۔
[1] سیدنا حمزة بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، وَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَأَحْرِقُوهُ بِالنَّارِ، فَوَلَّيْتُ فَنَادَانِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَاقْتُلُوهُ وَلَا تُحْرِقُوهُ، فَإِنَّهُ لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ‘‘ (صحیح ابی داود 2673) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ پر امیر مقرر فرمایا۔ تو میں جب اس کے لیے نکلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو اسے آگ سے جلادینا۔ پس میں مڑ کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ سے پکارا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو بس قتل ہی کردینا کیونکہ بے شک آگ کے ساتھ عذاب نہیں دیتا مگر صرف آگ کا رب (یعنی اللہ تعالی))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
#آگ_سے_جاندار_کو_جلانا حرام ہے اور #داعش کا کوئی دین نہیں
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: جريدة الشرق الأوسط الأربعاء – 14 شهر ربيع الثاني 1436 هـ – 04 فبراير 2015 مـ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/aag_jalana_haram_isis_ladeen.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ عبدالعزیز آل الشیخ حفظہ اللہ (مفتی اعظم، سعودی عرب) نے اخبار ’’الشرق الأوسط‘‘سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا:
جس گروہ نے اردنی پائلٹ معاذ الکساسبہ کو زندہ جلادیا ان کا نہ کوئی دین ہے، نہ ہی اخلاق ہے۔ ساتھ ہی مفتی حفظہ اللہ نے تاکیدا ً فرمایا کہ زندہ شخص کو جلا ڈالنا یہاں تک کہ وہ مر جائے حرام ہے۔
شیخ آل شیخ حفظہ اللہ نے ٹیلیفونک رابطے پر مزید فرمایا کہ یہ تنظیم داعش دراصل خوارج ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں، جبکہ ان کا یہ دعوی باطل ہے۔ اور یہ (دولت اسلامیہ نہیں بلکہ) دولت ِکفروظلم کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ اسلام کے کھلے دشمن ہیں۔
اور مفتی اعظم سعودی عرب نے اس جانب بھی اشارہ فرمایا کہ اردنی پائلٹ قیدی معاذ الکساسبہ کو زندہ آگ میں جلادینے کا عمل حرام تھا کیونکہ آگ سے جلانے کا حق صرف اس کے رب (یعنی اللہ تعالی) کو ہے([1])۔
ساتھ ہی شیخ آل الشیخ حفظہ اللہ نے ذکر فرمایا کہ کسی انسان کو جیتے جی آگ میں جلا کر قتل کرنے کا جرم نہایت المناک اور اندوہناک ہے۔ اور اس گروہ کا نہ کوئی دین ہے نہ اخلاق، وہ محض ایک فسادی اور مجرم گروہ ہے۔
[1] سیدنا حمزة بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ’’أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم أَمَّرَهُ عَلَى سَرِيَّةٍ قَالَ: فَخَرَجْتُ فِيهَا، وَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَأَحْرِقُوهُ بِالنَّارِ، فَوَلَّيْتُ فَنَادَانِي فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ: إِنْ وَجَدْتُمْ فُلَانًا فَاقْتُلُوهُ وَلَا تُحْرِقُوهُ، فَإِنَّهُ لَا يُعَذِّبُ بِالنَّارِ إِلَّا رَبُّ النَّارِ‘‘ (صحیح ابی داود 2673) (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک سریہ پر امیر مقرر فرمایا۔ تو میں جب اس کے لیے نکلنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو اسے آگ سے جلادینا۔ پس میں مڑ کر جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دوبارہ سے پکارا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹ آیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم فلاں کو پالو تو بس قتل ہی کردینا کیونکہ بے شک آگ کے ساتھ عذاب نہیں دیتا مگر صرف آگ کا رب (یعنی اللہ تعالی))۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[#SalafiUrduDawah Article] Thinking the Month of #Safar as #Unlucky and its Innovations – #Fatwaa_Committee, Saudi Arabia
#صفر کے مہینے کو #منحوس سمجھنا اور اس مہینے میں ہونے والی بعض بدعات
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/mah_e_safar_manhoos_bidaat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :
مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([1])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد یاحقیقت) نہیں پاتے۔
اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([2])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:
’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘
(اور نہ ہی نچھتر([3]) ہے اور نہ ہی بھوت([4]))۔
کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر وبھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔
صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیریا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شروبرائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا: امام مسلم "نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([5])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لئے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔
[2] حدیث گزر چکی ہے۔
[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] حدیث گزر چکی ہے۔
#صفر کے مہینے کو #منحوس سمجھنا اور اس مہینے میں ہونے والی بعض بدعات
#فتوی_کمیٹی، سعودی عرب
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ سحاب السلفیہ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/11/mah_e_safar_manhoos_bidaat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده ، أما بعد :
مہینوں، دنوں یا پرندوں وغیرہ سے بدشگونی لینا جائز نہیں؛ کیونکہ بخاری ومسلم نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([1])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے) لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
پس صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ممنوعہ بدشگونی میں سے ہے، جوکہ دور جاہلیت کا عمل ہے اور اسلام نے اسے باطل قرار دیا ہے۔
اسی طرح صفر مہینے کی آخری بدھ کو بکری ذبح کرنا ، اور جو مخصوص دعاء اس کے ذبح کے وقت پڑھی جاتی ہے، ہم اس کی کوئی اصل (بنیاد یاحقیقت) نہیں پاتے۔
اس مہینے کی بدعات میں سے یہ بھی ہےکہ بعض جاہل لوگ اس مہینے میں سفر نہیں کرتے، اسے منحوس سمجھتے ہیں، جبکہ یہ نری جہالت اور گمراہی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو صاف بیان فرمادیا ہے:
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([2])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
یہ روایت متفق علیہ ہے اور صحیح مسلم میں یہ اضافہ ہے کہ:
’’ وَلَا نَوءَ، وَلَا غُولَ‘‘
(اور نہ ہی نچھتر([3]) ہے اور نہ ہی بھوت([4]))۔
کیونکہ متعدی بیماری کا اعتقاداور بدشگونی اسی طرح نچھتر وبھوت وغیرہ سے متعلق باطل تصورات، سب کے سب دور جاہلیت کے امور ہیں جو دین کو نقصان پہنچانے کا سبب ہیں۔
صفر کا مہینہ دیگر تمام مہینوں ہی کی طرح ہے اس کے پاس کوئی خیریا شر نہیں، خیر وبھلائی تو صرف اور صرف اللہ تعالی کے پاس ہے، اور شروبرائی بھی اس ہی کی تقدیر سے ہے، اور یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان تمام باتوں کو باطل قرار دیا: امام مسلم "نے ’’کتاب السلام‘‘ میں روایت فرمائی :
’’لَا عَدْوَى وَلَا طِيَرَةَ وَلَا هَامَةَ وَلَا صَفَرَ ‘‘([5])
(نہ تو کسی کو دوسرے کی بیماری (خود سے)لگتی ہے، اور نہ ہی بدشگونی کوئی چیز ہے، اور نہ ہی الو کے بولنے کی کوئی تاثیر ہے، اور نہ صفر (کے مہینے کو منحوس سمجھنے) کی کوئی حقیقت ہے)۔
اس کی صحت پر بخاری ومسلم کا اتفاق ہے۔
اسی طرح ہاتھوں کی انگلیاں آپس میں ڈالنے سے بدشگونی لینا، یا پھر شادی کے وقت عود (لکڑی) کا ٹوٹنا وغیرہ یہ ایسے امور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ، اسی لئے ان کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں بلکہ یہ سب باطل ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو صحیح بات کی توفیق عنایت فرمائے۔
وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم.
[1] صحیح بخاری 5757، صحیح مسلم 2222۔
[2] حدیث گزر چکی ہے۔
[3] نچھتر کا معنی ہے ستاروں کی منازل سے بارش طلب کرنا۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] غول کی جمع غیلان یا اغوال ہے جو جنوں اور شیاطین کی ایک جنس ہے جن کے بارے میں جاہلیت میں عربوں کا اعتقاد تھا کہ یہ جنگلات وغیرہ میں شکل وصورت تبدیل کرکے لوگوں کو اچک لیتے ہیں۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[5] حدیث گزر چکی ہے۔