[#SalafiUrduDawah Article] Does #Saudi_government work against #Deen and banning the #Duaat? – Shaykh Saaleh bin Fawzaan #Al_Fawzaan
کیا #سعودی_حکومت #دین اور #داعیان کے خلاف جنگ اور سختی کرتی ہے
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة ص 27.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/kiya_saudi_hukumat_deen_daiyan_jang.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی ان لوگوں کے لیے کیا نصیحت ہے جو کہتے ہیں کہ یہ مملکت (سعودی عرب) دین کے خلاف جنگ کرتی ہے اور داعیان دین پر سختی اور تنگی کرتی ہے؟
جواب: ابتداء ہی سے مملکت سعودی عرب دین اور اہلیان دین کی نصرت کرتی آئی ہے۔ یہ تو قائم ہی اسی اساس پر ہوئی تھی۔ اور اب بھی دنیا کے مختلف کونوں میں جو مسلمانوں کی مختلف انداز میں مدد کرتی ہے جیسے مالی معاونت، اسلامی مراکز ومساجد کا قیام، داعیان ارسال کرنا، کتابوں کی طباعت جن میں سرفہرست قرآن کریم، علمی مراکز اور شرعی کالجز کا قیام، شریعت اسلامیہ کا نفاذ، اورہر علاقے میں ایک مستقل ادارہ برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر بنانا یہ سب باتیں واضح دلیل ہیں کہ یہ مملکت اسلام اور اہلیان اسلام کی مدد ونصرت کرتی ہے۔ اور اہل نفاق واہل شر پھوٹ ڈالنے والوں کے حلق کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ اللہ تعالی اپنے دین کی مدد ونصرت ضرور فرمائے گا خواہ مشرکین اور مغرضین لوگ برا منائیں۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ مملکت ہر زاویے سے کامل ہے اور اس کی کوئی غلطی نہیں۔ غلطیاں تو ہر ایک سے ہوجاتی ہیں اور ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہيں کہ وہ ہمیں غلطیوں کی اصلاح کرنے میں اعانت فرمائے۔
اور ایسی بات کہنے والا اگر خود اپنے ہی گریبان میں جھانک کر دیکھے گا تو ایسی ایسی غلطیاں ملیں گی کہ جو اس کی زبان کو دوسروں پر طعن دراز کرنے سے روک دیں گی، اور وہ لوگوں کا سامنا تک کرنے سے شرمائے گا([1])۔
[1] میں (محمد بن فہد الحصین) یہ کہتا ہوں: حکمرانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہر اس شخص پر پابندی لگائیں جو کبھی نصیحت واصلاح کے نام پر تو کبھی آزادی کلام اور کبھی کسی اور پرفریب نعرے کے تحت باطل، تفرقہ بازی اور حکمرانوں کے خلاف خروج کی دعوت دیتا ہے۔ کیونکہ اس میں وہ عظیم مصالح ہیں جو کسی بھی عقل رشید رکھنے والے سے مخفی نہیں۔ اسی لیے سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حکمرانوں کے لیے جائز نہيں کہ لوگوں اور ان منابر کے درمیان حائل ہوجائیں الا یہ کہ انہیں معلوم ہو کہ کوئی شخص باطل کی جانب دعوت دے رہا ہے، یا وہ دعوت دینے کا اہل نہيں، تو ایسے کو چاہے وہ کہیں بھی ہو روکا جائے گا‘‘ (مجموع الفتاوی 5/81)۔
اور علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب مسجد میں پیاز لہسن کھا کر آنے کو منع کیا جاتا ہے تو پھر جو لوگوں کا دین خراب کرے اس کا کیا حکم ہوگا! کیا ایسا شخص منع کیے جانے کا زیادہ حقدار نہيں ہوگا؟ کیوں نہيں، اللہ کی قسم! لیکن بہت سے لوگ غافل ہیں‘‘۔
( دیکھیں شرح الاربعین النوویۃ ص 38)
اسی طرح سے دوسرے مقام پر فرمایا:
’’اگر حکمران اپنے رائے میں یہ بہتر سمجھے مثلاً ہم میں سے کسی ایک کو بولنے سے منع کردے، تو یہ اللہ کے یہاں ہمارا عذر ہے کہ اس نے مجھے منع کیا تو میں نہ بولا۔ کیونکہ حق بیان کرنا فرض کفایہ ہے جو کسی مخصوص شخص زید وعمر میں محصور نہیں۔ اگر ہم حق کو اشخاص کے ساتھ معلق کردیں گے تو حق اس شخص کی موت کے ساتھ مر جائے گا۔ حق کبھی بھی مخصوص افراد سے معلق نہیں ہوتا۔ فرض کریں وہ مجھے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہماری سمع وطاعت کرتے ہوئے کلام نہ کرو، خطبہ نہ دو، شرح نہ کرو، تعلیم نہ دو۔ میں جاؤں گا نماز پڑھنے اگر وہ مجھے اجازت دیں گے امام بننے کی تو میں امام بن جاؤں گا۔ اگر کہیں گے: تم لوگوں کی امامت نہ کراؤ تو میں لوگوں کی امامت نہیں کرواؤ گا البتہ مقتدی بن جاؤں گا کیونکہ اب حق کسی دوسرے کے ساتھ قائم تو ہورہا ہے۔ ان کا مجھے منع کرنے کا یہ معنی نہیں کہ انہوں نے تمام لوگوں کو ہی منع کردیا ہے۔ ہمارے لیے اس بارے میں اچھا نمونہ موجود ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ نے جنبی شخص کو تیمم کا حکم دیا جبکہ (خلیفۂ وقت) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں تھے۔ پس انہیں ایک دن بلابھیجا اور کہا: یہ کونسی حدیث ہے جو تم لوگوں کو بیان کرتے رہتے ہو کہ اگر جنبی شخص کو پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرلے؟ انہوں نے کہا: آپ کو یاد نہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اور آپ کو کسی کام کے لیے بھیجا تھا تو مجھے جنابت لاحق ہوگئی تھی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا تھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ کو خبر دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’إِنَّمَا ك
کیا #سعودی_حکومت #دین اور #داعیان کے خلاف جنگ اور سختی کرتی ہے
فضیلۃ الشیخ صالح بن فوزان #الفوزان حفظہ اللہ
(سنیئر رکن کبار علماء کمیٹی، سعودی عرب)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: الإجابات المهمة فى المشاكل الملمة ص 27.
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2013/04/kiya_saudi_hukumat_deen_daiyan_jang.pdf
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سوال: آپ کی ان لوگوں کے لیے کیا نصیحت ہے جو کہتے ہیں کہ یہ مملکت (سعودی عرب) دین کے خلاف جنگ کرتی ہے اور داعیان دین پر سختی اور تنگی کرتی ہے؟
جواب: ابتداء ہی سے مملکت سعودی عرب دین اور اہلیان دین کی نصرت کرتی آئی ہے۔ یہ تو قائم ہی اسی اساس پر ہوئی تھی۔ اور اب بھی دنیا کے مختلف کونوں میں جو مسلمانوں کی مختلف انداز میں مدد کرتی ہے جیسے مالی معاونت، اسلامی مراکز ومساجد کا قیام، داعیان ارسال کرنا، کتابوں کی طباعت جن میں سرفہرست قرآن کریم، علمی مراکز اور شرعی کالجز کا قیام، شریعت اسلامیہ کا نفاذ، اورہر علاقے میں ایک مستقل ادارہ برائے امر بالمعروف ونہی عن المنکر بنانا یہ سب باتیں واضح دلیل ہیں کہ یہ مملکت اسلام اور اہلیان اسلام کی مدد ونصرت کرتی ہے۔ اور اہل نفاق واہل شر پھوٹ ڈالنے والوں کے حلق کا کانٹا بنی ہوئی ہے۔ اللہ تعالی اپنے دین کی مدد ونصرت ضرور فرمائے گا خواہ مشرکین اور مغرضین لوگ برا منائیں۔ ہم نہیں کہتے کہ یہ مملکت ہر زاویے سے کامل ہے اور اس کی کوئی غلطی نہیں۔ غلطیاں تو ہر ایک سے ہوجاتی ہیں اور ہم اللہ تعالی سے دعاء کرتے ہيں کہ وہ ہمیں غلطیوں کی اصلاح کرنے میں اعانت فرمائے۔
اور ایسی بات کہنے والا اگر خود اپنے ہی گریبان میں جھانک کر دیکھے گا تو ایسی ایسی غلطیاں ملیں گی کہ جو اس کی زبان کو دوسروں پر طعن دراز کرنے سے روک دیں گی، اور وہ لوگوں کا سامنا تک کرنے سے شرمائے گا([1])۔
[1] میں (محمد بن فہد الحصین) یہ کہتا ہوں: حکمرانوں کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ہر اس شخص پر پابندی لگائیں جو کبھی نصیحت واصلاح کے نام پر تو کبھی آزادی کلام اور کبھی کسی اور پرفریب نعرے کے تحت باطل، تفرقہ بازی اور حکمرانوں کے خلاف خروج کی دعوت دیتا ہے۔ کیونکہ اس میں وہ عظیم مصالح ہیں جو کسی بھی عقل رشید رکھنے والے سے مخفی نہیں۔ اسی لیے سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’حکمرانوں کے لیے جائز نہيں کہ لوگوں اور ان منابر کے درمیان حائل ہوجائیں الا یہ کہ انہیں معلوم ہو کہ کوئی شخص باطل کی جانب دعوت دے رہا ہے، یا وہ دعوت دینے کا اہل نہيں، تو ایسے کو چاہے وہ کہیں بھی ہو روکا جائے گا‘‘ (مجموع الفتاوی 5/81)۔
اور علامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جب مسجد میں پیاز لہسن کھا کر آنے کو منع کیا جاتا ہے تو پھر جو لوگوں کا دین خراب کرے اس کا کیا حکم ہوگا! کیا ایسا شخص منع کیے جانے کا زیادہ حقدار نہيں ہوگا؟ کیوں نہيں، اللہ کی قسم! لیکن بہت سے لوگ غافل ہیں‘‘۔
( دیکھیں شرح الاربعین النوویۃ ص 38)
اسی طرح سے دوسرے مقام پر فرمایا:
’’اگر حکمران اپنے رائے میں یہ بہتر سمجھے مثلاً ہم میں سے کسی ایک کو بولنے سے منع کردے، تو یہ اللہ کے یہاں ہمارا عذر ہے کہ اس نے مجھے منع کیا تو میں نہ بولا۔ کیونکہ حق بیان کرنا فرض کفایہ ہے جو کسی مخصوص شخص زید وعمر میں محصور نہیں۔ اگر ہم حق کو اشخاص کے ساتھ معلق کردیں گے تو حق اس شخص کی موت کے ساتھ مر جائے گا۔ حق کبھی بھی مخصوص افراد سے معلق نہیں ہوتا۔ فرض کریں وہ مجھے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ہماری سمع وطاعت کرتے ہوئے کلام نہ کرو، خطبہ نہ دو، شرح نہ کرو، تعلیم نہ دو۔ میں جاؤں گا نماز پڑھنے اگر وہ مجھے اجازت دیں گے امام بننے کی تو میں امام بن جاؤں گا۔ اگر کہیں گے: تم لوگوں کی امامت نہ کراؤ تو میں لوگوں کی امامت نہیں کرواؤ گا البتہ مقتدی بن جاؤں گا کیونکہ اب حق کسی دوسرے کے ساتھ قائم تو ہورہا ہے۔ ان کا مجھے منع کرنے کا یہ معنی نہیں کہ انہوں نے تمام لوگوں کو ہی منع کردیا ہے۔ ہمارے لیے اس بارے میں اچھا نمونہ موجود ہے کہ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ نے جنبی شخص کو تیمم کا حکم دیا جبکہ (خلیفۂ وقت) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس کے قائل نہیں تھے۔ پس انہیں ایک دن بلابھیجا اور کہا: یہ کونسی حدیث ہے جو تم لوگوں کو بیان کرتے رہتے ہو کہ اگر جنبی شخص کو پانی نہ ملے تو وہ تیمم کرلے؟ انہوں نے کہا: آپ کو یاد نہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اور آپ کو کسی کام کے لیے بھیجا تھا تو مجھے جنابت لاحق ہوگئی تھی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ ہوا تھا پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر آپ کو خبر دی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’إِنَّمَا ك
[Urdu Article] Ruling regarding those #callers who claim the absence of #Jamat_ul_Muslimeen and their leader - Shaykh Muhammad bin Umar Bazmool
ایسے #داعیان کا حکم جو #جماعۃ_المسلمین اور ان کے امام کو مفقود مانتے ہيں
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: على جدران الفيسبوك (الأصدار الأول) خطر فى بالي 26۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/daeeyaan_jamat_ul_muslimeen_imaam_mafqood.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وہ لوگ جو ایسے لوگوں پر رد نہيں کرنا چاہتے جو بس دعوت کی طرف منسوب ہوجائيں (کہ یہ داعی ہیں) تو وہ اس بات پر متنبہ نہيں ہيں کہ داعیان کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں:
1- ایک قسم وہ جو لوگوں کو ہدایت و بصیرت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں، اور انہیں لے کر صراط مستقیم پر چلتے ہیں۔
2- یا جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہوتے ہيں، جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔
اور یہ جو دوسری قسم ہے وہ ہماری ہی جیسی چمڑی والے ہوں گے، لہذا وہ اہل اسلام کی طرف منسوب ہوں گے، بلکہ ہوسکتا ہے ان کی جلد کا رنگ بھی ہماری جلدوں کی طرح ہو، لیکن وہ جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہوں گے کہ جو بھی ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔
اور اس بات کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی جب آپ نے ایک لکیر کھینچی اور اس لمبی لیکر کے دائیں بائیں کچھ چھوٹی لکیرں کھینچیں، پھر اس طویل لکیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (الانعام: 153)‘‘
(اور بے شک یہ میری سیدھی راہ ہے اس کی پیروی کرو، اور اسے چھوڑ کر دوسری راہوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس (اللہ) کی راہ سے دور کردیں گی، جس کا تاکیدی حکم اس نے تمہیں دیا ہے، تاکہ تم بچ جاؤ)
اور فرمایا:
” وَهَذِهِ السُّبُلُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ، مَنْ تَبِعَهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ وَمَنْ تَبِعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ “([1])
(اور یہ جو مختلف راستے ہيں ان میں سے ہر ایک پر شیطان ہے (جو اپنی طرف بلا رہا ہے)، جس نے اس کی پیروی کی وہ جہنم میں داخل ہوا، اور جس نے میری پیروی کی وہ جنت میں داخل ہوا)۔
ان کی دعوت کا محور یہی ہے کہ: حکمرانوں پر خروج اور ان کی سمع و طاعت سےنکل جانے کی دعوت، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حذیفہ t نے ان داعیان کے بارے میں سنا کہ جو ہماری ہی جیسی چمڑی والے ہوں گے، تو (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی:
’’فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ“([2])
(آپ مجھے کیا حکم دیتے ہيں اگر میں ایسے حالات پالوں؟ فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا)۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’اسْمَعْ وَأَطِعْ، وَإِنْ جَلَدَ ظَهْرَكَ، وَأَخَذَ مَالَكَ“([3])
(سنو اور فرمانبرداری کرو، اگرچہ وہ تمہاری کمر پر کوڑے برسائے اور تمہارا مال چھین لے)۔
گمراہی کے داعیان کے مقابلے میں یہ جواب ایک دواء اور وصیت ہے ۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی دعوت اس وصیت کے برعکس ہے، چناچہ ان کی دعوت جماعت سے مفارقت اختیار کرنے اور سمع و طاعت کو ترک کرنے کی دعوت ہے۔
لہذا داعیان یعنی باطل کے داعیان پر رد کرنا جو کہ لوگوں کو جماعت سے علیحدگی کی دعوت دیتے ہیں جس کا نتیجہ آخر میں دین ہی ترک کردینا بنتا ہے، ایسوں پر رد کرنا واجب اور مطلوب ہے۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ: یہ بھی داعیان ہیں (اور تم داعیان دین کا رد کرتے ہو!) کیونکہ ہم نے تو یہ مانا کہ بلاشبہ وہ داعیان ہیں مگر جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہيں۔ پس یا اللہ! سلامتی کا سوال ہے۔
[1] أخرجه الإمام أحمد فى مسنده برقم 4142، وحسنه الشيخ الألباني كما فى المشكاة برقم 166.
[2] أخرجه البخاري برقم 3606، ومسلم برقم 1847.
[3] أخرجه مسلم برقم 1847.
ایسے #داعیان کا حکم جو #جماعۃ_المسلمین اور ان کے امام کو مفقود مانتے ہيں
فضیلۃ الشیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ
(سنئیر پروفیسر جامعہ ام القری ومدرس مسجد الحرام، مکہ مکرمہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: على جدران الفيسبوك (الأصدار الأول) خطر فى بالي 26۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/01/daeeyaan_jamat_ul_muslimeen_imaam_mafqood.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وہ لوگ جو ایسے لوگوں پر رد نہيں کرنا چاہتے جو بس دعوت کی طرف منسوب ہوجائيں (کہ یہ داعی ہیں) تو وہ اس بات پر متنبہ نہيں ہيں کہ داعیان کی بھی دو اقسام ہوتی ہیں:
1- ایک قسم وہ جو لوگوں کو ہدایت و بصیرت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں، اور انہیں لے کر صراط مستقیم پر چلتے ہیں۔
2- یا جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہوتے ہيں، جو بھی ان کی پیروی کرے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔
اور یہ جو دوسری قسم ہے وہ ہماری ہی جیسی چمڑی والے ہوں گے، لہذا وہ اہل اسلام کی طرف منسوب ہوں گے، بلکہ ہوسکتا ہے ان کی جلد کا رنگ بھی ہماری جلدوں کی طرح ہو، لیکن وہ جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہوں گے کہ جو بھی ان کی دعوت قبول کرے گا وہ اسے جہنم واصل کروادیں گے۔
اور اس بات کی وضاحت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی جب آپ نے ایک لکیر کھینچی اور اس لمبی لیکر کے دائیں بائیں کچھ چھوٹی لکیرں کھینچیں، پھر اس طویل لکیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ ۭذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (الانعام: 153)‘‘
(اور بے شک یہ میری سیدھی راہ ہے اس کی پیروی کرو، اور اسے چھوڑ کر دوسری راہوں کی پیروی نہ کرو ورنہ وہ تمہیں اس (اللہ) کی راہ سے دور کردیں گی، جس کا تاکیدی حکم اس نے تمہیں دیا ہے، تاکہ تم بچ جاؤ)
اور فرمایا:
” وَهَذِهِ السُّبُلُ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهَا شَيْطَانٌ، مَنْ تَبِعَهُ أَدْخَلَهُ النَّارَ وَمَنْ تَبِعَنِي دَخَلَ الْجَنَّةَ “([1])
(اور یہ جو مختلف راستے ہيں ان میں سے ہر ایک پر شیطان ہے (جو اپنی طرف بلا رہا ہے)، جس نے اس کی پیروی کی وہ جہنم میں داخل ہوا، اور جس نے میری پیروی کی وہ جنت میں داخل ہوا)۔
ان کی دعوت کا محور یہی ہے کہ: حکمرانوں پر خروج اور ان کی سمع و طاعت سےنکل جانے کی دعوت، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ جب حذیفہ t نے ان داعیان کے بارے میں سنا کہ جو ہماری ہی جیسی چمڑی والے ہوں گے، تو (نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کی:
’’فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَكَنِي ذَلِكَ، قَالَ: تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ“([2])
(آپ مجھے کیا حکم دیتے ہيں اگر میں ایسے حالات پالوں؟ فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام کو لازم پکڑنا)۔
اور ایک روایت میں ہے:
’’اسْمَعْ وَأَطِعْ، وَإِنْ جَلَدَ ظَهْرَكَ، وَأَخَذَ مَالَكَ“([3])
(سنو اور فرمانبرداری کرو، اگرچہ وہ تمہاری کمر پر کوڑے برسائے اور تمہارا مال چھین لے)۔
گمراہی کے داعیان کے مقابلے میں یہ جواب ایک دواء اور وصیت ہے ۔ جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان کی دعوت اس وصیت کے برعکس ہے، چناچہ ان کی دعوت جماعت سے مفارقت اختیار کرنے اور سمع و طاعت کو ترک کرنے کی دعوت ہے۔
لہذا داعیان یعنی باطل کے داعیان پر رد کرنا جو کہ لوگوں کو جماعت سے علیحدگی کی دعوت دیتے ہیں جس کا نتیجہ آخر میں دین ہی ترک کردینا بنتا ہے، ایسوں پر رد کرنا واجب اور مطلوب ہے۔ ان کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ: یہ بھی داعیان ہیں (اور تم داعیان دین کا رد کرتے ہو!) کیونکہ ہم نے تو یہ مانا کہ بلاشبہ وہ داعیان ہیں مگر جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے داعیان ہيں۔ پس یا اللہ! سلامتی کا سوال ہے۔
[1] أخرجه الإمام أحمد فى مسنده برقم 4142، وحسنه الشيخ الألباني كما فى المشكاة برقم 166.
[2] أخرجه البخاري برقم 3606، ومسلم برقم 1847.
[3] أخرجه مسلم برقم 1847.
[Urdu Article] Ideological trends and #methodologies of #Duaat - Shaykh Rabee bin Hadee Al-Madkhalee
#داعیان کی #فکری سمتیں
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شیخ حفظہ اللہ اپنی کتاب میں یہ واضح کرنے کے بعد کہ کسی بھی زمان و مکان میں دعوت الی اللہ میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج سےہٹا نہیں جاسکتا، فرماتے ہیں۔
تفصیل کےلیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/daeeyaan_ki_fikree_simtein.pdf
#داعیان کی #فکری سمتیں
فضیلۃ الشیخ ربیع بن ہادی المدخلی حفظہ اللہ
(سابق صدر شعبۂ سنت، مدینہ یونیورسٹی)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: کتاب منھج الأنبیاء فی الدعوۃ الی اللہ فیہ الحکمۃ والعقل۔
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
شیخ حفظہ اللہ اپنی کتاب میں یہ واضح کرنے کے بعد کہ کسی بھی زمان و مکان میں دعوت الی اللہ میں انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے منہج سےہٹا نہیں جاسکتا، فرماتے ہیں۔
تفصیل کےلیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/daeeyaan_ki_fikree_simtein.pdf