[#SalafiUrduDawah Article] Ruling regarding celebrating and participating in #Halloween - Shaykh Shaykh #Fuad bin Sa’ud Al-‘Umaree
جاہلانہ تہوار #ہالووین (#عید_الرعب، Halloween) میں شرکت، تعاون یا تحائف ومٹھائیاں وصول کرنا
فضیلۃ الشیخ #فؤاد بن سعود العمری حفظہ اللہ
(نائب رئیس حکومتی کمیٹی برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر، مکہ برانچ، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: یہ کلام Raha Batts نے شیخ فؤاد العمری حفظہ اللہ سے واٹس ایپ کے ذریعے حاصل کیا، اور ہمیں منہج السلف کے ذریعے موصول ہوا ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/halloween_mananay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعارف:
ہالووین امریکہ میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے pumpkins نظر آتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہيں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔ (ویکی پیڈیا سے مختصر ماخوذ)
ہالووین منانے اور شرکت کا حکم
شیخ فؤاد بن سعوی العمری حفظہ اللہ سے ہالووین منانے اور اس میں شرکت کرنے کے تعلق سے سوال کیا گیا اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:
جوکچھ سوال میں ذکر کیا گیا میں اس کے جواب میں یہی کہوں گا کہ کسی مسلمان کے لیے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہوجائز نہيں کہ وہ کفار ومشرکین کی عیدوں تہواروں میں ان کے ساتھ شرکت کرے۔ اللہ تعالی عباد الرحمٰن (رحمٰن کے بندوں ) کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان: 72)
(اور وہ جو جھوٹ (و غلط کاموں ) میں شریک نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت سےگزر جاتے ہیں)
مجاہد : وغیرہ فرماتے ہیں:”الزُّوْرَ“ یعنی مشرکین کی عیدیں۔
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو پایا کہ لوگ سالانہ دو دنوں میں تفریح کرتے کھیلتے کودتے ہيں، پس ان کے بارے میں دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ ان دو دنوں میں جاہلیت میں تفریح کرتے وخوشیاں مناتے تھے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر اپنے اس فرمان کے ساتھ رد فرمایا کہ:
’’قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ‘‘ [اسے ابو داود نے روایت کیا]
(اللہ تعالی نے تمہارے ان دو دنوں کے بدلے دو بہتر دن عطاء کردیے ہیں، یوم الفطراور یوم النحر)۔
پس ہر اس شخص پر جو نجات کا خواہاں ہے یہ واجب ہے کہ وہ اس شریعت مطہرہ کی پابندی کرے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کو اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پکڑلے۔ اور ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے۔
اس باب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ : نے ایک عظیم رسالہ لکھا ہے لہذا ایک طالب حق وسعادت ونجات کے خواہش مند کو چاہیے کہ وہ اسے پڑھے جس کا عنوان ہے ”اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم“۔
جاہلانہ تہوار #ہالووین (#عید_الرعب، Halloween) میں شرکت، تعاون یا تحائف ومٹھائیاں وصول کرنا
فضیلۃ الشیخ #فؤاد بن سعود العمری حفظہ اللہ
(نائب رئیس حکومتی کمیٹی برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر، مکہ برانچ، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: یہ کلام Raha Batts نے شیخ فؤاد العمری حفظہ اللہ سے واٹس ایپ کے ذریعے حاصل کیا، اور ہمیں منہج السلف کے ذریعے موصول ہوا ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/10/halloween_mananay_ka_hukm.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تعارف:
ہالووین امریکہ میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے جس میں گلی کوچوں، مارکیٹوں، پارکوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے pumpkins نظر آتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ 31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اور میٹھی گولیاں دے کر رخصت کر دیتے ہيں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔ (ویکی پیڈیا سے مختصر ماخوذ)
ہالووین منانے اور شرکت کا حکم
شیخ فؤاد بن سعوی العمری حفظہ اللہ سے ہالووین منانے اور اس میں شرکت کرنے کے تعلق سے سوال کیا گیا اس کے جواب میں آپ فرماتے ہیں:
جوکچھ سوال میں ذکر کیا گیا میں اس کے جواب میں یہی کہوں گا کہ کسی مسلمان کے لیے جو اللہ تعالی اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہوجائز نہيں کہ وہ کفار ومشرکین کی عیدوں تہواروں میں ان کے ساتھ شرکت کرے۔ اللہ تعالی عباد الرحمٰن (رحمٰن کے بندوں ) کی صفات ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
﴿وَالَّذِيْنَ لَا يَشْهَدُوْنَ الزُّوْرَ ۙ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا﴾ (الفرقان: 72)
(اور وہ جو جھوٹ (و غلط کاموں ) میں شریک نہیں ہوتے اور جب بیہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو شرافت سےگزر جاتے ہیں)
مجاہد : وغیرہ فرماتے ہیں:”الزُّوْرَ“ یعنی مشرکین کی عیدیں۔
اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو پایا کہ لوگ سالانہ دو دنوں میں تفریح کرتے کھیلتے کودتے ہيں، پس ان کے بارے میں دریافت فرمایا تو بتایا گیا کہ ان دو دنوں میں جاہلیت میں تفریح کرتے وخوشیاں مناتے تھے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر اپنے اس فرمان کے ساتھ رد فرمایا کہ:
’’قَدْ أَبْدَلَكُمُ اللَّهُ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا يَوْمَ الْفِطْرِ وَيَوْمَ النَّحْرِ‘‘ [اسے ابو داود نے روایت کیا]
(اللہ تعالی نے تمہارے ان دو دنوں کے بدلے دو بہتر دن عطاء کردیے ہیں، یوم الفطراور یوم النحر)۔
پس ہر اس شخص پر جو نجات کا خواہاں ہے یہ واجب ہے کہ وہ اس شریعت مطہرہ کی پابندی کرے، اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہدایت کو اپنے جبڑوں کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ پکڑلے۔ اور ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ تعالی نے حرام قرار دی ہے۔
اس باب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ : نے ایک عظیم رسالہ لکھا ہے لہذا ایک طالب حق وسعادت ونجات کے خواہش مند کو چاہیے کہ وہ اسے پڑھے جس کا عنوان ہے ”اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم“۔