Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.3K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Busying #Ummah in #politics instead of calling towards #Tawheed and #rectification – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#امت کو #دعوتِ_توحید واصلاح کے بجائے #سیاسی_عمل میں لگائے رکھنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحيد أولاً يا دعاة الإسلام
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/04/dawat_tawheed_islah_bajae_siyasat.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
لہذا یہ نتیجہ ہے آج اسلام میں اس شدید غربت (اجنبیت) کا جو دور اول میں نہ تھی، بلاشبہ دور اول میں اجنبیت صریح شرک اور ہر شبہہ سے خالی خالص توحید کے درمیان تھی، کھلم کھلا کفر اور ایمان صادق کے درمیان تھی، جبکہ آج خود مسلمانوں کے اندر ہی مشکلات پائی جاتی ہیں کہ ان میں سے اکثر کی توحید ہی ملاوٹوں سےاٹی ہوئی ہے، یہ اپنی عبادات غیراللہ کے لئے ادا کرتے ہیں پھر بھی دعویٰ ایمان کا ہے۔ اولاً اس مسئلے پر متنبہ ہونا ضروری ہے، ثانیاً یہ جائز نہیں کہ بعض لوگ یہ کہیں کہ ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اب توحید کے مرحلے سے آگے نکل کردوسرے مرحلے میں منتقل ہوجائیں یعنی سیاسی عمل کا مرحلہ!! کیونکہ اسلام کی دعوت سب سے پہلے دعوت حق ہے، جائز نہیں کہ ہم یہ کہیں ہم عرب ہیں اور قرآن مجید ہماری زبان میں نازل ہوا ہے، حالانکہ یاد رکھیں کہ آج کے عربوں کا معاملہ عربی زبان سے دوری کے سبب ان عجمیوں سے بالکل برعکس ہوگیا ہے جو عربی سیکھتے ہیں، پس اس بات نے انہیں ان کے رب کی کتاب اور ان کے نبی ﷺ کی سنت سے دور کردیا۔ بالفرض ہم عربوں نے صحیح طور پر اسلام کافہم حاصل اگر کر بھی لیا ہےتب بھی ہم پر واجب نہیں کہ ہم سیاسی عمل میں حصہ لینا شروع کردیں، اور لوگوں کو سیاسی تحریکوں سے وابستہ کریں، اور انہیں جس چیز میں مشغول ہونا چاہیے یعنی اسلام کےعقیدے، عبادت، معاملات اور سلوک کا فہم حاصل کرناسے ہٹا کر سیاست میں مشغول رکھیں۔ مجھے نہیں یقین کے کہیں ایسےلاکھوں کی تعداد میں لوگ ہوں جنہوں نے اسلام کا صحیح فہم یعنی عقیدے، عبادت اور سلوک میں حاصل کیا ہو اور اسی پر تربیت پائی ہو۔
تبدیلی کی بنیاد منہج تصفیہ وتربیہ
اسی وجہ سے ہم ہمیشہ یہ کہتے چلے آئے ہیں اور انہی دو اساسی نکتوں پر جو تبدیلی وانقلاب کا قاعدہ ہیں پر ہمیشہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں، اور وہ دو نکات تصفیہ (دین کو غلط باتوں سے پاک کرنا) اور تربیہ(اس پاک شدہ دین پر لوگوں کی تربیت کرنا) ہیں۔ان دونوں امور کو یکجا کرنا ضروری ہے تصفیہ اور تربیہ، کیونکہ اگر کسی ملک میں کسی طرح کا تصفیہ کا عمل ہوا جو کہ عقیدے میں ہے تو یہ اپنی حد تک واقعی ایک بہت بڑا اور عظیم کارنامہ ہےجو اتنے بڑے اسلامی معاشرے کے ایک حصہ میں رونما ہوا، لیکن جہاں تک عبادت کا معاملہ ہے تو اسے بھی مذہبی تنگ نظری سے پاک کرکے سنت صحیحہ کی جانب رجوع کا عمل ہونا چاہیے۔ ایسے بڑے جید علماء کرام ہوسکتا ہے موجود ہوں جو اسلام کا ہر زاویے سے صحیح فہم رکھتے ہوں مگر میں یہ یقین نہیں رکھتا کہ ایک فرد یا دو، تین یا دس بیس افراد اس تصفیے کے واجب کو ادا کرپائیں۔ تصفیہ کرنا (پاک کرنا) اسلام کو ہر اس چیز سے جو اس میں در آئی ہےخواہ وہ عقیدے میں ہو یا عبادت وسلوک میں۔ محض کچھ افراد کی یہ استطاعت نہیں کہ وہ اسلام سے جڑی ہر غلط چیز کا تصفیہ کرکے اور اپنے اردگرد کے لوگوں کی اس پر صحیح وسلیم تربیت کرکے سرفراز ہوسکیں۔ اسی لئے تصفیہ وتربیہ کا عمل آج مفقود ہے۔
چناچہ ان دو اہم باتوں ونکات کو متحقق کرنے سے پہلے کسی بھی اسلامی معاشرے میں جہاں شریعت کا نفاذ نہ ہو وہاں کسی سیاسی تحریک میں حصہ لینا برے اثرات مرتب کرنے کا پیش خیمہ ہوگا۔ ہاں! نصیحت وخیر خواہی کرنا سیاسی تحریک کی جگہ لے سکتا ہے کسی بھی ایسے ملک میں جہاں شریعت کی تحکیم ہو (خفیہ) مشورہ دینے کے ذریعہ یا پھر الزامی و تشہیری زبان استعمال کرنے سے پرہیز کرتے ہوئےشرعی ضوابط کے تحت بطور احسن ظاہر کرنے کے ذریعہ، پس حق بات کو پہنچا دینا حجت کو تمام کرتا ہے اور پہنچا دینے والے کو برئ الذمہ کرتا ہے۔
نصیحت وخیر خواہی میں سے یہ بھی ہے کہ ہم لوگوں کو اس چیز میں مشغول کریں جو انہیں فائدہ پہنچائے جیسے عقائد، عبادت، سلوک اور معاملات کی تصحیح،ہوسکتا ہے بعض لوگ یہ گمان کرتے ہوں کہ ہم تصفیہ وتربیہ کو تمام کے تمام اسلامی معاشروں میں نافذ ہوجانے کی امید رکھتے ہیں! ہم تو یہ بات نہ سوچتے ہیں اور نہ ہی ایسی خام خیالی میں مبتلا ہیں، کیونکہ ایسا ہوجانا تو محال ہے؛ اس لئے بھی کہ اللہ تعالی نے قرآن حکیم میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ:
﴿وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّلَا يَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِيْنَ ﴾ (ھود: 118)
(اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک ہی امت بنادیتا مگر یہ لوگ ہمیشہ اختلافات میں ہی رہیں گے)
البتہ ان لوگوں پر ہمارے رب تعالی کا یہ