[#SalafiUrduDawah Article] #Deviated_claim that speaking on #Tawheed_ul_Asmaa_was_Sifaat #divides_the_Ummah – Shaykh Abdul Azeez bin Abdullaah #bin_Baaz
#گمراہ_کن_دعوی کہ #توحید_اسماء_وصفات بیان کرنے سے #امت_میں_تفرقہ ہوتا ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ابن باز کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی 1741۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/gumrah_dawa_asma_sifat_tawheed_tafriqa_ummah_sabab.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک گروہ ہے جو دعوتِ اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہےوہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ توحید اسماء وصفات کو بیان نہيں کرنا چاہیے اس دعوے کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کو جو ان پر زیادہ اہم واجب ہے یعنی جہادِ اسلامی سے مشغول کردیتا ہے، اس نظریے کی صحت کہاں تک درست ہے؟
جواب:یہ نظریہ غلط ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم میں اپنے اسماء وصفات کو واضح فرمایا ہے اور ان کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ مومنین انہيں جان لیں اور ان ناموں اور صفات سے اللہ تعالی کو موسوم وموصوف کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ احادیث آئی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خطبات میں اور صحابہ کے ساتھ بات کرنے میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات ذکر کرتے تھے اور ان اسماء وصفات کے ساتھ اللہ تعالی کی ثناء بیان کرتے اور اس پر دوسروں کو بھی ابھارتے۔
پس اہل علم وایمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کو زیادہ سے زیادہ نشر کریں، انہیں اپنے خطبات، تألیفات، وعظ ونصیحت میں ضرور ذکر کریں۔ کیونکہ انہی کے ذریعے تو اللہ تعالی کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس سے غفلت یا اعراض کرنا اس دعوے کے ساتھ کہ بعض عوام پر معاملہ خلط ملط ہوجائے گا یا بعض اہل بدعت عوام میں تشویش پھیلائیں گے جائز نہیں۔ بلکہ واجب ہے اس شبہہ کا ازالہ کیا جائے اور کا بطلان واضح کیاجائے۔ اور یہ بیان کرنا بھی واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر اس کی شایان شان ایمان لائیں ، نہ اس میں تحریف کریں، نہ تعطیل(انکار)، نہ تکییف (کیفیت بیان کرنا) اور نہ تمثیل(مماثلت بیان کرنا) یہاں تک کہ جاہل کو اس بارے میں حکم معلوم ہوجائے، اور یہاں تک کہ یہ بدعتی لوگ اپنے حد میں رہیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے۔
اہل سنت والجماعت نے اپنی کتب میں یہ بات بیان کی ہے کہ مسلمانوں پر خصوصاً اہل علم پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق آیات و احادیث کو جیسے وہ آئی ہیں اسی طرح سے مانیں، نہ اس کی تأویل کریں نہ ہی تکییف بلکہ واجب ہے کہ جیسی وارد ہوئی ہیں ایسے ہی ایمان لایا جائے۔ اس ایمان کے ساتھ کہ یہ برحق ہیں اور یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کے اسماء ہیں۔ ان کا جو بھی معنی ہے وہ حق ہے وہ واقعی اس کے ساتھ حقیقت میں موصوف ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔جیسا کہ الرحمن، الرحیم، العزیز، الحکیم، القدیر، السمیع اور البصیر وغیرہ۔
واجب ہے کہ یہ جیسے آئی ہیں ویسے ہی ان پر ایمان لایا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے مثل، اس کے مشابہ، اس کی ہمسری کرنے والا کوئی نہیں لیکن ہم اس کی صفات کی کیفیت بیان نہيں کرتے کیونکہ اس کی حقیقی کیفیت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیساکہ اللہ تعالی کی ذات دیگر ذاتوں کے مشابہ نہیں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کی صفات میں بھی کسی سے مشابہت نہيں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہيں۔ لہذا اللہ تعالی کی صفات میں کلام کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام کرنا، دونوں بالکل برابر ہیں، اِس کو اُس پر قیاس کیا جاسکتاہے۔
یہی بات اہل سنت کہتے آئے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر بعد کے تمام لوگوں تک سب کے سب۔ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص)
(کہہ دیں وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے)
اور فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)
(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 74)
(پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)
اورفرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے ہیں اسماءِ حسنی (اچھے نام)، سو اسے ان کے ساتھ پکارو)
اور اس معنی میں بہت ساری آیات وارد ہیں۔
(مجلة المجاهد ـ السنة الأولى ـ عدد 10 شهر صفر 1410هـ
#گمراہ_کن_دعوی کہ #توحید_اسماء_وصفات بیان کرنے سے #امت_میں_تفرقہ ہوتا ہے
فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ #بن_باز رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(سابق مفتئ اعظم، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: شیخ ابن باز کی آفیشل ویب سائٹ سے فتوی 1741۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2014/02/gumrah_dawa_asma_sifat_tawheed_tafriqa_ummah_sabab.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: ایک گروہ ہے جو دعوتِ اسلام کی طرف منسوب ہوتا ہےوہ یہ نظریہ رکھتا ہے کہ توحید اسماء وصفات کو بیان نہيں کرنا چاہیے اس دعوے کے ساتھ کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں میں تفرقہ ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کو جو ان پر زیادہ اہم واجب ہے یعنی جہادِ اسلامی سے مشغول کردیتا ہے، اس نظریے کی صحت کہاں تک درست ہے؟
جواب:یہ نظریہ غلط ہے۔ اللہ تعالی نے اپنی کتاب کریم میں اپنے اسماء وصفات کو واضح فرمایا ہے اور ان کی نشاندہی فرمائی ہے تاکہ مومنین انہيں جان لیں اور ان ناموں اور صفات سے اللہ تعالی کو موسوم وموصوف کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تواتر کے ساتھ احادیث آئی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اپنے خطبات میں اور صحابہ کے ساتھ بات کرنے میں اللہ تعالی کے اسماء وصفات ذکر کرتے تھے اور ان اسماء وصفات کے ساتھ اللہ تعالی کی ثناء بیان کرتے اور اس پر دوسروں کو بھی ابھارتے۔
پس اہل علم وایمان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے اسماء وصفات کو زیادہ سے زیادہ نشر کریں، انہیں اپنے خطبات، تألیفات، وعظ ونصیحت میں ضرور ذکر کریں۔ کیونکہ انہی کے ذریعے تو اللہ تعالی کی پہچان ہوتی ہے اور اس کی عبادت کی جاتی ہے۔ اس سے غفلت یا اعراض کرنا اس دعوے کے ساتھ کہ بعض عوام پر معاملہ خلط ملط ہوجائے گا یا بعض اہل بدعت عوام میں تشویش پھیلائیں گے جائز نہیں۔ بلکہ واجب ہے اس شبہہ کا ازالہ کیا جائے اور کا بطلان واضح کیاجائے۔ اور یہ بیان کرنا بھی واجب ہے کہ ہم اللہ تعالی کے اسماء وصفات پر اس کی شایان شان ایمان لائیں ، نہ اس میں تحریف کریں، نہ تعطیل(انکار)، نہ تکییف (کیفیت بیان کرنا) اور نہ تمثیل(مماثلت بیان کرنا) یہاں تک کہ جاہل کو اس بارے میں حکم معلوم ہوجائے، اور یہاں تک کہ یہ بدعتی لوگ اپنے حد میں رہیں اور ان پر حجت تمام ہوجائے۔
اہل سنت والجماعت نے اپنی کتب میں یہ بات بیان کی ہے کہ مسلمانوں پر خصوصاً اہل علم پر یہ واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کی صفات سے متعلق آیات و احادیث کو جیسے وہ آئی ہیں اسی طرح سے مانیں، نہ اس کی تأویل کریں نہ ہی تکییف بلکہ واجب ہے کہ جیسی وارد ہوئی ہیں ایسے ہی ایمان لایا جائے۔ اس ایمان کے ساتھ کہ یہ برحق ہیں اور یہ اللہ تعالی کی صفات اور اس کے اسماء ہیں۔ ان کا جو بھی معنی ہے وہ حق ہے وہ واقعی اس کے ساتھ حقیقت میں موصوف ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔جیسا کہ الرحمن، الرحیم، العزیز، الحکیم، القدیر، السمیع اور البصیر وغیرہ۔
واجب ہے کہ یہ جیسے آئی ہیں ویسے ہی ان پر ایمان لایا جائے اور یہ اعتقاد ہو کہ اللہ تعالی کے مثل، اس کے مشابہ، اس کی ہمسری کرنے والا کوئی نہیں لیکن ہم اس کی صفات کی کیفیت بیان نہيں کرتے کیونکہ اس کی حقیقی کیفیت اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیساکہ اللہ تعالی کی ذات دیگر ذاتوں کے مشابہ نہیں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہیں اسی طرح سے اللہ تعالی کی صفات میں بھی کسی سے مشابہت نہيں اور اس کی کیفیت بیان کرنا جائز نہيں۔ لہذا اللہ تعالی کی صفات میں کلام کرنا ایسا ہی ہے جیسے اس کی ذات میں کلام کرنا، دونوں بالکل برابر ہیں، اِس کو اُس پر قیاس کیا جاسکتاہے۔
یہی بات اہل سنت کہتے آئے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر بعد کے تمام لوگوں تک سب کے سب۔ فرمان الہی ہے:
﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ، اَللّٰهُ الصَّمَدُ، لَمْ يَلِدْ ڏ وَلَمْ يُوْلَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص)
(کہہ دیں وہ اللہ ایک ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے)
اور فرمایا:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾ (الشوری: 11)
(اس کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے)
اور فرمایا:
﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل: 74)
(پس اللہ کے لیے مثالیں بیان نہ کرو۔ بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے)
اورفرمایا:
﴿وَلِلّٰهِ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِهَا﴾ (الاعراف: 180)
(اور اللہ تعالی کے لیے ہیں اسماءِ حسنی (اچھے نام)، سو اسے ان کے ساتھ پکارو)
اور اس معنی میں بہت ساری آیات وارد ہیں۔
(مجلة المجاهد ـ السنة الأولى ـ عدد 10 شهر صفر 1410هـ