Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.29K subscribers
2.49K photos
52 videos
211 files
4.94K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
#ہلاک ہونے والے #فرقوں سے #خبردار کرنا اور #نجات پانے والی #کامیاب #جماعت کی #حقیقت کا #بیان
#halaq hone walay #firqo say #khabardar karna aur #nijaat panay wali #kamyaab #jamat ki #haqeeqat ka #bayan
#مذہب_سلف
#احادیث
شیخ علی بن یحیی #الحدادی
#madhab_e_salaf
#ahadeeth
shaykh ali bin yahyaa #al_haddaadee
#SalafiUrduDawah
#جماعۃ_المسلمین اور ان کے #امام کو لازم پکڑنے سے متعلق شکوک وشبہات پھیلانے والے #اساتذہ و #خطباء - شیخ صالح #الفوزان
#jamat_ul_muslimeen aur un k #imaam ko lazim pakarne say mutaliq shukook shubhaat phelanay walay #asatiza #khutabah - shaykh saaleh #al_fawzaan
[Urdu Article] Ruling regarding those #callers who claim the absence of #Jamat_ul_Muslimeen and their leader - Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool

ایسے #داعیان کا حکم جو #جماعۃ_المسلمین اور ان کے امام کو مفقود مانتے ہيں

فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ

(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: على جدران الفيسبوك (الأصدار الأول) خطر فى بالي 26۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/daeeyaan_jamat_ul_muslimeen_imaam_mafqood.pdf

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

وہ لوگ جو ایسے لوگوں پر رد نہيں کرنا چاہتے جو بس دعوت کی طرف منسوب ہوجائيں (کہ یہ داعی ہیں) تو وہ اس بات پر متنبہ نہيں ہيں کہ داعیان کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں:

1- ایک قسم وہ جو لوگوں کو ہدایت و بصیرت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں، اور انہیں لے کر صراط مستقیم پر چلتے ہیں۔

2- یا جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہوتے ہيں، جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔

اور یہ جو دوسری قسم ہے وہ ہماری ہی جیسی چمڑی والے ہوں گے، لہذا وہ اہل اسلام کی طرف منسوب ہوں گے، بلکہ ہوسکتا ہے ان کی جلد کا رنگ بھی ہماری جلدوں کی طرح ہو، لیکن وہ جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہوں گے کہ جو بھی ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔

اور اس بات کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی جب آپ نے ایک لکیر کھینچی اور اس لمبی لیکر کے دائیں بائیں کچھ چھوٹی لکیرں کھینچیں، پھر اس طویل لکیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرمائی:

﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (الانعام: 153)‘‘

(اور بے شک یہ میری سیدھی راہ ہے اس کی پیروی کرو، اور اسے چھوڑ کر دوسری راہوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس (اللہ) کی راہ سے دور کردیں گی، جس کا تاکیدی حکم اس نے تمہیں دیا ہے، تاکہ تم بچ جاؤ)

اور فرمایا:

” وَهَذِهِ السُّبُلُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ، مَنْ تَبِعَهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ وَمَنْ تَبِعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ “([1])

(اور یہ جو مختلف راستے ہيں ان میں سے ہر ایک پر شیطان ہے (جو اپنی طرف بلا رہا ہے)، جس نے اس کی پیروی کی وہ جہنم میں داخل ہوا، اور جس نے میری پیروی کی وہ جنت میں داخل ہوا)۔

ان کی دعوت کا محور یہی ہے کہ: حکمرانوں پر خروج اور ان کی سمع و طاعت سےنکل جانے کی دعوت، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حذیفہ t نے ان داعیان کے بارے میں سنا کہ جو ہماری ہی جیسی چمڑی والے ہوں گے، تو (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی:

’’فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ“([2])

(آپ مجھے کیا حکم دیتے ہيں اگر میں ایسے حالات پالوں؟ فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا)۔

اور ایک روایت میں ہے:

’’اسْمَعْ وَأَطِعْ، وَإِنْ جَلَدَ ظَهْرَكَ، وَأَخَذَ مَالَكَ“([3])

(سنو اور فرمانبرداری کرو، اگرچہ وہ تمہاری کمر پر کوڑے برسائے اور تمہارا مال چھین لے)۔

گمراہی کے داعیان کے مقابلے میں یہ جواب ایک دواء اور وصیت ہے ۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی دعوت اس وصیت کے برعکس ہے، چناچہ ان کی دعوت جماعت سے مفارقت اختیار کرنے اور سمع و طاعت کو ترک کرنے کی دعوت ہے۔

لہذا داعیان یعنی باطل کے داعیان پر رد کرنا جو کہ لوگوں کو جماعت سے علیحدگی کی دعوت دیتے ہیں جس کا نتیجہ آخر میں دین ہی ترک کردینا بنتا ہے، ایسوں پر رد کرنا واجب اور مطلوب ہے۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ: یہ بھی داعیان ہیں (اور تم داعیان دین کا رد کرتے ہو!) کیونکہ ہم نے تو یہ مانا کہ بلاشبہ وہ داعیان ہیں مگر جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہيں۔ پس یا اللہ! سلامتی کا سوال ہے۔



[1] أخرجه الإمام أحمد فى مسنده برقم 4142، وحسنه الشيخ الألباني كما فى المشكاة برقم 166.









[2] أخرجه البخاري برقم 3606، ومسلم برقم 1847.









[3] أخرجه مسلم برقم 1847.