[#SalafiUrduDawah Article] Can we drink #ZamZam water while standing? – Shaykh Muhammad Naasir-ud-Deen #Al_Albaanee
کیا کھڑے ہوکر #آب_زم_زم پیا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: أشرطة متفرقة للشيخ » الشريط رقم : 005، ما حكم شرب ماء زمزم قائما؟
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/aab_e_zamzam_kharay_hokar_pena.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آب زم زم کھڑے ہوکر پینے کے تعلق سے یہ سوال ہے کہ: کیا یہ جائز ہے؟
جواب: دیکھیں آب زم زم کے بارے میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوکر پی رہے تھے([1])، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور ہم نے بھی ابھی ذکر کیا تھا۔ تو اسے سنت لازمہ بنادیا کہ کھڑے ہوکر آب زم زم پیا جائے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ کھڑے ہوکر پیا تھا اس کی وجہ لوگوں کا رش اور بِھیڑتھی۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمومی سیرت پڑھے گا پھر خصوصی طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ چلتے تھے تو اس پر یہ بات مکمل روشن وواضح ہوجائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی طور پر اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز بالکل نہيں رکھتے تھے، پس آپ آخری دور کے امراء کی طرح نہیں تھے کہ ان کے لیے راستے خالی کروادیے جاتے ہیں بلکہ کبھی تو ان کے لیے پوری مسجد الحرام تک خالی کروادی جاتی ہے کعبۃ اللہ تو دور کی بات رہی اور آخر تک جو کچھ ہوتا ہے۔ چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق وصفات میں سے یہ نہ تھا۔ بلکہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی سیدنا عبداللہ بن قدامہ العامری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر چلے جارہے تھے اور:
’’وَلَا طَرْدٌ وَلَا إِلَيْكَ إِلَيْكَ‘‘([2])
(نہ لوگوں کو دھکیلا جارہا تھا، نہ راستے سے ایک طرف ہوجانے کو کہا جارہا تھا)۔
یعنی ان سب کے ساتھ ہی چلے جارہے تھے کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے راستے صاف کرو، بالکل نہیں۔
پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داخل ہوئے اور آب زم زم میں سے پینا چاہا تو کیا طلب کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے؟ اگر ہم اپنے آپ پر انہیں قیاس کریں کہ آب زم زم پینے کے لیے طلب کررہے ہوں، تو یہ طلب کریں گے کہ ان کے لیے تازہ پانی کا ڈول نکالا جائے، لیکن نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہیں سے دے دو جہاں سے دیگر مسلمان پی رہے ہیں یعنی اسی مشکیزے سے۔ لہذا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بیٹھ کر پینا چاہتے تو رش کی شدت کے باعث بِھیڑ تلے کچلے جانے تک کا خطرہ تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے نا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کو تعینات فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے دائیں بائیں چمٹ کر لوگوں کو کہتے رہیں راستہ دو راستہ دو۔ بالکل نہيں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیا۔
اسی طرح بعض دوسری احادیث میں جو سنن الترمذی میں ہیں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مشکیزے کے پاس آئے جو لٹکا ہوا تھا آپ نے اس کا بند کھولا اور کھڑے ہوکر ہی اس میں سے پیا، کیونکہ وہ اوپر لٹکا ہوا تھا، اور یہاں کھڑے ہوکر پینا اصل مقصود نہ تھا، بلکہ آپ تو مجبور تھے۔ چناچہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ اس قسم کے جزئی واقعات وحادثات کا ہم قواعدِ کلیہ سے ٹکراؤ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا، بلکہ زجر بھی فرمایا (ڈانٹا بھی) اور قے تک کردینے کا حکم فرمایا([3])۔
اسی طرح سے ہونا چاہیے اس شخص کو جو رب العالمین کی طرف سے بھیجے گئے دین میں تفقہ چاہتا ہے (یعنی وہ دلائل کو جمع کرتا اور اصول پر چلتا ہے)۔
[1] صحیح بخاری 1637 میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ‘‘ (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آب زم زم پلایا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھڑے ہونے کی حالت میں پیا)۔ اور صحیح مسلم میں ’’بَاب فِي الشُّرْبِ مِنْ زَمْزَمَ قَائِمًا‘‘ (باب: آب زم زم میں سے کھڑے ہوکر پینےکے بارے میں) کے تحت چار روایات لائے ہیں۔
[2] اسے امام الترمذی نے 903 میں روایت فرمایا، اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
[3] دیکھیں صحیح مسلم میں ’’بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا‘‘ (باب : کھڑے ہوکر پینے کی کراہیت کے بارے میں)، جبکہ جو علماء جواز کے قائل ہیں اس کے لیے پڑھیں صحیح بخاری ’’باب الشُّرْبِ قَائِم
کیا کھڑے ہوکر #آب_زم_زم پیا جاسکتا ہے؟
فضیلۃ الشیخ محمد ناصرالدین البانی رحمہ اللہ المتوفی سن 1420ھ
(محدث دیارِ شام)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: أشرطة متفرقة للشيخ » الشريط رقم : 005، ما حكم شرب ماء زمزم قائما؟
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/05/aab_e_zamzam_kharay_hokar_pena.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آب زم زم کھڑے ہوکر پینے کے تعلق سے یہ سوال ہے کہ: کیا یہ جائز ہے؟
جواب: دیکھیں آب زم زم کے بارے میں یہ آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوکر پی رہے تھے([1])، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں اور ہم نے بھی ابھی ذکر کیا تھا۔ تو اسے سنت لازمہ بنادیا کہ کھڑے ہوکر آب زم زم پیا جائے۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو یہ کھڑے ہوکر پیا تھا اس کی وجہ لوگوں کا رش اور بِھیڑتھی۔ جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمومی سیرت پڑھے گا پھر خصوصی طور پر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ چلتے تھے تو اس پر یہ بات مکمل روشن وواضح ہوجائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی طور پر اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں سے ممتاز بالکل نہيں رکھتے تھے، پس آپ آخری دور کے امراء کی طرح نہیں تھے کہ ان کے لیے راستے خالی کروادیے جاتے ہیں بلکہ کبھی تو ان کے لیے پوری مسجد الحرام تک خالی کروادی جاتی ہے کعبۃ اللہ تو دور کی بات رہی اور آخر تک جو کچھ ہوتا ہے۔ چناچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق وصفات میں سے یہ نہ تھا۔ بلکہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی سیدنا عبداللہ بن قدامہ العامری رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صفت بیان فرمائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر چلے جارہے تھے اور:
’’وَلَا طَرْدٌ وَلَا إِلَيْكَ إِلَيْكَ‘‘([2])
(نہ لوگوں کو دھکیلا جارہا تھا، نہ راستے سے ایک طرف ہوجانے کو کہا جارہا تھا)۔
یعنی ان سب کے ساتھ ہی چلے جارہے تھے کوئی یہ نہیں کہتا تھا کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے راستے صاف کرو، بالکل نہیں۔
پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم داخل ہوئے اور آب زم زم میں سے پینا چاہا تو کیا طلب کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے؟ اگر ہم اپنے آپ پر انہیں قیاس کریں کہ آب زم زم پینے کے لیے طلب کررہے ہوں، تو یہ طلب کریں گے کہ ان کے لیے تازہ پانی کا ڈول نکالا جائے، لیکن نہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہیں سے دے دو جہاں سے دیگر مسلمان پی رہے ہیں یعنی اسی مشکیزے سے۔ لہذا اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت بیٹھ کر پینا چاہتے تو رش کی شدت کے باعث بِھیڑ تلے کچلے جانے تک کا خطرہ تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے نا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کو تعینات فرمائیں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچھے دائیں بائیں چمٹ کر لوگوں کو کہتے رہیں راستہ دو راستہ دو۔ بالکل نہيں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیا۔
اسی طرح بعض دوسری احادیث میں جو سنن الترمذی میں ہیں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مشکیزے کے پاس آئے جو لٹکا ہوا تھا آپ نے اس کا بند کھولا اور کھڑے ہوکر ہی اس میں سے پیا، کیونکہ وہ اوپر لٹکا ہوا تھا، اور یہاں کھڑے ہوکر پینا اصل مقصود نہ تھا، بلکہ آپ تو مجبور تھے۔ چناچہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ اس قسم کے جزئی واقعات وحادثات کا ہم قواعدِ کلیہ سے ٹکراؤ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا، بلکہ زجر بھی فرمایا (ڈانٹا بھی) اور قے تک کردینے کا حکم فرمایا([3])۔
اسی طرح سے ہونا چاہیے اس شخص کو جو رب العالمین کی طرف سے بھیجے گئے دین میں تفقہ چاہتا ہے (یعنی وہ دلائل کو جمع کرتا اور اصول پر چلتا ہے)۔
[1] صحیح بخاری 1637 میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’سَقَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مِنْ زَمْزَمَ، فَشَرِبَ وَهُوَ قَائِمٌ‘‘ (میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آب زم زم پلایا، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کھڑے ہونے کی حالت میں پیا)۔ اور صحیح مسلم میں ’’بَاب فِي الشُّرْبِ مِنْ زَمْزَمَ قَائِمًا‘‘ (باب: آب زم زم میں سے کھڑے ہوکر پینےکے بارے میں) کے تحت چار روایات لائے ہیں۔
[2] اسے امام الترمذی نے 903 میں روایت فرمایا، اور شیخ البانی نے صحیح الترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
[3] دیکھیں صحیح مسلم میں ’’بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا‘‘ (باب : کھڑے ہوکر پینے کی کراہیت کے بارے میں)، جبکہ جو علماء جواز کے قائل ہیں اس کے لیے پڑھیں صحیح بخاری ’’باب الشُّرْبِ قَائِم