Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.1K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.9K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] #Ikhwanee #Manhaj surely leads to destruction – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
#اخوانی #منہج اپنانے کا نتیجہ خسارہ ہی ہے
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین #البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: من سلسلة الهدى والنور:609۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/09/ikhwanee_manhaj_apnana_khasara_hai.pdf


سائل: شیخنا حفظکم اللہ، بعض داعیان ایسے ہيں جو نسبت واپنانے کے لحاظ سے عقیدے اور منہج میں فرق کرتے ہیں، پس آپ پائیں گے کہ ا س کا عقیدہ سلفی ہوگا ساتھ ہی پائیں گے کہ دعوت الی اللہ میں اس کا منہج اخوانی تحریکی حزبی سیاسی یا تبلیغی یا اسی طرح کا کچھ ہوگا، تو کیا واقعی ان کے لیے اس کی گنجائش ہے؟
جواب: میرا نہيں خیال کہ کوئی عقیدے وسلوک کے اعتبار سے سلفی ہو تو اس کے لیے یہ ممکن رہے کہ وہ اخوان المسلمین اور ان جیسوں کے منہج کو اپناتا ہو۔ ہم اخوان المسلمین حزبی جماعت کی زندگی کو جانتے ہیں کہ ان پر نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جس میں وہ خود اپنے لیے کچھ استفادہ حاصل نہیں کرسکے چہ جائیکہ دوسروں کو کوئی فائدہ پہنچائیں۔ اس کی وجہ یہی ہے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ : "جس کے پاس خود کچھ نہیں وہ دوسرے کو کیا دے گا"۔ چناچہ یہ لوگ جب سے ان کے مرشد حسن البنا : نے ان کو جمع کیا اور بس بلا تمیز سب کو جمع کرتے گئے، یعنی انہیں بس جمع کرتے گئے مگر اس قرآنی حکم کے برخلاف کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا ﴾ (النساء: 59)
(پھر اگر تم کسی چیز میں تنازع کرو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتے ہو، یہ بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے زیادہ اچھا ہے)
اخوان المسلمین کا نظام اس قاعدے پر قائم ہے جس کی تعبیر میں اپنی طرف سے کرتا ہوں اور جس کا وہ انکار نہیں کرسکتے، اور اگر کوئی انکار کی جرأت کر بھی لیتا ہےتو ہمارے لیے اس پر ان کی حقیقت حال ان کے خلاف حجت ہونے کے لیے کافی ہے۔ ان کا قاعدہ ہے بس جو ہے جیسا ہے جمع کرتے جاؤ اگرچہ ان کے مابین عقیدے یا سلوک یا فقہ میں اختلافات ہی کیوں نہ ہوں، پھر اس کے بعد ان کی تہذیب کرو، یعنی پہلے بس جیسے تیسے سب کو جمع کرتے جاؤ پھر ان کی تہذیب کا سوچو۔ اسی پر ان کی دعوت ان طویل برسوں میں قائم ہے، لیکن حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے کہ ان کے یہاں سوائے جمع کرنے کے اور کوئی چیز نہيں پائی جاتی، ان کے یہاں وہ دوسری چیز یعنی تہذیب کے نام سے کچھ نہیں پایا جاتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اخوان المسلمین میں ان کے ممالک و براعظموں کے اختلاف کے باوجود کوئی فکری ربط نہيں پایا جاتا ، نہ اعتقادی ربط۔ حقیقت حال اس بات پر شاہد ہے جیسے جو مصر میں اخوان المسلمین ہيں وہ ان سے الگ ہيں جو اردن میں، اور وہ ان سے الگ ہيں جو شام میں ہيں۔ بلکہ خود شام ہی میں جنوبی اخوانی شمالی اخوانیوں سے الگ ہيں۔ اور میں یہ اچھی طرح سے جانتا ہوں کیونکہ میں خود شامی دمشقی ہوں جیسا کہ آپ جانتے ہيں۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے: "اہل مکہ اس کی گلیوں سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہيں، اور گھر والے ہی جو کچھ گھر میں ہے اس سے سب سے زیادہ واقف ہوتے ہیں"۔ چناچہ میں جانتا ہوں کہ بلاشبہ دمشق میں جو اخوان المسلمین ہيں وہ بڑی حد تک سلفی دعوت سے متاثر ہیں اپنے عقیدے اور عبادت کے زاویے سے۔ اور اس کا سبب بالکل واضح ہے کہ سلفی دعوت دمشق میں پھر حلب میں بہت سرگرم رہی ہے۔ اور دمشق میں اخوان المسلمین کے خاندانی نظام میں ان میں سے بعض کتاب فقہ السنۃ سید سابق کی پڑھتے ہيں، اخوان المسلمین ایسا کرتے ہیں اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کیونکہ سید سابق حسن البنا : کے خاص ساتھیوں میں سے تھے۔ اور ان کی کتاب پر حسن البنا نے مختصر الفاظ میں تقریظ بھی لکھی ہے مقدمے میں۔
چناچہ امید تو یہ تھی کہ یہ کتاب اخوان المسلمین کا فقہ کے معاملے میں دستور ہو اخوان المسلمین کے ہر ملک اور علاقے میں۔ لیکن آپ عجیب ترین بات دیکھیں گے جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان کے یہاں کوئی فکری ثقافتی وحدت نہیں ہے۔ لہذا یہ کتاب دمشق کے بعض اخوانی گروپس میں جو کہ شمال میں لڑ رہے تھے، کہتے تھے کہ اس کتاب کا پڑھانا جائز نہيں کیونکہ اس کا مؤلف وہابی ہے۔ حالانکہ اس کا مؤلف تو اخوان المسلمین کے سرغناؤں میں سے ہے بلکہ حسن البنا کے حواریوں میں سے ہے۔