[Article] Ruling regarding participating and cooperating in #Christmas? – Various 'Ulamaa
#کرسمس میں شرکت یا کسی بھی طور پر معاونت کرنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/christmas_shirkat_tawun_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ کے فتاوی جلد 3 ص 105 میں ہے:
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں میں شرکت کرے۔ خواہ وہ شرکت خود اس میں حاضر ہوکر ہویا انہیں اسے منانے کی اجازت دینے کی صورت میں ہو یا پھر ان کی عید کی مناسبت سے اشیاء ومواد کی خریدوفروخت کی صورت میں ہو۔
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے وزیرِ تجارت کو خط بھی لکھا کہ:
محمد بن ابراہیم کی طرف سے جناب وزیر تجارت (اللہ آپ کو سلامت رکھے) کی طرف۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:
ہمیں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ بعض تاجرحضرات نے گزشتہ برس سال نو کے آغاز کے قریب مسیحیوں کی عید (کرسمس) کی مناسبت سے خاص گفٹ وتحائف درآمد کئے تھے۔ اور انہی تحائف میں کرسمس ٹری بھی تھا، جبکہ وطنی لوگ انہیں خرید کر ہمارے ملک میں بسنے والے مسیحی لوگوں کو ان کی عید کی مناسبت سے پیش کرتے ہیں۔
یہ بہت منکر بات ہے۔ ان کے لئے ایسا کرنا نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ ہمیں شک نہیں کہ یقیناً اس کا ناجائز ہونا اور اہل علم نے مشرکین واہل کتاب کے کافروں کی عیدوں میں شرکت کی ممانعت پر جواتفاق فرمایا ہےآپ پر عیاں ہوگا۔ ۔۔ پس ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ ایسے تحائف اور جو اس ہی کی قبیل کے ہوں کی ہمارے ملک میں درآمد ملاحظہ فرمائیں گےجو کہ ان کی عیدوں کے خصائص میں سے ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
سوال: بعض مسلمان نصاری کی عید میں شرکت کرتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا توجیہ فرمائیں گے؟
جواب: کسی مسلمان مردوعورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نصاری یا یہود یا ان کے علاوہ بھی کسی کافر کی عیدوں میں شرکت کرے۔ بلکہ اس کا ترک کرنا (بائیکاٹ کرنا) واجب ہے۔ کیونکہ :
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ان کی مشابہت اور ان کے اخلاق وعادات کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ پس ایک مومن اور مومنہ کو چاہیے کہ وہ اس سے خبردار رہے۔ اور ان کے لئے کسی بھی صورت میں ان کی خلاف شریعت عیدوں میں معاونت جائز نہیں، نہ ان میں شرکت کی صورت میں، نہ ان لوگوں سے تعاون کی صورت میں، اور نہ ہی مدد ومساعدت کے طور پر، نہ چائے، نہ قہوہ اور نہ ہی اس کے علاوہ برتنوں وغیرہ کے ذریعے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)
اورکافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرنا گناہ اور زیادتی میں تعاون ہی کی ایک قسم ہے۔
(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 6/405)
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتاوی، سعودی عرب سے سوال پوچھا گیا:
سوال: کیا غیر مسلموں کی عیدوں میں شرکت کی جاسکتی ہے، جیسے جشن میلاد سیدنا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام (کرسمس)؟
جواب: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرے اور اس مناسبت سے کسی بھی طرح کی خوشی ومسرت کا اظہار کرے، اور اپنے دینی یا دنیاوی کاموں کی چھٹی کرلے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے دشمنوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور باطل میں ان کے ساتھ تعاون پایا جاتا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([2])
(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
اور اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)
اور ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ " کی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقيم‘‘ کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، جو کہ اس باب میں بہت مفید ہے۔
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم۔
#کرسمس میں شرکت یا کسی بھی طور پر معاونت کرنے کا حکم؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/christmas_shirkat_tawun_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد بن ابراہیم آل الشیخ رحمہ اللہ کے فتاوی جلد 3 ص 105 میں ہے:
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کافروں کی عیدوں میں شرکت کرے۔ خواہ وہ شرکت خود اس میں حاضر ہوکر ہویا انہیں اسے منانے کی اجازت دینے کی صورت میں ہو یا پھر ان کی عید کی مناسبت سے اشیاء ومواد کی خریدوفروخت کی صورت میں ہو۔
شیخ محمد بن ابراہیم رحمہ اللہ نے وزیرِ تجارت کو خط بھی لکھا کہ:
محمد بن ابراہیم کی طرف سے جناب وزیر تجارت (اللہ آپ کو سلامت رکھے) کی طرف۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، وبعد:
ہمیں یہ اطلاع دی گئی ہے کہ بعض تاجرحضرات نے گزشتہ برس سال نو کے آغاز کے قریب مسیحیوں کی عید (کرسمس) کی مناسبت سے خاص گفٹ وتحائف درآمد کئے تھے۔ اور انہی تحائف میں کرسمس ٹری بھی تھا، جبکہ وطنی لوگ انہیں خرید کر ہمارے ملک میں بسنے والے مسیحی لوگوں کو ان کی عید کی مناسبت سے پیش کرتے ہیں۔
یہ بہت منکر بات ہے۔ ان کے لئے ایسا کرنا نہایت ہی غیر مناسب ہے۔ ہمیں شک نہیں کہ یقیناً اس کا ناجائز ہونا اور اہل علم نے مشرکین واہل کتاب کے کافروں کی عیدوں میں شرکت کی ممانعت پر جواتفاق فرمایا ہےآپ پر عیاں ہوگا۔ ۔۔ پس ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ ایسے تحائف اور جو اس ہی کی قبیل کے ہوں کی ہمارے ملک میں درآمد ملاحظہ فرمائیں گےجو کہ ان کی عیدوں کے خصائص میں سے ہے۔
شیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا:
سوال: بعض مسلمان نصاری کی عید میں شرکت کرتے ہیں، اس بارے میں آپ کیا توجیہ فرمائیں گے؟
جواب: کسی مسلمان مردوعورت کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ نصاری یا یہود یا ان کے علاوہ بھی کسی کافر کی عیدوں میں شرکت کرے۔ بلکہ اس کا ترک کرنا (بائیکاٹ کرنا) واجب ہے۔ کیونکہ :
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([1])
(جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ان کی مشابہت اور ان کے اخلاق وعادات کو اپنانے سے منع فرمایا ہے۔ پس ایک مومن اور مومنہ کو چاہیے کہ وہ اس سے خبردار رہے۔ اور ان کے لئے کسی بھی صورت میں ان کی خلاف شریعت عیدوں میں معاونت جائز نہیں، نہ ان میں شرکت کی صورت میں، نہ ان لوگوں سے تعاون کی صورت میں، اور نہ ہی مدد ومساعدت کے طور پر، نہ چائے، نہ قہوہ اور نہ ہی اس کے علاوہ برتنوں وغیرہ کے ذریعے۔ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)
اورکافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرنا گناہ اور زیادتی میں تعاون ہی کی ایک قسم ہے۔
(مجموع فتاوى الشيخ ابن باز 6/405)
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات وفتاوی، سعودی عرب سے سوال پوچھا گیا:
سوال: کیا غیر مسلموں کی عیدوں میں شرکت کی جاسکتی ہے، جیسے جشن میلاد سیدنا عیسی علیہ الصلاۃ والسلام (کرسمس)؟
جواب: کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کافروں کی عیدوں میں ان کے ساتھ شرکت کرے اور اس مناسبت سے کسی بھی طرح کی خوشی ومسرت کا اظہار کرے، اور اپنے دینی یا دنیاوی کاموں کی چھٹی کرلے۔ کیونکہ اس میں اللہ تعالی کے دشمنوں سے مشابہت پائی جاتی ہے اور باطل میں ان کے ساتھ تعاون پایا جاتا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ‘‘([2])
(جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہے)۔
اور اللہ تعالی کا بھی فرمان ہے:
﴿وَتَعَاوَنُوْا عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى ۠ وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۠وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ﴾ (المائدۃ: 2)
(اور ایک دوسرے کے ساتھ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں تعاون کرو، اور گناہ اورظلم وزیادتی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون نہ کرو، اور اللہ تعالی سے ڈر جاؤ بے شک اللہ تعالی شدید عقاب والا ہے)
اور ہم آپ کو شیخ الاسلام ابن تیمیہ " کی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقيم‘‘ کی طرف رجوع کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، جو کہ اس باب میں بہت مفید ہے۔
وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم۔
[Article] Ruling regarding congratulating on #Christmas? – Imaam Ibn-ul-Qayyam Al-Jawziyyah
#کرسمس کی مبارکباد دینا
شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ المتوفی سن 751ھ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: أحكام أهل الذمة 1/723-724
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/christmas_mubarakbad_dayna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’أحكام أهل الذمة‘‘ میں فرماتے ہیں:
کافروں کے مخصوص شعائر وتہواروں میں انہیں مبارکباد دینا حرام ہے جیسے ان کی عید یاان کے روزوں کے موقع پر کہنا کہ آپ کو عید مبارک ہو وغیرہ ۔ ایسا کام کرنے والے پر اگرچہ کفر کا فتوی نہ بھی لگے لیکن پھر بھی بہرحال یہ محرمات میں سے تو ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی کو صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے اور ایسی مبارکباد تو کسی کو شراب نوشی، ناحق قتل کرنے اور زنا کرنے پر مبارکباد دینے سے بھی بدتر فعل ہے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ جودین کو کوئی وقعت نہیں دیتے اس قسم کے امور میں واقع ہوتے ہیں، اور اپنے اس فعل کی قباحت تک سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ چناچہ جس شخص نے بھی کسی بندے کو گناہ، بدعت یا کفر پر مبارکباد دی تو گویا اس نے اللہ کے غیض وغضب کا اپنے آپ کو حقدار ٹھہرا لیا۔
مزید فرماتے ہیں:
اہل علم كا اتفاق ہے كہ مسلمانوں كےليے مشركوں كی عيدوں ميں شركت كرنا جائزنہيں ہے، اور مذاہب اربعہ كےفقہاء نےبھی اپنی كتب ميں اس كی صراحت كی ہے…. اور امام بيہقی " نےصحيح سند كےساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روايت كيا ہے كہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےكہا:
’’وَلا تَدْخُلُوا عَلَى الْمُشْرِكِينَ فِي كَنَائِسِهِمْ يَوْمَ عِيدِهِمْ، فَإِنَّ السَّخْطَةَ تَنْزِلُ عَلَيْهِمْ‘‘([1])
(مشركوں كی عيد كےدن ان كےگرجا گھروں(چرچ) ميں مشركوں كےپاس نہ جاؤ كيونكہ ان پر(اللہ کی) ناراضگی اور غصہ نازل ہوتا ہے)۔
اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ كا يہ بھی قول ہےكہ:
’’اجْتَنِبُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فِي عِيدِهِمْ‘‘([2])
(اللہ كےدشمنوں سےان كی عيدوں ميں اجتناب كيا كرو)۔
اور امام بيہقی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے جيد سند كےساتھ روايت كيا ہے كہ انہوں نےفرمایا:
’’من مَرَّ ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة‘‘([3])
(جو كوئی بھی عجميوں كےملك سےگزرا اور اس نےان كے نيروز اور مہرجان([4]) كےجشن منائے اورموت تك ان سےمشابہت اختيار كئے رکھی تو وہ روز قيامت بھی ان كےساتھ اٹھايا جائےگا )۔
[1] السنن الکبری للبیھقی 9/234۔
[2] السنن الکبری للبیھقی 9/234۔
[3] السنن الکبری للبیھقی 9/234 میں یہ الفاظ ہیں: ’’مَنْ بَنَى بِبِلادِ الأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ، حَتَّى يَمُوتَ، وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘۔
[4] جسے فارسی مجوس اور ایرانی مناتے ہیں۔
#کرسمس کی مبارکباد دینا
شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر ابن القیم الجوزیہ رحمہ اللہ المتوفی سن 751ھ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: أحكام أهل الذمة 1/723-724
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/christmas_mubarakbad_dayna.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام ابن القیم رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’أحكام أهل الذمة‘‘ میں فرماتے ہیں:
کافروں کے مخصوص شعائر وتہواروں میں انہیں مبارکباد دینا حرام ہے جیسے ان کی عید یاان کے روزوں کے موقع پر کہنا کہ آپ کو عید مبارک ہو وغیرہ ۔ ایسا کام کرنے والے پر اگرچہ کفر کا فتوی نہ بھی لگے لیکن پھر بھی بہرحال یہ محرمات میں سے تو ہے۔ یہ تو ایسا ہے کہ جیسے کسی کو صلیب کو سجدہ کرنے پر مبارکباد دی جائے اور ایسی مبارکباد تو کسی کو شراب نوشی، ناحق قتل کرنے اور زنا کرنے پر مبارکباد دینے سے بھی بدتر فعل ہے۔ لیکن بہت سے ایسے لوگ جودین کو کوئی وقعت نہیں دیتے اس قسم کے امور میں واقع ہوتے ہیں، اور اپنے اس فعل کی قباحت تک سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ چناچہ جس شخص نے بھی کسی بندے کو گناہ، بدعت یا کفر پر مبارکباد دی تو گویا اس نے اللہ کے غیض وغضب کا اپنے آپ کو حقدار ٹھہرا لیا۔
مزید فرماتے ہیں:
اہل علم كا اتفاق ہے كہ مسلمانوں كےليے مشركوں كی عيدوں ميں شركت كرنا جائزنہيں ہے، اور مذاہب اربعہ كےفقہاء نےبھی اپنی كتب ميں اس كی صراحت كی ہے…. اور امام بيہقی " نےصحيح سند كےساتھ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روايت كيا ہے كہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےكہا:
’’وَلا تَدْخُلُوا عَلَى الْمُشْرِكِينَ فِي كَنَائِسِهِمْ يَوْمَ عِيدِهِمْ، فَإِنَّ السَّخْطَةَ تَنْزِلُ عَلَيْهِمْ‘‘([1])
(مشركوں كی عيد كےدن ان كےگرجا گھروں(چرچ) ميں مشركوں كےپاس نہ جاؤ كيونكہ ان پر(اللہ کی) ناراضگی اور غصہ نازل ہوتا ہے)۔
اورسیدنا عمر رضی اللہ عنہ كا يہ بھی قول ہےكہ:
’’اجْتَنِبُوا أَعْدَاءَ اللَّهِ فِي عِيدِهِمْ‘‘([2])
(اللہ كےدشمنوں سےان كی عيدوں ميں اجتناب كيا كرو)۔
اور امام بيہقی رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے جيد سند كےساتھ روايت كيا ہے كہ انہوں نےفرمایا:
’’من مَرَّ ببلاد الأعاجم فصنع نيروزهم ومهرجانهم وتشبه بهم حتى يموت وهو كذلك حشر معهم يوم القيامة‘‘([3])
(جو كوئی بھی عجميوں كےملك سےگزرا اور اس نےان كے نيروز اور مہرجان([4]) كےجشن منائے اورموت تك ان سےمشابہت اختيار كئے رکھی تو وہ روز قيامت بھی ان كےساتھ اٹھايا جائےگا )۔
[1] السنن الکبری للبیھقی 9/234۔
[2] السنن الکبری للبیھقی 9/234۔
[3] السنن الکبری للبیھقی 9/234 میں یہ الفاظ ہیں: ’’مَنْ بَنَى بِبِلادِ الأَعَاجِمِ وَصَنَعَ نَيْرُوزَهُمْ وَمِهْرَجَانَهُمْ وَتَشَبَّهَ بِهِمْ، حَتَّى يَمُوتَ، وَهُوَ كَذَلِكَ حُشِرَ مَعَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ‘‘۔
[4] جسے فارسی مجوس اور ایرانی مناتے ہیں۔