[#SalafiUrduDawah Article] The #companions of the messenger of Allah (may Allah be pleased with them all) – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام #احمد_بن_حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتےہیں:
26- اس امت میں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں، پھر سیدنا عمر بن الخطاب، پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم ہیں۔ ہم ان تینوں کو مقدم کرتے ہیں جیسا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مقدم فرمایا، اس میں انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔
پھر ان تینوں کے بعدپانچ اصحابِ شوری ہیں: سیدناعلی بن ابی طالب، الزبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد (بن ابی وقاص)، طلحہ رضی اللہ عنہم یہ سب خلافت کے لئے اہل تھے، اور یہ سب امام تھے۔ اس بارے میں ہم حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر چلتے ہیں:
’’كُنَّا نَعُدُّ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَيٌّ وَأَصْحَابُهُ مُتَوَافِرُونَ: أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ نَسْكُتُ‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافر مقدار میں موجود تھے ہم کہا کرتے تھے (بلحاظِ فضیلت ومرتبہ)ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان پھر خاموش ہوجاتے تھے)۔
[مسند احمد (تحقیق احمد شاکر): مسند عبداللہ بن عمر، حدیث رقم (4626)۔ رواه أحمد فى "فضائل الصحابة" (1/108، برقم 58) مثله بسنده سواءً. ورواه أحمد فى "الفضائل" عن إبن عمر من طرق، انظر: "الفضائل" برقم (53 و 54و 55و 56و 57). صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل ابی بکر بعد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حدیث رقم (3655) اس میں ’’ثم نسکت‘‘ کے الفاظ نہیں اور حافظ ابن حجر نے اس کی شرح کے وقت اس کی اسانید کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمرو القرشی رضی اللہ عنہ، حدیث رقم (3697) اس میں بھی ’’ثم نسکت‘‘کے الفاظ نہیں ہے مگر یہ اضافہ ہے ’’ثم نترک اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نفاضل بینهم‘‘ (پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کوچھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے)]
پھر ان اصحابِ شوریٰ کے بعد مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر پھر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر، یعنی جو ہجرت وایمان لانے میں سبقت کرنے میں اول تھے پس وہ (مرتبے میں بھی) اول ہیں۔
27- ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین لوگ اس دورکے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔
اور جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی خواہ ایک سال ہو، ایک مہینہ، ایک دن، ایک پل ہو یا صرف دیکھا ہی ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہے، اس کا صحابیت میں سے اتنا ہی حصہ ہے جتنی اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحبت رہی، ان کے ساتھ سبقت کی، ان سے کچھ سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو۔ پس ان میں سے جو ادنیٰ ترین صحبت کا بھی حامل ہو وہ اس دوروالوں سے بہتر ہے جنہوں نے انہیں نہ دیکھا ، چاہے وہ (بعد میں آنے والے) اللہ تعالی سے تمام اعمال (خیر) کے ساتھ ملاقات کریں۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار فرمائی، ان کا دیدار فرمایا اور ان سے سماعت فرمایا، جنہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان پر ایمان لائے اگرچہ ایک پل کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی صحبت کے اعتبار سے تابعین سے افضل ہے چاہے وہ (تابعین) تمام اعمال خیر ہی کیوں نہ بجالائیں۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_kiraam_rabee.pdf
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام #احمد_بن_حنبل رحمہ اللہ "اصول السنۃ" میں فرماتےہیں:
26- اس امت میں اس کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے افضل سیدنا ابو بکر الصدیق ہیں، پھر سیدنا عمر بن الخطاب، پھر سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم ہیں۔ ہم ان تینوں کو مقدم کرتے ہیں جیسا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مقدم فرمایا، اس میں انہوں نے کوئی اختلاف نہیں کیا۔
پھر ان تینوں کے بعدپانچ اصحابِ شوری ہیں: سیدناعلی بن ابی طالب، الزبیر، عبدالرحمن بن عوف، سعد (بن ابی وقاص)، طلحہ رضی اللہ عنہم یہ سب خلافت کے لئے اہل تھے، اور یہ سب امام تھے۔ اس بارے میں ہم حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پر چلتے ہیں:
’’كُنَّا نَعُدُّ، وَرَسُولُ اللَّهِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حَيٌّ وَأَصْحَابُهُ مُتَوَافِرُونَ: أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، ثُمَّ نَسْكُتُ‘‘
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم وافر مقدار میں موجود تھے ہم کہا کرتے تھے (بلحاظِ فضیلت ومرتبہ)ابوبکر ہیں، پھر عمر، پھر عثمان پھر خاموش ہوجاتے تھے)۔
[مسند احمد (تحقیق احمد شاکر): مسند عبداللہ بن عمر، حدیث رقم (4626)۔ رواه أحمد فى "فضائل الصحابة" (1/108، برقم 58) مثله بسنده سواءً. ورواه أحمد فى "الفضائل" عن إبن عمر من طرق، انظر: "الفضائل" برقم (53 و 54و 55و 56و 57). صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، باب فضل ابی بکر بعد النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، حدیث رقم (3655) اس میں ’’ثم نسکت‘‘ کے الفاظ نہیں اور حافظ ابن حجر نے اس کی شرح کے وقت اس کی اسانید کی طرف اشارہ فرمایا ہے، کتاب فضائل الصحابہ، باب مناقب عثمان بن عفان ابی عمرو القرشی رضی اللہ عنہ، حدیث رقم (3697) اس میں بھی ’’ثم نسکت‘‘کے الفاظ نہیں ہے مگر یہ اضافہ ہے ’’ثم نترک اصحاب النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لا نفاضل بینهم‘‘ (پھر ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کوچھوڑ دیتے تھے اور ان کے درمیان کوئی امتیاز نہیں برتتے تھے)]
پھر ان اصحابِ شوریٰ کے بعد مہاجرین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر پھر انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اہل بدر، یعنی جو ہجرت وایمان لانے میں سبقت کرنے میں اول تھے پس وہ (مرتبے میں بھی) اول ہیں۔
27- ان اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد افضل ترین لوگ اس دورکے ہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔
اور جس کسی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی خواہ ایک سال ہو، ایک مہینہ، ایک دن، ایک پل ہو یا صرف دیکھا ہی ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے ہے، اس کا صحابیت میں سے اتنا ہی حصہ ہے جتنی اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحبت رہی، ان کے ساتھ سبقت کی، ان سے کچھ سنا، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک بھی دیکھی ہو۔ پس ان میں سے جو ادنیٰ ترین صحبت کا بھی حامل ہو وہ اس دوروالوں سے بہتر ہے جنہوں نے انہیں نہ دیکھا ، چاہے وہ (بعد میں آنے والے) اللہ تعالی سے تمام اعمال (خیر) کے ساتھ ملاقات کریں۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار فرمائی، ان کا دیدار فرمایا اور ان سے سماعت فرمایا، جنہوں نے انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان پر ایمان لائے اگرچہ ایک پل کے لئے ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنی صحبت کے اعتبار سے تابعین سے افضل ہے چاہے وہ (تابعین) تمام اعمال خیر ہی کیوں نہ بجالائیں۔
ان نکات کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_kiraam_rabee.pdf
[#SalafiUrduDawah Article] Whoever disparages the #Sahabah is an Innovator – Shaykh #Rabee bin Hadee #Al_Madkhalee
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص کرنے والا بدعتی ہے – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام #احمد_بن_حنبل رحمہ اللہ ’’اصول السنۃ‘‘ میں فرماتےہیں:
” جس نے کسی ایک بھی صحابئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کی، یا ان سے کسی واقعے کی بناء پر جو ان سے صادر ہوا بغض کیا، یا پھر ان کی برائیاں بیان کیں، تو وہ اس وقت تک بدعتی رہےگا جب تک کہ تمام (صحابہ) پر رحم نہ کرے، اور اس کا دل ان کے بارےمیں (کسی بھی قسم کے کینے سے) صاف وسلیم نہ ہوجائے‘‘۔
اس نکتے کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_shaan_tanqees_bidati.pdf
#صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں تنقیص کرنے والا بدعتی ہے – شیخ #ربیع بن ہادی #المدخلی
امام #احمد_بن_حنبل رحمہ اللہ ’’اصول السنۃ‘‘ میں فرماتےہیں:
” جس نے کسی ایک بھی صحابئ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں تنقیص کی، یا ان سے کسی واقعے کی بناء پر جو ان سے صادر ہوا بغض کیا، یا پھر ان کی برائیاں بیان کیں، تو وہ اس وقت تک بدعتی رہےگا جب تک کہ تمام (صحابہ) پر رحم نہ کرے، اور اس کا دل ان کے بارےمیں (کسی بھی قسم کے کینے سے) صاف وسلیم نہ ہوجائے‘‘۔
اس نکتے کی شرح جاننے کے لیے مکمل مقالہ پڑھیں۔
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2016/10/sahaba_shaan_tanqees_bidati.pdf