Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.13K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.91K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Types and rulings of the people who #visit_graves - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen

#قبروں_کی_زیارت پر جانے والوں کی اقسام واحکام

فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ

(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: فتاوی نور علی الدرب (نصیۃ): التوحید والعقیدۃ۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/qabro_ziyarat_aqsaam_ahkaam.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

سوال: بارک اللہ فیکم۔ کیا ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز ہے جو مزاروں پر جاتا ہے اور ان سے تبرک حاصل کرتا ہے، وسیلہ بناتا ہے، اور کیا اس کے پیچھے نماز جائز ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟

جواب: دراصل مزاروں پرجانے والوں کی کچھ اقسام ہیں:

پہلی قسم: جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ اسے پکارتے ہیں، پناہ طلب کرتے ہیں، مدد طلب کرتے ہیں، اور اس سے رزق طلب کرتے ہيں تو ایساکرنے والے شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہیں۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی نماز میں امامت کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا﴾ (النساء: 116)

(بے شک اللہ تعالی اس بات کو نہیں معاف کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے البتہ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے، اور جس نے اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا)

ایک اور آیت میں ہے:

﴿ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ﴾ (النساء: 48)

(یقیناً اس نے بہت عظیم گناہ اور بہتان باندھا)

دوسری قسم: وہ لوگ جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعاء کریں گے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ اس کے پاس دعاء کرنا مسجد یا اپنے گھر میں دعاء کرنے سے افضل ہے اور بلاشبہ یہ گمراہی، غلطی اور جہالت ہے لیکن یہ کفر کی حد تک نہیں پہنچتی ، کیونکہ وہ خالص اللہ تعالی سے دعاء کے لیے گیا تھا مگر اس کا یہ گمان تھا کہ اس قبر پر اس کا دعاء کرنا افضل ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔

تیسری قسم: جو قبروں کا طواف اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے کرتا ہے یہ سوچ کرکہ یہ صاحب قبر اولیاء اللہ میں سے ہے اور ان کی تعظیم کرنا دراصل اللہ تعالی ہی کی تعظیم ہے تو ایسا شخص بدعتی ہے مگر شرک اکبر کرنے والا مشرک نہیں کیونکہ وہ صاحب قبر کی تعظیم کے لیے طواف نہیں کررہا بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے طواف کررہا ہے ۔ لیکن اگر وہ واقعی صاحب قبر کی تعظیم میں طواف کرے تو قریب ہے کہ وہ شرک اکبر والا مشرک بن جائے گا۔

چوتھی قسم: جو قبروں پر شرعی زیارت کے لیے جاتا ہے اور فوت شدگان کے لیے دعاء کرتا ہےتو یہ شرعی زیارت ہے جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:

’’إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])

(بلاشبہ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، لیکن اب ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ بے شک یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گی)۔

اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع قبرستان جاکر فوت شدگان کے لیے دعاء مانگا کرتے تھے۔ اور اس زیارت کے دوران جو دعاء مستحب ہے وہ یہ ہے کہ:

’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَمِنكُم وَالْمُسْتَأْخِرِينَ و نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ وَ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُم‘‘([2])

(مومن قوم کی آرام گاہ تم پر سلامتی ہو، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے گزرے ہوؤں اور پیچھے رہ جانے والوں پر رحم فرمائیں، اور ہم اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ کرنا اور ان کے جانے کے بعد ہمیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کرنا، اور ہماری اور ان کی بخشش فرمادے)۔
اور یہ بات بھی جاننی چاہیے کہ قبروں کو سجانا یا اس پر عمارت (مزار) تعمیر کرنا جائز نہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں پر تعمیر کرنے یا انہيں چونا گچ پکا کرنے یا صاحب قبر کے لیے کسی بھی طرح کی خاص تعظیم بجالانے سے منع فرمایا ہے۔حالانکہ صاحب قبر تو اس سجاوٹ سے بالکل مستغنی ہے یہ سب سجاوٹیں وغیرہ اسے کوئی نفع نہیں پہنچائیں گی، کیونکہ وہ زمین کے پیٹ میں مٹی تلے دفن ہیں۔ پھر کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب سجاوٹ اور مزار تعمیر کرنا وغیرہ صاحب قبر کی تعظیم کے لیے ہے حالانکہ صاحب قبر کو تو اس تعظیم کا شعور ہی نہیں اور نہ اسے اس کا کوئی فائدہ موصول ہوسکتا ہے۔ بلکہ یہ تو وسائل شرک میں سے ایک اہم وسیلہ ہے اگرچہ کچھ عرصہ بیت جانے کے بعد ہی ہوآخر یہ شرک کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

پس قبروں کی زیارت کرنے والوں کی مندرجہ بالا اقسام کے پیش نظر ہی ان کے احکام بنیں گے کہ وہ شخص مشرک بنتا ہے یا نہیں تو اسی صورت میں اس کے پیچھے نماز ہوگی یا نہیں۔ اور یہ جاننا چاہیے کہ قول راحج یہی ہے کہ کسی فاسق وگنہگار کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے اگر اس کے پیچھے نماز پڑھنا اس امام کے لیے اس دھوکے کا سبب نہ بنے کہ میرا گناہ کرنا صحیح ہے یا کسی دوسرے مقتدی وغیرہ کے دھوکے کا سبب بنے کہ جب آپ کو اس فاسق کے پیچھے نماز پڑھتا دیکھے تو سمجھے کہ وہ گنہگار امام نہیں ۔ البتہ جو کافر ہو یعنی اس کی بدعت کفر کے درجے تک پہنچنے والی بدعت مکفرہ ہو تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں، کیونکہ کافر کی نماز نہیں ہوتی۔



[1] مسند احمد 1240۔



[2] صحیح مسلم، ابن ماجہ ومسنداحمد وغیرہ کی احادیث سے ماخوذ۔
[#SalafiUrduDawah Article] Explanation of #Kitaab_ut_Tawheed (Chapter - 4) - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

شرح #کتاب_التوحید ، باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: الملخص في شرح كتاب التوحيد

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

باب 4: لا الہ الا اللہ کی گواہی کی طرف دعوت دینا

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap_4.pdf

[Urdu Audio]
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitab_ut_tawheed_fawzaan_chap04.mp3
#SalafiUrduDawah
یہ مقولہ: سب کو سنو اور صحیح بات لے لو درست نہيں ! - محدث سید محمد #نذیر_حسین_دہلوی
ye maqola: sub ko suno aur saheeh baat laylo, durust nahi! - muhaddith sayyed muhammad #nazeer_hussain_dehalwee
[#SalafiUrduDawah Audio] Explanation of #Kitaab_ul_Aetisaam of #Saheeh_Bukharee – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
شرح #کتاب_الاعتصام للبخاری – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: بهجة القاري بفوائد منهجية ودروس تربوية من كتاب الإعتصام بالكتاب والسنة من #صحيح_البخاري
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام

حدیث 10– حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ ، ‌‌‌‌‌‏حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ يُونُسَ ، ‌‌‌‌‌‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، ‌‌‌‌‌‏حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، ‌‌‌‌‌‏أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ:‌‌‌‏ "قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ بْنِ بَدْرٍ، ‌‌‌‌‌‏فَنَزَلَ عَلَى ابْنِ أَخِيهِ الْحُرِّ بْنِ قَيْسِ بْنِ حِصْنٍ وَكَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ وَكَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجْلِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِابْنِ أَخِيهِ:‌‌‌‏ يَا ابْنَ أَخِي هَلْ لَكَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الْأَمِيرِ، ‌‌‌‌‌‏فَتَسْتَأْذِنَ لِي عَلَيْهِ ؟، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ سَأَسْتَأْذِنُ لَكَ عَلَيْهِ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‌‌‌‏ فَاسْتَأْذَنَ لِعُيَيْنَةَ فَلَمَّا دَخَلَ، ‌‌‌‌‌‏قَالَ:‌‌‌‏ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ وَاللَّهِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ وَمَا تَحْكُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ، ‌‌‌‌‌‏فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّى هَمَّ بِأَنْ يَقَعَ بِهِ، ‌‌‌‌‌‏فَقَالَ الْحُرُّ:‌‌‌‏ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، ‌‌‌‌‌‏إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى، ‌‌‌‌‌‏قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‌‌‌‏ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ سورة الأعراف آية 199 وَإِنَّ هَذَا مِنَ الْجَاهِلِينَ فَوَاللَّهِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلَاهَا عَلَيْهِ وَكَانَ وَقَّافًا عِنْدَ كِتَابِ اللَّهِ".

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/sharh_kitaab_ul_aetisaam_bukharee_rabee_05.mp3
‏⁧ #الآن_مباشر

📘 شرح كتاب ⁧ #إنعام_الباري ⁩ بشرح كتاب ⁧ #الاعتصام ⁩ من ⁧ #صحيح_البخاري
🎙فضيلة الشيخ ⁧ #عبيد_الجابري ⁩ حفظه الله
📻#الإذاعة_الرئيسية1️⃣
‏⁦ radio.miraath.net:7000/stream
[#SalafiUrduDawah Article] The #prohibition of #superstitions in #Islaam – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#اسلام میں #بدشگونی کی #مذمت
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ وتبویب: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد (معمولی ترمیم کے ساتھ).
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
عناوین
بدشگونی کی تعریف
بدشگونی توحید کے منافی ہے
بدشگونی کا نقصان
بدشگونی سے متعلق بعض آیات
چھوت چھات کی بیماری کی حقیقت
الو کے بولنے کی تاثیر کی حقیقت
ماہ صفر منحوس نہیں
ان چیزوں کے وجود کی نفی کی گئی ہے یا تاثیر کی؟
ان چیزوں کی نفی کرنے کی حکمت
ستاروں کی تاثیر کا عقیدہ
موسمی پیشنگوئی وغیرہ کے تعلق سے الفاظ میں احتیاط
بھوت پریت کی حقیقت
نیک فال کیا ہے؟
بدشگونی اور فال میں فرق
بدشگونی سے بچنے یا اس کے پیدا ہونے کی صورت میں پڑھی جانے والی دعاء
بدشگونی شرک ہے
شرک اصغر جاننے کا ایک مفید قاعدہ
بدشگونی کو دور کیسے کیا جاسکتا ہے؟
بدشگونی کا کفارہ
اس حدیث سے حاصل ہونے والے فوائد
بدشگونی جانچنے کا معیار
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/11/islam_badshoguni_muzammat.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding saying: "#Allaah_is_everywhere!" - Various 'Ulamaa

#اللہ_ہر_جگہ_ہے “کہنے کا حکم؟

مختلف علماء کرام

ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی

مصدر: مختلف مصادر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ

سوال: اس شخص کا کیا حکم ہے کہ جب اس سے پوچھا جائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے تو وہ کہتا ہے ہرجگہ! شرعی دلائل کی روشنی میں صحیح جواب کیا ہونا چاہیے؟

جواب: بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله، صلى الله وسلم على رسول الله وعلى آله وأصحابه ومن اهتدى بهداه أما بعد:

اس شخص پرواجب ہےکہ جس سے پوچھاجائے کہ اللہ تعالی کہاں ہے؟ کہ وہ وہی جواب دے جو اس لونڈی صحابیہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے یہی سوال کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک لونڈی لائی گئی جس کا آقا اسے آزاد کرنا چاہتا تھا۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس کے ایمان کا امتحان لینے کو) پوچھا کہ:

’’أَيْنَ اللَّهُ ؟ قَالَتْ: فِي السَّمَاءِ، قَالَ: مَنْ أَنَا؟ قَالَتْ: أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ‘‘

(اللہ تعالی کہاں ہے؟ اس نے جواب دیا آسمان پر، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: میں کون ہوں؟ کہا: آپ اللہ کےرسول ہیں)۔

اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو انہیں لے کر آئے تھے ان سےکہا:

’’أَعْتِقْهَا، فَإِنَّهَا مُؤْمِنَةٌ‘‘ ([1])

(اسے آزاد کردیں کیونکہ یہ مومنہ عورت ہے)۔

تفصیل کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔


[1] صحیح مسلم 540۔

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/Allaah_har_jaga_hai_kehnay_ka_hukm.pdf
#SalafiUrduDawah
#شوہر کی ضروریات کا خود خیال رکھنا - شیخ #محمد_بن_غالب العمری
#shohar ki zaroriyaat ka khud khayal rakhna - shaykh #muhammad_bin_ghaalib alumaree
[#SalafiUrduDawah Article] Types of #love and the ruling concerning them – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#محبت کی اقسام واحکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: القول المفيد على كتاب التوحيد
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/12/muhabbat_aqsaam_ahkaam.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ اپنی کتاب التوحید میں عنوان قائم کرتے ہیں، اللہ تعالی کا فرمان:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ﴾
(البقرۃ: 165)
(اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو اللہ کے علاوہ غیروں میں سے کچھ اس کے برابر والے بنا لیتے ہیں، وہ ان سے اللہ کی سی محبت کرتے ہیں، جبکہ وہ لوگ جو ایمان لائے، وہ سب سے شدید ترین محبت اللہ سے ہی کرتے ہیں)
شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مؤلف رحمہ اللہ نے اسی آیت کو باب کا عنوان بنالیا ہے، اور ہوسکتا ہے کہ اس عنوان سے آپ کی مراد ہو باب المحبۃ (محبت کے بارے میں باب)۔
اور جتنے بھی اعمال ہیں ان سب کی اصل بنیاد محبت ہی ہوتی ہے۔ پس انسان کسی چیز کے لیے عمل نہیں کرتا مگر صرف اسی کے لیے جس سے وہ محبت کرتا ہے، یا تو نفع حاصل کرنے کی چاہت یا پھر ضرر ونقصان کو دور کرنے کی چاہت۔ اگر وہ کوئی کام کرتا ہے تو ضرور وہ اس سے محبت کرتا ہے یا تو بذاتہ محبت جیسے کھانے کی محبت، یا پھر کسی غیر سبب کی وجہ سے جیسے دواء استعمال کرنا (یعنی دواء کی بذاتہ محبت نہيں مگر اس کے علاوہ ایک چیز یعنی شفاءیابی کی چاہت ہے جو اللہ تعالی کے حکم سے اس کے ذریعے سے ملتی ہے)۔
اور اللہ تعالی کی عبادت بھی محبت پر مبنی ہے، بلکہ یہی تو عبادت کی حقیقت ہے۔ کیونکہ اگر آپ عبادت کریں بغیر محبت کے تو وہ محض کھوکھلا جسم بن کر رہ جائے گی جس میں کوئی روح ہی نہ ہو۔اور جب انسان کے دل میں اللہ تعالی کی محبت اور اس کی جنت کے پہنچنے کی محبت ہوگی تو وہ ضرور اس تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرنے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جو مشرکین اپنے معبودات سے محبت کرتےہیں تو وہ یہی محبت ہوتی ہے جو ان کو اس حد تک پہنچا دیتی ہےکہ وہ ان کی اللہ تعالی کے علاوہ یا اس کے ساتھ عبادت کرنے لگتے ہیں۔
محبت دو اقسام میں تقسیم ہوتی ہے:
پہلی قسم:
محبتِ عبادت: یہ وہ محبت ہے جو تذلل وتعظیم کا موجب ہوتی ہے۔اور محبوب کا ایسا اجلال وتعظیم انسان کے دل میں بیٹھ جائے جو اس کے اوامر کی بجاآوری اور نواہی سے اجتناب کا تقاضہ کرے۔اور یہ خاص ہے صرف اللہ تعالی کے لیے۔ اور جو کوئی اللہ تعالی کے ساتھ کسی غیر سے محبت ِعبادت کرتا ہے تو وہ شرک اکبر کرنے والا مشرک ہے۔ اور علماء کرام اس محبت کی تعبیر محبتِ خاصہ سے کرتے ہيں۔
دوسری قسم:
للہ فی اللہ محبت کرنا یعنی اللہ تعالی کے لیے اور اس کی وجہ سے محبت کرنا: وہ اس طرح کہ اس محبت کا سبب اللہ کی محبت ہو جیسا کہ کوئی چیز اللہ تعالی کو محبوب ہو اشخاص میں سے جیسے انبیاءورسل کرام، صدیقین، شہداء وصالحین۔
یا اعمال میں سے جیسے نماز وزکوٰۃ اور دیگر اعمال خیر یا ان کے علاوہ۔ محبت کی یہ نوع اس پہلی قسم یعنی اللہ تعالی کی محبت ہی کے تابع ہے۔
دوسری قسم میں سے دوسری نوع کی محبت شفقت ورحمت والی محبت ہے: اس کی مثال جیسا کہ اولاد کی محبت، بچوں کی، کمزوروں اور مریضوں سے محبت وشفقت۔
اسی طرح سے تیسری نوع کی محبت، اجلال وتعظیم والی محبت ہے مگر بغیر عبادت کے۔ جیسا کہ انسان والد سے محبت کرتا ہے، یا اپنے استاد سے یا اہل خیر میں سے جو بڑے ہيں ان سے۔
چوتھی نوع: طبیعی محبت جیسے کھانے پینے کی محبت، پہننے وسواری ورہائش وگھر کی محبت۔
ان تمام انواع میں سے سب سے اشرف پہلی نوع ہے، اور باقی مباح کی قسم میں سے ہيں، الا یہ کہ ان (مباح والی) کے ساتھ ایسی چیز کو جوڑا جائے جو تعبد (عبادت گزاری) کی متقاضی ہو تو پھر یہ بھی عبادت بن سکتی ہيں۔
جیسے ایک انسان اپنے والد سے اجلال وتعظیم والی محبت کرتا ہے لیکن اگر وہ اس محبت کے ذریعے اللہ تعالی کی عبادت گزاری کی نیت کرتا ہے کہ اللہ تعالی نے والد کے ساتھ نیک سلوکی کا حکم دیا ہے تو یہ بھی عبادت بن جاتی ہے۔ اسی طرح سے وہ اپنی اولاد سے شفقت والی محبت کرتا ہے لیکن اگر اس کے ساتھ اللہ تعالی کے حکم کا جو تقاضہ بنتا ہے اسے بھی پورا کرے جیساکہ اس اولاد کی اصلاح کرتا رہے تو یہ بھی عبادت بن جائے گا۔
اسی طرح سے جو طبیعی محبت ہے جیسے کھانے پینے، پہننے اور گھر کی محبت اگر اس سے نیت اللہ تعالی کی عبادت میں استعانت ومدد لینا ہو تو یہ بھی عبادت بن جائیں گے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’حُبِّبَ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا النِّسَاءُ وَالطِّيبُ‘‘([1])
(دنیا میں سے مجھے محبوب کردی گئی ہيں عورتیں اور خوشبو)۔
چناچہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو عورتیں محبوب کردی گئیں کیونکہ یہ انسانی طبیعت کا تقاضہ ہے اور اس میں عظیم مصلحتیں بھی ہيں، اسی طرح سے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خوشبو محبوب کردی گئی کیونکہ یہ بھی انسانی نفس میں تازگی لاتی، راحت دیتی اور شرح صدر کا سبب بنتی ہے۔ کیونکہ بلاشبہ طیبات طیبین کے لیے ہیں([2])، اور اللہ تعالی طیب (پاک) ہے نہيں قبول فرماتا مگر طیب([3])۔
الغرض ان چیزوں کو اگر انسان عبادت کی نیت سے لیتا ہے تو عبادت بن جاتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى‘‘([4])
(اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے، اور ہر شخص کو صرف وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی)۔
اور علماء کرام فرماتے ہیں:
’’جس چیز کے بغیر کوئی واجب ادا نہ ہوتا ہو تو وہ بھی واجب ہوتی ہے‘‘۔
اور فرماتے ہیں:
’’وسائل کا حکم ان کے مقاصد کا سا ہوتا ہے‘‘۔
اور اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے۔
[1] أخرجه أحمد (3/128، 199، 285)، والنسائي فى عشرة النساء، باب حب النساء، 7/61) وفى تعليق الألباني على المشكاة (3/1448) : إسناده حسن.
[2] اس آیت کی جانب اشارہ ہے: ﴿وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ﴾ (النور: 26) (اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[3] اس حدیث کی جانب اشارہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: ’’إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا‘‘(صحیح مسلم 1016) (بے شک اللہ تعالی پاک ہے اور نہیں قبول کرتا مگر پاک(کمائی سے خرچ کیا ہوا)) (توحید خالص ڈاٹ کام)
[4] أخرجه البخاري فى بدء الوحي، باب كيف كان بدء الوحي، 1/13، ومسلم فى الإمارة، باب قوله صلی اللہ علیہ والہ وسلم: إنما الأعمال بالنيات 3/1515۔
[#SalafiUrduDawah Article] The obligation of love and respect for #Rasoolullaah (SalAllaho alayhi wa sallam) – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#رسول_اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و تعظیم کا وجوب
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
مصدر: عقیدۂ توحید اور اس کے منافی امور سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/nabi_muhabbat_tazeem_wujoob.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
بندہ پر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی محبت ضروری ہے، یہ عبادت کی سب سے عظیم قسم ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ﴾ (البقرۃ:165)
(اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالی ہی سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں)
اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے بندوں کا منعمِ حقیقی ہے۔ جس نے ساری ظاہری و باطنی نعمتوں سے بندوں کو نوازا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سے محبت کے بعد اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت واجب ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بندوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی، اس کی معرفت سے ہمکنار کیا، اس کی شریعت کو پہنچایا اور اس کے احکامات کو بیان فرمایاہے۔ آج مسلمانوں کو جو دنیاوآخرت کی بھلائی حاصل ہے وہ اسی رسول ِرحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدولت حاصل ہے۔کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کے بغیر جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ایک حدیث کے الفاظ ہیں:
’’ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ يُقْذَفَ فِي النَّارِ‘‘([1])
(جس کے اندر تین چیزیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا ، وہ یہ کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے نزدیک دوسری ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوں اور کسی شخص سے محبت کرتا ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرتا ہو اور کفر کی طرف لوٹنا اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس سے نکالا ہے ایسا ہی ناپسند کرتا ہو جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے)۔
اس حدیث سے پتہ چلا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے اور اس کے ساتھ لازم ہے اور رتبہ کے اعتبار سے دوسرے درجہ پر ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دیگر تمام محبوب چیزوں سے آپ کی محبت کو مقدم رکھنے سے متعلق حدیث کے الفاظ یہ ہیں:
’’لَايُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ‘‘([2])
(تم میں سے کوئی اس وقت تک پکا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کی اولاد اس کے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں)۔
بلکہ ایک حدیث میں تو آیا ہے کہ ایک مومن کے لئے ضروری ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نفس سے زیادہ محبوب رکھے۔ سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ:
’’يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِلَّا مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لَا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَإِنَّهُ الْآنَ وَاللَّهِ لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: الْآنَ يَا عُمَرُ‘‘([3])
(اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ میرے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے محبوب ہیں سوائے میرے نفس کے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہارے نفس سے بھی زیادہ محبوب نہ بن جاؤں بات نہیں بنے گی۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (اگر ایسی بات ہے تو) یقیناً اللہ کی قسم! اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے نفس سے بھی زیادہ محبوب ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اب صحیح ہے اے عمر)۔
اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت واجب ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے علاوہ دنیا کی ہر چیز کی محبت پر مقدم ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع اور اس کو لازم ہے([4])، اس لئے یہ محبت بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہے اور اسی کے لئے ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت مومن کے دل میں جتنی بڑھے گی اتنی ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بڑھے گی اور اللہ تعالیٰ کی محبت اگر گھٹے گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت بھی گھٹے گی، اور جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو گا تو اس سے اللہ تعالیٰ کی خاطر محبت رکھی جائے گی۔
اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھے جانے کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان کی (بنا غلو کے) تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں اور انہی کی اتباع کریں ان کے قول کو ہر ایک کے قول سے مقدم رکھیں اور ان کی سنت کی بہت زیادہ تعظیم کریں (اور اس پر عمل کریں)۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’انسان سے محبت اور اس کی تعظیم اگر اللہ سے محبت اور اس کی تعظیم کے تابع ہے تو وہ جائز ہے۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور آپ کی تعظیم ، آپ کی یہ محبت و تعظیم دراصل آپ کو رسول بنا کر بھیجنے والے سے محبت اور اس کی تعظیم کی تکمیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اس لئے کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالی کو محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعظیم و تکریم اس لئے کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ عزت ومرتبہ عطاء فرمایا ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت اللہ تعالیٰ سے محبت کا ایک جزء ہے یا اللہ تعالیٰ سے محبت کا نتیجہ ہے۔
مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت میں اتنی محبت و رعب ڈال دیا تھا ۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی انسان کسی انسان کے لئے اتنا محبوب، موقر و بارعب نہیں ہے جتنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے نزدیک محبوب و موقر و بارعب تھے۔
سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد کہا تھا کہ قبولِ اسلام سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مبغوض شخص میرے نزدیک کوئی نہیں تھا، لیکن اب قبولِ اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبوب ترین اور موقر ترین شخص میرے نزدیک کوئی نہیں، اگر مجھ سے آپ کا حلیہ بیان کرنے کو کہا جائے تو میں کچھ نہیں بول سکتا اس لئے کہ آپ کی توقیر و اجلال میں کبھی آپ کو جی بھر کے نہیں دیکھ سکا۔
سیدناعروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے قریش سے کہا تھا، اے لوگو! اللہ کی قسم میں قیصرو کسریٰ اور دیگر شاہانِ ممالک کے دربار میں گیا ہوں لیکن کسی کو بھی ایسا نہیں پایا کہ اس کے احباب و اصحاب اس کی اتنی تعظیم کرتے ہوں جتنی تعظیم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احباب و اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم ان کی تعظیم و تکریم اور اجلال و رعب میں ان سے نظر نہیں ملاتے، جب وہ تھوکتے ہیں تو کسی صحابی کی ہتھیلی ہی میں پڑتا ہے جسے وہ اپنے چہرے اور سینے پر مل لیتے ہیں اور آپ جب وضوء کرتے ہیں تو وہ وضو کے پانی کے لئے آپس میں لڑ پڑتے ہیں‘‘([5])۔
[1]البخاري الإيمان (16) ، مسلم الإيمان (43) ، الترمذي الإيمان (2624) ، النسائي الإيمان وشرائعه (4988) ، ابن ماجه الفتن (4033).
[2]البخاري الإيمان (15) ، مسلم الإيمان (44) ، النسائي الإيمان وشرائعه (5013) ، ابن ماجه المقدمة (67)، الدارمي الرقاق (2741).
[3]البخاري الأيمان والنذور (6257) ، أحمد (4/336).
[4]جیسا کہ ارشاد ہوا: ﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ﴾ (آل عمران:31) ((اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ بھی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو معاف کر دے گا) (توحید خالص ڈام کام)
[5] جلاء الافہام:120، 121۔
[#SalafiUrduDawah Article] The price of #loving_someone_for_the_sake_of_Allaah – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al-Albaanee
کسی سے #اللہ_تعالی_کی_رضا_کی_خاطر_محبت کرنے کی قیمت
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الحاوي من فتاوى الألباني ص (165-166)۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/Allaah_rada_muhabbat_qeemat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سائل: جو شخص کسی سے اللہ تعالی کی رضا کے لیے محبت کرتا ہے تو کیا اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے کہے: ’’أحبك في الله‘‘([1]) (میں اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں)؟
الشیخ: جی، لیکن اللہ تعالی کے لیے محبت کی بڑی بھاری قیمت ہوتی ہے، بہت کم ہی لوگ ہوتے ہیں جو اسے ادا کرپاتے ہیں۔ کیا آپ لوگ جانتے ہيں کہ اللہ تعالی کے لیے محبت کی کیا قیمت ہے؟ آپ میں سے کوئی اس کی قیمت جانتا ہے؟ جو جانتا ہے ہمیں جواب دے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سات ایسے لوگ ہيں جو اس دن اللہ تعالی کے سائے تلے ہوں گے جس دن اس کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا(یعنی عرش کا سایہ جیسا کہ دوسری روایات سے ثابت ہے) تو انہی میں سے وہ شخص بھی ہیں جو:
’’وَرَجُلَانِ تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ‘‘([2])
(اور وہ دو اشخاص جو اللہ تعالی کے لیے محبت کرتے ہیں اسی پر جمع ہوتے ہيں اور اسی پر الگ ہوتے ہيں)۔
الشیخ: یہ کلام اپنی جگہ صحیح ہے مگر ہمارے سوال کا جواب نہيں۔ یہ تو اللہ تعالی کے لیے محبت کرنے کی تقریباً تعریف ہوگئی لیکن مکمل نہیں ہوئی۔ میرا سوال یہ ہے کہ وہ کونسی قیمت ہے جو دو اللہ تعالی کے لیے آپس میں محبت کرنے والے ایک دوسرے کو دیتے ہيں۔ میرا مقصد آخرت کا اجر نہيں۔ میں اپنے سوال کے ذریعے یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ وہ کونسی عملی دلیل ہے جو دو لوگوں میں اللہ تعالی کے لیے محبت کی دلیل ہو؟ ایسا ہوسکتا ہے کہ دو لوگ آپس میں ایسی محبت کرتے ہوں، مگر ان کی محبت محض شکلی اعتبار سے محبت ہو، حقیقی نہ ہو، تو پھر آخر حقیقی محبت کیا ہوگی؟
حاضرین میں سے ایک: (جیسا کہ حدیث میں ہے کہ) :
’’يُحِبَّ لِأَخِيهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ‘‘([3])
(اپنے بھائی کے لیے بھی وہی چیز پسند کرے جواپنے لیے کرتا ہے)۔
الشیخ: یہ تو اس محبت کی صفت ہے یا اس محبت کی بعض صفات میں سے ہے۔۔۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ﴾ (آل عمران: 31)
(کہیں، اگر تم اللہ تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو، اللہ تعالی تم سے محبت فرمائے گا)
الشیخ: یہ جواب ہے کسی اور سوال کا۔۔۔(یعنی اگر پوچھا جائے اللہ تعالی سے محبت کی کیا دلیل ہے تو یہ جواب ہوگا)۔
حاضرین میں سے ایک: جواب اس صحیح حدیث سے دیا جاسکتا ہے کہ تین ایسی باتیں ہیں کہ جس میں ہوں وہ اس کے ذریعے ایمان کی حلاوت (مٹھاس وشیرینی) کو پاسکتا ہے، انہی میں سے ایک یہ ہے کہ:
’’وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ‘‘([4])
(کہ وہ کسی شخص سے محبت کرے اور وہ اس سے محبت نہيں کرتا مگر صرف اللہ تعالی کے لیے)۔
الشیخ: یہ اثر ہے اللہ تعالی کے لیے محبت کا، کیا اثر ہے؟ وہ حلاوت ہے جو وہ اپنے دل میں پاتا ہے۔
حاضرین میں سے ایک: اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَالْعَصْرِ، اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ، اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (سورۃ العصر)
(قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیے، اور ایک دوسرے کو حق بات کی اور صبر کی وصیت کرتے رہے)
الشیخ: بہت خوب! یہ ہے وہ جواب۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اگر میں واقعی اللہ تعالی کے لیے آپ سے محبت کرتا ہوں تو میں ہمیشہ نصیحت کرتے ہوئے آپ کے ساتھ رہوں گا۔ اسی طرح سے آپ بھی میرے ساتھ یہی سلوک رکھیں گے۔ اسی لیے یہ جو نصیحت کرنے میں مستقل مزاجی ہے بہت کم پائی جاتی ہے ان لوگوں میں جو اللہ تعالی کے لیے محبت کے دعویدار ہيں۔ یہ جو محبت ہے ہوسکتاہے اس میں اخلاص میں سے کچھ نہ کچھ ہو لیکن یہ کامل نہیں ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کا لحاظ کررہا ہوتا ہے کہ کہیں وہ خفا نہ ہوجائے یا چھوڑ نہ جائے۔۔۔اورآخر تک جو مختلف خدشات ہیں۔