[#SalafiUrduDawah Article] #Virtues and #rulings of the #first_ten_days of #DhilHajjah – Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
ماہِ #ذوالحج کے #ابتدائی_دس_ایام کی #فضیلت و #احکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ پر موجود حج سے متعلق خطبات جمعہ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/zilhajj_10_din_fazail_ahkam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔ اے مسلمانو! ہم ان دنوں فضیلت والے ایام کے استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں یعنی ماہ ذوالحج کا پہلا عشرہ کہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘([1])
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
پس اے مسلمانو! ذوالحج کے ان دس دنوں میں باکثرت ذکر الہی کرو اور اس کی تکبیر(اللہ اکبر)، تحمید (الحمدللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پڑھو، تلاوت قرآن، نماز وصدقہ خیرات وغیرہ جیسے اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ تاکہ تم ان کاموں کو ادا کرنے والے بن جاؤ کہ جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ ان نیک اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان ایام میں روزے رکھو کیونکہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین ہے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ:
’’ كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ‘‘([2])
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحج کے نو دن روزے رکھتے تھے)۔
کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ‘‘([3])
(ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس گنا ہے سوائے روزے کے کیونکہ وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا)۔
لیکن اگر کسی کے رمضان کے قضاء روزے باقی ہوں تو وہ نفلی روزوں سے پہلے ان فرض قضاء روزوں سے ابتداء کرے۔ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کی قضاء ان دس دنوں میں ادا کردے بہرحال اسے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ ایک فرض روزہ ادا کررہا ہے۔
یہ بات جان لیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص حج ادا نہیں کررہا تو اس کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں قربانی ادا کرے، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اسی طرح سے صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آیا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
’’والأضحية سنَّة مؤكدة‘‘([4])
(اور قربانی سنت مؤکدہ ہے)۔
لیکن صرف زندہ لوگوں کے لیے جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آنے والے دلائل سے واضح ہوگا۔
آپ سے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ اللہ تعالی کی رحمت، نعمت ولطف وکرم میں سے ہے کہ اس نے اسے اپنے بالوں یا ناخنوں یا جلد میں سے کچھ بھی کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بالوں میں سے کچھ تراشے خواہ سر کے بال ہوں یا مونچھوں، بغل یا زیر ناف بال۔ اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی اپنی جلد میں سے کچھ تراشے جیسا کہ بعض لوگ اپنی زیریں پشت یا ران کے پچھلے حصے کی جانب سے نوچتے ہیں۔ انہیں نہ توڑے اور نہ نوچے کیونکہ یہ ذوالحج کے ان دس ایام میں حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اور جان لیں کہ یہ منع کرنا اللہ تعالی کی ہمارے ساتھ رحمت ہے جس پر ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ اس طور پر رحمت ہے کہ ہم حجاج کرام کے ساتھ شعائر حج میں سے بعض اعمال میں مشارکت اختیار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حجاج کو اپنے سر منڈانا منع ہوتا ہے اسی طرح سے جو قربانی کرتا ہے اسے بھی اپنے
ماہِ #ذوالحج کے #ابتدائی_دس_ایام کی #فضیلت و #احکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ پر موجود حج سے متعلق خطبات جمعہ سے ماخوذ
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/08/zilhajj_10_din_fazail_ahkam.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۔۔۔ اے مسلمانو! ہم ان دنوں فضیلت والے ایام کے استقبال کی تیاریاں کررہے ہیں یعنی ماہ ذوالحج کا پہلا عشرہ کہ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘([1])
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یا رسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
پس اے مسلمانو! ذوالحج کے ان دس دنوں میں باکثرت ذکر الہی کرو اور اس کی تکبیر(اللہ اکبر)، تحمید (الحمدللہ) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ) پڑھو، تلاوت قرآن، نماز وصدقہ خیرات وغیرہ جیسے اعمال صالحہ بجا لاؤ۔ تاکہ تم ان کاموں کو ادا کرنے والے بن جاؤ کہ جنہیں اللہ تعالی پسند فرماتا ہے۔ ان نیک اعمال میں سے یہ بھی ہے کہ تم ان ایام میں روزے رکھو کیونکہ روزہ اعمال صالحہ میں افضل ترین ہے جیسا کہ سنن نسائی کی حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج رضی اللہ عنہن سے روایت ہے کہ:
’’ كَانَ يَصُومُ تِسْعًا مِنْ ذِي الْحِجَّةِ ‘‘([2])
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحج کے نو دن روزے رکھتے تھے)۔
کیونکہ حدیث قدسی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’ كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ‘‘([3])
(ابن آدم کے ہر عمل کا بدلہ دس گنا ہے سوائے روزے کے کیونکہ وہ خالص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزاء دوں گا)۔
لیکن اگر کسی کے رمضان کے قضاء روزے باقی ہوں تو وہ نفلی روزوں سے پہلے ان فرض قضاء روزوں سے ابتداء کرے۔ اور اس کے لیے یہ بھی جائز ہے کہ وہ رمضان کے روزوں کی قضاء ان دس دنوں میں ادا کردے بہرحال اسے یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔ کیونکہ وہ ایک فرض روزہ ادا کررہا ہے۔
یہ بات جان لیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمانوں میں سے جو شخص حج ادا نہیں کررہا تو اس کے لیے یہ مشروع ہے کہ وہ اپنے ہی علاقے میں قربانی ادا کرے، کیونکہ فرمان الہی ہے:
﴿لِّيَشْهَدُوْا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْٓ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰي مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ ۚ فَكُلُوْا مِنْهَا وَاَطْعِمُوا الْبَاىِٕسَ الْفَقِيْرَ﴾ (الحج: 28)
(اپنے فائدے حاصل کرنے کو آجائیں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام یاد کریں ان چوپایوں پر جو پالتو ہیں پس تم خود بھی کھاؤ اور تنگ دست فقیروں کو بھی کھلاؤ)
اسی طرح سے صحیح بخاری ومسلم کی حدیث میں آیا ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:
’’والأضحية سنَّة مؤكدة‘‘([4])
(اور قربانی سنت مؤکدہ ہے)۔
لیکن صرف زندہ لوگوں کے لیے جیسا کہ ان شاء اللہ آئندہ آنے والے دلائل سے واضح ہوگا۔
آپ سے جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو یہ اللہ تعالی کی رحمت، نعمت ولطف وکرم میں سے ہے کہ اس نے اسے اپنے بالوں یا ناخنوں یا جلد میں سے کچھ بھی کاٹنے سے منع فرمایا ہے۔ جو شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہے اس کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بالوں میں سے کچھ تراشے خواہ سر کے بال ہوں یا مونچھوں، بغل یا زیر ناف بال۔ اور نہ ہی اپنے ناخنوں کو تراشے اور نہ ہی اپنی جلد میں سے کچھ تراشے جیسا کہ بعض لوگ اپنی زیریں پشت یا ران کے پچھلے حصے کی جانب سے نوچتے ہیں۔ انہیں نہ توڑے اور نہ نوچے کیونکہ یہ ذوالحج کے ان دس ایام میں حرام ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔
اور جان لیں کہ یہ منع کرنا اللہ تعالی کی ہمارے ساتھ رحمت ہے جس پر ہم اس کی حمد بیان کرتے ہیں۔ اس طور پر رحمت ہے کہ ہم حجاج کرام کے ساتھ شعائر حج میں سے بعض اعمال میں مشارکت اختیار کرسکتے ہیں۔ کیونکہ حجاج کو اپنے سر منڈانا منع ہوتا ہے اسی طرح سے جو قربانی کرتا ہے اسے بھی اپنے
[Urdu Article] Which days are more #virtuous: #First_ten_days of #DhilHajjah or #last_ten_nights of #Ramadaan? – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#رمضان کا #آخری_عشرہ افضل ہے یا #ذوالحج کا #ابتدائی_عشرہ؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ الآجری.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/afzal_ramadan_ashrah_ya_dhulhajj.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ان دونوں میں سے کیا افضل ہے: رمضان کا آخری عشرہ یا ذوالحج کا ابتدائی عشرہ؟
جواب: رمضان کا آخری عشرہ رات کے لحاظ سے افضل ہے، کیونکہ اس میں لیلۃ القدر ہے۔ اور ذوالحج کا ابتدائی عشرہ دن کے اعتبار سے افضل ہے، کیونکہ اس میں یوم عرفہ اور یوم النحر (قربانی کا دن) ہے۔ اور یہ دونوں (عرفہ اور یوم النحر) دنیا کے تمام ایام سے افضل ہیں۔ یہی بات اہل علم میں سے محققین علماء کے نزدیک معتمد علیہ ہے۔ جبکہ رمضان کا آخری عشرہ رات کے اعتبار سے افضل ہے کیونکہ اس میں شب قدر ہے جو تمام راتوں سے افضل ہے۔ واللہ المستعان۔
#رمضان کا #آخری_عشرہ افضل ہے یا #ذوالحج کا #ابتدائی_عشرہ؟
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ الآجری.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2012/10/afzal_ramadan_ashrah_ya_dhulhajj.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ان دونوں میں سے کیا افضل ہے: رمضان کا آخری عشرہ یا ذوالحج کا ابتدائی عشرہ؟
جواب: رمضان کا آخری عشرہ رات کے لحاظ سے افضل ہے، کیونکہ اس میں لیلۃ القدر ہے۔ اور ذوالحج کا ابتدائی عشرہ دن کے اعتبار سے افضل ہے، کیونکہ اس میں یوم عرفہ اور یوم النحر (قربانی کا دن) ہے۔ اور یہ دونوں (عرفہ اور یوم النحر) دنیا کے تمام ایام سے افضل ہیں۔ یہی بات اہل علم میں سے محققین علماء کے نزدیک معتمد علیہ ہے۔ جبکہ رمضان کا آخری عشرہ رات کے اعتبار سے افضل ہے کیونکہ اس میں شب قدر ہے جو تمام راتوں سے افضل ہے۔ واللہ المستعان۔
[#SalafiUrduDawah Article] #Sacrifice and the #first_ten_days of #DhulHajj – Various #Ulamaa
#قربانی و #عشرۂ_ذوالحج
مختلف #علماء کرام کے کلام سے ماخوذ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurbani_dhul_hajj_ahkam_mukhtasar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ واشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا، وبعد:
قربانی
قربانی سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت ہے۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت محمدیہ کو حکم ہوا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
دیگر اعمال کی طرح اس کی قبولیت کی بھی دو شرطیں ہیں:
اخلاص
اللہ تعالی کے لیے اخلاص:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے)
سنت کی اتباع
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی موافقت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسْكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ‘‘ (صحیح بخاری 983،صحیح 1961)
(جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور قربانی کی تو اس نے شرعی قربانی کو پالیا، اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کرلی تو یہ بس بکری کا گوشت ہے(مطلوبہ مسنون قربانی نہيں))۔
عشرۂ ذوالحج کی فضیلت
اللہ تعالی نے ان دس دنوں کی شان وعظمت کی قرآن کریم میں قسم اٹھائی:
﴿وَلَيَالٍ عَشْرٍ﴾ (الفجر: 2)
(اور دس راتوں کی قسم!)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘ (صحیح بخاری 969، صحیح ترمذی 757 اللفظ لہ)
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یارسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
یومِ عرفہ اور اس دن روزے کی فضیلت
’’مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ‘‘ ( مسلم1351)
(کوئی بھی دن یوم عرفہ سے بڑھ کر ایسا نہيں کہ جس میں اللہ تعالی سب سے زیادہ بندوں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطاء فرماتا ہے، اور بے شک اللہ تعالی قریب آتا ہے، پھر ان لوگوں کے ذریعے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے، اور فرماتا ہے کہ: یہ لوگ کیا چاہتے ہيں)۔
اور یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ:
’’صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ‘‘ (صحیح مسلم 1162)
(یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ اس سے ایک سابقہ سال اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں)۔
#قربانی و #عشرۂ_ذوالحج
مختلف #علماء کرام کے کلام سے ماخوذ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/09/qurbani_dhul_hajj_ahkam_mukhtasar.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدللہ واشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وصحبہ وسلم تسلیما کثیرا، وبعد:
قربانی
قربانی سیدنا ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی سنت ہے۔ سنت ابراہیمی کی پیروی کا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امت محمدیہ کو حکم ہوا ہے، فرمان باری تعالی ہے:
﴿فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر: 2)
(پس اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں)
دیگر اعمال کی طرح اس کی قبولیت کی بھی دو شرطیں ہیں:
اخلاص
اللہ تعالی کے لیے اخلاص:
﴿لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ﴾ (الحج: 37)
(اللہ تعالیٰ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تمہارے دل کا تقویٰ پہنچتا ہے)
سنت کی اتباع
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی موافقت:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد فرمایا:
’’مَنْ صَلَّى صَلَاتَنَا وَنَسَكَ نُسْكَنَا فَقَدْ أَصَابَ النُّسُكَ، وَمَنْ نَسَكَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَتِلْكَ شَاةُ لَحْمٍ‘‘ (صحیح بخاری 983،صحیح 1961)
(جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور قربانی کی تو اس نے شرعی قربانی کو پالیا، اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کرلی تو یہ بس بکری کا گوشت ہے(مطلوبہ مسنون قربانی نہيں))۔
عشرۂ ذوالحج کی فضیلت
اللہ تعالی نے ان دس دنوں کی شان وعظمت کی قرآن کریم میں قسم اٹھائی:
﴿وَلَيَالٍ عَشْرٍ﴾ (الفجر: 2)
(اور دس راتوں کی قسم!)
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’مَا مِنْ أَيَّامٍ الْعَمَلُ الصَّالِحُ فِيهِنَّ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنْ هَذِهِ الْأَيَّامِ الْعَشْرِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: وَلَا الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ مِنْ ذَلِكَ بِشَيْءٍ‘‘ (صحیح بخاری 969، صحیح ترمذی 757 اللفظ لہ)
(دنوں میں کوئی بھی دن ایسے نہیں کہ جن میں نیک عمل کرنا اللہ تعالی کو اتنا محبوب ہو جتنا ذوالحج کے ان دس دنوں میں، کہا: یارسول اللہ! کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ فرمایا: ہاں، جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں الا یہ کہ کوئی شخص اپنی جان اور مال لے کر جہاد پر نکلا اور ان میں سے کسی چیز کو واپس نہ لایا)۔
یومِ عرفہ اور اس دن روزے کی فضیلت
’’مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ‘‘ ( مسلم1351)
(کوئی بھی دن یوم عرفہ سے بڑھ کر ایسا نہيں کہ جس میں اللہ تعالی سب سے زیادہ بندوں کو جہنم کی آگ سے آزادی عطاء فرماتا ہے، اور بے شک اللہ تعالی قریب آتا ہے، پھر ان لوگوں کے ذریعے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے، اور فرماتا ہے کہ: یہ لوگ کیا چاہتے ہيں)۔
اور یوم عرفہ کے روزے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا کہ:
’’صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ‘‘ (صحیح مسلم 1162)
(یوم عرفہ کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ اس سے ایک سابقہ سال اور ایک آئندہ سال کے گناہ معاف ہوتے ہیں)۔