[#SalafiUrduDawah Article] Specifying the day of #Eid to #visit_graves and relatives – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
زندوں یا #مردوں_کی_زیارت کے لیے #عید کے دن کو مخصوص کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہالمتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ 527۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/zindo_murdo_ziyarat_k_liye_eid_makhsoos.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا: ہم نے سنا ہے کہ لوگوں کا عید کے روز ایک دوسرے کی زیارت کرنا بدعت ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کا حکم بیان فرمائیں گے کہ عید کے روز بھائیوں سے ملنا اور جو کچھ عید پر لوگ کرتے ہیں کیسا ہے؟
جواب: ہم نے کئی بار یہ بات دہرائی ہے لہذا یہاں اس کے تکرار کی ضرورت نہیں البتہ اختصارا ہم بیان کرتےہیں کہ: زندوں کا عید کے دن مردوں کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ شریعت کی جانب سے مطلق چیز کو مقید کرنا ہے۔ شارع حکیم صحیح حدیث میں فرماتے ہیں:
’’كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، پس اب ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ’’فَزُورُوهَا‘‘عام ہے۔ اسے کسی خاص زمان ومکان سے مقید کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ نص کو مقید یا مطلق کرنا لوگوں کا وظیفہ نہیں، بلکہ یہ تو رب العالمین کا وظیفہ ہے۔ جس کا مکلف اس نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا ہے، چناچہ فرمایا:
﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ (النحل: 44)
(یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں)
اگر کوئی مطلق نص مقید ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتادیا اور اگر کوئی عام نص مخصص ہو تو وہ بھی بتادیا۔ اور جس کا نہیں بتایا تو نہیں۔ اس لیے جب یہ کہا کہ: ’’أَلَا فَزُورُوهَا‘‘ (تو ان کی زیارت کیا کرو) یعنی مطلق ہے پورے سال میں۔ اس دن اور کسی اور دن میں کوئی فرق نہیں۔ اور نہ ہی کسی وقت سے مقید ہے کہ صبح ہو یا شام، ظہر ہو، دن ورات وغیرہ۔
اسی طرح سے ہم کہتے ہیں کہ: جیسا کہ زندوں کا عیدکے دن مردوں کی زیارت کرنا خاص بات بن جاتی ہے اسی طرح سے زندوں کا زندوں کی بھی زیارت اس دن کرنا خاص بن جاتی ہے۔
اور عید کے دن جو مشروع زیارت ہے صد افسوس کہ اسے چھوڑ دیاگیا ہے جس کا سبب لوگوں کا مختلف متفرق مساجد میں عید نماز کے لیے جانا ہے۔ حالانکہ ان سب پر واجب ہے کہ وہ مصلی(عیدگاہ) میں جمع ہوں۔ اور وہ مصلی شہر سے باہر ہوتا ہے اتنا وسیع کے شہر کے لوگ اس میں آجائيں۔ وہاں وہ ملاقاتیں کریں، حال چال معلوم کریں اور عید کی نماز پڑھیں۔ یہ سنت معطل ہوچکی ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات مداومت فرمائی تھی۔
یہاں پر ایک اور ملاحظہ ہے جس پر ہم سب کا متنبہ ہونا ضروری ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘([2])
(میرے اس مسجد (مسجد نبوی) میں پڑھی گئی نماز اس کے علاوہ کسی بھی مسجد میں پڑھی گئی نماز سے ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے)۔
چناچہ باوجویکہ ان کی مسجد میں پڑھی گئی نماز ہزار گنا افضل ہے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی مسجد سے باہر پڑھا کرتے تھے یعنی مصلی میں، کیوں؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے تمام مسلمانوں کو ایک ایسی وسیع جگہ جمع کرنا چاہتے تھے جو ان سب کو کافی ہوجائے۔ یہ مصلے زمانہ گزرنے کے ساتھ اور لوگوں کا مندرجہ ذیل باتوں سے دوری کے سبب کہ:
اولاً: سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت سے دوری۔
ثانیاً: جو کچھ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں علم ان کے پاس باقی بھی ہو اس سے دوری۔
ثالثاً: اس کی تطبیق اور اس پر عمل کرنے سے دوری۔
وہ اسی بات پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں کہ عید کی نماز مساجد میں ادا کرلیں جیسا کہ وہ نماز جمعہ یا باقی پنج وقتہ فرض نمازیں ادا کرتے ہیں۔ جبکہ سنت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں عید کی نماز مصلی ہی میں ادا فرمائی ہے ایک مرتبہ بھی مسجد میں ادا نہيں فرمائی۔
اب کچھ سالوں سے بعض مسلمانوں نے ان شہروں میں اس سنت کی جانب توجہ کی ہے اور نماز عید مصلی میں پڑھنا شروع کردی ہے۔ لیکن ان پر ایک بات باقی رہ گئی ہے۔ امید ہے کہ شاید لوگوں کا مساجد سے نکل کر عید کی نماز کے لیے اب مصلی کا رخ کرنا اچھی بشارت ہو کہ عنقریب ایسا دن بھی آئے گا جب تمام مسلمان ایک جگہ ج
زندوں یا #مردوں_کی_زیارت کے لیے #عید کے دن کو مخصوص کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہالمتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: سلسلۃ الھدی والنور کیسٹ 527۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/07/zindo_murdo_ziyarat_k_liye_eid_makhsoos.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے سوال ہوا: ہم نے سنا ہے کہ لوگوں کا عید کے روز ایک دوسرے کی زیارت کرنا بدعت ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کا حکم بیان فرمائیں گے کہ عید کے روز بھائیوں سے ملنا اور جو کچھ عید پر لوگ کرتے ہیں کیسا ہے؟
جواب: ہم نے کئی بار یہ بات دہرائی ہے لہذا یہاں اس کے تکرار کی ضرورت نہیں البتہ اختصارا ہم بیان کرتےہیں کہ: زندوں کا عید کے دن مردوں کی زیارت کرنا بدعت ہے کیونکہ یہ شریعت کی جانب سے مطلق چیز کو مقید کرنا ہے۔ شارع حکیم صحیح حدیث میں فرماتے ہیں:
’’كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ أَلَا فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، پس اب ان کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں آخرت کی یاد دلاتی ہیں)۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان: ’’فَزُورُوهَا‘‘عام ہے۔ اسے کسی خاص زمان ومکان سے مقید کرنا جائز نہیں۔ کیونکہ نص کو مقید یا مطلق کرنا لوگوں کا وظیفہ نہیں، بلکہ یہ تو رب العالمین کا وظیفہ ہے۔ جس کا مکلف اس نے اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنایا ہے، چناچہ فرمایا:
﴿وَاَنْزَلْنَآ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ﴾ (النحل: 44)
(یہ ذکر (کتاب) ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں)
اگر کوئی مطلق نص مقید ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتادیا اور اگر کوئی عام نص مخصص ہو تو وہ بھی بتادیا۔ اور جس کا نہیں بتایا تو نہیں۔ اس لیے جب یہ کہا کہ: ’’أَلَا فَزُورُوهَا‘‘ (تو ان کی زیارت کیا کرو) یعنی مطلق ہے پورے سال میں۔ اس دن اور کسی اور دن میں کوئی فرق نہیں۔ اور نہ ہی کسی وقت سے مقید ہے کہ صبح ہو یا شام، ظہر ہو، دن ورات وغیرہ۔
اسی طرح سے ہم کہتے ہیں کہ: جیسا کہ زندوں کا عیدکے دن مردوں کی زیارت کرنا خاص بات بن جاتی ہے اسی طرح سے زندوں کا زندوں کی بھی زیارت اس دن کرنا خاص بن جاتی ہے۔
اور عید کے دن جو مشروع زیارت ہے صد افسوس کہ اسے چھوڑ دیاگیا ہے جس کا سبب لوگوں کا مختلف متفرق مساجد میں عید نماز کے لیے جانا ہے۔ حالانکہ ان سب پر واجب ہے کہ وہ مصلی(عیدگاہ) میں جمع ہوں۔ اور وہ مصلی شہر سے باہر ہوتا ہے اتنا وسیع کے شہر کے لوگ اس میں آجائيں۔ وہاں وہ ملاقاتیں کریں، حال چال معلوم کریں اور عید کی نماز پڑھیں۔ یہ سنت معطل ہوچکی ہے جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری حیات مداومت فرمائی تھی۔
یہاں پر ایک اور ملاحظہ ہے جس پر ہم سب کا متنبہ ہونا ضروری ہے اور وہ یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ‘‘([2])
(میرے اس مسجد (مسجد نبوی) میں پڑھی گئی نماز اس کے علاوہ کسی بھی مسجد میں پڑھی گئی نماز سے ہزار گنا افضل ہے سوائے مسجد الحرام کے)۔
چناچہ باوجویکہ ان کی مسجد میں پڑھی گئی نماز ہزار گنا افضل ہے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی مسجد سے باہر پڑھا کرتے تھے یعنی مصلی میں، کیوں؟ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ کے تمام مسلمانوں کو ایک ایسی وسیع جگہ جمع کرنا چاہتے تھے جو ان سب کو کافی ہوجائے۔ یہ مصلے زمانہ گزرنے کے ساتھ اور لوگوں کا مندرجہ ذیل باتوں سے دوری کے سبب کہ:
اولاً: سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت سے دوری۔
ثانیاً: جو کچھ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں علم ان کے پاس باقی بھی ہو اس سے دوری۔
ثالثاً: اس کی تطبیق اور اس پر عمل کرنے سے دوری۔
وہ اسی بات پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں کہ عید کی نماز مساجد میں ادا کرلیں جیسا کہ وہ نماز جمعہ یا باقی پنج وقتہ فرض نمازیں ادا کرتے ہیں۔ جبکہ سنت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی پوری زندگی میں عید کی نماز مصلی ہی میں ادا فرمائی ہے ایک مرتبہ بھی مسجد میں ادا نہيں فرمائی۔
اب کچھ سالوں سے بعض مسلمانوں نے ان شہروں میں اس سنت کی جانب توجہ کی ہے اور نماز عید مصلی میں پڑھنا شروع کردی ہے۔ لیکن ان پر ایک بات باقی رہ گئی ہے۔ امید ہے کہ شاید لوگوں کا مساجد سے نکل کر عید کی نماز کے لیے اب مصلی کا رخ کرنا اچھی بشارت ہو کہ عنقریب ایسا دن بھی آئے گا جب تمام مسلمان ایک جگہ ج
[#SalafiUrduDawah Article] Types and rulings of the people who #visit_graves - Shaykh Muhammad bin Saaleh #Al_Uthaimeen
#قبروں_کی_زیارت پر جانے والوں کی اقسام واحکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب (نصیۃ): التوحید والعقیدۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/qabro_ziyarat_aqsaam_ahkaam.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: بارک اللہ فیکم۔ کیا ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز ہے جو مزاروں پر جاتا ہے اور ان سے تبرک حاصل کرتا ہے، وسیلہ بناتا ہے، اور کیا اس کے پیچھے نماز جائز ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب: دراصل مزاروں پرجانے والوں کی کچھ اقسام ہیں:
پہلی قسم: جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ اسے پکارتے ہیں، پناہ طلب کرتے ہیں، مدد طلب کرتے ہیں، اور اس سے رزق طلب کرتے ہيں تو ایساکرنے والے شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہیں۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی نماز میں امامت کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا﴾ (النساء: 116)
(بے شک اللہ تعالی اس بات کو نہیں معاف کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے البتہ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے، اور جس نے اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا)
ایک اور آیت میں ہے:
﴿ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ﴾ (النساء: 48)
(یقیناً اس نے بہت عظیم گناہ اور بہتان باندھا)
دوسری قسم: وہ لوگ جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعاء کریں گے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ اس کے پاس دعاء کرنا مسجد یا اپنے گھر میں دعاء کرنے سے افضل ہے اور بلاشبہ یہ گمراہی، غلطی اور جہالت ہے لیکن یہ کفر کی حد تک نہیں پہنچتی ، کیونکہ وہ خالص اللہ تعالی سے دعاء کے لیے گیا تھا مگر اس کا یہ گمان تھا کہ اس قبر پر اس کا دعاء کرنا افضل ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔
تیسری قسم: جو قبروں کا طواف اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے کرتا ہے یہ سوچ کرکہ یہ صاحب قبر اولیاء اللہ میں سے ہے اور ان کی تعظیم کرنا دراصل اللہ تعالی ہی کی تعظیم ہے تو ایسا شخص بدعتی ہے مگر شرک اکبر کرنے والا مشرک نہیں کیونکہ وہ صاحب قبر کی تعظیم کے لیے طواف نہیں کررہا بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے طواف کررہا ہے ۔ لیکن اگر وہ واقعی صاحب قبر کی تعظیم میں طواف کرے تو قریب ہے کہ وہ شرک اکبر والا مشرک بن جائے گا۔
چوتھی قسم: جو قبروں پر شرعی زیارت کے لیے جاتا ہے اور فوت شدگان کے لیے دعاء کرتا ہےتو یہ شرعی زیارت ہے جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(بلاشبہ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، لیکن اب ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ بے شک یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گی)۔
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع قبرستان جاکر فوت شدگان کے لیے دعاء مانگا کرتے تھے۔ اور اس زیارت کے دوران جو دعاء مستحب ہے وہ یہ ہے کہ:
’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَمِنكُم وَالْمُسْتَأْخِرِينَ و نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ وَ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُم‘‘([2])
(مومن قوم کی آرام گاہ تم پر سلامتی ہو، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے گزرے ہوؤں اور پیچھے رہ جانے والوں پر رحم فرمائیں، اور ہم اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ کرنا اور ان کے جانے کے بعد ہمیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کرنا، اور ہماری اور ان کی بخشش فرمادے)۔
#قبروں_کی_زیارت پر جانے والوں کی اقسام واحکام
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح #العثیمین رحمہ اللہ المتوفی سن 1421ھ
(سابق سنئیر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوی نور علی الدرب (نصیۃ): التوحید والعقیدۃ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/11/qabro_ziyarat_aqsaam_ahkaam.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: بارک اللہ فیکم۔ کیا ایسے شخص کا ذبیحہ کھانا جائز ہے جو مزاروں پر جاتا ہے اور ان سے تبرک حاصل کرتا ہے، وسیلہ بناتا ہے، اور کیا اس کے پیچھے نماز جائز ہے، وجزاکم اللہ خیراً؟
جواب: دراصل مزاروں پرجانے والوں کی کچھ اقسام ہیں:
پہلی قسم: جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ اسے پکارتے ہیں، پناہ طلب کرتے ہیں، مدد طلب کرتے ہیں، اور اس سے رزق طلب کرتے ہيں تو ایساکرنے والے شرک اکبر کے مرتکب مشرک ہیں۔ نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ ہی نماز میں امامت کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاءُ ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا﴾ (النساء: 116)
(بے شک اللہ تعالی اس بات کو نہیں معاف کرتا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کیا جائے البتہ اس کے سوا جو گناہ ہیں وہ جس کے لیے چاہتا ہے معاف فرمادیتا ہے، اور جس نے اللہ تعالی کے ساتھ شریک ٹھہرایا تو وہ بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا)
ایک اور آیت میں ہے:
﴿ فَقَدِ افْتَرٰٓى اِثْمًا عَظِيْمًا ﴾ (النساء: 48)
(یقیناً اس نے بہت عظیم گناہ اور بہتان باندھا)
دوسری قسم: وہ لوگ جو مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ قبر کے پاس اللہ تعالی سے دعاء کریں گے یہ عقیدہ رکھتے ہوئے کہ اس کے پاس دعاء کرنا مسجد یا اپنے گھر میں دعاء کرنے سے افضل ہے اور بلاشبہ یہ گمراہی، غلطی اور جہالت ہے لیکن یہ کفر کی حد تک نہیں پہنچتی ، کیونکہ وہ خالص اللہ تعالی سے دعاء کے لیے گیا تھا مگر اس کا یہ گمان تھا کہ اس قبر پر اس کا دعاء کرنا افضل ہے اور قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔
تیسری قسم: جو قبروں کا طواف اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے کرتا ہے یہ سوچ کرکہ یہ صاحب قبر اولیاء اللہ میں سے ہے اور ان کی تعظیم کرنا دراصل اللہ تعالی ہی کی تعظیم ہے تو ایسا شخص بدعتی ہے مگر شرک اکبر کرنے والا مشرک نہیں کیونکہ وہ صاحب قبر کی تعظیم کے لیے طواف نہیں کررہا بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی تعظیم کے لیے طواف کررہا ہے ۔ لیکن اگر وہ واقعی صاحب قبر کی تعظیم میں طواف کرے تو قریب ہے کہ وہ شرک اکبر والا مشرک بن جائے گا۔
چوتھی قسم: جو قبروں پر شرعی زیارت کے لیے جاتا ہے اور فوت شدگان کے لیے دعاء کرتا ہےتو یہ شرعی زیارت ہے جس کا حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُكُمْ الْآخِرَةَ‘‘([1])
(بلاشبہ میں تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا کرتا تھا، لیکن اب ان کی زیارت کیا کرو کیونکہ بے شک یہ تمہیں آخرت کی یاد دلائیں گی)۔
اور خود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بقیع قبرستان جاکر فوت شدگان کے لیے دعاء مانگا کرتے تھے۔ اور اس زیارت کے دوران جو دعاء مستحب ہے وہ یہ ہے کہ:
’’السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ يَرْحَمُ اللَّهُ الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنَّا وَمِنكُم وَالْمُسْتَأْخِرِينَ و نَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُمْ، وَلَا تَفْتِنَّا بَعْدَهُمْ وَ اغْفِرْ لَنَا وَلَهُم‘‘([2])
(مومن قوم کی آرام گاہ تم پر سلامتی ہو، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں، اللہ تعالی ہمارے اور تمہارے گزرے ہوؤں اور پیچھے رہ جانے والوں پر رحم فرمائیں، اور ہم اللہ تعالی سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں، اے اللہ! ہمیں ان کے اجر سے محروم نہ کرنا اور ان کے جانے کے بعد ہمیں کسی فتنے میں مبتلا نہ کرنا، اور ہماری اور ان کی بخشش فرمادے)۔