Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.15K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] The one who doesn’t accept #the_messenger (SalAllaho alayhi wasallam) as a human being – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
جو شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو #بشر نہ سمجھے اس کا حکم؟ (#نبی_بشر_نہیں بلکہ #نور_من_نور_اللہ ہیں کا عقیدہ)
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ کی ویب سائٹ سے فتوی رقم 1801، مجموع فتاوى ومقالات متنوعة الجزء الخامس۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/jo_nabi_ko_bashar_na_manay.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اگر کوئی ایسا شخص فوت ہوجاتا ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں، اور وہ عالم الغیب ہیں اور یہ کہ زندہ وفوت شدگان اولیاء کا وسیلہ پکڑنا اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنا ہے۔ کیا ایسا شخص جہنم میں جائے گا اور مشرک متصور ہوگا۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ وہ اس عقیدے کے علاوہ اور کوئی عقیدہ جانتا ہی نہیں اور ایسے علاقے میں رہا کہ جہاں کہ تمام علماء وباشندے یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟ اور ایسے شخص کی وفات کے بعد اس کی طرف سے صدقہ کرنے یا احسان کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب: جو کوئی اس عقیدے پر فوت ہوتا ہے کہ سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بشر نہیں تھے یعنی کہ وہ بنی آدم میں سے نہ تھے۔ یا یہ عقیدہ رکھے کہ وہ عالم الغیب ہیں۔ تو ایسا عقیدہ کفر ہے اور ایسا عقیدہ رکھنے والا کفر اکبر کا مرتکب کافر ہے([1])۔ اسی طرح سے اگر وہ انہیں پکارتا ہے، ان سے فریاد کرتا ہے، ان کے یا کسی اور انبیاء وصالحین یا جن وفرشتے واصنام کے نام کی نذرونیاز کرتا ہےتو یہ سب اولین مشرکین کے اعمال ہیں جیسے ابوجہل اور اس جیسے دیگر مشرکین، اور یہ سب شرک اکبر ہے۔ اور بعض لوگ ان کو شرک بطور وسائل شرک کے قرار دیتے ہیں یعنی جو (براہ راست) شرک اکبر نہیں ہوتے۔
جیسے اس وسیلے کی ایک دوسری قسم ہے جو شرک نہیں بلکہ بدعت ہے اور شرک کے وسائل میں سے ہے اور وہ انبیاء وصالحین کی جاہ ومرتبت یا انبیاء وصالحین کے حق یا ان کی ذات کے حق کے وسیلے سے اللہ تعالی سے دعاء کرنا ہے۔ واجب ہےکہ ہم ان دونوں اقسام سے بچیں۔
جو پہلی قسم پر فوت ہو تو نہ اسے غسل دیا جائے، نہ اس کا جنازہ پڑھا جائے، اور نہ ہی اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔ نہ ہی اس کے لیے دعاء کی جائے اور نہ ہی اس کی طرف سے صدقہ کیا جائے، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ﴾ (التوبۃ: 113)
(نبی کے لیے اور جو ایمان لائے ان کےلیے کبھی بھی یہ جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعاء مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس بات کےظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ بے شک جہنمی ہیں)
جبکہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات اور اس کی توحید وایمان کا توسل اختیار کرنا جائز وشرعی توسل ہے اور دعائوں کی قبولیت کے اسباب میں سے ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے اسماءِ حسنیٰ ہیں پس تم اسے انہی سے پکارو اور دعاء کرو)
اور جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو یہ دعاء کرتے ہوئے سنا :
’’اللهم إني أسألك بأنك أنت الله لا إله إلا أنت الفرد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا أحد‘‘ (اے اللہ میں بے شک تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ بلاشبہ تو ہی اللہ ہے کہ تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، اکیلا ہے، بے نیاز ہے، کہ جس نے نہ کسی کو جنا اور نہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہمسر ہے)
اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
’’لقد سأل الله باسمه الذي إذا سئل به أعطى، وإذا دعي به أجاب‘‘([2])
(یقیناً اس نے اللہ تعالی کے اس نام کے ساتھ سوال کیا ہے کہ جس کے ذریعہ اگر سوال کیا جائے تو وہ عطاء کرتا ہے، اور اگر دعاء کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے)۔