[Urdu Article] Implementation of Allaah's #legislated_punishments is a mercy to mankind – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah Aal-Shaykh
#شرعی_حدود کا نفاذ انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مشروعية تطبيق الحدود الشرعية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/sharae_hudood_nifaaz_insaniyat_rehmat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اسلام میں جو حدود ہیں وہ سب کی سب اللہ تعالی کی جانب سے رحمت ہیں، اور سب ہی کے لیے ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور بندوں کے لیے حدود مقرر فرمائی خود انہی کی مصلحت کی خاطر۔ سائل پوچھتا ہے کہ حدود کی مشروعیت کی کیا حکمت ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِه أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ. وبعد:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ (الملک: 14)
(کیا وہ جس نے پیدا کیا نہیں جانتا! بلاشبہ وہ تو بہت باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے)
پس اللہ عزوجل اپنی مخلوق اور ان کے مصالح کا خوب علم رکھتا ہے اور جو چیز انہیں فائدہ پہنچاتی ہے اور جو نقصان پہنچاتی ہے، ان تمام باتوں کا اسے مکمل علم ہے۔ کیونکہ وہی تو مخلوق کا خالق ہے، اور ان کے مصالح کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہذا اس نے عظیم حکمتوں اور مصالح کے پیش نظر ان شرعی حدود کو مشروع فرمایا ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
اولاً: مجرموں کی روک تھام اور انہیں لگام دینا کہ کہیں وہ امت کو نقصان اور ضرر نہ پہنچائيں۔ کیونکہ اگر مجرم کو یوں ہی اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ، وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ (البقرۃ: 204-205)
(اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی کے بارے میں آپ کو اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اس پر گواہ بناتا ہے جو اس کے دل میں ہے، حالانکہ وہ جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے، اور جب واپس جاتا ہے تو زمین میں بھاگ دوڑ کرتا ہے، تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں فرماتا)
کیونکہ مجرم کو اگر اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سرکش وباغی بن جاتا ہے۔ اور انسان کا نفس اسے برائی کا حکم دیتا ہے ساتھ میں شیطان بھی اسے گمراہ کرنے پر لگا رہتا ہے۔ پس حدود کو قائم کرنا جرائم کو روکتا ہے اور مجرموں کو روکتا ہے کہ وہ جرائم میں ملوث ہوں۔ جب وہ یہ یاد کرے گا کہ اگر اس نے کسی کا قتل کیا تو عنقریب( اس کے قصاص میں ) اسے بھی قتل کردیا جائے گا، یا (چوری کرنے کی صورت میں) اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو وہ ضرور اس جرم سے باز رہے گا اور دوری اختیار کرے گا۔
ثانیاً: حتی کہ جو مجرم ہے خود اس کےحق میں بھی یہ رحمت ہی ہے۔ تاکہ وہ مزید ظلم میں پیش قدمی نہ کرتا رہے تو اس کا کام روک دیا جاتا ہے ہاتھ کاٹ کر یا رجم کرکے، اور اس کے شر کو منقطع کردیا جاتا ہے۔ لہذا یہ اسلامی احکام کی تنفیذ جیسا کہ پورے معاشرے کے لیے رحمت ہے ،اس کے امن واستقرار کا ضامن ہے، ساتھ ساتھ اس مجرم کے لیے بھی رحمت ہی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ﴾ (المائدۃ: 33)
(ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انہیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انہیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انہیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ تو ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے جبکہ ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے)
لازم ہے کہ ایک مسلمان اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرے، ان پر پختہ یقین رکھے اور ان سے پوری طرح سے راضی ہو۔ ضروری ہے کہ وہ ان پر ایمان رکھتا ہو کہ یہ بالکل برحق ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا:
#شرعی_حدود کا نفاذ انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ حفظ اللہ
(مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مشروعية تطبيق الحدود الشرعية۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/01/sharae_hudood_nifaaz_insaniyat_rehmat.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: اسلام میں جو حدود ہیں وہ سب کی سب اللہ تعالی کی جانب سے رحمت ہیں، اور سب ہی کے لیے ایک نعمت ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دیا اور بندوں کے لیے حدود مقرر فرمائی خود انہی کی مصلحت کی خاطر۔ سائل پوچھتا ہے کہ حدود کی مشروعیت کی کیا حکمت ہے؟
جواب: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِكَ عَلَى عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وأصَحْابِه أَجْمَعِينَ، وَعَلَى مَنْ تَبِعَهُمْ بإحسانٍ إلَى يومِ الدِّينِ. وبعد:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ۭ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾ (الملک: 14)
(کیا وہ جس نے پیدا کیا نہیں جانتا! بلاشبہ وہ تو بہت باریک بین اور ہر چیز سے باخبر ہے)
پس اللہ عزوجل اپنی مخلوق اور ان کے مصالح کا خوب علم رکھتا ہے اور جو چیز انہیں فائدہ پہنچاتی ہے اور جو نقصان پہنچاتی ہے، ان تمام باتوں کا اسے مکمل علم ہے۔ کیونکہ وہی تو مخلوق کا خالق ہے، اور ان کے مصالح کو سب سے بڑھ کر جاننے والا ہے۔ لہذا اس نے عظیم حکمتوں اور مصالح کے پیش نظر ان شرعی حدود کو مشروع فرمایا ہے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
اولاً: مجرموں کی روک تھام اور انہیں لگام دینا کہ کہیں وہ امت کو نقصان اور ضرر نہ پہنچائيں۔ کیونکہ اگر مجرم کو یوں ہی اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ زمین میں فساد مچاتا پھرے گا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّعْجِبُكَ قَوْلُهٗ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللّٰهَ عَلٰي مَا فِيْ قَلْبِهٖ ۙ وَھُوَ اَلَدُّ الْخِصَامِ، وَاِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِي الْاَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيْهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ﴾ (البقرۃ: 204-205)
(اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جس کی بات دنیا کی زندگی کے بارے میں آپ کو اچھی لگتی ہے اور وہ اللہ کو اس پر گواہ بناتا ہے جو اس کے دل میں ہے، حالانکہ وہ جھگڑے میں سخت جھگڑالو ہے، اور جب واپس جاتا ہے تو زمین میں بھاگ دوڑ کرتا ہے، تاکہ اس میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو برباد کرے، اور اللہ فساد کو پسند نہیں فرماتا)
کیونکہ مجرم کو اگر اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ سرکش وباغی بن جاتا ہے۔ اور انسان کا نفس اسے برائی کا حکم دیتا ہے ساتھ میں شیطان بھی اسے گمراہ کرنے پر لگا رہتا ہے۔ پس حدود کو قائم کرنا جرائم کو روکتا ہے اور مجرموں کو روکتا ہے کہ وہ جرائم میں ملوث ہوں۔ جب وہ یہ یاد کرے گا کہ اگر اس نے کسی کا قتل کیا تو عنقریب( اس کے قصاص میں ) اسے بھی قتل کردیا جائے گا، یا (چوری کرنے کی صورت میں) اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا تو وہ ضرور اس جرم سے باز رہے گا اور دوری اختیار کرے گا۔
ثانیاً: حتی کہ جو مجرم ہے خود اس کےحق میں بھی یہ رحمت ہی ہے۔ تاکہ وہ مزید ظلم میں پیش قدمی نہ کرتا رہے تو اس کا کام روک دیا جاتا ہے ہاتھ کاٹ کر یا رجم کرکے، اور اس کے شر کو منقطع کردیا جاتا ہے۔ لہذا یہ اسلامی احکام کی تنفیذ جیسا کہ پورے معاشرے کے لیے رحمت ہے ،اس کے امن واستقرار کا ضامن ہے، ساتھ ساتھ اس مجرم کے لیے بھی رحمت ہی ہے۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿اِنَّمَا جَزٰۗؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَيَسْعَوْنَ فِي الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْٓا اَوْ يُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُـقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ۭ ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَاوَلَهُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ﴾ (المائدۃ: 33)
(ان لوگوں کی سزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کی کوشش کرتے ہیں، یہی ہے کہ انہیں بری طرح قتل کیا جائے، یا انہیں بری طرح سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مختلف سمتوں سے بری طرح کاٹے جائیں، یا انہیں اس سر زمین سے نکال دیا جائے۔ یہ تو ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے جبکہ ان کے لیے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے)
لازم ہے کہ ایک مسلمان اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل کرے، ان پر پختہ یقین رکھے اور ان سے پوری طرح سے راضی ہو۔ ضروری ہے کہ وہ ان پر ایمان رکھتا ہو کہ یہ بالکل برحق ہیں۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب عزیز میں فرمایا: