[Urdu Article] Speaking kindly to the #wife and having a concern with one's appearance - Shaykh Muhammad Alee Ferkus
#بیوی سے پیاری باتيں کرنا اور اس کے لیے اپنے حلیے کو سنوارنا
فضیلۃ الشیخ ابی عبدالمعز محمد علی فرکوسحفظہ اللہ
(استاذ کلیۃ العلوم الاسلامیۃ، جامعہ الجزائر)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المُعِينُ في بَيَانِ حُقُوقِ الزَّوْجَيْن۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/bv_pyari_baate_hulya_sanwarna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بیوی سے پیاری باتیں کرنا اور اس کے لیے اپنا حلیہ سنوارنے کا خیال رکھنا۔ کیونکہ اسے بھی اپنے شوہر میں وہ بات پسند ہوتی ہے جو شوہر کو اپنی بیوی میں پسند ہوتی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج یعنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ حال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر والیوں کے ساتھ خوبصورت معاشرت اپناتے، اور ہمیشہ خوش مزاج رہتے، اپنی اہلیہ کے ساتھ کھیلتےاور ان پر نرمی وشفقت فرماتے، دل کھول کر ان پر خرچ کرتے ،اور اپنے عورتوں کو ہنساتے، یہاں تک کہ آپ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ تک لگاتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے محبت کے اظہار کا طریقہ تھا‘‘([1])۔
اس میں کوئی شک نہيں کہ اپنی بیوی کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف دینا، یاکثرت سے منہ بسورے رکھنا اور ملتے وقت تیوری چڑھائے رکھنا، اور اس سے منہ پھیر کے دوسروں میں لگے رہنا حسن معاشرت کے خلاف ہے۔ امام القرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے معنی میں فرماتے ہیں کہ:
﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: 19)
(اور ان کے ساتھ بہترین طریقےسے گزر بسر کرو)
’’یعنی جو اللہ تعالی نے حسن معاشرت کا حکم دیا ہے ۔۔۔اور وہ اس طرح سے اس کا حق ادا کرنا ہے کہ مہر ہو یا نان نفقہ وہ دیا جائے، اور بلاقصور اس کے سامنے پیشانی پر بل لاکر برا سا منہ نہ بنایا جائے، خوش گفتاری اپنائے ترش روی او رسنگدلی اور کسی دوسری کی طرف میلان کو ظاہر نہ کرے۔۔۔پس اللہ تعالی نے عورتوں کے ساتھ حسن صحبت کا حکم دیا ہے جب ان سے عقد نکاح ہوجائے تاکہ ان کے مابین الفت وموافقت قائم رہے اور ان کا ساتھ اپنے کمال کے ساتھ قائم ودائم رہے، کیونکہ یہ بلاشبہ نفس کے اطمینان اور زندگی کے لیے سکون کا ذریعہ ہے‘‘([2])۔
اور حسن معاشرت کے خلاف یہ بات بھی ہےکہ انسان اپنے حلیے اور بننے سنورنے کا خیال نہ رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ أَتَزَيَّنَ لِلْمَرْأَةِ كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَزَّيَّنَ لِي؛ لِأَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة: 228)‘‘([3])
(بے شک میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی عورت کے لیے زینت اختیار کروں جیسے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے بنے سنورے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور معروف کے مطابق ان عورتوں کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے ‘‘)۔
’’چناچہ مردوں کی زینت ان کے احوال اور عمر کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی لیاقت وفن کو استعمال کریں تو ایسا لباس پہنیں جو ان کے مناسب حال ہو، منہ صاف رکھیں اور دانتوں کے بیچ جو کھانے کے ذرات وغیرہ رہ جاتے ہیں انہيں مسواک وغیرہ سے صاف رکھیں، اور جو چیزیں انسان کے جسم پر لگ جاتی ہيں جیسے میل کچیل اسے دور کریں، اسی طرح سے غیرضروری بالوں کی صفائی، ناخن تراشنا اور بڑی عمر والوں کے لیے خضاب لگانا اور انگوٹھی پہننا وغیرہ جیسی باتيں جو اس کے حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں، تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس ایسی زیب وزینت میں رہے جو اسے بھائے اور اسے دوسرے مردوں میں دلچسپی لینے سے محفوظ رکھے‘‘([4])۔
[1] «تفسير ابن كثير» (١/ ٤٦٦).
[2] «تفسير القرطبي» (٥/ ٩٧)، بتصرُّف.
[3] أخرجه البيهقي في «السنن الكبرى» (١٤٧٢٨)، وابن أبي شيبة في «مصنَّفه» (١٩٢٦٣).
[4] انظر: «تفسير القرطبي» (٣/ ١٢٤).
#بیوی سے پیاری باتيں کرنا اور اس کے لیے اپنے حلیے کو سنوارنا
فضیلۃ الشیخ ابی عبدالمعز محمد علی فرکوسحفظہ اللہ
(استاذ کلیۃ العلوم الاسلامیۃ، جامعہ الجزائر)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: المُعِينُ في بَيَانِ حُقُوقِ الزَّوْجَيْن۔
پیشکش: توحید خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/02/bv_pyari_baate_hulya_sanwarna.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بیوی سے پیاری باتیں کرنا اور اس کے لیے اپنا حلیہ سنوارنے کا خیال رکھنا۔ کیونکہ اسے بھی اپنے شوہر میں وہ بات پسند ہوتی ہے جو شوہر کو اپنی بیوی میں پسند ہوتی ہے۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنی ازواج یعنی امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن کے ساتھ حال ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہيں:
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر والیوں کے ساتھ خوبصورت معاشرت اپناتے، اور ہمیشہ خوش مزاج رہتے، اپنی اہلیہ کے ساتھ کھیلتےاور ان پر نرمی وشفقت فرماتے، دل کھول کر ان پر خرچ کرتے ،اور اپنے عورتوں کو ہنساتے، یہاں تک کہ آپ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ تک لگاتے تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ان سے محبت کے اظہار کا طریقہ تھا‘‘([1])۔
اس میں کوئی شک نہيں کہ اپنی بیوی کو اپنے قول یا فعل سے تکلیف دینا، یاکثرت سے منہ بسورے رکھنا اور ملتے وقت تیوری چڑھائے رکھنا، اور اس سے منہ پھیر کے دوسروں میں لگے رہنا حسن معاشرت کے خلاف ہے۔ امام القرطبی رحمہ اللہ اس آیت کے معنی میں فرماتے ہیں کہ:
﴿وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (النساء: 19)
(اور ان کے ساتھ بہترین طریقےسے گزر بسر کرو)
’’یعنی جو اللہ تعالی نے حسن معاشرت کا حکم دیا ہے ۔۔۔اور وہ اس طرح سے اس کا حق ادا کرنا ہے کہ مہر ہو یا نان نفقہ وہ دیا جائے، اور بلاقصور اس کے سامنے پیشانی پر بل لاکر برا سا منہ نہ بنایا جائے، خوش گفتاری اپنائے ترش روی او رسنگدلی اور کسی دوسری کی طرف میلان کو ظاہر نہ کرے۔۔۔پس اللہ تعالی نے عورتوں کے ساتھ حسن صحبت کا حکم دیا ہے جب ان سے عقد نکاح ہوجائے تاکہ ان کے مابین الفت وموافقت قائم رہے اور ان کا ساتھ اپنے کمال کے ساتھ قائم ودائم رہے، کیونکہ یہ بلاشبہ نفس کے اطمینان اور زندگی کے لیے سکون کا ذریعہ ہے‘‘([2])۔
اور حسن معاشرت کے خلاف یہ بات بھی ہےکہ انسان اپنے حلیے اور بننے سنورنے کا خیال نہ رکھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ أَتَزَيَّنَ لِلْمَرْأَةِ كَمَا أُحِبُّ أَنْ تَزَّيَّنَ لِي؛ لِأَنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: ﴿وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾ (البقرة: 228)‘‘([3])
(بے شک میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی عورت کے لیے زینت اختیار کروں جیسے میں یہ پسند کرتا ہوں کہ وہ میرے لیے بنے سنورے، کیونکہ بلاشبہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’اور معروف کے مطابق ان عورتوں کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے ‘‘)۔
’’چناچہ مردوں کی زینت ان کے احوال اور عمر کے اعتبار سے مختلف ہوا کرتی ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی لیاقت وفن کو استعمال کریں تو ایسا لباس پہنیں جو ان کے مناسب حال ہو، منہ صاف رکھیں اور دانتوں کے بیچ جو کھانے کے ذرات وغیرہ رہ جاتے ہیں انہيں مسواک وغیرہ سے صاف رکھیں، اور جو چیزیں انسان کے جسم پر لگ جاتی ہيں جیسے میل کچیل اسے دور کریں، اسی طرح سے غیرضروری بالوں کی صفائی، ناخن تراشنا اور بڑی عمر والوں کے لیے خضاب لگانا اور انگوٹھی پہننا وغیرہ جیسی باتيں جو اس کے حقوق کی ادائیگی کرتی ہوں، تاکہ وہ اپنی بیوی کے پاس ایسی زیب وزینت میں رہے جو اسے بھائے اور اسے دوسرے مردوں میں دلچسپی لینے سے محفوظ رکھے‘‘([4])۔
[1] «تفسير ابن كثير» (١/ ٤٦٦).
[2] «تفسير القرطبي» (٥/ ٩٧)، بتصرُّف.
[3] أخرجه البيهقي في «السنن الكبرى» (١٤٧٢٨)، وابن أبي شيبة في «مصنَّفه» (١٩٢٦٣).
[4] انظر: «تفسير القرطبي» (٣/ ١٢٤).
[Urdu Article] Advice regarding the ill-mannered #wife - Shaykh Ubaid bin Abdullaah Al-Jabiree
بداخلاق و بدمزاج #بیوی کے تعلق سے نصیحت
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء: ما نصيحتكم للزوجة التي تسب زوجها؟
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/03/bad_akhlaq_bv_naseehat.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم، شیخنا یہ نواں سوال ہے، سائل کہتا ہے کہ: آپ کی اس بیوی کے لیے کیا نصیحت ہے جو اپنے شوہر کو گالیاں تک دیتی ہے، اور کہتی ہے: تم خبیث ہو یا پاگل ہو اور اس کے علاوہ اس قسم کی باتيں غصے کی حالت میں کہتی ہے، پھر اس کے بعد نادم ہوتی ہے، توبہ کرتی ہے، پھر واپس سے اسی طرح کرنے لگتی ہے (یعنی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے)؟
جواب:
(سبحان اللہ! اگر بیوی کا یہ حال ہو تو) تھوڑا ڈنڈے سے علاج ہونا چاہیے کہ کتنے اس کی کمر پر مارے جائيں! اسے چاہیے کہ اس کا بائیکاٹ کرے (بستر الگ)([1])۔ اور اس کے گھر والوں کو اس کی خبر کرے۔ یہ تو بالکل پاگل پنہ ہے! اسے ایک مضبوط مرد کی ضرورت ہے، کسی ڈھیلے کمزور کی نہيں کہ جو ماشاء اللہ بس ہاتھ پھیر کر سہلا رہا ہو!! بلکہ ڈنڈا ہو، اور (حدیث کے مطابق) بنا زخمی کیے مار ہو([2])۔ اس کا معاملہ اس کے گھر والوں تک پہنچایا جائے تاکہ وہ اسے کچھ ادب سکھائیں۔ اور اگر وہ اس پر صبر نہيں کرسکتا تو اچھائی کے ساتھ چھوڑ دے(طلاق دے دے)۔
حقیقت یہ ہے کہ میری ایک وصیت ہے مردوں اور خواتین دونوں کے لیے۔ عورتوں کے تعلق سے یہ کہ اگر وہ اپنے شوہر میں ازدواجی تعلقات و ذمہ داریوں میں برائی و لاپرواہی دیکھتی ہےجس کی وہ تاب نہیں لاسکتی، تو پھر اسے چاہیے کہ صبر نہ کرتی رہے یہاں تک کہ بچے پیدا ہوجائیں، پھر خود (وہ اور) اس کے گھر والے حرج محسوس کریں (یعنی بچوں ہوجانے کے بعد طلاق لینے سے بڑے مسائل ہوتے ہيں)۔ تو میری یہی رائے ہے کہ جلد ہی خلاصی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے(یعنی ایسے حالات میں بچے ہونے سے پہلے جلد ہی فیصلہ کرلینا بہتر ہے)۔
اسی طرح سے مرد حضرات کے تعلق سے جو دیکھیں کہ بیوی بالکل پاگل پنہ کرتی ہے اور بہت ٹیڑھی ہے جس کی وہ تاب نہيں لاسکتا، تو اس پر صبر نہ کرتا رہے، بلکہ اچھے طور پر اسے رخصت کردے، اس سے پہلے کہ اس سے بچے پیدا ہوجائيں پھر اس کے لیے قدم اٹھانا نہایت مشکل اور تکلیف دہ ہوجائے۔
[1] اللہ تعالی کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ فرمایا:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا﴾ (النساء: 34)
(مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطاء کی اور اس وجہ سے کہ ان (شوہروں) نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک صالح عورتیں فرماں بردار ہیں،(شوہر کی) غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں(عزت آبرو، مال واوالاد وراز وغیرہ کی)، جیسا کہ اللہ نےبھی ان (کے حقوق) کی حفاظت کی ہے ۔البتہ وہ عورتیں جن کی نافرمانی وسرکشی سے تمہیں اندیشہ (یا سامنا) ہے، سو انہیں وعظ و نصیحت کرو ،اور بستروں میں ان سے الگ ہوجاؤ ،اور انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ (اور بہانہ) تلاش نہ کرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا:
’’اتَّقُوا اللَّهَ في النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذلك فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غير مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ (صحیح مسلم 1218)
(عورتوں کے تعلق سے اللہ تعالی سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان میں لیا ہے، اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمے کے ذریعے اپنے لیے حلال کیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے کو نہ آنے دیں جسے تم ناگوار سمجھتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو انہيں ایسی تادیبی ہلکی مار مارو جو بہت شدید اور زخمی کرنے والے نہ ہو، اور ان عورتوں کا تم پر حق ہے کہ انہيں معروف طریقے سے (حسب ضرورت و قدرت) کھلاؤ پلاؤ اور پہناؤ)۔
بداخلاق و بدمزاج #بیوی کے تعلق سے نصیحت
فضیلۃ الشیخ عبید بن عبداللہ الجابری حفظہ اللہ
(سابق مدرس جامعہ اسلامیہ، مدینہ نبویہ)
ترجمہ: طارق علی بروہی
مصدر: ویب سائٹ میراث الانبیاء: ما نصيحتكم للزوجة التي تسب زوجها؟
پیشکش: توحیدِ خالص ڈاٹ کام
http://tawheedekhaalis.com/wp-content/uploads/2018/03/bad_akhlaq_bv_naseehat.pdf
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سوال: احسن اللہ الیکم، شیخنا یہ نواں سوال ہے، سائل کہتا ہے کہ: آپ کی اس بیوی کے لیے کیا نصیحت ہے جو اپنے شوہر کو گالیاں تک دیتی ہے، اور کہتی ہے: تم خبیث ہو یا پاگل ہو اور اس کے علاوہ اس قسم کی باتيں غصے کی حالت میں کہتی ہے، پھر اس کے بعد نادم ہوتی ہے، توبہ کرتی ہے، پھر واپس سے اسی طرح کرنے لگتی ہے (یعنی یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے)؟
جواب:
(سبحان اللہ! اگر بیوی کا یہ حال ہو تو) تھوڑا ڈنڈے سے علاج ہونا چاہیے کہ کتنے اس کی کمر پر مارے جائيں! اسے چاہیے کہ اس کا بائیکاٹ کرے (بستر الگ)([1])۔ اور اس کے گھر والوں کو اس کی خبر کرے۔ یہ تو بالکل پاگل پنہ ہے! اسے ایک مضبوط مرد کی ضرورت ہے، کسی ڈھیلے کمزور کی نہيں کہ جو ماشاء اللہ بس ہاتھ پھیر کر سہلا رہا ہو!! بلکہ ڈنڈا ہو، اور (حدیث کے مطابق) بنا زخمی کیے مار ہو([2])۔ اس کا معاملہ اس کے گھر والوں تک پہنچایا جائے تاکہ وہ اسے کچھ ادب سکھائیں۔ اور اگر وہ اس پر صبر نہيں کرسکتا تو اچھائی کے ساتھ چھوڑ دے(طلاق دے دے)۔
حقیقت یہ ہے کہ میری ایک وصیت ہے مردوں اور خواتین دونوں کے لیے۔ عورتوں کے تعلق سے یہ کہ اگر وہ اپنے شوہر میں ازدواجی تعلقات و ذمہ داریوں میں برائی و لاپرواہی دیکھتی ہےجس کی وہ تاب نہیں لاسکتی، تو پھر اسے چاہیے کہ صبر نہ کرتی رہے یہاں تک کہ بچے پیدا ہوجائیں، پھر خود (وہ اور) اس کے گھر والے حرج محسوس کریں (یعنی بچوں ہوجانے کے بعد طلاق لینے سے بڑے مسائل ہوتے ہيں)۔ تو میری یہی رائے ہے کہ جلد ہی خلاصی حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے(یعنی ایسے حالات میں بچے ہونے سے پہلے جلد ہی فیصلہ کرلینا بہتر ہے)۔
اسی طرح سے مرد حضرات کے تعلق سے جو دیکھیں کہ بیوی بالکل پاگل پنہ کرتی ہے اور بہت ٹیڑھی ہے جس کی وہ تاب نہيں لاسکتا، تو اس پر صبر نہ کرتا رہے، بلکہ اچھے طور پر اسے رخصت کردے، اس سے پہلے کہ اس سے بچے پیدا ہوجائيں پھر اس کے لیے قدم اٹھانا نہایت مشکل اور تکلیف دہ ہوجائے۔
[1] اللہ تعالی کے اس فرمان سے ماخوذ ہے کہ فرمایا:
﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ ۭ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ ۭ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا﴾ (النساء: 34)
(مرد عورتوں پر نگران ہیں، اس وجہ سے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت عطاء کی اور اس وجہ سے کہ ان (شوہروں) نے اپنے مالوں سے خرچ کیا۔ پس نیک صالح عورتیں فرماں بردار ہیں،(شوہر کی) غیرحاضری میں حفاظت کرنے والی ہیں(عزت آبرو، مال واوالاد وراز وغیرہ کی)، جیسا کہ اللہ نےبھی ان (کے حقوق) کی حفاظت کی ہے ۔البتہ وہ عورتیں جن کی نافرمانی وسرکشی سے تمہیں اندیشہ (یا سامنا) ہے، سو انہیں وعظ و نصیحت کرو ،اور بستروں میں ان سے الگ ہوجاؤ ،اور انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ (اور بہانہ) تلاش نہ کرو، بے شک اللہ ہمیشہ سے بہت بلند، بہت بڑا ہے)۔ (توحید خالص ڈاٹ کام)
[2] جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا:
’’اتَّقُوا اللَّهَ في النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذلك فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غير مُبَرِّحٍ ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ (صحیح مسلم 1218)
(عورتوں کے تعلق سے اللہ تعالی سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان میں لیا ہے، اور ان کی شرمگاہوں کو اللہ کے کلمے کے ذریعے اپنے لیے حلال کیا ہے، تمہارا ان پر یہ حق ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی ایسے کو نہ آنے دیں جسے تم ناگوار سمجھتے ہو، اگر وہ ایسا کریں تو انہيں ایسی تادیبی ہلکی مار مارو جو بہت شدید اور زخمی کرنے والے نہ ہو، اور ان عورتوں کا تم پر حق ہے کہ انہيں معروف طریقے سے (حسب ضرورت و قدرت) کھلاؤ پلاؤ اور پہناؤ)۔