Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.15K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Book] Etiquettes of seeking the #knowledge_of_creed and questions & answers regarding #Emaan and #Kufr - Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan

#علمِ_عقیدہ کی تحصیل کے آداب مع #کفر و #ایمان کے متعلق اہم سوال وجواب

فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ

(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)

ترجمہ: طارق علی بروہی

مصدر: أسئلة وأجوبة في مسائل الإيمان والكفر۔

پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مضامین

علمِ عقیدہ کی تحصیل کے آداب

فی زمانہ ان آداب کی مخالفت

کفر وارتداد کیا ہے؟

کیا عمل ایمان کے کمال کی شرط ہے اصل ایمان کی نہیں،

کیا کفر محض اعتقاد ہی کے ذریعہ ممکن ہے

کیا عمل ایمان کا جزء یا رکن ہے یا کمال کی شرط ہے

مرجئہ کی اقسام اور ایمان کے متعلق ان کے اقوال

مرجئۃ الفقہاء کا اہل سنت کے ساتھ اختلاف دلی اعمال سے متعلق ہے یا جوارح کے اور کیا یہ محض لفظی اختلاف ہے یہ معنوی

اعمال کو کلی طورپر چھوڑ دینے والے کا کیا حکم ہے

جو ایمان کی سلفی تعریف کا قائل ہو مگر کفر کو محض اعتقاد یا انکار تک محصور کہے

کیا استہزاء بالدین کے لئے بھی دلی عقیدے کا اعتبار ہوگا

جو صرف مال ودنیا کمانے کے لئے اللہ ورسول کو گالی دیتا ہے

کیاقبرپرست مشرکین ہیں

کیا غیراللہ سے مدد مانگنے والے کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے

"بلاعمل کے بھی جنت میں داخلہ ممکن ہے" کہنے والوں کی دلیل

کیا مسلم معاشرے میں رہ کر بھی غیراللہ کو پکارنے والا مشرک ہے

کیا اقامتِ حجت کے لئے حجت کا واضح فہم ہوجانا شرط ہے

شیخ الاسلام ابن تیمیہ  کی مانعینِ زکوۃ کی تکفیر کو کس پر محمول کیا جائے گا

تشریع ِعام کاحکم

کیا "جنس العمل" کا تارک کافر ہے

کیا جہمیہ کافر ہیں

کیا سلف سے تکفیرِ معین منقول ہے

عقیدے سے متعلق بعض اصطلاحات کا معنی

جو کافر کو کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر!

کیا نصاری کی بھی عام تکفیر نہیں کی جاسکتی

لا الہ الا اللہ کی شروط بیان کرنے کی کیا دلیل ہے

حالتِ اکراہ میں کلمۂ کفر کہنے کی حقیقت

موالات کفار (کافروں سے دوستی )کا حکم

وحید وشرک اور ایمان وکفر کے مسائل میں نظم وضبط قائم رکھنے کے بارے میں طالبعلموں کو نصیحت

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/emaan_kufr_sawaal_jawaab_fawzaan.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] A person can be #Kharijee in spite of having immense #knowledge, 'Ibaadah and asceticism – Imaam Shams-ud-Deen #Ad_Dhahabi
عبادت، #علم وزہد کے باوجود ایک شخص #خارجی ہوسکتا ہے
أبو عبد الله شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان #الذھبي رحمہ اللہ المتوفی سن 748ھ
ترجمہ وترتیب: طارق علی بروہی
مصدر: "سير أعلام النبلاء" بعض ترامیم، اختصار اور اضافہ جات کے ساتھ ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/01/ibaadah_ilm_zuhd_bawajod_kharijee.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
امام محمد بن عثمان الذھبی رحمہ اللہ اپنی تاریخ وسوانح پر لکھی گئی مشہور کتاب ’’سير أعلام النبلاء‘‘ ج 7 ص 362 ط مؤسسة الرسالة، الطبقة السابعة، الحسن بن صالح میں فرماتے ہیں:
ابن صالح بن حی، اور حی کا نام: حَيَّانُ بْنُ شُفَيِّ بْنِ هُنَيِّ بْنِ رَافِعٍ تھا۔ بہت بڑے امام تھے، قدآور شخصیات میں سے ایک، ابو عبداللہ الہمدانی الثوری الکوفی، فقیہ وعابد تھے، امام علی بن صالح کے بھائی تھے۔
پھر امام الذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’هُوَ مِنْ أَئِمَّةِ الْإِسْلَامِ، لَوْلَا تَلَبُّسُهُ بِبِدْعَةٍ‘‘
(آپ آئمہ اسلام میں سے ہوتے اگر وہ اس بدعت (حکمران کے خلاف خروج کو جائز سمجھنا) میں ملوث نہ ہوتے)۔
وکیع فرماتے ہیں: ان کی ولادت سن 100ھ میں ہوئی۔
بخاری فرماتے ہیں کہ ابو نعیم نے فرمایا: الحسن بن صالح کی وفات سن 169ھ میں ہوئی۔
الذہبی فرماتے ہیں: ان کی عمر 69 برس تھی، یہ اور ان کے بھائی جڑواں تھے۔
یہ اپنے علم وعبادت میں بہت مشہور تھے۔
آئمہ سلف کے دور میں بہت سے آئمہ کے ہم عصر تھے جیسے امام سفیان الثوری رحمہ اللہ وغیرہ، اور احادیث کے راویو ں میں سے تھے۔
بلکہ ابن نعیم فرماتے ہیں کہ مجھ سے الحسن بن صالح نے بھی حدیث بیان کی ہیں اور وہ ورع وقوت میں سفیان الثوری سے کم نہيں تھے۔
(میزان الاعتدال للذھبی، ج 1 ص 496)
یہاں تک کہ امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ جو جرج وتعدیل میں شدت اپنانے میں معروف تھے ان تک نے فرمایا:
’’آپ ثقہ حافظ اور متقن ہیں‘‘۔
اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نےبھی ثقہ لکھا ہے۔
خشیت اور آہ وبکاء کا یہ عالم تھے کہ یحیی بن ابی بکیر فرماتے ہیں:
’’ان سے فرمایا گیا غسل میت بیان کیجئے، تو وہ رونے کی شدت کی وجہ سے صحیح طور پر بیان ہی نہيں کرپائے‘‘۔
ان کے چہرے پر خشیت کے آثار رہتے، ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں:
’’میں نے کسی کے چہرے پر خوف وخشیت کو اتنا ظاہر نہيں پایا جتنا الحسن بن صالح پر دیکھا‘‘۔
زہد وقناعت پسندی کا یہ حال تھا کہ خود فرماتے ہيں:
’’کبھی کبھار میں صبح کرتا ہوں اس حال میں کہ میرے پاس ایک درہم بھی نہيں ہوتا، تو مجھے لگتا ہے گویا کہ ساری دنیا کی خوشیاں میرے لیے سمٹ آئی ہيں‘‘۔
تقویٰ وورع ایسا کہ ایک مرتبہ ایک لونڈی فروخت کررہے تھے تو جو شخص اسے خریدنا چاہتا تھا اس کو یہ تک بتایا کہ ایک بار کبھی اس نے ہمارے پاس خون کی الٹی تھی۔
ایک مرتبہ یہ آیت ان کے سامنے تلاوت ہوئی : ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ﴾ (الانبیاء: 103) (انہیں سب سے بڑی گھبراہٹ غمگین نہ کرے گی) تو ان کا چہرہ خوف کے مارے کبھی سبز کبھی زرد ہورہا تھا۔
انہی کے بارے میں روایت کی جاتی ہے کہ جب وہ قبرستان کو دیکھتے تو چیختے اور بیہوش ہوجاتے۔
اسی طرح بازار والوں کو بھی دیکھ کر روتے کہ یہ لوگ اسی چیز میں مگن ہیں اور موت انہيں اچانک آجائے گی۔
جعفر بن محمد بن عبید اللہ بن موسیٰ نے فرمایا، میں نے اپنے دادا سےسنا انہوں نے فرمایا:
میں علی بن صالح پر قرآن پڑھ رہا تھا جب میں اس آیت پر پہنچا: ﴿فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ﴾ (مریم: 84) (پس آپ ان کے بارے میں جلدی نہ کریں) تو الحسن گر گیا اور ایسی آوازیں نکالنے لگا جیسے بیل کی آواز ہوتی ہے، تو علی اس کی طرف کھڑے ہوئے، اسے اٹھایا، اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا، پانی کے چھینٹے ماریں اور اسے ٹیک دے کربٹھایا۔
قرآن مجید پر بہت غوروتدبر کیا کرتے یہاں تک کہ ایک دفعہ وہ قیام اللیل کررہے تھے کہ سورۃ النباء شروع کی اور ان پر غشی طاری ہوگئی، یہاں تک کہ فجر طلوع ہوگئی اور وہ سورۃ مکمل نہ کرپائے۔
قیام اللیل کی پابندی کرتے یہاں تک کہ وہ ان کا بھائی اور ان کی والدہ قیام اللیل کو آپس میں تین حصوں میں تقسیم کرلیتے ، جب ان کی والدہ وفات پاگئیں تو اپنے او ربھائی کے درمیان آدھا آدھا کرلیا، اور جب بھائی بھی وفا ت پاگئے تو پوری رات قیام کرنے لگے۔
دنیا سے زہد اور شدت غم اتنا کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
’’میں ان کے پاس بیس برس بیٹھا، میں نے کبھی انہيں آسما ن کی طرف سر اٹھاتے یا دنیا کا ذکر کرتے نہيں پایا‘‘۔
ابو زرعہ الرزای تک فرماتے ہیں کہ:
’’ان کی شخصیت میں اتقان، فقہ، عبادت وزہد سب جمع تھا‘‘۔
اس سب کے باوجود سلف صالحین نے ان کو بدعتی قرار دیا، بعض نے روایات تک لینا ترک کردی، اس شدت سے کہ احمد بن یونس فرماتے ہیں:
[Article] Neither wealthy, nor #knowledge_of_the_unseen, nor an angel – Shaykh-ul-Islaam Imaam Ibn Taymiyyah
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا َعْلَمُ_الْغَيْب
شیخ الاسلام احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ رحمہ اللہ المتوفی سن 728ھ
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مجموع الفتاوى
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/06/qul_la_aqolu_lakum_indi_khazainullaah.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰٓى اِلَيَّ ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں، اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو پیروی نہیں کرتا ہوں مگر صرف اسی کی جو میری طرف وحی کی جاتی ہے)
اسی طرح سے سیدنا نوح علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی فرمایا۔ یعنی جو سب سے پہلے اولوالعزم (بلند حوصلہ) اور سب سے پہلے رسول تھے جنہیں اللہ تعالی نے اہل زمین کے لیے بھیجا انہوں نے، اور خاتم الرسل اور خاتم اولی العزم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دونوں نے اس بات سے برأت کا اظہار فرمایا۔
یہ اس لیے کیونکہ کبھی وہ رسول سے علم غیب کا مطالبہ کرتے، جیسا کہ فرمایا:
﴿وَيَقُوْلُوْنَ مَتٰى هٰذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ﴾ (الملک: 25)
(اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب (پورا) ہوگا، اگر تم سچے ہو؟)
اور:
﴿ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ﴾ (الاعراف: 187)
(وہ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں اس کا وقوع کب ہوگا ؟ کہہ دیجئے اس کا علم تو صرف میرے رب ہی کے پاس ہے)
کبھی (کائنات میں) تاثیر کا مطالبہ کرتے، جیساکہ فرمایا:
﴿وَقَالُوْا لَنْ نُّؤْمِنَ لَكَ حَتّٰى تَفْجُرَ لَنَا مِنَ الْاَرْضِ يَنْۢبُوْعًا، اَوْ تَكُوْنَ لَكَ جَنَّةٌ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّعِنَبٍ فَتُفَجِّرَ الْاَنْهٰرَ خِلٰلَهَا تَفْجِيْرًا، اَوْ تُسْقِطَ السَّمَاءَ كَمَا زَعَمْتَ عَلَيْنَا كِسَفًا اَوْ تَاْتِيَ بِاللّٰهِ وَالْمَلَائِكَةُ قَبِيْلًا، اَوْ يَكُوْنَ لَكَ بَيْتٌ مِّنْ زُخْرُفٍ اَوْ تَرْقٰى فِي السَّمَاءِ ۭ وَلَنْ نُّؤْمِنَ لِرُقِيِّكَ حَتّٰى تُنَزِّلَ عَلَيْنَا كِتٰبًا نَّقْرَؤُهٗ ۭ قُلْ سُبْحَانَ رَبِّيْ هَلْ كُنْتُ اِلَّا بَشَرًا رَّسُوْلًا﴾ (الاسراء: 90-93)
(اور انہوں نے کہا ہم ہرگز آپ پر ایمان نہ لائیں گے، یہاں تک کہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں، یا آپ کےلیے کھجوروں اور انگور کا ایک باغ ہو، پس آپ اس کے درمیان خوب نہریں جاری کردیں، یا آپ آسمان کو ٹکڑے کر کے ہم پر گرا دیں، جیسا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے، یا آپ اللہ اور فرشتوں کو ہی ہمارے سامنے لے آئیں، یا آپ کے لیے سونے کا ایک گھر ہو، یا آپ آسمان میں چڑھ جائیں، اور ہم آپ کے چڑھنے کا بھی ہرگز یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ آپ ہم پر کوئی کتاب اتار لائیں جسے ہم پڑھیں ۔ آپ کہہ دیجئے میرا رب پاک ہے، میں تو ایک بشر کے سوا کچھ نہیں جو رسول ہے)
کبھی بشری حاجتوں اور تقاضوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں عیب گردانتے، جیساکہ فرمایا:
﴿وَقَالُوْا مَالِ ھٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَيَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ ۭ لَوْلَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًا، اَوْ يُلْقٰٓى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا ﴾ (الفرقان: 7-8)
(اور انہوں نے کہا اس رسول کو کیا ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے، اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا کہ اس کے ساتھ ڈرانے والا ہوتا، یا اس کی طرف کوئی خزانہ اتارا جاتا، یا اس کا کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھایا کرتا)
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ انہيں بتادیں کہ بے شک وہ غیب نہيں جانتے، نہ اللہ کے خزانوں کے مالک ہیں، نہ وہ کوئی فرشتے ہيں کہ جو کھانے یا مال سے بے نیاز ہوں، بلکہ وہ تو صرف اور صرف اسی کی پیروی کرتے ہيں جو ان کی طرف وحی کی جاتی ہے، اور جو کچھ ان کی طرف وحی کی جاتی ہے اس کی اتباع ہی دین ہے، اور وہ اللہ تعالی کی اطاعت اور اس کی عبادت ہے علماً وعملاً، باطناً وظاہراً۔
[Article] Does Rasoolullaah (salAllaho alaihi wasallam) have the #knowledge_of_the_unseen? – Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم #عالم_الغیب ہیں؟
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: التوحید أولاً
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
#SalafiUrduDawah

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/kiya_rasool_Allaah_alim_ul_ghaib_hain.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم الغیب ہیں؟ بالکل نہیں، اللہ تعالی نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حکم دیا کہ :
﴿ قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاءَ اللّٰهُ ۭوَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْر ِ ٻ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْءُ ﴾ (الاعراف: 188)
(آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے، اور اگر میں غیب کا علم رکھتا تو بہت سے منافع حاصل کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی نقصان نہ پہنچتا)
اور حکم فرمایا کہ:
﴿ قُلْ لَّآ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَاىِٕنُ اللّٰهِ وَلَآ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَآ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّىْ مَلَكٌ﴾ (الانعام: 50)
(آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ تعالی کے خزانے ہیں، اور نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں، اور نہ یہ کہ میں کوئی فرشتہ ہوں)۔