[#SalafiUrduDawah Article] Taking #accountability_of_oneself in these #fast_passing_days – Shaykh #Abdul_Azeez_Aal_Shaykh
ان #تیزی_سے_گزرتے_دنوں میں اپنے #نفس_کا_محاسبہ کرنا
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كلمة توجيهية عن سرعة الأيام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/teezi_guzarte_ayyam_nafs_muhasibah.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: امید کرتے ہيں کہ آپ حفظہ اللہ اس پروگرام کے آغاز میں ان تیزی سے گزرتے دنوں کے بارے میں ذکر کریں گے جبکہ ہم ابھی گزرے سال کو الوداع کہہ رہے ہيں اور نئے سال کا استقبال کررہے ہیں، اور اس میں کیا حکمت ہے ،ساتھ ہی ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرسکتا ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِهِ أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ.
اللہ عزوجل نے ہمیں پیدا فرمایا، رزق دیا اور اپنی کتاب عزیز میں یہ خبر دی کہ وہ عنقریب تمام مخلوقات کو ایک ایسے دن میں جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہيں:
﴿رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ﴾ (آل عمران: 9)
(اے ہمارے رب ! بےشک تو سب لوگوں کو اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں، بےشک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا)
اور فرمایا:
﴿يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا﴾ (النحل: 111)
(جس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ بس اپنی طرف سے جھگڑ رہا ہوگا)
اور اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی کہ بلاشبہ یہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور یہ حیات بھی ختم ہوجائے گی، فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ، كُلُّ نَفْسٍ ذَاىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (الانبیاء: 34-35)
(اور ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر آپ مرجائیں تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟! ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے)
اور فرمایا:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ﴾ (الرحمن: 26-27)
(ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے، فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کا چہرہ (اور ذات) ہی باقی رہے گی، جو بڑی شان اور عزت والا ہے)
پس دنیا گزرنے کی جاہ ہے ناکہ ہمیشہ رہنے کی،دارِ عمل ہے دارِ جزاء نہیں، جبکہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جاہ اور دارِ جزاء ہے۔ ایک شخص کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے ملاقات کے لیے تیار رہے۔ آل فرعون میں سے جو شخص ایمان لایا تھا اس نے اپنی قوم سے کہا:
﴿يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ۡ وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الْقَرَارِ، مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فأولئك يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (غافر: 39-40)
(اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگانی تو متاعِ فانی ہےاور یقینا ًآخرت: وہی رہنے کا گھر ہے، جس نے کوئی برائی کی تو اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بےحساب رزق دیے جائیں گے)
پس اے بھائی! دن تو گزرتے جارہے ہیں ، اور ہر انسان کو وہ مل رہا ہے جو اس کے لیے مقدر کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تم میں سے ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفے کی صورت میں) تیار ہوتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ’’عَلَقَةً‘‘ یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے ’’مُضْغَةً‘‘ (گوشت کے لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدتِ زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے)۔
یہ تمام باتیں واضح طور پر اللہ تعالی کی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جو اس کے علم کے ساتھ خاص ہیں:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السّ
ان #تیزی_سے_گزرتے_دنوں میں اپنے #نفس_کا_محاسبہ کرنا
فضیلۃ الشیخ #عبدالعزیز_آل_الشیخ حفظہ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: كلمة توجيهية عن سرعة الأيام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/10/teezi_guzarte_ayyam_nafs_muhasibah.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: امید کرتے ہيں کہ آپ حفظہ اللہ اس پروگرام کے آغاز میں ان تیزی سے گزرتے دنوں کے بارے میں ذکر کریں گے جبکہ ہم ابھی گزرے سال کو الوداع کہہ رہے ہيں اور نئے سال کا استقبال کررہے ہیں، اور اس میں کیا حکمت ہے ،ساتھ ہی ایک شخص کس طرح اپنے نفس کا محاسبہ کرسکتا ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِهِ أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ.
اللہ عزوجل نے ہمیں پیدا فرمایا، رزق دیا اور اپنی کتاب عزیز میں یہ خبر دی کہ وہ عنقریب تمام مخلوقات کو ایک ایسے دن میں جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہيں:
﴿رَبَّنَآ اِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيْهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ﴾ (آل عمران: 9)
(اے ہمارے رب ! بےشک تو سب لوگوں کو اس دن کے لیے جمع کرنے والا ہے جس میں کوئی شک نہیں، بےشک اللہ وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا)
اور فرمایا:
﴿يَوْمَ تَاْتِيْ كُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِهَا﴾ (النحل: 111)
(جس دن ہر شخص اس حال میں آئے گا کہ بس اپنی طرف سے جھگڑ رہا ہوگا)
اور اللہ تعالی نے ہمیں خبر دی کہ بلاشبہ یہ دنیا ختم ہونے والی ہے اور یہ حیات بھی ختم ہوجائے گی، فرمان باری تعالی ہے:
﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِكَ الْخُلْدَ ۭ اَفَا۟ىِٕنْ مِّتَّ فَهُمُ الْخٰلِدُوْنَ، كُلُّ نَفْسٍ ذَاىِٕقَةُ الْمَوْتِ ۭ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ۭ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ﴾ (الانبیاء: 34-35)
(اور ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی بشر کے لیے ہمیشگی نہیں رکھی، سو کیا اگر آپ مرجائیں تو یہ ہمیشہ رہنے والے ہیں؟! ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، اور تم ہماری ہی طرف لوٹائے جاؤ گے)
اور فرمایا:
﴿كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ، وَّيَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَالْاِكْرَامِ﴾ (الرحمن: 26-27)
(ہر ایک جو اس (زمین) پر ہے، فنا ہونے والا ہے، اور تیرے رب کا چہرہ (اور ذات) ہی باقی رہے گی، جو بڑی شان اور عزت والا ہے)
پس دنیا گزرنے کی جاہ ہے ناکہ ہمیشہ رہنے کی،دارِ عمل ہے دارِ جزاء نہیں، جبکہ آخرت ہمیشہ رہنے کی جاہ اور دارِ جزاء ہے۔ ایک شخص کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالی سے ملاقات کے لیے تیار رہے۔ آل فرعون میں سے جو شخص ایمان لایا تھا اس نے اپنی قوم سے کہا:
﴿يٰقَوْمِ اِنَّمَا هٰذِهِ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا مَتَاعٌ ۡ وَّاِنَّ الْاٰخِرَةَ هِىَ دَارُ الْقَرَارِ، مَنْ عَمِلَ سَيِّئَةً فَلَا يُجْزٰٓى اِلَّا مِثْلَهَا ۚ وَمَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فأولئك يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ يُرْزَقُوْنَ فِيْهَا بِغَيْرِ حِسَابٍ﴾ (غافر: 39-40)
(اے میری قوم! یہ دنیا کی زندگانی تو متاعِ فانی ہےاور یقینا ًآخرت: وہی رہنے کا گھر ہے، جس نے کوئی برائی کی تو اسے ویسا ہی بدلہ دیا جائے گا اور جس نے کوئی نیک عمل کیا، مرد ہو یا عورت اور وہ مومن ہوا تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے، اس میں بےحساب رزق دیے جائیں گے)
پس اے بھائی! دن تو گزرتے جارہے ہیں ، اور ہر انسان کو وہ مل رہا ہے جو اس کے لیے مقدر کیا گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ إِلَيْهِ مَلَكًا بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ فَيُكْتَبُ عَمَلُهُ وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ‘‘([1])
(بے شک تم میں سے ایک اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک (نطفے کی صورت میں) تیار ہوتا ہے، پھر وہ اتنے ہی دنوں تک ’’عَلَقَةً‘‘ یعنی غلیظ اور جامد خون کی صورت میں رہتا ہے۔ پھر اتنے ہی دنوں کے لیے ’’مُضْغَةً‘‘ (گوشت کے لوتھڑا) کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چار باتوں (کے لکھنے) کا حکم دیتا ہے۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کے عمل، اس کا رزق، اس کی مدتِ زندگی اور یہ کہ بد ہے یا نیک، لکھ لے)۔
یہ تمام باتیں واضح طور پر اللہ تعالی کی کتاب میں لکھی ہوئی ہیں جو اس کے علم کے ساتھ خاص ہیں:
﴿ اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السّ