Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.14K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.91K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
Forwarded from Deleted Account
[Article] The stance of #rationalists regarding the #Sunnah of the prophet صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم- Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
#سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق #عقل_پرستوں کا مؤقف
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: موقف العقلانيين من سنة الرسول صلى الله عليه وسلم۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sunnat_nabwee_aqalparast_moaqqaf.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ لگے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالی کی طرف دعوت دی، اور اس کی راہ میں جہاد فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ کی اس میں مدد وتائید کی یہا ں تک کہ اللہ تعالی کا وعدہ پورا ہوا اور اس کا دین تمام ادیان پر غالب ہوگیا۔ اور ان کے بعد ان کی نیابت ان کے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے فرمائی تو مشرق ومغرب میں دعوت وجہاد کو جاری وساری رکھا یہاں تک کہ اسلام چارسو پھیل گیا اور کفر کا قلع قمع ہوا، اور لوگ اپنی رضا ورغبت سے اللہ کے دین میں فوج درفوج داخل ہوئے ناکہ کسی اکراہ وزبردستی سے۔او رجو کوئی اپنے کفر پر باقی رنے پر مصر تھا تو وہ بھی اسلام کی حکومت کے تحت اپنے ہاتھ سے ذلیل ہوکر جزیہ دے کر رہتا تھا۔ اور تیسرا گروہ وہ تھا جو اسلام کو ظاہر کرتا تاکہ وہ مسلمانوں میں ظاہراً رہے بسے حالانکہ درحقیقت وہ باطن میں کفار کے ساتھ ہوتا، اور یہ گروہ ہے منافقین کا:
﴿مُذَبْذَبِيْنَ بَيْنَ ذٰلِكَ، لَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ وَلَآ اِلٰى هٰٓؤُلَاءِ﴾ (النساء: 143)
(اس کے درمیان متردد ڈگمگا رہے ہیں، نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف)
اور یہ خالص کافروں سے بھی زیادہ برے ہیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۭ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ، اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ﴾ (المنافقون: 4)
(یہی اصل دشمن ہیں، پس ان سے ہوشیار رہو۔ اللہ انہیں ہلاک کر ے، کہاں بہکائے جا رہے ہیں)
پس یہ چھپے ہوئے دشمن ہیں جو ظاہر باہر دشمن سے زیادہ خطرناک ہیں لیکن اللہ تعالی نے قرآن کریم کی بہت سی سورتوں اور آیات میں ان کا پردہ چاک فرمایا اور بھانڈا پھوڑ دیا جو تاقیامت تلاوت کی جاتی رہیں گی۔
ان کے ورثاء ہمارے اس وقت میں بہت سے گروہ ہيں جو اپنے رجحانات اور ثقافتوں میں مختلف ہی سہی لیکن اسلام دشمنی میں منافقین کے ساتھ متفق ہيں۔ اس طور پر کہ وہ اسلام پر مضبوطی کے ساتھ چلنے والے کو متشدد اور تکفیری کہتے پھرتے ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہدایت وبصیرت پرہو۔، اور دوسری طرف جو اپنے دین میں سست ہو، اور بہت سے ان دینی واجبات میں لاپرواہی برتتا ہو جن کو وہ دین اس پر لاگو کرتا ہے جس کی طرف وہ منسوب ہوتا ہے، تو ایسوں کو یہ آزاد خیال اور روشن خیال کہتے ہيں۔ چناچہ اس بنیاد پر وہ ان شرعی احکام کو جو جلیل القدر علماء کرام نے مدون فرمائے ہیں جمود، بوجھ اور دقیانوسی ملّااِزم وغیرہ سمجھتے ہيں۔ایک نئی فقہ کی طرف دعوت دیتے ہیں جسے وہ اپنی خواہشات کے مطابق ڈھال سکیں۔ بلکہ ان کی بےحیائی تو اس حد سے تجاوز کرکے یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ وہ احادیث صحیحہ پر عمل کو ترک کرتے ہيں، اور اس کی حجیت کے قائل نہيں، کیونکہ ان کے نزدیک یہ عقل کے خلاف ہیں۔ آخر وہ کس عقل کی بات کرتے ہیں! وہ اپنی کوتاہ اور آلودہ عقل کی بات کرتے ہيں ناکہ عقل سلیم کی۔ کیونکہ عقل سلیم کبھی بھی صحیح احادیث کی مخالفت نہيں کرتی جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’عقل صریح کبھی بھی نقل صحیح کی مخالفت نہيں کرتی، اگر اختلاف واقع ہو تو اس کی وجہ یا تو عقل غیر صریح ہوگی یا پھر نقل غیر صحیح ہوگی‘‘۔
یہ تو ایک بات رہی، ساتھ میں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ جو کچھ بھی شریعت لے کر آئی ہے ضروری نہيں کہ عقل کی اس تک رسائی ہو، کیونکہ بعض ایسے بھی امور ہوتے ہيں کہ انسانی عقل ان کا ادراک نہيں کرسکتی۔ پس ہمارے ذمے جو بات واجب ہے وہ یہ کہ ہم اسے تسلیم کریں اور اپنی حد تک رک جائیں۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’أيها الناس اتهموا الرأي في الدين، فلو رأيتني يوم أبي جندل أن أرد أمر رسول الله فاجتهد ولا آلو‘‘([1])
(اے لوگو! دین میں اپنی رائے کو غلط سمجھو، میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےحکم کو رد کرسکتا تو بھرپور کوشش کرتا اور کوئی کسر نہ چھوڑتا (لیکن شرعی حکم ہر حال میں واقعی ہماری عقل سے اعلیٰ اور بہتر ہے))۔