Maktabah Salafiyyah Islamabad
2.17K subscribers
2.48K photos
52 videos
211 files
4.92K links
Updates of our website www.maktabahsalafiyyah.org
Download Telegram
[#SalafiUrduDawah Article] Refutation of those who believe that #the_prophet_is_alive as of a worldly life after his death – Various 'Ulamaa
ان لوگوں کا رد جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد
دنیاوی حیات کی طرح حیات ہیں (عقیدۂ #حیات_النبی)
مختلف علماء کرام
ترجمہ واضافہ جات: طارق علی بروہی
مصدر: فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء، القول البليغ في التحذير من جماعة التبليغ۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بعض لوگوں خصوصاً بریلویوں اور دیوبندی حیاتیوں کا یہ گمراہ کن عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلکہ دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام پر بھی محض وعدۂ الہی کی وفاء کے لیے ایک آن کو موت طاری ہوئی اب وہ قبر کی برزخی نہیں بلکہ دنیاوی زندگی کی مانند حسی طور پر زندہ ہیں اور تصرف فرماتےہیں۔ اور بدعتیانہ محفل میلاد یا ہمارے بزرگوں وغیرہ کے پاس تشریف لاتے ہیں۔ بلکہ انہیں فوت شدہ سمجھنا گستاخی ہے اور یوں کہنا چاہیے کہ ان پر ظاہری موت طاری ہوئی تھی بس انہوں نے دنیا سے پردہ فرمالیا ہے۔ اس غلط عقیدے کے رد میں علماء کرام کا کلام پیش خدمت ہے۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2015/12/rad_aqeedah_hayat_un_nabi.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Requesting #forgiveness from #the_prophet? – Various 'Ulamaa
کیا #نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے #بخشش_کی_دعاء طلب کی جائے؟
مختلف علماء کرام
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: مختلف مصادر
پیشکش: میراث الانبیاء ڈاٹ نیٹ

http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2017/06/nabi_say_bakhshish_ki_dua_talab_karna.pdf

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس آیت کے متعلق جو کچھ کہا گیا:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
(اور اگر واقعی یہ لوگ، جب انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا تھا، آپ کے پاس آتے، پھر اللہ سے بخشش مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے بخشش مانگتے تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت مہربان پاتے)
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بعض نے اللہ تعالی کے اس فرمان:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾ (النساء: 64)
کے متعلق کہا کہ اگر ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے آپ کی وفات کے بعد بھی طلب کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے لیے استغفار کریں تو ہم اسی درجے میں ہوں گے جیسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے طلب کرتے تھے۔ حالانکہ اس طرح سے وہ صحابہ کرام اور بطور احسن ان کی اتباع کرنے والوں اور تمام مسلمانوں کے اجماع کے خلاف جاتے ہیں، کیونکہ ان میں سے کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کبھی طلب نہيں کیا کہ وہ ان کے لیے شفاعت کریں اور نہ ہی کبھی کوئی چیز ان سے طلب کی۔نہ ہی آئمہ مسلمین میں سے کسی نے اسے اپنی کتب میں بیان کیا‘‘([1])۔
اور علامہ ابو الطیب محمد صدیق خان بن حسن بن علی ابن لطف اللہ الحسینی البخاری القِنَّوجي رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اور یہ آیت جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے پر دلالت کرتی ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنے کا یہ مطلب نہيں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر منور کے پاس اس غرض سے آیا جائے۔ اسی لیے اس بعید کے احتمال کی طرف اس امت کے سلف اور آئمہ میں سے کوئی بھی نہيں گیا نہ صحابہ نہ تابعین اور نہ جنہوں نے بطور احسن ان کی اتباع کی([2])۔
3- شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت:
﴿وَلَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَاءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِـيْمًا﴾
یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے جسے اس کا ماقبل ومابعد بھی ظاہر کرتاہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات کے ساتھ خاص تھا۔ یہ بات صحیح البخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے جب فرمایا کہ ہائے میرا سر! :
’’ذَاكِ لَوْ كَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَكِ وَأَدْعُوَ لَكِ‘‘([3])
(اگر تو میرے جیتے جی فوت ہوگئی تو میں تمہارے لیے بخشش طلب کروں گا اور دعاء کروں گا )۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی وفات کے بعد بھی کسی کے لیے بخشش طلب کرتے تو پھر اس میں بات سے کوئی فرق نہيں پڑتاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے پہلے فوت ہوں یا بعد میں۔اور بعض اہل بدعت تو اس سے بھی بڑھ کر گمان کرتے ہیں اور وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست مبارک قبر سے نکالا اور ان کے کسی پیروکار سے مصافحہ فرمایا! اس بات کے بطلان کو یہی کافی ہےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا جبکہ وہ اس امت کے سب سے افضل ترین لوگ تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَنْشَقُّ عَنْهُ الْقَبْرُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ، وَأَوَّلُ مُشَفَّعٍ‘‘([4])
(میں بروز قیامت تمام اولاد آدم کا سید وسردار ہوں، اور وہ سب سے پہلا شخص ہوں جس کی قبر شق ہوگی، اور سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں ، اور سب سے پہلے میری ہی شفاعت قبول کی جائے گی)۔
اور یہ قبر کا پھٹنا مرکر جی اٹھنے کے وقت ہی ہوگا، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ﴾ (المؤمنون: 16)
(پھر بےشک تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے)۔
(بطلان قصتي الأعرابي والعتبي عند قبر سيد المرسلين، عبد الرحمن العميسان ص 175-176)
اسی طرح شیخ عبدالمحسن العباد حفظہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
جہاں تک اللہ تعالی کے اس فرمان کا تعلق ہے :